”مسیحی زندگی اور خدمت—اِجلاس کا قاعدہ“ کے حوالے
2-8 نومبر
پاک کلام سے سنہری باتیں | خروج 39-40
”موسیٰ نے یہوواہ کی ہر ہدایت پر عمل کِیا“
م11 1/9 ص. 30 پ. 13
کیا یہوواہ خدا آپ کو اپنا سمجھتا ہے؟
آئیں، اب موسیٰ کی اچھی مثال پر غور کریں۔ وہ ’رویِزمین کے سب آدمیوں سے زیادہ حلیم تھے۔‘ (گن 12:3) موسیٰ ویسا ہی کرتے جیسا یہوواہ خدا اُنہیں کرنے کو کہتا۔ اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ بڑے حلیم اور فروتن تھے۔ (خر 7:6؛ 40:16) جب ہم بائبل پڑھتے ہیں تو ہمیں کہیں یہ تاثر نہیں ملتا کہ موسیٰ کو خدا کے حکموں پر اعتراض کرنے کی عادت تھی۔ جب یہوواہ خدا موسیٰ کو بڑی تفصیل سے بتاتا کہ اُنہیں ایک کام کیسے کرنا ہے تو موسیٰ یہ نہیں سوچتے تھے کہ ”یہوواہ خدا کو مجھ پر اعتبار ہی نہیں ہے۔“ مثال کے طور پر یہوواہ خدا نے موسیٰ کو مسکن تعمیر کرنے کے سلسلے میں بڑی تفصیل سے ہدایت دی۔ یہوواہ خدا نے کہا کہ مسکن کے پردے بنانے کے لئے کس رنگ کا دھاگہ استعمال کِیا جائے اور پردوں کے کنارے پر کتنے تکمے یعنی کنڈل ہوں۔ (خر 26:1-6) اگر کلیسیا کا ایک نگہبان کسی کام کے سلسلے میں آپ کو اِتنی تفصیل سے ہدایت دے تو شاید آپ کو اچھا نہ لگے۔ لیکن جب یہوواہ خدا اپنے خادموں کو ایک کام دیتا ہے تو اُس کو اعتبار ہوتا ہے کہ وہ اِسے اچھی طرح سے کر پائیں گے۔ اِس لئے جب یہوواہ خدا ہمیں بڑی تفصیل سے بتاتا ہے کہ ہمیں فلاں کام کیسے کرنا چاہئے تو اِس کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔ بہرحال موسیٰ، یہوواہ خدا سے ناراض نہیں ہوئے۔ اُنہوں نے یہ نہیں سوچا کہ ”یہوواہ خدا مجھے اِس کام کے لائق ہی نہیں سمجھتا۔“ اُنہوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ ”یہوواہ خدا نے تو مجھے بالکل ہی دبا کر رکھا ہوا ہے۔“ موسیٰ نے کاریگروں سے کہا کہ وہ بالکل ویسا ہی کریں جیسا یہوواہ خدا نے حکم دیا ہے۔ (خر 39:32) اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موسیٰ بہت ہی فروتن تھے۔ موسیٰ خود کو ایک اوزار کی طرح سمجھتے تھے جسے یہوواہ خدا مسکن بنانے کے لئے استعمال کر رہا ہے۔
م05 15/7 ص. 27 پ. 3
کیا آپ ہر معاملے میں دیانتدار ہیں؟
عبرانیوں 3:5 میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ”موسیٰ . . . خادم کی طرح دیانتدار رہا۔“ اُسکو اسلئے دیانتدار کہا گیا کیونکہ خیمۂاجتماع کو تعمیر کرتے وقت ”موسیٰ نے سب کچھ جیسا [یہوواہ] نے اُسکو حکم کِیا تھا اسی کے مطابق کِیا۔“ (خروج 40:16) یہوواہ خدا کے فرمانبردار ہونے سے ہم اپنی دیانتداری اور وفاداری کو ثابت کرتے ہیں۔ اسی فرمانبرداری کی وجہ سے ہم سخت آزمائشوں کا سامنا کرتے وقت بھی خدا کے وفادار رہیں گے۔ تاہم صرف ایسی صورتحال میں ہی خدا کے وفادار رہنے سے ہم دیانتدار نہیں کہلائیں گے۔ یسوع نے کہا تھا: ”جو تھوڑے میں دیانتدار ہے وہ بہت میں بھی دیانتدار ہے اور جو تھوڑے میں بددیانت ہے وہ بہت میں بھی بددیانت ہے۔“ (لُوقا 16:10) اِسلئے ہمیں معمولی باتوں میں بھی دیانتداری اور وفاداری سے کام لینا چاہئے۔
سنہری باتوں کی تلاش
آئیٹی-2 ص. 884 پ. 3
پانی کی بلی کی کھال
