محبت کیساتھ باہم ملکر رہنا
پیارےدادااوردادیجان،
کیا آپ خیریت سے ہیں؟ ایسے لگ رہا ہے کہ مجھے زکام ہو رہا ہے۔
گزشتہ روز میرے ساتھ کھیلنے کیلئے شکریہ۔ آپ مجھے عوامی پارک اور سوئمنگ پول پر لیکر گئے۔ مَیں نے اس سے بہت زیادہ لطف اُٹھایا۔
اگلے سال ۱۱ فروری کو ہمارا سکول کانسرٹ ہے۔ اگر آپ دوبارہ آ سکتے ہیں تو براہِمہربانی ضرور تشریف لائیں۔
دادی اور دادا جان جب آپ آتے ہیں تو ہم بہت خوش ہوتے ہیں۔
براہِمہربانی اپنا خیال رکھیں اور ہمیشہ تندرست رہیں۔ جلد ہی موسمِسرما شروع ہو نے والا ہے، اسلئے خیال رکھیں کہ کہیں زکام وغیرہ نہ ہو جائے۔
مجھے اس وقت کا انتظار رہے گا جب آپ دوبارہ آئینگے اور میرے ساتھ کھیلیں گے۔ براہِمہربانی میری طرف سے یوؔمی اور ماؔساکی کو سلام کہیں۔
(جاپانی) مؔیکا
کیا آپ کے پوتے پوتی یا نواسے نواسی نے کبھی آپ کو اس طرح کا خط لکھا ہے؟ اگر ایسا ہے تو جب یہ آپ کو موصول ہوا تو بِلاشُبہ اس نے آپکو بہت زیادہ خوشی بخشی ہوگی۔ ایسے خطوط بڑےبوڑھوں اور اسباط کے درمیان خوبصورت اور پُرمحبت رشتے کا ثبوت ہیں۔ لیکن اس قسم کے رشتے کو اُستوار کرنے، قائم رکھنے اور مضبوط کرنے کیلئے کس چیز کی ضرورت ہے؟ اور یہ تینوں نسلوں کیلئے کیسے فائدہمند ثابت ہو سکتا ہے؟
محبت—”اتحاد کا کامل پٹکا“
راؔئے اور جینؔ، دو برطانوی دادا دادی کہتے ہیں: ”ہم محسوس کرتے ہیں کہ بنیادی اصول، سرداری کو تسلیم کرنا اور ایک دوسرے کیساتھ محبت سے پیش آنا ہے۔“ یہوؔواہ کے ان دونوں گواہوں نے خاص طور پر کلسیوں ۳:۱۴، کے صحیفے کا حوالہ دیا جو مسیحی محبت کو ”اتحاد کے کامل پٹکے“ کے طور پر بیان کرتا ہے۔ محبت احترام، بامروّت توجہ، اُلفت اور خاندانی اتحاد کو فروغ دیتی ہے۔ جب ابو کام سے گھر واپس لوٹتے ہیں تو سارا خاندان اُنہیں ملنے اور اُنہیں پُرتپاک خوشآمدید کہنے کیلئے دوڑتا ہے۔ اگر خاندان کے اندر محبت موجود ہے تو اُس وقت بھی یہی کچھ واقع ہوتا ہے جب دادا دادی یا نانا نانی گھر پہنچتے ہیں۔ ”دادا اور دادی جان آ گئے!“ ایک پُرجوش بچہ خوشی سے چلاتا ہے۔ اُس شام پورا خاندان کھانے کیلئے بیٹھتا ہے، اور دادا جان، مقامی دستور کے مطابق، میز پر اُن کیلئے مخصوص ٹیبل ہیڈ کی جگہ بیٹھ جاتے ہیں۔ کیا آپ خود کو اور اپنے خاندان کو اس پُرمحبت منظر میں تصور کر سکتے ہیں؟ کیا آپ اس برکت سے لطفاندوز ہوتے ہیں؟
”سفید سر شوکت کا تاج ہے“
ظاہری بات ہے کہ بڑےبوڑھوں کیلئے محبت اور احترام صرف خاص مواقع پر ہی نہیں بلکہ ہمیشہ دکھایا جانا چاہئے۔ اس وجہ سے بچوں کو متواتر تعلیم دینا ضروری ہے۔ اپنے والدین کے قائمکردہ نمونے کی پیروی کرتے ہوئے، بچے خاندان کے اندر ہی رشتےداروں اور دوسروں سے محبت کرنا سیکھتے ہیں۔ اُنکا نمونہ بنیادی چیز ہے، جیسےکہ اُن بہتیرے لوگوں نے نشاندہی کی جنکا اس موضوع پر انٹرویو کِیا گیا تھا۔ نائجیرؔیا کے شہر بیناؔئن سے ایک والد مکاؔئی بیان کرتا: ”میرا خیال ہے کہ اپنے ساس سُسر کا احترام کرنے کے میرے نمونے نے میرے بچوں کی بھی فروتن اور احترام کرنے والے بننے میں مدد کی ہے۔ مَیں اپنے ساس سُسر کو ”امی اور ابو“ کہہ کر مخاطب کرتا ہوں۔ میرے بچے سنتے اور دیکھتے ہیں کہ مَیں بذاتِخود اُن کی اپنے والدین کی طرح عزت کرتا ہوں۔“
