سب لوگوں کو گواہی دینے کا عزم کریں
”اُس نے ہمیں حکم دیا کہ اُمت میں مُنادی کرو اور گواہی دو۔“—اعما ۱۰:۴۲۔
۱. کرنیلیس سے بات کرتے ہوئے پطرس رسول نے کس حکم کا ذکر کِیا؟
رومی فوج کا صوبہدار کرنیلیس راستباز اور خداترس آدمی تھا۔ اُس نے اپنے رشتہداروں اور دوستوں کو اپنے گھر میں جمع کِیا ہوا تھا۔ پطرس رسول بھی وہاں موجود تھا۔ اُس نے اِن لوگوں کو بتایا کہ یسوع کے بارے میں ’مُنادی کرنے اور گواہی دینے‘ کا حکم ۱۲ رسولوں کو دیا گیا تھا۔ اِس موقعے پر پطرس رسول کی گواہی کا بہت ہی شاندار نتیجہ نکلا۔ یہ پہلی بار تھی کہ نامختون لوگوں پر خدا کی پاک روح نازل ہوئی، اُنہوں نے بپتسمہ لیا اور اُنہیں آسمان پر یسوع کے ساتھ حکمرانی کرنے کا موقع دیا گیا۔ یہ خدا کے خادموں کے لئے ایک تاریخی واقعہ تھا۔—اعما ۱۰:۲۲، ۳۴-۴۸۔
۲. ہم کیسے جانتے ہیں کہ گواہی دینے کا حکم ۱۲ رسولوں کے علاوہ دوسروں کو بھی دیا گیا؟
۲ یہ واقعہ ۳۶ عیسوی میں پیش آیا۔ اِس کے تقریباً دو سال پہلے ترسس کے ساؤل کی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی آئی۔ وہ مسیحیوں کو اذیت پہنچانے کے لئے دمشق کا سفر کر رہا تھا کہ راستے میں یسوع اُس پر ظاہر ہوا۔ یسوع نے اُس سے کہا: ”اُٹھ شہر میں جا اور جو تجھے کرنا چاہئے وہ تجھ سے کہا جائے گا۔“ بعد میں یسوع نے حننیاہ نامی شاگرد کو بتایا کہ ساؤل ”قوموں بادشاہوں اور بنیاسرائیل“ کو گواہی دینے کے لئے چُنا گیا ہے۔ (اعمال ۹:۳-۶، ۱۳-۲۰ کو پڑھیں۔) حننیاہ نے ساؤل سے کہا: ”ہمارے باپدادا کے خدا نے تجھ کو اس لئے مقرر کِیا ہے . . . کیونکہ تُو اُس کی طرف سے سب آدمیوں کے سامنے اُن باتوں کا گواہ ہوگا جو تُو نے دیکھی اور سنی ہیں۔“ (اعما ۲۲:۱۲-۱۶) ساؤل جو بعد میں پولس کے نام سے مشہور ہو گیا، اُس نے یسوع کے بارے میں گواہی دینے کو کتنا اہم خیال کِیا؟
اُس نے سب آدمیوں کو گواہی دی
۳. (ا) ہم پولس رسول کی زندگی کے کس واقعے پر غور کریں گے؟ (ب) افسس کے بزرگوں نے پولس رسول کے پیغام کو سُن کر کیا کِیاہوگا؟ (ج) ہم اِن کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۳ اِس واقعے کے بعد پولس کی زندگی میں بہت سے دلچسپ واقعے پیش آئے۔ آئیں ہم اعمال ۲۰ باب میں درج ایک ایسے واقعے پر غور کرتے ہیں۔ یہ پولس رسول کے تیسرے دورے کے اختتام پر یعنی ۵۶ عیسوی میں پیش آیا۔ پولس رسول میلیتُس کی بندرگاہ میں پہنچ گیا تھا۔ وہاں سے اُس نے افسس کی کلیسیا کے بزرگوں کو اپنے پاس بلایا۔ شہر افسس وہاں سے تقریباً ۵۰ کلومیٹر [۳۰ میل] دُور تھا۔ البتہ بل کھاتی سڑکوں پر یہ راستہ اَور بھی لمبا تھا۔ پولس رسول کا پیغام سُن کر اِن بزرگوں کو بڑی خوشی ہوئی ہوگی۔ (امثال ۱۰:۲۸ پر غور کریں۔) لیکن میلیتُس کا سفر کرنے کا بندوبست بنانا اتنا آسان نہ تھا۔ شاید اُن میں سے بعض کو اپنی نوکری سے چھٹی لینی پڑی یا اپنی دُکانوں کو بند کرنا پڑا۔ آج بھی مسیحیوں کو کنونشن کے پورے پروگرام پر حاضر ہونے کے لئے بھی اکثر چھٹی لینی پڑتی ہے۔
