مطالعے کا مضمون نمبر 14
”اُس کے نقشِقدم پر چلیں“
”مسیح نے بھی آپ کے لیے تکلیف سہی اور یوں آپ کے لیے مثال چھوڑی تاکہ آپ اُس کے نقشِقدم پر چلیں۔“—1-پطر 2:21۔
گیت نمبر 13: مسیح کی عمدہ مثال
مضمون پر ایک نظرa
1-2. ہم کس مثال سے 1-پطرس 2:21 میں لکھی بات کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں؟
فرض کریں کہ آپ ایک خطرناک جنگل سے گزر رہے ہیں جو برف سے ڈھکا ہوا ہے۔ آپ اپنے گائیڈ کے ساتھ ہیں جو راستے سے اچھی طرح واقف ہے اور آپ کی رہنمائی کر رہا ہے۔ وہ آپ کے آگے آگے چل رہا ہے اور برف پر اپنے قدموں کی چھاپ چھوڑتا جا رہا ہے۔ لیکن تھوڑی دُور جا کر آپ کو احساس ہوتا ہے کہ وہ آپ کو کہیں نہیں دِکھائی دے رہا۔ آپ گھبراتے نہیں ہیں۔ اِس کی بجائے آپ اور آپ کے گروپ کے لوگ اُن قدموں کے نشانوں پر چلنے لگتے ہیں جو اُس گائیڈ نے چھوڑے ہیں۔
2 یسوع کے شاگردوں کے طور پر ہم بھی ایک خطرناک جنگل سے گزر رہے ہیں جو کہ شیطان کی دُنیا ہے۔ لیکن ہم یہوواہ کے بہت شکرگزار ہیں کہ اُس نے اپنے بیٹے یسوع کی صورت میں ہمیں ایک بہترین گائیڈ دیا ہے جس کے نقشِقدم پر ہم چل سکتے ہیں۔ (1-پطر 2:21) بائبل کی ایک لغت کے مطابق اِس آیت میں پطرس یسوع کو ایک گائیڈ سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ جس طرح ایک گائیڈ چلتے چلتے اپنے قدموں کے نشان برف پر چھوڑتا جاتا ہے اُسی طرح یسوع مسیح نے بھی ہمارے لیے اپنے قدموں کے نشان چھوڑے ہیں جن پر ہم چل سکتے ہیں۔ یسوع کے نقشِقدم پر چلنے کے حوالے سے آئیں، اِن تین سوالوں پر غور کریں: یسوع کے نقشِقدم پر چلنے کا کیا مطلب ہے؟ ہمیں یسوع کے نقشِقدم پر کیوں چلنا چاہیے اور ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟
یسوع کے نقشِقدم پر چلنے کا کیا مطلب ہے؟
3. کسی شخص کے نقشِقدم پر چلنے کا کیا مطلب ہوتا ہے؟
3 کسی شخص کے نقشِقدم پر چلنے کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ پاک کلام میں الفاظ ”چلنا“ اور ”پاؤں“ کبھی کبھار ایک شخص کے طرزِزندگی کی طرف اِشارہ کرنے کے لیے اِستعمال ہوئے ہیں۔ (پید 6:9؛ امثا 4:26) ایک شخص جس طرح سے اپنی زندگی گزارتا ہے، اُسے قدموں کے اُن نشانوں سے تشبیہ دی جا سکتی ہے جو وہ چلتے ہوئے اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ لہٰذا کسی شخص کے نقشِقدم پر چلنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اُس کی مثال پر عمل کریں یا اُس کی طرح بنیں۔
4. یسوع مسیح کے نقشِقدم پر چلنے کا کیا مطلب ہے؟
4 تو پھر یسوع مسیح کے نقشِقدم پر چلنے کا کیا مطلب ہے؟ اِس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ہم اُن کی مثال پر عمل کریں۔ اِس مضمون کی مرکزی آیت میں پطرس رسول نے یسوع کی اُس عمدہ مثال پر بات کی جو اُنہوں نے تکلیفوں کو برداشت کرنے کے حوالے سے قائم کی۔ لیکن ایسے اَور بھی بہت سے حلقے ہیں جن میں ہم یسوع کی مثال پر عمل کر سکتے ہیں۔ (1-پطر 2:18-25) دراصل یسوع مسیح نے اپنی زندگی میں جو کچھ کہا اور جو کام کیے، ہم اُن سب پر عمل کر سکتے ہیں۔