اگر اسباط اپنے بڑےبوڑھوں کا احترام کرنے میں قاصر رہتے ہیں تو وہ پریشان ہو سکتے ہیں، بنیادی طور پر اس ناکامی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس حقیقت کے پیشِنظر کہ والدین اُنکی اصلاح نہیں کرتے۔ رؔوم، اٹلیؔ، سے ایک نانا ڈؔامیٹریو بیان کرتا ہے: ”مَیں اُس محبت کو محسوس کر سکتا ہوں جو ہماری بیٹی اور داماد ہمارے لئے رکھتے ہیں اس طریقے سے جس سے وہ ہمارے نواسے نواسیوں کو ہماری عزت اور احترام کرنے کیلئے تعلیم دیتے ہیں۔“ کبھیکبھار شاید اسباط بڑےبوڑھوں کیساتھ برتاؤ میں حد سے زیادہ بےتکلف ہو جائیں، گویا کہ وہ اُنکے ہمعمر ساتھی ہیں، یا پھر احساسِبرتری پیدا کر لیتے ہیں۔ اس طرح کے کسی بھی میلان کی اصلاح کرنا والدین کی ذمہداری ہے۔ نائجیرؔیا کا ایک گواہ، پالؔ بیان کرتا ہے: ”کوئی ایک سال پہلے، بچوں نے میری ماں کو حقیر سمجھنا شروع کر دیا۔ جب مَیں نے یہ محسوس کِیا تو مَیں نے اُنکے ساتھ امثال ۱۶:۳۱ کو پڑھا: ’سفید سر شوکت کا تاج ہے،‘ اور مَیں نے اُنہیں یہ بھی یاد دِلایا کہ اُنکی دادی میری ماں ہے۔ جیسے وہ مجھے عزت دیتے ہیں، اُنہیں اُسے بھی عزت دینی چاہئے۔ مَیں نے اُنکے ساتھ کتاب یوئر یوتھ—گیٹنگ دی بیسٹ آؤٹ آف اِٹ،a میں سے باب ۱۰، بعنوان ’آپ اپنے والدین کو کیسا خیال کرتے ہیں؟‘ کو بھی پڑھا۔ اب اُنہیں اپنی دادی جان کی عزت کرنے میں کوئی مشکلات نہیں ہیں۔“
خاندانی تعلقات پیدا کرنے کے فوائد
باہمی پیارومحبت اُس وقت بھی پیدا کِیا جا سکتا ہے جب خاندانی افراد ایک دوسرے سے کوسوں دُور رہتے ہیں۔ نائجیرؔیا سے ایک دادا سٹیفنؔ کہتا ہے: ”ہم اپنے تمام اسباط کو فرداً فرداً لکھتے ہیں۔ یہ کام مبارزتطلب ہے مگر اسباط کیساتھ قریبی رشتہ پیدا کرنا اور اُسے قائم رکھنا بہت بااجر رہا ہے۔“ اس سلسلے میں والدین کی کوششیں انتہائی ضروری ہیں۔ دیگر، اپنے حالات کے مطابق، ٹیلیفون کے ذریعے رابطہ رکھتے ہیں۔
باؔری، اٹلیؔ سے، ایک دادا جوؔزیپا جسکے ۱۱ پوتے پوتیاں ہیں، وضاحت کرتا ہے کہ کیسے وہ اپنے خاندان کے قریبی افراد کیساتھ پُرتپاک دوستی پیدا کرتا ہے: ”اس وقت اُن چھ خاندانوں میں سے جو میرے ’قبیلے‘ کو تشکیل دیتے ہیں تین بہت دُور رہتے ہیں۔ لیکن یہ ہمارے درمیان خوشگوار تعلقات اور باہم جمع ہونے میں کوئی رُکاوٹ نہیں ہے۔ ہمارا یعنی ہم سب ۲۴ کا، سال میں کمازکم ایک مرتبہ اکٹھے جمع ہونے کا دستور ہے۔“
جب بڑےبوڑھے تنہا رہتے ہیں تو اگر ملاقاتوں، ٹیلیفون پر باتچیت یا خاندانی افراد کیساتھ خطوط کا تبادلہ باقاعدہ نہیں تو تعلقات بےلاگ بن سکتے ہیں۔ محبت کا اظہار متواتر کِیا جانا چاہئے۔ بعض بڑےبوڑھے جو ادھیڑ عمر ہیں یا اچھی صحت رکھتے ہیں وہ اُس وقت تک الگ رہنا چاہتے ہیں جبتک وہ طاقتور اور خودکفیل ہیں۔ تاہم، اگر وہ مکمل طور پر خود کو خاندانی افراد سے الگ کر لیتے ہیں تو شاید وہ بھی محسوس کریں کہ جب اُنہیں محبت کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے تو اسے حاصل ہونے میں وقت لگ سکتا ہے۔
