”خدا محبت ہے“
”جو محبت نہیں رکھتا وہ خدا کو نہیں جانتا کیونکہ خدا محبت ہے۔“—۱-یوحنا ۴:۸۔
۱-۳. (ا) بائبل یہوواہ کی محبت کی خوبی کے سلسلے میں کیا کہتی ہے اور یہ بیان منفرد کیوں ہے؟ (ب) بائبل یہ کیوں کہتی ہے کہ ”خدا محبت ہے“؟
یہوواہ کی تمام صفات عمدہ، کامل اور دلکش ہیں۔ لیکن یہوواہ کی تمام صفات میں سب سے پسندیدہ محبت ہے۔ یہوواہ کی محبت کے علاوہ اُس کی اَور کوئی صفت ہمیں اُس کے اتنا قریب نہیں لاتی۔ یہ بھی خوشی کی بات ہے کہ محبت ہی اُس کی افضل خوبی ہے۔ ہم یہ کیسے جانتے ہیں؟
۲ بائبل محبت کی بابت کچھ ایسا بیان کرتی ہے جو یہوواہ کی دیگر بنیادی صفات کی بابت کبھی بیان نہیں کِیا گیا۔ صحائف یہ نہیں کہتے کہ خدا طاقت ہے یا خدا انصاف ہے یا خدا حکمت ہے۔ وہ ان صفات کا حامل ہے اور ان تینوں کا ماخذ بھی ہے۔ تاہم، محبت کی بابت ۱-یوحنا ۴:۸ میں ایک بہت ہی گہری بات کہی گئی ہے: ”خدا محبت ہے۔“ جیہاں، محبت یہوواہ کی ذات میں شامل ہے۔ ہم اِسے یوں سمجھ سکتے ہیں: یہوواہ کی طاقت اُسے عمل کرنے کے قابل بناتی ہے۔ اُس کا انصاف اُس کے طرزِعمل کا تعیّن کرتا ہے۔ تاہم، یہوواہ کی محبت اُسے عمل کرنے کی تحریک دیتی ہے۔ نیز اُس کی محبت دیگر خوبیوں سے بھی ہمیشہ منعکس ہوتی ہے۔
۳ اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ یہوواہ محبت کا پیکر ہے۔ لہٰذا، اگر ہم محبت کی بابت سیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہوواہ کی بابت سیکھنا ہوگا۔ آئیے پھر یہوواہ کی لاثانی محبت کے بعض پہلوؤں کا جائزہ لیں۔
محبت کا عظیمترین اظہار
۴، ۵. (ا) تمام تاریخ میں محبت کا عظیمترین اظہار کونسا ہے؟ (ب) ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ یہوواہ اور اُس کے بیٹے کے درمیان پائے جانے والے محبت کے بندھن کی پوری تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی؟
۴ یہوواہ نے کئی طریقوں سے محبت ظاہر کی ہے لیکن ایک طریقہ ان سب سے افضل ہے۔ یہ کونسا طریقہ ہے؟ یہ اپنے بیٹے کو ہماری خاطر دُکھ اُٹھانے اور مرنے کے لئے بھیجنا ہے۔ ہم وثوق سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تمام تاریخ میں محبت کا عظیمترین اظہار ہے۔ ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں؟
۵ بائبل یسوع کو ”تمام مخلوقات سے پہلے مولود“ کہتی ہے۔ (کلسیوں ۱:۱۵) ذرا سوچیں کہ یہوواہ کا بیٹا طبیعی کائنات سے بھی پہلے موجود تھا۔ توپھر باپ اور بیٹا کتنے عرصے سے اکٹھے رہ رہے تھے؟ بعض سائنسدانوں کا خیال ہے کہ کائنات ۱۳ ارب سال پُرانی ہے۔ اگر یہ اندازہ درست ہے توبھی یہ یہوواہ کے پہلوٹھے بیٹے کے عرصۂحیات کے برابر نہیں ہوگا! وہ اس سارے عرصے کے دوران کیا کر رہا تھا؟ بیٹے نے خوشی کے ساتھ اپنے باپ کے لئے ”ماہر کاریگر“ کے طور پر خدمت انجام دی۔ (امثال ۸:۳۰؛ یوحنا ۱:۳) یہوواہ اور اُس کے بیٹے نے ملکر تمام چیزیں پیدا کیں۔ اُنہوں نے کتنا پُرمسرت اور ہیجانخیز وقت گزارا ہوگا! پھر ہم سے کون اتنے طویل عرصے سے موجود بندھن کی مضبوطی اور طاقت کو سمجھ پائیگا؟ واقعی، یہوواہ اور اُس کے بیٹے کے درمیان پائے جانے والے محبت کے بندھن کی پوری تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