5. کیا عیبدار اِنسان واقعی یسوع کی مثال پر عمل کر سکتے ہیں؟
5 کیا ہم عیبدار اِنسان واقعی یسوع کی مثال پر عمل کر سکتے ہیں؟ جی ہاں۔ سچ ہے کہ ہم مکمل طور پر یسوع کی طرح نہیں بن سکتے لیکن ہم اُن کے نقشِقدم پر چلنے کی بھرپور کوشش ضرور کر سکتے ہیں۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہم یوحنا رسول کی اِس ہدایت پر عمل کر رہے ہوں گے: ’اُسی طرح چلتے رہیں جس طرح یسوع چلتے تھے۔‘—1-یوح 2:6۔
یسوع کے نقشِقدم پر کیوں چلیں؟
6-7. ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ یسوع کے نقشِقدم پر چلنے سے ہم یہوواہ کے اَور قریب ہو جائیں گے؟
6 اگر ہم یسوع کے نقشِقدم پر چلیں گے تو ہم یہوواہ خدا کے اَور قریب ہو جائیں گے۔ ہم ایسا کیوں کہہ سکتے ہیں؟ اِس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ یسوع مسیح نے ویسی ہی زندگی گزاری جیسی یہوواہ خدا اُن سے چاہتا تھا۔ (یوح 8:29) لہٰذا یسوع مسیح کی طرح زندگی گزارنے سے ہم یہوواہ کو خوش کریں گے۔ ہم اِس بات کا پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ ہمارا آسمانی باپ اُن لوگوں کے قریب ہو جاتا ہے جو اُس کے دوست بننے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔—یعقو 4:8۔
7 دوسری وجہ یہ ہے کہ یسوع مسیح نے اپنے باپ کی مثال پر پوری طرح سے عمل کِیا۔ اِسی لیے وہ یہ کہہ سکتے تھے کہ ”جس نے مجھے دیکھا ہے، اُس نے باپ کو بھی دیکھا ہے۔“ (یوح 14:9) یسوع مسیح نے دوسروں کے ساتھ پیش آتے وقت بڑی عمدہ خوبیاں ظاہر کیں۔ مثال کے طور پر اُنہوں نے ایک کوڑھی کے لیے ترس ظاہر کِیا، وہ اُس عورت کے ساتھ شفقت سے پیش آئے جو کافی سالوں سے اپنی بیماری کی وجہ سے تکلیف سہہ رہی تھی اور اُنہوں نے اُن لوگوں کے لیے ہمدردی دِکھائی جو اپنے عزیزوں کی موت کی وجہ سے غمزدہ تھے۔اگر ہم ویسی ہی خوبیاں ظاہر کریں گے جیسی یسوع نے ظاہر کیں تو ہم نہ صرف یسوع کی بلکہ یہوواہ کی مثال پر بھی عمل کر رہے ہوں گے۔ (مر 1:40، 41؛ 5:25-34؛ یوح 11:33-35) جتنا زیادہ ہم یہوواہ کی مثال پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے اُتنا ہی زیادہ ہم اُس کے قریب ہو جائیں گے۔
8. یسوع کے نقشِقدم پر چلنے سے ہم ”دُنیا پر غالب“ کیوں آ سکتے ہیں؟
8 اگر ہم یسوع کے نقشِقدم پر چلیں گے تو شیطان کی دُنیا خدا کی خدمت سے ہمارا دھیان نہیں ہٹا پائی گی۔ جب زمین پر یسوع مسیح کی آخری رات تھی تو اُنہوں نے پورے یقین سے اپنے بارے میں کہا: ”مَیں دُنیا پر غالب آ گیا ہوں۔“ (یوح 16:33) اُن کی اِس بات کا یہ مطلب تھا کہ اُنہوں نے دُنیا کے لوگوں کی سوچ اور کاموں کو خود پر اثرانداز نہیں ہونے دیا۔ اُنہوں نے کبھی بھی اپنا دھیان اِس بات سے ہٹنے نہیں دیا کہ اُن کے زمین پر آنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ خدا کے نام کو پاک ثابت کریں۔ اِس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ اِس دُنیا میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو ہمارا دھیان یہوواہ کی خدمت سے بھٹکا سکتی ہیں۔ لیکن اگر یسوع مسیح کی طرح ہم بھی اپنی توجہ خدا کی خدمت کرنے پر رکھتے ہیں تو ہم بھی دُنیا پر غالب آ سکتے ہیں۔—1-یوح 5:5۔