ایک اَور کارآمد مشورہ ایک نائجیرین دادا، مائیکلؔ کی طرف سے ہے: ”مَیں یسوؔع کے سنہری اُصول کا اطلاق کرتا ہوں—دوسروں کیساتھ ویسا ہی کریں جیساکہ آپ چاہینگے کہ وہ آپ کیساتھ کریں۔ اس وجہ سے میرے بچے مجھے بہت زیادہ پیار کرتے ہیں۔ ہم اچھے رابطے سے لطفاندوز ہوتے ہیں۔“ وہ مزید کہتا ہے: ”اگر میرے اسباط میں سے کوئی ایسی بات کرتا ہے جو مجھے پریشان کرتی تو مَیں حسبِضرورت اُن کیساتھ باتچیت کر لیتا ہوں۔ لیکن اگر یہ کوئی ایسی بات ہے جسے مَیں نظرانداز کر سکتا ہوں تو مَیں عموماً اسے یکسر بھلا دیتا ہوں۔“
بڑےبوڑھوں کی طرف سے چھوٹےموٹے تحائف اور چھوٹیموٹی عنایتیں مثبت ردِعمل کا باعث بنتی ہیں۔ ہمیشہ شکایات کرنے کی بجائے، مشفقانہ، حوصلہافزا الفاظ، خاندانی زندگی کو خوشگوار بناتے ہیں۔ اسباط کیلئے وقت مختص کرنا، اُنہیں دلچسپ کھیل اور چھوٹےموٹے کارآمد کام سکھانا، اُنہیں بائبل کہانیاں یا خاندانی قصے سنانا، پُرتپاک اور دائمی یادیں مرتب کرتا ہے۔ ایسی معمولی مگر اہم چیزیں زندگی کو زیادہ پُرلطف بنا دیتی ہیں۔
باہمی احترام کے فوائد
”بڑےبوڑھوں سے،“ ڈاکٹر گیسؔپرا وِیلا بیان کرتا ہے، ”والدین کے بچوں کی تربیت کرنے کے اختیار کی مخالفت یا مقابلہ نہ کرنے کے سلسلے میں احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔“ ”ورنہ،“ وہ مزید کہتا ہے، ”وہ بڑےبوڑھوں کے طور پر اپنے دائرہِاختیار سے تجاوز کر جاتے ہیں اور بڑےبوڑھوں کے طور پر والدین کی جگہ لے لیتے ہیں۔“ جوکچھ صحائف کہتے ہیں، یہ مشورہ اُس کی عین مطابقت میں ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت کرنے کی ذمہداری بنیادی طور پر والدین کی ہے۔—امثال ۶:۲۰؛ کلسیوں ۳:۲۰۔
زندگی میں اپنے تجربے کی بنا پر، بڑےبوڑھوں کیلئے صلاحمشورہ دینا بہت آسان ہے۔ تاہم، اُنہیں غیرضروری اور بعضاوقات ناپسندیدہ مشورت دینے میں احتیاط برتنی چاہئے۔ راؔئے اور جینؔ کہتے ہیں: ”اس بات کو سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ اپنے بچوں کی پرورش کرنے اور تربیت دینے کی بنیادی ذمہداری والدین کی ہے۔ بعضاوقات شاید کوئی یہ محسوس کرے کہ وہ ضرورت سے کچھ زیادہ ہی سخت اور دوسری طرف بعض حالتوں میں کافی سخت نہیں ہیں۔ پس واقعی مداخلت کرنے کی آزمائش کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔“ دو برطانوی بڑےبوڑھے، مائیکلؔ اور شیناؔ اسی بات کی تصدیق کرتے ہیں: ”اگر بچے ہماری رائے پوچھتے ہیں تو ہم دینگے، لیکن ہم ضروری طور پر اس بات کی توقع نہیں کرتے کہ وہ اُسے قبول کریں، نہ ہی ہم پریشان ہوتے ہیں جب وہ ایسا نہیں کرتے۔“ عمررسیدہ والدین کیلئے یہ اچھا ہے کہ اپنے شادیشُدہ بیٹوں اور بیٹیوں پر اعتماد رکھیں۔ ایسا اعتماد تین نسلوں کے درمیان تعلقات کو بہتر بناتا ہے۔
