چیزوں کی بجائے بادشاہت کو زندگی میں پہلا درجہ دیں
”خدا کی بادشاہت کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دیتے رہیں پھر یہ چیزیں بھی آپ کو دی جائیں گی۔“—لُو 12:31۔
گیت: 40، 44
1. ضروریات اور خواہشات میں کیا فرق ہے؟
کہا جاتا ہے کہ اِنسان کی ضروریات کم مگر اُس کی خواہشات لاتعداد ہیں۔ بہت سے لوگوں کو اپنی ضروریات اور اپنی خواہشات میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ ہمیں زندہ رہنے کے لیے کچھ ہی چیزوں کی ضرورت ہے، مثلاً خوراک، کپڑوں اور سر پر چھت کی جبکہ زیادہتر چیزیں جن کی ہم خواہش رکھتے ہیں، وہ زندہ رہنے کے لیے ضروری نہیں ہیں۔
2. لوگ کن کن چیزوں کی خواہش رکھتے ہیں؟
2 مختلف علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی خواہشوں میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ترقیپذیر ملکوں میں لوگ موبائل فون، موٹرسائیکل یا پلاٹ خریدنے کی خواہش رکھتے ہیں جبکہ ترقییافتہ ملکوں میں لوگ مہنگے کپڑے، عالیشان گھر یا بڑی بڑی گاڑیاں حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ لیکن چاہے ہم کسی بھی ملک میں رہیں یا ہماری مالی صورتحال کچھ بھی ہو، ہم سب کو ایک بہت بڑے خطرے کا سامنا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمارے دل میں زیادہ سے زیادہ چیزیں حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہو سکتی ہے، بھلے ہمیں اِن کی ضرورت ہو یا نہیں یا ہمارے پاس اِنہیں خریدنے کے لیے پیسے ہوں یا نہیں۔
چیزوں کو حد سے زیادہ اہمیت نہ دیں
3. آجکل بہت سے لوگ کس طرح کی سوچ میں مبتلا ہیں؟
3 آجکل بہت سے لوگ خدا کی بجائے چیزوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اُن کا سارا دھیان نئی چیزیں حاصل کرنے پر رہتا ہے۔ مگر وہ ایسی سوچ کیوں رکھتے ہیں؟ کیونکہ وہ اُن چیزوں سے مطمئن نہیں جو اُن کے پاس ہیں بلکہ وہ زیادہ سے زیادہ چیزیں حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ تمام لوگ اِس سوچ کا شکار ہو سکتے ہیں، چاہے وہ امیر ہوں یا غریب۔ خدا کے بندے بھی خدا کی بادشاہت کی بجائے چیزوں کو زیادہ اہمیت دینے کے پھندے میں پڑ سکتے ہیں۔—عبر 13:5۔
4. شیطان ہمیں پھنسانے کے لیے ”آنکھوں کی خواہش“ کو کیسے اِستعمال کرتا ہے؟
