یہوواہ کا کلام زندہ ہے
رومیوں کے نام خط سے اہم نکات
پولس رسول نے سن ۵۶ میں تیسری بار کلیسیاؤں کا دورہ کِیا۔ اِس دوران وہ شہر کرنتھس بھی گیا۔ وہاں اُس نے سنا کہ شہر رومہ کی کلیسیا میں یہودی اور غیریہودی مسیحیوں کے درمیان اختلافات ہیں۔ پولس رسول نے اِن مسیحیوں کے نام ایک خط لکھنے کا فیصلہ کِیا تاکہ وہ مسیح میں متحد ہو جائیں۔
رومیوں کے نام اپنے خط میں پولس نے اِس بات کی وضاحت کی کہ انسان کس طرح راستباز ٹھہرائے جا سکتے ہیں اور خدا کی اِس نعمت سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے مسیحیوں کا چالچلن کیسا ہونا چاہئے۔ یہ خط خدا اور اُس کے کلام کے بارے میں ہمارے علم کو بڑھاتا ہے۔ اِس میں خدا کے فضل پر زور دیا گیا ہے اور نجات حاصل کرنے کے لئے یسوع مسیح کا اہم کردار نمایاں کِیا گیا ہے۔—عبر ۴:۱۲۔
انسان کس طرح راستباز ٹھہرائے جا سکتے ہیں؟
(روم ۱:۱–۱۱:۳۶)
پولس رسول نے لکھا: ”سب نے گُناہ کِیا اور خدا کے جلال سے محروم ہیں۔ مگر [خدا] کے فضل کے سبب سے اُس مخلصی کے وسیلہ سے جو مسیح یسوؔع میں ہے مُفت راستباز ٹھہرائے جاتے ہیں۔“ اُس نے یہ بھی لکھا: ”انسان شریعت کے اعمال کے بغیر ایمان کے سبب سے راستباز ٹھہرتا ہے۔“ (روم ۳:۲۳، ۲۴، ۲۸) یسوع مسیح کی ”راستبازی کے وسیلہ سے“ نہ صرف ممسوح مسیحیوں کو بلکہ ’اَور بھی بھیڑوں‘ پر مشتمل ایک ”بڑی بِھیڑ“ کو بھی ’راستباز ٹھہرایا‘ جا سکتا ہے۔ راستباز ٹھہرائے جانے کے نتیجے میں ممسوح مسیحیوں کو یسوع مسیح کے ساتھ آسمان پر رہنے کا موقع ملتا ہے۔ جبکہ ’اَور بھی بھیڑوں‘ کی جماعت کو خدا کے دوستوں کے طور پر راستباز ٹھہرایا جاتا ہے اور اُنہیں ”بڑی مصیبت“ سے زندہ بچنے کا موقع ملے گا۔—روم ۵:۱۸؛ مکا ۷:۹، ۱۴؛ یوح ۱۰:۱۶؛ یعقو ۲:۲۱-۲۴؛ متی ۲۵:۴۶۔
پولس نے یہ سوال اُٹھایا کہ ”کیا ہم اس لئے گُناہ کریں کہ شریعت کے ماتحت نہیں بلکہ فضل کے ماتحت ہیں؟“ اُس نے اِس کا جواب یوں دیا: ”ہرگز نہیں! . . . [تُم] اُسی کے غلام ہو جس کے فرمانبردار ہو خواہ گُناہ کے جس کا انجام موت ہے خواہ فرمانبرداری کے جس کا انجام راستبازی ہے۔“ (روم ۶:۱۵، ۱۶) اُس نے یہ بھی کہا کہ ”اگر تُم . . . روح سے بدن کے کاموں کو نیستونابود کرو گے تو جیتے رہو گے۔“—روم ۸:۱۳۔
صحیفائی سوالات کے جواب:
