صارپت کی بیوہ کے ایمان کا اجر
ایک غریب بیوہ اپنے اِکلوتے بیٹے کو گلے لگاتی ہے۔ اُسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا۔ ابھی کچھ ہی دیر پہلے وہ اُس کی لاش کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے تھی۔ لیکن اُس کے گھر ٹھہرے ہوئے مہمان نے اُس کے بیٹے کو زندہ کر دیا۔ اب وہ عورت خوشی سے پھولے نہیں سما رہی۔
یہ واقعہ تقریباً ۳۰۰۰ سال پہلے کا ہے۔ آپ. ۱-سلاطین ۱۷ باب میں اِس واقعے کو پڑھ سکتے ہیں۔ وہ مہمان، خدا کے نبی ایلیاہ تھے۔ اور وہ عورت کون تھی؟ وہ صارپت کے علاقے میں رہنے والی ایک بیوہ تھی جس کا نام بائبل میں نہیں بتایا گیا۔ جب اُس نے دیکھا کہ اُس کا بیٹا زندہ ہو گیا تو وہ سچے خدا پر ایمان لے آئی۔ اِس واقعے پر غور کرنے سے ہم کچھ اہم باتیں سیکھیں گے۔
ایک بیوہ کا ایمان
اِسرائیل کا بادشاہ اخیاب بہت بُرا شخص تھا۔ اِس لیے یہوواہ خدا نے ایلیاہ کے ذریعے اخیاب کو پیغام دیا کہ اُس کے ملک میں کچھ سال تک بارش کا ایک قطرہ بھی نہیں گِرے گا۔ اِس پیشگوئی کی وجہ سے ایلیاہ کو اخیاب سے خطرہ تھا۔ اِس لیے یہوواہ خدا نے ایلیاہ سے کہا کہ وہ چھپ جائیں۔ یہوواہ خدا کوّوں کے ذریعے اپنے نبی کو روٹی اور گوشت فراہم کرتا رہا۔ پھر اُس نے ایلیاہ سے کہا: ”اُٹھ اور صیدؔا کے صاؔرپت کو جا اور وہیں رہ۔ دیکھ مَیں نے ایک بیوہ کو وہاں حکم دیا ہے کہ تیری پرورش کرے۔“—۱-سلا ۱۷:۱-۹۔
جب ایلیاہ، صارپت پہنچے تو اُنہوں نے ایک غریب بیوہ کو لکڑیاں چنتے ہوئے دیکھا۔ ایلیاہ نے شاید یہ سوچا ہو کہ ”کیا یہی وہ عورت ہے جو میرے لیے کھانے پینے کا بندوبست کرے گی؟ یہ تو خود بہت غریب نظر آ رہی ہے تو پھر یہ میرے کھانے پینے کا اِنتظام کیسے کرے گی؟“ اِن اندیشوں کے باوجود ایلیاہ نے اُس عورت سے بات کی اور کہا: ”ذرا مجھے تھوڑا سا پانی کسی برتن میں لا دے کہ مَیں پیوں۔“ جب وہ عورت پانی لینے جا رہی تھی تو ایلیاہ نے کہا: ”ذرا اپنے ہاتھ میں ایک ٹکڑا روٹی میرے واسطے لیتی آنا۔“ (۱-سلا ۱۷:۱۰، ۱۱) اُس بیوہ کے لیے ایک اجنبی کو پانی پلانا تو کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن اُسے کھانا دینا واقعی مشکل تھا۔
اُس نے ایلیاہ سے کہا: ”[یہوواہ] تیرے خدا کی حیات کی قسم میرے ہاں روٹی نہیں۔ صرف مٹھی بھر آٹا ایک مٹکے میں اور تھوڑا سا تیل ایک کپی میں ہے اور دیکھ مَیں دو ایک لکڑیاں چن رہی ہوں تاکہ گھر جا کر اپنے اور اپنے بیٹے کے لئے اُسے پکاؤں اور ہم اُسے کھائیں۔ پھر مر جائیں۔“ (۱-سلا ۱۷:۱۲) ہم ایلیاہ اور اِس بیوہ کی باتچیت سے کیا سیکھتے ہیں؟
