زندگی کے حقیقی مقصد کی تلاش
”ہر مُتنفّس [یاہ] کی حمد کرے۔“—زبور ۱۵۰:۶۔
۱. زندگی کا مقصد تلاش کرنے کیلئے ایک نوجوان کی جستجو کے بارے میں بیان کریں۔
کوریا میں پرورش پانے والا سیونگ جنa نامی ایک شخص بیان کرتا ہے: ”اپنی زندگی لوگوں کے لئے وقف کرنے کی خاطر مَیں نے طب کی تعلیم حاصل کی۔ مَیں نے محسوس کِیا کہ ڈاکٹر بننے سے مجھے دولت، شہرت اور خوشی حاصل ہوگی۔ جب مَیں نے دیکھا کہ ڈاکٹر لوگوں کی زیادہ مدد نہیں کر سکتے تو مَیں بےدل ہو گیا۔ اس کے بعد مَیں نے مصوری سیکھی لیکن میری یہ صلاحیتیں بھی دوسروں کے لئے کچھ خاص فائدہمند ثابت نہ ہوئیں اور مَیں اپنےآپ کو خودغرض سمجھنے لگا۔ اس کے بعد مَیں نے ایک ٹیچر کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا۔ مگر جلد ہی مجھے احساس ہو گیا کہ مَیں دوسروں کو حقائق کی بابت تعلیم تو دے سکتا ہوں لیکن اُنہیں حقیقی خوشی فراہم کرنے والی راہنمائی مہیا نہیں کر سکتا۔“ بیشتر لوگوں کی طرح سیونگ جن بھی زندگی کا حقیقی مقصد تلاش کر رہا تھا۔
۲. (ا) زندگی میں مقصد ہونے کا کیا مطلب ہے؟ (ب) ہم کیسے جانتے ہیں کہ خدا نے ہمیں ایک اچھے مقصد کے لئے خلق کِیا ہے؟
۲ زندگی میں حقیقی مقصد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس زندہ رہنے کی وجہ ہو، واضح نصبالعین ہو اور ہماری تمامتر کوششوں کا ایک ہی مرکز ہو۔ کیا واقعی انسانوں کی زندگی کا ایسا مقصد ہو سکتا ہے؟ جیہاں! ہمیں ذہانت، ضمیر اور استدلال کی صلاحیت سے نوازا جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ خدا نے ہمیں ایک اچھے مقصد کے لئے خلق کِیا ہے۔ لہٰذا، خالق کے مقصد کی مطابقت میں زندگی بسر کرنے سے ہم اپنے حقیقی مقصد کو تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ اسے پورا بھی کر سکتے ہیں۔
۳. انسانوں کے لئے خدا کے مقصد میں کیا کچھ شامل ہے؟
۳ بائبل ظاہر کرتی ہے کہ ہمارے لئے خدا کے مقصد میں بہت سی باتیں شامل ہیں۔ مثال کے طور پر، جس شاندار طریقے سے ہمیں خلق کِیا گیا ہے وہ خدا کی بےغرض محبت کا اظہار ہے۔ (زبور ۴۰:۵؛ ۱۳۹:۱۴) لہٰذا، خدا کے مقصد کے مطابق زندہ رہنے کا مطلب دوسروں کے لئے خدا جیسی بےغرض محبت ظاہر کرنا ہے۔ (۱-یوحنا ۴:۷-۱۱) اس سے مُراد خدا کی اُن ہدایات کی فرمانبرداری کرنا بھی ہے جو اس کے پُرمحبت مقصد کے مطابق زندگی گزارنے میں ہماری مدد کرتی ہیں۔—واعظ ۱۲:۱۳؛ ۱-یوحنا ۵:۳۔
۴. (ا) زندگی کا حقیقی مقصد تلاش کرنے کے لئے کیا کرنے کی ضرورت ہے؟ (ب) سب سے بہترین مقصد کونسا ہے جسے ہر شخص تلاش کر سکتا ہے؟
