یادوں کے ذخیرے سے
ایک سنہرے دَور کی مُنادی
سوموار، 1 ستمبر 1919ء کا دن تھا۔ کئی روز موسلادھار بارش ہونے کے بعد اِس دن دھوپ نکلی تھی۔ اُسی دوپہر 1000 سے کم لوگ امریکہ کے شہر سیڈر پوائنٹ میں بائبل سٹوڈنٹس کے اِجتماع کے پہلے حصے کو سننے آئے جبکہ ہال میں 2500 لوگوں کی گنجائش تھی۔ لیکن شام تک ہال بھر گیا کیونکہ مزید 2000 لوگ کشتیوں، گاڑیوں اور ٹرینوں کے ذریعے وہاں پہنچ گئے۔ اور منگل کو تو لوگوں کی تعداد اِس حد تک بڑھ گئی کہ اِجتماع کے پروگرام کو ہال سے باہر اُونچے اُونچے درختوں کے سائے میں منعقد کرنا پڑا۔
بھائیوں کے کوٹوں پر پتوں کے سائے لیس کی طرح لگ رہے تھے۔ دھیمی دھیمی ہوا سے بہنوں کی ٹوپیوں میں لگے پَر جھوم رہے تھے۔ ایک بھائی نے بتایا: ”دُنیا کے شور شرابے سے دُور یہ پارک بالکل فردوس کی طرح لگ رہا تھا۔“
پارک کی رونق اپنی جگہ لیکن وہاں موجود بہن بھائیوں کے چہروں سے چھلکنے والی رونق اِس سے بھی زیادہ تھی۔ ایک مقامی اخبار میں لکھا تھا: ”وہاں موجود سب لوگ بہت ہی دیندار ہیں لیکن اِس کے ساتھ ساتھ وہ بہت ہی زندہدل اور خوشمزاج بھی ہیں۔“ یوں تو بائبل سٹوڈنٹس کے لیے اِجتماع بڑے خاص موقعے تھے لیکن یہ اِجتماع اَور بھی خاص تھا کیونکہ اِس پر آنے والے بہن بھائی بہت ہی مشکل دَور سے گزرے تھے۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران اُن کی سخت مخالفت کی گئی تھی، کلیسیائیں لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے بٹ گئی تھیں، شہر بروکلن میں بیتایل کو بند کر دیا گیا تھا اور بہت سے بہن بھائیوں کو اُن کے ایمان کی وجہ سے قید کِیا گیا تھا جن میں وہ آٹھ بھائی بھی شامل تھے جو تنظیم کی پیشوائی کر رہے تھے۔ اُنہیں تو بیس بیس سال کی قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
اُس مشکل دَور میں کچھ بہن بھائیوں نے بےحوصلہ ہو کر مُنادی کا کام چھوڑ دیا تھا۔ لیکن زیادہتر بہن بھائیوں نے حکومت کی طرف سے سخت مخالفت کے باوجود یہ کام جاری رکھا۔ پولیس کے ایک افسر نے کہا کہ بائبل سٹوڈنٹس سے پوچھگچھ کرتے وقت اُسے ہمیشہ یہی جواب ملتا تھا کہ ”ہم تو آخر تک خدا کے کلام کی مُنادی کرتے رہیں گے!“
آزمائش کے اُس دَور میں بہن بھائیوں نے ”مالک کی مرضی کو جاننے کی کوشش کی . . . اور آسمانی باپ کی رہنمائی کے لیے مسلسل دُعائیں کیں۔“ اب وہ شہر سیڈر پوائنٹ میں اِس اِجتماع کے لیے جمع تھے۔ وہ سب بہت خوش تھے لیکن اِس کے ساتھ ساتھ اُن کے دل میں یہ سوال اُٹھ رہا تھا کہ مُنادی کا کام دوبارہ سے کیسے رواں دواں ہوگا؟ دراصل وہ اِس کام میں دوبارہ حصہ لینے کے لیے بےتاب تھے۔
”جی اے“ کیا ہے؟
اِجتماع پر موجود بہن بھائی ایک اَور وجہ سے بھی اُلجھن میں تھے۔ جب وہ اِجتماع پر پہنچے تو اُنہوں نے پروگرام پر اور اِشتہاری بورڈوں پر حروف ”جی اے“ دیکھے۔ لیکن کسی کو معلوم نہیں تھا کہ اِن کا کیا مطلب ہے۔ پھر جمعے کا دن آیا جسے ”ہمخدمتوں کا دن“ قرار دیا گیا تھا۔ اُس دن بھائی جوزف رتھرفورڈ نے وہاں موجود 6000 بہن بھائیوں کے سامنے اِس راز سے پردہ اُٹھایا۔ حروف ”جی اے“ کا اِشارہ ایک نئے رسالے کی طرف تھا جس کا نام دی گولڈن ایج (یعنی سنہرا دَور) تھا۔a یہ رسالہ مُنادی کے کام میں اِستعمال ہونے کے لیے نکالا گیا۔