۶. جب یسوع نے بپتسمہ لیا تو یہوواہ نے اپنے بیٹے کی بابت اپنے احساسات کا اظہار کیسے کِیا؟
۶ تاہم، یہوواہ نے اپنے بیٹے کو زمین پر بطور انسان پیدا ہونے کے لئے بھیجا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ کچھ دہوں کے لئے یہوواہ کو اپنے پیارے بیٹے کی آسمان پر قریبی رفاقت سے محروم ہونا پڑیگا۔ اُس نے آسمان سے بڑی دلچسپی کے ساتھ یسوع کو کامل انسان کے طور پر پرورش پاتے ہوئے دیکھا۔ یسوع نے تقریباً ۳۰ سال کی عمر میں بپتسمہ لیا۔ اس موقع پر باپ نے خود آسمان سے یہ کہا: ”یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے مَیں خوش ہوں۔“ (متی ۳:۱۷) یسوع کو اپنی بابت کی گئی تمام پیشینگوئیوں اور تمام مطلوبہ کام کو پورا کرتے دیکھ کر اُس کا باپ یقیناً بہت خوش ہوا ہوگا!—یوحنا ۵:۳۶؛ ۱۷:۴۔
۷، ۸. (ا) نیسان ۱۴، ۳۳ س.ع. کے دن یسوع پر کیا بیتی اور اُس کے آسمانی باپ پر اس کا کیا اثر ہوا؟ (ب) یہوواہ نے اپنے بیٹے کو کیوں تکلیف اُٹھانے اور مرنے دیا؟
۷ تاہم، نیسان ۱۴، ۳۳ س.ع. پر جب یسوع کو دھوکا دیا گیا اور مشتعل ہجوم نے اُسے پکڑ لیا تو یہوواہ کو کیسا محسوس ہوا ہوگا؟ جب یسوع کا تمسخر اُڑایا گیا، اُس پر تھوکا گیا اور اُسے مکے مارے گئے؟ جب کوڑے مار کر اُس کی کھال اُدھیڑ دی گئی؟ جب اُسے کیلوں سے لکڑی کی بَلّی پر جڑ دیا گیا اور لوگ اُسے بُرابھلا کہنے لگے؟۔ جب اُس کے عزیز بیٹے نے کربناک حالت میں اپنے باپ کو پکارا تو اُسے کیسا محسوس ہوا ہوگا؟ یہوواہ کو اُس وقت کیسا محسوس ہوا ہوگا جب یسوع نے آخری سانس لی اور خلقت کی ابتدا سے لیکر اب پہلی مرتبہ اُس کے بیٹے کا وجود مٹ گیا تھا؟—متی ۲۶:۱۴-۱۶، ۴۶، ۴۷، ۵۶، ۵۹، ۶۷؛ ۲۷:۲۶، ۳۸-۴۴، ۴۶؛ یوحنا ۱۹:۱۔
۸ یہوواہ چونکہ احساسات رکھتا ہے اس لئے اُسے اپنے بیٹے کی موت پر یقیناً ناقابلِبیان تکلیف کا تجربہ ہوا ہوگا۔ لیکن اس سب کی اجازت دینے کے لئے یہوواہ کے محرک کی بابت کیا کہا جا سکتا ہے۔ باپ نے خود کو ایسی تکلیف سے کیوں گزرنے دیا؟ یہوواہ یوحنا ۳:۱۶ میں ہم پر ایک نہایت شاندار بات آشکارا کرتا ہے۔ بائبل کی یہ آیت اتنی اہم ہے کہ اِسے انجیل کا لبِلباب کہا گیا ہے۔ یہ بیان کرتی ہے: ”خدا نے دُنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اُس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔“ پس خدا کا محرک محبت ہی تھا۔ اس سے زیادہ محبت پہلے کبھی نہیں دکھائی گئی۔
یہوواہ ہمیں اپنی محبت کا یقین کیسے دلاتا ہے