9. اگر ہم ہمیشہ کی زندگی کی طرف لے جانے والے راستے پر چلتے رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں کیا کرنا ہوگا؟
9 اگر ہم یسوع کے نقشِقدم پر چلیں گے تو ہمیں ہمیشہ کی زندگی ملے گی۔ ایک مرتبہ ایک امیر آدمی نے یسوع سے پوچھا کہ ہمیشہ کی زندگی پانے کے لیے اُسے کیا کرنا ہوگا۔ اِس پر یسوع نے اُسے جواب دیا: ”میرے پیروکار بن جائیں۔“ (متی 19:16-21) ایک موقعے پر جب یسوع کچھ ایسے یہودیوں سے بات کر رہے تھے جو یہ نہیں مانتے تھے کہ یسوع ہی مسیح ہیں تو اُنہوں نے کہا: ”میری بھیڑیں . . . میرے پیچھے چلتی ہیں۔ مَیں . . . اُنہیں ہمیشہ کی زندگی دیتا ہوں۔“ (یوح 10:24-29) ایک بار عدالتِعظمیٰ کے ایک رُکن جن کا نام نیکُدیمس تھا، یسوع سے ملنے آئے۔ وہ یسوع کی تعلیمات میں بہت دلچسپی رکھتے تھے۔ یسوع نے اُن سے کہا کہ ’جو کوئی اُن پر ایمان ظاہر کرے گا، وہ ہمیشہ کی زندگی پائے گا۔‘ (یوح 3:16) اگر ہم یسوع کی تعلیمات اور اُن کی مثال پر عمل کریں گے تو ہم اُن پر ایمان ظاہر کر رہے ہوں گے۔ یوں ہم ہمیشہ کی زندگی کی طرف لے جانے والے راستے پر چلتے رہیں گے۔—متی 7:14۔
ہم یسوع کے نقشِقدم پر کیسے چل سکتے ہیں؟
10. یسوع مسیح کو ’قریب سے جاننے‘ میں کیا کچھ شامل ہے؟ (یوحنا 17:3)
10 اِس سے پہلے کہ ہم یسوع کے نقشِقدم پر چلیں، ہمیں اُنہیں قریب سے جاننے کی ضرورت ہے۔ (یوحنا 17:3 کو پڑھیں۔) یسوع کو ’قریب سے جاننا‘ ایک جاری رہنے والا عمل ہے۔ ہمیں اُن کی خوبیوں، اُن کی سوچ اور اُن کے معیاروں کو بہتر سے بہتر طور پر جاننے کی ضرورت ہے۔ چاہے ہمیں یہوواہ کا گواہ بنے کتنے ہی سال کیوں نہ ہو گئے ہوں، ہمیں یہوواہ خدا اور اُس کے بیٹے کو زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کرنی چاہیے۔
11. چار اِنجیلوں میں کیا کچھ درج ہے؟
11 یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ ہم اُس کے بیٹے کو قریب سے جانیں اور اِس سلسلے میں ہماری مدد کرنے کے لیے اُس نے اپنے کلام میں چار اِنجیلیں لکھوائی ہیں جن میں یسوع مسیح کی زندگی اور خدمت کے حوالے سے معلومات درج ہیں۔ اِن میں یسوع کی تعلیمات، اُن کے کاموں اور اُن کے احساسات کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ اِن چار کتابوں کی مدد سے ہم یسوع پر اپنی ”نظریں جمائے“ رکھنے کے قابل ہوں گے۔ (عبر 12:3) ایک طرح سے اِن کتابوں میں یسوع کے قدموں کے نقش ہیں جو اُنہوں نے ہمارے لیے چھوڑے۔ لہٰذا اِنجیلوں کا مطالعہ کرنے سے ہم یسوع کو اَور قریب سے جان پائیں گے اور یوں اُن کے نقشِقدم پر چلنے کے قابل ہوں گے۔
