اَے اولاد والو! اپنے بچوں کی محبت سے تربیت کرو
”جوکچھ کرتے ہو محبت سے کرو۔“—۱-کرنتھیوں ۱۶:۱۴۔
۱. ایک بچے کی پیدائش پر والدین کس طرح کے احساسات کا تجربہ کرتے ہیں؟
بہتیرے والدین اس بات سے اتفاق کریں گے کہ بچے کی پیدائش زندگی کا ایک انتہائی خوشکُن موقع ہوتا ہے۔ ایلی نامی ایک ماں نے کہا: ”جب مَیں نے اپنی نوزاد بیٹی کو پہلی مرتبہ دیکھا تو میرے اندر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ مجھے ایسا لگا کہ مَیں نے زندگی میں اس سے خوبصورت بچہ پہلے کبھی نہیں دیکھا۔“ تاہم، ایسا خوشکُن موقع والدین کے لئے پریشانی کا باعث بھی ہو سکتا ہے۔ ایلی کے شوہر نے بیان کِیا: ”مجھے اس بات کی فکر تھی کہ آیا مَیں اپنی بیٹی کو زندگی میں آنے والے مسائل سے نپٹنے کے لئے اچھی طرح تیار کر سکوں گا یا نہیں۔“ بہتیرے والدین ایسا ہی سوچتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کی محبت سے تربیت کرنے کی ضرورت کو سمجھتے ہیں۔ مسیحی والدین کو اپنے بچوں کی محبت سے تربیت کرتے وقت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اِن میں سے بعض مشکلات کونسی ہیں؟
۲. والدین کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟
۲ اب ہم اس دُنیا کے خاتمے کے بہت قریب ہیں۔ بائبل پیشینگوئی کے مطابق، لوگوں میں محبت ختم ہو گئی ہے۔ یہانتککہ خاندانی افراد بھی ”طبعی محبت سے خالی“ ہیں۔ وہ ’ناشکر، ناپاک، بےضبط اور تُندمزاج‘ ہیں۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱-۵) ایسی خصلتوں کا مظاہرہ کرنے والے لوگوں کے ساتھ ہر روز واسطہ پڑنے کی وجہ سے مسیحی خاندانوں میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ برتاؤ پر اثر پڑ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، والدین کو اپنے موروثی رُجحان کی وجہ سے ضبطِنفس کی کمی، انجانے میں تکلیفدہ باتیں کہنے اور دیگر معاملات میں سمجھداری کا مظاہرہ کرنے میں ناکامی جیسی آزمائشوں کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔—رومیوں ۳:۲۳؛ یعقوب ۳:۲، ۸، ۹۔
۳. والدین بچوں کی کس طرح سے پرورش کر سکتے ہیں کہ وہ خوش رہ سکیں؟
۳ ان مسائل کے باوجود، والدین بچوں کی اس طرح سے پرورش کر سکتے ہیں کہ وہ خوش رہ سکیں اور یہوواہ خدا کے ساتھ مضبوط رشتہ رکھ سکیں۔ مگر کیسے؟ اس بائبل مشورت پر عمل کرنے سے کہ ”جوکچھ کرتے ہو محبت سے کرو۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۶:۱۴) واقعی، محبت ”کمال کا پٹکا ہے۔“ (کلسیوں ۳:۱۴) آئیں کرنتھیوں کے نام پولس رسول کے پہلے خط میں محبت کے تین پہلوؤں کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ والدین بچوں کی تربیت کرتے وقت اس خوبی کو کن خاص طریقوں سے استعمال کر سکتے ہیں۔—۱-کرنتھیوں ۱۳:۴-۸۔
صابر بنیں
۴. والدین کو صابر یا متحمل ہونے کی ضرورت کیوں ہے؟