۹. شیطان ہماری بابت یہوواہ کے نظریے کے سلسلے میں ہمیں کیا یقین دلانا چاہتا ہے لیکن یہوواہ ہمیں کیا یقین دلاتا ہے؟
۹ تاہم، ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے: کیا خدا ہم سے ذاتی طور پر محبت کرتا ہے؟ بعض شاید اس بات سے تو متفق ہوں کہ یوحنا ۳:۱۶ کے مطابق خدا عمومی طور پر نوعِانسان سے محبت کرتا ہے۔ لیکن وہ محسوس کرتے ہیں کہ ’خدا ذاتی طور پر مجھ سے محبت نہیں کر سکتا۔‘ دراصل شیطان ابلیس ہمیں یہ یقین دلانا چاہتا ہے کہ خدا نہ تو ہم سے محبت کرتا ہے اور نہ ہی اُس کی نظر میں ہماری کوئی وقعت ہے۔ اس کے برعکس، ہم خود کو خواہ کتنا ہی بیکار اور محبت کے ناقابل سمجھیں یہوواہ ہمیں یقین دلاتا ہے کہ وہ اپنے تمام وفادار خادموں کی انفرادی طور پر بڑی قدر کرتا ہے۔
۱۰، ۱۱. یسوع کی چڑیوں کی بابت تمثیل کیسے ظاہر کرتی ہے کہ ہم یہوواہ کی نظر میں گرانقدر ہیں؟
۱۰ مثال کے طور پر، متی ۱۰:۲۹-۳۱ میں درج یسوع کے الفاظ پر غور کریں۔ اپنے شاگردوں کی قدروقیمت کو ظاہر کرتے ہوئے یسوع نے کہا: ”کیا پیسے کی دو چڑیاں نہیں بِکتیں؟ اور اُن میں سے ایک بھی تمہارے باپ کی مرضی بغیر زمین پر نہیں گر سکتی۔ بلکہ تمہارے سر کے بال بھی سب گنے ہوئے ہیں۔ پس ڈرو نہیں۔ تمہاری قدر تو بہت سی چڑیوں سے زیادہ ہے۔“ غور کریں کہ یسوع کے یہ الفاظ پہلی صدی کے اُس کے سامعین کے لئے کیا مطلب رکھتے تھے۔
۱۱ یسوع کے زمانے میں چڑیا بازار میں بکنے والا سب سے سستا پرندہ تھا۔ ایک پیسے کی دو چڑیاں خریدی جا سکتی تھیں۔ لیکن لوقا ۱۲:۶، ۷ کے مطابق یسوع نے بعدازاں کہا کہ اگر کوئی شخص دو پیسے خرچ کرتا تو اُسے چار کی بجائے پانچ چڑیاں ملتی تھیں۔ ایک اضافی چڑیا مُفت ملتی تھی۔ انسان کی نظر میں شاید یہ پرندے بالکل بےقدر تھے لیکن خالق اُنہیں کیسا خیال کرتا تھا؟ یسوع نے کہا: ”خدا کے حضور ان میں سے ایک [مُفت چڑیا] بھی فراموش نہیں ہوتی۔“ اب شاید ہم یسوع کی بات سمجھنے لگے ہیں۔ اگر یہوواہ ایک چڑیا کو اتنا اہم سمجھتا ہے توپھر انسان کتنا گرانقدر ہوگا! جیسے یسوع نے بیان کِیا خدا ہماری بابت سب کچھ جانتا ہے۔ حتیٰکہ ہمارے سر کے بال بھی گنے ہوئے ہیں!
۱۲. ہم یسوع کی اس بات کے حقیقی ہونے پر کیوں یقین رکھ سکتے ہیں کہ ہمارے سر کے بال بھی گنے ہوئے ہیں؟
۱۲ بعض شاید سوچیں کہ یسوع یہاں مبالغہآرائی کر رہا تھا۔ لیکن ذرا قیامت کی بابت سوچیں۔ ہمیں دوبارہ خلق کرنے کے لئے یہوواہ کو ہماری بابت کتنی جامع معلومات ہونی چاہئیں! وہ ہمیں اتنا اہم سمجھتا ہے کہ ہماری بابت سب کچھ یاد رکھتا ہے حتیٰکہ وہ ہمارا پیچیدہ جینیاتی کوڈ، اتنے سالوں پر محیط ہماری یادداشت اور تجربات بھی یاد رکھتا ہے۔ پس اُس کے لئے ہمارے بالوں کو گننا کوئی مشکل نہیں جوکہ ایک انسانی سر پر اوسطاً ۱،۰۰،۰۰۰ ہوتے ہیں۔ یسوع کی بات کتنی خوبصورتی سے ہمیں یقین دلاتی ہے کہ یہوواہ انفرادی طور پر ہماری پرواہ کرتا ہے!