۴. جب پولس رسول کچھ سال کے لئے افسس میں رہا تو اُس نے کونسا معمول قائم کِیا؟
۴ اُن بزرگوں کو میلیتُس پہنچنے میں تین چار دن لگے ہوں گے۔ آپ کے خیال میں اِس عرصے کے دوران پولس رسول نے کیا کِیا ہوگا؟ اُس کی جگہ آپ کیا کرتے؟ (اعمال ۱۷:۱۶، ۱۷ پر غور کریں۔) پولس رسول نے خوشخبری کی گواہی دی۔ یہ بات اِس تقریر سے ظاہر ہوتی ہے جو اُس نے افسس کے بزرگوں کے سامنے پیش کی۔ اُس نے اُنہیں یاد دلایا کہ جب وہ ۵۲-۵۵ عیسوی میں افسس کے شہر میں رہتا تھا تو اُس نے کونسا معمول قائم کِیا تھا۔ (اعمال ۲۰:۱۸-۲۱ کو پڑھیں۔) پولس رسول نے کہا: ”تُم خود جانتے ہو کہ پہلے ہی دن سے کہ مَیں نے آسیہؔ میں قدم رکھا . . . [مَیں] گواہی دیتا رہا۔“ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ گواہی دینے کے حکم کو بہت اہم خیال کرتا تھا۔ اُس نے افسس کے شہر میں اِس حکم کو بجا لانے کے لئے کونسے طریقے اپنائے؟ پہلے تو وہ یہودیوں کو گواہی دینے کے لئے وہاں گیا جہاں یہودی عام طور پر جمع ہوتے تھے۔ لوقا نے بتایا کہ پولس رسول افسس میں ’عبادتخانہ میں جا کر دلیری سے خدا کی بادشاہی کی بابت بحث کرتا اور لوگوں کو قائل کرتا رہا۔‘ جب یہودیوں میں سے ’بعض سخت دل ہو گئے‘ تو پولس رسول شہر کے دوسرے علاقوں میں گواہی دینے لگا۔ اس طرح اُس نے اُس بڑے شہر میں یہودیوں اور یونانیوں کو خوشخبری کی گواہی دی۔—اعما ۱۹:۱، ۸، ۹۔
۵، ۶. ہم کیسے جانتے ہیں کہ پولس رسول نے گھرگھر سکھانے کا کام غیرمسیحیوں میں انجام دیا تھا؟
۵ پولس رسول کی گواہی کی وجہ سے افسس کے بہت سے باشندے مسیحی بن گئے۔ اُن میں سے کچھ بعد میں کلیسیا کے بزرگ مقرر کئے گئے۔ یہی بزرگ پولس رسول سے ملنے کے لئے میلیتُس آئے۔ پولس رسول نے اُن کو یاد دلایا کہ اُس نے گواہی دینے کے کونسے طریقے اپنائے تھے۔ اُس نے کہا: ”جو جو باتیں تمہارے فائدہ کی تھیں اُن کے بیان کرنے اور علانیہ اور گھرگھر سکھانے سے [مَیں] کبھی نہ جھجکا۔“ کئی لوگو ں کا دعویٰ ہے کہ پولس اِس آیت میں محض کلیسیا کے اراکین سے ملاقات کرنے کے بارے میں بات کر رہا تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ اگلی ہی آیت میں پولس رسول نے کہا کہ وہ ”یہودیوں اور یونانیوں کے رُوبرو گواہی دیتا رہا کہ [اُنہیں] خدا کے سامنے توبہ کرنا اور ہمارے خداوند یسوؔع مسیح پر ایمان لانا چاہئے۔“ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولس رسول نے ”علانیہ اور گھرگھر سکھانے“ کا کام غیرمسیحیوں میں انجام دیا تھا کیونکہ اُنہی کو توبہ کرنے اور یسوع مسیح پر ایمان لانے کی ضرورت تھی۔—اعما ۲۰:۲۰، ۲۱۔
