”وہ وقت آ گیا!“
”میرا وہ وقت آ پہنچا کہ دُنیا سے رخصت ہو کر باپ کے پاس جاؤں۔“—یوحنا ۱۳:۱۔
۱. جب ۳۳ س.ع. کی عیدِفسح نزدیک آتی ہے تو یروشلیم میں کیا چہمیگوئیاں ہونے لگتی ہیں اور کیوں؟
یسوع نے ۲۹ س.ع. میں اپنے بپتسمہ کے موقع پر، ایک ایسی روش کا آغاز کِیا جو اُسے اُس کی موت، قیامت اور جلال کے ”وقت“ تک لیجائے گی۔ اب ۳۳ س.ع. کا موسمِبہار ہے۔ صرف چند ہفتے پہلے ہی یہودی صدرعدالت نے یسوع کو قتل کرنے کا فیصلہ کِیا ہے۔ اپنے دوست اور صدرعدالت کے ایک رُکن نیکدیمس سے غالباً اِس سازش کی خبر پاکر یسوع یروشلیم سے دریائےیردن کے پار گاؤں میں چلا جاتا ہے۔ جب عیدِفسح نزدیک آتی ہے تو اِس گاؤں سے بہتیرے لوگ یروشلیم آتے ہیں اور شہر میں یسوع کی بابت چہمیگوئیاں ہونے لگتی ہیں۔ ”تمہارا کیا خیال ہے؟“ لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں۔ ”کیا وہ عید میں نہیں آئیگا؟“ سردار کاہنوں اور فریسیوں نے یہ حکم دیکر اَور زیادہ سنسنی پیدا کر دی ہے کہ جو کوئی یسوع کو دیکھے وہ ہمیں اِس کی اطلاع دے۔—یوحنا ۱۱:۴۷-۵۷۔
۲. مریم کا کونسا کام تکرار کا باعث بنتا ہے اور اس کے دفاع میں یسوع کا جواب ”[اپنے] وقت“ کی بابت اُس کی آگہی کے سلسلے میں کیا ظاہر کرتا ہے؟
۲ فسح سے چھ دن پہلے، نیسان ۸ کو یسوع یروشلیم کے علاقے میں واپس آ جاتا ہے۔ وہ بیتعنیاہ—اپنے دوستوں مرتھا، مریم اور لعزر کے آبائی شہر—میں آتا ہے جو یروشلیم سے کوئی تین کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ جمعے کی شام ہے اور یسوع سبت وہیں گزارتا ہے۔ اگلی شام جب مریم بیشقیمت عطر اُس کے پاؤں پر ڈالتی ہے تو شاگرد اعتراض کرتے ہیں۔ یسوع جواب دیتا ہے: ”اُسے یہ عطر میرے دفن کے دن کے لئے رکھنے دے۔ کیونکہ غریبغربا تو ہمیشہ تمہارے پاس ہیں لیکن میں ہمیشہ تمہارے پاس نہ رہونگا۔“ (یوحنا ۱۲:۱-۸؛ متی ۲۶:۶-۱۳) یسوع جانتا ہے کہ ’دُنیا سے رخصت ہو کر اپنے باپ کے پاس جانے کا اُس کا وقت آ گیا ہے۔‘ (یوحنا ۱۳:۱) پانچ دن بعد وہ ”اپنی جان بہتیروں کے بدلے فدیہ میں دے“ گا۔ (مرقس ۱۰:۴۵) لہٰذا، وقت کی اہمیت کا احساس یسوع کی تعلیم اور اُسکے ہر کام پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اِس نظاماُلعمل کے خاتمے کے مشتاقانہ انتظار میں یہ ہمارے لئے کتنا شاندار نمونہ ہے! غور کریں کہ اگلے دن یسوع کیساتھ کیا ہوتا ہے۔
