آپ بیتی
مَیں نے وفادار لوگوں کو کامیاب ہوتے دیکھا ہے
شاید آپ وہ باتچیت کبھی نہ بھولیں جو آپ کے لیے بہت خاص ہوتی ہے۔ میری بھی اپنے ایک دوست کے ساتھ تقریباً 50 سال پہلے ایسی ہی باتچیت ہوئی۔ ہم دونوں اُس وقت ملک کینیا میں تھے۔ ہم کئی مہینوں سے سفر کر رہے تھے اِس وجہ سے ہم دھوپ کی وجہ سے کالے ہو گئے تھے۔ ایک دن ہم آگ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور ایک مذہبی فلم کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ میرے دوست نے کہا: ”اِس میں بائبل کے بارے میں بہت غلط باتیں بتائی گئی تھیں۔“
مَیں ہنسنے لگا کیونکہ مجھے نہیں لگتا تھا کہ میرا دوست ایک مذہبی شخص ہے۔ مَیں نے اُس سے پوچھا: ”تُم بائبل کے بارے میں کیا جانتے ہو؟“ اُس نے فوراً مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر اُس نے مجھے بتایا کہ اُس کی امی یہوواہ کی ایک گواہ تھیں اور اُس نے اپنی امی سے کچھ باتیں سیکھیں۔ مَیں اَور جاننا چاہتا تھا اِس لیے مَیں نے اُس سے کچھ سوال پوچھے۔
ہم تقریباً ساری رات باتیں کرتے رہے۔ اُس نے مجھے بتایا کہ بائبل سے پتہ چلتا ہے کہ شیطان اِس دُنیا کا حکمران ہے۔ (یوح 14:30) شاید آپ اِس بات کے بارے میں بہت وقت سے جانتے ہوں۔ لیکن میرے لیے یہ بات بالکل نئی اور بہت دلچسپ تھی۔ مَیں نے تو ہمیشہ سے یہی سنا تھا کہ ایک مہربان اور اِنصافپسند خدا اِس دُنیا کو چلا رہا ہے۔ لیکن مَیں نے اپنی زندگی میں جو کچھ دیکھا تھا، اُس سے یہ بات میل نہیں کھاتی تھی۔ اُس وقت مَیں صرف 26 سال کا تھا لیکن مَیں نے اپنی زندگی میں بہت سی مشکلیں دیکھی تھیں۔
میرے ابو امریکہ کی فضائی فوج کے ایک پائلٹ تھے۔ اِس لیے بچپن سے ہی مَیں یہ بات جانتا تھا کہ ایٹمی جنگ کسی بھی وقت شروع ہو سکتی ہے؛ فوج ایٹمی بم گِرانے کے لیے بالکل تیار کھڑی تھی۔ ویتنام میں جنگ اُس وقت شروع ہوئی جب مَیں کیلیفورنیا کے ایک کالج میں پڑھ رہا تھا۔ مَیں اپنے ساتھ پڑھنے والے نوجوانوں کے ساتھ احتجاجوں میں حصہ لیتا تھا۔ پولیس ڈنڈے لے کر ہمیں پکڑنے کی کوشش کر رہی ہوتی تھی۔ ہم بھاگ رہے ہوتے تھے اور ہمیں آنسو گیس کی وجہ سے کچھ دِکھائی نہیں دے رہا ہوتا تھا۔ اُس وقت ملک میں بغاوت بہت عام ہو گئی تھی اور ہر طرف افراتفری پھیلی ہوئی تھی۔ سیاسی رہنماؤں کو قتل کِیا جا رہا تھا اور ہر جگہ احتجاج اور دنگےفساد ہو رہے تھے۔ ہر کسی کی اِس بارے میں فرق فرق رائے تھی کہ کیا کرنا چاہیے۔ سب اُلجھن میں تھے۔
1970ء میں مَیں نے الاسکا کے شمالی ساحل کے قریب ایک نوکری کرنی شروع کر دی اور وہاں مجھے بہت اچھے پیسے مل رہے تھے۔ پھر مَیں لندن چلا گیا۔ وہاں مَیں نے ایک موٹر سائیکل خریدی اور جنوب کی طرف بِنا کسی منزل کے سفر پر نکل پڑا۔ کچھ مہینوں بعد مَیں افریقہ پہنچ گیا۔ راستے میں مَیں بہت سے ایسے لوگوں سے ملا جو سوچتے تھے کہ کاش وہ بھی اپنی مشکلوں سے چھٹکارا پانے کے لیے کہیں دُور بھاگ سکتے۔
