آپبیتی
مَیں بہرا ہونے کے باوجود گواہی دیتا رہا
مَیں نے 1941ء میں بپتسمہ لیا جب مَیں 12 سال کا تھا۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ مَیں 1946ء سے پہلے بائبل کی تعلیمات کو صحیح طور پر سمجھ نہیں پایا۔ آئیں، مَیں آپ کو بتاتا ہوں کہ اِس کی کیا وجہ تھی۔
میرے والدین 1910ء کے لگ بھگ ملک جارجیا سے کینیڈا آئے اور مغربی کینیڈا کے ایک چھوٹے گاؤں میں رہنے لگے۔ مَیں 1928ء میں پیدا ہوا اور چھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ میرے ابو میری پیدائش سے چھ مہینے پہلے فوت ہو گئے اور جب مَیں ننھا بچہ ہی تھا تو امی بھی فوت ہو گئیں۔ اِس کے تھوڑے ہی عرصے بعد میری سب سے بڑی بہن 17 سال کی عمر میں فوت ہو گئی۔ اِس لیے ہم اپنے ماموں نک کے ساتھ رہنے لگے۔
جب مَیں تقریباً ڈیڑھ سال کا تھا تو ایک دن میرے گھر والوں نے دیکھا کہ مَیں ایک گھوڑے کی دُم کھینچ رہا تھا۔ وہ زور زور سے چیخنے لگے کیونکہ اُن کو ڈر تھا کہ کہیں گھوڑا مجھے لات نہ مار دے۔ لیکن میری پیٹھ اُن کی طرف تھی اور مَیں اُن کی چیخیں نہیں سُن سکتا تھا۔ تب میرے گھر والوں کو پتہ چلا کہ مَیں بہرا ہوں۔ شکر ہے کہ مجھے گھوڑے نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا!
جب مَیں پانچ سال کا تھا تو نک ماموں کے دوست نے اُنہیں مشورہ دیا کہ وہ میرا داخلہ اِشاروں کی زبان والے سکول میں کرا دیں۔ یہ سکول شہر ساسکاٹون میں تھا جو کہ ہمارے گاؤں سے بہت دُور تھا۔ اِتنی چھوٹی عمر میں اپنے گھر والوں سے جُدا ہونے پر مجھے بہت ڈر لگا۔ اب مَیں صرف چھٹیوں میں گھر آ سکتا تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ مَیں نے اِشاروں کی زبان سیکھ لی اور سکول میں میرا دل لگ گیا۔
مَیں نے یہوواہ کے بارے میں سیکھا
سن 1939ء میں میری بڑی بہن میرئین نے بِل ڈینلشوک سے شادی کر لی اور وہ دونوں میرا اور میری بہن فرانسس کا خیال رکھنے لگے۔ ہمارے خاندان میں سب سے پہلے اِن دونوں نے ہی یہوواہ کے گواہوں سے بائبل کورس کرنا شروع کِیا۔ جب مَیں گرمی کی چھٹیوں میں گھر آتا تو وہ مجھے بھی بائبل سے تعلیم دیتے۔ ہمارے لیے ایک دوسرے کی باتیں سمجھنا آسان نہیں تھا کیونکہ اُن کو اِشاروں کی زبان نہیں آتی تھی۔ لیکن اُنہوں نے دیکھا کہ مجھے یہوواہ کے بارے میں سیکھنا بہت اچھا لگتا ہے۔ مَیں سمجھ گیا کہ وہ اِس لیے مُنادی کا کام کرتے ہیں کیونکہ بائبل میں اِس کا حکم دیا گیا ہے۔ اِس لیے مَیں بھی اُن کے ساتھ مُنادی پر جانے لگا۔ اِس کے تھوڑے ہی عرصے بعد میرے دل میں بپتسمہ لینے کی خواہش اُبھری۔ لہٰذا 5 ستمبر 1941ء میں میرے بہنوئی نے مجھے سٹیل کے ایک ٹب میں بپتسمہ دیا جس میں کنوئیں کا پانی بھرا تھا۔ پانی بڑا ہی ٹھنڈا تھا!