۱۳. بادشاہ یہوسفط کا معاملہ کیسے ظاہر کرتا ہے کہ یہوواہ ہماری ناکاملیت کے باوجود ہمارے اندر اچھائی تلاش کرتا ہے؟
۱۳ بائبل کچھ اَور بھی آشکارا کرتی ہے جس سے ہمیں یہوواہ کی محبت کا یقین ہو جاتا ہے۔ وہ ہمارے اندر اچھائی کی تلاش کرتا اور اُس کی قدر کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، نیک بادشاہ یہوسفط پر غور کیجئے۔ جب بادشاہ سے غلطی سرزد ہوئی تو یہوواہ کے نبی نے اُس سے کہا: ”اس بات کے سبب سے [یہوواہ] کی طرف سے تجھ پر غضب ہے۔“ یہ کتنی لرزاخیز بات تھی! لیکن یہوواہ کا پیغام یہیں ختم نہیں ہوا تھا۔ اُس نے مزید کہا: ”توبھی تجھ میں خوبیاں ہیں۔“ (۲-تواریخ ۱۹:۱-۳) پس یہوواہ کے راست غضب نے اُسے یہوسفط کی ”خوبیوں“ سے غافل نہیں کر دیا تھا۔ کیا یہ جاننا تسلیبخش نہیں کہ ہمارا خدا ہماری ناکاملیت کے باوجود ہمارے اندر اچھائی کی تلاش کرتا ہے؟
”معاف کرنے کو تیار“ خدا
۱۴. جب ہم سے گناہ سرزد ہوتا ہے تو ہم کن احساسات کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں، لیکن ہم یہوواہ کی معافی سے کیسے مستفید ہو سکتے ہیں؟
۱۴ جب ہم سے گناہ ہوتا ہے تو مایوسی، شرمندگی اور احساسِخطا ہمیں اس سوچ میں مبتلا کر سکتا ہے کہ ہم کبھی بھی خدا کی خدمت نہیں کر پائینگے۔ تاہم، یاد رکھیں کہ یہوواہ ”معاف کرنے کو تیار ہے۔“ (زبور ۸۶:۵) واقعی، اگر ہم توبہ کریں اور دوبارہ گناہ کرنے سے بچنے کی کوشش کریں تو ہم یہوواہ کی معافی سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ غور کریں کہ بائبل یہوواہ کی محبت کے اس شاندار پہلو کو کیسے بیان کرتی ہے۔
۱۵. یہوواہ ہمارے گناہ ہم سے کتنی دُور کر دیتا ہے؟
۱۵ زبورنویس داؤد نے یہوواہ کی معافی کو بیان کرنے کے لئے نہایت واضح اظہار استعمال کِیا: ”جیسے پورب پچھّم سے دُور ہے ویسے ہی اُس نے ہماری خطائیں ہم سے دُور کر دیں۔“ (زبور ۱۰۳:۱۲) مشرق مغرب سے کتنی دُور ہے؟ مشرق ہمیشہ مغرب سے بیحد دُور ہوتا ہے یعنی یہ دونوں کبھی مِل نہیں سکتے۔ ایک عالم کے مطابق اس اصطلاح کا مطلب ہے ”جہاں تک ممکن ہو، جہاں تک ہم سوچ سکیں۔“ داؤد کے الہامی الفاظ ہمیں بتاتے ہیں کہ جب یہوواہ معاف کرتا ہے تو وہ ہمارے گناہ ہماری سوچ سے بھی زیادہ ہم سے دُور کر دیتا ہے۔
۱۶. جب یہوواہ ہمارے گناہ معاف کر دیتا ہے تو ہمیں یہ یقین کیوں رکھنا چاہئے کہ وہ ہمیں بالکل پاکصاف خیال کرتا ہے؟