۱:۲۴-۳۲—کیا اِن آیات میں یہودیوں یا غیرقومیوں کی بدچلنی کے بارے میں بتایا گیا ہے؟ یہ سچ ہے کہ ایسی بدچلنی یہودیوں اور غیرقومیوں دونوں میں پائی جاتی تھی لیکن پولس بنیاسرائیل کی بات کر رہا تھا جو صدیوں سے خدا کے حکموں کو نظرانداز کر رہے تھے۔ حالانکہ وہ خدا کے حکموں کو جانتے تھے ”اُنہوں نے خدا کو پہچاننا ناپسند کِیا۔“ اس لئے وہ سزا کے لائق تھے۔
۳:۲۴، ۲۵—”اُس مخلصی کے وسیلہ سے جو مسیح یسوؔع میں ہے“ ایسے گُناہوں کی معافی کیسے ممکن ہوئی جو اُس کی موت سے ’پیشتر ہو چکے تھے‘؟ پیدایش ۳:۱۵ کی پیشینگوئی ۳۳ عیسوی میں پوری ہوئی جب یسوع کو سُولی پر لٹکا دیا گیا۔ (گل ۳:۱۳، ۱۶) البتہ جب یہوواہ خدا نے یہ پیشینگوئی کی تھی تو اُس کی نظروں میں فدیہ کی قیمت ادا ہو چکی تھی کیونکہ خدا جس بات کا ارادہ کرتا ہے یہ ضرور واقع ہوتی ہے۔ لہٰذا، اُس قربانی کی بِنا پر جو یسوع مسیح مستقبل میں پیش کرنے والا تھا، یہوواہ خدا اُن لوگوں کے گُناہ معاف کر سکتا تھا جو پیدایش ۳:۱۵ کی پیشینگوئی پر ایمان رکھتے تھے۔ یسوع مسیح کی جان کی قربانی کی بِنا پر خدا ایسے لوگوں کو زندہ بھی کر سکتا ہے جو یسوع کے زمانے سے پہلے مر چکے تھے۔—اعما ۲۴:۱۵۔
۶:۳-۵—مسیح یسوع میں شامل ہونے کے بپتسمے اور اُس کی موت میں شامل ہونے کے بپتسمے سے کیا مُراد ہے؟ جب یہوواہ خدا مسیحیوں کو رُوحُالقدس سے مسح کرتا ہے تو یہ مسیحی یسوع کے ساتھ ایک ہو جاتے ہیں۔ اس طرح وہ مسیح کے بدن یعنی اُس کلیسیا میں شامل ہو جاتے ہیں جس کا وہ سر ہے۔ (۱-کر ۱۲:۱۲، ۱۳، ۲۷؛ کل ۱:۱۸) اُن کے لئے مسیح یسوع میں شامل ہونے کا بپتسمہ یہی ہوتا ہے۔ ممسوح مسیحی اِس مفہوم میں ’مسیح کی موت میں شامل ہونے کا بپتسمہ‘ لیتے ہیں کہ وہ زندگی میں بڑی قربانیاں دینے کو تیار ہیں اور ہمیشہ تک زمین پر رہنے کے موقعے کو ترک کر دیتے ہیں۔ اس لئے اُن کی موت بھی قربانی کی موت ہے، حالانکہ وہ اِس قربانی کے ذریعے کوئی فدیہ فراہم نہیں کر سکتے۔ مسیح کی موت میں شامل ہونے کا بپتسمہ اُس وقت پورا ہوتا ہے جب ممسوح مسیحی فوت ہوتے ہیں اور اُن کو آسمان پر زندہ کِیا جاتا ہے۔
۷:۸-۱۱—حکم کے ذریعہ سے گُناہ نے کیسے موقع پایا؟ شریعت کے ذریعے اسرائیلیوں کو معلوم ہو گیا کہ گُناہ کیا ہے۔ اس طرح اُن کو اِس بات کا احساس ہو گیا کہ وہ گنہگار ہیں۔ شریعت کی وجہ سے وہ اپنے تمامتر گُناہوں سے واقف ہو گئے۔ اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ گُناہ نے شریعت کے ذریعے موقع پایا۔