سن 1946ء میں جب مَیں گرمی کی چھٹیوں میں گھر آیا تو ہم سب ایک بڑے اِجتماع پر گئے جو ریاستہائے متحدہ کے شہر کلیولینڈ میں منعقد کِیا جا رہا تھا۔ اِجتماع کے پہلے دن میری بہنیں تقریروں کے اہم نکتے لکھ لکھ کر مجھے دِکھاتی رہیں تاکہ مجھے بھی پروگرام سے فائدہ ہو۔ لیکن اگلے دن مجھے پتہ چلا کہ اِجتماع پر تقریروں کا ترجمہ اِشاروں کی زبان میں کِیا جا رہا ہے۔ مَیں بہت خوش تھا۔ آخرکار مَیں بائبل کی تعلیمات کو صحیح طور پر سمجھ سکا!
گواہی دینے کا شوق
اُس وقت دوسری عالمی جنگ کو ختم ہوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی اور وطنپرستی کا جذبہ زوروں پر تھا۔ لیکن اُس اِجتماع کے بعد مَیں نے ٹھان لیا کہ مَیں یہوواہ کا وفادار رہوں گا۔ اِس لیے جب مَیں چھٹیوں کے بعد سکول گیا تو مَیں نے قومی پرچم کو سلامی دینا، قومی ترانہ پڑھنا اور تہوار منانا چھوڑ دیا۔ اِس کے علاوہ مَیں نے سکول کے باقی بچوں کے ساتھ چرچ کی عبادتوں پر جانے سے بھی اِنکار کِیا۔ ٹیچر یہ سب کچھ دیکھ کر خوش نہیں تھے اِس لیے اُنہوں نے مجھے دھمکیاں دیں اور جھوٹی باتیں بتا کر مجھے یہوواہ سے دُور کرنے کی کوشش کی۔ یہ بات سکول میں پڑھنے والے بچوں سے چھپی نہیں رہی اِس لیے مجھے اُنہیں گواہی دینے کے بہت سے موقعے ملے۔ خوشی کی بات ہے کہ اِن میں سے کچھ بعد میں یہوواہ کے گواہ بن گئے اور آج تک یہوواہ کی عبادت کر رہے ہیں۔
جب مَیں دوسرے شہروں میں جاتا تھا تو میری ہمیشہ یہ کوشش ہوتی تھی کہ مَیں وہاں موجود بہرے لوگوں کو گواہی دوں۔ مثال کے طور پر شہر مونٹریال میں مَیں ایک ایسی جگہ گیا جہاں بہرے لوگ جمع ہوتے تھے۔ وہاں میری ملاقات ایڈی ٹاگر سے ہوئی جو ایک گینگ کے رُکن تھے۔ مَیں نے اُن کو گواہی دی اور وہ یہوواہ کے گواہ بن گئے۔ وہ اپنی موت تک شہر لاوال میں اِشاروں کی زبان والی کلیسیا میں خدمت کرتے رہے۔ میری ملاقات خوان آردانیز سے بھی ہوئی جنہوں نے بیریہ کے لوگوں کی طرح صحیفوں کو کھول کھول کر دیکھا کہ جو باتیں مَیں اُنہیں سکھا رہا تھا، وہ سچ تھیں یا نہیں۔ (اعمال 17:10، 11) وہ بھی یہوواہ کے گواہ بن گئے اور اُنہوں نے اپنی موت تک شہر اوٹاوا کی ایک کلیسیا میں بزرگ کے طور پر خدمت کی۔
سن 1950ء میں مَیں شہر وینکوور منتقل ہو گیا۔ مجھے بہرے لوگوں کو گواہی دینا بہت اچھا لگتا ہے لیکن مَیں اُس واقعے کو کبھی نہیں بھولوں گا جب مَیں نے سڑک پر ایک عورت کو گواہی دی جو بہری نہیں تھی۔ اِس عورت کا نام کرِس سپائسر تھا۔ اُنہوں نے ہمارے رسالے لگوانے کی پیشکش قبول کر لی اور مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت دی تاکہ مَیں اُن کے شوہر گیری سے مل سکوں۔ جب مَیں اُن کے گھر گیا تو ہم نے لکھ لکھ کر ایک دوسرے سے بات کی۔ اِس ملاقات کے بعد مَیں اِن دونوں سے دوبارہ نہیں ملا۔ پھر ایک دن شہر ٹورانٹو میں ایک اِجتماع کے موقعے پر اُنہوں نے مجھے دیکھ لیا اور مجھ سے ملنے کے لیے آئے۔ مَیں یہ جان کر بہت خوش ہوا کہ گیری اُسی دن بپتسمہ لے رہے تھے۔ اِس واقعے سے مجھے احساس ہوا کہ ہمیں گواہی دینے کے کسی بھی موقعے کو ہاتھ سے نکلنے نہیں دینا چاہیے کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ ہمارا پیغام کس کے دل میں سما جائے گا اور پھل لائے گا۔
