یسوع مسیح کی ہدایات کی قدر کریں
”جِسے خدا نے بھیجا وہ خدا کی باتیں کہتا ہے۔“—یوح ۳:۳۴۔
۱، ۲. (ا) مسیحی، پہاڑی وعظ میں بتائی گئی باتوں کو کیسا خیال کرتے ہیں؟ (ب) ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ وعظ ’خدا کی باتوں‘ پر مبنی ہے؟
دُنیا کے سب سے بڑے ہیروں میں سے ایک ”افریقہ کا ستارہ“ کہلاتا ہے۔ اِس کا وزن ۵۳۰ قیراط ہے۔ یہ ہیرا واقعی بیشقیمت ہے! لیکن مسیحیوں کے نزدیک اِس ہیرے سے کہیں زیادہ قیمتی وہ باتیں ہیں جو یسوع مسیح نے اپنے پہاڑی وعظ میں بتائیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ باتیں یہوواہ خدا کی طرف سے ہیں۔ یسوع مسیح نے کہا: ”جِسے خدا نے بھیجا وہ خدا کی باتیں کہتا ہے۔“—یوح ۳:۳۴-۳۶۔
۲ پہاڑی وعظ بہت مختصر تھا۔ ہو سکتا ہے کہ یسوع کو یہ وعظ پیش کرنے میں آدھا گھنٹا بھی نہ لگا ہو۔ اِس کے باوجود اُس نے اِس وعظ میں عبرانی صحائف کی ۸ کتابوں میں سے ۲۱ حوالے دئے۔ لہٰذا یہ وعظ واقعی ’خدا کی باتوں‘ پر مبنی تھا۔ آئیں دیکھیں کہ ہم اُن باتوں کو اپنی زندگی میں کیسے لاگو کر سکتے ہیں جو یسوع نے اپنے پہاڑی وعظ میں بتائیں۔
”پہلے اپنے بھائی سے ملاپ کر“
۳. شاگردوں کو غصہ کرنے کے بُرے اثرات سے خبردار کرنے کے بعد یسوع نے کونسی ہدایت دی؟
۳ مسیحی اس لئے خوش اور صلحپسند ہیں کیونکہ اُنہیں خدا کی پاک رُوح حاصل ہے۔ اِس رُوح کے پھل میں خوشی اور اطمینان شامل ہیں۔ (گل ۵:۲۲، ۲۳) ہمیں صرف اُس صورت میں اطمینان حاصل ہوگا اگر ہم دوسروں کے ساتھ صلح سے رہیں گے۔ یسوع مسیح جانتا تھا کہ غصہ کرنے سے اُس کے شاگرد خوشی اور اطمینان کھو بیٹھیں گے اور وہ ہمیشہ کی زندگی سے محروم ہو سکتے ہیں۔ اس لئے اُس نے اُنہیں غصہ کرنے سے خبردار کِیا۔ (متی ۵:۲۱، ۲۲ کو پڑھیں۔) اس کے بعد اُس نے یہ ہدایت دی: ”اگر تُو قربانگاہ پر اپنی نذر گذرانتا ہو اور وہاں تجھے یاد آئے کہ میرے بھائی کو مجھ سے کچھ شکایت ہے تو وہیں قربانگاہ کے آگے اپنی نذر چھوڑ دے اور جا کر پہلے اپنے بھائی سے ملاپ کر۔ تب آکر اپنی نذر گذران۔“—متی ۵:۲۳، ۲۴۔
۴، ۵. (ا) جب یسوع نے متی ۵:۲۳، ۲۴ میں ”نذر“ کا ذکر کِیا تو اِس میں کیا کچھ شامل تھا؟ (ب) اپنے بھائی کے ساتھ ملاپ کرنا کتنا اہم ہے؟
۴ جب یسوع نے ”نذر“ کا ذکر کِیا تو وہ ہیکل میں چڑھائی جانے والی ہر قسم کی قربانی کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ اِس میں جانوروں کی قربانیاں بھی شامل تھیں۔ یہ تمام قربانیاں اہم تھیں کیونکہ قربانیاں چڑھانا یہوواہ خدا کی عبادت کا اہم پہلو تھا۔ البتہ یسوع نے کہا کہ اِس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ ایک شخص نذر گزراننے سے پہلے اپنے بھائی کے ساتھ ملاپ کرے۔