ہمارے لئے سبق:
۱:۱۴، ۱۵۔ ہمارے پاس خوشخبری سنانے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ اِن میں سے ایک یہ ہے کہ ہم اُن لوگوں کے قرضدار ہیں جنہیں یسوع مسیح نے اپنے خون کے وسیلے سے مول لیا ہے۔ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ایسے لوگوں کی روحانی طور پر مدد کریں۔
۱:۱۸-۲۰۔ بےدین اور ناراست لوگوں کو اپنے رویے کیلئے ”کچھ عذر باقی نہیں“ کیونکہ خدا کی اَندیکھی صفتیں اُسکی بنائی ہوئی چیزوں سے صاف ظاہر ہوتی ہیں۔
۲:۲۸؛ ۳:۲،۱؛ ۷:۶، ۷۔ پولس رسول جب یہودیوں کے بارے میں ایسی بات کہتا جس پر وہ ناراض ہو سکتے تھے تو اِس کے فوراً بعد وہ بڑی نرمی سے کوئی ایسی بات کہتا جس سے اُن کی عزتافزائی ہوتی۔ ہم اُس کی مثال سے ایسے معاملات پر نرمی اور سلیقے سے بات کرنا سیکھتے ہیں جنہیں دوسرے بُرا مان سکتے ہیں۔
۳:۴۔ جب کسی انسان کی باتوں اور خدا کے کلام میں اختلاف پایا جاتا ہے تو خدا ہمیشہ ’سچا ٹھہرتا ہے۔‘ اس لئے ہم بائبل پر بھروسہ رکھتے اور خدا کی مرضی پر چلتے ہیں۔ جب ہم بادشاہت کی خوشخبری سنانے اور شاگرد بنانے کے کام میں بڑے جوش سے حصہ لیتے ہیں تو ہم دوسروں کو بھی اِس بات کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں کہ خدا ہمیشہ سچا ٹھہرتا ہے۔
۴:۹-۱۲۔ ابرہام نے ۹۹ سال کی عمر میں ختنہ کروایا تھا۔ لیکن ابرہام کا ایمان اُس کے لئے اِس سے بہت عرصہ پہلے راستبازی گنا گیا یعنی جب وہ نامختونی کی حالت میں تھا۔ (پید ۱۲:۴؛ ۱۵:۶؛ ۱۶:۳؛ ۱۷:۱، ۹، ۱۰) یہوواہ خدا نے اِس مؤثر طریقے سے ظاہر کِیا کہ انسان اُس کی نظروں میں ایمان کے ذریعے راستباز ٹھہر سکتے ہیں۔
۴:۱۸۔ اُمید ہمارے ایمان کا اہم عنصر ہے۔ یہاں تک کہ یہ ایمان کی بنیاد ہے۔—عبر ۱۱:۱۔
۵:۱۸، ۱۹۔ پولس نے یسوع مسیح اور آدم میں پائی جانے والی مشابہت کو واضح کرنے کے لئے ایسی دلیلیں پیش کیں جو آسانی سے سمجھ میں آتی ہیں۔ ایسا کرنے سے اُس نے اِس بات کی وضاحت کی کہ ایک آدمی کس طرح ”اپنی جان بہتیروں کے بدلے فدیہ میں دے“ سکا۔ (متی ۲۰:۲۸) پولس کی طرح ہمیں بھی دوسروں کو تعلیم دیتے وقت ایسی دلیلیں پیش کرنی چاہئیں جو آسانی سے سمجھ میں آئیں۔—۱-کر ۴:۱۷۔
۷:۲۳۔ ہمارے اعضا، مثلاً ہاتھ، ٹانگیں اور زبان ہمیں ”گُناہ کی شریعت کی قید میں“ لے جا سکتے ہیں۔ اس لئے ہمیں اِس بات سے خبردار رہنا چاہئے کہ ہم اپنے اعضا کو کیسے استعمال کرتے ہیں۔
