مطالعے کا مضمون نمبر 8
مشکلوں میں بھی اپنی خوشی کیسے برقرار رکھیں؟
”میرے بھائیو، جب آپ طرح طرح کی آزمائشوں کا سامنا کرتے ہیں تو خوش ہوں۔“—یعقو 1:2۔
گیت نمبر 111: ہماری خوشی کی وجوہات
مضمون پر ایک نظرa
1-2. متی 5:11 کے مطابق ہمیں مشکلوں کو سہتے وقت کیسا محسوس کرنا چاہیے؟
یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں سے وعدہ کِیا کہ اُنہیں سچی خوشی ملے گی۔ لیکن اُنہوں نے اِس بات سے بھی آگاہ کِیا کہ جو لوگ اُن سے محبت کریں گے، اُنہیں مشکلوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ (متی 10:22، 23؛ لُو 6:20-23) ہمیں اِس بات کی بہت خوشی ہے کہ ہم مسیح کے شاگرد ہیں۔ لیکن ہمیں اُس وقت کیسا لگتا ہے جب ہمارے گھر والے ہمیں یہوواہ کی خدمت سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں یا حکومتیں ہمیں اذیت پہنچاتی ہیں یا ہمارے ہمجماعت یا ساتھ کام کرنے والے ہمیں کوئی غلط کام کرنے پر اُکساتے ہیں؟ ظاہری بات ہے کہ یہ باتیں ہمیں پریشان کر سکتی ہیں۔
2 عموماً جب لوگ لفظ ”اذیت“ سنتے ہیں تو اُن کے ذہن میں دُور دُور تک خوشی کا خیال نہیں آتا۔ لیکن خدا کے کلام میں ہمیں کہا گیا ہے کہ ہم اذیت سے خوش ہوں۔ مثال کے طور پر شاگرد یعقوب نے بتایا کہ جب ہم پر طرح طرح کی مشکلیں آتی ہیں تو ہمیں حد سے زیادہ پریشان ہو جانے کی بجائے خوش ہونا چاہیے۔ (یعقو 1:2، 12) اور یسوع مسیح نے کہا تھا کہ جب ہمیں اذیت دی جاتی ہے تو ہمیں خوش ہونا چاہیے۔ (متی 5:11 کو پڑھیں۔) لیکن ہم مشکلوں کے باوجود اپنی خوشی کو کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں؟ اِس حوالے سے ہم یعقوب کے خط سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں جو اُنہوں نے پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں کو لکھا۔ مگر آئیں، پہلے اِس بات پر غور کریں کہ اِن مسیحیوں کو کن مشکلوں کا سامنا تھا۔
پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں کو کن مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا؟
3. جب یسوع مسیح کے سوتیلے بھائی یعقوب کو شاگرد بنے تھوڑا ہی وقت ہوا تھا تو کیا ہوا؟
3 یسوع مسیح کے سوتیلے بھائی یعقوب اُس وقت نئے نئے شاگرد ہی بنے تھے جب یروشلیم میں مسیحیوں پر اذیت ڈھائی جانے لگی۔ (اعما 1:14؛ 5:17، 18) اور جب ستفنُس کو مار ڈالا گیا تو بہت سے مسیحی ”یہودیہ اور سامریہ کے علاقوں“ میں بھاگ گئے اور آخرکار قبرص اور انطاکیہ تک پھیل گئے۔ (اعما 7:58–8:1؛ 11:19) اِن شاگردوں کو جتنی اذیت سے گزرنا پڑا، اِس کا تو ہم صرف تصور ہی کر سکتے ہیں۔ لیکن اِن سب کے باوجود وہ جہاں جہاں گئے، جوش سے خوشخبری کی مُنادی کرتے رہے۔ یوں رومی سلطنت کے مختلف حصوں میں کلیسیائیں قائم ہو گئیں۔ (1-پطر 1:1) لیکن اِن مسیحیوں پر ابھی اَور بھی کئی اِمتحان آنے والے تھے۔
4. پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں کو اَور کون سی مشکلیں برداشت کرنی پڑیں؟