یسوع کی فاتحانہ آمد کا دن
۳. (ا) یسوع اتوار ۹ نیسان کو یروشلیم میں کیسے داخل ہوتا ہے اور وہاں اُس کے گرد جمع لوگ کیا کرتے ہیں؟ (ب) بِھیڑ کی بابت شکایت کرنے والے فریسیوں کو یسوع کیا جواب دیتا ہے؟
۳ اتوار نیسان ۹ کو یسوع یروشلیم میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوتا ہے۔ جب وہ—زکریاہ ۹:۹ کی تکمیل میں گدھے کے بچے پر سوار ہو کر—شہر کے نزدیک پہنچتا ہے تو اُس کے اردگرد بہت سے لوگ جمع ہو جاتے ہیں جن میں سے بہتیرے اپنے کپڑے راہ میں بچھاتے ہیں جبکہ دیگر درختوں سے ڈالیاں کاٹ کر راہ میں پھیلاتے ہیں۔ وہ پکار پکار کر کہتے ہیں، ”مبارک ہے وہ بادشاہ جو [یہوواہ] کے نام سے آتا ہے۔“ بِھیڑ میں سے بعض فریسی یسوع سے اپنے شاگردوں کو ڈانٹنے کیلئے کہتے ہیں۔ تاہم، یسوع جواب دیتا ہے: ”مَیں تم سے کہتا ہوں کہ اگر یہ چپ رہیں تو پتھر چلّا اُٹھینگے۔“—لوقا ۱۹:۳۸-۴۰؛ متی ۲۱:۶-۹۔
۴. جب یسوع شہر میں داخل ہوتا ہے تو یروشلیم میں ہلچل کیوں مچ جاتی ہے؟
۴ چند ہفتے پہلے، اِس بِھیڑ کے بیشتر لوگوں نے یسوع کو لعزر کو زندہ کرتے دیکھا تھا۔ اب وہ اُس معجزہ کی بابت دوسروں کو بھی بتاتے ہیں۔ پس، جب یسوع یروشلیم میں داخل ہوتا ہے تو سارے شہر میں ہلچل مچ جاتی ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں: ”یہ کون ہے؟“ بِھیڑ اِسکا جواب دیتی ہے: ”یہ گلیلؔ کے ناصرۃ کا نبی یسوؔع ہے۔“ یہ ماجرا دیکھکر فریسی بڑے افسوس سے کہتے ہیں: ”جہان اُسکا پیرو ہو چلا۔“—متی ۲۱:۱۰، ۱۱؛ یوحنا ۱۲:۱۷-۱۹۔
۵. جب یسوع ہیکل میں جاتا ہے تو کیا واقع ہوتا ہے؟
۵ عظیم اُستاد، یسوع اپنے دستور کے موافق اِس مرتبہ بھی یروشلیم کے دَورے کے دوران ہیکل میں تعلیم دینے کیلئے جاتا ہے۔ وہاں اندھے اور لنگڑے اُس کے پاس آتے ہیں اور وہ اُنہیں شفا دیتا ہے۔ سردار کاہن اور فقیہ یہ سب دیکھکر اور ہیکل میں لڑکوں کو ”ابنِداؔؤد کو ہوشعنا پکارتے“ ہوئے سنکر غصے سے آگ بگولہ ہو جاتے ہیں۔ ”تُو سنتا ہے کہ یہ کیا کہتے ہیں؟“ وہ احتجاج کرتے ہیں۔ ”ہاں،“ یسوع جواب دیتا ہے۔ ”کیا تم نے یہ کبھی نہیں پڑھا کہ بچوں اور شِیرخواروں کے مُنہ سے تُو نے حمد کو کامل کرایا؟“ یسوع تعلیم دینے کیساتھ ساتھ ہیکل کے اندر ہونے والے کاموں پر بھی گہری نظر رکھتا ہے۔—متی ۲۱:۱۵، ۱۶؛ مرقس ۱۱:۱۱۔
۶. اِس وقت یسوع کا نقطۂنظر پہلے کی نسبت کیسے مختلف ہے اور کیوں؟