بنیاِسرائیل کو یہ کیسے ملی؟ اگر بائبل میں لفظ ”تخس“ کسی پانی کی بلی کی طرف اِشارہ کرتا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بنیاِسرائیل کے لیے اِس کی کھال حاصل کرنا کیسے ممکن تھا۔ سچ ہے کہ پانی کی بلی عام طور پر دائرۂِقطب شمالی اور دائرۂِقطب جنوبی کے اِردگِرد واقع علاقوں میں پائی جاتی ہے لیکن کچھ پانی کی بِلّیاں گرم آبوہوا والے علاقوں میں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ مثال کے طور پر آج بھی ایک قسم کی پانی کی بِلّیاں بحیرۂروم اور کچھ اَور ایسے علاقوں میں بھی رہتی ہیں جہاں کا پانی گرم ہوتا ہے۔ پچھلی کچھ صدیوں میں اِنسانوں نے پانی کی بلیوں کا بہت شکار کِیا ہے جس کی وجہ سے اِن کی تعداد کافی کم ہو گئی ہے۔ لیکن قدیم زمانے میں بحیرۂروم اور بحیرۂاحمر میں یہ بہت بڑی تعداد میں پائی جاتی تھیں۔ یہاں تک کہ سن 1832ء میں شائع ہونے والی ایک بائبل لغت میں بتایا گیا: ”بحیرۂاحمر کے بہت سے چھوٹے چھوٹے جزیروں پر پانی کی بِلّیاں دیکھی گئی ہیں۔“ (کامیٹ کی ”ڈکشنری آف دی ہولی بائبل،“ انگریزی ایڈیشن، صفحہ 139)
م15 15/7 ص. 21 پ. 1
کوئی دیکھے نہ دیکھے، یہوواہ دیکھتا ہے
جب خیمۂاِجتماع مکمل ہو گیا تو اِس پر ’ابر چھا گیا اور یہ یہوواہ کے جلال سے معمور ہو گیا۔‘ (خر 40:34) یہ اِس بات کا ثبوت تھا کہ یہوواہ کو خیمۂاِجتماع پسند آیا ہے۔ آپ کے خیال میں بضلیایل اور اہلیاب کو اُس وقت کیسا محسوس ہوا ہوگا؟ اُن کے نام تو خیمۂاِجتماع کی چیزوں پر کندہ نہیں کیے گئے تھے۔ پھر بھی اُنہیں اِس بات کی خوشی تھی کہ خدا نے اُن کی بنائی ہوئی سب چیزوں کو برکت بخشی ہے۔ (امثا 10:22) جب تک بضلیایل اور اہلیاب زندہ رہے اُنہیں یہ دیکھ کر بھی بڑا اچھا لگتا ہوگا کہ اُن کے ہاتھوں کی بنی ہوئی چیزیں یہوواہ کی عبادت میں اِستعمال ہو رہی ہیں۔ جب وہ نئی دُنیا میں زندہ ہوں گے تو اُنہیں یقیناً یہ جان کر بےاِنتہا خوشی ہوگی کہ خیمۂاِجتماع یہوواہ خدا کی عبادت کے لیے تقریباً 500 سال تک اِستعمال ہوتا رہا۔
9-15 نومبر
پاک کلام سے سنہری باتیں | احبار 1-3
”قربانیوں کا مقصد“
آئیٹی-2 ص. 525
قربانیاں
سوختنی [یا آتشی] قربانیاں۔ سوختنی قربانی میں ایک جانور پورے کا پورا یہوواہ کے حضور قربان کِیا جاتا تھا اور اُس کا کوئی بھی حصہ اُس کے بندے اپنے لیے نہیں لیتے تھے۔ (قضا 11:30، 31، 39، 40 پر غور کریں۔) ایک اِسرائیلی اِس قربانی کو کبھی کبھار گُناہ کی قربانی کے ساتھ پیش کرتا تھا تاکہ یہوواہ اُس سے خوش ہو اور اُس کے گُناہوں کی قربانی کو قبول کرے۔ یسوع مسیح نے خود کو سالم سوختنی قربانی کے طور پر پیش کِیا۔
آئیٹی-2 ص. 528 پ. 4
قربانیاں
نذر کی قربانی یعنی اناج کا نذرانہ۔ نذر کی قربانی کو سلامتی کی قربانی، سوختنی قربانی، خطا کی قربانی اور فصل کے پہلے پھلوں کے ساتھ پیش کِیا جاتا تھا۔ لیکن کبھی کبھار اِس قربانی کو اکیلے بھی چڑھایا جاتا تھا۔ (خر 29:40-42؛ احبا 23:10-13، 15-18؛ گن 15:8، 9، 22-24؛ 28:9، 10، 20، 26-28؛ باب 29) نذر کی قربانی کو پیش کرنے سے ایک اِسرائیلی یہ ظاہر کرتا تھا کہ وہ یہوواہ کی طرف سے ملنے والی برکت اور خوشحالی کے لیے اُس کا شکرگزار ہے۔ اِسے اکثر تیل اور لبان کے ساتھ پیش کِیا جاتا تھا۔ نذر کی قربانی کو میدے، بھنے ہوئے اناج، تیل چپڑی ہوئی چپاتیوں اور تر کلچوُں کی صورت میں پیش کِیا جا سکتا تھا۔ نذر کی قربانی کا کچھ حصہ سوختنی قربانی کی قربانگاہ پر رکھا جاتا تھا، کچھ حصہ کاہن کھایا کرتے تھے اور جب اِسے سلامتی کی قربانی کے ساتھ پیش کِیا جاتا تھا تو اِس کا کچھ حصہ اِسے پیش کرنے والا بھی لیتا تھا۔ (احبا 6:14-23؛ 7:11-13؛ گن 18:8-11) قربانگاہ پر جو نذرانہ چڑھایا جاتا تھا، اُس میں ذرا سا بھی خمیر یا ”شہد“ (جو کہ غالباً اِنجیروں یا پھلوں کے رس کی طرف اِشارہ کرتا ہے) نہیں ملا ہوتا تھا۔—احبا 2:1-16۔
م12 1/1 ص. 20-21 پ. 11-12
شریعت میں سلامتی کے ذبیحوں کا بھی ذکر ہوا تھا۔ اِن قربانیوں سے ظاہر ہوتا تھا کہ ایک شخص یہوواہ خدا کے ساتھ صلح سے رہ رہا ہے۔ یہ قربانی پیش کرنے والا شخص اپنے خاندان کے ساتھ مل کر قربانی کے جانور کا گوشت کھاتا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اِس مقصد کے لئے ہیکل میں خاص کوٹھریاں بنائی گئی تھیں۔ قربانی گزراننے والے کاہن اور دوسرے کاہنوں کو بھی گوشت میں سے کچھ حصہ دیا جاتا تھا۔ (احبا 3:1؛ 7:31-33) ایسی قربانیاں گزراننے کا مقصد خدا کی خوشنودی حاصل کرنا تھا۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے وہ شخص، اُس کا خاندان اور کاہن یہوواہ خدا کے ساتھ مل کر کھانا کھا رہے ہیں اور اُس کے ساتھ صلح سے رہ رہے ہیں۔
لہٰذا سلامتی کے ذبیحے گزراننے والا شخص ایک طرح سے یہوواہ خدا کو اپنے ساتھ کھانا کھانے کی دعوت دیتا تھا۔ یہ کتنا بڑا اعزاز تھا کہ خدا ادنیٰ انسانوں کی دعوت قبول کرتا تھا! ظاہر ہے کہ وہ شخص اِتنے خاص مہمان کو اپنی سب سے بہترین چیز پیش کرتا۔ سلامتی کے ذبیحے کا بندوبست علم کے اُس نمونے میں شامل تھا جس کا پولس رسول نے ذکر کِیا تھا۔ اِس بندوبست نے یسوع مسیح کی قربانی کی طرف اشارہ کِیا جس کی بِنا پر انسانوں کو اپنے خالق کے ساتھ صلح سے رہنے کا موقع ملا ہے۔ آج جب ہم خوشی سے اپنی توانائی اور وسائل کو خدا کی خدمت میں استعمال کرتے ہیں تو خدا کے ساتھ ہماری دوستی مضبوط ہو جاتی ہے۔
سنہری باتوں کی تلاش
م04 15/5 ص. 22 پ. 1
احبار کی کتاب سے اہم نکات
2:13—”ہر چڑھاوے“ کیساتھ نمک پیش کرنا کیوں ضروری تھا؟ یہ قربانی کے ذائقے کو بہتر بنانے کیلئے نہیں تھا۔ پوری دُنیا میں نمک کو چیزوں کو محفوظ رکھنے کیلئے استعمال کِیا جاتا ہے۔ اسے قربانی کے طور پر غالباً اسلئے پیش کِیا جاتا تھا کیونکہ یہ خراب ہونے یا سٹرنے سے بچاؤ کی علامت ہے۔
آئیٹی-1 ص. 813
چربی
اِس حکم کو دینے کا مقصد۔ بنیاِسرائیل کو دی گئی شریعت میں خون اور چربی صرف یہوواہ کے لیے مخصوص کی گئی تھی۔ خون، زندگی کی طرف اِشارہ کرتا ہے جو صرف یہوواہ ہی دے سکتا ہے۔ لہٰذا اِس پر یہوواہ کا حق ہے۔ (احبا 17:11، 14) چربی کو جانور کے جسم کا سب سے بہترین حصہ سمجھا جاتا تھا۔ جب ایک شخص اِسے قربانی کے طور پر پیش کرتا تھا تو وہ یہ تسلیم کرتا تھا کہ یہوواہ بہترین حصہ پانے کا حقدار ہے اور وہ اپنے دل کی خوشی سے اُسے بہترین حصہ دینا چاہتا ہے۔ چونکہ چربی کو پیش کرنے سے اِسرائیلی اپنے خدا کو بہترین چیز پیش کر رہے ہوتے تھے اِس لیے قربانگاہ سے اُٹھنے والے دھوئیں کو یہوواہ کے لیے ”غذا“ اور ”راحتانگیز خوشبو“ کہا جاتا تھا۔ (احبا 3:11، 16) لہٰذا اگر ایک شخص چربی کو کھاتا تو دراصل وہ ایسی چیز پر ڈاکا مار رہا ہوتا تھا جو خدا کے لیے مخصوص تھی۔ اِسے کھانے کی سزا موت تھی۔ البتہ خون کے برعکس چربی کو دیگر مقاصد کے لیے اِستعمال کِیا جا سکتا تھا، کم از کم اُس صورت میں جب ایک جانور خودبخود مر جاتا تھا یا کوئی اَور جانور اُسے مار ڈالتا تھا۔—احبا 7:23-25۔