۴ خدا کا مقصد یہ بھی تھا کہ انسان آپس میں اور دیگر مخلوقات کے ساتھ خوشی اور صلح سے رہیں۔ (پیدایش ۱:۲۶؛ ۲:۱۵) تاہم، خوشی، تحفظ اور ذہنی سکون حاصل کرنے کے لئے ہمیں کیا کرنے کی ضرورت ہے؟ جس طرح ایک بچہ اپنے والدین کی موجودگی میں خود کو خوش اور محفوظ محسوس کرتا ہے اسی طرح اپنے آسمانی باپ کے ساتھ مضبوط رشتہ ہمیں زندگی کا حقیقی مقصد تلاش کرنے میں مدد دے گا۔ (عبرانیوں ۱۲:۹) ایسے رشتے کو ممکن بنانے کے لئے خدا ہمیں اپنے قریب آنے کی اجازت دیتا اور ہماری دُعائیں سنتا ہے۔ (یعقوب ۴:۸؛ ۱-یوحنا ۵:۱۴، ۱۵) اگر ہم ایمان سے ’خدا کے ساتھ چلتے‘ اور اس کے دوست بنتے ہیں تو ہم اپنے آسمانی باپ کو خوش کر سکتے اور اس کی حمدوستائش کا باعث بن سکتے ہیں۔ (پیدایش ۶:۹؛ امثال ۲۳:۱۵، ۱۶؛ یعقوب ۲:۲۳) یہ زندگی کا بہترین مقصد ہے جسے ہر شخص تلاش کر سکتا ہے۔ زبورنویس نے بیان کِیا: ”ہر مُتنفّس [یاہ] کی حمد کرے۔“—زبور ۱۵۰:۶۔
زندگی میں آپ کا مقصد کیا ہے؟
۵. مادی چیزوں کو پہلا درجہ دینا سراسر حماقت کیوں ہے؟
۵ ہمارے لئے خدا کے مقصد میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم اپنی اور اپنے خاندان کی اچھی دیکھبھال کریں۔ اِس میں اُن کی جسمانی اور روحانی ضروریات پوری کرنا شامل ہے۔ تاہم، ایسا کرنے کے لئے توازن درکار ہے تاکہ دُنیاوی معاملات اور فکریں زیادہ اہم باتوں یعنی روحانی باتوں کی جگہ نہ لے لیں۔ (متی ۴:۴؛ ۶:۳۳) افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بہتیرے لوگ ساری زندگی مادی چیزیں حاصل کرنے میں گزار دیتے ہیں۔ تاہم، اپنی تمام ضروریات کو مالودولت کے ذریعے پورا کرنے کی کوشش کرنا سراسر حماقت ہے۔ ایشیا میں دولتمند لوگوں پر کِیا جانے والا ایک حالیہ سروے ظاہر کرتا ہے کہ اُن میں سے بیشتر ”معاشرے میں اعلیٰ مقام اور مالی استحکام یا خوشحالی کے باوجود خود کو پریشان اور غیرمحفوظ محسوس کرتے ہیں۔“—واعظ ۵:۱۱۔
۶. یسوع مسیح نے مالودولت جمع کرنے کے سلسلے میں کیا مشورت دی تھی؟
۶ یسوع مسیح نے ”دولت“ کے ”فریب“ کا ذکر کِیا۔ (مرقس ۴:۱۹) مالودولت کیسے ایک فریب ہے؟ مادی چیزیں بظاہر ایک شخص کو خوشی بخشتی ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے۔ بادشاہ سلیمان نے بیان کِیا: ”دولت کا چاہنے والا اُس کے بڑھنے سے سیر نہ ہوگا۔“ (واعظ ۵:۱۰) لیکن کیا مادی چیزوں کے حصول کے ساتھ ساتھ دلوجان سے خدا کی خدمت کرنا ممکن ہے؟ ہرگز نہیں۔ یسوع مسیح نے بیان کِیا: ”کوئی آدمی دو مالکوں کی خدمت نہیں کر سکتا کیونکہ یا تو ایک سے عداوت رکھے گا اور دوسرے سے محبت۔ یا ایک سے ملا رہے گا اور دوسرے کو ناچیز جانے گا۔ تُم خدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کر سکتے۔“ یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کو تاکید کی کہ زمین پر مالودولت جمع کرنے کی بجائے ”آسمان پر مال“ جمع کریں یعنی خدا کی پسندیدگی یا مقبولیت حاصل کریں۔ کیونکہ ’وہ اُن کے مانگنے سے پہلے ہی جانتا ہے کہ وہ کن کن چیزوں کے محتاج ہیں۔‘—متی ۶:۸، ۱۹-۲۵۔