12. ہم اناجیل میں لکھی باتوں سے بھرپور فائدہ کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟
12 اِنجیلوں میں لکھی باتوں سے بھرپور فائدہ حاصل کرنے کے لیے صرف اِنہیں پڑھنا ہی کافی نہیں ہے۔ ہمیں اِن کا گہرائی سے مطالعہ کرنے اور اِن پر سوچ بچار کرنے کے لیے وقت بھی نکالنا چاہیے۔ (یشوع 1:8 پر غور کریں۔) آئیں، دو ایسی تجاویز پر غور کریں جن کی مدد سے ہم اِنجیلوں میں لکھی باتوں پر سوچ بچار کرنے اور اِن پر عمل کرنے کے قابل ہوں گے۔
13. آپ کیا کر سکتے ہیں تاکہ آپ اِنجیلوں میں لکھی باتوں کو اِس طرح سے پڑھیں جیسے یہ آپ کی آنکھوں کے سامنے ہو رہی ہوں؟
13 سب سے پہلے اِنجیلوں میں لکھی باتوں کو اِس طرح سے پڑھیں جیسے یہ آپ کی آنکھوں کے سامنے ہو رہی ہوں۔ اپنی تصور کرنے کی صلاحیت کو اِستعمال کرتے ہوئے اُن چیزوں کو دیکھنے، سننے اور محسوس کرنے کی کوشش کریں جو آپ پڑھ رہے ہیں۔ ایسا کرنے کے لیے آپ تنظیم کی تیارکردہ مطبوعات سے تحقیق کر سکتے ہیں۔ جو کچھ آپ پڑھ رہے ہیں، اُس کے سیاقوسباق پر غور کریں تاکہ آپ یہ دیکھ سکیں کہ اِس سے پہلے اور اِس کے بعد کی آیتوں میں کیا کچھ ہوا۔ آیتوں میں جن لوگوں اور جگہوں کا ذکر ہوا ہے، اُن کے بارے میں اَور تحقیق کریں۔ اگر آپ ایک اِنجیل میں ایک واقعہ پڑھ رہے ہیں تو اِسے اُس دوسری اِنجیل میں بھی دیکھیں جہاں اِس کا ذکر ہوا ہے۔ کبھی کبھار ایک اِنجیل لکھنے والے نے کوئی ایسی دلچسپ معلومات ڈالی ہوتی ہے جو شاید دوسرے اِنجیل لکھنے والے نے نہیں ڈالی ہوتی۔
14-15. ہم جو کچھ اِنجیلوں میں پڑھتے ہیں، اُن پر عمل کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
14 پھر جو کچھ آپ اِنجیلوں میں پڑھتے ہیں، اُس پر عمل کریں۔ (یوح 13:17) اِنجیل میں کسی واقعے کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد خود سے پوچھیں: ”اِس واقعے میں کون سے ایسے سبق پائے جاتے ہیں جنہیں مَیں اپنی زندگی پر لاگو کر سکتا ہوں؟ مَیں اِس واقعے کے ذریعے دوسروں کی مدد کیسے کر سکتا ہوں؟“ کسی ایسے شخص کا سوچیں جس کی آپ مدد کر سکتے ہیں اور پھر مناسب وقت دیکھ کر بڑے پیار اور سمجھداری سے اُسے وہ باتیں بتائیں جو آپ نے سیکھی ہیں۔
15 آئیں، ایک واقعے پر غور کریں اور دیکھیں کہ ہم اِن دو تجاویز کو کام میں کیسے لا سکتے ہیں۔ یہ ایک غریب بیوہ کا واقعہ ہے جسے یسوع مسیح نے ہیکل میں دیکھا تھا۔
ہیکل میں غریب بیوہ
16. مرقس 12:41 میں ذکرکردہ منظر بتائیں۔
16 واقعات کو اِس طرح سے پڑھیں جیسے یہ آپ کی آنکھوں کے سامنے ہو رہے ہوں۔ (مرقس 12:41 کو پڑھیں۔) ذرا اِس منظر کو تصور کی آنکھ سے دیکھیں۔ یہ 11 نیسان 33ء کا وقت ہے اور یسوع کی موت ہونے میں ایک ہفتے سے کم وقت رہ گیا ہے۔ یسوع مسیح نے اِس دن زیادہتر وقت ہیکل میں تعلیم دیتے ہوئے گزارا ہے۔ اِس دوران مذہبی رہنماؤں نے اُن کی کافی مخالفت کی ہے۔ کچھ دیر پہلے اِن میں سے کچھ نے تو یہ سوال تک اُٹھایا کہ یسوع مسیح جو کام کر رہے ہیں، اُسے کرنے کا اِختیار اُنہیں کس نے دیا ہے۔