4 پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں کو طرح طرح کی مشکلیں برداشت کرنی پڑیں۔ مثال کے طور پر 50ء کے لگ بھگ رومی شہنشاہ کلودِیُس نے تمام یہودیوں کو روم سے نکل جانے کا حکم دیا۔ لہٰذا جو یہودی، مسیحی بن گئے تھے، اُنہیں مجبوراً اپنے گھروں کو چھوڑ کر کہیں اَور جا کر بسنا پڑا۔ (اعما 18:1-3) تقریباً 61ء میں پولُس رسول نے لکھا کہ اُن کے مسیحی بہن بھائی کُھلے عام رسوا کیے جا رہے ہیں، قید میں ڈالے جا رہے ہیں اور اُن کی چیزیں لُوٹی جا رہی ہیں۔ (عبر 10:32-34) اِس کے علاوہ اِن مسیحیوں کو دوسرے لوگوں کی طرح غربت اور بیماری کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا تھا۔—روم 15:26؛ فل 2:25-27۔
5. ہم کن سوالوں کے جواب حاصل کریں گے؟
5 یعقوب نے اپنا خط 62ء سے پہلے لکھا۔ اِس لیے وہ اُن مشکلوں اور مصیبتوں سے پوری طرح واقف تھے جن کا اُن کے مسیحی بہن بھائی سامنا کر رہے تھے۔ یہوواہ نے یعقوب کو کچھ ایسے مشورے لکھنے کا اِلہام بخشا جن کی مدد سے وہ مسیحی مشکلوں میں بھی اپنی خوشی کو برقرار رکھ پائے۔ آئیں، یعقوب کے خط پر غور کریں اور اِن سوالوں کے جواب حاصل کریں: یعقوب نے کس طرح کی خوشی کے بارے میں لکھا؟ کن مشکلوں کی وجہ سے ایک مسیحی کی خوشی اُس سے چھن سکتی ہے؟ اور چاہے ہمیں کسی بھی مشکل کا سامنا ہو، ہم دانشمندی، ایمان اور ہمت کی بدولت اپنی خوشی کو کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں؟
ایک مسیحی کی خوشی کی بنیاد کیا ہے؟
6. جب ایک مسیحی پر مشکلیں آتی ہیں تو لُوقا 6:22، 23 کے مطابق وہ خوش کیوں ہو سکتا ہے؟
6 شاید بہت سے لوگوں کو لگے کہ اچھی صحت، ڈھیر سارا پیسہ اور خوشحال گھرانہ ہی ایک شخص کو خوشی دے سکتا ہے۔ لیکن یعقوب جس خوشی کی بات کر رہے تھے، وہ خدا کی پاک روح کے پھل کا حصہ ہے اور اِس خوشی کا اِنحصار کسی شخص کے حالات پر نہیں ہوتا۔ (گل 5:22) دراصل ایک مسیحی کو اِس احساس سے خوشی ملتی ہے کہ وہ یہوواہ کو خوش کر رہا ہے اور یسوع کی مثال پر عمل کر رہا ہے۔ (لُوقا 6:22، 23 کو پڑھیں؛ کُل 1:10، 11) ہم اپنی خوشی کو لالٹین میں جلنے والی آگ سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ جس طرح لالٹین کے اندر آگ بارش اور ہوا کے باوجود جلتی رہتی ہے اِسی طرح ہماری خوشی مشکلوں کے باوجود قائمودائم رہتی ہے۔ یہ خوشی اُس وقت بھی ماند نہیں پڑتی جب ہماری صحت خراب ہو جاتی ہے یا ہمارا ہاتھ تنگ ہو جاتا ہے یا جب دوسرے ہمارا مذاق اُڑاتے ہیں یا ہمارے گھر والے ہماری مخالفت کرتے ہیں۔ جب ہمارے مخالف ہماری خوشی چھیننے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ مدھم پڑنے کی بجائے اَور روشن ہو جاتی ہے۔ دراصل ہمارے ایمان کی وجہ سے ہم پر جو مشکلیں آتی ہیں، اُن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہم مسیح کے سچے شاگرد ہیں۔ (متی 10:22؛ 24:9؛ یوح 15:20) اِسی لیے یعقوب نے لکھا: ”میرے بھائیو، جب آپ طرح طرح کی آزمائشوں کا سامنا کرتے ہیں تو خوش ہوں۔“—یعقو 1:2۔
7-8. مشکلیں سہنے سے ہمارا ایمان اَور مضبوط کیوں ہو جاتا ہے؟