م04 15/5 ص. 22 پ. 2
احبار کی کتاب سے اہم نکات
3:17۔ چونکہ چربی کو قربانی کا بہترین یا پسندیدہ حصہ خیال کِیا جاتا تھا، اسلئے اسے نہ کھانے کی ممانعت نے اسرائیلیوں پر اس بات کی اہمیت کو واضح کِیا کہ بہترین حصہ صرف یہوواہ کیلئے ہے۔ (پیدایش 45:18) اس سے ہمیں یاد کرایا جاتا ہے کہ ہمیں اپنا بہترین حصہ یہوواہ کو دینا چاہئے۔—امثال 3:9، 10؛ کُلسّیوں 3:23، 24۔
16-22 نومبر
پاک کلام سے سنہری باتیں | احبار 4-5
”یہوواہ کے حضور اپنی طرف سے بہترین قربانی پیش کریں“
آئیٹی-2 ص. 527 پ. 9
قربانیاں
جُرم کی قربانیاں۔ جُرم کی قربانی بھی خطا ہونے کی صورت میں پیش کی جاتی تھی اور اِس میں کسی بھی طرح کا گُناہ شامل تھا۔ یہ خطا کی قربانیوں سے اِس لحاظ سے فرق تھی کہ اِسے تب پیش کِیا جاتا تھا جب کسی گُناہ کی وجہ سے دوسرے کا حق مارا جاتا تھا، چاہے یہ حق خدا کا ہو یا اُس کی مُقدس قوم کا۔ توبہ کرنے والا شخص جُرم کی قربانی اِس لیے پیش کرتا تھا تاکہ وہ یہوواہ کو راضی کر سکے یا پھر اُن حقوق کو دوبارہ سے حاصل کر سکے جن سے وہ گُناہ کی وجہ سے محروم ہو گیا تھا اور یوں اپنے گُناہ کی سزا سے چھٹکارا پا سکے۔—یسع 53:10 پر غور کریں۔
ڈبلیو09 1/6 ص. 26 پ. 3
وہ ہماری صورتحال کا لحاظ رکھتا ہے
شریعت میں دیے گئے اِس حکم سے یہوواہ کی ہمدردی صاف نظر آتی ہے: ”اگر بھیڑ دینے کا مقدور نہ ہو تو وہ اپنی خطا کے لئے جُرم کی قربانی کے طور پر دو قمریاں یا کبوتر کے دو بچے [یہوواہ] کے حضور گذرانے۔“ (7 آیت) اِصطلاح ’اگر دینے کا مقدور نہ ہو‘ کا اِشارہ ”ہاتھ تنگ ہونے“ کی طرف بھی ہے۔ اگر ایک اِسرائیلی کے بس میں بھیڑ کی قربانی چڑھانا ممکن نہیں ہوتا تھا تو یہوواہ دو فاختاؤں یا دو کبوتروں کی قربانی کو بھی خوشی سے قبول کرتا تھا جو وہ اِسرائیلی اپنی حیثیت کے مطابق پیش کرتا تھا۔
ڈبلیو09 1/6 ص. 26 پ. 4
وہ ہماری صورتحال کا لحاظ رکھتا ہے
لیکن اگر ایک اِسرائیلی کی مالی حیثیت دو پرندے قربان کرنے کی بھی نہ ہوتی تو پھر وہ کیا کرتا؟شریعت میں بتایا گیا ہے کہ ”اگر اُسے دو قمریاں یا کبوتر کے دو بچے لانے کا بھی مقدور نہ ہو تو اپنی خطا کے واسطے اپنے چڑھاوے کے طور پر ایفہ کے دسویں حصہ [یعنی آٹھ یا نو کپ]کے برابر میدہ خطا کی قربانی کے لئے لائے۔“ (11 آیت) لہٰذا جو شخص بہت ہی غریب ہوتا تھا، اُسے یہوواہ نے اِس بات کی اِجازت دی تھی کہ وہ خطا کی قربانی کے لیے ایسی چیزیں پیش کر سکتا ہے جن میں خون نہ ہو۔ اِس طرح چاہے ایک اِسرائیلی کتنا ہی غریب کیوں نہ ہوتا، وہ اپنے گُناہوں سے کفارہ پانے اور یہوواہ سے صلح کرنے کے اعزاز سے محروم نہ رہتا۔
سنہری باتوں کی تلاش
