آپبیتی
ہم نے سیکھا کہ کبھی یہوواہ کو اِنکار نہ کریں
یہ 1971ء کی بات تھی۔شدید طوفانی بارش کے بعد دریا کا پانی کیچڑ سے بھر گیا اور اِتنا تیز بہنے لگا کہ بڑے بڑے پتھر بھی اپنی جگہ سے سرک گئے۔ ہم دریا کی دوسری طرف جانا چاہتے تھے لیکن پانی کے ریلوں کی وجہ سے پُل تہس نہس ہو گیا تھا۔ میرے شوہر ہاروی اور مَیں ایک بھائی کے ساتھ تھے جو آمیس زبان میں ہمارے لیے ترجمہ کرتا تھا۔ ہم تینوں ہی بہت ڈرے ہوئے تھے۔ جب ہم دریا پار کرنے لگے تو دوسری طرف کھڑے بھائی بڑی فکرمندی سے ہمیں دیکھ رہے تھے۔ سب سے پہلے تو ہم نے اپنی گاڑی کو ایک ٹرک پر چڑھایا۔ ہمارے پاس گاڑی کو باندھنے کے لیے رسیاں یا زنجیریں نہیں تھیں اِس لیے ڈرائیور ٹرک کو آہستہ آہستہ چلا کر پار لے جانے لگا۔ایسے لگ رہا تھا جیسے دریا پار کرنے میں صدیاں بیت جائیں گی۔ اِس دوران ہم یہوواہ سے مسلسل دُعا کرتے رہے اور آخرکار صحیح سلامت دوسری پار چلے گئے۔ مَیں اور ہاروی اپنے اپنے ملک سے ہزاروں میل دُور تائیوان کے جزیرے کے مشرقی ساحل پر خدمت کر رہے تھے۔ آئیں، مَیں آپ کو ہماری آپبیتی بتاتی ہوں۔
ہم نے سچائی کیسے سیکھی
ہاروی اپنے چار بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ اُن کا گھرانہ ریاست مغربی آسٹریلیا کے ایک شہر میں رہتا تھا۔ اُن لوگوں نے 1935ء کے لگ بھگ سچائی قبول کی جب ملک کے مالی حالات کافی بگڑے ہوئے تھے۔ ہاروی یہوواہ سے بہت محبت کرنے لگے اور اُنہوں نے 14 سال کی عمر میں بپتسمہ لے لیا۔ وہ جلد ہی اپنی زندگی میں یہ سیکھ گئے کہ وہ کبھی بھی یہوواہ کی طرف سے ملنے والی کسی ذمےداری سے اِنکار نہ کریں۔ جب وہ نوجوان تھے تو ایک بار اُنہیں اِجلاس میں ”مینارِنگہبانی“ کی پڑھائی کرنے کو کہا گیا۔ لیکن اُنہوں نے اِس سے اِنکار کر دیا کیونکہ ہاروی کو لگ رہا تھا کہ وہ اِس ذمےداری کے لائق نہیں ہیں۔ لیکن ایک بھائی نے اُن کی یہ سمجھنے میں مدد کی کہ ”جب یہوواہ کی تنظیم میں کوئی شخص آپ کو ایک ذمےداری سونپتا ہے تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ آپ کو اِس کے لائق سمجھتا ہے۔“—2-کُر 3:5۔
رہی میری بات تو مَیں اِنگلینڈ میں پلی بڑھی۔ مَیں نے، میری امی اور بڑی بہن نے وہیں سچائی سیکھی۔ البتہ میرے ابو نے کافی عرصے بعد سچائی کو قبول کِیا۔ شروع شروع میں وہ ہماری مخالفت کِیا کرتے تھے۔ مَیں نے اُن کی مرضی کے خلاف جا کر بپتسمہ لیا۔ اُس وقت مَیں صرف نو سال کی تھی۔ مَیں نے اِرادہ کِیا تھا کہ پہلے مَیں پہلکار بنوں گی اور اِس کے بعد مشنری۔ لیکن ابو نے مجھ سے کہا کہ 21 سال کی ہونے سے پہلے مَیں پہلکار نہیں بن سکتی۔ مگر مَیں اِتنا لمبا اِنتظار نہیں کر سکتی تھی اِس لیے جب مَیں 16 سال کی ہوئی تو ابو کی اِجازت سے مَیں آسٹریلیا جا کر اپنی بڑی بہن کے ساتھ رہنے لگی جو پہلے سے ہی وہاں رہ رہی تھی۔ پھر جب مَیں 18 سال کی ہوئی تو مَیں نے پہلکار کے طور پر خدمت کرنی شروع کر دی۔