وہ بیوہ پہچان گئی تھی کہ ایلیاہ ایک اِسرائیلی ہیں۔ اِس کا ثبوت یہ ہے کہ اُس نے بنیاِسرائیل کے خدا کا نام اِستعمال کِیا۔ اُس نے ایلیاہ سے کہا: ”[یہوواہ] تیرے خدا کی حیات کی قسم۔“ لیکن غور کریں کہ اِس بیوہ نے یہوواہ کو ”میرا خدا“ نہیں بلکہ ’تیرا خدا‘ کہا۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ وہ یہوواہ خدا کے بارے میں تھوڑا بہت جانتی تھی لیکن اُس میں اِتنا ایمان نہیں تھا کہ وہ یہوواہ کو ”میرا خدا“ کہتی۔ وہ صارپت کے قصبے میں رہتی تھی۔ یہ قصبہ فینیکے کے شہر صیدا کے پاس تھا۔ فینیکے کے لوگ بعل کی پوجا کرتے تھے۔ اِس سے لگتا ہے کہ صارپت کے باشندے بھی بعل کے پجاری تھے۔ پھر بھی یہوواہ خدا کو اِس بیوہ میں کچھ اچھائی دِکھائی دی۔
اگرچہ صارپت کی غریب بیوہ بُتپرست لوگوں میں رہتی تھی پھر بھی اُس میں کچھ حد تک ایمان تھا۔ یہوواہ خدا نے ایلیاہ کو اِس بیوہ کے پاس اِس لیے بھیجا تاکہ دونوں کو فائدہ ہو۔ اِس سے ہم یہوواہ خدا کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں؟
صارپت کے سارے کے سارے لوگ بُرے نہیں تھے۔ ایلیاہ کو اِس بیوہ کے پاس بھیجنے سے یہوواہ خدا نے ظاہر کِیا کہ وہ اُن نیکنیت لوگوں کو بھی دھیان میں رکھتا ہے جو فیالحال اُس کی عبادت نہیں کر رہے۔ واقعی ”ہر قوم میں جو [خدا] سے ڈرتا اور راستبازی کرتا ہے وہ اُس کو پسند آتا ہے۔“—اعما ۱۰:۳۵۔
آپ کے علاقے میں بھی کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو صارپت کی بیوہ کی طرح ہیں۔ شاید وہ بھی ایسے لوگوں میں رہتے ہیں جن کا تعلق جھوٹے مذہب سے ہے۔ پھر بھی وہ سچے خدا کو جاننے کی خواہش رکھتے ہیں۔ وہ یہوواہ خدا کے بارے میں بہت ہی کم یا پھر کچھ بھی نہیں جانتے ہیں اِس لیے ضروری ہے کہ کوئی اُنہیں اُس کے بارے میں سکھائے تاکہ وہ اُس کی عبادت کر سکیں۔ کیا آپ ایسے لوگوں کو ڈھونڈتے اور اُن کی مدد کرتے ہیں؟
’پہلے میرے لئے ایک ٹکیا بنا کر لے آ‘
بیوہ نے ایلیاہ نبی کو بتایا تھا کہ اُس کے پاس صرف ایک ہی وقت کا کھانا ہے۔ پھر بھی ایلیاہ نے بیوہ سے کہا: ”مت ڈر۔ جا اور جیسا کہتی ہے کر پر پہلے میرے لئے ایک ٹکیا اُس میں سے بنا کر میرے پاس لے آ۔ اُس کے بعد اپنے اور اپنے بیٹے کے لئے بنا لینا۔ کیونکہ [یہوواہ] اِؔسرائیل کا خدا یوں فرماتا ہے کہ اُس دن تک جب تک [یہوواہ] زمین پر مینہ نہ برسائے نہ تو آٹے کا مٹکا خالی ہوگا اور نہ تیل کی کپی میں کمی ہوگی۔“—۱-سلا ۱۷:۱۱-۱۴۔
بعض لوگ شاید سوچیں کہ اپنا ایک ہی وقت کا کھانا کسی اَور کو دے دینا بےوقوفی کی بات ہے۔ لیکن اُس بیوہ نے ایسا نہیں سوچا۔ حالانکہ وہ یہوواہ خدا کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی تھی پھر بھی اُس نے ایلیاہ کی بات پر یقین کِیا اور اُن کی بات مانی۔ یہ صورتحال اُس کے لیے کسی کڑے اِمتحان سے کم نہیں تھی۔ لیکن اُس نے اِمتحان کی اِس گھڑی میں عقلمندی سے کام لیا۔