شفقت کی خوبی اُس وقت بھی آپ کے کام آئے گی جب آپ کو یہ فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ آپ کس کے وفادار رہیں گے۔ مثال کے طور پر شاید ایک یہوواہ کا گواہ غلط روِش پر چل نکلا ہے۔ اگر وہ آپ کا قریبی دوست یا رشتےدار ہے تو آپ کے دل میں یہ خواہش ضرور ہوگی کہ آپ اُس کے وفادار رہیں۔ لیکن اگر آپ اُس سے وفاداری نبھانے کی خاطر اُس کے گُناہ پر پردہ ڈالیں گے تو آپ یہوواہ خدا سے بےوفائی کر رہے ہوں گے۔ ظاہری بات ہے کہ آپ کو سب سے پہلے یہوواہ خدا کا وفادار ہونا چاہیے۔ اِس لیے ناتن نبی کی مثال پر عمل کریں اور اپنے دوست یا رشتےدار سے اُس کے گُناہ کے بارے میں بات کریں مگر شفقت بھرے انداز میں۔ اُس سے کہیں کہ وہ جا کر کلیسیا کے بزرگوں سے بات کرے۔ اگر کچھ وقت گزرنے کے بعد بھی وہ ایسا نہیں کرتا تو آپ خود جا کر بزرگوں سے بات کریں۔ ایسا کرنے سے آپ ظاہر کریں گے کہ آپ یہوواہ خدا کے وفادار ہیں اور اپنے دوست یا رشتےدار کی بہتری چاہتے ہیں کیونکہ کلیسیا کے بزرگ اُس کی اِصلاح کرنے کی کوشش کریں گے۔—احبار 5:1؛ گلتیوں 6:1 کو پڑھیں۔
آئیٹی-1 ص. 1130 پ. 2
پاکیزگی
جانور اور فصل۔ بھیڑوں اور بکریوں کے پہلوٹھوں کو یہوواہ کے لیے مُقدس سمجھا جاتا تھا اور اُن کا فدیہ نہیں لیا جاتا تھا۔ اِن کو یہوواہ کے حضور قربان کِیا جاتا تھا اور اِن کا ایک حصہ کاہنوں کو دیا جاتا تھا۔ (گن 18:17-19) ہدیوں اور فصل کے پہلے پھلوں کو پاک خیال کِیا جاتا تھا، بالکل جیسے مُقدس مقام میں پیش کی جانے والی باقی قربانیوں اور تحفوں کو جو یہوواہ کی خدمت کے لیے مخصوص کی جاتی تھیں۔ (خر 28:38) یہوواہ کے حضور پاک کی گئی تمام چیزیں مُقدس تھیں اور اِنہیں کسی معمولی یا غلط کام کے لیے اِستعمال نہیں کِیا جا سکتا تھا۔ اِس کی ایک مثال ہدیوں کے بارے میں حکم ہے۔ اگر ایک آدمی اپنے گیہوں کا ایک حصہ ہدیے کے طور پر پیش کرنے کا فیصلہ کرتا اور بعد میں وہ یا اُس کا گھرانہ انجانے میں اُس میں سے کچھ لے لیتا جیسے کہ کھانا پکانے کے لیے تو وہ مُقدس چیزوں کے حوالے یہوواہ کے قانون کو توڑ رہا ہوتا تھا۔ شریعت کے مطابق ایسے شخص کو ہرجانے کے طور پر برابر کی قیمت اور اُس کے اُوپر 20 فیصد اَور ادا کرنا ہوتا تھا۔ اِس کے علاوہ اُسے عیب سے پاک ایک برّہ بھی قربانی کے طور پر چڑھانا پڑتا تھا۔ اِس قانون کے ذریعے بنیاِسرائیل کے دل میں اُن پاک چیزوں کے لیے گہرا احترام پیدا کِیا گیا جو یہوواہ کی تھیں۔—احبا 5:14-16۔
23-29 نومبر
پاک کلام سے سنہری باتیں | احبار 6-7
”یہوواہ کا شکریہ ادا کریں“
احبار کی کتاب میں ہمارے لیے کون سے سبق پائے جاتے ہیں؟
دوسرا سبق: ہم یہوواہ کی خدمت اِس لیے کرتے ہیں کیونکہ ہم اُس کے شکرگزار ہیں۔ اِس سلسلے میں ذرا سلامتی کی قربانیوں پر غور کریں جو کہ قدیم اِسرائیل میں یہوواہ کی عبادت کا ایک اہم حصہ ہوتی تھیں۔ احبار کی کتاب سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ایک اِسرائیلی ”شکرانہ کے طور پر“ سلامتی کی قربانی چڑھا سکتا تھا۔ (احبا 7:11-13، 16-18) اِسرائیلیوں کو یہ قربانی چڑھانے کا حکم نہیں دیا گیا تھا بلکہ وہ یہ قربانی اپنی خوشی سے چڑھاتے تھے۔ اِس کا مطلب ہے کہ جو شخص یہ قربانی چڑھاتا تھا، وہ یہوواہ سے محبت کی بِنا پر ایسا کرتا تھا۔ قربانی چڑھانے والا شخص، اُس کے گھر والے اور کاہن قربانی کے جانور کا گوشت کھاتے تھے۔ لیکن اُس جانور کے کچھ حصے یہوواہ کے لیے مخصوص ہوتے تھے اور اُس کے حضور پیش کیے جاتے تھے۔ یہ کون سے حصے تھے؟
م00 15/8 ص. 15 پ. 15