۶ یونانی صحائف پر تحقیق کرنے والے ایک عالم نے ۱عمال ۲۰:۲۰ کے بارے میں کہا: ”پولس تین سال تک افسس میں رہا۔ اُس نے افسس کے ایک ایک گھر میں جا کر سب لوگوں کو گواہی دی (آیت ۲۶) ۔ اِس صحیفے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسیحیوں کو اجلاس منعقد کرنے کے علاوہ گھرگھر بھی جا کر خوشخبری سنانی چاہئے۔“ ہم یہ نہیں جانتے کہ آیا پولس رسول نے واقعی ہر ایک گھر میں منادی کی یا نہیں۔ بہرحال وہ نہیں چاہتا تھا کہ افسس کے بزرگ اُن طریقوں کو بھول جائیں جو اُس نے گواہی دینے کے لئے اپنائے تھے۔ یہ طریقے بہت ہی کامیاب ثابت ہوئے تھے۔ لوقا نے لکھا: ”آسیہؔ کے رہنے والوں کیا یہودی کیا یونانی سب نے خداوند کا کلام سنا۔“ (اعما ۱۹:۱۰) یہ کیسے ممکن تھا کہ آسیہ کے ”سب“ رہنے والوں نے خوشخبری سنی؟ اِس سے ہم گواہی دینے کے سلسلے میں کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۷. پولس رسول کے سننے والوں کے علاوہ اَور کس نے اُس کی گواہی سے فائدہ حاصل کِیا ہوگا؟
۷ چونکہ پولس رسول گھرگھر جا کر اور دوسرے موقعوں پر بھی گواہی دیتا تھا اس لئے بہت سے لوگوں نے خوشخبری سنی۔ اِن میں سے سب لوگ افسس میں نہیں رہے ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کہ اُن میں سے بعض کاروبار کے لئے یا رشتہداروں کی خاطر کسی اَور علاقے میں جا کر رہنے لگے۔ آج بھی بہت سے لوگ ایسی ہی وجوہات کی بِنا پر دوسرے علاقوں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ شاید یہ آپ کے بارے میں بھی سچ ہے۔ پولس رسول کے زمانے میں بہت سے لوگ تفریح یا کاروبار کے سلسلے میں شہر افسس کا رُخ کرتے۔ ہو سکتا ہے کہ وہاں اُن کی ملاقات پولس رسول سے ہوئی ہو۔ اپنے شہر لوٹ کر اُنہوں نے کیا کِیا ہوگا؟ جو لوگ مسیحی بن گئے تھے اُنہوں نے اپنے علاقے میں رہنے والے لوگوں کو گواہی دی ہوگی۔ جو لوگ مسیحی نہیں بنے تھے ہو سکتا ہے کہ وہ بھی گھر لوٹ کر دوسروں کو اِن باتوں کے بارے میں بتانے لگے جو اُنہوں نے افسس میں سنی تھیں۔ اِس طرح اُن کے رشتہداروں، پڑوسیوں اور گاہکوں نے بھی سچائی کے بارے میں سنا ہوگا اور اُن میں سے بعض مسیحی بن گئے ہوں گے۔ (مرقس ۵:۱۴ پر غور کریں۔) جب ہم سب لوگوں کو گواہی دیتے ہیں تو اِس کے کیا نتیجے نکل سکتے ہیں؟