4 شیطان اِس دُنیا کے تجارتی نظام کے ذریعے ہمیں یقین دِلانا چاہتا ہے کہ اپنی ہر خواہش کو پورا کرنے سے ہی حقیقی خوشی ملتی ہے۔ وہ ”آنکھوں کی خواہش“ کے ذریعے ہمیں پھنسانے کی کوشش کرتا ہے۔ (1-یوح 2:15-17؛ پید 3:6؛ امثا 27:20) اور واقعی دُنیا میں جو چیزیں بکتی ہیں، وہ آنکھوں کو لبھاتی ہیں۔ کیا آپ نے کبھی ایک چیز محض اِس لیے خریدی کیونکہ آپ نے اِسے اِشتہار میں یا دُکان میں دیکھا تھا؟ کیا آپ کو بعد میں احساس ہوا کہ اصل میں تو آپ کو اِس چیز کی ضرورت ہی نہیں تھی؟ ایسی غیرضروری چیزیں ہمارے لیے بوجھ بن سکتی ہیں۔ اِن کی وجہ سے ہمارا دھیان خدا کی خدمت سے ہٹ جاتا ہے کیونکہ ہمارے پاس بائبل کا مطالعہ کرنے، باقاعدگی سے مُنادی کے کام میں حصہ لینے، اِجلاسوں کی تیاری کرنے اور اِن پر جانے کے لیے کم ہی وقت رہتا ہے۔ یاد رکھیں کہ ”دُنیا اور اُس کی خواہش مٹ رہی ہے۔“
5. اُن لوگوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے جو اپنا زیادہتر وقت مالودولت جمع کرنے پر خرچ کر دیتے ہیں؟
5 شیطان چاہتا ہے کہ ہم یہوواہ خدا کی بجائے دولت کے غلام ہوں۔ (متی 6:24) جو لوگ اپنا زیادہتر وقت اور توانائی مالودولت جمع کرنے پر خرچ کر دیتے ہیں، اُن کی زندگی بےمعنی ہوتی ہے کیونکہ وہ صرف اپنے لیے جیتے ہیں۔ اکثر وہ خدا سے دُور ہو جاتے ہیں اور اُن کی زندگی پریشانیوں اور دُکھوں سے بھر جاتی ہے۔ (1-تیم 6:9، 10؛ مکا 3:17) یسوع مسیح نے بیج بونے والے کسان کی مثال میں کیا خوب کہا کہ ”چیزوں کی خواہش [لوگوں] کے دل پر قبضہ کر لیتی ہے اور کلام کو دبا دیتی ہے اور وہ پھل نہیں لاتا۔“—مر 4:14، 18، 19۔
6. ہم باروک سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟
6 ذرا دیکھیں کہ یہوواہ خدا نے یرمیاہ نبی کے مُنشی باروک کو کیا پیغام دیا۔ یروشلیم کی تباہی نزدیک تھی لیکن باروک ”اپنے لیے بڑی بڑی چیزیں“ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہوواہ خدا نے اُن سے کہا کہ ایسا کرنا فضول ہے کیونکہ وہ یروشلیم کی تباہی کے وقت بس اُن کی جان ہی بچائے گا۔ (یرم 45:1-5، نیو اُردو بائبل ورشن) خدا کسی کے مالواسباب کو بچانے کا اِرادہ نہیں رکھتا تھا۔ (یرم 20:5) اِسی طرح اِس دُنیا کی تباہی نزدیک ہے اور ہمیں بھی اپنے لیے زیادہ سے زیادہ چیزیں حاصل کرنے کی جستجو نہیں کرنی چاہیے۔ ہم اِس بات کی توقع نہیں کر سکتے کہ ہماری کوئی بھی چیز چاہے وہ ہمیں کتنی ہی پیاری کیوں نہ ہو، بڑی مصیبت میں بچ جائے گی۔—امثا 11:4؛ متی 24:21، 22؛ لُو 12:15۔
7. ہم کس بات پر غور کریں گے اور ہم ایسا کیوں کریں گے؟
7 تو پھر ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم اپنی اور اپنے گھر والوں کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا دھیان خدا کی خدمت پر رکھیں، مالودولت کے پیار میں مبتلا نہ ہوں اور اپنی ضروریات کے بارے میں حد سے زیادہ فکرمند بھی نہ ہوں؟ اِس سلسلے میں یسوع مسیح نے اپنے پہاڑی وعظ میں بہت اچھی ہدایتیں دیں۔ (متی 6:19-21) آئیں، متی 6:25-34 کو پڑھتے ہیں اور اِن آیتوں پر غور کرتے ہیں۔ اِس طرح ہمیں پکا یقین ہو جائے گا کہ چیزوں کی بجائے ’بادشاہت کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دینا‘ ہی دانشمندی کی راہ ہے۔—لُو 12:31۔