خدا کو خوش کرنے والی قربانیاں
ایک اَور رضا کی قربانی سلامتی کا ذبیحہ تھا جسے احبار 3 باب میں بیان کِیا گیا ہے۔ اس نام کا ترجمہ ”صلح کی قربانی“ بھی کِیا جا سکتا ہے۔ عبرانی میں، لفظ ”سلامتی“ کا مفہوم محض جنگ یا ہنگامہآرائی سے آزادی نہیں ہے۔ کتاب اسٹڈیز ان دی موزیک انسٹیٹیوشنز کے مطابق ”بائبل اس لفظ کو اس مفہوم کے علاوہ، خدا کے ساتھ صلح کے رشتے یا حالت، مرفہالحالی، شادمانی اور خوشی کے مفہوم میں بھی استعمال کرتی ہے۔“ لہٰذا، سلامتی کے ذبیحے خدا سے صلح طلب کرنے یا اُس کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے پیش نہیں کئے جاتے تھے بلکہ خدا کے منظورِنظر لوگ اُس کے ساتھ صلح کی بابرکت حالت کی شکرگزاری یا اس کیلئے اپنی خوشی کے اظہار میں ایسی قربانیاں گذرانتے تھے۔ خون اور چربی کو یہوواہ کے حضور چڑھانے کے بعد، کاہن اور قربانی گذراننے والا باقی حصہ کھایا کرتے تھے۔ (احبار 3:17؛ 7:16-21؛ 19:5-8) ایک خوبصورت اور علامتی طریقے سے کاہن، قربانی گذراننے والا اور یہوواہ خدا کھانے میں شریک ہوتے تھے جس سے اُنکے درمیان صلح کی نشاندہی ہوتی تھی۔
م00 15/8 ص. 19 پ. 8
نذر گذراننے والے شخص کی بابت کیا ہے؟ شریعت نے بیان کِیا کہ یہوواہ کے حضور آنے والے ہر شخص کو پاک اور بےعیب ہونا چاہئے۔ اگر کوئی شخص کسی وجہ سے آلودہ ہو گیا ہوتا تو اُسے سب سے پہلے یہوواہ کے حضور اپنی راست حیثیت بحال کرنے کیلئے خطا اور جُرم کی قربانی دینی پڑتی تھی تاکہ اس کی سوختنی قربانی یا سلامتی کا ذبیحہ اس کے حضور مقبول ٹھہرے۔ (احبار 5:1-6، 15، 17) لہٰذا، کیا ہم یہوواہ کے حضور ہمیشہ راست حیثیت برقرار رکھنے کی اہمیت کی قدر کرتے ہیں؟ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری پرستش خدا کے حضور قابلِقبول ہو تو ہمیں خدا کے قوانین کی خلافورزی کی فوراً اصلاح کرنی چاہئے۔ ہمیں مدد کیلئے خداداد ذرائع—”کلیسیا کے بزرگ“ اور ”ہمارے گناہوں کا کفارہ،“ یسوع مسیح—سے فوراً فائدہ اُٹھانا چاہئے۔—یعقوب 5:14؛ 1-یوحنا 2:1، 2۔
سنہری باتوں کی تلاش
آئیٹی-1 ص. 833 پ. 1
آگ
خیمۂاِجتماع اور ہیکل میں جلنے والی آگ۔ پہلے اِسے خیمۂاِجتماع میں اور بعد میں ہیکل میں خدا کی عبادت کے دوران جلایا جاتا تھا۔ کاہنِاعظم کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ ہر صبح، سورج غروب ہونے کے بعد اور اندھیرا ہونے سے پہلے خوشبودار بخور جلائے۔ (خر 30:7، 8) شریعت کے مطابق قربانگاہ پر آگ کو مسلسل جلتے رہنا چاہیے تھا۔ (احبا 6:12، 13) بہت سے یہودیوں کا یہ نظریہ ہے کہ قربانگاہ پر جلنے والی آگ دراصل خدا کی طرف سے معجزانہ طور پر لگی تھی۔ لیکن صحیفوں میں اِس کی کوئی بنیاد نہیں ملتی۔ یہوواہ نے موسیٰ کو جو ہدایت دی، اُس کے مطابق ہارون کے بیٹوں کو قربانگاہ پر قربانی کا جانور رکھنے سے پہلے ’مذبح پر آگ رکھنی تھی اور آگ پر لکڑیاں ترتیب سے چُننی تھیں۔‘ (احبا 1:7، 8) یہوواہ کی طرف سے آگ تبھی آئی جب ہارون اور اُن کے بیٹوں کو کاہنوں کے طور پر مقرر کر دیا گیا اور اُنہوں نے قربانگاہ پر قربانی چڑھا دی۔ یہوواہ کی طرف سے آنے والی آگ غالباً اُس بادل سے نکلی جو خیمۂاِجتماع کے اُوپر تھا۔ اِس آگ نے قربانگاہ پر رکھی لکڑیوں کو نہیں بلکہ ”سوختنی قربانی اور چربی کو مذبح کے اُوپر بھسم“ کر دیا۔ پھر جو آگ قربانگاہ پر جلتی رہی، وہ خدا کی طرف سے آنے والی آگ اور پہلے سے قربانگاہ پر جلنے والی آگ سے مل کر بنی تھی۔ (احبار 8:14–9:24) ایسا ہی کچھ اُس وقت ہوا تھا جب ہیکل کو یہوواہ کے وقف کِیا گیا تھا۔ تب سلیمان کی دُعا کے فوراً بعد آسمان سے یہوواہ کی طرف سے آگ آئی اور اُس نے قربانگاہ پر رکھی قربانی کو بھسم کر دیا۔—2-توا 7:1؛ اِس کے علاوہ قضا 6:21؛ 1-سلا 18:21-39؛ 1-توا 21:26 میں کچھ اَور مثالیں پائی جاتی ہیں جب یہوواہ نے اپنی خوشی کا اِظہار کرنے کے لیے آسمان سے آگ بھیج کر اُن قربانیوں کو بھسم کر دیا جو اُس کے بندوں نے اُس کے حضور چڑھائی تھیں۔
ایسآئی ص. 27 پ. 15
بائبل کی تیسری کتاب—احبار
(3) ایک شخص خطا کی قربانی کو تب پیش کرتا تھا جب اُس سے انجانے میں یا غلطی سے کوئی گُناہ ہو جاتا تھا۔ اِس قربانی کے لیے کس قسم کا جانور چُنا جائے گا، اِس کا فیصلہ اِس بِنا پر کِیا جاتا تھا کہ یہ قربانی کس کے گُناہ کے کفارے کے لیے پیش کی جا رہی ہے، کیا یہ کاہن کے کفارے کے لیے ہے، پوری قوم کے گُناہوں کے کفارے کے لیے ہے، کسی سردار کے کفارے کے لیے ہے یا کسی عام شخص کے کفارے کے لیے ہے؟ سوختنی یا سلامتی کی قربانی تو ایک شخص اپنی خوشی سے چڑھاتا تھا لیکن خطا کی قربانی پیش کرنا ہر شخص پر لازمی تھا۔—4:1-35؛ 6:24-30۔
30 نومبر–6 دسمبر
پاک کلام سے سنہری باتیں | احبار 8-9
”یہوواہ کی برکت کا ثبوت“
آئیٹی-1 ص. 1207
ہارون اور اُن کے بیٹوں کا کاہنوں کے طور پر مقرر ہونا
موسیٰ نے ہارون اور اُن کے بیٹوں ندب، ابیہو،اِلیعزر اور اتمر کو خیمۂاِجتماع کے صحن میں رکھے پیتل کے حوض میں دھو کر پاک صاف کِیا (یا پھر اُنہوں نے اُن کو حکم دیا کہ وہ خود کو دھو کر پاک صاف کریں)۔ اِس کے بعد موسیٰ نے ہارون کو کاہنِاعظم کا شاندار لباس پہنایا۔ (گن 3:2، 3) ہارون کے اِس لباس نے اُن خوبیوں کی طرف اِشارہ کِیا جو کاہنِاعظم کے طور پر اُن میں ہونی چاہیے تھیں۔ اِس لباس نے اُن ذمےداریوں کی طرف بھی اِشارہ کِیا جو اُنہیں اپنے عہدے کو نبھاتے وقت پوری کرنی تھیں۔ اِس کے بعد موسیٰ نے تیل سے خیمۂاِجتماع، اِس کے سازوسامان، برتنوں، قربانگاہ، حوض اور اِس میں اِستعمال ہونے والے برتنوں کو مسح کِیا۔ یوں یہ چیزیں مُقدس ہو گئیں یعنی خدا کی خدمت کے لیے مخصوص ہو گئیں۔ آخر میں موسیٰ نے ہارون کے سر پر تیل ڈال کر اُنہیں مسح کِیا۔—احبا 8:6-12؛ خر 30:22-33؛ زبور 133:2۔
آئیٹی-1 ص. 1208 پ. 8
ہارون اور اُن کے بیٹوں کا کاہنوں کے طور پر مقرر ہونا
آٹھویں دن، مقرر کیے ہوئے کاہن نے (موسیٰ کی مدد کے بغیر) پہلی بار اِسرائیلی قوم کے گُناہوں کے کفارے کے لیے قربانیاں چڑھائیں۔ یہ قربانیاں صرف اِس لیے پیش نہیں کی گئی تھیں کہ بنیاِسرائیل عیبدار تھے بلکہ اِس لیے بھی پیش کی گئیں کیونکہ اُنہوں نے حال ہی میں سونے کا بچھڑا بنا کر اِسے سجدہ کِیا تھا اور یوں یہوواہ کو غصہ دِلایا تھا۔ (احبا 9:1-7؛ خر 32:1-10) جب کاہنوں نے یہ قربانیاں پیش کیں تو یہوواہ نے معجزانہ آگ بھیجی جس نے قربانگاہ پر بچی کھچی قربانی کو بھسم کر دیا۔ بِلاشُبہ یہ آگ خیمۂاِجتماع کے اُوپر موجود بادل کے ستون سے آئی تھی۔ یہ آگ اِس بات کا ثبوت تھی کہ یہوواہ کہانت کے بندوبست سے خوش اور رضامند ہے۔—احبا 9:23، 24۔
