’تمہاری درخواستیں خدا کے سامنے پیش کی جائیں‘
”ہر ایک بات میں تمہاری درخواستیں دُعا اور منت کے وسیلہ سے شکرگزاری کے ساتھ خدا کے سامنے پیش کی جائیں۔“—فلپیوں ۴:۶۔
۱. ہمیں کس تک رسائی حاصل ہے اور یہ اتنا شاندار شرف کیوں ہے؟
اگر آپ اپنے مُلک کے حکمران سے ملاقات کرنے کی خواہش ظاہر کریں تو کیا آپ کی یہ خواہش پوری کر دی جائے گی؟ شاید آپ کو حکمران کے دفتری عملہ سے ایک خط موصول ہو لیکن حکمران سے باتچیت کرنا آپ کے لئے بہت مشکل ثابت ہوگا۔ البتہ حاکمِاعلیٰ یہوواہ خدا تک رسائی حاصل کرنا اتنا مشکل نہیں ہے۔ ہم کسی بھی جگہ سے اور کسی بھی وقت خدا سے بات کر سکتے ہیں۔ خدا مناسب دُعاؤں کو ہمیشہ سنتا ہے۔ (امثال ۱۵:۲۹) واقعی یہ ہمارے لئے کتنی ہی شاندار بات ہے۔ بائبل میں خدا کو ’دُعاؤں کا سننے والا‘ کہا جاتا ہے۔ ہمیں دُعا کے بندوبست کی قدر کرتے ہوئے باقاعدگی سے دُعا کرنی چاہئے۔—زبور ۶۵:۲۔
۲. خدا کن لوگوں کی دُعا سنتا ہے؟
۲ شاید کوئی یہ پوچھے کہ خدا کس قسم کی دُعاؤں کو قبول کرتا ہے؟ بائبل میں ایک ایسی بات کا ذکر کِیا گیا ہے جو اس سلسلے میں لازمی ہے: ”بغیر ایمان کے اُس کو پسند آنا ناممکن ہے۔ اس لئے کہ خدا کے پاس آنے والے کو ایمان لانا چاہئے کہ وہ موجود ہے اور اپنے طالبوں کو بدلہ دیتا ہے۔“ (عبرانیوں ۱۱:۶) جیہاں، جیسا کہ ہم پچھلے مضمون میں دیکھ چکے ہیں خدا صرف ایسے لوگوں کی دُعا سنتا ہے جو ایمان رکھتے ہیں، جو اُس کی مرضی بجا لاتے ہیں اور جن کے دل صاف اور پُرخلوص ہیں۔
۳. (ا) قدیم زمانے میں خدا کے خادموں کی دُعاؤں سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟ (ب) ہم کونسی مختلف دُعائیں مانگ سکتے ہیں؟
۳ پولس رسول نے مسیحیوں سے کہا: ”کسی بات کی فکر نہ کرو بلکہ ہر ایک بات میں تمہاری درخواستیں دُعا اور منت کے وسیلہ سے شکرگذاری کے ساتھ خدا کے سامنے پیش کی جائیں۔“ (فلپیوں ۴:۶، ۷) بائبل میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ خدا کے خادم کسی پریشانی میں مبتلا ہونے پر خدا سے دُعا کِیا کرتے تھے۔ اس سلسلے میں حنّہ، ایلیاہ، حزقیاہ اور دانیایل کی مثال پر غور کیجئے۔ (۱-سموئیل ۲:۱-۱۰؛ ۱-سلاطین ۱۸:۳۶، ۳۷؛ ۲-سلاطین ۱۹:۱۵-۱۹؛ دانیایل ۹:۳-۲۱) پریشانیوں کا سامنا کرتے وقت ہمیں بھی اُن کی طرح دُعا کرنی چاہئے۔ غور کیجئے کہ فلپیوں ۴:۶، ۷ میں درج پولس رسول کے الفاظ کے مطابق، مختلف قسم کی دُعائیں ہوتی ہیں۔ پولس نے شکرگزاری کی دُعا کا ذکر کِیا۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم خدا کی نعمتوں کے لئے اُس کا شکر ادا کریں۔ اس دُعا میں ہم خدا کی حمد بھی کر سکتے ہیں۔ منت کا ذکر کرتے ہوئے پولس نے بتایا کہ ہم دِل کی گہرائیوں سے خدا سے التجا کر سکتے ہیں۔ پھر پولس نے درخواستوں کا ذکر کِیا جن کے ذریعے ہم خدا سے کوئی خاص چیز مانگ سکتے ہیں۔ (لوقا ۱۱:۲، ۳) ایسی دُعاؤں سے ہمارا آسمانی باپ یہوواہ خوش ہوتا ہے۔