مَیں نے جو کچھ دیکھا اور سنا تھا، اُس سے میرا اِس بات پر یقین مضبوط ہو گیا کہ ایک بہت ہی بُری ہستی دُنیا کو چلا رہی ہے۔ لیکن اگر خدا دُنیا کو نہیں چلا رہا تھا تو وہ کیا کر رہا تھا؟ مَیں اِس بارے میں جاننا چاہتا تھا۔
کچھ مہینوں بعد مجھے اپنے سوال کا جواب مل گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ مَیں کچھ ایسے لوگوں کو جان گیا اور اُن سے محبت کرنے لگا جو ہر طرح کے حالات میں سچے خدا کے وفادار رہے۔
شمالی آئرلینڈ—”بموں اور گولیوں کا ملک“
جب مَیں لندن پہنچا تو مَیں نے اپنے دوست کی امی سے رابطہ کِیا اور اُنہوں نے مجھے ایک بائبل دی۔ بعد میں مَیں نیدرلینڈز کے دارالحکومت ایمسٹرڈیم گیا۔ وہاں یہوواہ کے ایک گواہ نے دیکھا کہ مَیں سڑک پر بیٹھے بائبل پڑھ رہا ہوں۔ اُس نے مجھے بائبل کے بارے میں اَور سکھایا۔ پھر مَیں آئرلینڈ کے دارالحکومت ڈبلن گیا اور وہاں مجھے گواہوں کی ایک برانچ ملی۔ مَیں نے اُن کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہاں میری ملاقات ایک بھائی سے ہوئی جس کا نام آرتھر میتھیوز تھا۔ وہ بہت ہی سمجھدار اور تجربہکار بھائی تھے۔ مَیں نے بھائی سے پوچھا کہ کیا وہ مجھے بائبل کورس کرا سکتے ہیں اور اُنہوں نے مجھے بائبل کورس کرانا شروع کر دیا۔
مَیں بہت جوش سے بائبل کورس کرنے لگا۔ مَیں گواہوں کی کتابیں اور رسالے بہت شوق سے پڑھتا تھا۔ اور مَیں بائبل بھی پڑھتا تھا۔ مجھے اِس سب میں بہت مزہ آ رہا تھا۔ گواہوں کی عبادتوں میں مَیں نے دیکھا کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی اُن سوالوں کے جواب پتہ ہیں جن کے جواب کچھ پڑھے لکھے لوگ صدیوں سے جاننے کی کوشش کر رہے ہیں جیسے کہ ”بُرائی اِتنی عام کیوں ہے؟“، ”خدا کون ہے؟“ اور ”مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے؟“ مَیں زیادہ وقت گواہوں کے ساتھ ہی گزارتا تھا۔ ایسا کرنا میرے لیے زیادہ مشکل نہیں رہا کیونکہ اُس پورے ملک میں مَیں گواہوں کے علاوہ اَور کسی کو نہیں جانتا تھا۔ گواہوں نے میری مدد کی کہ مَیں اپنے دل میں خدا کے لیے محبت پیدا کروں اور اُس کی مرضی پوری کروں۔
1972ء میں مَیں نے بپتسمہ لے لیا۔ اِس کے ایک سال بعد مَیں پہلکار بن گیا اور شمالی آئرلینڈ کے شہر نیوری کی ایک چھوٹی سی کلیسیا کے ساتھ مل کر خدمت کرنے لگا۔ مَیں نے پہاڑوں کے قریب پتھروں سے بنا ایک گھر کرائے پر لیا۔ قریب ہی ایک کھیت میں بہت سی گائیں تھیں اور مَیں اُن کے سامنے اپنی تقریروں کی پریکٹس کرتا تھا۔ وہ چارا کھاتے ہوئے بڑی توجہ سے میری تقریر سنتی تھیں۔ وہ مجھے کوئی مشورہ تو نہیں دے سکتی تھیں لیکن اُن کے سامنے تقریر کرنے سے مَیں نے سیکھا کہ مَیں زیادہ لوگوں کے سامنے بِلاجھجک کیسے بات کر سکتا ہوں۔ 1974ء میں تنظیم نے مجھے خصوصی پہلکار بنا دیا اور ایک بھائی میرے ساتھ مل کر خدمت کرنے لگا جس کا نام نگل پٹ تھا۔ ہم دونوں بہت اچھے دوست بن گئے۔