آسٹریلیا میں میری ملاقات ہاروی سے ہوئی۔ میری طرح وہ بھی مشنری بننا چاہتے تھے۔ 1951ء میں ہم نے شادی کر لی۔ ہم نے دو سال پہلکاروں کے طور پر خدمت کی اور اِس کے بعد ہاروی کو حلقے کے نگہبان کے طور پر مقرر کِیا گیا۔ ہمارے حلقے میں ریاست مغربی آسٹریلیا کے کافی علاقے شامل تھے اِس لیے ہمیں اکثر دُوردراز اور بنجر علاقوں میں سفر کرنا پڑتا تھا۔
ہمارا خواب پورا ہو گیا!
سن 1954ء میں ہمیں گلئیڈ سکول کی 25 ویں کلاس میں شامل ہونے کی دعوت ملی۔ تب ہمیں مشنری بننے کا اپنا خواب پورا ہوتا دِکھائی دینے لگا۔ ہم بحری جہاز سے نیو یارک گئے اور وہاں پہنچ کر گہرائی سے بائبل کا مطالعہ کرنے میں جت گئے۔ ہمارے کورس میں سپینش زبان سیکھنا بھی شامل تھا جو کہ ہاروی کو کافی مشکل لگا کیونکہ وہ کچھ لفظوں کا صحیح تلفظ ادا نہیں کر پاتے تھے۔
کورس کے دوران ہمارے اُستادوں نے اِعلان کِیا کہ اگر ہم میں سے کوئی خدمت کرنے کے لیے جاپان جانا چاہتا ہے تو وہ جاپانی سیکھنے والی کلاس میں اپنا نام لکھوا سکتا ہے۔ ہم نے فیصلہ کِیا کہ ہم یہوواہ کی تنظیم کو یہ طے کرنے دیں گے کہ وہ ہمیں کہاں بھیجنا چاہتی ہے۔ ہمارے جواب دینے کے تھوڑی دیر بعد ہمارے ایک اُستاد کو جن کا نام البرٹ شروڈر تھا، یہ پتہ چلا کہ ہم نے جاپانی کلاس کے لیے اپنے نام نہیں لکھوائے۔ اِس پر اُنہوں نے ہم سے کہا: ”اپنے نام لکھوانے کے بارے میں سوچیں۔“ جب کچھ وقت گزرنے کے بعد بھی ہم ایسا کرنے سے ہچکچا رہے تھے تو بھائی البرٹ نے ہم سے کہا: ”مَیں نے اور دیگر اُستادوں نے آپ دونوں کے نام جاپانی کلاس میں ڈال دیے ہیں۔ اب آپ دونوں جاپانی سیکھنے کے لیے تیار ہو جائیں۔“ ہاروی سپینش سے زیادہ جاپانی آسانی سے سیکھ پائے۔
جب ہم 1955ء میں جاپان پہنچے تو وہاں صرف 500 مبشر تھے۔ اُس وقت ہاروی 26 سال کے اور مَیں 24 سال کی تھی۔ ہمیں کوبے نامی شہر میں خدمت کرنے کے لیے بھیجا گیا جہاں ہم نے چار سال خدمت کی۔ پھر ہاروی کو دوبارہ سے سفری نگہبان مقرر کِیا گیا جس پر ہم بہت خوش تھے۔ ہم شہر ناگویا کے قریب خدمت کرنے لگے۔ ہمیں یہاں کی ہر بات بہت اچھی لگی، مثلاً یہاں کے بہن بھائی، کھانا اور خوبصورت جگہیں۔ لیکن پھر ہمیں یہوواہ کی خدمت میں ایک اَور ذمےداری ملی جسے ہم نے پھر سے ناں نہیں کہا۔