7 یعقوب نے ایک اَور وجہ بھی بتائی جس کی بِنا پر مسیحی سخت سے سخت مشکل کو بھی خوشی سے برداشت کرتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا: ”آپ جانتے ہیں کہ جب آپ کا ایمان پرکھا جاتا ہے تو آپ میں ثابتقدمی پیدا ہوتی ہے۔“ (یعقو 1:3) ہم پر جو مشکلیں آتی ہیں، وہ ایک ایسی آگ کی طرح ہوتی ہیں جس میں لوہے کی سلاخ تیار کی جاتی ہے۔ جب لوہے کی سلاخ کو آگ میں گرمایا جاتا ہے اور اِس کے بعد پانی میں ٹھنڈا کِیا جاتا ہے تو وہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جاتی ہے۔ اِسی طرح جب ہم پر مشکلیں آتی ہے اور ہم اِنہیں ثابتقدمی سے سہتے ہیں تو ہمارا ایمان اَور مضبوط ہو جاتا ہے۔ اِسی لیے یعقوب نے لکھا: ”ثابتقدمی کو اپنا کام پورا کرنے دیں تاکہ آپ کامل ہوں اور ہر لحاظ سے بےعیب ہوں یعنی آپ میں کوئی کمی نہ ہو۔“ (یعقو 1:4) جب ہم دیکھتے ہیں کہ مشکلیں سہنے کی وجہ سے ہمارا ایمان کتنا مضبوط ہو رہا ہے تو ہم اِنہیں خوشی سے برداشت کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔
8 اپنے خط میں یعقوب نے کچھ اَور ایسی مشکلوں کا بھی ذکر کِیا جن کی وجہ سے ہماری خوشی چھن سکتی ہے۔ یہ مشکلیں کیا ہیں اور ہم اِن سے کیسے نمٹ سکتے ہیں؟
ہم مشکلوں کے باوجود اپنی خوشی کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں؟
9. ہمیں دانشمندی کی ضرورت کیوں ہے؟
9 مشکل: جب ہمیں سمجھ نہ آئے کہ کیا کریں۔ جب ہم مشکلوں سے گزرتے ہیں تو ہمیں مدد کے لیے یہوواہ پر آس لگانی چاہیے تاکہ ہم ایسے فیصلے کر سکیں جن سے وہ خوش ہو، ہمارے بہن بھائیوں کو فائدہ ہو اور ہم یہوواہ کے وفادار رہ پائیں۔ (یرم 10:23) ہمیں دانشمندی کی ضرورت ہے تاکہ ہم یہ جان پائیں کہ ہمیں مشکل صورتحال میں کیا کرنا ہے اور اپنے مخالفوں کو کیسے جواب دینا ہے۔ اگر ہمیں یہ پتہ نہیں ہوگا کہ ہمیں کیا کرنا ہے تو ہم خود کو حالات کے آگے بےبس محسوس کرنے لگیں گے اور یوں اپنی خوشی کھو بیٹھیں گے۔
10. اگر ہم خدا سے دانشمندی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو یعقوب 1:5 کے مطابق ہمیں کیا کرنے کی ضرورت ہے؟
10 حل: یہوواہ سے دانشمندی مانگیں۔ اگر ہم مشکلوں کو خوشی سے برداشت کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں یہوواہ سے دانشمندی مانگنی چاہیے تاکہ ہم اچھے فیصلے کر سکیں۔ (یعقوب 1:5 کو پڑھیں۔) لیکن اگر ہمیں لگتا ہے کہ یہوواہ ہماری دُعاؤں کا جواب فوراً نہیں دے رہا تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ یعقوب نے کہا کہ ہمیں ’بار بار خدا سے مانگنے‘ کی ضرورت ہے۔ جب ہم ایسا کرتے ہیں تو ہمارا آسمانی باپ ہم سے ناراض نہیں ہوتا۔ اِس کی بجائے وہ ”بغیر ڈانٹے بڑی فیاضی“ سے ہماری دُعاؤں کا جواب دیتے ہوئے ہمیں دانشمندی دیتا ہے۔ (زبور 25:12، 13) وہ دیکھتا ہے کہ ہم کن مشکلوں سے گزر رہے ہیں، وہ ہمارے درد کو محسوس کرتا ہے اور ہماری مدد کرنے کو تیار رہتا ہے۔ اِس بات سے ہمیں واقعی بہت خوشی ملتی ہے۔ لیکن یہوواہ ہمیں دانشمندی کیسے دیتا ہے؟
