مطالعے کا مضمون نمبر 25
بزرگو! جدعون سے سیکھیں
”اِتنا وقت نہیں کہ مَیں جدعون . . . اور دوسرے نبیوں کا ذکر کروں۔“—عبر 11:32۔
گیت نمبر 124: وفادار ہوں
مضمون پر ایک نظرa
1. پہلا پطرس 5:2 کے مطابق یہوواہ نے بزرگوں کو کون سا خاص کام دیا ہے؟
یہوواہ نے کلیسیا کے بزرگوں کو یہ ذمےداری دی ہے کہ وہ اُس کی بھیڑوں کی دیکھبھال کریں۔ وہ اپنے بہن بھائیوں کی خدمت کرنے کے اعزاز کی بہت قدر کرتے ہیں اور ایسے گلّہبان بننے کے لیے سخت محنت کرتے ہیں جو ”صحیح گلّہبانی“ کرتے ہوں۔ (یرم 23:4، اُردو جیو ورشن؛ 1-پطرس 5:2 کو پڑھیں۔) ہم یہوواہ کے بہت شکرگزار ہیں کہ ہماری کلیسیاؤں میں ایسے بھائی ہیں!
2. کچھ بزرگوں کو شاید کون سے مسئلوں کا سامنا کرنا پڑے؟
2 بزرگوں کو اپنی ذمےداریاں نبھاتے وقت بہت سے مسئلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک مسئلہ یہ ہے کہ کلیسیا کی دیکھبھال کرنے کے لیے اُنہیں بہت سا کام کرنا پڑتا ہے۔ امریکہ میں رہنے والے ٹونی نام کے ایک بزرگ کو یہ سمجھنا پڑا کہ کتنی ذمےداریوں کو پورا کرنا اُن کے بس میں ہے۔ اُنہوں نے بتایا: ”جب کورونا کی وبا شروع ہوئی تو مَیں اِجلاسوں اور مُنادی کو منظم کرنے کے لیے اَور زیادہ کام کرنے لگا۔ مَیں اِتنا زیادہ مصروف رہنے لگا کہ میرے پاس بائبل پڑھنے اور اِس پر سوچ بچار کرنے، ذاتی مطالعہ کرنے اور دُعا کرنے کے لیے وقت ہی نہیں بچتا تھا۔“ کوسوو میں رہنے والے اِلر نام کے ایک بزرگ کو ایک فرق طرح کے مسئلے کا سامنا تھا۔ جب وہ ایک ایسے علاقے میں رہ رہے تھے جہاں جنگ ہو رہی تھی تو اُنہیں تنظیم کی ہدایتوں کو ماننا مشکل لگ رہا تھا۔ بھائی نے کہا: ”جب برانچ نے مجھے یہ ذمےداری دی کہ مَیں ایک خطرناک علاقے میں بہن بھائیوں کی مدد کروں تو میری دلیری کا اِمتحان ہوا۔ مَیں بہت ڈرا ہوا تھا اور مجھے نہیں لگ رہا تھا کہ اِس ہدایت کو ماننے میں سمجھداری ہے۔“ ایشیا میں مشنری کے طور پر خدمت کرنے والے ٹم نام کے بھائی کو اپنے اُن کاموں کو منظم کرنا مشکل لگ رہا تھا جو اُنہیں ہر دن کرنے تھے۔ اُنہوں نے کہا: ”کبھی کبھار مَیں ذہنی طور پر بہت تھک جاتا تھا۔“ کیا چیز اُن بزرگوں کی مدد کر سکتی ہے جو اِسی طرح کے مسئلوں کا سامنا کر رہے ہیں؟
3. جدعون کی مثال پر غور کرنے سے ہم سب کو کیا فائدہ ہوگا؟
3 بزرگ جدعون سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ (عبر 6:12؛ 11:32) جدعون یہوواہ کے بندوں کی حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی گلّہبانی بھی کر رہے تھے۔ (قضا 2:16؛ 1-توا 17:6) یہوواہ نے جدعون کی طرح آج کلیسیا میں بزرگوں کو بھی مقرر کِیا ہے تاکہ وہ اِس مشکل دَور میں اُس کے بندوں کی دیکھبھال کریں۔ (اعما 20:28؛ 2-تیم 3:1) جب جدعون اپنی ذمےداریاں پوری کر رہے تھے تو اُن کی ثابتقدمی کا اِمتحان ہوا۔ ہم اُن کی خاکساری اور یہوواہ کے لیے اُن کی فرمانبرداری سے بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ چاہے ہم کلیسیا میں ایک بزرگ ہوں یا نہیں، ہم اپنے دل میں بزرگوں کے لیے قدر بڑھا سکتے ہیں۔ ہم اپنے اِن بھائیوں کا ساتھ دے سکتے ہیں جو ہماری دیکھبھال کرنے کے لیے بہت سخت محنت کر رہے ہیں۔—عبر 13:17۔