۴. جب کہ یہوواہ جانتا ہے کہ ہمیں کن چیزوں کی ضرورت ہے تو پھر ہمیں اُس سے اِنکی درخواست کیوں کرنی چاہئے؟
۴ شاید کچھ لوگ کہیں کہ یہوواہ خدا تو پہلے ہی سے جانتا ہے کہ ہمیں کن چیزوں کی ضرورت ہے تو پھر ہمیں اِن کے لئے درخواست کیوں کرنی چاہئے؟ (متی ۶:۸، ۳۲) ذرا اِس تمثیل پر غور کیجئے۔ ایک دکاندار اپنے اُن گاہکوں کو جو بہت عرصے سے اُس سے خریداری کر رہے ہیں، اُن کو ایک تحفہ پیش کرنا چاہتا ہے۔ وہ اُن کو تحفہ حاصل کرنے کے لئے اپنی دکان پر آنے کی دعوت دیتا ہے۔ ایسے گاہک جو اپنا تحفہ حاصل کرنے کے لئے دکان پر نہیں آتے اصل میں ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اِس تحفے کی قدر نہیں کرتے۔ اسی طرح اگر ہم اپنی ضروریات کے لئے خدا سے درخواست نہیں کریں گے تو ہم بھی بےقدری کا ثبوت دے رہے ہوں گے۔ یسوع نے کہا تھا: ”مانگو تو پاؤ گے۔“ (یوحنا ۱۶:۲۴) ایسا کرنے سے ہم دکھاتے ہیں کہ ہمیں خدا پر بھروسہ ہے۔
دُعا کرنے کا انداز
۵. ہمیں یسوع کے نام کے وسیلے سے کیوں دُعا کرنی چاہئے؟
۵ یہوواہ خدا دُعا کرنے کے سلسلے میں بہت سے قواعد عائد نہیں کرتا۔ لیکن جو کچھ بائبل میں دُعا کرنے کے طریقے کے بارے میں بتایا گیا ہے اس پر عمل کرنا بہت اہم ہے۔ مثال کے طور پر یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا تھا: ”اگر باپ سے کچھ مانگو گے تو وہ میرے نام سے تُم کو دے گا۔“ (یوحنا ۱۶:۲۳) اِس کا مطلب ہے کہ ہمیں صرف یسوع کے نام کے وسیلہ سے دُعا کرنی چاہئے اور اِس بات پر ایمان رکھنا چاہئے کہ اُس ہی کے ذریعے خدا انسان کو برکات سے نوازتا ہے۔
۶. دُعا مانگتے وقت کیا ہمیں کوئی خاص انداز اپنانا چاہئے؟
۶ کیا دُعا کرتے وقت ہمیں کوئی خاص انداز اپنانا چاہئے؟ جینہیں، بلکہ خدا کے کلام میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ دُعا مختلف انداز اور وضع میں مانگی جا سکتی ہے۔ (۱-سلاطین ۸:۲۲؛ نحمیاہ ۸:۶؛ مرقس ۱۱:۲۵؛ لوقا ۲۲:۴۱) سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم سچے دل سے دُعا مانگیں۔—یوایل ۲:۱۲، ۱۳۔
۷. (ا) لفظ ’آمین‘ کا کیا مطلب ہے؟ (ب) ہم دُعا کرتے وقت ’آمین‘ کب اور کیوں کہتے ہیں؟
۷ دُعا کرنے کے بعد ہم ’آمین‘ کیوں کہتے ہیں؟ خدا کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ دُعا کے آخر میں ’آمین‘ کہنا مناسب ہے، خاص کرکے جب ہم دوسروں کے سامنے دُعا کرتے ہیں۔ (زبور ۷۲:۱۹؛ ۸۹:۵۲) عبرانی لفظ ”آمین“ کا مطلب ہے ’ایسا ہی ہو۔‘ ایک لغت کے مطابق دُعا کے آخر میں ”آمین کہنے سے ہم ظاہر کرتے ہیں کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری دُعا قبول ہو۔“ اِسلئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب دُعا مانگنے والا آمین کہتا ہے تو وہ دراصل یہ ظاہر کر رہا ہوتا ہے کہ اُس نے دل سے دُعا مانگی ہے۔ جب ایک مسیحی، کلیسیا میں دُعا کرتا ہے تو اجلاس پر حاضر باقی افراد بھی آمین کہہ کر اِس بات کو ظاہر کر سکتے ہیں کہ وہ اِس دُعا سے متفق ہیں۔—۱-کرنتھیوں ۱۴:۱۶۔
