’صادق کیلئے برکتیں ہیں‘
اپنے بڑھاپے میں زبورنویس داؤد نے کہا: ”مَیں جوان تھا اور اب بوڑھا ہوں تو بھی مَیں نے صادق کو بیکس اور اُسکی اولاد کو ٹکڑے مانگتے نہیں دیکھا۔“ (زبور ۳۷:۲۵) یہوواہ خدا صادقوں سے محبت رکھتا اور اُنکی بہت زیادہ فکر کرتا ہے۔ اپنے کلام، بائبل میں وہ سچے پرستاروں کو راستبازی کے طالب ہونے کی نصیحت کرتا ہے۔—صفنیاہ ۲:۳۔
راستبازی کا مطلب نیکوبد سے متعلق خدا کے معیاروں کی اطاعت کرتے ہوئے اُس کے حضور راست ٹھہرنا ہے۔ خدا کی مرضی پر چلنے کی حوصلہافزائی کرتے ہوئے بائبل کی کتاب، امثال کا ۱۰واں باب اُن کثیر روحانی برکات کی نشاندہی کرتا ہے جن سے راستباز لوگ مستفید ہوتے ہیں۔ ان میں روحانی طور پر تقویتبخش غذا کی فراوانی، بااجر اور تسکینبخش کام اور خدا اور انسان کیساتھ ایک اچھا رشتہ شامل ہے۔ لہٰذا آئیے امثال ۱۰:۱-۱۴ پر غوروخوض کریں۔
ایک عمدہ محرک
اس باب کے ابتدائی الفاظ امثال کی کتاب کے اگلے حصے کے مصنف کی شناخت کی بابت شک کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتے۔ اس بات کا آغاز یوں ہوتا ہے: ”سلیمان کی امثال۔“ راست روش پر چلنے کا ایک عمدہ محرک آشکارا کرتے ہوئے قدیم اسرائیل کا بادشاہ سلیمان بیان کرتا ہے: ”دانا بیٹا باپ کو خوش رکھتا ہے لیکن احمق بیٹا اپنی ماں کا غم ہے۔“—امثال ۱۰:۱۔
والدین کو اس وقت کتنا دُکھ ہوتا ہے جب اُنکی اولاد سچے اور زندہ خدا کی پرستش کو ترک کر دیتی ہے! دانشمند بادشاہ شاید یہ ظاہر کرنے کیلئے ماں کے غم کا بالخصوص ذکر کرتا ہے کہ وہ باپ کی نسبت زیادہ صدمہ محسوس کرتی ہے۔ یہ بات ڈورس کے معاملے میں سچ ثابت ہوئی۔a وہ بیان کرتی ہے: ”جب ہمارے ۲۱ سالہ بیٹے نے سچائی ترک کر دی تو مَیں اور میرا شوہر، فرینک نہایت دلبرداشتہ ہو گئے۔ لیکن مجھے فرینک کی نسبت زیادہ صدمہ پہنچا۔ بارہ سال گزر جانے کے بعد بھی یہ زخم ابھی تک ہرا ہے۔“
پس، بچے اپنے باپ کی خوشی اور ماں کی دلآزاری کا باعث بن سکتے ہیں۔ دُعا ہے کہ ہم حکمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے والدین کیلئے خوشی کا سبب بنیں۔ سب سے بڑھکر ہمیں اپنے آسمانی باپ، یہوواہ کا دل شاد کرنا چاہئے۔
’صادق کی جان آسودہ ہے‘
بادشاہ بیان کرتا ہے: ”شرارت کے خزانے عبث ہیں لیکن صداقت موت سے چھڑاتی ہے۔“ (امثال ۱۰:۲) اس آخری زمانے میں سچے مسیحیوں کیلئے یہ الفاظ واقعی بیشقیمت ہیں۔ (دانیایل ۱۲:۴) اس بیدین دُنیا کا خاتمہ نزدیک ہے۔ انسان کے مادی، مالی یا عسکری ذرائع سر پر کھڑی ”بڑی مصیبت“ کے دوران تحفظ فراہم نہیں کر سکیں گے۔ (مکاشفہ ۷:۹، ۱۰، ۱۳، ۱۴) صرف ”راستباز ملک میں بسینگے اور کامل اُس میں آباد رہینگے۔“ (امثال ۲:۲۱) پس دُعا ہے کہ ہم ”پہلے اُس [خدا] کی بادشاہی اور اُس کی راستبازی کی تلاش“ کرتے رہیں۔—متی ۶:۳۳۔