اِس کے کچھ عرصے بعد مَیں دوبارہ ساسکاٹون منتقل ہو گیا۔ وہاں میری ملاقات ایک عورت سے ہوئی جس کی دو جُڑواں بیٹیاں تھیں جو بہری تھیں۔ وہ عورت چاہتی تھی کہ مَیں اُس کی بیٹیوں کو بائبل کورس کراؤں۔ یہ لڑکیاں اُسی سکول میں پڑھتی تھیں جہاں مَیں نے تعلیم حاصل کی تھی۔ اُنہوں نے اپنے ہمجماعتوں کو وہ باتیں بتائیں جو وہ مجھ سیکھ رہی تھیں۔ اِس کے نتیجے میں اُن کی جماعت میں سے پانچ بچے بعد میں یہوواہ کے گواہ بن گئے۔ اِن میں سے ایک لڑکی کا نام یونیس کالن تھا۔ یونیس سے میری پہلی ملاقات اُس وقت ہوئی جب میری پڑھائی کا آخری سال چل رہا تھا۔ تب اُس نے مجھے ایک ٹافی دی اور ہم دونوں دوست بن گئے۔ اُس وقت مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ لڑکی ایک دن میری بیوی بن جائے گی۔
جب یونیس کی امی کو پتہ چلا کہ وہ بائبل کورس کر رہی ہے تو اُنہوں نے سکول کے پرنسپل سے کہا کہ وہ یونیس کو یہ کورس جاری رکھنے سے منع کرے۔ پرنسپل نے بڑی کوشش کی کہ یونیس بائبل کورس کرنا چھوڑ دے، یہاں تک کہ اُس نے یونیس کی کتابیں بھی لے لیں۔ لیکن یونیس ٹس سے مس نہ ہوئی اور یہوواہ کی وفادار رہی۔ جب اُس نے بپتسمہ لینے کا اِرادہ کِیا تو اُس کے والدین نے اُس سے کہا: ”اگر تُم یہوواہ کی گواہ بن جاؤ گی تو ہم تمہیں گھر سے نکال دیں گے۔“ لہٰذا جب یونیس 17 سال کی ہوئی تو اُس نے اپنا گھر چھوڑ دیا اور کچھ یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ رہنے لگی۔ اُس نے بائبل کورس کرنا جاری رکھا اور کچھ عرصے بعد بپتسمہ لے لیا۔ جب 1960ء میں ہماری شادی ہوئی تو یونیس کے والدین اِس میں شریک نہیں ہوئے۔ لیکن جب اُنہوں نے دیکھا کہ ہمارا ایمان ہماری زندگی پر کتنا اچھا اثر ڈال رہا ہے اور ہم اپنے بچوں کی کتنی اچھی تربیت کر رہے ہیں تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ہمارا احترام کرنے لگے۔
یہوواہ میرا مددگار ثابت ہوا
یونیس اور مَیں تو بہرے تھے لیکن ہمارے ساتوں بیٹے بہرے نہیں تھے۔ اِس وجہ سے ہمارے لیے اُن کی تربیت کرنا آسان نہیں تھا۔ مگر ہم نے اُن کو اِشاروں کی زبان سکھائی تاکہ ہم اُن کے ساتھ باتچیت کر سکیں اور اُنہیں بائبل کی تعلیم دے سکیں۔ اِس سلسلے میں کلیسیا کے بہن بھائیوں نے بھی ہماری مدد کی۔ مثال کے طور پر ایک دن ایک بھائی نے اِجلاس کے بعد ایک کاغذ پر لکھ کر ہمیں اِس بات سے آگاہ کِیا کہ ہمارا ایک بیٹا کنگڈم ہال میں بدزبانی کر رہا ہے۔ یوں ہم فوراً ہی اپنے بیٹے کی اِصلاح کر سکے۔ ہمارے سات بیٹوں میں سے چار اپنے بیوی بچوں کے ساتھ یہوواہ خدا کی عبادت کر رہے ہیں اور اپنی اپنی کلیسیاؤں میں بزرگ کے طور پر خدمت بھی کر رہے ہیں۔ اُن کے نام جیمز، جیری، نکولس اور سٹیون ہیں۔ میرا بیٹا نکولس اور اُس کی بیوی ڈیبرا برطانیہ بیتایل میں اِشاروں کی زبان میں ترجمہ کرنے والی ٹیم کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور میرا دوسرا بیٹا سٹیون اپنی بیوی شینن کے ساتھ امریکہ میں یہی کام کر رہا ہے۔