جب آپ کی خاکساری کا اِمتحان ہو
4. جدعون نے کیسے ثابت کِیا کہ وہ خاکسار ہیں؟
4 جدعون بہت خاکسار تھے اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ کون سے کام کرنا اُن کے بس میں ہے اور کون سے نہیں۔b جب ایک فرشتے نے جدعون کو بتایا کہ یہوواہ نے بنیاِسرائیل کو مِدیانیوں کے ہاتھ سے چھڑانے کے لیے اُنہیں چُنا ہے تو جدعون نے بڑی خاکساری سے کہا: ”میرا گھرانا منسیؔ میں سب سے غریب ہے اور مَیں اپنے باپ کے گھر میں سب سے چھوٹا ہوں۔“ (قضا 6:15) جدعون کو لگ رہا تھا کہ وہ اِس ذمےداری کو پورا کرنے کے لائق نہیں ہیں۔ لیکن یہوواہ جانتا تھا کہ وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ اور اُس کی مدد سے جدعون نے بڑی اچھی طرح اپنی ذمےداری کو پورا کِیا۔
5. ایک بزرگ کی خاکساری کا اِمتحان کب ہو سکتا ہے؟
5 بزرگ پوری کوشش کرتے ہیں کہ وہ خاکسار رہیں۔ (میک 6:8؛ اعما 20:18، 19) وہ اپنی صلاحیتوں یا کامیابیوں پر شیخی نہیں مارتے اور نہ ہی اپنی غلطیوں کی وجہ سے خود کو بےکار سمجھتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھار شاید ایک بزرگ کو خاکسار رہنا اور یہ بات تسلیم کرنا مشکل لگے کہ کچھ کام کرنا اُس کے بس میں نہیں ہے۔ مثال کے طور پر شاید وہ بہت سی ذمےداریاں اُٹھا لے لیکن اُسے اِنہیں پورا کرنا مشکل لگ رہا ہو۔ یا ہو سکتا ہے کہ اُسے اُس وقت خاکسار رہنا مشکل لگ رہا ہو جب دوسرے اُس کے کسی کام کی وجہ سے یا تو اُس پر تنقید یا اُس کی تعریف کرتے ہیں۔ بزرگ جدعون سے کون سی باتیں سیکھ سکتے ہیں جو ایسی صورتحال میں اُن کے کام آ سکتی ہیں؟
6. بزرگ خاکساری کے حوالے سے جدعون سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ (تصویر کو بھی دیکھیں۔)
6 دوسروں سے مدد لیں۔ ایک خاکسار شخص جانتا ہے کہ وہ کیا کام کر سکتا ہے اور کیا نہیں۔ جدعون بھی اِس بات کو سمجھتے تھے۔ اِس لیے اُنہوں نے دوسروں سے مدد مانگی۔ (قضا 6:27، 35؛ 7:24) سمجھدار بزرگ بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ ذرا غور کریں کہ اِس سلسلے میں بھائی ٹونی نے کیا کہا۔ اُنہوں نے کہا: ”جس طرح سے میری پرورش ہوئی، اُس کی وجہ سے مَیں وہ ذمےداریاں بھی قبول کر لیتا تھا جنہیں پورا کرنا میرے لیے اِتنا آسان نہیں ہوتا تھا۔ اِس لیے مَیں نے سوچا کہ ہم اپنی خاندانی عبادت میں اِس موضوع پر بات کریں گے اور مَیں نے اپنی بیوی سے پوچھا کہ اُس کے خیال میں مجھے کہاں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ مَیں نے ویبسائٹ jw.org سے ویڈیو ”تربیت دینے، بھروسا کرنے اور ذمےداریاں سونپنے کے سلسلے میں مسیح کی طرح بنیں“ کو بھی دیکھا۔“ بھائی ٹونی نے اپنی ذمےداریاں دوسروں کے ساتھ بانٹنی شروع کر دیں۔ اِس سب کا کیا نتیجہ نکلا؟ بھائی ٹونی نے بتایا: ”اب کلیسیا کے سبھی کام بہت اچھے سے ہو رہے ہیں۔ اور میرے پاس یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی مضبوط کرنے کے لیے زیادہ وقت ہے۔“
7. جب کوئی بزرگوں پر تنقید کرتا ہے تو بزرگ جدعون کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟ (یعقوب 3:13)
7 جب آپ پر کوئی تنقید کرتا ہے تو غصے میں نہ آئیں۔ بزرگوں کی خاکساری کا ایک اَور اِمتحان اُس وقت ہوتا ہے جب اُن پر کوئی تنقید کرتا ہے۔ اِس سلسلے میں بھی جدعون نے بڑی اچھی مثال قائم کی۔ بےشک جدعون اپنی خامیوں سے واقف تھے۔ اِس لیے جب اِفرائیمیوں نے اُن پر تنقید کی تو وہ ٹھنڈے رہے۔ (قضا 8:1-3) اُنہوں نے اِفرائیمیوں کو غصے سے جواب نہیں دیا۔ اُنہوں نے بڑے دھیان سے اُن کی بات سنی اور اُنہیں نرمی سے جواب دیا۔ اِس طرح اُنہوں نے ثابت کِیا کہ وہ خاکسار ہیں۔ یوں وہ معاملے کو ٹھنڈا کر پائے۔ سمجھدار بزرگ بھی جدعون کی طرح دھیان سے اُن لوگوں کی بات سنتے ہیں جو اُن پر تنقید کرتے ہیں اور پھر وہ اُنہیں نرمی سے جواب دیتے ہیں۔ (یعقوب 3:13 کو پڑھیں۔) اِس طرح وہ کلیسیا میں امن قائم رکھتے ہیں۔
8. جب دوسرے بزرگوں کی تعریف کرتے ہیں تو بزرگوں کو کیا کرنا چاہیے؟ ایک مثال دیں۔
8 تعریف کا سہرا یہوواہ کے سر باندھیں۔ جب جدعون نے مِدیانیوں کو جنگ میں ہرا دیا تو لوگوں نے اُن کی بہت تعریف کی۔ لیکن جدعون نے اِس فتح کا سہرا یہوواہ کے سر باندھا۔ (قضا 8:22، 23) بزرگ جدعون کی طرح کیسے بن سکتے ہیں؟ وہ بھی اپنے اچھے کاموں کا سہرا یہوواہ کے سر باندھ سکتے ہیں۔ (1-کُر 4:6، 7) مثال کے طور پر جب لوگ ایک بزرگ کی اِس وجہ سے تعریف کرتے ہیں کیونکہ وہ بہت اچھی طرح سے تعلیم دیتا ہے تو وہ اُن کی توجہ خدا کے کلام یا اُس تربیت پر دِلا سکتا ہے جو اُسے یہوواہ کی تنظیم سے ملی ہے۔ بزرگوں کو وقتاًفوقتاً اِس بارے میں سوچنا چاہیے کہ کہیں وہ اِس طرح سے تعلیم تو نہیں دے رہے کہ لوگوں کی توجہ یہوواہ کی بجائے اُن پر جا رہی ہے۔ ذرا ٹیموتھی نام کے ایک بزرگ کی مثال پر غور کریں۔ جب وہ نئے نئے بزرگ بنے تو اُنہیں عوامی تقریریں کرنا بہت پسند تھا۔ بھائی نے کہا: ”مَیں تقریر کے شروع میں بہت لمبا چوڑا تعارف کراتا تھا اور بڑی بڑی مثالیں دیتا تھا۔ اِس وجہ سے لوگ میری بہت تعریف کرتے تھے۔ لیکن اُن کی توجہ بائبل اور یہوواہ سے ہٹ کر مجھ پر چلی جاتی تھی۔