۸. آسیہ کے علاقے میں رہنے والے لوگوں نے خوشخبری کیسے سنی ہوگی؟
۸ جب پولس رسول افسس میں تھا تو اُس نے لکھا: ”یہاں میرے لئے منادی کرنے کا ایک وسیع دروازہ کھلا ہوا ہے۔“ (۱-کر ۱۶:۸، ۹، نیو اُردو بائبل ورشن) اِس کا کیا مطلب تھا؟ پولس رسول افسس میں رہ کر دوسرے شہروں میں بھی خوشخبری سنانے کے کام کو فروغ دے سکتا تھا۔ مثال کے طور پر افسس کے نزدیک کُلسّے، لودیکیہ اور ہیراپلس کے شہر واقع تھے۔ حالانکہ پولس رسول خود اِن شہروں کو نہیں گیا لیکن اِن میں بھی خوشخبری سنائی گئی۔ اِپفراس اُس علاقے سے تھا۔ (کل ۲:۱؛ ۴:۱۲، ۱۳) کیا اِپفراس، افسس کے شہر میں پولس رسول کی گواہی سُن کر مسیحی بن گیا تھا؟ بائبل میں اِس کے بارے میں نہیں بتایا گیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پولس رسول نے اِپفراس کو اِن شہروں میں منادی کرنے کے لئے بھیجا ہو۔ (کل ۱:۷) اس کے علاوہ ہو سکتا ہے کہ فلدلفیہ، سردیس اور تھواتیرہ کے شہروں میں بھی خوشخبری اُس وقت سنائی جانے لگی جب پولس رسول افسس میں تھا۔
۹. (ا) پولس رسول کونسی دلی خواہش رکھتا تھا؟ (ب) سن ۲۰۰۹ کی سالانہ آیت کیا ہے؟
۹ لہٰذا افسس کی کلیسیا کے بزرگ جانتے تھے کہ پولس رسول اپنی اِس بات پر پورا اُتریگا: ”مَیں اپنی جان کو عزیز نہیں سمجھتا کہ اُسکی کچھ قدر کروں بمقابلہ اِس کے کہ اپنا دَور اور وہ خدمت جو خداوند یسوؔع سے پائی ہے پوری کروں یعنی خدا کے فضل کی خوشخبری کی گواہی دوں۔“ پولس رسول کے اِس بیان سے سن ۲۰۰۹ کی سالانہ آیت لی گئی ہے: ’خوشخبری کی گواہی دیں۔‘—اعما ۲۰:۲۴۔
آج بھی سب لوگوں کو گواہی دی جا رہی ہے
۱۰. ہم کیسے جانتے ہیں کہ گواہی دینے کا حکم آج بھی سچے مسیحیوں پر لاگو ہوتا ہے؟
۱۰ ’اُمت میں مُنادی کرنے اور گواہی دینے‘ کا حکم رسولوں کے علاوہ دوسرے مسیحیوں کو بھی دیا گیا۔ جب یسوع مسیح نے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد اپنے شاگردوں کو گلیل بلایا تو ہو سکتا ہے کہ ۵۰۰ شاگرد وہاں جمع ہوئے ہوں۔ یسوع نے اُن سے کہا: ”تُم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ اور اُن کو باپ اور بیٹے اور روحُالقدس کے نام سے بپتسمہ دو۔ اور اُن کو یہ تعلیم دو کہ اُن سب باتوں پر عمل کریں جن کا مَیں نے تُم کو حکم دیا۔“ ہم جانتے ہیں کہ یہ حکم آج بھی سچے مسیحیوں پر لاگو ہوتا ہے کیونکہ یسوع مسیح نے آگے کہا: ”دیکھو مَیں دُنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔“—متی ۲۸:۱۹، ۲۰۔
۱۱. یہوواہ کے گواہ کس کام کے لئے مشہور ہیں؟