۱۶ کیا آپ نے کبھی کسی ہلکے رنگ کے کپڑے سے داغ مٹانے کی کوشش کی ہے؟ شاید آپ کی تمامتر کوششوں کے باوجود داغ نظر آتا رہتا ہے۔ غور کیجئے کہ یہوواہ اپنی معاف کرنے کی صلاحیت اور وسعت کو کیسے بیان کرتا ہے: ”اگرچہ تمہارے گُناہ قرمزی ہوں وہ برف کی مانند سفید ہو جائینگے اور ہرچند وہ ارغوانی ہوں توبھی اُون کی مانند اُجلے ہوں گے۔“ (یسعیاہ ۱:۱۸) لفظ ”قرمزی“ گہرے لال رنگ کو ظاہر کرتا ہے۔a ”ارغوانی“ بھی گاڑھا رنگ ہوتا ہے۔ ہم ذاتی کوششوں سے گناہ کے داغ مٹا نہیں سکتے۔ تاہم، یہوواہ قرمزی اور ارغوانی رنگ جیسے ہمارے گناہوں کو برف یا اُون کی مانند سفید کر سکتا ہے۔ پس جب یہوواہ ہمارے گناہ معاف کر دیتا ہے تو ہمیں یہ محسوس نہیں کرنا چاہئے کہ ہماری باقی زندگی ایسے گناہوں سے داغدار رہیگی۔
۱۷. کس مفہوم میں یہوواہ ہمارے گناہ اپنے پیچھے پھینک دیتا ہے؟
۱۷ مُہلک بیماری سے نجات پانے کے بعد حزقیاہ نے ایک نہایت دلکش گیت تحریر کِیا جس میں اُس نے یہوواہ سے کہا: ”تُو نے میرے سب گُناہوں کو اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا۔“ (یسعیاہ ۳۸:۱۷) یہاں اس بات کو نمایاں کِیا گیا ہے کہ یہوواہ کسی خطاکار کے گناہوں کو اپنے پیچھے پھینک دیتا ہے جہاں وہ نہ تو اُنہیں دیکھتا اور نہ ہی اُن پر کوئی توجہ دیتا ہے۔ ایک کتاب کے مطابق، یہاں یہ خیال پیش کِیا گیا ہے: ”تُو نے [میرے گناہوں] کو ایسا سمجھا کہ جیسے وہ تھے ہی نہیں۔“ کیا یہ بات تسلیبخش نہیں ہے؟
۱۸. میکاہ نبی یہ کیسے ظاہر کرتا ہے کہ جب یہوواہ معاف کرتا ہے تو وہ ہمارے گناہ مکمل طور پر دُور کر دیتا ہے؟
۱۸ بحالی کے وعدے میں میکاہ نبی نے اپنے یقینِکامل کا اظہار کِیا کہ یہوواہ اپنے تائب بندوں کو ضرور معاف کریگا: ”تجھ سا خدا کون ہے جو . . . اپنی میراث کے بقیہ کی خطاؤں سے درگذرے؟ وہی . . . اُن کے سب گناہ سمندر کی تہ میں ڈال دیگا۔“ (میکاہ ۷:۱۸، ۱۹) ذرا تصور کریں کہ بائبل وقتوں کے لوگوں کے لئے اس کا کیا مطلب تھا۔ کیا ”سمند کی تہ میں ڈال“ دی گئی کسی چیز کے دوبارہ ملنے کا کوئی امکان ہوتا ہے؟ میکاہ کی بات ظاہر کرتی ہے کہ جب یہوواہ معاف کرتا ہے تو وہ ہمارے گناہ مکمل طور پر دُور کر دیتا ہے۔
”ہمارے خدا کی عین رحمت“
۱۹، ۲۰. (ا) اُس عبرانی فعل کا کیا مطلب ہے جس کا ترجمہ ’رحم دکھانا‘ یا ’ترس کھانا‘ کِیا گیا ہے؟ (ب) بائبل ایک بچے کے لئے ماں کے جذبات کو یہوواہ کی رحمت کی بابت سکھانے کے لئے کیسے استعمال کرتی ہے؟
۱۹ رحمت یہوواہ کی محبت کا ایک اَور پہلو ہے۔ بائبل رحمت اور شفقت کے مابین قریبی تعلق کو واضح کرتی ہے۔ بہتیرے عبرانی اور یونانی الفاظ رحمت اور شفقت کے مفہوم کی وضاحت کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، عبرانی لفظ راخم اکثر ’رحم دکھانے‘ یا ’ترس کھانے‘ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یہ عبرانی اصطلاح جس کا اطلاق یہوواہ اپنے اُوپر کرتا ہے ماں کے ”رحم“ کے لئے استعمال ہونے والے لفظ سے منسلک ہے اور ”مادرانہ شفقت“ کو ظاہر کرتا ہے۔