نئی ذمےداری اور نئی مشکلات
تین سال بعد جاپان کی برانچ نے ہمیں تائیوان میں خدمت کرنے کے لیے پوچھا جہاں ہمیں آمیس قوم کے لوگوں کو مُنادی کرنی تھی۔ کچھ آمیسی بہن بھائی برگشتہ ہو گئے تھے اور تائیوان کی برانچ کو ایک ایسے بھائی کی ضرورت تھی جسے جاپانی آتی ہو اور جو کلیسیا میں پھیلنے والی برگشتگی کو روک سکے۔a ہمیں جاپان میں خدمت کرتے ہوئے بہت مزہ آ رہا تھا اِس لیے اِس ذمےداری کو قبول کرنا ہمیں مشکل لگ رہا تھا۔ لیکن ہاروی یہ سیکھ چُکے تھے کہ وہ کبھی کسی ذمےداری کو قبول کرنے سے اِنکار نہ کریں۔ اِس لیے ہم نے اِسے نبھانے کی ہامی بھر لی۔
ہم نومبر 1962ء میں تائیوان پہنچے۔ وہاں 2271 مبشر تھے جن میں سے زیادہتر آمیس قوم سے تعلق رکھتے تھے۔ وہاں پہنچ کر پہلے تو ہمیں چینی زبان سیکھنی پڑی۔ ہمارے پاس اِس زبان کو سیکھنے کے لیے صرف ایک کتاب تھی اور ایک اُستاد تھا جسے انگریزی زبان نہیں آتی تھی۔ لیکن ہم نے جیسے تیسے کر کے یہ زبان سیکھ ہی لی۔
تائیوان آنے کے تھوڑے ہی عرصے بعد ہاروی کو یہاں کی برانچ کی نگرانی کرنے کے لیے مقرر کِیا گیا۔ چونکہ برانچ چھوٹی تھی اِس لیے ہاروی دفتر کے تمام کام کرنے کے ساتھ ساتھ مہینے میں تین ہفتے کلیسیا کے بہن بھائیوں کے ساتھ بھی کام کرتے تھے۔ وہ وقتاًفوقتاً صوبائی نگہبان کے طور پر بھی خدمت کرتے تھے جس میں اِجتماعوں پر تقریریں کرنا بھی شامل تھا۔ اِن اِجتماعوں پر ہاروی جاپانی زبان میں تقریریں کر سکتے تھے جنہیں آمیسی بہن بھائی بڑی آسانی سے سمجھ سکتے تھے۔ لیکن حکومت نے مذہبی اِجلاسوں کو صرف چینی زبان میں منعقد کرنے کی اِجازت دی تھی۔ لہٰذا ہاروی ٹوٹیپھوٹی چینی زبان میں تقریریں کرتے اور ایک بھائی آمیس زبان میں اِن کا ترجمہ کرتا۔
اُس وقت تائیوان میں مارشل لاء قائم تھا۔ اِس لیے اِجتماعوں کو منعقد کرنے کے لیے بھائیوں کو اِجازتنامہ لینے کی ضرورت ہوتی تھی۔ لیکن یہ آسان نہیں تھا اور پولیس اِسے جاری کرنے میں اکثر دیر لگاتی تھی۔ اگر پولیس اِجتماع سے کچھ دن پہلے تک اِجازتنامہ جاری نہیں کرتی تو ہاروی تھانے میں تب تک بیٹھے رہتے جب تک وہ اُن کے ہاتھ میں یہ تھما نہ دیتی۔ چونکہ پولیس کو کسی غیرملکی کو تھانے میں بٹھائے رکھنے سے شرمندگی ہوتی تھی اِس لیے وہ ہاروی کو جلد ہی اِجازتنامہ دے دیتے تھے۔
مَیں پہلی بار پہاڑ پر چڑھی