اُس وقت شمالی آئرلینڈ میں دنگےفساد بہت عام ہو گئے تھے۔ کچھ لوگوں نے تو شمالی آئرلینڈ کو ”بموں اور گولیوں کا ملک“ کہنا شروع کر دیا۔ یہاں سڑکوں پر لوگ لڑتے جھگڑتے دِکھائی دیتے تھے، لوگوں پر گولیاں برستی تھیں اور گاڑیوں کو بموں سے اُڑا دیا جاتا تھا۔ سیاسی مسئلے اور مذہبی مسئلے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ لیکن پروٹسٹنٹ اور کیتھولک جانتے تھے کے گواہ کسی سیاسی پارٹی کی طرفداری نہیں کرتے۔ اِس لیے ہم آزادی سے اور محفوظ رہتے ہوئے مُنادی کر سکتے تھے۔ مُنادی میں ہم جن لوگوں کے گھر اُن سے ملنے جاتے تھے، اکثر وہ پہلے سے ہی جانتے تھے کہ کب اور کہاں دنگےفساد شروع ہو سکتے ہیں۔ وہ ہمیں پہلے سے آگاہ کر دیتے تھے تاکہ ہم محفوظ رہیں۔
لیکن پھر بھی اکثر خطرناک صورتحال کھڑی ہو جاتی تھیں۔ ایک دن مَیں ڈینس کاریگن نام کے ایک پہلکار بھائی کے ساتھ ایک ایسے علاقے میں مُنادی کر رہا تھا جہاں کوئی گواہ نہیں تھا اور ہم اِس سے پہلے صرف ایک بار ہی اِس علاقے میں مُنادی کرنے گئے تھے۔ وہاں ایک عورت ہم پر یہ اِلزام لگانے لگی کہ ہم برطانوی فوج کے خفیہ ایجنٹ ہیں، شاید اِس لیے کیونکہ ہم دونوں کا لہجہ آئرش زبان بولنے والوں جیسا نہیں تھا۔ ہم بہت ڈر گئے تھے۔ اُس ملک میں اگر آپ فوجیوں کے ساتھ بےتکلف ہو کر بات کرتے تھے تو یا تو آپ کو جان سے مار دیا جاتا تھا یا آپ کے گھٹنے میں گولی مار دی جاتی تھی۔ جب ہم باہر اکیلے کھڑے بس کا اِنتظار کر رہے تھے تو چائے کی اُس دُکان کے سامنے ایک گاڑی آ کر رُکی جہاں اُس عورت نے ہم پر اِلزام لگایا تھا۔ وہ عورت باہر آئی اور ہماری طرف اِشارہ کرتے ہوئے گاڑی میں بیٹھے دونوں آدمیوں سے کچھ بات کرنے لگی۔ وہ آدمی آہستہ آہستہ گاڑی چلا کر ہماری طرف آئے اور ہم سے بس کے آنے جانے کے وقت کے بارے میں کچھ سوال پوچھنے لگے۔ جب ہماری بس آ گئی تو وہ بس کے ڈرائیور سے کچھ بات کرنے لگے۔ ہمیں آواز نہیں آ رہی تھی کہ وہ اُس سے کیا بات کر رہے ہیں۔ بس میں کوئی اَور مسافر نہیں تھا۔ ہمیں یقین ہو گیا کہ یہ شہر سے باہر لے جا کر ہمیں نقصان پہنچائیں گے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ بس سے اُترتے وقت مَیں نے بس کے ڈرائیور سے پوچھا: ”کیا وہ آدمی ہمارے بارے میں کچھ پوچھ رہے تھے؟“ اُس نے کہا: ”مَیں جانتا ہوں کہ آپ لوگ کون ہیں۔ مَیں نے اُنہیں بتا دیا ہے۔ آپ فکر نہ کریں۔ آپ محفوظ ہیں۔“