۲۰ بائبل یہوواہ کی شفقت اور رحمت کی بابت سکھانے کے لئے اپنے بچے کے لئے ایک ماں کے احساسات کو استعمال کرتی ہے۔ یسعیاہ ۴۹:۱۵ بیان کرتی ہے: ”کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی ماں اپنے شیرخوار بچے کو بھول جائے اور اپنے رحم کے فرزند پر [راخم] ترس نہ کھائے؟ ہاں وہ شاید بھول جائے پر مَیں تجھے نہ بھولونگا۔“ یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ ماں اپنے شِیرخوار بچے کو بھول جائے یا اُس کی پرواہ نہ کرے۔ بہرحال، شِیرخوار بچہ بےبس ہوتا ہے، راتدن اُسے اپنی ماں کی توجہ درکار ہوتی ہے۔ تاہم، افسوس کی بات ہے آجکل اِس ’بُرے زمانے‘ میں یہ بات بھی سننے میں آتی ہے کہ مائیں اپنے بچوں کو چھوڑ دیتی ہیں۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱، ۳) یہوواہ کہتا ہے ”پر مَیں تجھے نہ بھولونگا۔“ اپنے خادموں کے لئے یہوواہ کی شفقت ناقابلِتصور ہے۔ یہ ایک بچے کے لئے ماں کے عام جذبات سے بھی زیادہ مؤثر اور مضبوط ہے۔
۲۱، ۲۲. اسرائیلیوں پر قدیم مصر میں کیا بیتی اور یہوواہ نے اُن کی فریاد کا جواب کیسے دیا؟
۲۱ یہوواہ شفیق باپ کی طرح کیسے رحمت ظاہر کرتا ہے؟ قدیم اسرائیل کے ساتھ اُس کے برتاؤ سے یہ خوبی صاف نظر آتی ہے۔ سولہویں صدی قبلازسنِعام کے اختتام پر لاکھوں اسرائیلی مصری غلامی میں تھے جہاں اُن پر بہت ظلم کِیا جاتا تھا۔ (خروج ۱:۱۱، ۱۴) مصیبتزدہ اسرائیلیوں نے یہوواہ سے فریاد کی۔ خدایِرحیم نے کیسا جوابیعمل دکھایا؟
۲۲ یہوواہ کو اس سے بہت دُکھ پہنچا۔ اُس نے کہا: ”مَیں نے اپنے لوگوں کی تکلیف جو مصرؔ میں ہیں خوب دیکھی اور اُن کی فریاد . . . سنی اور مَیں اُن کے دُکھوں کو جانتا ہوں۔“ (خروج ۳:۷) یہوواہ اُن کی تکلیف دیکھ کر اور اُن کی فریاد سن کر بےحسی کا مظاہرہ نہیں کر سکتا تھا۔ یہوواہ ہمدرد خدا ہے۔ نیز دوسروں کے درد کو محسوس کرنا ہی دراصل رحمت اور شفقت دکھانے کی تحریک دیتا ہے۔ تاہم، یہوواہ نے صرف اپنے لوگوں کے لئے محسوس ہی نہیں کِیا تھا بلکہ اُس نے اُنہیں چھڑانے کے لئے کارروائی بھی کی تھی۔ یسعیاہ ۶۳:۹ بیان کرتی ہے: ”اُس نے اپنی اُلفت اور رحمت سے اُن کا فدیہ دیا۔“ اُس نے ”زورآور ہاتھ“ سے اسرائیلیوں کو مصر سے نکالا۔ (استثنا ۴:۳۴) بعدازاں، اُس نے اُنہیں معجزانہ غذا کھلائی اور اُنہیں اُن کے زرخیز مُلک میں لے گیا۔
۲۳. (ا) زبورنویس کی بات ہمیں کیسے یقین دلاتی ہے کہ یہوواہ انفرادی طور پر ہماری بہت فکر کرتا ہے؟ (ب) یہوواہ کن طریقوں سے ہماری مدد کرتا ہے؟