11. ہمیں دانشمندی حاصل کرنے کے لیے اَور کیا کرنا ہوگا؟
11 یہوواہ ہمیں اپنے کلام کے ذریعے دانشمندی عطا کرتا ہے۔ (امثا 2:6) اِس دانشمندی کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں اُس کے کلام اور اِس پر مبنی کتابوں اور رسالوں کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ لیکن ہمیں صرف اپنے ذہن کو علم سے ہی نہیں بھرنا چاہیے بلکہ خدا کی دانشمندی کے مطابق کام بھی کرنا چاہیے۔ یعقوب نے یہ نصیحت کی کہ ”کلام کو صرف سنیں نہیں بلکہ اِس پر عمل بھی کریں۔“ (یعقو 1:22) جب ہم خدا کی دانشمندی پر عمل کرتے ہیں تو ہم اَور زیادہ صلحپسند، سمجھدار اور رحمدل بن جاتے ہیں۔ (یعقو 3:17) یہ ایسی خوبیاں ہیں جو ہمیں ہر مشکل کو خوشی سے برداشت کرنے کے قابل بنا سکتی ہیں۔
12. یہ کیوں ضروری ہے کہ ہم بائبل میں درج باتوں سے اچھی طرح واقف ہوں؟
12 خدا کا کلام ایک شیشے کی طرح ہے۔ اِس کی مدد سے ہم یہ دیکھ پاتے ہیں کہ ہمیں کہاں بہتری لانے کی ضرورت ہے اور ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔ (یعقو 1:23-25) مثال کے طور پر خدا کے کلام کا مطالعہ کرنے کے بعد شاید ہمیں یہ احساس ہو کہ ہمیں اپنے غصے کو قابو میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہوواہ کی مدد سے ہم یہ سیکھتے ہیں کہ ہم ایسی صورتحال میں نرممزاجی سے کام کیسے لے سکتے ہیں جن میں ہم آگبگولا ہو سکتے ہیں۔ نرممزاجی کی خوبی کی وجہ سے ہم مشکلوں کو بہتر طور پر جھیل پاتے ہیں۔ ہم واضح طور پر سوچ سکتے ہیں اور اچھے فیصلے کر سکتے ہیں۔ (یعقو 3:13) واقعی یہ بہت ضروری ہے کہ ہم بائبل میں درج باتوں سے اچھی طرح واقف ہوں۔
13. ہمیں بائبل میں بتائے گئے خدا کے بندوں کی مثالوں پر کیوں غور کرنا چاہیے؟
13 کبھی کبھار ہم غلطی کرنے کے بعد ہی یہ سیکھتے ہیں کہ ہمیں فلاں کام سے دُور رہنا چاہیے۔ لیکن اِس طرح سے سیکھنے سے کافی تکلیف جھیلنی پڑتی ہے۔ لہٰذا دانشمندی حاصل کرنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہم دوسروں سے سیکھیں، اُن لوگوں سے بھی جنہیں غلط کاموں کی وجہ سے نقصان اُٹھانا پڑا اور اُن لوگوں سے بھی جنہیں اچھے کام کرنے کی وجہ سے فائدہ ہوا۔ اِسی لیے یعقوب نے ہماری یہ حوصلہافزائی کی کہ ہم بائبل میں بتائے گئے خدا کے بندوں کی مثال پر غور کریں جیسے کہ ابراہام، راحب، ایوب، ایلیاہ وغیرہ۔ (یعقو 2:21-26؛ 5:10، 11، 17، 18) خدا کے یہ وفادار بندے ایسی مشکلوں میں بھی ثابتقدم رہے جن کی وجہ سے اُن کی خوشی ماند پڑ سکتی تھی۔ اُن کی ثابتقدمی پر غور کرنے سے ہمارا اِس بات پر یقین اَور مضبوط ہو جاتا ہے کہ یہوواہ کی مدد سے ہم بھی مشکلوں میں اپنی خوشی کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔
14-15. ہمیں اپنے دل سے شک کو دُور کیوں کرنا چاہیے؟