1976ء میں ڈبلن میں صوبائی اِجتماع ہوا۔a وہاں میری ملاقات ایک خصوصی پہلکار سے ہوئی جس کا نام پولائن لومیکس تھا۔ وہ اِنگلینڈ سے آئی تھیں۔ اُنہوں نے اور اُن کے بھائی رے نے بچپن سے سچائی سیکھی تھی۔ پولائن یہوواہ کی وفادار، خاکسار اور بہت ہی اچھی بہن تھیں۔ ایک سال بعد مَیں نے اور پولائن نے شادی کر لی اور ہم نے شمالی آئرلینڈ کے شہر بالیمینا میں خصوصی پہلکاروں کے طور پر خدمت جاری رکھی۔
مَیں کافی وقت سے حلقے کے نگہبان کے طور پر خدمت کر رہا تھا۔ اِس دوران مَیں نے اور پولائن نے بلفاسٹ، لنڈن ڈیری اور کچھ اَور خطرناک شہروں میں خدمت کی۔ ہمیں یہ دیکھ کر بہت حوصلہ ملتا تھا کہ یہاں رہنے والے بہن بھائیوں نے مذہبی عقیدوں، تعصب اور نفرت کو اپنے دلوں سے نکال دیا تاکہ وہ یہوواہ کی عبادت کر سکیں۔ اور یہوواہ نے بھی اُنہیں برکت دی اور اُن کی حفاظت کی۔
مَیں دس سال سے آئرلینڈ میں رہ رہا تھا۔ پھر 1981ء میں ہمیں گلئیڈ کی 72ویں کلاس میں آنے کی دعوت دی گئی۔ گریجویشن کے بعد تنظیم نے ہمیں مغربی افریقہ کے ملک سیرا لیون بھیج دیا۔
سیرا لیون—غربت کے باوجود مضبوط ایمان
ہم 11 اَور بہن بھائیوں کے ساتھ ایک مشنری ہوم میں رہ رہے تھے۔ ہم ایک کچن، تین ٹائلٹ، دو باتھ روم، ایک ٹیلیفون، ایک کپڑے دھونے کی مشین اور ایک کپڑے سُکھانے کی مشین مل کر اِستعمال کر رہے تھے۔ بجلی کسی بھی وقت اچانک چلی جاتی تھی۔ چوہوں نے چھت پر قبضہ کِیا ہوا تھا اور سانپ تہہخانے میں چھپے ہوتے تھے۔
یہاں رہنا اِتنا آسان نہیں تھا لیکن ہمیں یہاں خدمت کر کے بہت اچھا لگ رہا تھا۔ لوگ پاک کلام کا بہت احترام کرتے تھے اور بہت توجہ سے پیغام سنتے تھے۔ بہت سے لوگوں نے بائبل کو پڑھا اور سچائی کو قبول کر لیا۔ وہاں کے مقامی لوگ مجھے ”مسٹر رابرٹ“ اور پولائن کو ”مسز رابرٹ“ کہتے تھے۔ مَیں برانچ کے لیے کام کر رہا تھا جس میں میرا بہت وقت چلا جاتا تھا اور مَیں مُنادی میں زیادہ نہیں جا پاتا تھا۔ اِس لیے بعد میں لوگ پولائن کو ”مسز پولائن“ اور مجھے ”مسٹر پولائن“ کہنے لگے۔ پولائن کو یہ سننا بہت اچھا لگتا تھا!
بہت سے بہن بھائی غریب تھے۔ لیکن یہوواہ نے ہمیشہ اُن کی ضرورتوں کا خیال رکھا۔ کبھی کبھی تو اُس نے بہت زبردست طریقے سے ایسا کِیا۔ (متی 6:33) مجھے یاد ہے کہ ایک بہن کے پاس صرف اِتنے ہی پیسے تھے کہ وہ اپنے اور اپنے بچوں کے لیے اُسی دن کے لیے کھانا خرید سکے۔ لیکن اُس نے وہ سارے پیسے ایک ایسے بھائی کو دے دیے جسے ملیریا ہو گیا تھا اور اُس کے پاس دوائیاں خریدنے کے پیسے نہیں تھے۔ اُسی دن بعد میں ایک عورت اُس بہن کے پاس آئی اور اُس سے کہا کہ وہ اُس کے بالوں کا کوئی سٹائل بنا دے اور جاتے ہوئے وہ اُسے پیسے دے کر گئی۔ ایسے بہت سے واقعے تھے جب یہوواہ نے بڑے زبردست طریقے سے بہن بھائیوں کی مدد کی۔
نائیجیریا—ایک نئی ثقافت کے بارے میں سیکھنا