بھائی رتھرفورڈ نے اپنی تقریر میں مسحشُدہ مسیحیوں کے بارے میں کہا: ”اِس مشکل دَور میں وہ ایمان کی آنکھ سے مسیح کی شاندار حکمرانی کا سنہرا دَور دیکھ رہے ہیں۔ . . . وہ دُنیا کو اِس آنے والے سنہرے دَور کے بارے میں بتانے کو اپنا فرض اور اعزاز خیال کرتے ہیں کیونکہ یہ ذمےداری اُنہیں خدا کی طرف سے سونپی گئی ہے۔“
رسالہ دی گولڈن ایج کے سرِورق پر لکھا تھا کہ ”یہ رسالہ حقائق، اُمید اور ایمان کو فروغ دیتا ہے۔“ اِجتماع پر اِعلان کِیا گیا کہ اِس رسالے کے ذریعے بائبل کی سچائیوں کو پھیلانے کا ایک نیا طریقہ اِستعمال ہوگا یعنی ایک ایسی مہم چلائی جائے گی جس میں بہن بھائی گھر گھر جا کر لوگوں کو دی گولڈن ایج رسالہ لگوانے کی پیشکش کریں گے۔ جب بھائی رتھرفورڈ نے اِجتماع کے حاضرین سے پوچھا کہ کون کون اِس مہم میں حصہ لینا چاہتا ہے تو سب کے سب اُٹھ کھڑے ہوئے۔ پھر اُنہوں نے مل کر گیت ”اپنے نُور اور اپنی سچائی کو بھیج“ گایا۔ اِجتماع کی رپورٹ کے مطابق حاضرین نے یہ گیت ”ایسے جوشوجذبے سے گایا جو صرف یسوع مسیح کے سچے پیروکاروں میں پایا جاتا ہے۔“ بھائی ملٹن نورِس نے بتایا کہ ”سب اِتنی اُونچی آواز میں گا رہے تھے کہ درخت لرزنے لگے۔“
پروگرام کے بعد بہن بھائی گھنٹوں تک قطاروں میں کھڑے رہے تاکہ وہ رسالہ لگوانے کے لیے اپنا نام لکھوا سکیں۔ بہن میبل فلبرِک نے کہا: ”ہم بہت خوش تھے کہ مُنادی کے کام میں دوبارہ سے جان آ گئی۔“
مُنادی کے کام کا اِنتظام
تقریباً 7000 بائبل سٹوڈنٹس مہم میں حصہ لینے کی تیاری کرنے لگے۔ ایک پرچہ اور ایک کتاب شائع کی گئی جن میں مُنادی کے کام کے اِنتظام کے متعلق تفصیلی ہدایات دی گئیں۔ اِن میں بتایا گیا کہ مرکزی دفتر میں خدمتی شعبہ قائم کِیا گیا ہے جو مُنادی کے کام کی نگرانی کرے گا۔ ہر کلیسیا میں ایک خدمتی کمیٹی قائم کی جائے گی اور ایک ڈائریکٹر مقرر کِیا جائے گا جو اِس کام میں پیشوائی کرے گا۔ ہر کلیسیا کے علاقے کو حصوں میں تقسیم کِیا جائے گا اور ہر حصہ 150 سے 200 گھروں پر مشتمل ہوگا۔ ہر ہفتے جمعرات کی شام ایک خدمتی اِجلاس منعقد کِیا جائے گا جس میں بہن بھائی مُنادی کے کام میں ہونے والے تجربوں کے بارے میں بتائیں گے اور مُنادی کی رپورٹ ڈالیں گے۔
بھائی ہرمن فلبرِک نے کہا: ”گھر پہنچتے ہی ہم سب اِس مہم میں مصروف ہو گئے۔“ لوگوں نے بڑی خوشی سے بہن بھائیوں کا پیغام سنا۔ بہن بیولا کووی نے کہا: ”جنگ میں لوگوں نے اِتنے دُکھ دیکھے تھے کہ وہ ایک سنہرے دَور کے بےحد مشتاق تھے۔“ بھائی آرتھر کلاؤس نے لکھا: ”کلیسیا یہ دیکھ کر بہت حیران ہوئی کہ اِتنے لوگوں نے رسالہ لگوایا۔“ پہلے شمارے کے شائع ہونے کے دو مہینے بعد ہی دی گولڈن ایج کی تقریباً 5 لاکھ کاپیاں تقسیم ہو چُکی تھیں اور تقریباً 50 ہزار لوگوں نے اِس رسالے کو لگوا لیا تھا۔
یکم جولائی 1920ء کے دی واچٹاور میں مضمون ”بادشاہت کی خوشخبری“ شائع ہوا۔ بھائی الیگزینڈر میکمِلن نے اِس مضمون کے بارے میں کہا: ”یہ پہلی بار تھا کہ ہماری تنظیم نے پوری دُنیا میں تمام بہن بھائیوں کی حوصلہافزائی کی کہ وہ بادشاہت کی مُنادی کریں۔“ مضمون میں تمام مسحشُدہ مسیحیوں کو یہ نصیحت کی گئی: ”دُنیا کو گواہی دیں کہ آسمان کی بادشاہت نزدیک ہے۔“ حالانکہ بادشاہت کی مُنادی کرنے کا اعزاز مسحشُدہ مسیحیوں کو بخشا گیا ہے لیکن آج لاکھوں اَور مسیحی بھی اِن کے ساتھ مل کر جوشوجذبے سے یہ کام کر رہے ہیں اور بےتابی سے مسیح کی بادشاہت کے سنہرے دَور کا اِنتظار کر رہے ہیں۔
a سن 1937ء میں اِس رسالے کا نام کونسولیشن (یعنی تسلی) اور پھر 1946ء میں اویک! (یعنی جاگو!) میں بدل دیا گیا۔