یہوواہ کے خادموں کو اُسکی برکات کا تجربہ کرنے کے لئے موعودہ نئی دُنیا کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ”[یہوواہ] صادق کی جان کو فاقہ نہ کرنے دیگا پر شریروں کی ہوس کو دُورودفع کرے گا۔“ (امثال ۱۰:۳) یہوواہ نے ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کے ذریعے باافراط روحانی خوراک فراہم کی ہے۔ (متی ۲۴:۴۵) صادق کے پاس واقعی ’دل کی خوشی سے گانے‘ کی ٹھوس وجوہات ہیں۔ (یسعیاہ ۶۵:۱۴) علم اُس کی جان کے لئے مرغوب ہے۔ اُسکی خوشنودی روحانی خزانوں کی تلاش میں ہے۔ شریر ایسی خوشیوں سے ناواقف ہوتا ہے۔
’محنت دولتمند بناتی ہے‘
راستباز شخص ایک اَور طریقے سے بھی برکت پاتا ہے۔ ”جو ڈھیلے ہاتھ سے کام کرتا ہے کنگال ہو جاتا ہے لیکن محنتی کا ہاتھ دولتمند بنا دیتا ہے۔ وہ جو گرمی میں جمع کرتا ہے دانا بیٹا ہے پر وہ بیٹا جو دِرَو کے وقت سوتا رہتا ہے شرم کا باعث ہے۔“—امثال ۱۰:۴، ۵۔
بادشاہ کے الفاظ کٹائی کرنے والوں کیلئے خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ کٹائی کا موسم سونے کا وقت نہیں ہوتا۔ یہ مستعدی اور بہت سے کام کرنے کا وقت ہوتا ہے۔ واقعی یہ فوری کارروائی کا وقت ہوتا ہے۔
یسوع نے اناج کی بجائے لوگ اکٹھے کرنے کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے شاگردوں سے کہا: ”فصل تو بہت ہے لیکن مزدور تھوڑے ہیں۔ پس فصل کے مالک [یہوواہ خدا] کی منت کرو کہ وہ اپنی فصل کاٹنے کے لئے مزدور بھیج دے۔“ (متی ۹:۳۵-۳۸) سن ۲۰۰۰ میں ۱۴ ملین سے زائد لوگ یسوع کی موت کی یادگار پر حاضر ہوئے جو یہوواہ کے گواہوں کی کُل تعداد سے دو گُنا زیادہ ہے۔ لہٰذا، کون اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ ”فصل پک گئی ہے“؟ (یوحنا ۴:۳۵) سچے پرستار مالک سے اَور زیادہ مزدور بھیجنے کی درخواست کرتے ہیں اور پھر اپنی دُعاؤں کی مطابقت میں مستعدی سے شاگرد بنانے کے کام میں تندہی کے ساتھ حصہ بھی لیتے ہیں۔ (متی ۲۸:۱۹، ۲۰) یہوواہ نے اُن کی کوششوں کو بہت زیادہ برکت دی ہے! اس کا ثبوت یہ ہے کہ ۲۰۰۰ کے خدمتی سال کے دوران ۲،۸۰،۰۰۰ سے زائد نئے اشخاص نے بپتسمہ لیا۔ یہ بھی خدا کے کلام کے اُستاد بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ دُعا ہے کہ ہم فصل کی کٹائی کے اس موسم میں شاگرد بنانے کے کام میں بھرپور حصہ لینے سے خوشی اور اطمینان حاصل کریں۔
’اُسکے سر پر برکتیں ہیں‘
سلیمان مزید بیان کرتا ہے: ”صادق کے سر پر برکتیں ہوتی ہیں لیکن شریروں کے مُنہ کو ظلم ڈھانکتا ہے۔“—امثال ۱۰:۶۔