۶ چھ مہینے پہلے کی نسبت اب یسوع کا نقطۂنظر کتنا مختلف ہے! وہ اُس وقت یروشلیم میں عیدِخیام کیلئے ”ظاہراً نہیں بلکہ گویا پوشیدہ“ آیا تھا۔ (یوحنا ۷:۱۰) نیز جب بھی اُس کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوتا تو وہ ہمیشہ بچ نکلنے کی کوشش کرتا تھا۔ اب وہ اُس شہر میں سرِعام داخل ہوتا ہے جہاں اُس کی گرفتاری کا حکم صادر ہو چکا ہے! یسوع نے کبھی یہ ڈھنڈورا بھی نہیں پیٹا تھا کہ وہ مسیحا ہے۔ (یسعیاہ ۴۲:۲؛ مرقس ۱:۴۰-۴۴) وہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ گلیگلی اُسکے نام کے ڈنکے بجیں اور لوگوں میں اُسکی بابت اُلٹیسیدھی باتیں مشہور ہوں۔ اب بِھیڑ کھلمکھلا اُسے بادشاہ اور نجاتدہندہ—مسیحا—کہہ رہی ہے مگر وہ اُنہیں چپ کرانے کیلئے مذہبی پیشواؤں کی درخواست کو رد کرتا ہے! یہ تبدیلی کیوں؟ کیونکہ ”وہ وقت آ گیا کہ ابنِآدم جلال پائے“ جسکا یسوع اگلے ہی روز اعلان کرتا ہے۔—یوحنا ۱۲:۲۳۔
دلیرانہ کارروائی—پھر زندگیبخش تعلیمات
۷، ۸. نیسان ۱۰، ۳۳ س.ع. پر یسوع کی کارروائی کیسے تین سال پہلے ۳۰ س.ع. کی فسح پر ہیکل میں اُسکی کارروائی کی یاد تازہ کرتی ہے؟
۷ سوموار ۱۰ نیسان کو یسوع ہیکل میں آکر، وہاں گزشتہ سہپہر دیکھے ہوئے کاموں کے سلسلے میں کارروائی کرتا ہے۔ وہ ’ہیکل میں خریدوفروخت کرنے والوں کو باہر نکالنے لگتا ہے اور صرافوں کے تختوں اور کبوترفروشوں کی چوکیوں کو اُلٹ دیتا ہے اور کسی کو ہیکل میں سے ہو کر کوئی برتن لیجانے نہیں دیتا۔‘ اِن خطاکاروں کی مذمت کرتے ہوئے وہ کہتا ہے: ”کیا یہ نہیں لکھا ہے کہ میرا گھر سب قوموں کے لئے دُعا کا گھر کہلائیگا؟ مگر تم نے اُسے ڈاکوؤں کی کھوہ بنا دیا ہے۔“—مرقس ۱۱:۱۵-۱۷۔
۸ یسوع کی اِس کارروائی سے اُس کی اُس کارروائی کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جو اُس نے تین سال پہلے ۳۰ س.ع. کی فسح پر ہیکل میں کی تھی۔ تاہم، اِس مرتبہ ملامت زیادہ سخت ہے۔ اب ہیکل میں کاروبار کرنے والوں کو ’ڈاکو‘ کہا گیا ہے۔ (لوقا ۱۹:۴۵، ۴۶؛ یوحنا ۲:۱۳-۱۶) وہ دراصل ڈاکو ہی ہیں کیونکہ وہ اُن لوگوں سے بہت زیادہ قیمتیں وصول کرتے ہیں جنہیں قربانی کیلئے جانور خریدنے کی ضرورت ہے۔ جب سردار کاہنوں، فقیہوں اور دیگر ممتاز لوگوں کو یسوع کی اِس کارروائی کا علم ہوتا ہے تو وہ پھر اُسے قتل کرنے کے طریقے تلاش کرنے لگتے ہیں۔ لیکن اُنہیں سمجھ نہیں آتی کہ وہ یسوع کو کیسے ہلاک کریں کیونکہ لوگ اُسکی تعلیم سے حیران ہیں اور اُسکی باتیں سننے کیلئے ہمیشہ اُسکے گرد جمع رہتے ہیں۔—مرقس ۱۱:۱۸؛ لوقا ۱۹:۴۷، ۴۸۔