۸. ہماری کچھ دُعائیں یعقوب اور ابرہام کی دُعاؤں کی طرح کیسے ہو سکتی ہیں اور ایسی دُعاؤں سے ہم کیا ثابت کرتے ہیں؟
۸ کبھیکبھار خدا ہمیں اِس بات کو ظاہر کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے کہ ہماری درخواست ہمارے لئے کتنی اہمیت رکھتی ہے۔ شاید ہمیں دُعا کرتے وقت یعقوب جیسا بننا پڑے جس نے برکت حاصل کرنے کے لئے رات بھر ایک فرشتے سے کشتی لڑی۔ (پیدایش ۳۲:۲۴-۲۶) یا شاید ہمیں ایک ایسی صورتحال کا سامنا ہو جس میں ہمیں ابرہام کی طرح دُعا کرنی پڑے۔ اُس نے خدا سے کئی بار التجا کی کہ اُس کا بھتیجا لُوط اور دوسرے راست لوگ شہر سدوم کی تباہی سے بچا لئے جائیں۔ (پیدایش ۱۸:۲۲-۳۳) اسی طرح شاید ہم بھی یہوواہ سے التجا کریں کہ وہ انصاف، شفقت اور رحم کو کام میں لا کر ہماری دُعا قبول کر لے۔
مناسب درخواستیں
۹. ہماری دُعاؤں میں سب سے اہم بات کیا ہونی چاہئے؟
۹ یاد رکھیں کہ پولس رسول نے کہا تھا: ’ہر ایک بات میں اپنی درخواستیں خدا کے سامنے پیش کرو۔‘ (فلپیوں ۴:۶) اِس کا مطلب ہے کہ ہم زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں دُعا کر سکتے ہیں۔ لیکن اپنی دُعاؤں میں ہمیں یہوواہ خدا کی مرضی کو پہلا درجہ دینا چاہئے۔ اِس سلسلے میں دانیایل نے ہمارے لئے اچھی مثال قائم کی۔ جب اسرائیلی اپنے گناہوں کی سزا بھگت رہے تھے تو دانیایل نے خدا سے التجا کی کہ وہ اُن پر رحم کرے۔ دانیایل نے دُعا میں خدا سے کہا: ”اَے [یہوواہ] سُن لے اور کچھ کر۔ اَے میرے خدا اپنے نام کی خاطر دیر نہ کر۔“ (دانیایل ۹:۱۵-۱۹) کیا ہم بھی التجا کرتے ہیں کہ خدا کا نام پاک ٹھہرایا جائے اور اُس کی مرضی پوری ہو؟
۱۰. ہم کیسے جانتے ہیں کہ ذاتی معاملوں کے بارے میں دُعا کرنا مناسب ہے؟
۱۰ ہم ذاتی معاملوں کے بارے میں بھی دُعا کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر زبورنویس کی طرح ہم بھی دُعا کر سکتے ہیں کہ ہم خدا کے کلام کی گہری سچائیوں کو سمجھنے کے قابل بنیں۔ اُس نے کہا تھا: ”مجھے فہم عطا کر اور مَیں تیری شریعت پر چلوں گا۔ بلکہ مَیں پورے دل سے اُس کو مانوں گا۔“ (زبور ۱۱۹:۳۳، ۳۴؛ کلسیوں ۱:۹، ۱۰) یسوع نے اُس پروردگار سے ”دُعائیں اور التجائیں کیں جو اُس کو موت سے بچا سکتا تھا۔“ (عبرانیوں ۵:۷) یسوع کی مثال سے ہم سیکھتے ہیں کہ جب ہمیں ایک خطرناک یا مشکل صورتحال کا سامنا ہوتا ہے تو ہم خدا سے اسے برداشت کرنے کے لئے طاقت کی درخواست کر سکتے ہیں۔ یسوع نے اپنے شاگردوں کو ذاتی معاملوں کے بارے میں بھی دُعا کرنا سکھایا مثلاً گُناہوں کی معافی اور خوراک کے بارے میں وغیرہ۔
۱۱. آزمائش کا سامنا کرتے وقت ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