۵ ’ملاپ کرنے‘ سے مُراد ”صلح کرنا“ ہے۔ یسوع کی ہدایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم لوگوں کے ساتھ جس طرح کا سلوک کریں گے اِس سے ہم یا تو یہوواہ خدا سے دُور ہو جائیں گے یا پھر اُس کے قریب ہو جائیں گے۔ (۱-یوح ۴:۲۰) قدیم زمانے میں اگر خدا کے خادم دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے تھے تو خدا اُن کی قربانیاں قبول نہیں کرتا۔—میکاہ ۶:۶-۸ کو پڑھیں۔
صلح کرنے میں فروتنی کی اہمیت
۶، ۷. اپنے بھائی سے صلح کرنے کے لئے ہمیں فروتن ہونے کی ضرورت کیوں ہے؟
۶ اپنے بھائی سے صلح کرنے کے لئے ہمیں فروتن ہونے کی ضرورت ہے۔ فروتن شخص اِس بات پر بحث نہیں کرتا کہ کس نے کس کا حق مارا ہے۔ ایسی بحثوتکرار سے بدمزگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ شہر کرنتھس کی کلیسیا میں کچھ ایسی ہی صورتحال پیدا ہوئی تھی۔ پولس رسول نے لکھا: ”دراصل تُم میں بڑا نقص یہ ہے کہ آپس میں مقدمہبازی کرتے ہو۔ ظلم اُٹھانا کیوں نہیں بہتر جانتے؟ اپنا نقصان کیوں نہیں قبول کرتے؟“—۱-کر ۶:۷۔
۷ یسوع نے یہ نہیں کہا کہ ہم اپنے بھائی کو غلط ثابت کرنے کے لئے اُس کے پاس جائیں۔ اِس کی بجائے ہماری یہ کوشش ہونی چاہئے کہ ہم اپنے بھائی کے ساتھ دوبارہ سے اچھے تعلقات قائم کریں۔ اپنے بھائی سے صلح کرنے کے لئے ہمیں اُسے بتانا چاہئے کہ ہم کیسا محسوس کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا چاہئے کہ ہمارے بھائی کو بھی ٹھیس پہنچی ہوگی۔ اور اگر ہم نے غلطی کی ہے تو ہمیں عاجزی سے معافی مانگنی چاہئے۔
”اگر تیری دہنی آنکھ تجھے ٹھوکر کھلائے“
۸. متی ۵:۲۹، ۳۰ میں یسوع کے بیان کا خلاصہ دیں۔
۸ اپنے پہاڑی وعظ میں یسوع نے اچھے اخلاق رکھنے کے سلسلے میں ہدایت دی۔ وہ جانتا تھا کہ انسان عیبدار ہے اور اِس لئے ہمارے اعضا ہمیں گُناہ کی طرف مائل کر سکتے ہیں۔ اِس وجہ سے یسوع نے کہا: ”اگر تیری دہنی آنکھ تجھے ٹھوکر کھلائے تو اُسے نکال کر اپنے پاس سے پھینک دے کیونکہ تیرے لئے یہی بہتر ہے کہ تیرے اعضا میں سے ایک جاتا رہے اور تیرا سارا بدن جہنم میں نہ ڈالا جائے۔ اور اگر تیرا دہنا ہاتھ تجھے ٹھوکر کھلائے تو اُس کو کاٹ کر اپنے پاس سے پھینک دے کیونکہ تیرے لئے یہی بہتر ہے کہ تیرے اعضا میں سے ایک جاتا رہے اور تیرا سارا بدن جہنم میں نہ جائے۔“—متی ۵:۲۹، ۳۰۔
۹. ہماری ”آنکھ“ اور ہمارے ”ہاتھ“ ہمارے لئے ”ٹھوکر“ کا باعث کیسے بن سکتے ہیں؟