۹. یسوع کونسا سبق سکھاتا ہے اور ہیکل میں اپنے سامعین کو کونسی دعوت دیتا ہے؟
۹ یسوع ہیکل میں تعلیم کے دوران بیان کرتا ہے: ”وہ وقت آ گیا کہ ابنِآدم جلال پائے۔“ جیہاں، وہ جانتا ہے کہ اُسکی انسانی زندگی کے چند دن باقی رہ گئے ہیں۔ یہ بیان کرنے کے بعد کہ پھل لانے کیلئے گندم کے دانے کو مرنا پڑتا ہے جو دراصل انسانوں کو ابدی زندگی دینے کیلئے اُسکی اپنی موت کی علامت ہے، یسوع اپنے سامعین کو دعوت دیتا ہے: ”اگر کوئی شخص میری خدمت کرے تو میرے پیچھے ہولے اور جہاں مَیں ہوں وہاں میرا خادم بھی ہوگا۔ اگر کوئی میری خدمت کرے تو باپ اُس کی عزت کرے گا۔“—یوحنا ۱۲:۲۳-۲۶۔
۱۰. یسوع اپنی اذیتناک موت کی بابت کیسا محسوس کرتا ہے جو اُسکی منتظر ہے؟
۱۰ اپنی اذیتناک موت کی بابت سوچتے ہوئے جو صرف چار دن بعد واقع ہونے والی ہے، یسوع بیان جاری رکھتا ہے: ”اب میری جان گھبراتی ہے۔ پس مَیں کیا کہوں؟ اَے باپ مجھے اِس گھڑی سے بچا۔“ تاہم، یسوع ہونے والی باتوں کو ٹال نہیں سکتا تھا۔ ”لیکن“ وہ کہتا ہے، ”مَیں اِسی سبب سے تو اِس گھڑی کو پہنچا ہوں۔“ یقیناً، یسوع خدا کے سارے انتظام سے متفق ہے۔ اُسکا یہ عزم تھا کہ وہ اپنی موت تک الہٰی مرضی کے مطابق عمل کرتا رہے۔ (یوحنا ۱۲:۲۷) وہ ہمارے لئے الہٰی مرضی کی مکمل اطاعت کا کتنا شاندار نمونہ قائم کرتا ہے!
۱۱. یسوع آسمانی آواز سننے والی بِھیڑ کو کیا تعلیمات دیتا ہے؟
۱۱ یسوع کو فکر تھی کہ اُس کی موت سے اُس کے باپ کی نیکنامی کافی متاثر ہوگی اسلئے وہ دُعا کرتا ہے: ”اَے باپ! اپنے نام کو جلال دے۔“ اچانک آسمان سے ایک آواز آتی ہے کہ ”مَیں نے اُسکو جلال دیا ہے اور پھر بھی دونگا۔“ عظیم اُستاد اِس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے لوگوں کو بتاتا ہے کہ یہ آواز کیوں آئی ہے، اُس کی موت کے نتائج کیا ہونگے اور اُنہیں ایمان لانے کی ضرورت کیوں ہے۔ (یوحنا ۱۲:۲۸-۳۶) یسوع کے گزشتہ دو دن بڑے مصروف گزرے ہیں۔ لیکن فیصلہکُن دن ابھی آنے والا ہے۔
علانیہ ملامتوں کا دن
۱۲. منگل نیسان ۱۱ کو مذہبی پیشوا یسوع کو پھنسانے کی کوشش کیسے کرتے ہیں اور کس نتیجے کیساتھ؟