۱۱ سچے مسیحی یسوع کے حکم پر عمل کرتے ہوئے ”خوشخبری کی گواہی“ دینے میں مصروف ہیں۔ ایسا کرنے کے لئے وہ خاص طور پر اُس طریقے کو اپناتے ہیں جس کا ذکر پولس رسول نے افسس کے بزرگوں سے کِیا تھا یعنی گھرگھر جا کر خوشخبری سنانے کا طریقہ۔ سن ۲۰۰۷ میں ایک مصنف نے مشنری خدمت کے مضمون پر اپنی کتاب میں لکھا: ”یہوواہ کے گواہ اپنے اراکین کو بائبل کی تعلیم دینا سکھاتے ہیں جبکہ دوسرے چرچ اپنے ممبران کو بائبل کی تعلیم دینے کے سلسلے میں کوئی واضح ہدایت نہیں دیتے ہیں۔ زیادہتر یہوواہ کے گواہ بڑے شوق سے دوسروں کو اپنے ایمان کے بارے میں بتاتے ہیں اور یہ طریقہ بڑا کامیاب رہا ہے۔“ اِسی مصنف نے آگے کہا: ”جب مَیں نے سن ۱۹۹۹ میں مشرقی یورپ کے دو بڑے شہروں کے باشندوں کا جائزہ لیا تو اُن میں سے صرف ۲ تا ۴ فیصد لوگوں نے بتایا کہ مورمن چرچ کے مشنریوں نے اُن کے ساتھ اپنے ایمان پر باتچیت کی۔ لیکن ۷۰ فیصد سے زیادہ لوگوں نے کہا کہ یہوواہ کے گواہوں نے اُن کے ساتھ بائبل پر بات کی اور اُنہوں نے صرف ایک بار نہیں بلکہ باربار ایسا کِیا۔“
۱۲. (ا) ہم اپنے علاقے میں رہنے والے لوگوں کو باربار گواہی کیوں دیتے ہیں؟ (ب) ایک ایسے شخص کا تجربہ بیان کریں جس نے شروع میں خوشخبری میں دلچسپی نہیں لی لیکن بعد میں اُس کے رویے میں تبدیلی آئی۔
۱۲ شاید آپ کے علاقے میں بھی لوگ یہوواہ کے گواہوں کے بارے میں کچھ اسی طرح کی بات کہیں۔ یقیناً آپ نے بھی گھرگھر جا کر آدمیوں، عورتوں اور نوجوانوں کے ساتھ بائبل کے بارے میں باتچیت کی ہے۔ جب آپ نے ”خوشخبری کی گواہی“ دی تو لوگوں نے مختلف ردِعمل دکھایا۔ ہو سکتا ہے کہ اِن میں سے کئی لوگوں نے آپ کی باتوں پر دھیان نہیں دیا حالانکہ آپ نے اُن سے باربار بات کرنے کی کوشش کی۔ دوسروں نے شاید اُن حوالوں کو توجہ سے سنا ہو جو آپ نے اُن کو بائبل میں سے پڑھ کر سنائے۔ لیکن ایسے بھی لوگ تھے جنہوں نے آپ کی باتوں پر نہ صرف دھیان دیا بلکہ اِن کو قبول بھی کِیا۔ آپ نے شاید یہ بھی دیکھا ہوگا کہ کئی لوگوں نے شروع میں خوشخبری میں دلچسپی نہیں لی لیکن جب آپ نے باربار اُن سے ملاقات کی تو اُن کے رویے میں تبدیلی آئی۔ ہو سکتا ہے کہ اُن کی یا اُن کے عزیزوں کی زندگی میں کوئی نہ کوئی واقعہ پیش آیا ہو جس کی وجہ سے سچائی اُن کے دل تک پہنچ گئی اور اب وہ ہمارے ساتھ یہوواہ خدا کی عبادت کر رہے ہیں۔ ہم ایسے تجربوں سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ اگر آپ کے علاقے میں کم ہی لوگ خوشخبری کو قبول کرتے ہیں تو ہمت نہ ہاریں۔ ہم اِس بات کی توقع نہیں کرتے کہ سب لوگ سچائی کو قبول کریں گے۔ لیکن یہوواہ خدا ہم سے یہ توقع رکھتا ہے کہ ہم سب لوگوں کو گواہی دیں۔