۸:۲۶، ۲۷۔ جب ہم بہت ہی پریشان ہوتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ ہم کس بات کے لئے دُعا کریں تو خدا کی پاک ’روح خود ہماری سفارش کرتی ہے۔‘ (کیتھولک ترجمہ) پھر یہوواہ خدا بائبل میں درج دُعاؤں کو ہماری خاطر قبول کرتا ہے گویا یہ ہماری اپنی دُعائیں ہوں۔ جیہاں، یہوواہ خدا واقعی ’دُعا کا سننے والا‘ ہے۔—زبور ۶۵:۲۔
۸:۳۸، ۳۹۔ یہوواہ خدا ہم سے محبت کرتا رہے گا چاہے ہم پر کتنی ہی مصیبتیں کیوں نہ آئیں یاپھر شیطان کے بُرے فرشتے اور انسانی حکومتیں ہمیں کتنی ہی اذیت کیوں نہ پہنچائیں۔ لہٰذا، ہمیں بھی ہر صورتحال میں یہوواہ خدا سے محبت کرتے رہنا چاہئے۔
۹:۲۲-۲۸؛ ۱۱:۱، ۵، ۱۷-۲۶۔ بہت سی پیشینگوئیوں میں بتایا گیا تھا کہ بنیاسرائیل اسیری سے لوٹ کر سچی عبادت کو دوبارہ سے قائم کریں گے۔ اِن میں سے زیادہتر پیشینگوئیاں ممسوح مسیحیوں کی کلیسیا میں بھی تکمیل پائیں۔ اِس کلیسیا کے اراکین کو ”نہ فقط یہودیوں میں سے بلکہ غیرقوموں میں سے بھی بلایا“ گیا۔
۱۰:۱۰، ۱۳، ۱۴۔ اگر ہم یہوواہ خدا اور اپنے پڑوسیوں سے محبت رکھنے کے ساتھ ساتھ خدا اور اُس کے وعدوں پر ایمان بھی رکھتے ہیں تو ہم بڑے جوش سے خوشخبری کی منادی کریں گے۔
۱۱:۱۶-۲۴، ۳۳۔ یہوواہ خدا ہمیشہ مناسب حد تک ”مہربانی اور سختی“ کرتا ہے۔ واقعی، ”وہ وہی چٹان ہے۔ اُس کی صنعت کامل ہے۔ کیونکہ اُس کی سب راہیں انصاف کی ہیں۔“—است ۳۲:۴۔
راستباز ٹھہرائے جانے پر ہمارا چالچلن کیسا ہونا چاہئے؟
(روم ۱۲:۱–۱۶:۲۷)
اِس بات کو واضح کرنے کے بعد کہ مسیحیوں کو اپنے ایمان کی بِنا پر راستباز ٹھہرایا جاتا ہے پولس نے لکھا: ”پس اَے بھائیو! مَیں خدا کی رحمتیں یاد دِلا کر تُم سے التماس کرتا ہوں کہ اپنے بدن ایسی قربانی ہونے کے لئے نذر کرو جو زندہ اور پاک اور خدا کو پسندیدہ ہو۔“ (روم ۱۲:۱) اِس نصیحت کو لفظ ”پس“ کے ساتھ شروع کرنے سے اُس نے ظاہر کِیا کہ ایمان کی بِنا پر راستباز ٹھہرائے جانے کے نتیجے میں اُنہیں اپنی سوچ میں تبدیلیاں لانی چاہئیں، خاص طور پر اپنے بارے میں، دوسروں کے بارے میں اور انسانی حکومتوں کے بارے میں۔
پولس نے آگے لکھا: ”مَیں . . . تُم میں سے ہر ایک سے کہتا ہوں کہ جیسا سمجھنا چاہئے اُس سے زیادہ کوئی اپنے آپ کو نہ سمجھے۔ . . . محبت بےریا ہو۔“ (روم ۱۲:۳، ۹) ”ہر شخص اعلےٰ حکومتوں کا تابعدار رہے۔“ (روم ۱۳:۱) جہاں تک ایسے معاملات کا تعلق ہے جن میں ہر شخص کو اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کرنا ہے، پولس نے یہ نصیحت کی کہ ”ایک دوسرے پر الزام نہ لگائیں۔“—روم ۱۴:۱۳۔