“ آہستہ آہستہ بھائی ٹیموتھی یہ سمجھ گئے کہ اُنہیں اپنے تعلیم دینے کے طریقے میں تھوڑی تبدیلی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ دوسروں کی توجہ حد سے زیادہ خود پر نہ دِلائیں۔ (امثا 27:21) اِس کا کیا نتیجہ نکلا؟ بھائی نے بتایا: ”اب بہن بھائی مجھے آ کر یہ بتاتے ہیں کہ میری تقریر کی وجہ سے وہ اپنی مشکل سے کیسے نمٹ پائے یا وہ یہوواہ کے قریب کیسے ہو گئے۔ کچھ سال پہلے تک جب لوگ میری تعریف کرتے تھے تو مجھے اچھا لگتا تھا لیکن اُن کی یہ بات سُن کر مجھے زیادہ خوشی ہوتی ہے۔“
جب آپ کی دلیری یا یہوواہ کے لیے آپ کی فرمانبرداری کا اِمتحان ہو
9. جدعون کی فرمانبرداری اور دلیری کا اِمتحان کیسے ہوا؟ (سرِورق کی تصویر کو دیکھیں۔)
9 جب یہوواہ نے جدعون کو قاضی مقرر کِیا تو اُن کی فرمانبرداری اور دلیری کا اِمتحان ہوا۔ اُن کو یہ خطرناک ذمےداری ملی کہ وہ بعل کے اُس مذبحے کو ڈھا دیں جو اُن کے والد نے بنایا تھا۔ (قضا 6:25، 26) اِس کے بعد جدعون نے ایک بہت بڑی فوج تیار کی۔ لیکن یہوواہ نے دو بار اُنہیں کہا کہ وہ اِس فوج کی تعداد کو کم کریں۔ (قضا 7:2-7) پھر یہوواہ نے اُنہیں کہا کہ وہ آدھی رات کو دُشمن فوج پر حملہ کریں۔—قضا 7:9-11۔
10. یہوواہ کے لیے ایک بزرگ کی فرمانبرداری کا اِمتحان کیسے ہو سکتا ہے؟
10 بزرگوں کو یہوواہ کا ”فرمانبردار“ رہنا چاہیے۔ (یعقو 3:17) ایک فرمانبردار بزرگ پاک کلام میں لکھی باتوں اور تنظیم کی طرف سے ملنے والی ہدایتوں پر فوراً عمل کرتا ہے۔ اِس طرح وہ دوسروں کے لیے بہت اچھی مثال قائم کرتا ہے۔ لیکن اِس کے باوجود ہو سکتا ہے کہ اُس کی فرمانبرداری کا اِمتحان ہو۔ مثال کے طور پر شاید ہماری تنظیم کی طرف سے بہت زیادہ ہدایتیں مل رہی ہوں یا پھر ہدایتیں فوراً بدل رہی ہوں اور اِس وجہ سے اُس بزرگ کے لیے اِن ہدایتوں پر عمل کرنا مشکل ہو رہا ہو۔ شاید کبھی کبھار اُس کے ذہن میں یہ خیال بھی آئے کہ کیا تنظیم کی یہ ہدایت فائدہمند ہے بھی یا نہیں۔ یا پھر شاید اُسے کوئی ایسی ذمےداری ملے جس کی وجہ سے اُسے گِرفتار کِیا جا سکتا ہے۔ اِس طرح کی صورتحال میں بزرگ جدعون کی طرح یہوواہ کے فرمانبردار کیسے رہ سکتے ہیں؟
11. کیا چیز یہوواہ کے فرمانبردار رہنے میں بزرگوں کی مدد کر سکتی ہے؟
11 یہوواہ کی ہدایتوں کو دھیان سے سنیں اور اُن پر عمل کریں۔ یہوواہ نے جدعون کو بتایا کہ اُنہیں اُس مذبحے کو کیسے ڈھانا ہے جو اُن کے والد نے بنایا تھا؛ یہوواہ کے لیے ایک نیا مذبح کہاں پر بنانا ہے اور کس جانور کو قربان کرنا ہے۔ جدعون نے یہوواہ کی ہدایتوں پر اِعتراض نہیں کِیا بلکہ یہوواہ نے جیسا کہا، جدعون نے بالکل ویسا ہی کِیا۔ آج بزرگوں کو یہوواہ کی تنظیم کی طرف سے خطوں اور اِعلانات کے ذریعے سے ہدایتیں ملتی ہیں۔ اِن میں ایسی ہدایتیں بھی ہوتی ہیں جن کے ذریعے ہم محفوظ اور یہوواہ کے قریب رہ سکتے ہیں۔ ہم بزرگوں کی بہت قدر کرتے ہیں کیونکہ وہ اِن ہدایتوں پر پوری طرح سے عمل کرتے ہیں۔ اُن کے ایسا کرنے سے پوری کلیسیا کو فائدہ ہوتا ہے۔—زبور 119:112۔