گواہی دینے کے موقعوں کو ہاتھ سے نکلنے نہ دیں
۱۳. یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمارے جانے بغیر ہی ہماری گواہی کے اچھے نتائج نکلیں؟
۱۳ پولس رسول کی گواہی کے نتیجے میں صرف وہ لوگ ہی مسیحی نہیں بنے جن سے اُس نے براہِراست بات کی۔ یہی بات ہماری گواہی کے بارے میں بھی سچ ہے۔ ہم باقاعدگی سے گھرگھر جا کر لوگوں کو خوشخبری سناتے ہیں۔ ہم اپنے پڑوسیوں، ساتھی کارکنوں، ہمجماعتوں اور رشتہداروں کے ساتھ بائبل کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ ہمیں یہ معلوم نہیں کہ اِس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ کئی لوگ بہت جلد سچائی کو قبول کر لیتے ہیں۔ لیکن بعض لوگوں کے دل میں سچائی کا بیج پڑا رہتا ہے اور کچھ عرصے کے بعد ہی جڑ پکڑتا ہے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو خود تو سچائی کو قبول نہیں کرتے لیکن دوسروں کے ساتھ یہوواہ کے گواہوں کے اچھے چالچلن اور اُن کے عقیدوں کے بارے میں باتچیت کرتے ہیں۔ اس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ غیرارادی طور پر دوسروں کے دلوں میں سچائی کے بیج بوئیں۔
۱۴، ۱۵. ایک بھائی کی گواہی کا کونسا نتیجہ نکلا؟
۱۴ اِس سلسلے میں ایک مثال پر غور کریں۔ رائین اور اُس کی بیوی مینڈی امریکہ کی ریاست فلوریڈا میں رہتے ہیں۔ رائین نے اپنے ساتھ ملازمت کرنے والے ایک ایسے شخص کو گواہی دی جو ہندو مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ شخص اِس بات سے بہت متاثر تھا کہ رائین ہمیشہ باادب انداز میں بات کرتا اور اُس کا لباس صافستھرا ہوتا۔ رائین نے اُس شخص کے ساتھ مُردوں کی حالت اور مُردوں کے جی اُٹھنے کے بارے میں بات کی۔ جنوری کی ایک شام کو اِس شخص نے اپنی بیوی جوڈی سے پوچھا کہ آپ یہوواہ کے گواہوں کے بارے میں کیا کچھ جانتی ہیں؟ جوڈی کا تعلق کیتھولک مذہب سے تھا۔ اُس نے کہا کہ وہ یہوواہ کے گواہوں کے بارے میں صرف یہ جانتی ہے کہ ”وہ گھرگھر جا کر کلام سناتے ہیں۔“ پھر جوڈی نے انٹرنیٹ میں اصطلاح ”یہوواہ کے گواہ“ (انگریزی زبان میں) ڈالی۔ اس طرح اُسے ہمارا ویبسائٹ org.watchtower.www ملا۔ کئی مہینوں تک جوڈی اِس ویبسائٹ پر بائبل کے بارے میں مضامین پڑھتی رہی۔
۱۵ پھر جوڈی کی ملاقات رائین کی بیوی مینڈی سے ہوئی جو اُس کی طرح نرس تھی۔ جوڈی نے مینڈی سے بائبل کے بارے میں بہت سے سوال کئے۔ ایک دن اُنہوں نے دیر تک بائبل کے مختلف موضوعات پر باتچیت کی جس کے بعد جوڈی نے بائبل کا مطالعہ کرنے کی پیشکش قبول کر لی۔ جلد ہی وہ اجلاسوں پر حاضر ہونے لگی۔ اکتوبر میں جوڈی غیربپتسمہیافتہ مبشر بن گئی۔ پھر فروری میں اُس نے بپتسمہ لے لیا۔ اُس نے لکھا: ”جب سے مَیں نے سچائی کے بارے میں سیکھا ہے مَیں بہت خوش ہوں اور میری زندگی بامقصد بن گئی ہے۔“