خدا نے اِس بیوہ کی ضروریات کا خیال رکھا۔ ایلیاہ کی بات کے مطابق یہوواہ خدا نے اُس بیوہ کے آٹے اور تیل میں اِتنی برکت ڈالی کہ جب تک کال رہا، ایلیاہ نبی، بیوہ اور اُس کا بیٹا اِسی آٹے اور تیل کو اِستعمال کرتے رہے۔ ”[یہوواہ] کے کلام کے مطابق جو اُس نے ایلیاؔہ کی معرفت فرمایا تھا نہ تو آٹے کا مٹکا خالی ہوا اور نہ تیل کی کپی میں کمی ہوئی۔“ (۱-سلا ۱۷:۱۶؛ ۱۸:۱) اگر اُس عورت نے ایلیاہ کی بات کا یقین نہ کِیا ہوتا تو اُس کا آٹا اور تیل ختم ہو جاتے۔ مگر اُس نے یہوواہ خدا پر بھروسا رکھا اور پہلے ایلیاہ کے لیے روٹی بنائی۔
اِس بیوہ کی مثال سے ہم یہ سیکھتے ہیں کہ خدا اُن لوگوں کو برکت دیتا ہے جو اُس پر ایمان رکھتے ہیں۔ جب آپ پر کوئی آزمائش آتی ہے اور آپ یہوواہ خدا پر بھروسا رکھتے ہیں تو وہ آپ کی مدد کرے گا۔ وہ آپ کا دوست ثابت ہوگا، آپ کی ضروریات کا خیال رکھے گا اور آپ کی حفاظت کرے گا تاکہ آپ مشکلات سے نپٹ سکیں۔—خر ۳:۱۳-۱۵۔
سن ۱۸۹۸ء میں زائنز واچٹاور میں ایک مضمون شائع ہوا جس میں اِس بیوہ کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ ”وہ خدا پر ایمان لائی اور اُس کے نبی کی بات مانی اِس لئے خدا نے اپنے نبی کے ذریعے اُس کی مدد کی۔ اگر یہ عورت ایسا نہ کرتی تو خدا کسی اَور بیوہ کو چن لیتا۔ جس طرح خدا نے اِس بیوہ کے ایمان کو آزمایا اُسی طرح وہ بعض اوقات ہمارے ایمان کو آزماتا ہے۔ وہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ ہمارا ایمان کتنا مضبوط ہے۔ ہمیں صرف اُسی صورت میں برکت ملے گی اگر ہم اُس پر ایمان رکھیں گے۔“
جب ہمیں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے تو ہمیں پاک کلام اور ہماری کتابوں اور رسالوں سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ پھر ہمیں اِس کے مطابق عمل کرنا چاہیے خواہ ایسا کرنا مشکل ہی کیوں نہ ہو۔ اگر ہم امثال ۳:۵، ۶ میں درج ہدایت پر چلیں گے تو خدا ہمیں برکت بخشے گا۔ اِن آیتوں میں لکھا ہے: ”سارے دل سے [یہوواہ] پر توکل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔ اپنی سب راہوں میں اُس کو پہچان اور وہ تیری راہنمائی کرے گا۔“
بیوہ کے ایمان کا ایک اَور اِمتحان
اب اِس بیوہ کے ایمان کا ایک اَور اِمتحان ہونے والا تھا۔ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ”اِن باتوں کے بعد اُس عورت کا بیٹا جو اُس گھر کی مالک تھی بیمار پڑا اور اُس کی بیماری ایسی سخت ہو گئی کہ اُس میں دم باقی نہ رہا۔“ اِس غم کے مارے بیوہ یہ نہیں سمجھ پا رہی تھی کہ اُس کا بیٹا کیوں مر گیا۔ اُس نے ایلیاہ سے کہا: ”اَے مردِخدا مجھے تجھ سے کیا کام؟ تُو میرے پاس آیا ہے کہ میرے گُناہ یاد دِلائے اور میرے بیٹے کو مار دے!“ (۱-سلا ۱۷:۱۷، ۱۸) بیوہ کی اِس تلخ بات کا کیا مطلب تھا؟