مہینے کے جو تین ہفتے ہم بہن بھائیوں کے ساتھ مُنادی کرتے، اُن میں ہم اکثر ایک گھنٹے سے بھی زیادہ دیر تک پیدل چلتے۔ اِس دوران ہم پہاڑوں پر چڑھتے اور دریاؤں کو پار کرتے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب مَیں پہلی بار پہاڑ پر چڑھی تھی تو میری کتنی بُری حالت ہوئی تھی۔ ایک صبح ہم نے جلدی جلدی ناشتہ کر کے ساڑھے پانچ بجے چلنے والی بس پکڑی تاکہ ہم ایک دُوردراز گاؤں میں جا سکیں۔ بس سے اُترنے کے بعد ہم نے پیدل ایک بڑا دریا پار کِیا اور پھر ایک پہاڑ پر چڑھنے لگے۔ راستہ اِتنا ڈھلانی تھا کہ مَیں اپنے سے آگے چلنے والے بھائی کے جُوتے کا نچلا حصہ دیکھ سکتی تھی۔
اُس صبح ہاروی کچھ مقامی بہن بھائیوں کے ساتھ مُنادی کرنے لگے جبکہ مَیں اکیلے ایک چھوٹے گاؤں میں جاپانی بولنے والے لوگوں کو گواہی دینے لگی۔ تقریباً دوپہر کے ایک بجے مجھے بہت کمزوری محسوس ہونے لگی کیونکہ مَیں نے کئی گھنٹوں سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ آخرکار جب مَیں نے ہاروی کو دیکھا تو اُس وقت اُن کے ساتھ کوئی بہن یا بھائی نہیں تھا۔ ہاروی نے کچھ رسالوں کے بدلے تین کچے انڈے خریدے۔ اُنہوں نے مجھے ایک انڈے میں چھوٹا سا سوراخ کر کے بتایا کہ مَیں اِسے کیسے کھاؤں۔ حالانکہ اِسے کھانے سے میرا دل خراب ہو رہا تھا لیکن مَیں نے ایک انڈا کھا ہی لیا۔ ہاروی نے مجھے تیسرا انڈا کھانے کو بھی کہا کیونکہ اگر مَیں بھوک سے بےہوش ہو جاتی تو اُن کے لیے مجھے اُٹھا کر پہاڑ سے نیچے اُترنا بہت مشکل ہو جاتا۔
نہانے کا انوکھا طریقہ
ایک مرتبہ ہم حلقے کے اِجتماع کے لیے کسی بھائی کے گھر رُکے۔ اُس بھائی کا گھر کنگڈم ہال کے بالکل برابر تھا۔ آمیسی لوگ نہانے دھونے کو بہت اہم خیال کرتے تھے۔ حلقے کے نگہبان کی بیوی نے ہمارے نہانے کا بندوبست کِیا۔ ہاروی مصروف تھے اِس لیے اُنہوں نے مجھے پہلے نہانے کو کہا۔ نہانے کے لیے تین چیزیں تھیں۔ ایک تو ٹھنڈے پانی سے بھری بالٹی، دوسری گرم پانی سے بھری بالٹی اور ایک خالی ٹب۔ مَیں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ اُس بہن نے اِن سب چیزوں کو گھر کے باہر کُھلی جگہ میں رکھ دیا جہاں سے وہ بھائی مجھے صاف دیکھ سکتے تھے جو کنگڈم ہال میں اِجتماع کی تیاریاں کر رہے تھے۔ مَیں نے بہن سے کہا کہ وہ مجھے ایک پردہ لا کر دے دے۔ اِس پر اُس نے مجھے پلاسٹک کی شیٹ دی جس سے کوئی بھی اندر صاف دیکھ سکتا تھا۔ گھر کے پیچھے ایک جگہ تھی جہاں سے کوئی دیکھ نہیں سکتا تھا اِس لیے مَیں نے وہاں جا کر نہانے کا سوچا۔ لیکن وہاں کچھ ہنس تھے جو باڑ سے اپنی گردنیں نکال کر مجھے ٹھونگے مار سکتے تھے۔ اِس لیے مَیں نے سوچا: ”بھائی تو کاموں میں لگے ہوئے ہیں اِس لیے وہ مجھے نہاتے ہوئے نہیں دیکھیں گے۔ اگر مَیں نہ نہائی تو بہن بھائی ضرور مجھ سے ناراض ہوں گے۔“ لہٰذا مَیں نے ہمت جٹا کر نہا ہی لیا۔
آمیس زبان میں ہماری کتابیں اور رسالے