بعض نے تو اُنہیں پھنسانے کے لیے اُن سے بڑے مشکل سوال پوچھے۔ (مر 11:27-33؛ 12:13-34) اب یسوع مسیح ہیکل کے ایک اَور حصے میں آ گئے ہیں جہاں سے وہ عطیات کے ڈبوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ یہ جگہ غالباً عورتوں کا صحن ہے۔ وہ ایک جگہ بیٹھ گئے ہیں جہاں سے وہ اُن لوگوں کو دیکھ سکتے ہیں جو عطیات کے ڈبوں میں پیسے ڈال رہے ہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ امیر لوگ بہت زیادہ سکے ڈال رہے ہیں۔ شاید وہ اِتنے قریب بیٹھے ہیں کہ اُنہیں ڈبوں میں سکوں کے گِرنے کی آوازیں سنائی دے رہی ہے۔
17. مرقس 12:42 میں ذکرکردہ غریب بیوہ نے کیا کِیا؟
17 مرقس 12:42 کو پڑھیں۔ کچھ دیر بعد یسوع کی نظر ایک ”غریب بیوہ“ پر پڑتی ہے۔ (لُو 21:2) اِس بیوہ کی زندگی آسان نہیں ہے۔ وہ اپنی بنیادی ضرورتوں کو بھی بڑی مشکل سے پورا کر پاتی ہے۔ لیکن پھر بھی وہ عطیے کے ڈبے کی طرف گئی ہے اور اُس نے اِس میں دو سکے ڈال دیے ہیں جن کی مشکل سے ہی آواز سنائی دی ہے۔ یسوع مسیح جانتے ہیں کہ اُس نے دو لپتون سکے ڈالے ہیں جو اُس زمانے میں سب سے چھوٹے سکے ہوا کرتے تھے۔ اِن سکوں کی مالیت اِتنی کم تھی کہ اِن سے ایک چڑیا بھی نہیں خریدی جا سکتی تھی جو کہ سب سے سستے پرندوں میں سے ایک تھی جسے کھانے کے لیے خریدا جاتا تھا۔
18. مرقس 12:43، 44 میں یسوع مسیح نے بیوہ کے عطیے کے بارے میں کیا کہا؟
18 مرقس 12:43، 44 کو پڑھیں۔ یسوع مسیح اِس بیوہ کے جذبے سے بہت متاثر ہوتے ہیں۔ وہ اپنے شاگردوں کو بلاتے ہیں اور اُن کی توجہ اُس بیوہ پر دِلاتے ہوئے کہتے ہیں: ”اِس غریب بیوہ نے عطیات کے ڈبوں میں باقی سب لوگوں کی نسبت زیادہ ڈالا ہے کیونکہ اُن سب [خاص طور پر امیر لوگوں]نے اپنے فالتو پیسوں میں سے ڈالا لیکن اِس بیوہ نے اپنا سب کچھ یعنی اپنے سارے پیسے ڈال دیے حالانکہ یہ بہت غریب ہے۔“ جب بیوہ نے اپنی ساری جمع پونجی عطیے کے طور پر دے دی تو ایک طرح سے اُس نے خود کو یہوواہ کے ہاتھوں میں سونپ دیا۔—زبور 26:3۔
19. یسوع مسیح نے غریب بیوہ کے بارے میں جو کچھ کہا، اُس سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟
19 واقعے میں بتائے گئے سبق پر عمل کریں۔ خود سے پوچھیں: ”یسوع مسیح نے اُس غریب بیوہ کے بارے میں جو کچھ کہا، اُس سے مَیں کیا سیکھ سکتا ہوں؟“ ذرا اُس غریب بیوہ کے بارے میں سوچیں۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ اُس بیوہ کی یہ شدید خواہش ہوگی کہ وہ یہوواہ کو زیادہ دے۔ لیکن پھر بھی وہ جتنا کر سکتی تھی، اُس نے کِیا۔ اور یسوع مسیح یہ جانتے تھے کہ اُس بیوہ کا عطیہ اُن کے آسمانی باپ کی نظر میں کتنا بیشقیمت ہے۔ اِس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ یہ کہ جب ہم پورے دلوجان سے یہوواہ کی خدمت کرتے ہیں تو وہ بہت خوش ہوتا ہے۔ (متی 22:37؛ کُل 3:23) مثال کے طور پر جب ہم اِجلاسوں پر جانے اور مُنادی کرنے میں اپنا وقت صرف کرتے اور اپنی پوری طاقت لگاتے ہیں تو وہ اِس کی بہت قدر کرتا ہے۔