یہوواہ ہماری ضروریات پوری کرتا ہے
8، 9. (الف) ہمیں ضروریاتِزندگی کے بارے میں حد سے زیادہ فکر کیوں نہیں کرنی چاہیے؟ (ب) یسوع مسیح اِنسانوں کی ضروریات کے بارے میں کیا جانتے تھے؟
8 متی 6:25 کو پڑھیں۔ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ ”فکر نہ کریں۔“ دراصل اُن کے شاگرد ایسی باتوں کے بارے میں فکرمند تھے جن کے بارے میں اُنہیں فکر نہیں کرنی چاہیے تھی۔ یسوع مسیح نے اُنہیں ایسا کرنے سے منع کِیا۔ وہ جانتے تھے کہ بِلاوجہ فکر کرنے سے اِنسان کا دھیان خدا کی خدمت سے ہٹ سکتا ہے۔ یسوع مسیح کو اپنے شاگردوں کا اِتنا خیال تھا کہ اُنہوں نے پہاڑی وعظ میں اُنہیں چار اَور بار فکر کرنے سے خبردار کِیا۔—متی 6:27، 28، 31، 34۔
9 مگر یسوع مسیح نے کیوں کہا کہ شاگردوں کو یہ فکر نہیں کرنی چاہیے کہ وہ کیا کھائیں پئیں گے یا پہنیں گے؟ یہ چیزیں تو زندگی کی اہمترین ضروریات میں شامل ہیں۔ اگر ہم اِن بنیادی ضروریات کو پورا نہیں کر پائیں گے تو ظاہری بات ہے کہ ہم فکرمند ہوں گے۔ یسوع مسیح بھی اِس بات سے اچھی طرح واقف تھے۔ اُنہیں معلوم تھا کہ اِنسانوں کو زندگی بسر کرنے کے لیے کن چیزوں کی ضرورت ہے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ”آخری زمانے میں مشکل وقت آئے گا“ اور اِس وجہ سے اُن کے شاگردوں کو بےروزگاری، مہنگائی، خوراک کی کمی اور شدید غربت جیسی مشکلات کا سامنا ہوگا۔ (2-تیم 3:1) لیکن یسوع مسیح کو یہ بھی پتہ تھا کہ ”زندگی خوراک سے اور جسم پوشاک سے زیادہ اہم ہے۔“
10. یسوع مسیح نے دُعا کا جو نمونہ دیا، اِس سے کیسے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے نزدیک کون سی بات سب سے اہم ہونی چاہیے؟
10 اِن باتوں کا ذکر کرنے سے پہلے یسوع مسیح نے اپنے پہاڑی وعظ میں اپنے شاگردوں کو دُعا کرنا سکھایا۔ اُنہوں نے کہا کہ شاگرد اپنی جسمانی ضروریات کے بارے میں یوں دُعا کر سکتے ہیں: ”ہمیں آج کی ضرورت کے مطابق روٹی دے۔“ (متی 6:11؛ لُو 11:3) لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں بس اپنی جسمانی ضروریات کے بارے میں ہی سوچتے رہنا چاہیے۔ یسوع مسیح نے شاگردوں کو سکھایا کہ وہ سب سے پہلے خدا کی بادشاہت کے آنے کے لیے دُعا کریں۔ (متی 6:10؛ لُو 11:2) اپنے شاگردوں کی فکر دُور کرنے کے لیے یسوع مسیح نے اُنہیں یہ بھی بتایا کہ یہوواہ خدا اپنی مخلوق کی کتنی اچھی طرح سے دیکھبھال کرتا ہے۔