۴ پولس رسول نے لکھا: ”محبت صابر ہے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۳:۴) جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”صابر“ کِیا گیا ہے وہ تحمل یا صبر کرنے اور قہر کرنے میں دھیما ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ والدین کو متحمل یا صابر ہونے کی ضرورت کیوں ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ بہتیرے والدین کے ذہن میں اس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ آئیں چند ایک پر غور کریں۔ بچے جو کام کرنا چاہتے ہیں اس کے لئے بار بار اجازت مانگتے ہیں۔ یہانتککہ والدین کے انکار کرنے کے باوجود وہ اس اُمید کے ساتھ پوچھتے رہتے ہیں کہ شاید وہ ہاں کر دیں۔ ہو سکتا ہے کہ نوجوان ایسے کام کرنے کی اجازت لینے کے لئے مختلف دلائل پیش کریں جس کے بارے میں والدین جانتے ہیں کہ یہ سراسر حماقت ہیں۔ (امثال ۲۲:۱۵) اس کے علاوہ، ہم سب کی طرح بچے بھی بار بار غلطیاں کرنے کا میلان رکھتے ہیں۔—زبور ۱۳۰:۳۔
۵. کونسی چیز والدین کو صابر یا متحمل بننے میں مدد دے سکتی ہے؟
۵ کونسی چیز والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ صبر اور تحمل سے پیش آنے میں مدد دے سکتی ہے؟ بادشاہ سلیمان نے لکھا: ”آدمی کی تمیز اُس کو قہر کرنے میں دھیما بناتی ہے۔“ (امثال ۱۹:۱۱) والدین یہ یاد رکھتے ہوئے اپنے بچوں کے رویے کو سمجھ سکتے ہیں کہ ایک وقت تھا جب وہ خود بھی ’بچوں کی طرح بولتے تھے، بچوں کی سی طبیعت تھی اور بچوں کی سی سمجھ تھی۔‘ (۱-کرنتھیوں ۱۳:۱۱) اَے اولاد والو! کیا آپ اُس وقت کو یاد کر سکتے ہیں، جب آپ اپنی والدہ یا والد کو بچوں جیسی فرمائشیں کرکے تنگ کِیا کرتے تھے؟ ایک نوجوان کے طور پر، کیا آپ نے کبھی سوچا تھا کہ آپ کے والدین آپ کے جذبات یا مسائل کو نہیں سمجھتے؟ اس طرح آپ اپنے بچوں کے ایسے رویے کی وجہ جان سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، آپ یہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ بچوں کو اپنے فیصلوں کی بابت باقاعدگی سے یاددہانی کراتے وقت والدین کو متحمل ہونے کی ضرورت کیوں ہے۔ (کلسیوں ۴:۶) یہ بات قابلِغور ہے کہ یہوواہ خدا نے اپنے احکام اسرائیلی والدین کو بچوں کے ”ذہننشین“ کرنے کے لئے کہا تھا۔ (استثنا ۶:۶، ۷) عبرانی زبان میں ”ذہننشین“ کے لئے استعمال ہونے والے لفظ کا مطلب ”دُہرانا،“ ”بار بار کہنا،“ ”دل پر نقش کرنا“ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ والدین کو ایک بات اُس وقت تک دُہراتے رہنے کی ضرورت ہو سکتی ہے جب تک بچہ خدا کے احکام پر عمل کرنا نہ سیکھ جائے۔ اسی طرح، زندگی میں دیگر اسباق سکھانے کے لئے بھی دُہرائی بہت ضروری ہے۔
۶. متحمل ہونے کا مطلب اپنے بچوں کو کُھلی چھٹی دے دینا کیوں نہیں؟