۷. ہم کیسے ”حقیقی زندگی پر قبضہ“ کر سکتے ہیں؟
۷ اس سلسلے میں پولس رسول نے اپنے ساتھی تیمتھیس کو زوردار مشورت دی۔ اُس نے تیمتھیس سے کہا: ”اس موجودہ جہان کے دولتمندوں کو حکم دے کہ . . . ناپایدار دولت پر نہیں بلکہ خدا پر اُمید رکھیں جو ہمیں لطف اٹھانے کے لئے سب چیزیں افراط سے دیتا ہے۔ . . . اور سخاوت پر تیار اور امداد پر مستعد ہوں۔ اور آیندہ کے لئے اپنے واسطے ایک اچھی بنیاد قائم کر رکھیں تاکہ حقیقی زندگی پر قبضہ کریں۔“—۱-تیمتھیس ۶:۱۷-۱۹۔
”حقیقی زندگی“ کیا ہے؟
۸. (ا) بیشتر لوگ مالودولت اور شہرت حاصل کرنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں؟ (ب) ایسے لوگ کس بات کو سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں؟
۸ بیشتر لوگ مالودولت اور دُنیا کی آسائشوں سے پُر زندگی کو ”حقیقی زندگی“ خیال کرتے ہیں۔ ایشیا کے ایک نیوز میگزین نے بیان کِیا: ”فلمیں اور ٹیوی دیکھنے والے لوگ جوکچھ دیکھتے ہیں اُس کی خواہش کرنے لگتے ہیں اور اُن چیزوں کے خواب دیکھنے لگتے ہیں جنہیں وہ حاصل کر سکتے ہیں۔“ بہتیرے لوگ دولت اور شہرت حاصل کرنے کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتے ہیں۔ زیادہتر لوگ ان چیزوں کو حاصل کرنے کے لئے اپنی جوانی، صحت، خاندانی زندگی اور روحانی سرگرمیوں کو بھی قربان کر دیتے ہیں۔ محض چند لوگ ہی یہ سوچتے ہیں کہ ٹیوی پر دکھائی جانے والی ایسی چیزیں ”دُنیا کی رُوح“ یعنی دُنیا کی سوچ کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ رُوح لاکھوں لوگوں پر اثرانداز ہوتی اور اُنہیں انسانوں کے لئے ٹھہرائے گئے خدا کے مقصد کے برعکس کام کرنے کی تحریک دیتی ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۲:۱۲؛ افسیوں ۲:۲) اسی وجہ سے دُنیا میں بیشتر لوگ آجکل ناخوش نظر آتے ہیں!—امثال ۱۸:۱۱؛ ۲۳:۴، ۵۔
۹. ایسا کونسا کام ہے جسے انسان کبھی نہیں کر سکتے، اور کیوں؟
۹ اُن لوگوں کی بابت کیا ہے جو بغیر کسی لالچ کے دوسروں کی بھلائی کے لئے کام کرتے اور بھوک، بیماری اور ناانصافی کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ اکثر اُن کی قابلِتعریف اور خودایثارانہ کوششوں کے ذریعے بہت سے لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ تاہم، اپنی ان تمام مخلص کوششوں کے باوجود وہ کبھی بھی اس دُنیا کو انصاف اور راستی سے معمور نہیں کر پائیں گے۔ مگر کیوں؟ اسلئےکہ ’ساری دُنیا اُس شریر یعنی شیطان کے قبضہ میں پڑی ہوئی ہے‘ جو یہ نہیں چاہتا کہ اس دُنیا میں کوئی تبدیلی آئے۔—۱-یوحنا ۵:۱۹۔