11، 12. یہوواہ خدا جس طریقے سے چڑیوں کی دیکھبھال کرتا ہے، اِس سے ہم کیا سبق سیکھتے ہیں؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔)
11 متی 6:26 کو پڑھیں۔ یسوع مسیح نے کہا: ”آسمان کے پرندوں کو غور سے دیکھیں۔“ یوں تو چڑیاں بہت چھوٹی ہوتی ہیں لیکن وہ بہت زیادہ کھاتی ہیں۔ اُن کی خوراک میں کیڑے مکوڑے، دانے اور پھل شامل ہیں۔ اگر ایک چڑیا اِنسان جتنی بڑی ہوتی تو وہ اِنسان کے مقابلے میں زیادہ کھانا کھاتی۔ لیکن چڑیاں نہ تو ہل چلاتی ہیں اور نہ ہی بیج بوتی ہیں۔ یہوواہ خدا ہی اُن کے لیے خوراک مہیا کرتا ہے۔ (زبور 147:9) یہ سچ ہے کہ چڑیوں کو خود خوراک ڈھونڈنی پڑتی ہے مگر یہوواہ خدا اِسے کثرت سے فراہم کرتا ہے۔
12 یسوع مسیح جانتے تھے کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ یہوواہ خدا چڑیوں کی تو بنیادی ضروریات کو پورا کرے مگر اِنسان کی نہیں۔[1] (1-پطر 5:6، 7) بےشک ہمیں بھی خوراک حاصل کرنے کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے لیکن خدا ہماری محنت پر برکت ڈالتا ہے۔ اور اگر ہم مالی تنگی سے دوچار ہیں تو وہ دوسروں کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ اپنی چیزیں ہمارے ساتھ بانٹیں۔ یسوع مسیح نے یہ نہیں کہا تھا کہ خدا چڑیوں کے لیے ٹھکانے کا بندوبست کرتا ہے۔ لیکن خدا نے چڑیوں کو گھونسلا بنانے کی عقل اور صلاحیت سے ضرور نوازا ہے۔ اِسی طرح وہ ہماری بھی مدد کرتا ہے تاکہ ہم اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے مناسب رہائش ڈھونڈ سکیں۔
13. ہم کیسے جانتے ہیں کہ ہم پرندوں سے زیادہ اہم ہیں؟
13 یسوع مسیح نے پوچھا: ”کیا آپ پرندوں سے زیادہ اہم نہیں ہیں؟“ وہ جانتے تھے کہ وہ اِنسانوں کے لیے اپنی جان دینے والے ہیں۔ (لُوقا 12:6، 7 پر غور کریں۔) اُنہوں نے کسی اَور مخلوق کے لیے اپنی جان فدیے کے طور پر نہیں دی بلکہ صرف اِنسانوں کے لیے تاکہ ہم ہمیشہ کی زندگی سے لطف اُٹھا سکیں۔—متی 20:28۔
14. فکر کرنے سے ایک شخص کیا نہیں کر سکتا؟
14 متی 6:27 کو پڑھیں۔ یسوع مسیح نے کیوں کہا کہ کوئی شخص فکر کرنے سے اپنی زندگی کو ایک پَل کے لیے بھی نہیں بڑھا سکتا؟ کیونکہ فکر کرنے سے ایک شخص کی زندگی لمبی نہیں ہوتی، اُلٹا وہ زیادہ جلد مر سکتا ہے۔
15، 16. (الف) یہوواہ خدا جس طریقے سے جنگلی پھولوں کی دیکھبھال کرتا ہے، اِس سے ہم کیا سبق سیکھتے ہیں؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔) (ب) ہمیں خود سے کون سے سوال پوچھنے چاہئیں اور یہ اہم کیوں ہے؟