۹ جب یسوع نے ”آنکھ“ کا ذکر کِیا تو وہ کسی چیز پر غور کرنے کی ہماری صلاحیت کی طرف اشارہ کر رہا تھا اور ”ہاتھ“ سے وہ اُن کاموں کی طرف اشارہ کر رہا تھا جو ہم اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں۔ اگر ہم خبردار نہیں رہتے تو یہ اعضا ہمارے لئے ”ٹھوکر“ کا باعث بن سکتے ہیں اور ہمیں ’خدا کے ساتھ ساتھ چلنے‘ سے روک سکتے ہیں۔ (پید ۵:۲۲؛ ۶:۹) جب ہماری آنکھ یا ہاتھ ہمیں خدا کی نافرمانی کرنے پر اُکساتے ہیں تو ہمیں علامتی طور پر اِنہیں نکال پھینکنا چاہئے یعنی ہمیں آزمائش سے بچنے کے لئے فوراً قدم اُٹھانے چاہئیں۔
۱۰، ۱۱. جنسی بداخلاقی سے باز رہنے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
۱۰ ہم اپنی آنکھ کو غلط چیزوں پر غور کرنے سے کیسے روک سکتے ہیں؟ خدا کے خادم ایوب نے کہا: ”مَیں نے اپنی آنکھوں سے عہد کِیا ہے۔ پھر مَیں کسی کنواری پر کیونکر نظر کروں؟“ (ایو ۳۱:۱) ایوب شادیشُدہ تھا۔ اُس نے عزم کِیا تھا کہ وہ خدا کے حکموں کی نافرمانی نہیں کرے گا۔ چاہے ہم شادیشُدہ ہوں یا کنوارے، ہمیں بھی یہی عزم کرنا چاہئے۔ جنسی بداخلاقی سے باز رہنے کے لئے ہمیں خدا کی پاک رُوح کی ضرورت ہے جو خدا کے خادموں میں پرہیزگاری پیدا کرتی ہے۔ اِس خوبی کی بِنا پر ہم اپنی غلط خواہشات پر قابو رکھ سکتے ہیں۔—گل ۵:۲۲-۲۵۔
۱۱ جنسی بداخلاقی سے باز رہنے کے لئے ہمیں خود سے یہ سوال پوچھنا چاہئے: ”کیا مَیں اپنی آنکھوں کو اجازت دیتا ہوں کہ وہ کتابوں، ٹیلیویژن اور انٹرنیٹ پر پائے جانے والی گندی باتوں پر غور کریں؟“ یاد رکھیں کہ یسوع کے شاگرد یعقوب نے لکھا تھا: ”ہر شخص اپنی ہی خواہشوں میں کھنچ کر اور پھنس کر آزمایا جاتا ہے۔ پھر خواہش حاملہ ہو کر گُناہ کو جنتی ہے اور گُناہ جب بڑھ چکا تو موت پیدا کرتا ہے۔“ (یعقو ۱:۱۴، ۱۵) اگر یہوواہ کا ایک گواہ مخالف جنس پر ’بُری خواہش سے نگاہ کرتا ہے‘ تو اُسے علامتی طور پر اپنی آنکھ نکال پھینکنی چاہئے یعنی اُسے اپنی سوچ میں بڑی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔—متی ۵:۲۷، ۲۸ کو پڑھیں۔
۱۲. پولس رسول کی کس تاکید پر دھیان دینے سے ہم اپنی غلط خواہشات کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟
۱۲ چونکہ ہم اپنے ہاتھوں کو غلط کاموں کے لئے استعمال کر سکتے ہیں اس لئے یہ بہت اہم ہے کہ ہم خدا کی نظروں میں پاک رہنے کا عزم کریں۔ ہمیں پولس رسول کی اِس تاکید پر دھیان دینا چاہئے: ”اپنے اُن اعضا کو مُردہ کرو جو زمین پر ہیں یعنی حرامکاری اور ناپاکی اور شہوت اور بُری خواہش اور لالچ کو جو بُتپرستی کے برابر ہے۔“ (کل ۳:۵) اصطلاح ’اپنے اعضا کو مُردہ کرنے‘ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں اپنی غلط خواہشات پر غالب آنے کے لئے ڈٹ کر اُن کا مقابلہ کرنا چاہئے۔
۱۳، ۱۴. ہمیں غلط خواہشات اور کاموں کو کیوں ترک کرنا چاہئے؟