۶ تاہم، والدین کے متحمل ہونے کا مطلب اپنے بچوں کو کُھلی چھٹی دے دینا نہیں ہے۔ خدا کا کلام خبردار کرتا ہے: ”جو لڑکا بےتربیت چھوڑ دیا جاتا ہے اپنی ماں کو رسوا کرے گا۔“ ایسے بُرے وقت سے بچنے کے لئے آیت کا پہلا حصہ بیان کرتا ہے: ”چھڑی اور تنبیہ حکمت بخشتی ہیں۔“ (امثال ۲۹:۱۵) بعضاوقات بچے یہ محسوس کر سکتے ہیں کہ والدین کو اُن کی دُرستی کرنے کا کوئی حق نہیں۔ لیکن مسیحی خاندانوں کو کسی جمہوری حکومت کی طرح کام نہیں کرنا چاہئے کہ والدین کے وضعکردہ قوانین کے ساتھ بچے بھی متفق ہو۔ اس کے برعکس، یہوواہ خدا خاندان کا بانی ہے۔ اُس نے والدین کو پُرمحبت طریقے سے اپنے بچوں کی تعلیموتربیت کرنے کا اختیار دیا ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۱:۳؛ افسیوں ۳:۱۵؛ ۶:۱-۴) پولس رسول نے محبت کے جس اگلے پہلو کا ذکر کِیا اُس کا تربیت سے گہرا تعلق ہے۔
محبت پر مبنی تنبیہ
۷. اپنے بچوں سے محبت رکھنے والے والدین انہیں تنبیہ کیوں کرتے ہیں، اور ایسی تنبیہ میں کیا کچھ شامل ہے؟
۷ پولس رسول نے لکھا: ’محبت مہربان ہے۔‘ (۱-کرنتھیوں ۱۳:۴) اپنے بچوں سے محبت رکھنے والے والدین اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کئے بغیر مہربانہ انداز میں اُن کی تربیت کرتے ہیں۔ ایسا کرنے سے وہ یہوواہ خدا کی نقل کرتے ہیں۔ پولس رسول نے لکھا: ”جس سے [یہوواہ] محبت رکھتا ہے اُسے تنبیہ بھی کرتا ہے۔“ غور کریں کہ بائبل میں جس طرح کی تنبیہ کا ذکر کِیا گیا ہے اس کا مطلب صرف سزا دینا نہیں۔ اس میں تعلیم دینا اور تربیت کرنا شامل ہے۔ ایسی تنبیہ کا مقصد کیا ہوتا ہے؟ پولس رسول نے بیان کِیا: ”جو اُس کو سہتے سہتے پُختہ ہو گئے ہیں اُن کو بعد میں چین کے ساتھ راستبازی کا پھل بخشتی ہے۔“ (عبرانیوں ۱۲:۶، ۱۱) جب والدین خدا کی مرضی کے مطابق محبت سے اپنے بچوں کی تعلیموتربیت کرتے ہیں تو وہ اُنہیں صلحپسند اور نیک شخص بننے میں مدد دیتے ہیں۔ اگر بچے ”[یہوواہ] کی تنبیہ“ کو قبول کرتے ہیں تو وہ حکمت، علم اور فہم حاصل کرتے ہیں جو سونے چاندی سے بھی بیشقیمت ہیں۔—امثال ۳:۱۱-۱۸۔
۸. جب والدین اپنے بچوں کی تربیت کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو عموماً اس کا انجام کیا ہوتا ہے؟
۸ والدین کا اپنے بچوں کی تربیت کرنے میں ناکام ہو جانا محبت کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہوواہ خدا نے بادشاہ سلیمان کو یہ لکھنے کا الہام بخشا: ”وہ جو اپنی چھڑی کو باز رکھتا ہے اپنے بیٹے سے کینہ رکھتا ہے پر وہ جو اُس سے محبت رکھتا ہے بروقت اُس کو تنبیہ کرتا ہے۔“ (امثال ۱۳:۲۴) تربیت کے بغیر پرورش پانے والے بچے عموماً خودغرض اور ناخوش ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس، حدود قائم کرنے والے والدین کے بچے سکول میں اچھے طالبعلم، دوسروں کے ساتھ میلجول رکھنے والے اور خوش ہوتے ہیں۔ واقعی، اپنے بچوں کو مہربانہ انداز میں تنبیہ کرنے والے والدین اُن کے لئے محبت ظاہر کرتے ہیں۔
۹. مسیحی والدین کو اپنے بچوں کو کونسے اصول سکھانے چاہئیں، اور بچوں کو انہیں کیسا خیال کرنا چاہئے؟
۹ نرمی اور محبت کے ساتھ بچوں کی تربیت کرنے میں کیا کچھ شامل ہے؟ والدین کو اپنے بچوں کو واضح طور پر یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ وہ اُن سے کیا چاہتے ہیں۔ مثال کے طور پر، مسیحی والدین کے بچوں کو بچپن ہی سے بائبل کے بنیادی اصولوں کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ، اُنہیں یہ بھی سکھایا جاتا ہے کہ اُنہیں سچی پرستش سے تعلق رکھنے والے مختلف کاموں میں کیوں حصہ لینا چاہئے۔ (خروج ۲۰:۱۲-۱۷؛ متی ۲۲:۳۷-۴۰؛ ۲۸:۱۹؛ عبرانیوں ۱۰:۲۴، ۲۵) بچوں کو اس بات سے واقف ہونا چاہئے کہ ان اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کِیا جا سکتا۔