12. جب تنظیم کی کسی ہدایت میں تبدیلی کی جاتی ہے تو بزرگ عبرانیوں 13:17 پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟
12 تبدیلیوں کے مطابق ڈھلنے کے لیے تیار رہیں۔ یاد کریں کہ یہوواہ کی ہدایت پر جدعون نے تقریباً اپنے سبھی فوجیوں کو واپس بھیج دیا تھا اور اُن کے پاس صرف تھوڑے سے فوجی رہ گئے تھے۔ (قضا 7:8) شاید جدعون نے سوچا ہو: ”کیا یہ تبدیلی کرنا ضروری ہے؟ کیا ایسا کرنے کا کوئی فائدہ ہوگا؟“ چاہے جدعون نے یہ بات سوچی تھی یا نہیں؛ اہم بات یہ ہے کہ اُنہوں نے یہوواہ کی ہدایت پر عمل کِیا۔ آج جب یہوواہ کی تنظیم کسی ہدایت میں تبدیلی کرتی ہے تو بزرگ اِس ہدایت کے مطابق کام کرنے سے جدعون کی مثال پر عمل کرتے ہیں۔ (عبرانیوں 13:17 کو پڑھیں۔) مثال کے طور پر 2014ء میں گورننگ باڈی نے عبادتگاہوں اور اِجتماعوں کے ہالوں کو بنانے کے حوالے سے ہدایت میں تبدیلی کی۔ 2014ء سے پہلے جب کسی کلیسیا کے لیے عبادتگاہ بنائی جاتی تھی تو اُس کلیسیا کو اُس عبادتگاہ کی تعمیر پر آنے والے اخراجات کی رقم کو تنظیم کو واپس کرنا ہوتا تھا۔ (2-کُر 8:12-14) لیکن نئی ہدایت کے مطابق پوری دُنیا میں کلیسیاؤں سے ملنے والے عطیات کو ایک جگہ جمع کِیا جانا تھا اور پھر اِن عطیات کے ذریعے سے اُن علاقوں میں عبادتگاہیں بنائی جانی تھیں جہاں اِن کی ضرورت تھی، پھر چاہے مقامی کلیسیا عالمگیر کام کے لیے تھوڑے سے عطیات ہی کیوں نہ دیتی ہو۔ جب بھائی حوسے کو اِس تبدیلی کا پتہ چلا تو اُنہوں نے سوچا: ”پتہ نہیں اِس ہدایت کے مطابق کبھی عبادتگاہیں بن بھی پائیں گی یا نہیں؟ ہمارے ملک میں اِس طرح سے کام نہیں ہوتا۔“ کس چیز نے بھائی حوسے کی مدد کی تاکہ وہ تنظیم کی ہدایت کے مطابق چلیں؟ اُنہوں نے کہا: ”امثال 3:5، 6 کے مطابق مَیں سمجھ گیا کہ مجھے یہوواہ پر بھروسا کرنا ہے۔ اور اِس کے بہت اچھے نتیجے نکلیں ہیں۔ ہم نہ صرف بہت زیادہ عبادتگاہیں بنا پائیں ہیں بلکہ ہم نے فرق فرق طریقوں سے عطیات دینا بھی سیکھا ہے تاکہ اگر ایک جگہ پر عطیات زیادہ ہیں تو اِن کے ذریعے سے دوسری جگہوں پر عطیات کی کمی کو پورا کِیا جا سکے۔“
13. (الف) جدعون کو کس بات کا یقین تھا؟ (ب) بزرگ جدعون کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟ (تصویر کو بھی دیکھیں۔)