۱۲ منگل، ۱۱ نیسان کو یسوع ایک مرتبہ پھر ہیکل میں تعلیم دینے کیلئے جاتا ہے۔ مخالفین پہلے ہی سے وہاں موجود ہیں۔ یسوع کے گزشتہ دن کے کاموں کا حوالہ دیتے ہوئے سردار کاہن اور قوم کے بزرگ اُس سے پوچھتے ہیں: ”تُو اِن کاموں کو کس اختیار سے کرتا ہے؟ اور یہ اختیار تجھے کس نے دیا ہے؟“ ماہر اُستاد اپنے جواب سے اُنکے مُنہ بند کر دیتا ہے اور تین واضح تمثیلیں—دو تاکستان اور ایک شادی کی ضیافت کی بابت—بیان کرتا ہے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُس کے مخالفین کسقدر بدکار ہیں۔ یسوع کی باتوں سے قہرآلودہ ہوکر مذہبی پیشوا اُسے پکڑنا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ اُس بِھیڑ سے ڈرتے ہیں جو اُسے نبی سمجھتی ہے۔ پس وہ اُس سے کوئی ایسی بات کہلوانے کی کوشش کرتے ہیں جس سے وہ اُسے گرفتار کر سکیں۔ لیکن یسوع کے جواب سن کر وہ چپ ہو جاتے ہیں۔—متی ۲۱:۲۳–۲۲:۴۶۔
۱۳. فقیہوں اور فریسیوں کے متعلق یسوع اپنے سامعین کو کیا نصیحت کرتا ہے؟
۱۳ فقیہ اور فریسی خدا کی شریعت کی تعلیم دینے کا دعویٰ کرتے ہیں اس لئے یسوع اپنے سامعین کو تاکید کرتا ہے: ”پس جو کچھ وہ تمہیں بتائیں وہ سب کرو اور مانو لیکن اُن کے سے کام نہ کرو کیونکہ وہ کہتے ہیں اور کرتے نہیں۔“ (متی ۲۳:۱-۳) کتنی سخت علانیہ ملامت! لیکن یسوع اُنکے ساتھ اپنی بات یہیں ختم نہیں کرتا۔ یہ ہیکل میں اُس کا آخری دن ہے اسلئے وہ سب کے سامنے بڑی دلیری سے مسلسل اُنکی ریاکاری کو بےنقاب کرتا ہے۔
۱۴، ۱۵. یسوع فقیہوں اور فریسیوں کو کیا سخت ملامتیں کرتا ہے؟
۱۴ ”اَے ریاکار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس!“ یسوع چھ مرتبہ کہتا ہے۔ وہ واقعی ریاکار ہیں کیونکہ وہ آسمان کی بادشاہی لوگوں پر بند کرتے اور داخل ہونے والوں کو داخل نہیں ہونے دیتے۔ یہ ریاکار ایک مُرید کرنے کے لئے تری اور خشکی کا دَورہ کرتے ہیں مگر اُسے ابدی ہلاکت کا فرزند بنا دیتے ہیں۔ ”شریعت کی زیادہ بھاری باتوں یعنی انصاف اور رحم اور ایمان“ کو نظرانداز کرکے وہ دہیکی دینے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ درحقیقت، وہ ”پیالے اور رکابی کو اُوپر سے صاف کرتے [ہیں] مگر وہ اندر لُوٹ اور ناپرہیزگاری سے بھرے ہیں“ یعنی انکی ظاہری پارسائی کے پیچھے باطنی غلاظت اور گندگی پوشیدہ ہے۔ مزیدبرآں، وہ ”نبیوں کے قاتلوں کے فرزند“ ہونے کے باوجود اپنی نیکوکاری ظاہر کرنے کیلئے نبیوں کے مقبرے بناتے اور اُنہیں آراستہ کرتے ہیں۔—متی ۲۳:۱۳-۱۵، ۲۳-۳۱۔