۱۱ یسوع نے اپنے شاگردوں کو خدا سے یوں بھی دُعا کرنا سکھایا کہ ”ہمیں آزمایش میں نہ لا بلکہ بُرائی سے بچا۔“ (متی ۶:۹-۱۳) اور بعد میں یسوع نے اپنے شاگردوں کو تاکید کی کہ ”جاگو اور دُعا کرو تاکہ آزمایش میں نہ پڑو۔“ (متی ۲۶:۴۱) دُعا کرنا خاص طور پر اُس وقت ضروری ہوتا ہے جب ہم آزمائشوں کا سامنا کر رہے ہوں۔ شاید سکول یا کام کی جگہ پر ہمارے ساتھی ہمیں ایسے کاموں میں حصہ لینے پر اُکسانے کی کوشش کرتے ہیں جو مسیحیوں کے لئے نامناسب ہوں۔ یا پھر شاید ہمیں کچھ ایسا کرنے کو کہا جاتا ہے جو خدا کے معیاروں کے خلاف ہو۔ ایسی صورتحال میں ہمیں یسوع کی صلاح کے مطابق آزمائش کا سامنا کرنے سے پہلے اور آزمائش کے دوران بھی خدا سے مدد مانگنی چاہئے۔
۱۲. دُعا میں ہم کن مشکلات کا ذکر کر سکتے ہیں اور ہم یہوواہ خدا سے کس بات کی توقع رکھ سکتے ہیں؟
۱۲ خدا کے خادم بھی دباؤ اور فکر کا شکار ہوتے ہیں۔ بیماری اور پریشانی بہتیروں کے لئے بوجھ بن جاتی ہیں۔ آجکل تشدد میں اضافہ ہو گیا ہے جس کی وجہ سے بھی لوگ پریشان رہتے ہیں۔ مہنگائی کی وجہ سے خرچہ پورا کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ ہمارے لئے یہ کتنی تسلیبخش بات ہے کہ جب ہم یہوواہ خدا کو اِن مشکلات کے بارے میں بتاتے ہیں تو وہ ہماری دُعا پر کان لگاتا ہے۔ زبور ۱۰۲:۱۷ میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ”اُس نے بےکسوں کی دُعا پر توجہ کی اور اُن کی دُعا کو حقیر نہ جانا۔“
۱۳. (ا) ہم کن ذاتی معاملوں کے بارے میں دُعا کر سکتے ہیں؟ (ب) اِس کی ایک مثال دیجئے۔
۱۳ ہم ہر ایسے معاملے کے بارے میں دُعا کر سکتے ہیں جس کا تعلق خدا کے ساتھ ہمارے رشتے اور اُس کی خدمت سے ہو۔ (۱-یوحنا ۵:۱۴) اگر آپ نے شادی یا نوکری کے بارے میں یا پھر منادی میں زیادہ وقت صرف کرنے کے بارے میں فیصلہ کرنا ہے تو دُعا کے ذریعے آپ خدا سے رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔ ملک فلپائن میں ایک نوجوان بہن کی مثال پر غور کریں۔ وہ کُلوقتی طور پر منادی کرنا چاہتی تھی۔ لیکن اپنی روزمرہ ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اُس کے پاس نوکری نہیں تھی۔ وہ بتاتی ہے: ”ہفتے کے دِن مَیں نے یہوواہ خدا سے دُعا کی اور اُسے بتایا کہ مَیں کُلوقتی طور پر اُس کی خدمت کرنا چاہتی ہوں۔ بعد میں جب مَیں تبلیغ کرنے کے لئے نکلی تو میری ملاقات ایک جوان لڑکی سے ہوئی جسے مَیں نے ایک کتاب پیش کی۔ اچانک لڑکی نے مجھ سے کہا: ’آپ کو سوموار کی صبح میرے سکول جانا چاہئے۔‘ جب مَیں نے پوچھا کہ کیوں، تو اُس نے مجھے بتایا کہ مجھے اُس کے سکول میں نوکری مل سکتی ہے۔ پھر جب مَیں سوموار کو اُس کے سکول گئی تو مجھے فوراً نوکری پر رکھ لیا گیا۔ سب کچھ اتنی جلد ہوا کہ مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔“ دُنیابھر میں بہتیرے دوسرے گواہوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ اِس لئے دُعا میں خدا کے سامنے اپنی دلی درخواست پیش کرنے سے مت ہچکچائیں۔