15 متی 6:28-30 کو پڑھیں۔ ہم سب کو اچھے اچھے کپڑے پہننے کا شوق ہے، خاص طور پر اِجلاسوں، اِجتماعوں اور مُنادی کے کام پر۔ لیکن کیا ہمیں اِس بات کی فکر کرنی چاہیے کہ ہم کیا پہنیں گے؟ یسوع مسیح نے ایک مرتبہ پھر ہماری توجہ یہوواہ کی قدرت کے شاہکاروں کی طرف دِلائی۔ اِس مرتبہ اُنہوں نے ”جنگلی پھولوں“ کا ذکر کِیا جو نہ تو دھاگہ کاتتے ہیں اور نہ ہی کپڑے سیتے ہیں۔ اِس کے باوجود وہ بہت ہی خوبصورت دِکھتے ہیں، یہاں تک کہ ”سلیمان بادشاہ بھی اِتنا شاندار لباس نہیں پہنتے تھے جتنا یہ پھول پہنتے ہیں۔“
16 ذرا غور کریں کہ یسوع مسیح نے آگے کیا کہا: ”اگر خدا کھیت کے پھولوں کو اِتنا شاندار لباس پہناتا ہے . . . تو کیا وہ آپ کو کپڑے مہیا نہیں کرے گا؟“ وہ ضرور ایسا کرے گا۔ مگر شاگردوں کا ایمان تھوڑا کمزور تھا۔ (متی 8:26؛ 14:31؛ 16:8؛ 17:20) اُنہیں اپنے ایمان کو مضبوط بنانے اور یہوواہ خدا پر بھروسا کرنے کی ضرورت تھی۔ ہمارا ایمان کتنا مضبوط ہے؟ کیا ہمیں پکا یقین ہے کہ یہوواہ خدا ہماری ضروریات پوری کرنے کی طاقت اور خواہش رکھتا ہے؟
17. ہم یہوواہ سے دُور ہونے کے خطرے میں کیسے پڑ سکتے ہیں؟
17 متی 6:31، 32 کو پڑھیں۔ ہمیں دُنیا کے لوگوں کی طرح نہیں ہونا چاہیے جو اِس بات پر ایمان نہیں رکھتے کہ خدا اپنے بندوں کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ اگر ہم اُن چیزوں کے پیچھے بھاگتے ہیں جن کے پیچھے دُنیا بھاگتی ہے تو ہم یہوواہ خدا سے دُور ہونے کے خطرے میں ہیں۔ اِس کی بجائے ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ اگر ہم خدا کی مرضی پر چلیں گے اور اُس کی خدمت کو زندگی میں سب سے اہم خیال کریں گے تو وہ ہماری دیکھبھال کرے گا۔ جو شخص ”خدا کی بندگی“ کرتا ہے، وہ روٹی، کپڑے اور ٹھکانے جیسی بنیادی چیزوں پر راضی رہتا ہے۔—1-تیم 6:6-8؛ فٹنوٹ۔
آپ کی زندگی میں خدا کی بادشاہت کا کیا مقام ہے؟
18. یہوواہ خدا ہمارے بارے میں کیا کچھ جانتا ہے اور وہ ہمارے لیے کیا کرے گا؟
18 متی 6:33 کو پڑھیں۔ مسیح کے شاگردوں کو زندگی کے ہر پہلو میں خدا کی بادشاہت کو سب سے زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔ یسوع مسیح نے کہا کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو ”باقی ساری چیزیں“ یعنی زندگی کی ضروریات بھی اُن کو دی جائیں گی۔ اُنہوں نے اِس کی وجہ یوں بتائی: ”آپ کا آسمانی باپ جانتا ہے کہ آپ کو اِن چیزوں کی ضرورت ہے۔“ یہوواہ خدا ہماری بنیادی ضروریات کو بھانپ لیتا ہے، اِس سے بھی پہلے کہ ہم اِن کی ضرورت محسوس کریں۔ (فل 4:19) وہ جانتا ہے کہ ہمارے کون سے کپڑے گھسنے والے ہیں۔ اُسے معلوم ہے کہ ہمیں کس طرح کی خوراک اور کتنے بڑے گھر کی ضرورت ہے۔ وہ ہمارے حالات کے مطابق ہمیں وہ سب کچھ دے گا جس کی ہمیں واقعی ضرورت ہے۔
19. ہمیں مستقبل کے بارے میں فکر کیوں نہیں کرنی چاہیے؟