۱۵ اپنے مخالفین کے اندر روحانی اقدار کی کمی کی مذمت کرتے ہوئے یسوع کہتا ہے: ”اَے اندھے راہ بتانے والو تم پر افسوس!“ وہ اخلاقی طور پر اندھے ہیں کیونکہ وہ پرستشگاہ کی روحانی قدروقیمت کی نسبت ہیکل کے سونے کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔ یسوع اِس سخت علانیہ ملامت کو جاری رکھتا ہے۔ ”اَے سانپو! اَے افعی کے بچو!“ وہ کہتا ہے، ”تم جہنم کی سزا سے کیونکر بچو گے؟“ جیہاں، یسوع اُنہیں کہہ رہا ہے کہ وہ اپنی بُری روش کی وجہ سے، ابدی ہلاکت میں پڑینگے۔ (متی ۲۳:۱۶-۲۲، ۳۳) دُعا ہے کہ ہم بھی دلیری سے بادشاہتی پیغام سنائیں حتیٰکہ جھوٹے مذہب کو بےنقاب کرنے سے بھی خائف نہ ہوں۔
۱۶. کوہِزیتون پر بیٹھے ہوئے، یسوع اپنے شاگردوں کے سامنے کونسی اہم پیشینگوئی کرتا ہے؟
۱۶ یسوع اب ہیکل سے چلا جاتا ہے۔ شام ہونے والی ہے اور یسوع اور اُسکے رسول اب کوہِزیتون پر چڑھ گئے ہیں۔ وہاں بیٹھے ہوئے یسوع ہیکل کی تباہی اور اپنی موجودگی اور اِس نظاماُلعمل کے خاتمے کی بابت پیشینگوئی کرتا ہے۔ اِن نبوّتی باتوں کی اہمیت ہمارے زمانے تک قائم ہے۔ اِسی شام یسوع اپنے شاگردوں کو یہ بھی بتاتا ہے: ”تم جانتے ہو کہ دو دن کے بعد عیدِفسح ہوگی اور ابنِآدم مصلوب ہونے کو پکڑوایا جائیگا۔“—متی ۲۴:۱-۱۴؛ ۲۶:۱، ۲۔
یسوع ’اپنوں سے آخر تک محبت رکھتا ہے‘
۱۷. (ا) نیسان ۱۴ کو فسح کے دوران یسوع ۱۲ کو کیا درس دیتا ہے؟ (ب) یہوداہ اسکریوتی کو نکال دینے کے بعد یسوع کونسی یادگار رائج کرتا ہے؟
۱۷ اگلے دو دن—۱۲ اور ۱۳ نیسان—تک یسوع کھلےعام ہیکل میں نہیں جاتا۔ مذہبی پیشوا اُس کے قتل کی کوشش میں ہیں اور وہ نہیں چاہتا کہ کوئی بھی چیز رسولوں کے ساتھ اُس کے فسح منانے میں حائل ہو۔ جمعرات کی شام غروبِآفتاب کے ساتھ ۱۴ نیسان—زمین پر یسوع کی انسانی زندگی کا آخری دن—کا آغاز ہوتا ہے۔ اِس شام یسوع اور اُس کے رسول یروشلیم میں ایک گھر میں جمع ہیں جہاں فسح منانے کی تیاری کی گئی ہے۔ جب وہ اکٹھے فسح منا رہے ہوتے ہیں تو یسوع اُن ۱۲ کے پاؤں دھونے سے اُنہیں فروتنی کا اثرآفرین درس دیتا ہے۔ اپنے اُستاد کو چاندی کے ۳۰ سکوں—موسوی شریعت کے مطابق غلام کی قیمت—کے عوض پکڑوانے کیلئے راضی ہو جانے والے یہوداہ اسکریوتی کو نکال دینے کے بعد، یسوع اپنی موت کی یادگار رائج کرتا ہے۔—خروج ۲۱:۳۲؛ متی ۲۶:۱۴، ۱۵، ۲۶-۲۹؛ یوحنا ۱۳:۲-۳۰۔