۱۳ اگر جسم کا کوئی عضو سڑنے لگے تو زیادہتر لوگ اپنے اِس عضو کو کٹوانے پر راضی ہو جاتے ہیں تاکہ اُن کی جان بچ جائے۔ اسی طرح ہم غلط خواہشات اور کاموں کی وجہ سے ہمیشہ کی زندگی کی اُمید سے محروم ہو سکتے ہیں۔ اِس خطرے سے بچنے کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اپنی آنکھ اور اپنے ہاتھ کو علامتی طور پر ’پھینکنے‘ کو تیار ہوں۔ ہم صرف اُس صورت میں ”جہنم“ یعنی ہمیشہ کی تباہی سے بچ سکتے ہیں اگر ہم جسمانی، ذہنی اور روحانی طور پر پاک رہیں گے۔
۱۴ ہر لحاظ سے پاک رہنا آسان نہیں کیونکہ ہم پیدائش ہی سے گُناہ کی طرف مائل ہیں۔ پولس رسول نے لکھا: ”مَیں اپنے بدن کو مارتا کوٹتا اور اُسے قابو میں رکھتا ہوں ایسا نہ ہو کہ اَوروں میں مُنادی کرکے آپ نامقبول ٹھہروں۔“ (۱-کر ۹:۲۷) آئیں ہم متی ۵:۲۹، ۳۰ میں پائے جانے والی ہدایت پر عمل کرنے کا عزم کریں۔ اِس طرح ہم ایسا کوئی کام نہیں کریں گے جس سے ہم یسوع کے فدیے کے لئے ناشکری ظاہر کریں۔—متی ۲۰:۲۸؛ عبر ۶:۴-۶۔
”دیا کرو“
۱۵، ۱۶. (ا) یسوع مسیح نے فیاضی کی اعلیٰ مثال کیسے قائم کی؟ (ب) لوقا ۶:۳۸ میں یسوع ہمیں کونسا سبق سکھا رہا تھا؟
۱۵ یسوع مسیح نے فیاضی کی عمدہ مثال قائم کی۔ آسمان پر وہ بڑا ”دولتمند“ تھا یعنی اُسے بڑا جلال حاصل تھا لیکن وہ خطاکار انسانوں کی خاطر زمین پر آنے کو تیار تھا۔ (۲-کرنتھیوں ۸:۹ کو پڑھیں۔) یہاں تک کہ اُس نے انسانوں کے لئے اپنی جان بھی قربان کر دی۔ یسوع نے اِن میں سے کچھ انسانوں کو اپنے ہممیراث بننے کا موقع دیا۔ اِس طرح اُنہیں دولتمند بننے یعنی یسوع کے ساتھ آسمان پر حکمرانی کرنے کا موقع ملا۔ (روم ۸:۱۶، ۱۷) یسوع نے اپنے شاگردوں کو ہدایت دی کہ وہ بھی فیاضی سے کام لیں۔ اُس نے کہا:
۱۶ ”دیا کرو۔ تمہیں بھی دیا جائے گا۔ اچھا پیمانہ داب داب کر اور ہلا ہلا کر اور لبریز کرکے تمہارے پلے میں ڈالیں گے کیونکہ جس پیمانہ سے تُم ناپتے ہو اُسی سے تمہارے لئے ناپا جائے گا۔“ (لو ۶:۳۸) اصطلاح ”پلے میں ڈالنا“ سے کیا مُراد ہے؟ پُرانے زمانے میں لوگ کُھلے کُرتے پہنتے تھے جنہیں وہ کمربند کے ساتھ کستے تھے۔ جب وہ سودا خریدتے تھے تو وہ اپنے کُرتے کو کھینچ کر اُس کی جھولی یا پلا بنا لیتے تھے جس میں دُکاندار سودا ڈالتا تھا۔ یسوع مسیح ہمیں یہ سبق سکھا رہا تھا کہ اگر ہم فیاضی سے کام لیں گے تو ضرورت کے وقت لوگ ہمارے ساتھ بھی فیاضی سے پیش آئیں گے۔—واعظ ۱۱:۲۔
۱۷. (ا) یہوواہ خدا نے فیاضی کی بہترین مثال کیسے قائم کی؟ (ب) ہمیں کس نیت سے دوسروں کو دینا چاہئے؟