ہم نو سال تک سیرا لیون میں رہے۔ پھر تنظیم نے ہمیں نائیجیریا کے بیتایل بھیج دیا۔ مَیں تو وہی کام کر رہا تھا جو مَیں سیرا لیون میں کر رہا تھا۔ لیکن پولائن کو تھوڑا مشکل لگ رہا تھا کیونکہ اُن کے لیے یہ بہت بڑی تبدیلی تھی۔ وہ ہر مہینے 130 گھنٹے مُنادی کِیا کرتی تھیں اور اُن کے پاس بہت اچھے بائبل کورس تھے۔ لیکن اب وہ سلائی کے شعبے میں کام کر رہی تھیں اور بہن بھائیوں کے وہ کپڑے ٹھیک کرتی تھیں جو خراب ہو جاتے تھے۔ اُنہیں اِس تبدیلی کو قبول کرنے میں تھوڑا وقت لگا۔ لیکن وہ سمجھ گئیں کہ بہن بھائی اُن کے کام کی بہت قدر کرتے ہیں۔ اُنہوں نے اپنا دھیان اِس بات پر رکھا کہ وہ بیتایل میں کام کرنے والے دوسرے بہن بھائیوں کا حوصلہ کیسے بڑھا سکتی ہیں۔
نائیجیریا کی ثقافت ہمارے لیے بہت نئی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دن ایک بھائی اُس بہن کو میرے آفس مجھ سے ملوانے لایا جو نئی نئی بیتایل آئی تھی۔ جب مَیں اُس سے ہاتھ ملانے آگے بڑھا تو وہ میرے قدموں تک میرے آگے جھک گئی۔ مَیں تو حیران ہی رہ گیا! اُس وقت میرے ذہن میں دو آیتیں آئیں: اعمال 10:25، 26 اور مکاشفہ 19:10۔ مَیں نے سوچا: ”کیا مجھے بہن کو کہنا چاہیے کہ وہ ایسا نہ کرے؟“ لیکن پھر مَیں نے سوچا کہ اِس بہن کو بیتایل آنے کے لیے چُنا گیا ہے؛ ظاہری بات ہے کہ وہ جانتی ہوگی کہ اِن آیتوں میں کیا لکھا ہے۔
باقی کی باتچیت کے دوران مَیں بہت عجیب محسوس کر رہا تھا۔ لیکن پھر بعد میں مَیں نے تھوڑی تحقیق کی۔ مجھے پتہ چلا کہ وہ نائیجیریا کے کچھ حصوں کی روایت کے مطابق ایسا کر رہی تھی۔ یہ پرستش نہیں تھی۔ اصل میں یہ احترام ظاہر کرنے کا ایک طریقہ تھا۔ بائبل میں بھی ایسے کچھ واقعات کا ذکر ہے۔ (1-سمو 24:8) شکر ہے کہ مَیں نے اُس وقت ایسا کچھ نہیں کہا جس کی وجہ سے میری بہن کو شرمندگی ہوتی۔
ہم ایسے بہن بھائیوں سے ملے جو سالوں سے یہوواہ کے لیے وفاداری ظاہر کر رہے تھے۔ ذرا بھائی آئزایاہ ایڈاگبونا کی مثال پر غور کریں۔ جب وہ جوان تھے تو اُنہوں نے سچائی سیکھی۔ لیکن پھر اُنہیں کوڑھ ہو گیا۔ اُنہیں ایک ایسے علاقے میں بھیج دیا گیا جہاں کوڑھی رہتے تھے۔ وہاں اَور کوئی گواہ نہیں تھا۔ مخالفت کے باوجود بھی اُنہوں نے 30 سے زیادہ کوڑھیوں کی سچائی سیکھنے میں مدد کی اور وہاں ایک کلیسیا قائم کی۔
کینیا—بہن بھائی میرے ساتھ بہت صبر سے پیش آئے
1996ء میں تنظیم نے ہمیں کینیا برانچ بھیج دیا۔ مَیں نے مضمون کے شروع میں جو واقعہ بتایا تھا اُس کے کئی سال کے بعد اب مَیں واپس کینیا آیا تھا۔ ہم بیتایل میں رہ رہے تھے۔ بیتایل میں دوسرے مہمان تو آتے ہی تھے لیکن وہاں کچھ بِنبلائے مہمان بھی آ جاتے تھے۔ یہ جنوبی افریقہ کے چھوٹے لنگور تھے۔ جن بہنوں کے ہاتھ میں پھل ہوتے تھے، وہ اُن سے پھل چھین کر بھاگ جاتے تھے۔ ایک دن بیتایل میں ایک بہن غلطی سے اپنے کمرے کی کھڑکی کُھلی چھوڑ گئی۔ جب وہ واپس اپنے کمرے میں آئی تو اُس نے دیکھا کہ لنگوروں کا پورا خاندان اُس کے کمرے میں رکھی کھانے پینے کی چیزیں بڑے مزے سے کھا رہا ہے۔ وہ بہن زور سے چلّائی اور کمرے سے باہر بھاگ گئی۔ وہ لنگور بھی چلّا کر کھڑکی سے باہر کود گئے۔