۱۸. یسوع مشفقانہ طور پر اپنے ۱۱ رسولوں کو کونسی مزید تعلیم دیتا ہے اور وہ انہیں اپنے قریبی انتقال کیلئے کیسے تیار کرتا ہے؟
۱۸ یادگار کے افتتاح کے بعد، رسول اِس تکرار میں پڑ جاتے ہیں کہ اُن میں سب سے بڑا کون ہے۔ یسوع اُنہیں ڈانٹنے کی بجائے، بڑے تحمل سے اُنہیں دوسروں کی خدمت کرنے کی قدروقیمت کی بابت سکھاتا ہے۔ اِس بات کی قدر کرتے ہوئے کہ وہ اُس کی آزمائشوں میں اُسکے ساتھ رہے ہیں، وہ اُن کیساتھ بادشاہت کا ایک ذاتی عہد باندھتا ہے۔ (لوقا ۲۲:۲۴-۳۰) یسوع اُنہیں حکم دیتا ہے کہ جیسے اُس نے اُن سے محبت رکھی وہ بھی ایک دوسرے سے محبت رکھیں۔ (یوحنا ۱۳:۳۴) یسوع اُس کمرے میں تھوڑی دیر اَور ٹھہر کر اُنہیں مشفقانہ طور پر اپنے قریبی انتقال کیلئے تیار کرتا ہے۔ وہ انہیں اپنی دوستی کا یقین دلاتا، ایمان قائم رکھنے کی حوصلہافزائی کرتا اور رُوحاُلقدس کی مدد کا وعدہ کرتا ہے۔ (یوحنا ۱۴:۱-۱۷؛ ۱۵:۱۵) اُس گھر سے جانے سے پہلے یسوع اپنے باپ سے التجا کرتا ہے: ”وہ گھڑی آ پہنچی۔ اپنے بیٹے کا جلال ظاہر کر تاکہ بیٹا تیرا جلال ظاہر کرے۔“ واقعی، یسوع نے رسولوں کو اپنے انتقال کیلئے تیار کر دیا ہے اور وہ یقیناً ’اپنوں سے آخر تک محبت رکھتا ہے۔‘—یوحنا ۱۳:۱؛ ۱۷:۱۔
۱۹. یسوع گتسمنی باغ میں کرب میں کیوں مبتلا ہے؟
۱۹ یسوع اور اُسکے ۱۱ وفادار رسول آدھی رات کے وقت گتسمنی باغ میں پہنچتے ہیں۔ وہ اپنے رسولوں کیساتھ اکثر وہاں آتا جاتا ہے۔ (یوحنا ۱۸:۱، ۲) صرف چند گھنٹوں کے بعد یسوع قابلِنفرت مجرم کی موت مرنے والا ہے۔ اگرچہ یسوع کو معلوم تھا کہ اُسے اِس تجربے سے گزرنا پڑیگا توبھی وہ اِس وقت شدید کرب میں مبتلا ہے اور جانتا ہے کہ اِس سے اُسکے باپ کی کتنی رُسوائی ہوگی اسلئے دُعا کرتے وقت اُسکا پسینہ خون کی بوندوں کی صورت میں زمین پر ٹپکنے لگتا ہے۔ (لوقا ۲۲:۴۱-۴۴) ”وقت آ پہنچا ہے۔“ یسوع اپنے رسولوں سے کہتا ہے۔ ”دیکھو میرا پکڑوانے والا نزدیک آ پہنچا ہے۔“ جب وہ یہ کہہ ہی رہا ہوتا ہے تو یہوداہ اسکریوتی ایک بڑی بِھیڑ کیساتھ آ پہنچتا ہے جس کے پاس مشعلیں اور ہتھیار ہیں۔ وہ یسوع کو پکڑنے کیلئے آئے ہیں۔ وہ کوئی مزاحمت نہیں کرتا۔ اِس سلسلے میں وہ بیان کرتا ہے: ”وہ نوشتے کہ یونہی ہونا ضرور ہے کیونکر پورے ہونگے؟“—مرقس ۱۴:۴۱-۴۳؛ متی ۲۶:۴۸-۵۴۔
ابنِآدم جلال پاتا ہے!