کیا اُس عورت کو اپنا کوئی گُناہ یاد آ گیا تھا جس کی وجہ سے اُس کا ضمیر اُسے جھنجھوڑ رہا تھا؟ کیا اُس نے یہ سوچ لیا تھا کہ اُس کے بیٹے کی موت اُس کے گُناہ کی سزا ہے اور ایلیاہ، خدا کی طرف سے اُسے سزا دینے کے لیے آئے ہیں؟ بائبل میں اِس سلسلے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ اُس بیوہ نے خدا پر یہ اِلزام نہیں لگایا تھا کہ خدا نے اُس کے ساتھ نااِنصافی کی ہے۔
لڑکے کی موت سے ایلیاہ کو بہت صدمہ ہوا اور اِس بات سے حیرانی بھی ہوئی کہ بیوہ اُنہیں اپنے بیٹے کی موت کا ذمےدار سمجھتی ہے۔ ایلیاہ لڑکے کی لاش کو چھت پر اپنے کمرے میں لے گئے اور خدا سے فریاد کی: ”اَے [یہوواہ] میرے خدا کیا تُو نے اِس بیوہ پر بھی جس کے ہاں مَیں ٹکا ہوا ہوں اُس کے بیٹے کو مار ڈالنے سے بلا نازل کی؟“ ایلیاہ کو یہ بات ہرگز گوارا نہیں تھی کہ اِس مہربان اور مہماننواز عورت کی مصیبت کی وجہ سے خدا کی بدنامی ہو۔ اِس لیے اُنہوں نے خدا سے اِلتجا کی: ”اَے [یہوواہ] میرے خدا مَیں تیری مِنت کرتا ہوں کہ اِس لڑکے کی جان اِس میں پھر آ جائے۔“—۱-سلا ۱۷:۲۰، ۲۱۔
”دیکھ تیرا بیٹا جیتا ہے“
یہوواہ خدا اپنے نبی ایلیاہ کی فریاد سُن رہا تھا۔ اِس بیوہ نے اُس کے نبی کے لیے کھانا فراہم کِیا تھا اور اُس کی بات کا یقین کِیا تھا۔ لگتا ہے کہ خدا نے لڑکے کو اِس وجہ سے موت سے نہیں بچایا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ اُسے زندہ کرے گا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اِس سے آنے والی نسلوں کو اُمید ملے گی کہ مُردے پھر سے زندہ ہوں گے۔ ایلیاہ کی اِلتجا کے مطابق اُس نے لڑکے کو زندہ کر دیا۔ بائبل میں یہ پہلا واقعہ ہے جس میں کسی مُردے کو زندہ کِیا گیا۔ ذرا اُس بیوہ کی خوشی کا تصور کریں جب ایلیاہ نے اُسے بتایا کہ ”دیکھ تیرا بیٹا جیتا ہے۔“ اِس پر بیوہ نے ایلیاہ سے کہا: ”اب مَیں جان گئی کہ تُو مردِخدا ہے اور [یہوواہ] کا جو کلام تیرے مُنہ میں ہے وہ حق ہے۔“—۱-سلا ۱۷:۲۲-۲۴۔
پہلا سلاطین ۱۷ باب میں اِس عورت کے بارے میں اَور کچھ نہیں بتایا گیا۔ لیکن یسوع مسیح نے اِس بیوہ کی اچھی مثال کا ذکر کِیا۔ (لو ۴:۲۵، ۲۶) اِس سے ہمیں یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ بیوہ مرتے دم تک یہوواہ خدا کی وفادار رہی۔ اِس بیوہ کی کہانی سے ہم سیکھتے ہیں کہ خدا اُن لوگوں کو برکت دیتا ہے جو اُس کے بندوں کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں۔ (متی ۲۵:۳۴-۴۰) اِس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کٹھن حالات میں اپنے بندوں کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ (متی ۶:۲۵-۳۴) اِس کہانی سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ خدا مُردوں کو زندہ کرنے کی نہ صرف خواہش رکھتا ہے بلکہ طاقت بھی۔ (اعما ۲۴:۱۵) واقعی اِس بیوہ کی مثال پر غور کرنا ہمارے لیے بہت فائدہمند ہے۔