۱۶. رائین نامی بھائی کے تجربے سے آپ سب لوگوں کو گواہی دینے کی اہمیت کے سلسلے میں کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۱۶ رائین کو اِس بات کا گمان ہی نہ تھا کہ اپنے ساتھی کارکن کو ”خوشخبری کی گواہی“ دینے سے کوئی اَور شخص سچائی کو قبول کر لے گا۔ یہ سچ ہے کہ رائین کو بعد میں پتہ چل گیا کہ اُس کی گواہی کا کیا نتیجہ نکلا لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ رائین کی طرح کیا آپ بھی سب لوگوں کو گواہی دینے کا عزم رکھتے ہیں؟ جب آپ لوگوں کو اُن کے گھروں میں، ملازمت کی جگہ پر، سکول میں یاپھر دوسرے موقعوں پر گواہی دیتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ کسی دوسرے شخص کو اِس کے بارے میں بتائیں۔ جب پولس رسول نے ”آسیہؔ کے رہنے والوں“ میں منادی کی تو اُسے معلوم نہ تھا کہ اِس کا کیا نتیجہ نکلا۔ اسی طرح آپ بھی نہیں جانتے کہ آپ کی گواہی دینے کے کونسے خوشکُن نتیجے نکلے ہیں۔ (اعمال ۲۳:۱۱؛ ۲۸:۲۳ کو پڑھیں۔) اِس لئے گواہی دینے کے موقعوں کو ہاتھ سے نکلنے نہ دیں۔
۱۷. سن ۲۰۰۹ کے دوران آپ نے کیا کرنے کا عزم کِیا ہے؟
۱۷ دُعا ہے کہ سن ۲۰۰۹ کے دوران ہم سب گواہی دینے کے حکم پر عمل کرتے ہوئے گھرگھر جا کر اور دوسرے طریقوں سے بھی لوگوں کو خوشخبری سناتے رہیں۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو پولس رسول کی طرح ہم بھی کہہ سکیں گے: ”مَیں اپنی جان کو عزیز نہیں سمجھتا کہ اُس کی کچھ قدر کروں بمقابلہ اِس کے کہ اپنا دَور اور وہ خدمت جو خداوند یسوؔع سے پائی ہے پوری کروں یعنی خدا کے فضل کی خوشخبری کی گواہی دوں۔“
آپ کا جواب کیا ہوگا؟
• پطرس رسول، پولس رسول اور دوسرے مسیحیوں نے کس پیمانے پر خوشخبری کی گواہی دی؟
• یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمارے گواہی دینے کے ایسے نتائج نکلیں جن سے ہم واقف نہ ہوں؟
• سن ۲۰۰۹ کی سالانہ آیت کیا ہے اور آپ کے خیال میں اِس کی کیا اہمیت ہے؟
[صفحہ ۲۶ پر عبارت]
سن ۲۰۰۹ کی سالانہ آیت یہ ہے: ’خوشخبری کی گواہی دیں۔‘—اعمال ۲۰:۲۴۔
[صفحہ ۲۴ پر تصویر]
افسس کی کلیسیا کے بزرگ جانتے تھے کہ پولس رسول گھرگھر جا کر خوشخبری سنایا کرتا تھا
[صفحہ ۲۵ پر تصویر]
جب آپ گواہی دینے کے موقعوں کو ہاتھ سے نکلنے نہ دیں گے تو اِس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