جب کسی سے گُناہ ہو جائے
۱۴، ۱۵. (ا) اگر ایک شخص نے گُناہ کِیا ہے تو اُسے دُعا کرنا کیوں نہیں بند کرنا چاہئے؟ (ب) اگر ایک شخص کو روحانی مدد کی ضرورت ہے تو اُسے کیا کرنا چاہئے؟
۱۴ اگر ایک شخص نے گُناہ کِیا ہے تو اُسے دعا کرنے سے کیسے مدد حاصل ہو سکتی ہے؟ کبھیکبھار ایک شخص گُناہ کرنے پر اتنی شرمندگی محسوس کرتا ہے کہ وہ دُعا کرنے سے ہچکچاتا ہے۔ لیکن ایسا کرنا دانشمندی کی بات نہیں ہے۔ مثال کے طور پر جہاز کا پائلٹ جانتا ہے کہ جہاز چلاتے وقت اگر وہ غلط راستہ اختیار کر لے تو وہ ہوائی اڈے سے رابطہ کرنے سے مدد حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن شاید وہ غلط راستے پر چل نکلنے پر شرمندہ ہے اور اِس لئے رابطہ قائم کرنے سے ہچکچاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں جہاز کا پائلٹ کسی حادثے کا شکار بن سکتا ہے۔ اسی طرح اگر ایک شخص نے گُناہ کِیا ہے اور اِس پر شرمندہ ہو کر خدا سے دُعا کرنا بند کر دیتا ہے تو یہ اُس کے لئے نقصاندہ ہو سکتا ہے۔ اِس لئے اگر ہم اپنے کسی گُناہ کی وجہ سے شرمندہ ہیں تو ہمیں دُعا کرنا بند نہیں کرنی چاہئے۔ خدا چاہتا ہے کہ ایسے لوگ جنہوں نے گُناہ کِیا ہے وہ اُس سے دُعا مانگیں۔ یسعیاہ نبی نے گُناہ کرنے والوں سے کہا تھا کہ اُنہیں یہوواہ خدا سے دُعا کرنی چاہئے کیونکہ وہ ”کثرت سے معاف کرے گا۔“ (یسعیاہ ۵۵:۶، ۷) معافی حاصل کرنے کے لئے ہمیں توبہ کرنی چاہئے اور اپنے بُرے کاموں کو چھوڑ کر خدا کو یہ دکھانا چاہئے کہ ہم پورے دل سے اُس کے کرم کے خواہاں ہیں۔—زبور ۱۱۹:۵۸؛ دانیایل ۹:۱۳۔
۱۵ جہاں تک گُناہ کا تعلق ہے، دُعا کرنا ایک اَور وجہ سے بھی اہم ہے۔ یعقوب نے لکھا تھا کہ اگر ایک شخص کو روحانی مدد کی ضرورت ہے تو اُسے ’کلیسیا کے بزرگوں کو بلانا چاہئے اور وہ اُس کے لئے دُعا کریں گے۔ اور یہوواہ اُسے اُٹھا کھڑا کرے گا۔‘ (یعقوب ۵:۱۴، ۱۵) جیہاں، گُناہ کرنے والے کو چاہئے کہ وہ یہوواہ سے دُعا میں اپنے گُناہ کی معافی مانگے۔ وہ بزرگوں سے اپنے حق میں دُعا کرنے کی درخواست بھی کر سکتا ہے۔ اِس طرح وہ روحانی طور پر پھر سے مضبوط بن سکتا ہے۔
دُعاؤں کا جواب
۱۶، ۱۷. (ا) یہوواہ خدا ہماری دُعاؤں کا جواب کیسے دیتا ہے؟ (ب) کن مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ دُعاؤں کا تبلیغ سے گہرا تعلق ہے؟
۱۶ خدا ہماری دُعاؤں کا جواب کیسے دیتا ہے؟ کبھیکبھار ہمیں اپنی دُعاؤں کا جواب جلد اور واضح طور پر ملتا ہے۔ (۲-سلاطین ۲۰:۱-۶) لیکن کبھی کبھار ہمیں اپنی دُعاؤں کے جواب کے لئے کچھ دیر انتظار کرنا پڑتا ہے اور جواب اتنا واضح بھی نہیں ہوتا۔ یسوع کی ایک تمثیل میں ایک بیوہ انصاف پانے کے لئے بار بار قاضی کے پاس جاتی ہے۔ شاید ہمیں بھی ایک معاملے کے بارے میں بار بار خدا سے دُعا کرنی پڑے۔ (لوقا ۱۸:۱-۸) لیکن ہم اِس بات کا پورا اعتبار کر سکتے ہیں کہ اگر ہم خدا کی مرضی کے مطابق دُعا کریں گے تو وہ ہم سے کبھی یہ نہیں کہے گا کہ ”مجھے تکلیف نہ دے۔“—لوقا ۱۱:۵-۹۔