ایک پاکدل اور راست شخص اپنی راستبازی کا واضح ثبوت دیتا ہے۔ وہ مہربانہ اور تقویتبخش گفتگو اور مثبت اور فراخدلانہ کام کرتا ہے۔ دوسرے لوگ اُس کی رفاقت کو پسند کرتے ہیں۔ ایسا شخص لوگوں کی تعریف اور عزتواحترام حاصل کرتا اور دُعائیں لیتا ہے۔
اسکے برعکس ایک شریر شخص نفرتانگیز یا بدنیت ہوتا ہے اور بنیادی طور پر دوسروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں رہتا ہے۔ اُسکی چکنیچپڑی باتیں اُسکے اپنے دل میں پوشیدہ ’ظلم کو ڈھانک‘ سکتی ہیں مگر آخرکار وہ جسمانی یا لفظی حملوں پر اُتر آتا ہے۔ (متی ۱۲:۳۴، ۳۵) بصورتِدیگر، ”شریروں کے مُنہ کو ظلم ڈھانکتا [یا بند کرتا] ہے۔“ (امثال ۱۰:۶) اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شریر شخص کو اکثر بدلے میں وہی نفرت ملتی جسکا وہ خود مظاہرہ کرتا ہے۔ اس سے گویا اُسکا مُنہ ڈھک جاتا یا بند ہو جاتا ہے اور وہ خاموش ہو جاتا ہے۔ کیا اسطرح کا شخص دوسروں سے کسی برکت کی توقع کر سکتا ہے؟
اسرائیل کا بادشاہ تحریر کرتا ہے: ”راست آدمی کی یادگار مبارک ہے لیکن شریروں کا نام سڑ جائیگا۔“ (امثال ۱۰:۷) راستباز شخص کو نہ صرف دوسرے لوگ بلکہ یہوواہ خدا بالخصوص اچھے نام سے یاد رکھتا ہے۔ یسوع نے موت تک وفادار رہ کر فرشتوں سے بھی ”افضل نام پایا۔“ (عبرانیوں ۱:۳، ۴) آجکل کے سچے مسیحی، زمانۂمسیحیت سے پہلے کے وفادار مردوزن کو قابلِتقلید نمونہ خیال کرتے ہوئے یاد رکھتے ہیں۔ (عبرانیوں ۱۲:۱، ۲) یہ بات شریروں کے سلسلے میں کسقدر مختلف ہے جنکے نام نفرتانگیز اور مکروہ بن جاتے ہیں! جیہاں، ”نیکنام بےقیاس خزانہ سے اور احسان سونے چاندی سے بہتر ہے۔“ (امثال ۲۲:۱) دُعا ہے کہ ہم یہوواہ کے حضور اور اپنے ساتھی انسانوں کے درمیان نیکنامی کمائیں۔
”راسترو بےکھٹکے چلتا ہے“
سلیمان دانشمندوں اور احمقوں کا موازنہ کرتے ہوئے بیان کرتا ہے: ”دانا دل فرمان بجا لائیگا پر بکواسی احمق پچھاڑ کھائیگا۔“ (امثال ۱۰:۸) دانشمند شخص خوب جانتا ہے کہ ”انسان اپنی روش میں اپنے قدموں کی راہنمائی نہیں کر سکتا۔“ (یرمیاہ ۱۰:۲۳) وہ یہوواہ کی راہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت کو سمجھتا ہے اور بخوشی خدا کے احکام کا شنوا ہوتا ہے۔ اسکے برعکس، بکواسی احمق اس بنیادی حقیقت کو سمجھنے میں ناکام رہتا ہے۔ اُسکی بکواس اُسکی تباہی کا سبب بنتی ہے۔
اس کے علاوہ ایک راستباز شخص جس تحفظ سے محظوظ ہوتا ہے، شریر کو اُس کا تجربہ نہیں ہوتا۔ ”راسترو بےکھٹکے چلتا ہے لیکن جو کجروی کرتا ہے ظاہر ہو جائے گا۔ آنکھ مارنے والا رنج پہنچاتا ہے اور بکواسی احمق پچھاڑ کھائیگا۔“—امثال ۱۰:۹، ۱۰۔