میرے بیٹے جیمز، جیری اور سٹیون، اپنی اپنی بیویوں کے ساتھ اِشاروں کی زبان میں مُنادی کے کام کو فروغ دے رہے ہیں۔
افسوس کی بات ہے کہ ہماری شادی کی 40ویں سالگرہ سے ایک مہینہ پہلے یونیس فوت ہو گئی۔ وہ کینسر کی مریضہ تھی۔ اُس نے اِس جانلیوا بیماری کے دوران بڑی ہمت سے کام لیا کیونکہ اُسے پکا یقین تھا کہ یہوواہ اُسے نئی دُنیا میں زندہ کرے گا۔ مَیں بےتابی سے اُس دن کا اِنتظار کر رہا ہوں جب مَیں اُسے پھر سے دیکھوں گا۔
فروری 2012ء میں مَیں گِر گیا اور میرے کولھے کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ مجھے احساس ہوا کہ اب سے مجھے مدد کی ضرورت ہوگی اِس لیے مَیں اپنے ایک بیٹے اور اُس کی بیوی کے ساتھ رہنے لگا۔ مَیں اُن کے ساتھ اِشاروں کی زبان والی کلیسیا میں جاتا ہوں اور یہاں بھی بزرگ کے طور پر خدمت کر رہا ہوں۔ یہ زندگی میں پہلی بار ہے کہ مَیں اِشاروں کی زبان والی کلیسیا کا رُکن ہوں۔ مَیں 66 سال تک انگریزی زبان والی کلیسیاؤں کا رُکن رہا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اِن سالوں میں مَیں یہوواہ پر اپنا ایمان کیسے مضبوط رکھ سکا جبکہ مَیں بہن بھائیوں کی باتیں سُن نہیں سکتا تھا؟ یہوواہ نے میری بڑی مدد کی۔ وہ اپنے وعدے کے مطابق واقعی مجھ ”یتیم کا مددگار“ ثابت ہوا۔ (زبور 10:14) مَیں اُن تمام بہن بھائیوں کا بھی شکرگزار ہوں جنہوں نے لکھ کر مجھ سے باتچیت کی، جنہوں نے اِشاروں کی زبان سیکھی اور جنہوں نے میرے لیے اِشاروں کی زبان میں اِجلاس کے پروگرام کا ترجمہ کرنے کی کوشش کی۔
سچ کہوں تو مَیں کبھی کبھار اُکتا جاتا تھا کیونکہ مَیں دوسروں کی بات سمجھ نہیں سکتا تھا یا مجھے لگتا تھا کہ کوئی بہروں کی ضروریات کو نہیں سمجھتا۔ لیکن پھر مجھے وہ بات یاد آتی تھی جو پطرس نے یسوع مسیح سے کہی تھی: ”مالک، ہم کس کے پاس جائیں؟ ہمیشہ کی زندگی کی باتیں تو آپ ہی کرتے ہیں۔“ (یوحنا 6:66-68) بہت سے دوسرے بہرے بہن بھائیوں کی طرح جو بڑے عرصے سے یہوواہ کی خدمت کر رہے ہیں، مَیں نے بھی صبر سے کام لینا سیکھ لیا۔ مَیں نے یہوواہ اور اُس کی تنظیم پر بھروسا کرنا بھی سیکھا جس کے لیے مجھے بڑی برکتیں ملیں۔ حال ہی میں ہماری تنظیم نے امریکی اِشاروں کی زبان میں بہت سی مطبوعات دستیاب کی ہیں۔ مجھے اِس بات کی بھی خوشی ہے کہ مَیں اِشاروں کی زبان والے اِجلاسوں اور اِجتماعوں پر پروگرام کا پورا لطف اُٹھا سکتا ہوں۔ مَیں نے زندگی بھر اپنے عظیم خدا کی خدمت کرنے سے واقعی بہت سی خوشیاں دیکھی ہیں۔