۱۰، ۱۱. والدین خاندان میں اصول بناتے وقت بچوں کی ترجیحات کا خیال کیوں رکھ سکتے ہیں؟
۱۰ بعضاوقات، والدین گھر میں اصول بناتے وقت اپنے بچوں سے بھی باتچیت کر سکتے ہیں۔ اگر بچے اصول بناتے وقت باتچیت میں حصہ لیتے ہیں تو وہ ان اصولوں پر چلنے کی زیادہ کوشش کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، والدین بچے کے گھر واپس لوٹنے کے لئے ایک خاص وقت کا تعیّن کر سکتے ہیں یا پھر وہ اپنے بچوں کو رائے دینے اور اپنی ترجیحات کی وجہ بیان کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔ اس کے بعد والدین اُس وقت کے بارے میں بتا سکتے ہیں جب وہ چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے گھر واپس آ جائیں۔ وہ وضاحت کر سکتے ہیں کہ اُن کے خیال میں یہ وقت کیوں مناسب ہے۔ اگر وقت کے تعیّن کے سلسلے میں والدین اور بچوں میں اختلاف پایا جاتا ہے تو والدین کو کیا کرنا چاہئے؟ بعض صورتوں میں والدین یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اگر کوئی بائبل اصول نہیں ٹوٹ رہا تو اپنے بچوں کی خواہش کا احترام کریں۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ والدین نے ہار مان لی ہے یا وہ اپنے اختیار سے دستبردار ہو گئے ہیں؟
۱۱ اس سوال کے جواب کے لئے لوط اور اُس کے خاندان کے سلسلے میں یہوواہ خدا کے اپنے اختیار کو پُرمحبت طریقے سے استعمال کرنے پر غور کریں۔ فرشتوں نے لوط، اُس کی بیوی اور بیٹیوں کو سدوم کے شہر سے باہر نکالنے کے بعد کہا: ”اُس پہاڑ کو چلا جا۔ تانہ ہو کہ تُو ہلاک ہو جائے۔“ تاہم، لوط نے جواب دیا: ”اَے میرے خداوند ایسا نہ کر۔“ لوط نے ایک دوسری جگہ جانے کے لئے درخواست کی: ”دیکھ یہ شہر ایسا نزدیک ہے کہ وہاں بھاگ سکتا ہوں اور یہ چھوٹا بھی ہے۔ اِجازت ہو تو مَیں وہاں چلا جاؤں۔“ یہوواہ خدا نے کیسا ردِعمل دکھایا؟ یہوواہ خدا نے فرمایا: ”مَیں اس بات میں بھی تیرا لحاظ کرتا ہوں۔“ (پیدایش ۱۹:۱۷-۲۲) کیا یہوواہ خدا اپنے اختیار سے دستبردار ہو گیا تھا؟ ہرگز نہیں! اُس نے لوط کی درخواست پر غور کِیا اور اُس کے معاملے میں اَور زیادہ شفقت کا مظاہرہ کِیا۔ اگر آپ والدین ہیں تو کیا آپ خاندان میں اصول بناتے وقت اپنے بچوں کی ترجیحات کا خیال رکھ سکتے ہیں؟
۱۲. کونسی چیز ایک بچے کو خود کو زیادہ محفوظ محسوس کرنے میں مدد دے گی؟