14 مشکل: جب ہمیں اپنے عقیدوں پر شک ہو۔ کبھی کبھار ہمیں خدا کے کلام میں لکھی کچھ باتوں کو سمجھنا مشکل لگ سکتا ہے۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہوواہ ہماری دُعاؤں کا اُس طرح سے جواب نہ دے جس طرح سے ہم نے اُمید لگائی ہوئی تھی۔ اِس طرح کی باتوں کی وجہ سے ہمارے دل میں شک پیدا ہو سکتا ہے۔ اگر ہم اپنے شک کو دُور نہیں کریں گے تو ہمارا ایمان کمزور پڑ جائے گا اور یہوواہ کے ساتھ ہمارے رشتے میں دراڑ آ جائے گی۔ (یعقو 1:7، 8) اِتنا ہی نہیں، ہم مستقبل کے حوالے سے اپنی اُمید بھی کھو بیٹھیں گے۔
15 پولُس رسول نے ہماری اِس اُمید کو ایک لنگر سے تشبیہ دی۔ (عبر 6:19) ایک لنگر بحری جہاز کو طوفان میں ڈگمگانے نہیں دیتا اور یوں جہاز چٹانوں سے ٹکرانے سے بچ جاتا ہے۔ لیکن ایک لنگر تبھی کام کا ہو سکتا ہے اگر وہ زنجیر نہ ٹوٹے جس نے اِسے اور جہاز کو آپس میں جوڑا ہوتا ہے۔ شک زنگ کی طرح ہوتا ہے۔ جس طرح زنگ ایک زنجیر کو کمزور کر دیتا ہے اُسی طرح شک ہمارے ایمان کو کمزور کر سکتا ہے۔ جس شخص کے دل میں شک ہوتا ہے، وہ مشکل وقت میں یہوواہ کے وعدوں پر اپنا ایمان کھو سکتا ہے۔ اگر ہمارا ایمان نہیں رہے گا تو ہماری اُمید بھی نہیں رہے گی۔ واقعی یعقوب کی یہ بات بالکل ٹھیک تھی کہ جو شخص شک کرتا ہے، ”وہ سمندر کی لہر کی طرح ہے جو ہوا کے زور سے اِدھر اُدھر اُچھلتی ہے۔“ (یعقو 1:6) ایسا شخص کبھی خوش نہیں رہ سکتا۔
16. اگر ہمارے دل میں اپنے عقیدوں کو لے کر شک ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
16 حل: اپنے شک کو دُور کریں اور اپنے ایمان کو مضبوط کریں۔ فوری قدم اُٹھائیں۔ ایلیاہ نبی کے زمانے میں خدا کی چُنی ہوئی قوم اِس بات کو ٹال رہی تھی کہ وہ کس کی عبادت کرے گی۔ اِس لیے ایلیاہ نے لوگوں سے کہا: ”تُم کب تک دو خیالوں میں ڈانواںڈول رہو گے؟ اگر [یہوواہ] ہی خدا ہے تو اُس کے پیرو ہو جاؤ اور اگر بعلؔ ہے تو اُس کی پیروی کرو۔“ (1-سلا 18:21) اگر ہمارے دل میں اپنے کسی عقیدے کے بارے میں شک ہے تو ہمیں بھی ٹھوس قدم اُٹھانا چاہیے۔ ہمیں تحقیق کرنی چاہیے تاکہ ہم خود کو اِن باتوں پر قائل کر سکیں کہ یہوواہ ہی خدا ہے، بائبل اُس کا دیا ہوا کلام ہے اور یہوواہ کے گواہ اُس کے بندے ہیں۔ (1-تھس 5:21) یوں ہمارے دل سے شک دُور ہو جائے گا اور ہمارا ایمان مضبوط ہوگا۔ اگر ہمیں اپنے شک کو دُور کرنا مشکل لگ رہا ہے تو ہمیں بزرگوں سے مدد مانگنی چاہیے۔ یہوواہ کی خدمت میں اپنی خوشی کو برقرار رکھنے کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم فوری قدم اُٹھائیں۔
17. اگر ہمارے اندر ہمت ختم ہو جائے گی تو کیا ہوگا؟
17 مشکل: جب ہم بےحوصلہ ہو جاتے ہیں۔ خدا کے کلام میں لکھا ہے: ”اگر تُو مصیبت کے دن ہمت ہار کر ڈھیلا ہو جائے تو تیری طاقت جاتی رہے گی۔“ (امثا 24:10، اُردو جیو ورشن) اگر ہمارے اندر ہمت ختم ہو جائے گی تو ہماری خوشی بھی ماند پڑ جائے گی۔
18. ثابتقدم رہنے کا کیا مطلب ہے؟