ایک راستباز شخص تمام کام دیانتداری سے کرتا ہے۔ وہ دوسروں کا احترام اور بھروسا حاصل کرتا ہے۔ ایک دیانتدار شخص قابلِقدر ملازم ہوتا ہے اور اکثر اُسے بھاری ذمہداری سونپی جاتی ہے۔ اُسے اپنی دیانتداری کی وجہ سے ملازمتوں کے فقدان کے باوجود ملازمت مِل سکتی ہے۔ علاوہازیں، اُسکی دیانتداری سے گھر میں بھی خوشگوار اور پُرامن فضا پیدا ہوتی ہے۔ (زبور ۳۴:۱۳، ۱۴) اُسکا خاندان کے دیگر افراد کیساتھ محفوظ رشتہ ہوتا ہے۔ تحفظ واقعی راستی کا ایک پھل ہے۔
خودغرضانہ حاصلات کے لئے بددیانتی کرنے والے شخص کے لئے صورتحال اس کے بالکل برعکس ہوتی ہے۔ دھوکاباز شخص اپنی ٹیڑھیترچھی باتوں یا جسمانی حرکاتوسکنات سے اپنے جھوٹ کو چھپانے کی کوشش کر سکتا ہے۔ (امثال ۶:۱۲-۱۴) جب وہ بدنیتی یا فریب کی خاطر آنکھ مارتا ہے تو اُس کے دھوکے کا شکار بننے والے لوگوں کو شدید پریشانی ہو سکتی ہے۔ تاہم، ایسے شخص کی کجروی جلدیابدیر ضرور سامنے آتی ہے۔ پولس رسول نے لکھا: ”بعض آدمیوں کے گناہ ظاہر ہوتے ہیں اور پہلے ہی عدالت میں پہنچ جاتے ہیں اور بعض کے پیچھے جاتے ہیں۔ اسی طرح بعض اچھے کام بھی ظاہر ہوتے ہیں اور جو ایسے نہیں ہوتے وہ بھی چھپ نہیں سکتے۔“ (۱-تیمتھیس ۵:۲۴، ۲۵) اس سے قطعنظر کہ اس میں کون شامل ہے—والدین، دوست، بیاہتا ساتھی یا کوئی واقفکار—ایک نہ ایک دن بددیانتی کا پردہ فاش ہو جاتا ہے۔ کسی بددیانت شخص پر کون بھروسا کر سکتا ہے؟
’اُسکا مُنہ حیات کا چشمہ ہے‘
سلیمان کے مطابق، ”صادق کا مُنہ حیات کا چشمہ ہے لیکن شریروں کے مُنہ کو ظلم ڈھانکتا ہے۔“ (امثال ۱۰:۱۱) مُنہ سے نکلنے والی باتیں شفا بخش یا تکلیفدہ ہو سکتی ہیں۔ یہ کسی شخص کو تازگی اور تقویت عطا کر سکتی ہیں یا اُس کی حوصلہشکنی کا سبب بن سکتی ہیں۔
کہی جانے والی باتوں کے پسِپُشت محرک کی نشاندہی کرتے ہوئے اسرائیل کا بادشاہ بیان کرتا ہے: ”عداوت جھگڑے پیدا کرتی ہے لیکن محبت سب خطاؤں کو ڈھانک دیتی ہے۔“ (امثال ۱۰:۱۲) عداوت انسانی معاشرے میں جھگڑے پیدا کرتی اور فساد کا باعث بنتی ہے۔ یہوواہ سے محبت رکھنے والوں کو اپنی زندگیوں سے نفرت کا نامونشان مٹا دینا چاہئے۔ وہ کیسے؟ اس کی جگہ محبت پیدا کرنے سے ایسا ممکن ہے۔ ”محبت بہت سے گناہوں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔“ (۱-پطرس ۴:۸) محبت ”سب باتوں کی برداشت کرتی ہے،“ یعنی ’سب باتوں کو ڈھانک لیتی ہے۔‘ (۱-کرنتھیوں ۱۳:۷) الہٰی محبت ناکامل انسانوں سے کاملیت کی توقع نہیں کرتی۔ اگر سنگین غلطکاری کا معاملہ نہ ہو تو ایسی محبت ہمیں دوسروں کی غلطیوں کی تشہیر کرنے کی بجائے انہیں نظرانداز کرنے کی تحریک دیتی ہے۔ یہ محبت میدانی خدمتگزاری، جائےملازمت یا سکول میں ہونے والے بُرے سلوک کو بھی برداشت کر لیتی ہے۔
