غلامی سے آزادی ماضی میں اور اب
وکٹوریہa نامی لڑکی کو اِس بہانے یورپ لایا گیا کہ اُسے ایک سیلون میں کام دیا جائے گا۔ لیکن پھر وکٹوریہ کو جسمفروشی کرنے کے لیے کہا گیا۔ جب اُنہوں نے یہ کام کرنے سے اِنکار کِیا تو دس دن تک اُنہیں بہت زیادہ ماراپیٹا گیا اور دھمکیاں دی گئیں کہ اُن کے گھر والوں کو نقصان پہنچایا جائے گا۔ آخرکار وہ جسمفروشی کرنے پر مجبور ہو گئیں۔
وکٹوریہ کی میڈم نے اُنہیں یورپ لانے کے لیے 40 ہزار یورو [تقریباً 23 لاکھ 60 ہزار روپے] خرچ کیے تھے۔b وکٹوریہ کو کہا گیا کہ وہ یہ قرضہ اُتارنے کے لیے ہر رات 200 سے 300 یورو [تقریباً 12 سے 18 ہزار روپے] کما کر میڈم کو دیں۔ وکٹوریہ کہتی ہیں: ”مَیں اکثر سوچتی تھی کہ وہاں سے بھاگ جاؤں۔ لیکن مجھے اِس بات کا ڈر تھا کہ کہیں وہ میرے گھر والوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔ مَیں بُری طرح پھنس چُکی تھی۔“ دُنیا بھر میں ایسے تقریباً 40 لاکھ لوگ ہیں جن کی کہانی وکٹوریہ کی کہانی سے ملتی جلتی ہے اور جو جسمفروشی کرنے پر مجبور ہیں۔
تقریباً 4000 سال پہلے یوسف نامی ایک نوجوان کو اُن کے بھائیوں نے بیچ دیا۔ یوں وہ مصر کے ایک امیر گھرانے میں پہنچ گئے اور غلام کے طور پر زندگی گزارنے لگے۔ شروع میں تو یوسف کے آقا نے اُن سے کوئی بُرا سلوک نہیں کِیا، جیسے وکٹوریہ کے ساتھ کِیا گیا تھا۔ لیکن پھر یوسف کے آقا کی بیوی اُن پر دباؤ ڈالنے لگی کہ وہ اُس کے ساتھ سوئیں۔ جب یوسف نے اُس کی بات ماننے سے اِنکار کر دیا تو اُس نے اُن پر یہ اِلزام لگایا کہ اُنہوں نے اُس کی عزت لُوٹنے کی کوشش کی ہے۔ اِس وجہ سے یوسف کو بیڑیوں میں جکڑ کر قید میں ڈال دیا گیا۔—پیدایش 39:1-20؛ زبور 105:17، 18۔
یوسف کو قدیم زمانے میں غلامی کرنی پڑی جبکہ وکٹوریہ کو 21ویں صدی میں۔ لیکن اِن دونوں میں ایک بات ملتی جلتی ہے۔ دراصل یہ دونوں ایک ایسے کاروبار کی بھینٹ چڑھے جو صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ اور یہ کاروبار اِنسانی سمگلنگ ہے۔ اِس کاروبار میں اِنسانوں کی خریدوفروخت ہوتی ہے اور صرف اور صرف پیسے بٹورنے کو اہمیت دی جاتی ہے۔
ایک منافعبخش کاروبار
تاریخ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جنگوں کے ذریعے قوموں کو بڑی آسانی سے غلام مل جاتے تھے۔ مثال کے طور پر مصری بادشاہ توتمس سوم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ملک کنعان سے جنگ کے بعد 90 ہزار لوگوں کو قیدی بنا کر مصر لے آیا۔ مصریوں نے اِن قیدیوں کو اپنا غلام بنا لیا اور پھر اِن سے کانوں میں کام کروایا، مندر تعمیر کروائے اور نہریں کھدوائیں۔