18 حل: یہوواہ سے ہمت مانگیں۔ مشکلوں کو برداشت کرنے کے لیے ہمیں ہمت اور حوصلے کی ضرورت ہے۔ (یعقو 5:11) لفظ ”ثابتقدمی“ کے لیے یعقوب نے جو یونانی لفظ اِستعمال کِیا تھا، وہ ایک ایسے شخص کا خیال پیش کرتا ہے جو اپنے عزم پر قائم رہتا ہے۔ اِس حوالے سے ذرا ایک ایسے ہمت والے فوجی کا تصور کریں جو جنگ کے میدان میں ہے۔ وہ دُشمنوں کے شدید حملے کے باوجود وہاں سے نہیں بھاگتا۔
19. ہم پولُس رسول سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
19 پولُس رسول نے ثابتقدم رہنے اور ہمت سے کام لینے کے سلسلے میں عمدہ مثال قائم کی۔ کبھی کبھار وہ خود کو بہت کمزور محسوس کرتے تھے۔ لیکن وہ مشکلوں میں اِس لیے ثابتقدم رہ پائے کیونکہ اُنہوں نے اِس بات پر بھروسا کِیا کہ یہوواہ اُنہیں وہ طاقت دے گا جس کی اُنہیں ضرورت ہے۔ (2-کُر 12:8-10؛ فل 4:13) اگر ہم خاکساری سے اِس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہمیں یہوواہ کی مدد کی ضرورت ہے تو ہمیں بھی طاقت اور ہمت مل سکتی ہے۔—یعقو 4:10۔
یہوواہ کے قریب جائیں اور اپنی خوشی کو برقرار رکھیں
20-21. ہم کس بات کا پکا یقین رکھ سکتے ہیں؟
20 ہم اِس بات کا پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ جب ہم پر مشکلیں آتی ہیں تو اِس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ خدا ہمیں سزا دے رہا ہے۔ اِس حوالے سے یعقوب نے کہا: ”جب کوئی شخص آزمائش کا سامنا کر رہا ہو تو یہ نہ کہے کہ ”خدا مجھے آزما رہا ہے۔“ کیونکہ خدا نہ تو بُرے کام کر سکتا ہے اور نہ ہی وہ کسی کو بُرے کاموں سے آزماتا ہے۔“ (یعقو 1:13) جب ہم اِس حقیقت پر یقین کرنے لگتے ہیں تو ہم اپنے آسمانی باپ کے اَور قریب ہو جاتے ہیں۔—یعقو 4:8۔
21 یہوواہ خدا ”سایے کی طرح نہیں ہے جس میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔“ (یعقو 1:17) اُس نے مشکلات کو برداشت کرنے میں پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں کی مدد کی تھی اور وہ آج ہماری بھی مدد کرے گا۔ یہوواہ سے یہ دُعا کریں کہ وہ آپ کو دانشمندی، ہمت اور مضبوط ایمان عطا کرے۔ وہ آپ کی دُعا کا جواب ضرور دے گا۔ آپ اِس بات کا پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ وہ مشکلوں میں بھی آپ کو خوش رہنے کے قابل بنائے گا۔
گیت نمبر 128: آخر تک ثابتقدم رہیں
a یعقوب کی کتاب میں بہت سے ایسے مشورے دیے گئے ہیں جن کی مدد سے ہم مشکلوں میں ثابتقدم رہ سکتے ہیں۔اِس مضمون میں ہم یعقوب کے دیے ہوئے کچھ مشوروں پر غور کریں گے۔اِن مشوروں کی مدد سے ہم مشکلوں کو برداشت کرتے وقت بھی یہوواہ کی خدمت میں اپنی خوشی برقرار رکھ پائیں گے۔
b تصویر کی وضاحت: پولیس ایک بھائی کے گھر آ کر اُسے گِرفتار کر کے لے جا رہی ہے۔ پیچھے اُس بھائی کی بیوی اور بیٹی اُنہیں دیکھ رہی ہیں۔ جب وہ بھائی جیل میں ہے تو کلیسیا کے بہن بھائی اُس بھائی کی بیوی اور بیٹی کے ساتھ مل کر خاندانی عبادت کر رہے ہیں۔ ماں اور بیٹی اکثر یہوواہ سے یہ دُعا کرتی ہیں کہ وہ اُنہیں مشکلوں کو برداشت کرنے کی ہمت دے۔ یہوواہ اُنہیں دلی سکون اور ہمت دیتا ہے۔ اِس کے نتیجے میں اُن کا ایمان اَور مضبوط ہوتا ہے اور وہ خوشی سے مشکل وقت میں ثابتقدم رہ پاتی ہیں۔