13 دلیری سے یہوواہ کی بات مانیں۔ جدعون نے اُس وقت بھی یہوواہ کی بات مانی جب وہ بہت ڈرے ہوئے تھے اور اُنہیں بہت مشکل ذمےداری نبھانی تھی۔ (قضا 9:17) جب یہوواہ نے جدعون کو بتایا کہ وہ اُن کا ساتھ دے گا تو جدعون کو اِس بات کا پکا یقین ہو گیا کہ یہوواہ کی مدد سے وہ اُس کے بندوں کو بچا لیں گے۔ جو بزرگ ایسے ملکوں میں رہتے ہیں جہاں ہمارے کام پر پابندی لگی ہوئی ہے، وہ جدعون کی مثال پر عمل کرتے ہیں۔ وہ دلیری سے عبادتوں اور مُنادی میں بہن بھائیوں کی پیشوائی کرتے ہیں حالانکہ اِس وجہ سے اُنہیں گِرفتار کِیا جا سکتا ہے؛ اُن سے پوچھگچھ ہو سکتی ہے؛ اُن کی نوکری جا سکتی ہے اور اُنہیں ماراپیٹا جا سکتا ہے۔c بڑی مصیبت کے دوران بزرگوں کو خطروں کے باوجود یہوواہ کی ہدایتوں پر عمل کرنے کے لیے دلیری چاہیے ہوگی۔ اِن ہدایتوں میں شاید اِس بارے میں بھی ہدایت شامل ہو کہ ہمیں لوگوں کو اَولوں جیسا پیغام کیسے سنانا ہے اور ہم ماجوج کے جوج کے حملے کے باوجود یہوواہ کے وفادار کیسے رہ سکتے ہیں۔—حِز 38:18؛ مکا 16:21۔
جب آپ کی ثابتقدمی کا اِمتحان ہو
14. جدعون کی ثابتقدمی کا اِمتحان کیسے ہوا؟
14 ایک قاضی کے طور پر جدعون کو بہت زیادہ کام کرنا تھا۔ جب اُنہوں نے آدھی رات کو مِدیانیوں پر حملہ کِیا تو مِدیانی اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ گئے۔ جدعون نے یزرعیل کی وادی سے لے کر دریائےاُردن تک اُن کا پیچھا کِیا جو کہ شاید گھنی جھاڑیوں سے گِھرا ہوا تھا۔ (قضا 7:22) کیا جدعون نے دریائےاُردن پر پہنچ کر مِدیانیوں کا پیچھا کرنا چھوڑ دیا؟ نہیں۔ حالانکہ جدعون اور اُن کے 300 ساتھی بہت تھک گئے تھے لیکن اِس کے باوجود اُنہوں نے دریائےاُردن کو پار کِیا اور مِدیانیوں کا پیچھا کرتے رہے۔ آخرکار اُنہوں نے مِدیانیوں کو پکڑ لیا اور اُنہیں ہرا دیا۔—قضا 8:4-12۔
15. ایک بزرگ کی ثابتقدمی کا اِمتحان کب ہو سکتا ہے؟
15 شاید ایک بزرگ کلیسیا اور اپنی خاندانی ذمےداریوں کی وجہ سے کبھی کبھار جسمانی اور ذہنی طور پر بہت تھک جائے یا جذباتی طور پر ٹوٹ جائے۔ ایسی صورتحال میں وہ جدعون کی مثال پر کیسے عمل کر سکتا ہے؟
16-17. کس چیز نے ثابتقدم رہنے میں جدعون کی مدد کی اور بزرگ کس بات کا بھروسا رکھ سکتے ہیں؟ (یسعیاہ 40:28-31) (تصویر کو بھی دیکھیں۔)
16 اِس بات کا بھروسا رکھیں کہ یہوواہ آپ کو ہمت دے گا۔ جدعون کو اِس بات کا بھروسا تھا کہ یہوواہ اُنہیں ہمت دے گا اور یہوواہ نے اُن کا بھروسا ٹوٹنے نہیں دیا۔ (قضا 6:14، 34) ایک بار جدعون اور اُن کے ساتھی دو مِدیانی بادشاہوں کا پیچھا کر رہے تھے۔ وہ بادشاہ اونٹوں پر سوار تھے جبکہ جدعون اور اُن کے ساتھی پیدل تھے۔ (قضا 8:12، 21) اِس کے باوجود یہوواہ کی مدد سے جدعون اور اُن کے ساتھیوں نے اِن مِدیانی بادشاہوں کو پکڑ لیا اور جنگ جیت گئے۔ جدعون کی طرح بزرگ بھی یہوواہ پر بھروسا رکھ سکتے ہیں جو کہ کبھی ”تھکتا نہیں اور ماندہ نہیں ہوتا۔“ وہ ضرورت پڑنے پر اُنہیں طاقت اور ہمت دے گا۔—یسعیاہ 40:28-31 کو پڑھیں۔