۱۰. وفادار اشخاص کب ”حقیقی زندگی“ سے لطفاندوز ہوں گے؟
۱۰ اگر اس دُنیا میں کسی کے پاس زندہ رہنے کے علاوہ کوئی اَور اُمید نہ ہو تو یہ کس قدر افسوسناک بات ہوگی! پولس رسول نے لکھا: ”اگر ہم صرف اِسی زندگی میں مسیح کی اُمید رکھتے ہیں تو سب آدمیوں سے زیادہ بدنصیب ہیں۔“ جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ یہی زندگی سب کچھ ہے اُن کے رُجحان کے بارے میں بیان کرتے ہوئے پولس رسول مزید کہتا ہے: ”آؤ کھائیں پئیں کیونکہ کل تو مر ہی جائیں گے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۱۹، ۳۲) لیکن مستقبل میں ”[خدا] کے وعدہ کے موافق ہم نئے آسمان اور نئی زمین کا انتظار کرتے ہیں جن میں راستبازی بسی رہے گی۔“ (۲-پطرس ۳:۱۳) اُس وقت مسیحی خدا کی بادشاہت کی پُرمحبت حکمرانی کے تحت آسمان پر یا پھر زمین پر بغیر کسی نقص کے ”حقیقی زندگی“ یعنی ”ہمیشہ کی زندگی“ سے لطفاندوز ہو سکیں گے۔—۱-تیمتھیس ۶:۱۲۔
۱۱. خدا کے بادشاہتی کاموں کو فروغ دینا کیوں ایک بامقصد کام ہے؟
۱۱ صرف خدا کی بادشاہت ہی انسانوں کے تمام مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوگی۔ اس لئے ایک شخص کے لئے خدا کے بادشاہتی کاموں کو فروغ دینے کی کوشش کرنا ہی ایک بامقصد کام ہے۔ (یوحنا ۴:۳۴) اس کام میں مشغول رہنے سے ہم اپنے آسمانی باپ کے ساتھ ایک بیشقیمت رشتہ رکھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ہمیں زندگی میں اس مقصد کی تلاش کرنے والے لاکھوں کلیسیائی بہنبھائیوں کے ساتھ مل کر خدمت کرنے کا شرف حاصل ہے۔
قربانیاں پیش کریں
۱۲. موجودہ دُنیا میں زندگی کا موازنہ ”حقیقی زندگی“ کے ساتھ کریں۔
۱۲ بائبل بیان کرتی ہے کہ ”دُنیا اور اس کی خواہش دونوں مٹتی جاتی ہیں۔“ دولت اور شہرت سمیت شیطان کی تمام دُنیا تباہوبرباد ہو جائے گی ”لیکن جو خدا کی مرضی پر چلتا ہے وہ ابد تک قائم رہے گا۔“ (۱-یوحنا ۲:۱۵-۱۷) اس دُنیا کی ناپائیدار دولت، عارضی شانوشوکت اور ظاہری خوشی کے مقابلے میں ”حقیقی زندگی“ یعنی خدا کی بادشاہت میں ہمیشہ کی زندگی دائمی ہے جس کے لئے ہم قربانیاں دے سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ ہم درست قربانیاں پیش کریں۔
۱۳. کس طرح ایک جوڑے نے قربانیاں دیں؟