۲۳ یہوواہ محض اجتماعی طور پر ہی اپنے لوگوں پر شفقت ظاہر نہیں کرتا۔ ہمارا شفیق خدا انفرادی طور پر بھی ہماری فکر کرتا ہے۔ وہ ہماری ہر تکلیف میں دلچسپی لیتا ہے۔ زبورنویس نے کہا: ”[یہوواہ] کی نگاہ صادقوں پر ہے۔ اور اُس کے کان اُن کی فریاد پر لگے رہتے ہیں۔ [یہوواہ] شکستہ دلوں کے نزدیک ہے اور خستہ جانوں کو بچاتا ہے۔“ (زبور ۳۴:۱۵، ۱۸) یہوواہ انفرادی طور پر ہماری مدد کیسے کرتا ہے؟ ضروری نہیں کہ وہ ہماری تکلیف کے سبب کو ہی ختم کر دے۔ لیکن اُس نے مدد کی فریاد کرنے والوں کے لئے بہت سے انتظامات کئے ہیں۔ اُس کا کلام مفید اور عملی مشورت فراہم کرتا ہے۔ کلیسیا میں، وہ روحانی طور پر پُختہ نگہبان فراہم کرتا ہے جو دوسروں کی مدد کرنے میں یہوواہ جیسی شفقت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ (یعقوب ۵:۱۴، ۱۵) یہوواہ ”دُعا کے سننے والے“ کے طور پر ”مانگنے والوں کو روحالقدس“ دیتا ہے۔ (زبور ۶۵:۲؛ لوقا ۱۱:۱۳) یہ تمام فراہمیاں ”ہمارے خدا کی عین رحمت“ کے اظہار ہیں۔—لوقا ۱:۷۸۔
۲۴. آپ یہوواہ کی محبت کے لئے کیسا جوابیعمل دکھائیں گے؟
۲۴ کیا اپنے آسمانی باپ کی محبت پر غور کرنا ہیجانخیز نہیں ہے؟ پچھلے مضمون میں ہم نے سیکھا تھا کہ یہوواہ نے ہمارے فائدے کے لئے اپنی طاقت، انصاف اور حکمت کو بڑی محبت سے استعمال کِیا ہے۔ اس مضمون میں ہم نے سیکھا کہ یہوواہ نے نوعِانسان بلکہ انفرادی طور پر ہمارے لئے حیرانکُن طریقوں سے اپنی محبت ظاہر کی ہے۔ اب ہم سب کو خود سے یہ سوال پوچھنا چاہئے، ’مَیں یہوواہ کی محبت کے لئے کیسا جوابیعمل دکھاتا ہوں؟‘ دُعا ہے کہ آپ اپنے سارے دلوجان، عقل اور طاقت سے اُس سے محبت کرتے ہوئے جوابیعمل دکھائیں۔ (مرقس ۱۲:۲۹، ۳۰) دُعا ہے کہ آپ کی روزمرّہ کی زندگی یہوواہ کے نزدیک سے نزدیکتر جانے کی آپ کی خواہش کو ظاہر کرے۔ نیز دُعا ہے کہ یہوواہ خدا جو محبت ہے تمام ابدیت کے لئے آپ کے نزدیکتر ہوتا جائے!—یعقوب ۴:۸۔
[فٹنوٹ]
a ایک سکالر کے مطابق، قرمزی رنگ ”پکا یا گاڑھا رنگ ہوتا ہے۔ اوس، بارش، دھلائی حتیٰکہ طویل استعمال سے بھی نہیں اُڑتا۔“
کیا آپ کو یاد ہے؟
• ہم کیسے جانتے ہیں کہ محبت یہوواہ کی نمایاں خوبی ہے؟
• یہ کہنا کیوں معقول ہوگا کہ یہوواہ کا اپنے بیٹے کو ہماری خاطر دُکھ اُٹھانے اور مرنے کے لئے بھیجنا محبت کا عظیمترین اظہار ہے؟
• یہوواہ ہمیں کیسے یقین دلاتا ہے کہ وہ انفرادی طور پر ہم سے محبت کرتا ہے؟
• بائبل کن واضح بیانات کے ساتھ یہوواہ کی معافی کو ظاہر کرتی ہے؟
[صفحہ ۱۵ پر تصویر]
” [خدا ] نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا“
[صفحہ ۱۷ ،۱۶ پر تصویر]
”تمہاری قدر تو بہت سی چڑیوں سے زیادہ ہے“
[تصویر کا حوالہ]
J. Heidecker/VIREO ©
[صفحہ ۱۸ پر تصویر]
ایک بچے کے لئے ماں کے جذبات ہمیں یہوواہ کی شفقت کی بابت سکھا سکتے ہیں