۱۷ یہوواہ کے بندوں نے اکثر دیکھا ہے کہ وہ دُعاؤں کا جواب دیتا ہے۔ یہ خاص طور پر منادی کے کام کے بارے میں سچ ثابت ہوا ہے۔ مثال کے طور پر مُلک فلپائن میں دو بہنیں ایک دُوردراز علاقے میں تبلیغ کر رہی تھیں۔ جب اُنہوں نے ایک عورت کو بائبل پر مبنی ایک کتابچہ دیا تو اُس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اُس نے کہا: ”کل رات ہی مَیں نے دُعا مانگی تھی کہ کوئی آ کر مجھے بائبل کے بارے میں سکھائے۔ خدا نے میری دُعا سُن لی۔“ تھوڑے ہی عرصے بعد یہ عورت اجلاسوں پر حاضر ہونے لگی۔ جنوبی ایشیا میں ایک بھائی ایک ایسی رہائشی عمارت میں تبلیغ کرنے سے ہچکچا رہا تھا جس کے سامنے چوکیدار پہرا دے رہا تھا۔ لیکن اُس نے یہوواہ خدا سے دُعا مانگی اور دلیری سے عمارت میں داخل ہو گیا۔ جب اُس نے ایک اپارٹمنٹ کے دروازے پر دستک دی تو ایک عورت نے دروازہ کھولا۔ پھر جب اِس بھائی نے عورت کو بتایا کہ وہ کیوں آیا ہے تو عورت رونے لگی۔ اُس نے بتایا کہ وہ یہوواہ کے گواہوں سے ملنا چاہتی تھی اور اُس نے خدا سے دُعا کی تھی کہ وہ اُسے اُن سے ملا دے۔ بھائی نے خوشی سے اُسکا تعارف کلیسیا کے دوسرے اراکین سے کروایا۔
۱۸. (ا) اپنی دُعاؤں کا جواب حاصل کرنے پر ہمارا ردِعمل کیسا ہونا چاہئے؟ (ب) ہر موقعے پر دُعا کرنے سے ہمیں کیا حاصل ہوگا؟
۱۸ واقعی دُعا ایک شاندار بندوبست ہے۔ یہوواہ خدا ہماری دُعاؤں کو سنتا اور اُن کا جواب بھی دیتا ہے۔ (یسعیاہ ۳۰:۱۸، ۱۹) یہوواہ خدا ہماری دُعاؤں کا جواب مختلف طریقوں سے دیتا ہے۔ شاید جواب اِس طرح کا ہو جس کی ہمیں توقع نہ تھی۔ اس کے باوجود جب بھی ہمیں خدا کی رہنمائی حاصل ہوتی ہے، ہمیں اُس کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ (۱-تھسلنیکیوں ۵:۱۸) اِس کے علاوہ یاد رکھیں کہ پولس رسول نے کہا تھا: ”ہر ایک بات میں تمہاری درخواستیں دُعا اور منت کے وسیلہ سے شکرگذاری کے ساتھ خدا کے سامنے پیش کی جائیں۔“ جیہاں، ہر موقعے پر خدا سے دُعا کریں اور پولس رسول کے اِن الفاظ کی سچائی کو اپنی زندگی میں محسوس کرتے رہیں: ’خدا کا اطمینان جو سمجھ سے بالکل باہر ہے تمہارے دلوں اور خیالوں کو محفوظ رکھے گا۔‘—فلپیوں ۴:۶، ۷۔
کیا آپ بتا سکتے ہیں؟
• ہم کس قسم کی دُعائیں مانگ سکتے ہیں؟
• ہمیں کس انداز اور وضع میں دُعا کرنی چاہئے؟
• ہم کن موضوعات کے بارے میں دُعا کر سکتے ہیں؟
• اگر ایک شخص نے گُناہ کِیا ہو تو دُعا کی کیا اہمیت ہوتی ہے؟
[صفحہ ۲۹ پر تصویریں]
آزمائش کا سامنا کرتے وقت ہمیں دُعا کرنی چاہئے
[صفحہ ۳۱ پر تصویریں]
دُعا کے ذریعے ہم خدا کو اپنی پریشانیوں کے بارے میں بتا سکتے ہیں، کسی چیز کی درخواست کر سکتے ہیں اور اُس کا شکر بھی ادا کر سکتے ہیں