19 متی 6:34 کو پڑھیں۔ غور کریں کہ یسوع مسیح نے دوبارہ کہا: ”فکر نہ کریں۔“ وہ چاہتے تھے کہ ہم ہر دن اِس بات پر بھروسا رکھیں کہ یہوواہ خدا ہماری اُس دن کی ضروریات پوری کرے گا۔ ہمیں مستقبل کے بارے میں حد سے زیادہ فکر نہیں کرنی چاہیے ورنہ ہو سکتا ہے کہ ہم خود پر بھروسا کرنے لگیں اور یہوواہ خدا سے دُور ہو جائیں۔—امثا 3:5، 6؛ فل 4:6، 7۔
بادشاہت کو پہلا درجہ دیں، باقی یہوواہ پر چھوڑ دیں
20. (الف) ہم خدا کی خدمت میں کیا کچھ کر سکتے ہیں؟ (ب) آپ اپنے طرزِزندگی کو زیادہ سادہ بنانے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟
20 یہ کتنے افسوس کی بات ہوگی اگر ہمارے پاس اِس لیے خدا کی خدمت کرنے کے لیے وقت اور توانائی نہ رہے کیونکہ ہم زیادہ سے زیادہ چیزیں حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں اِس کے بارے میں سوچنا چاہیے کہ ہم اپنے خدا کے لیے اَور کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر کیا آپ ایک ایسی کلیسیا میں منتقل ہو سکتے ہیں جہاں مبشروں کی ضرورت ہے؟ کیا آپ پہلکار کے طور پر خدمت کر سکتے ہیں؟ اور اگر آپ پہلکار ہیں تو کیا آپ بادشاہت کے مُنادوں کے لیے سکول میں داخلہ لینے کی درخواست ڈال سکتے ہیں؟ کیا آپ ہفتے میں کچھ دن بیتایل یا ترجمے کے دفتر میں کام کر سکتے ہیں؟ کیا آپ عبادتگاہوں کی تعمیر کے کسی شعبے میں کام کر سکتے ہیں؟ اپنے طرزِزندگی کو اَور بھی سادہ بنانے کا سوچیں تاکہ آپ خدا کی خدمت میں زیادہ وقت صرف کر سکیں۔ اِس سلسلے میں دُعا کریں اور پھر بکس ”اپنے طرزِزندگی کو سادہ بنانے کے لیے کچھ اِقدام“ میں دیے گئے مشوروں پر سوچ بچار کریں اور پھر اپنی منزل کی طرف قدم بڑھائیں۔
21. ہم یہوواہ خدا کے زیادہ قریب کیسے ہو سکتے ہیں؟
21 یسوع مسیح نے ہمیں چیزوں کی بجائے بادشاہت کو زندگی میں پہلا درجہ دینے کا درس دیا۔ اگر ہم اُن کی بات پر عمل کریں گے تو ہمیں اپنی جسمانی ضروریات کے بارے میں کبھی فکر نہیں کرنی پڑے گی۔ ہم نہ تو اپنی ہر خواہش کو پورا کریں گے اور نہ ہی دُنیا کی ہر آسائش کو حاصل کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کریں گے، چاہے ہمارے پاس کتنے ہی پیسے کیوں نہ ہوں۔ یوں ہم یہوواہ خدا کے زیادہ قریب ہو جائیں گے کیونکہ ہمیں پورا بھروسا ہوگا کہ وہ ہماری دیکھبھال کرے گا۔ لہٰذا آئیں، اپنے طرزِزندگی کو سادہ بنائیں تاکہ ہم ”حقیقی زندگی کو مضبوطی سے تھام سکیں۔“—1-تیم 6:19۔
^ [1] (پیراگراف 12) یہ دیکھنے کے لیے کہ یہوواہ اپنے بندوں کو کبھی کبھار بھوکا کیوں رہنے دیتا ہے، مینارِنگہبانی، 15 ستمبر 2014ء، صفحہ 22 پر ”قارئین کے سوال“ کو دیکھیں۔