20. آپ نے غریب بیوہ کے واقعے سے جو کچھ سیکھا ہے، آپ اُس پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟ مثال دیں۔
20 آپ نے غریب بیوہ کے واقعے سے جو کچھ سیکھا ہے، آپ اُس پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟ کسی ایسے شخص کا سوچیں جسے اِس حوصلہافزائی کی ضرورت ہے کہ وہ یہوواہ کی خدمت میں جو کچھ کر رہا ہے، اُس سے یہوواہ بہت خوش ہے۔ مثال کے طور پر کیا آپ کسی ایسی عمررسیدہ بہن کو جانتے ہیں جو خراب صحت کی وجہ سے اب یہوواہ کی اُتنی خدمت نہیں کر پا رہی جتنی وہ پہلے کِیا کرتی تھی اور اِس وجہ سے وہ خود کو ناکارہ خیال کرتی ہے؟ یا کیا آپ کسی ایسے بھائی کا سوچ سکتے ہیں جو سنگین بیماری کی وجہ سے کنگڈم ہال میں ہر اِجلاس پر حاضر نہیں ہو سکتا اور اِس وجہ سے بےحوصلہ ہے؟ اِن بہن بھائیوں سے ایسی باتیں کہیں جن سے اُن کی ”حوصلہافزائی ہو۔“ (اِفس 4:29) اُنہیں وہ باتیں بتائیں جو آپ نے غریب بیوہ کے واقعے سے سیکھی ہیں۔ آپ کی حوصلہافزا باتوں سے اُنہیں یہ یقین ہو سکتا ہے کہ وہ یہوواہ کی خدمت میں جتنا بھی کر رہے ہیں، اُس سے وہ بہت خوش ہے۔ (امثا 15:23؛ 1-تھس 5:11) جب آپ دوسروں کو اِس بات پر داد دیں گے کہ وہ یہوواہ کی جی جان سے خدمت کر رہے ہیں، بھلے ہی وہ زیادہ کچھ نہ کر پا رہے ہوں تو آپ یسوع کے نقشِقدم پر چل رہے ہوں گے۔
21. آپ نے کیا عزم کِیا ہے؟
21 ہم یہوواہ کے بہت شکرگزار ہیں کہ اُس نے اِنجیلوں میں یسوع مسیح کی زندگی کے بارے میں بہت سی ایسی باتیں لکھوائی ہیں جن کی مدد سے ہم یسوع کے نقشِقدم پر چل سکتے ہیں۔کیوں نہ ذاتی مطالعے یا خاندانی عبادت کے دوران اِنجیلوں میں درج واقعات کا مطالعہ کرنے کا سوچیں؟ ایسا کرتے وقت اِس بات کو یاد رکھیں کہ اگر آپ مطالعے سے بھرپور فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو بائبل میں لکھی باتوں کو اِس طرح سے پڑھنا ہوگا جیسے یہ آپ کی آنکھوں کے سامنے ہو رہی ہوں اور پھر اِنہیں اپنی زندگی پر لاگو کرنا ہوگا۔ ہمیں یسوع کی مثال پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی کہی باتوں پر بھی عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگلے مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ ہم یسوع کی اُن باتوں سے کیا کچھ سیکھ سکتے ہیں جو اُنہوں نے سُولی پر کہیں۔
گیت نمبر 15: یہوواہ کے پہلوٹھے کی حمد
a سچے مسیحیوں کے طور پر ہمیں ”[یسوع] کے نقشِقدم“ پر چلنے کی ضرورت ہے۔ یسوع مسیح نے ہمارے لیے قدموں کے کیسے نقش چھوڑے؟ اِس مضمون میں اِس سوال کا جواب دیا جائے گا۔ ہم اِس بات پر بھی غور کریں گے کہ ہمیں یسوع کے نقشِقدم پر کیوں چلنا چاہیے اور ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔
b تصویر کی وضاحت: ایک بہن غریب بیوہ کے واقعے پر سوچ بچار کر رہی ہے۔ بعد میں وہ بہن ایک عمررسیدہ بہن کو اِس بات پر داد دے رہی ہے کہ وہ پورے جی جان سے یہوواہ کی خدمت کرتی ہے۔