ہاوری کو محسوس ہوا کہ آمیسی بہن بھائی اِس لیے اپنے ایمان کو مضبوط نہیں کر پا رہے کیونکہ اِن میں سے بہت سوں کو پڑھنا لکھنا نہیں آتا اور اُن کے پاس اپنی زبان میں تنظیم کی کوئی کتاب یا رسالہ نہیں ہے۔ آمیس زبان میں حال ہی میں رومی رسمالخط میں کتابیں لکھی جا رہی تھیں۔ اِس لیے یہ اچھا موقع تھا کہ بہن بھائیوں کو اُن کی زبان پڑھنا سکھائی جائے۔ حالانکہ یہ کام بہت محنتطلب تھا لیکن آخرکار بہن بھائی اپنی زبان میں بائبل کی سچائیوں کا مطالعہ کرنے کے قابل ہو گئے۔ 1960ء کے دہے کے آخر میں آمیس زبان میں ہماری کتابیں اور رسالے شائع ہونے لگے اور 1968ء سے آمیس زبان میں ”مینارِنگہبانی“ شائع ہونے لگا۔
لیکن حکومت نے چینی زبان کے علاوہ کسی اَور زبان کی مطبوعات پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔ لہٰذا مسئلے سے بچنے کے لیے ہم فرق فرق شکلوں میں ”مینارِنگہبانی“ کو شائع کرتے تھے۔ مثال کے طور پر تقریباً 17 مہینے تک ”مینارِنگہبانی“ کے ایسے شمارے شائع کیے گئے جن میں چینی اور آمیس زبان ساتھ ساتھ تھی۔ یوں اگر کسی کے ذہن میں کوئی شک ہوتا تو اُنہیں یہی تاثر ملتا تھا کہ ہم اپنے رسالوں کے ذریعے لوگوں کو چینی زبان سکھا رہے ہیں۔ تب سے یہوواہ کی تنظیم آمیس زبان میں لوگوں کو پاک کلام کی سچائیاں سکھانے کے لیے بہت سی کتابیں اور رسالے شائع کر رہی ہے۔—اعما 10:34، 35۔
کلیسیائیں مضبوط ہوتی گئیں
سن 1960ء اور 1970ء کے دہے میں بہت سے آمیسی بہن بھائی یہوواہ کے معیاروں پر نہیں چل رہے تھے۔ چونکہ وہ بائبل کے اصولوں کو پوری طرح سے نہیں سمجھے تھے اِس لیے اِن میں سے کچھ بدکاری کر رہے تھے، بہت زیادہ شراب پیتے تھے، سگریٹنوشی کرتے تھے اور پان چھالیہ کھاتے تھے۔ ہاروی نے بہت سی کلیسیاؤں کا دورہ کِیا تاکہ وہ بہن بھائیوں کی یہ سمجھنے میں مدد کر سکیں کہ یہوواہ اِن معاملوں کو کیسا خیال کرتا ہے۔ اِسی طرح کی مدد کرنے کے لیے ہم اُس سفر پر روانہ تھے جس کا مَیں نے شروع میں ذکر کِیا تھا۔
خاکسار بہن بھائی اپنی زندگی میں تبدیلیاں لانے کو تیار تھے۔ لیکن افسوس کہ بہت سے بہن بھائیوں نے ایسا نہیں کِیا اور تائیوان میں 2450 سے زیادہ مبشروں کی تعداد 20 سال کے دوران تقریباً 900 ہو گئی۔ ہمیں یہ دیکھ کر بہت دُکھ ہوا۔ لیکن ہم جانتے تھے کہ یہوواہ کبھی کسی ایسی تنظیم کو برکت نہیں دیتا جو پاک نہ ہو۔ (2-کُر 7:1) کچھ عرصے بعد کلیسیائیں اخلاقی لحاظ سے پاک ہو گئیں اور یہوواہ کی برکت سے اب تائیوان میں 11 ہزار سے زیادہ مبشر ہیں۔