۱۲ بچوں کو نہ صرف اصولوں سے بلکہ ان کو توڑنے کی سزا سے بھی واقف ہونا چاہئے۔ جب سزا کے بارے میں باتچیت کر لی جاتی ہے تو پھر اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اگر والدین بچوں کو سزا دینے کے لئے کہتے رہتے ہیں لیکن اس پر عمل نہیں کرتے تو وہ شفقت یا محبت کی کمی کو ظاہر کر رہے ہوں گے۔ بائبل بیان کرتی ہے، ”چُونکہ بُرے کام پر سزا کا حکم فوراً نہیں دیا جاتا اس لئے بنیآدم کا دل اُن میں بدی پر بہشدت مائل ہے۔“ (واعظ ۸:۱۱) یہ سچ ہے کہ والدین بچے کو اُس کے ہمعمروں اور دوسرے لوگوں کے سامنے سزا نہ دینے سے شرمندگی سے بچا سکتے ہیں۔ لیکن جب بچے دیکھتے ہیں کہ سزا سمیت تمام معاملات میں اُن کے والدین کی ”ہاں“ کا مطلب ”ہاں“ اور ”نہیں“ کا مطلب ”نہیں“ ہے تو وہ خود کو زیادہ محفوظ محسوس کرتے اور اپنے والدین کے لئے احترام اور محبت دکھاتے ہیں۔—متی ۵:۳۷۔
۱۳، ۱۴. اپنے بچوں کی تربیت کرتے وقت والدین یہوواہ خدا کی نقل کیسے کر سکتے ہیں؟
۱۳ اگر پُرمحبت طریقے سے سزا دی جانی ہے تو اسے بچے کی ضرورت کے مطابق عمل میں لایا جانا چاہئے۔ پام نامی ایک والدہ کہتی ہے، ”تنبیہ کے سلسلے میں ہمارے دونوں بچوں کی ضروریات مختلف تھیں۔ جو طریقہ ایک بچے کے لئے مفید ہوتا وہ دوسرے کے لئے فائدہمند نہیں ہوتا تھا۔“ اُس کا شوہر لیری کہتا ہے کہ ”ہماری بڑی بیٹی اپنی مرضی کی مالک تھی اور اُسے سختی سے تنبیہ کرنی پڑتی تھی۔ تاہم، ہماری چھوٹی بیٹی نرم الفاظ اور یہانتککہ ہماری ناپسندیدگی کی نظر سے ہی بات کو سمجھ جاتی تھی۔“ واقعی، شفیق والدین اس بات کو سمجھنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں کہ تنبیہ کرنے کا کونسا طریقہ کس بچے کے لئے مفید ہوگا۔
۱۴ یہوواہ خدا اپنے ہر خادم کی صلاحیتوں اور کمزوریوں سے واقف ہونے کی وجہ سے والدین کے لئے نمونہ قائم کرتا ہے۔ (عبرانیوں ۴:۱۳) یہوواہ خدا سزا دینے کے سلسلے میں نہ تو حد سے زیادہ سختی کرتا ہے اور نہ ہی کسی کی طرفداری کرتا ہے۔ اس کے برعکس، وہ ہمیشہ اپنے لوگوں کو ”مناسب“ تنبیہ کرتا ہے۔ (یرمیاہ ۳۰:۱۱) اَے اولاد والو! کیا آپ اپنے بچوں کی صلاحیتوں اور کمزوریوں سے واقف ہیں؟ کیا آپ مؤثر اور پُرمحبت طریقے سے اپنے بچوں کی تربیت کرنے کے لئے ان معلومات کو استعمال کر سکتے ہیں؟ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ اپنے بچوں سے محبت رکھتے ہیں۔
بچوں کی کُھل کر بات کرنے کے لئے حوصلہافزائی کریں
۱۵، ۱۶. والدین کُھل کر بات کرنے کے لئے بچوں کی حوصلہافزائی کیسے کر سکتے ہیں، اور مسیحی والدین نے اس سلسلے میں کس طریقے کو مؤثر پایا ہے؟
۱۵ محبت کا ایک اَور پہلو یہ ہے کہ یہ ”بدکاری سے خوش نہیں ہوتی بلکہ راستی سے خوش ہوتی ہے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۳:۶) والدین اپنے بچوں کی صحیح اور سچی باتوں سے محبت رکھنے کے لئے کیسے تربیت کر سکتے ہیں؟ اس کا بنیادی طریقہ یہ ہے کہ دیانتداری سے اپنے احساسات کا اظہار کرنے کے لئے اپنے بچوں کی حوصلہافزائی کریں۔ چاہے آپ اُن کی باتوں کو سُن کر پریشان ہی کیوں نہ ہو جائیں۔ یہ بات سچ ہے کہ والدین اپنے بچوں کے راست معیاروں سے مطابقت رکھنے والے خیالات اور احساسات کو سُن کر خوش ہوتے ہیں۔ لیکن بعضاوقات بچے کی باتیں بُرائی کی جانب اُس کی رغبت کو ظاہر کر سکتی ہیں۔ (پیدایش ۸:۲۱) ایسی صورتحال میں والدین کو کیسا ردِعمل دکھانا چاہئے؟ اُن کا پہلا ردِعمل فوری طور پر بچوں کو ڈانٹنا یا سزا دینا ہو سکتا ہے۔ اگر والدین ایسا کرتے ہیں تو بچے آیندہ وہی بات بتانا سیکھ سکتے ہیں جو والدین سننا چاہتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ بچے جب بےادبی سے بات کرتے ہیں تو اُنہیں فوراً دُرستی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن بچوں کو یہ سکھانے میں بہت فرق ہے کہ کیسے نرمی سے بات کریں اور کیا بات کریں۔