۱۳ ہنری اور سوزین کی مثال پر غور کریں۔ وہ خدا کے اس وعدے پر مضبوط ایمان رکھتے ہیں کہ جو لوگ خدا کی بادشاہت کو اپنی زندگیوں میں پہلا درجہ دیتے ہیں وہ اُن کی مدد کرے گا۔ (متی ۶:۳۳) پس انہوں نے ایک کم کرایے والے گھر میں رہنے کا انتخاب کِیا تاکہ وہ دُنیاوی کام کی بجائے اپنی دونوں بیٹیوں کے ساتھ منادی اور دیگر روحانی کاموں میں زیادہ وقت صرف کر سکیں۔ (عبرانیوں ۱۳:۱۵، ۱۶) اُن کے اس انتخاب کی وجہ نہ سمجھتے ہوئے اُن کے ایک رشتےدار نے سوزین سے کہا: ”سوزین، اگر تُم ایک اچھے گھر میں رہنا چاہتی ہو تو تمہیں قربانی دینی پڑے گی۔“ مگر ہنری اور سوزین جانتے تھے کہ ”اب کی اور آیندہ کی زندگی“ کے وعدے کا انحصار یہوواہ خدا کو پہلا درجہ دینے پر ہے۔ (۱-تیمتھیس ۴:۸؛ ططس ۲:۱۲) ان کی بیٹیاں بھی سرگرم کُلوقتی مناد بن گئیں۔ ایک خاندان کے طور پر وہ محسوس کرتے ہیں کہ اُنہیں کبھی کسی چیز کی کمی نہیں ہوئی بلکہ ”حقیقی زندگی“ کے حصول کو اپنا مقصد بنانے سے اُنہیں بہت سے فائدے حاصل ہوئے ہیں۔—فلپیوں ۳:۸؛ ۱-تیمتھیس ۶:۶-۸۔
”دُنیا ہی کے نہ ہو جائیں“
۱۴. اپنے حقیقی مقصد کو بھول جانے کے کونسے خطرات ہو سکتے ہیں؟
۱۴ اگر ہم اپنے حقیقی مقصد کو بھول جاتے اور ”حقیقی زندگی“ پر اپنی گرفت کمزور پڑنے دیتے ہیں تو یہ خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ ہم ”اِس زندگی کی فکروں اور دولت اور عیشوعشرت میں پھنس“ جانے کے خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔ (لوقا ۸:۱۴) بےقابو خواہشات اور ’زندگی کی فکریں‘ ہمیں اس دُنیا میں حد سے زیادہ اُلجھا سکتی ہیں۔ (لوقا ۲۱:۳۴) افسوس کی بات ہے کہ بعض لوگ دُنیا میں پائی جانے والی امیر سے امیرتر بننے کی خواہش میں پڑ گئے ہیں اور انہوں نے ”ایمان سے گمراہ ہو کر اپنے دلوں کو طرح طرح کے غموں سے چھلنی کر لیا“ ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے یہوواہ خدا کے ساتھ اپنے بیشقیمت رشتے کو بھی کھو دیا ہے۔ اُنہیں ”ہمیشہ کی زندگی پر قبضہ“ نہ رکھنے کی کتنی بڑی قیمت چکانی پڑی ہے!—۱-تیمتھیس ۶:۹، ۱۰، ۱۲؛ امثال ۲۸:۲۰۔
۱۵. ایک خاندان نے ”دُنیا ہی کے نہ ہو“ جانے سے کیسے فائدہ اُٹھایا؟
۱۵ پولس رسول نے نصیحت کی: ”دُنیوی کاروبار کرنے والے ایسے ہوں کہ دُنیا ہی کے نہ ہو جائیں۔“ (۱-کرنتھیوں ۷:۳۱) کیتھ اور بونی نے اس مشورت پر دھیان دیا۔ کیتھ بیان کرتا ہے: ”مَیں دندانسازی کی تعلیم مکمل کرتے ہی یہوواہ کا گواہ بن گیا۔ مجھے انتخاب کرنا تھا۔ مَیں بہت سے مریضوں کا علاج کرکے کافی پیسہ کما سکتا تھا لیکن ایسا کرنا یہوواہ خدا کی پرستش کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا تھا۔ مَیں نے اپنے اس کام کو محدود کر لیا تاکہ اپنی پانچ بیٹیوں اور اپنی بیوی کی روحانی اور جذباتی فلاحوبہبود کے لئے زیادہ وقت صرف کر سکوں۔ اگرچہ ہمارے پاس کبھیکبھار ہی زیادہ پیسے ہوتے تھے توبھی ہم نے گزارا کرنا سیکھ لیا اور ہمیں کبھی کسی چیز کی کمی نہیں ہوئی۔ ہمارے خاندان کے درمیان قریبی اور خوشکُن رشتہ تھا۔ آخرکار ہم سب نے کُلوقتی خدمت اختیار کر لی۔ اب ہماری سب بیٹیاں اپنے اپنے گھر میں خوش ہیں۔ ہمارے تین نواسے اور پانچ نواسیاں ہیں۔ یہوواہ خدا کے مقصد کو پہلا درجہ دینے کی وجہ سے اُن کے خاندان بھی خوش ہیں۔“
خدا کے مقصد کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دیں
۱۶، ۱۷. بائبل میں مختلف صلاحیتیں رکھنے والے لوگوں کی کونسی مثالیں پیش کی گئی ہیں، نیز ہم ان اشخاص کو کس وجہ سے یاد رکھتے ہیں؟
۱۶ بائبل میں خدا کے مقصد کے مطابق زندگی گزارنے یا نہ گزارنے والے لوگوں کی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ ایسی مثالوں سے حاصل ہونے والے اسباق کا اطلاق ہر دَور، ثقافت اور حالات کے تحت رہنے والے لوگوں پر ہوتا ہے۔ (رومیوں ۱۵:۴؛ ۱-کرنتھیوں ۱۰:۶، ۱۱) مثال کے طور پر، نمرود نے بڑے بڑے شہر تعمیر کئے۔ مگر اُس نے یہ کام یہوواہ خدا کے خلاف کِیا تھا۔ (پیدایش ۱۰: ۸، ۹) تاہم، بہتیرے دیگر اشخاص نے اچھی مثالیں بھی قائم کیں۔ مثال کے طور پر، موسیٰ نے مصر میں ایک اعلیٰ مرتبے کی زندگی بسر کرنے کو اپنا مقصد نہیں بنایا تھا۔ اس کے برعکس، اُس نے خدا کی طرف سے دی جانے والی ذمہداریوں کو ”مصرؔ کے خزانوں سے بڑی دولت جانا۔“ (عبرانیوں ۱۱:۲۶) لوقا جوکہ ایک طبیب تھا اُس نے غالباً پولس رسول اور دیگر اشخاص کی بیماریوں کا علاج کِیا تھا۔ لیکن سب سے بڑھکر اُس نے دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے مبشر کے طور پر خدمت انجام دی اور لوقا کی انجیل کو تحریر کِیا۔ اس کے علاوہ، پولس رسول شریعت کے ماہر کی بجائے ایک مشنری یعنی ’غیرقوموں کے رسول‘ کے طور پر مشہور تھا۔—رومیوں ۱۱:۱۳۔
۱۷ اگرچہ داؤد فوجی سردار، موسیقار اور دُھنیں ترتیب دینے والا تھا توبھی بنیادی طور پر اُس کا ذکر ایک ایسے شخص کے طور پر کِیا گیا ہے ”جو [خدا] کے دل کے مطابق“ تھا۔ (۱-سموئیل ۱۳:۱۴) ہم دانیایل کو بابلی حکومت میں ایک افسر کے طور پر کام کرنے کی وجہ سے نہیں بلکہ یہوواہ خدا کے وفادار نبی کے طور پر خدمت انجام دینے کی وجہ سے جانتے ہیں۔ ہم آستر کو فارس کی ملکہ کی بجائے دلیری اور ایمان کی ایک عمدہ مثال قائم کرنے کی وجہ سے جانتے ہیں۔ اسی طرح ہم پطرس، اندریاس، یعقوب اور یوحنا کو کامیاب ماہیگیروں کے طور پر نہیں بلکہ یسوع مسیح کے رسولوں کے طور پر جانتے ہیں۔ سب سے بڑھکر، ہم یسوع مسیح کو ایک ”بڑھئی“ کے طور پر نہیں بلکہ ”مسیح“ کے طور پر جانتے ہیں۔ (مرقس ۶:۳؛ متی ۱۶:۱۶) یہ سب اس بات سے اچھی طرح واقف تھے کہ اُن کے پاس کتنی ہی صلاحیتیں، مرتبہ اور مالودولت کیوں نہ ہو اُن کی زندگی کا مقصد دُنیا میں مقام حاصل کرنے کی بجائے خدا کی خدمت کرنا ہے۔ وہ جانتے تھے کہ اُن کی زندگی کا سب سے بااَجر اور اہم مقصد خداپرست شخص بننا ہے۔
۱۸. ایک نوجوان مسیحی نے اپنی زندگی کس طرح استعمال کرنے کا فیصلہ کِیا، نیز وہ کس بات کو سمجھنے کے قابل ہوا؟
۱۸ سیونگ جن جس کا ذکر پہلے پیراگراف میں کِیا گیا اس بات کو سمجھ گیا تھا۔ وہ بیان کرتا ہے: ”اپنی صلاحیتوں کو طب، مصوری یا دُنیاوی تعلیم دینے میں صرف کرنے کی بجائے مَیں نے اپنی زندگی خدا کے لئے مخصوص کرنے کا فیصلہ کِیا۔ اب مَیں ان علاقوں میں منادی کر رہا ہوں جہاں بائبل سکھانے والوں کی اشد ضرورت ہے اور ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے میں لوگوں کی مدد کر رہا ہوں۔ مَیں اکثر سوچتا تھا کہ کُلوقتی خادم بننا آسان ہے۔ لیکن اب جبکہ مَیں اپنی شخصیت کو نکھارنے اور مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو تعلیم دینے کی صلاحیت میں بہتری لانے کی کوشش کرتا ہوں تو میری زندگی پہلے سے کہیں زیادہ چیلنجخیز ہے۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ یہوواہ خدا کے مقصد کو اپنا مقصد بنا لینا ہی بہترین زندگی بسر کرنے کا واحد طریقہ ہے۔“
۱۹. ہم زندگی کا حقیقی مقصد کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟
۱۹ مسیحیوں کے طور پر، ہمارے پاس زندگی بچانے والا علم اور نجات کی اُمید ہے۔ (یوحنا ۱۷:۳) پس آئیں ’خدا کے فضل کو بےفائدہ نہ جانے دیں۔‘ (۲-کرنتھیوں ۶:۱) اپنی زندگی کے قیمتی دنوں اور سالوں کو یہوواہ خدا کی حمدوستائش کے لئے استعمال کریں۔ آئیں دوسروں کو حقیقی خوشی اور ہمیشہ کی زندگی کا باعث بننے والا علم سکھائیں۔ ایسا کرنے سے ہم یسوع مسیح کے ان الفاظ کی صداقت کا تجربہ کریں گے: ”دینا لینے سے مبارک ہے۔“ (اعمال ۲۰:۳۵) اس کے علاوہ، ہم زندگی کا حقیقی مقصد تلاش کرنے کے قابل ہوں گے۔
[فٹنوٹ]
a فرضی نام استعمال کئے گئے ہیں۔
کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟
• ہماری زندگی کا بہترین مقصد کونسا ہو سکتا ہے؟
• مادی چیزوں کے لئے زندہ رہنا سراسر حماقت کیوں ہے؟
• خدا نے کس ”حقیقی زندگی“ کا وعدہ کِیا ہے؟
• ہم اپنی زندگی کو خدا کے مقصد کے لئے کیسے استعمال کر سکتے ہیں؟
[صفحہ ۲۰ پر تصویریں]
مسیحیوں کو قربانیاں دینی چاہئیں