رومی سلطنت نے بھی جنگوں کے ذریعے بہت سے لوگوں کو غلام بنایا۔ کبھی کبھار تو غلاموں کی اِتنی ضرورت ہوتی تھی کہ اِنہیں حاصل کرنے کے لیے جنگیں لڑی جاتی تھیں۔ ایک اندازے کے مطابق پہلی صدی عیسوی تک شہر روم کی تقریباً آدھی آبادی غلاموں پر مشتمل تھی۔ مصر اور روم میں زیادہتر غلاموں کے ساتھ بہت بُرا سلوک کِیا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر رومی کانوں میں کام کرنے والے غلاموں کی عمر صرف 30 سال تک ہوتی تھی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غلاموں کی زندگی بدتر ہوتی گئی۔ سولہویں صدی عیسوی سے اُنیسویں صدی عیسوی تک افریقہ اور امریکہ کے درمیان غلاموں کی تجارت بہت منافعبخش کاروبار تھی۔ اقوامِمتحدہ کے اِدارہ برائے تعلیم، سائنس و ثقافت (یونیسکو) کی ایک رپورٹ کے مطابق ”تقریباً ڈھائی کروڑ سے 3 کروڑ مردوں، عورتوں اور بچوں کو اغوا کِیا گیا اور بیچا گیا۔“ غلاموں کو بحرِاوقیانوس کے راستے امریکہ لے جایا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ سینکڑوں غلام بحرِاوقیانوس کو پار کرتے ہوئے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ایک غلام نے جو صحیح سلامت بحرِاوقیانوس پار کر گیا، کہا: ”عورتوں کی چیخوپکار اور مرتے ہوئے لوگوں کی آہیں اِتنا خوفناک منظر پیش کر رہی تھیں کہ مَیں بیان نہیں کر سکتا۔“
افسوس کی بات ہے کہ نہ صرف ماضی میں بلکہ آج بھی لوگوں کو غلام بنایا جاتا ہے۔ عالمی اِدارہ محنت کے مطابق تقریباً 2 کروڑ 10 لاکھ مرد، عورتیں اور بچے غلاموں کے طور پر کام کرتے ہیں اور اِس کے بدلے اُنہیں بہت کم تنخواہ دی جاتی ہے یا پھر بالکل نہیں دی جاتی۔ آجکل غلام کارخانوں، کانوں، بھٹوں، جسمفروشی کے اڈوں اور گھروں میں کام کرتے ہیں۔ حالانکہ اِس طرح لوگوں کو غلام بنانا ایک غیرقانونی کام ہے لیکن پھر بھی اِس میں اِضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
غلامی سے آزادی
چونکہ غلاموں کے ساتھ بہت بُرا سلوک کِیا جاتا تھا اِس لیے بہت سے غلاموں نے آزادی کے لیے لڑائیاں لڑیں۔ پہلی صدی قبلازمسیح میں ایک جنگجو سپارٹکس اور تقریباً 1 لاکھ غلاموں نے روم کے خلاف بغاوت کر دی۔ لیکن اُنہیں کامیابی نہیں ملی۔ اِس کے علاوہ اٹھارہویں صدی عیسوی میں کیریبیئن جزائر کے ایک جزیرے ہسپانیولا میں غلاموں نے اپنے مالکوں کے خلاف بغاوت کر دی۔ دراصل اُن غلاموں سے گنے کے کھیتوں میں کام کرایا جاتا تھا اور اُن پر بہت ظلم کِیا جاتا تھا۔ اِس وجہ سے 13 سال تک ہسپانیولا میں خانہجنگی چلتی رہی اور آخرکار 1804ء میں ہیٹی ایک آزاد ملک کے طور پر وجود میں آیا۔
بنیاِسرائیل کو جتنے بڑے پیمانے پر ملک مصر سے رِہائی ملی، اُس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ اُس وقت غالباً 30 لاکھ لوگ یعنی پوری اِسرائیلی قوم مصر کی غلامی سے آزاد ہوئی۔ پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ مصر میں بنیاِسرائیل کی زندگی بہت کٹھن تھی۔ اِس میں لکھا ہے کہ ”مصریوں نے بنیاِسرائیل پر تشدد کر کر کے اُن سے کام کرایا۔“ (خروج 1:11-14) ایک فرعون نے تو اِسرائیلیوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنے کے لیے یہ حکم تک دے دیا کہ اُن کے لڑکوں کو پیدا ہوتے ہی مار دیا جائے۔ بےشک بنیاِسرائیل کو مصر کی قید سے رِہائی ملنی چاہیے تھی۔—خروج 1:8-22۔