صحیفائی سوالات کے جواب:
۱۲:۲۰—ہم اپنے دُشمنوں کے ”سر پر آگ کے انگاروں کا ڈھیر“ کیسے لگا سکتے ہیں؟ پُرانے زمانے میں جب کچی دھات کو بھٹی میں ڈالا جاتا تو نہ صرف اِس کے نیچے بلکہ اِس کے اُوپر بھی کوئلے ڈالے جاتے۔ چونکہ دھات کے اُوپر تپش بہت زیادہ ہوتی اس لئے دھات جلدی پگھل جاتی اور اِس میں سے فضلہ نکل آتا۔ اسی طرح جب ہم کسی مخالف کے ساتھ مہربانی اور ادب سے پیش آتے ہیں تو اُس کا دل نرم ہو جاتا ہے اور اُس کی خوبیاں نمایاں ہوتی ہیں۔
۱۲:۲۱—ہم ”نیکی کے ذریعہ سے بدی پر غالب“ کیسے آ سکتے ہیں؟ ایسا کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم بادشاہت کی مُنادی کرنے کے حکم پر بِلاجھجھک عمل کریں۔—مر ۱۳:۱۰۔
۱۳:۱—اعلیٰ حکومتیں کس لحاظ سے ”خدا کی طرف سے مقرر ہیں“؟ وہ خدا کی اجازت سے ہی حکومت کرتی ہیں۔ اور بعض اوقات خدا کو پہلے سے ہی علم تھا کہ کونسی حکومت آئے گی۔ یہ اِس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بائبل میں کئی حکمرانوں کے آنے کے بارے میں پیشینگوئی کی گئی تھی۔
ہمارے لئے سبق:
۱۲:۱۷، ۱۹۔ جب ہم بدی کا نشانہ بنتے وقت انتقام لیتے ہیں تو اِس کا مطلب ہے کہ ہم ایک ایسا کام کرنے کی گستاخی کر رہے ہیں جو دراصل خدا کا کام ہے۔ اس لئے ہم ’بدی کے عوض کسی سے بدی نہیں کریں گے۔‘
۱۴:۱۴، ۱۵۔ ہمیں کسی بہن یا بھائی کو کھانے یا پینے کی کوئی ایسی چیز نہیں پیش کرنی چاہئے جس سے اُسے رنج پہنچے یا وہ ٹھوکر کھائے۔
۱۴:۱۷۔ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے یہ بات زیادہ اہمیت نہیں رکھتی کہ ہم کیا کھاتےپیتے ہیں یا کن چیزوں سے پرہیز کرتے ہیں بلکہ اُس کی خوشنودی اِس سے حاصل ہوتی ہے کہ ہم صلاح رکھیں، خوشی کو فروغ دیں اور راستباز بنیں۔
۱۵:۷۔ ہمیں تعصب کئے بغیر ہر ایسے شخص کو کلیسیا میں شامل کرنا چاہئے جو سچائی کی تلاش میں ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں تمام لوگوں کو خدا کی بادشاہت کے بارے میں بتانا چاہئے۔
[صفحہ ۳۱ پر تصویر]
کیا یسوع مسیح کی قربانی سے ایسے لوگوں کے گُناہوں کی معافی بھی ممکن ہوئی جو یسوع کی موت سے صدیوں پہلے زندہ تھے؟