۲۰. (ا) یسوع کی گرفتاری کے بعد اُس پر کونسے ظلم ڈھائے جاتے ہیں؟ (ب) اپنے مرنے سے چند لمحے پہلے، یسوع پکار کر یہ کیوں کہتا ہے کہ ”تمام ہؤا“؟
۲۰ یسوع کی گرفتاری کے بعد، جھوٹے گواہ اُس پر الزام لگاتے، متعصّب منصف اُسے مجرم قرار دیتے، پُنطیُس پیلاطُس سزا سناتا، کاہن اور لوگ اُس کی تضحیک کرتے اور سپاہی اُسے ٹھٹھوں میں اُڑاتے اور اذیت پہنچاتے ہیں۔ (مرقس ۱۴:۵۳-۶۵؛ ۱۵:۱، ۱۵؛ یوحنا ۱۹:۱-۳) جمعے کی دوپہر تک، یسوع کو سُولی پر کیلوں سے جڑ دیا جاتا ہے اور جب جسم کے وزن سے اُس کے ہاتھوں اور پاؤں میں کیلوں کی جگہ سے گوشت کٹنے لگتا ہے تو اُسے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ (یوحنا ۱۹:۱۷، ۱۸) سہپہر تین بجے کے قریب یسوع پکارتا ہے: ”تمام ہؤا“! جیہاں، جس کام کیلئے وہ زمین پر آیا تھا وہ اُس نے پورا کر دیا ہے۔ اپنی رُوح خدا کے ہاتھوں میں سونپ کر وہ اپنا سر جھکا کر جان دے دیتا ہے۔ (یوحنا ۱۹:۲۸، ۳۰؛ متی ۲۷:۴۵، ۴۶؛ لوقا ۲۳:۴۶) اس کے بعد، تیسرے روز یہوواہ اپنے بیٹے کو زندہ کر دیتا ہے۔ (مرقس ۱۶:۱-۶) اپنی قیامت کے چالیس روز بعد، یسوع آسمان پر چلا جاتا ہے اور جلال حاصل کرتا ہے۔—یوحنا ۱۷:۵؛ اعمال ۱:۳، ۹-۱۲؛ فلپیوں ۲:۸-۱۱۔
۲۱. ہم یسوع کی نقل کیسے کر سکتے ہیں؟
۲۱ ہم کیسے مکمل طور پر یسوع کے ’نقشِقدم پر چل‘ سکتے ہیں؟ (۱-پطرس ۲:۲۱) اُس کی طرح، ہمیں بھی بادشاہتی منادی اور شاگرد بنانے کے کام میں جانفشانی کرنی چاہئے اور خدا کے کلام کا پرچار کرنے میں دلیری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ (متی ۲۴:۱۴؛ ۲۸:۱۹، ۲۰؛ اعمال ۴:۲۹-۳۱؛ فلپیوں ۱:۱۴) آئیے ہم کبھی بھی اپنے زمانے کی اہمیت سے غافل یا ایک دوسرے کو محبت اور نیک کاموں کی ترغیب دینے میں ناکام نہ ہوں۔ (مرقس ۱۳:۲۸-۳۳؛ عبرانیوں ۱۰:۲۴، ۲۵) دُعا ہے کہ ہم اپنی ساری زندگی یہوواہ خدا کی مرضی اور اِس آگہی کے مطابق گزاریں کہ ہم ”آخری زمانہ“ میں رہ رہے ہیں۔—دانیایل ۱۲:۴۔
آپ کیسے جواب دینگے؟
• یسوع کا اپنی موت کی نزدیکی سے واقف ہونا یروشلیم کی ہیکل میں اُس کی خدمتگزاری کے آخری حصے پر کیسے اثرانداز ہوا؟
• کیا بات ظاہر کرتی ہے کہ یسوع ’اپنوں سے آخر تک محبت رکھتا رہا‘؟
• یسوع کی زندگی کے آخری چند گھنٹوں کے واقعات اُس کی بابت کیا ظاہر کرتے ہیں؟
• ہم اپنی خدمتگزاری میں مسیح یسوع کی نقل کیسے کر سکتے ہیں؟
[صفحہ ۱۸ پر تصویر]
یسوع اُن سے ”آخر تک محبت رکھتا رہا“