۱۷ یہوواہ خدا اُن لوگوں سے محبت رکھتا ہے جو خوشی سے دوسروں کو دیتے ہیں اور وہ اُن کو اجر بھی دے گا۔ اُس نے فیاضی کی بہترین مثال قائم کرتے ہوئے ”اپنا اِکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔“ (یوح ۳:۱۶) پولس رسول نے لکھا: ”جو تھوڑا بوتا ہے وہ تھوڑا کاٹے گا اور جو بہت بوتا ہے وہ بہت کاٹے گا۔ جس قدر ہر ایک نے اپنے دل میں ٹھہرایا ہے اُسی قدر دے۔ نہ دریغ کرکے اور نہ لاچاری سے کیونکہ خدا خوشی سے دینے والے کو عزیز رکھتا ہے۔“ (۲-کر ۹:۶، ۷) جب ہم یہوواہ خدا کی خدمت میں اپنا وقت، مال اور توانائی صرف کرتے ہیں تو ہمیں خوشی حاصل ہوتی ہے اور وہ ہمیں برکات سے نوازتا ہے۔—امثال ۱۹:۱۷؛ لوقا ۱۶:۹ کو پڑھیں۔
”اپنے آگے نرسنگا نہ بجوا“
۱۸. ہمیں کس صورت میں خدا کی طرف سے ”کچھ اجر نہیں“ ملے گا؟
۱۸ ”خبردار اپنے راستبازی کے کام آدمیوں کے سامنے دکھانے کے لئے نہ کرو۔ نہیں تو تمہارے باپ کے پاس جو آسمان پر ہے تمہارے لئے کچھ اجر نہیں ہے۔“ (متی ۶:۱) ”راستبازی کے کام“ سے مُراد ایسا چالچلن ہے جو خدا کی مرضی کے مطابق ہو۔ یسوع یہ نہیں کہہ رہا تھا کہ ہمیں دوسروں کے سامنے راستبازی کے کام نہیں کرنے چاہئیں کیونکہ ایک مرتبہ اُس نے اپنے شاگردوں سے کہا: ”تمہاری روشنی آدمیوں کے سامنے چمکے۔“ (متی ۵:۱۴-۱۶) لیکن اگر ہم محض ”آدمیوں کے سامنے دکھانے“ کے لئے نیکی کرتے ہیں تو ہمیں خدا کی طرف سے ”کچھ اجر نہیں“ ملے گا۔ جو لوگ اپنی تعریف سننے کی غرض سے نیک کام کرتے ہیں وہ یہوواہ خدا کی خوشنودی حاصل نہیں کرتے اور خدا کی بادشاہت کی برکات سے محروم رہیں گے۔
۱۹، ۲۰. (ا) جب یسوع نے کہا کہ خیرات کرتے وقت ہمیں اپنے آگے نرسنگا نہیں بجوانا چاہئے تو وہ کیا کہنا چاہتا تھا؟ (ب) جب یسوع نے کہا کہ ہمارا بایاں ہاتھ نہ جانے کہ ہمارا دہنا ہاتھ کیا کر رہا ہے تو وہ کیا سبق سکھا رہا تھا؟
۱۹ مسیحیوں کو یسوع کی اِس ہدایت پر عمل کرنا چاہئے: ”جب تُو خیرات کرے تو اپنے آگے نرسنگا نہ بجوا جیسا ریاکار عبادتخانوں اور کوچوں میں کرتے ہیں تاکہ لوگ اُن کی بڑائی کریں۔ مَیں تُم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پا چکے۔“ (متی ۶:۲) بنیاسرائیل میں ضرورتمندوں کو ”خیرات“ دینا عام تھا۔ (یسعیاہ ۵۸:۶، ۷ کو پڑھیں۔) یسوع مسیح اور اُس کے شاگرد بھی خیرات دیتے تھے۔ (یوح ۱۲:۵-۸؛ ۱۳:۲۹) کیا اُس زمانے میں لوگ خیرات دیتے وقت واقعی نرسنگا بجواتے تھے؟ جینہیں۔ یسوع دراصل یہ کہنا چاہتا تھا کہ ہمیں اپنے نیک کاموں کا چرچا نہیں کرنا چاہئے۔ یسوع نے فریسیوں کو ریاکار کہا کیونکہ وہ ”عبادتخانوں اور کوچوں میں“ اِس بات کا چرچا کرتے تھے کہ اُنہوں نے کتنی رقم خیرات کی ہے۔ یہ ریاکار ”اپنا اجر پا چکے“ تھے۔ اُن کا اجر یہی تھا کہ اُن کی بڑائی کی جاتی اور اُنہیں عبادتخانوں میں ربّیوں کے ساتھ اعلیٰ درجے کی کُرسیوں پر بیٹھنے کا شرف حاصل ہوتا۔ لیکن یہوواہ خدا کی طرف سے اُنہیں کوئی اجر نہیں ملنے والا تھا۔ (متی ۲۳:۶) البتہ یسوع نے مسیحیوں کو یہ ہدایت دی:
۲۰ ”جب تُو خیرات کرے تو جو تیرا دہنا ہاتھ کرتا ہے اُسے تیرا بایاں ہاتھ نہ جانے۔ تاکہ تیری خیرات پوشیدہ رہے۔ اِس صورت میں تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بدلہ دے گا۔“ (متی ۶:۳، ۴) جب یسوع نے کہا کہ ہمارا بایاں ہاتھ نہ جانے کہ ہمارا دہنا ہاتھ کیا کر رہا ہے تو وہ کیا سبق سکھا رہا تھا؟ عام طور پر ہم کسی کام کو انجام دینے کے لئے دونوں ہاتھ استعمال کرتے ہیں۔ لہٰذا یسوع یہ کہہ رہا تھا کہ ہمیں ایسے لوگوں میں بھی اپنے نیک کاموں کا چرچا نہیں کرنا چاہئے جو ہمارے اتنے قریب ہیں جتناکہ ہمارا دہنا ہاتھ بائیں ہاتھ کے قریب ہے۔
۲۱. ’پوشیدگی میں دیکھنے والا‘ ہمیں نیک کاموں کا بدلہ کیسے دیتا ہے؟
۲۱ اگر ہم اپنی فیاضی کا ڈھنڈورا نہیں پیٹتے تو ہماری ”خیرات“ پوشیدگی میں رہے گی۔ پھر ہمارا آسمانی باپ ”جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے“ ہمیں اِس کا اجر دے گا۔ چونکہ یہوواہ خدا آسمان پر ہے اس لئے وہ انسان کی نظروں سے ’پوشیدہ‘ ہے۔ (یوح ۱:۱۸) وہ ”پوشیدگی میں“ ہمارے نیک کاموں کو دیکھ کر ہمیں اپنی قربت میں لاتا ہے، ہمارے گُناہ معاف کرتا ہے اور ہمیں ہمیشہ کی زندگی پانے کا موقع دیتا ہے۔ (امثا ۳:۳۲؛ یوح ۱۷:۳؛ افس ۱:۷) بِلاشُبہ یہ انسانوں سے داد پانے سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔
یسوع مسیح کی ہدایات کی قدر کریں
۲۲، ۲۳. ہمیں یسوع مسیح کی ہدایات کی قدر کیوں کرنی چاہئے؟
۲۲ واقعی پہاڑی وعظ میں جو باتیں بتائی گئی ہیں وہ مسیحیوں کے نزدیک ہیروں سے کہیں زیادہ قیمتی ہیں۔ اِس وعظ میں جو ہدایات پائی جاتی ہیں وہ اِس بُرے دَور میں بھی ہمارے لئے خوشی کا باعث بنتی ہیں۔ یسوع مسیح کی ہدایات کی قدر کرنے اور اِن پر عمل کرنے سے ہم حقیقی معنوں میں خوشی حاصل کرتے ہیں۔
۲۳ ’جو کوئی یسوع کی باتوں کو سنتا اور اُن پر عمل کرتا ہے‘ خدا کی برکت پائے گا۔ (متی ۷:۲۴، ۲۵ کو پڑھیں۔) آئیں ہم اِس بات کی ٹھان لیں کہ ہم یسوع کی ہدایات پر عمل کریں گے۔ لیکن یسوع نے پہاڑی وعظ میں اَور بھی بہت سی ہدایات دیں۔ اگلے مضمون میں ہم اِن میں سے چند پر غور کریں گے۔
آپ کا جواب کیا ہوگا؟
• اپنے بھائی کے ساتھ ملاپ کرنا اہم کیوں ہے؟
• ہم اپنی ”دہنی آنکھ“ کے ذریعے ٹھوکر کھانے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
• ہمیں کس نیت سے دوسروں کو دینا چاہئے؟
[صفحہ ۱۹ پر تصویر]
اختلافات پیدا ہونے کی صورت میں اپنے مسیحی بہنبھائیوں سے ’ملاپ کرنا‘ بہت اطمینانبخش ہے!
[صفحہ ۲۰، ۲۱ پر تصویریں]
یہوواہ خدا اُن لوگوں کو اپنی برکات سے نوازتا ہے جو خوشی سے دیتے ہیں