احبار کی کتاب میں ہمارے لیے کون سے سبق پائے جاتے ہیں؟
چوتھا سبق: یہوواہ اپنی تنظیم کے زمینی حصے کو برکت دے رہا ہے۔ ذرا غور کریں کہ جب 1512 قبلازمسیح میں کوہِسینا کے دامن میں خیمۂاِجتماع لگایا گیا تو کیا ہوا۔ (خر 40:17) اُس موقعے پر موسیٰ نبی کی سربراہی میں ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں ہارون اور اُن کے بیٹوں کو کاہن مقرر کِیا گیا۔ اِن کاہنوں نے بنیاِسرائیل کے سامنے پہلی بار جانوروں کی قربانیاں چڑھائیں۔ (احبا 9:1-5) اِس کے بعد یہوواہ نے اُن کے کاہن مقرر ہونے پر اپنی منظوری دی۔ اُس نے ایسا کیسے کِیا؟ جب ہارون اور موسیٰ نے لوگوں کو برکت دی تو یہوواہ نے قربانگاہ پر رکھی قربانی کو پوری طرح آگ سے بھسم کر دیا۔—احبار 9:23، 24 کو پڑھیں۔
سنہری باتوں کی تلاش
خدا کے بندوں کو پاک رہنا چاہیے
کاہنوں کو جسمانی طور پر پاک صاف رہنے کا حکم دیا گیا تھا۔ یہ بات آج ہمارے لیے بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ جن لوگوں کے ساتھ ہم بائبل کا مطالعہ کرتے ہیں، وہ اکثر یہ دیکھ کر متاثر ہوتے ہیں کہ ہم بہت صاف ستھرے رہتے ہیں اور اپنی عبادتگاہوں کو بھی بہت پاک صاف رکھتے ہیں۔ کاہنوں کے پاک رہنے سے ہم یہ بھی سمجھ جاتے ہیں کہ جو لوگ یہوواہ خدا کی عبادت کرنا چاہتے ہیں، اُن کے ”دل پاک“ ہونے چاہئیں۔ (زبور 24:3، 4 کو پڑھیں؛ یسع 2:2، 3) یہوواہ خدا کی عبادت کرنے کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہمارے جسم کے ساتھ ساتھ ہمارا دل اور ہماری سوچ بھی پاک ہو۔ اِس لیے ہمیں وقتاًفوقتاً اپنا جائزہ لینا چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا کرنے کے بعد ہمیں اپنے اندر کچھ بڑی تبدیلیاں لانی پڑیں۔ (2-کر 13:5) مثال کے طور پر شاید ایک بپتسمہیافتہ شخص فحش مواد دیکھتا ہو۔ اُسے خود سے پوچھنا چاہیے: ”کیا مَیں یہ ثابت کر رہا ہوں کہ مَیں پاک ہوں؟“ اِس کے بعد اُسے اِس غلیظ عادت کو چھوڑنے کے لیے بزرگوں سے مدد مانگنی چاہیے۔—یعقو 5:14۔
آئیٹی-2 ص. 437 پ. 3
موسیٰ
یہوواہ نے موسیٰ کو شریعت کے عہد کا درمیانی ٹھہرایا۔ یہ ایک ایسا اعزاز تھا جو اُن کے بعد صرف یسوع مسیح کو ملا جو نئے عہد کے درمیانی تھے۔ موسیٰ نے جانوروں کی قربانی کا خون شریعت کی کتاب پر چھڑکا جو یہوواہ کی طرف اِشارہ کرتی ہے۔ یہوواہ بنیاِسرائیل کے ساتھ باندھے گئے عہد کا پہلا فریق تھا۔ موسیٰ نے خون کو لوگوں پر (جو غالباً قوم کے بزرگ تھے) چھڑکا جو کہ عہد کے دوسرے فریق تھے۔ موسیٰ نے شریعت کی کتاب لوگوں کے سامنے پڑھی جس پر اُنہوں نے کہا: ”جتنی باتیں [یہوواہ] نے فرمائی ہیں ہم اُن سب کو مانیں گے۔“ (خر 24:3-8؛ عبر 9:19) شریعت کے عہد کا درمیانی ہونے کی وجہ سے موسیٰ کو کئی اعزاز ملے۔ اُنہوں نے یہوواہ کی دی ہوئی ہدایتوں کے مطابق خیمۂاِجتماع اور اِس میں اِستعمال ہونے والے برتنوں کو بنوایا، کاہنوں کو مقرر کِیا اور ہارون کو کاہنِاعظم کے طور پر اور خیمۂاِجتماع کو خاص تیل سے مسح کِیا جسے یہوواہ کی ہدایت کے مطابق تیار کِیا گیا تھا۔ اور پھر جب کاہنوں نے پہلی بار قربانیاں پیش کیں تو موسیٰ نے اِس کام میں اُن کی نگرانی کی۔—خر 25-29 ابواب؛ احبا 8، 9 ابواب۔