۱۶ والدین کُھل کر بات کرنے کے لئے اپنے بچوں کی حوصلہافزائی کیسے کر سکتے ہیں؟ ایلی جس کا پہلے ذکر کِیا گیا بیان کرتی ہے، ”ہم دوستانہ ماحول میں کُھل کر باتچیت کرتے ہیں۔ یہانتککہ ہم اُس وقت بھی شدید ردِعمل کا اظہار نہیں کرتے جب ہمارے بچے ہمیں ایسی باتیں بتاتے ہیں جو ہمارے لئے پریشانی کا باعث ہوتی ہیں۔“ ٹوم نامی ایک والد بیان کرتا ہے، ”ہم نے اپنی بیٹی کی اُس وقت بھی اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لئے حوصلہافزائی کی جب وہ ہمارے ساتھ متفق نہیں ہوتی تھی۔ ہم نے محسوس کِیا کہ اگر ہم ہمیشہ اُس کی بات کاٹ دیتے اور اپنی مرضی اُس پر مسلّط کرتے تو وہ پریشان ہو جاتی اور پھر اپنے دل کی بات ہمیں نہیں بتاتی تھی۔ اس کے برعکس، اُس کی بات سننے کی وجہ سے وہ ہماری بات سننے کے قابل ہوئی۔“ یقیناً، بچوں کو اپنے والدین کی تابعداری کرنی چاہئے۔ (امثال ۶:۲۰) کُھل کر باتچیت کرنا والدین کو اپنے بچوں میں استدلال کی خوبی پیدا کرنے میں مدد دیتا ہے۔ چار بچوں کا باپ ونسینٹ بیان کرتا ہے، ”ہم اکثر بچوں کے ساتھ کسی بھی کام کے فوائد اور نقصانات پر باتچیت کرتے تھے تاکہ ہمارے بچے دُرست فیصلہ کر سکیں۔ ایسا کرنے سے اُنہیں فہم کی خوبی پیدا کرنے میں مدد ملی۔“—امثال ۱:۱-۴۔
۱۷. والدین کس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں؟
۱۷ یہ سچ ہے کہ والدین اپنے بچوں کی پرورش کے سلسلے میں مکمل طور پر بائبل مشورت کا اطلاق کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ اس کے باوجود، آپ اس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں کہ بچے آپ کی اُن کوششوں کی بہت زیادہ قدر کریں گے جو آپ ان میں تحمل، مہربانی اور محبت جیسی خوبیاں پیدا کرنے کے لئے کرتے ہیں۔ یہوواہ خدا آپ کی کوششوں کو ضرور برکت دے گا۔ (امثال ۳:۳۳) ایسی کوششوں کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ والدین چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے یہوواہ خدا سے اپنے بدن کی مانند محبت رکھنا سیکھیں۔ والدین اس عمدہ نشانے کو کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟ اگلا مضمون اس سلسلے میں چند خاص طریقوں پر بات کرے گا۔
کیا آپ کو یاد ہے؟
• تمیز یعنی فہم والدین کو صابر یا متحمل بننے میں کیسے مدد کر سکتا ہے؟
• محبت اور تنبیہ میں کیا تعلق ہے؟
• والدین اور بچوں کا آپس میں کُھل کر بات کرنا کیوں ضروری ہے؟
[صفحہ ۱۶ پر تصویریں]
اَے اولاد والو! کیا آپ یاد کر سکتے ہیں کہ آپ بھی کبھی بچے تھے؟
[صفحہ ۱۷ پر تصویر]
کیا آپ اپنے بچوں کی کُھل کر بات کرنے کے لئے حوصلہافزائی کرتے ہیں؟