سن 1980ء کے دہے سے آمیسی بہن بھائیوں کا ایمان اَور مضبوط ہونے لگا۔ اِس لیے ہاروی چینی بولنے والے بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے میں زیادہ وقت صرف کر سکے۔ اُنہوں نے کئی بہنوں کے شوہروں کی سچائی سیکھنے میں مدد کی جس سے اُنہیں بہت خوشی ملی۔ ایک بار ہاروی نے مجھے بتایا تھا کہ اُن کا دل اُس وقت بڑی خوشی سے بھر گیا تھا جب ایک بہن کے شوہر نے پہلی بار یہوواہ کا نام لے کر دُعا کی۔ مجھے بھی اِس بات کی خوشی ہے کہ مَیں نے بہت سے لوگوں کی یہوواہ کے قریب آنے میں مدد کی۔ میری خوشی اُس وقت دوبالا ہو گئی جب مجھے تائیوان برانچ میں اپنی ایک سابقہ طالبِعلم کے بیٹے اور بیٹی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔
مَیں نے بھی یہوواہ کی تنظیم کو نہ نہیں کہا
مَیں نے اور ہاروی نے زندگی کے تقریباً 59 سال ایک ساتھ گزارے۔ لیکن 1 جنوری 2010ء کو ہاروی کینسر کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار گئے۔ اُنہوں نے تقریباً 60 سال کُلوقتی طور پر یہوواہ کی خدمت کی۔ وہ مجھے آج بھی شدت سے یاد آتے ہیں۔ لیکن مجھے اِس بات کی خوشی ہے کہ مَیں نے اُن کے ساتھ دو ایسے ملکوں میں خدمت کی جہاں اب یہوواہ کے گواہوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے۔ ہم نے دو مشکل ایشیائی زبانیں بولنی سیکھیں اور ہاروی نے تو اِنہیں لکھنا بھی سیکھا۔
ہاروی کی موت کے تقریباً چار سال بعد گورننگ باڈی نے یہ فیصلہ کِیا کہ میری بڑھتی عمر کی وجہ سے میرے لیے آسٹریلیا لوٹنا بہتر رہے گا۔ یہ فیصلہ سُن کر پہلے تو مَیں نے خود سے کہا کہ ”مَیں تائیوان کو نہیں چھوڑنا چاہتی۔“ لیکن ہاروی سے مَیں نے سیکھ لیا تھا کہ مَیں کبھی یہوواہ کی تنظیم کو اِنکار نہ کروں۔ اِس لیے مَیں وہاں جانے کو رضامند ہو گئی۔ بعد میں مجھے اندازہ ہوا کہ گورننگ باڈی نے میرے لیے جو فیصلہ کِیا، وہ کتنا ٹھیک تھا۔
آج مَیں آسٹریلیشیا برانچ میں خدمت کرتی ہوں اور ہفتے اور اِتوار کو ایک مقامی کلیسیا کے ساتھ مُنادی کرتی ہوں۔ مَیں جاپانی اور چینی بہن بھائیوں کو اُن کی زبان میں بیتایل کا دورہ کرواتی ہوں۔ مَیں اُس دن کا بےتابی سے اِنتظار کر رہی ہوں جب یہوواہ ہاروی کو زندہ کریں گے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ہاوری یہوواہ کی یاد میں محفوظ ہیں کیونکہ اُنہوں نے کبھی یہوواہ کی طرف سے ملنے والی کسی ذمےداری سے اِنکار نہیں کِیا۔—یوح 5:28، 29۔
a حالانکہ اب چینی زبان تائیوان کی باضابطہ زبان ہے لیکن بہت سالوں تک جاپانی زبان وہاں کی باضابطہ زبان ہوا کرتی تھی۔ اِس لیے اُس وقت تائیوان میں مختلف قبیلے جاپانی زبان بھی بولتے تھے۔