پولائن اور مَیں نے سواحلی زبان والی کلیسیا کے ساتھ مل کر خدمت کرنا شروع کر دی۔ کچھ وقت بعد مجھے کلیسیائی بائبل مطالعہ میں پیشوائی کرنے کی ذمےداری دی گئی۔ (اِسے اب بائبل کا کلیسیائی مطالعہ کہا جاتا ہے۔) لیکن مَیں ابھی تک یہ زبان صحیح سے بولنا نہیں جانتا تھا۔ مَیں پہلے سے تیاری کرتا تھا تاکہ مَیں سوالوں کو پڑھ سکوں۔ اگر بہن بھائی اُن جوابوں سے ہٹ کر کوئی جواب دیتے تھے جو مَیں نے لکھے ہوتے تھے تو مجھے سمجھ نہیں آتا تھا۔ یہ میرے لیے بہت دُکھ اور شرمندگی کی بات تھی! لیکن مجھے یہ دیکھ کر بہت اچھا لگتا تھا کہ بہن بھائی میرے ساتھ بہت صبر سے پیش آ رہے ہیں اور اُنہوں نے خاکساری سے اِس بندوبست کو قبول کِیا ہے۔
ریاستہائے متحدہ امریکہ—ایک امیر ملک میں بہن بھائیوں کا ایمان
ہم ایک سال سے بھی کم وقت کے لیے کینیا میں رہے۔ پھر 1997ء میں ہمیں نیو یارک کے شہر بروکلن کے بیتایل میں آنے کی دعوت ملی۔ اب ہم ایک ایسے ملک میں تھے جہاں مالی تنگی نہیں تھی۔ لیکن اِس وجہ سے دوسرے مسئلے ہو سکتے تھے۔ (امثا 30:8، 9) ایک امیر ملک میں رہتے ہوئے بھی بہن بھائیوں نے مضبوط ایمان ظاہر کِیا۔ وہ اپنا وقت اور چیزیں پُرآسائش زندگی گزارنے کے لیے نہیں بلکہ یہوواہ کی تنظیم کے کاموں کی حمایت کرنے کے لیے اِستعمال کرتے تھے۔
اِن سالوں کے دوران ہم نے فرق فرق صورتحال میں اپنے بہن بھائیوں کا مضبوط ایمان دیکھا۔ آئرلینڈ میں دنگےفساد کے باوجود بھی بہن بھائیوں نے اپنا ایمان مضبوط رکھا۔ افریقہ میں غربت تھی لیکن پھر بھی بہن بھائیوں کا ایمان مضبوط تھا۔ اور ریاستہائے متحدہ امریکہ ایک ترقییافتہ ملک ہے لیکن پھر بھی بہن بھائی مضبوط ایمان ظاہر کر رہے ہیں۔ یہوواہ یہ دیکھ کر کتنا خوش ہوتا ہوگا کہ اُس کے بندے ہر طرح کے حالات میں اُس کے لیے اپنی محبت ظاہر کر رہے ہیں!
یہ سال ”جلاہے کی ڈھرکی [یعنی کھڈی]“ سے بھی زیادہ تیزی سے گزر گئے۔ (ایو 7:6) اب ہم نیو یارک کے شہر واروِک میں ہمارے مرکزی دفتر میں بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر خدمت کر رہے ہیں۔ اور ہمیں خوشی ہے کہ ہم اب تک ایسے بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر خدمت کر رہے ہیں جو ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے ہیں۔ ہم اِس بات سے بھی بہت خوش اور مطمئن ہیں کہ ہم اپنے بادشاہ یسوع مسیح کی حمایت کرنے کے لیے وہ سب کچھ کر رہے ہیں جو ہم کر سکتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمارا بادشاہ اپنے وفادار بندوں کو بہت جلد اجر دے گا۔—متی 25:34۔
a علاقائی اِجتماع کو اُس وقت صوبائی اِجتماع کہا جاتا تھا۔