17 ذرا بھائی میتھیو کی مثال پر غور کریں جو ایک ہسپتال رابطہ کمیٹی کے رُکن ہیں۔ کس چیز نے ثابتقدم رہنے میں اُن کی مدد کی؟ بھائی نے کہا: ”مَیں نے فِلپّیوں 4:13 کو پورا ہوتے دیکھا ہے۔ کبھی کبھار ایسا ہوا کہ مَیں تھک کر چُور ہو گیا۔ ایسے وقت میں مَیں نے یہوواہ سے اِلتجا کی کہ وہ مجھے ہمت دے تاکہ مَیں اپنے بہن بھائیوں کی مدد کر سکوں۔ مَیں نے دیکھا کہ یہوواہ نے اپنی پاک روح کے ذریعے کیسے مجھ میں طاقت بھر دی تاکہ مَیں ثابتقدم رہ سکوں۔“ جدعون کی طرح ہماری کلیسیا کے بزرگ بھی یہوواہ کی بھیڑوں کی دیکھبھال کرنے کے لیے سخت محنت کرتے ہیں حالانکہ اکثر ایسا کرنا آسان نہیں ہوتا۔ بےشک بزرگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ہمیشہ وہ سب کام نہیں کر سکتے جو وہ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ اِس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ اُن کی مدد کی اِلتجاؤں کو سنے گا اور ثابتقدم رہنے کے لیے اُنہیں ہمت اور طاقت دے گا۔—زبور 116:1؛ فل 2:13۔
18. بزرگ کس کس طرح سے جدعون کی مثال پر عمل کر سکتے ہیں؟
18 بزرگ جدعون سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ وہ خاکساری سے کام لیتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں کہ وہ کتنی ذمےداریاں اُٹھائیں گے۔ اور جب کوئی اُن پر تنقید کرتا یا اُن کی تعریف کرتا ہے تو وہ تب بھی خاکساری سے کیسے کام لے سکتے ہیں۔ اُنہیں یہوواہ کے فرمانبردار اور دلیر بننا چاہیے خاص طور پر اِس لیے کیونکہ اِس دُنیا کا خاتمہ نزدیک ہے۔ چاہے اُنہیں کسی بھی طرح کی مشکل کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے، اُنہیں اِس بات کا بھروسا رکھنا چاہیے کہ یہوواہ اُنہیں ہمت اور طاقت دے گا۔ بےشک ہم اِن محنتی چرواہوں کی بہت زیادہ قدر کرتے ہیں اور ویسے ہی اُن کا ’خیرمقدم کرتے ہیں جیسے مالک کے خادموں کا کرنا چاہیے۔‘—فل 2:29۔
گیت نمبر 120: یسوع کی طرح نرممزاج اور خاکسار بنیں
a یہوواہ نے جدعون کو ایک ایسے وقت میں بنیاِسرائیل کی پیشوائی اور حفاظت کرنے کے لیے چُنا جب بنیاِسرائیل ایک بہت مشکل وقت سے گزر رہے تھے۔ جدعون نے تقریباً 40 سال تک بڑی اچھی طرح سے اِس ذمےداری کو نبھایا۔ لیکن اُنہیں کچھ مشکلوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ جب کلیسیا کے بزرگوں کو مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اُنہیں جدعون کی مثال سے کیسے فائدہ ہو سکتا ہے۔
b جو شخص اِس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ کچھ کام کرنا اُس کے بس میں نہیں ہیں، وہ خاکسار ہوتا ہے۔ وہ اپنے بارے میں حد سے زیادہ نہیں سوچتا۔ وہ دوسروں کو عزت دیتا ہے اور اُنہیں خود سے بہتر سمجھتا ہے۔—فل 2:3۔
c ”مینارِنگہبانی،“ جولائی 2019ء میں مضمون ”پابندی کے باوجود یہوواہ کی عبادت کرنا جاری رکھیں“ کے صفحہ نمبر 10-11، پیراگراف نمبر 10-13 کو دیکھیں۔