دانشمند بادشاہ بیان جاری رکھتا ہے: ”عقلمند کے لبوں پر حکمت ہے لیکن بےعقل کی پیٹھ کے لئے لٹھ ہے۔“ (امثال ۱۰:۱۳) ایک فہیم شخص کی حکمت اُسکی راہنمائی کرتی ہے۔ اُسکی تقویتبخش باتیں دوسروں کو راستی کی راہ دکھاتی ہیں۔ اُسے یا اُسکی باتیں سننے والوں کو زبردستی صحیح راہ پر لیجانے یا سزا دینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
’علم جمع کریں‘
ہماری باتیں غیرضروری معاملات پر فضولگوئی کی بجائے ”حکمت کا چشمہ“ کیسے بن سکتی ہیں؟ (امثال ۱۸:۴) سلیمان جواب دیتا ہے: ”دانا آدمی علم جمع کرتے ہیں لیکن احمق کا مُنہ قریبی ہلاکت ہے۔“—امثال ۱۰:۱۴۔
اس سلسلے میں پہلا تقاضا اپنے ذہنوں کو خدا کے تقویتبخش علم سے معمور کرنا ہے۔ اس علم کو حاصل کرنے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے۔ پولس رسول نے تحریر کِیا: ”ہر ایک صحیفہ جو خدا کے الہام سے ہے تعلیم اور الزام اور اصلاح اور راستبازی میں تربیت کرنے کے لئے فائدہمند بھی ہے۔ تاکہ مردِخدا کامل بنے اور ہر ایک نیک کام کیلئے بالکل تیار ہو جائے۔“ (۲-تیمتھیس ۳:۱۶، ۱۷) ہمیں علم جمع کرنا اور خدا کے کلام کی اس طرح جانچ کرنی چاہئے گویا ہم کسی پوشیدہ خزانے کی تلاش کر رہے ہیں۔ یہ تلاش کسقدر ہیجانخیز اور بااجر ہے!
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری باتیں پُرحکمت ہوں تو صحائف کا علم ہمارے دلوں میں ہونا چاہئے۔ یسوع نے اپنے سامعین کو بتایا: ”اچھا آدمی اپنے دل کے اچھے خزانہ سے اچھی چیزیں نکالتا ہے اور بُرا آدمی بُرے خزانہ سے بُری چیزیں نکالتا ہے کیونکہ جو دل میں بھرا ہے وہی اُس کے مُنہ پر آتا ہے۔“ (لوقا ۶:۴۵) لہٰذا، ہم جو کچھ سیکھ رہے ہیں اُس پر غوروخوض کو ہمیں اپنی عادت بنا لینا چاہئے۔ سچ ہے کہ مطالعہ اور غوروخوض کرنے کے لئے کوشش درکار ہے، تاہم ایسا مطالعہ روحانی طور پر کتنا فرحتبخش ہوتا ہے! کسی کو بھی بِلاسوچےسمجھے فضولگوئی کرنے کی تباہکُن روش اختیار نہیں کرنی چاہئے۔
جیہاں، ایک دانشمند شخص خدا کی نظروں میں راست اور دوسروں پر مثبت اثر ڈالنے والا کام کرتا ہے۔ وہ باافراط روحانی خوراک سے محظوظ ہوتا ہے اور خداوند کے کام میں ہمیشہ افزائش کرتا رہتا ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۵۸) ایک راست شخص ہونے کی وجہ سے وہ محفوظ رہتا اور خدا کی خوشنودی حاصل کرتا ہے۔ واقعی صادق کو بہتیری برکتیں ملتی ہیں۔ دُعا ہے کہ ہم بھی اپنی زندگیاں نیکوبد کے سلسلے میں خدائی معیاروں کے مطابق گزارنے سے راستبازی کے طالب ہوں۔
[فٹنوٹ]
a نام بدل دئے گئے ہیں۔
[صفحہ ۲۵ پر تصویر]
دیانتداری خوشحال خاندانی زندگی کا باعث بنتی ہے
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
’دانشمند علم جمع کرتے ہیں‘