بنیاِسرائیل کی مصر سے آزادی اِس لحاظ سے منفرد تھی کہ اِس کے پیچھے خدا کا ہاتھ تھا۔ خدا نے موسیٰ نبی کو بتایا: ”مَیں اُن کے دُکھوں کو جانتا ہوں۔ اور مَیں اُترا ہوں کہ اُن کو مصریوں کے ہاتھ سے چھڑاؤں۔“ (خروج 3:7، 8) آج بھی پوری دُنیا میں یہودی اِس واقعے کی یاد میں ہر سال عیدِفسح مناتے ہیں۔—خروج 12:14۔
ہر طرح کی غلامی کا خاتمہ
پاک کلام میں کہا گیا ہے کہ یہوواہ خدا بےاِنصاف نہیں ہے۔ اِس میں یہ یقین بھی دِلایا گیا ہے کہ خدا کبھی نہیں بدلتا۔ (2-تواریخ 19:7؛ ملاکی 3:6) خدا نے یسوع مسیح کو زمین پر بھیجا تاکہ وہ ’غلاموں کو آزادی کی خبر دیں اور مظلوموں کو چھٹکارا دِلائیں۔‘ (لُوقا 4:18) کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ یسوع مسیح ہر غلام کو آزادی دِلائیں گے؟ جی نہیں۔ خدا نے یسوع مسیح کو اِس لیے بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو گُناہ اور موت کی قید سے آزادی دِلائیں۔ یسوع مسیح نے کہا: ”سچائی آپ کو آزاد کر دے گی۔“ (یوحنا 8:32) یسوع مسیح نے جو سچائیاں سکھائیں، اُن کے ذریعے آج بھی بہت سے لوگوں کو آزادی مل رہی ہے۔—بکس ”ایک فرق قسم کی غلامی سے آزادی“ کو دیکھیں۔
خدا نے یوسف اور وکٹوریہ کو فرق فرق طریقے سے رِہائی دِلائی۔ یہ جاننے کے لیے کہ یوسف کو رِہائی کیسے ملی، آپ پیدایش کی کتاب کے 39 سے 41 ابواب کو پڑھ سکتے ہیں۔ وکٹوریہ کو بھی بڑے دلچسپ طریقے سے رِہائی ملی۔
جب وکٹوریہ کو ایک یورپی ملک سے نکالا گیا تو وہ سپین چلی گئیں۔ وہاں اُن کی ملاقات یہوواہ کے گواہوں سے ہوئی اور وہ اُن سے بائبل کورس کرنے لگیں۔ وکٹوریہ اپنی زندگی کو سنوارنے کے لیے پُرعزم تھیں۔ اِس لیے اُنہوں نے ایک ملازمت ڈھونڈی اور اپنی سابق میڈم کو اِس بات پر قائل کر لیا کہ وہ قرضے کی ماہانہ قسط کم کر دے۔ پھر ایک دن وکٹوریہ کو اُن کی میڈم کا فون آیا۔ اُس نے اُن سے معافی مانگی اور اُن کا قرضہ معاف کر دیا۔ لیکن اُس نے ایسا کیوں کِیا؟ دراصل وہ بھی یہوواہ کے گواہوں سے بائبل کورس کر رہی تھی۔ وکٹوریہ کہتی ہیں: ”سچائی ہمیں بڑے شاندار طریقے سے آزاد کرتی ہے۔“
جب یہوواہ خدا نے دیکھا کہ مصر میں اِسرائیلی غلاموں کے ساتھ کتنا بُرا سلوک ہو رہا ہے تو اُسے بہت دُکھ ہوا۔ بِلاشُبہ آج بھی نااِنصافی کو دیکھ کر اُسے بہت دُکھ ہوتا ہوگا۔ یہ سچ ہے کہ ہر طرح کی غلامی کو ختم کرنے کے لیے اِنسانی معاشرے میں ایک بہت بڑی تبدیلی کی ضرورت ہوگی۔ لیکن خدا نے وعدہ کِیا ہے کہ وہ یہ تبدیلی لائے گا۔ پاک کلام میں لکھا ہے: ”اُس کے وعدے کے مطابق ہم نئے آسمان اور نئی زمین کا اِنتظار کر رہے ہیں جہاں نیکی کا راج ہوگا۔“—2-پطرس 3:13۔