ویوئینؔ اور جینؔ جو انگلینڈ کے جنوب میں رہتے ہیں، ہمیشہ اُس تربیت پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو اُنکے پوتے پوتیوں کو اُنکے بیٹے اور بہو کی طرف سے ملتی ہے جن کیساتھ وہ رہتے ہیں: ”جہاں ہم شاید مختلف محسوس کرتے ہیں تو ہم اپنے ذاتی نظریات مسلّط کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ ہم اُنکے ماں اور باپ کی حمایت کرتے ہیں، بچے کبھی ’ہمیں ایک دوسرے کے خلاف استعمال‘ کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔“ جب والدین موجود نہیں بھی ہوتے، بڑےبوڑھوں کو اسباط کو تربیت دینے کے سلسلے میں محتاط ہونا چاہئے۔ برطانیہ سے ہیرلڈؔ کہتا ہے: ”والدین کی عدمموجودگی میں اگر بڑےبوڑھے کسی طرح کی تربیت کی ضرورت محسوس کرتے ہیں تو اسکی بابت پہلے ہی والدین سے گفتگو کر لینی چاہئے۔“ ہیرلڈؔ مزید کہتا ہے کہ اکثر ایک مشفقانہ، مگر مستحکم بات یا محض یہ یاددہانی کہ ”ماں یا باپ کیا تقاضا کرینگے“ کافی ہوتی ہے۔
جب ایک نائجیرین دادا کرؔسٹوفر اپنے بچوں کی طرف سے کسی کوتاہی کو بھانپ لیتا ہے تو وہ اسکی بابت اپنے اسباط کی موجودگی میں باتچیت کرنے سے گریز کرتا ہے: ”جب صرف والدین ہی موجود ہوتے ہیں تو مَیں ضروری مشورت دیتا ہوں۔“ اس کے بعد، اس بات کو یقینی بنانے کیلئے والدین کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے کہ بڑےبوڑھوں کا احترام کِیا جائے۔ ”یہ بنیادی بات ہے،“ رؔوم، اٹلیؔ میں رہنے والا ایک والد کاؔرلو کہتا ہے، ”کہ بڑےبوڑھوں یا خاندان کے دیگر افراد کی خامیوں کی بابت کبھی بچوں کے سامنے شکایت نہ کی جائے۔“ ایک جاپانی ماں، ہیرؔو کو کہتی ہے: ”جب میرے ساس سُسر کو کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو مَیں سب سے پہلے اپنے شوہر کیساتھ باتچیت کرتی ہوں۔“
بڑےبوڑھوں کا تعلیمی کردار
ہر خاندان کی اپنی تاریخ، رسمورواج اور تجربات ہوتے ہیں جو اسے دیگر تمام لوگوں سے فرق کرتے ہیں۔ عام طور پر، بڑےبوڑھے خاندان کی تاریخی یادوں کی کڑی ہوتے ہیں۔ ایک افریقی مقولے کے مطابق، ”ہر بوڑھا شخص جو مرتا ہے وہ ایک کتبخانہ ہوتا ہے جوکہ جل جاتا ہے۔“ بڑےبوڑھے رشتےداروں اور اہم خاندانی واقعات کی یادوں، اور اسکے ساتھ ساتھ خاندانی اقدار کو منتقل کرتے ہیں جوکہ اکثر خاندان کی جڑوں کو مضبوط رکھتے ہیں۔ اُس اخلاقی راہنمائی کو اہم خیال نہ کرتے ہوئے جو بائبل دیتی ہے، ایک ماہر نے کہا کہ اگر ”نوجوان لوگوں کی کوئی تاریخی یادیں نہ ہوں تو وہ اُس تجربے کی بنیاد کے بغیر جو اُن سے پہلے تھی، اقدار کے بغیر، بےیقینی اور غیرمحفوظ حالت میں نشوونما پاتے ہیں۔“—گاؔٹانو بارلیٹا، نونی نپوٹا (بڑےبوڑھے اور اسباط)۔
اسباط اُس وقت کی کہانی سننا پسند کرتے ہیں جب اُنکے ماں اور باپ اور دیگر رشتہدار چھوٹے تھے۔ تصویری البم دیکھنا بہت معلوماتی اور تفریحبخش ہو سکتا ہے۔ جب بڑےبوڑھے ماضی کے واقعات کی کہانی سناتے ہیں جیسےکہ تصاویر میں بیان کِیا گیا ہے تو کسقدر محبت اور تپاک وجود میں آ سکتے ہیں۔
رِؔج اور موؔلی، دو برطانوی بڑےبوڑھے جو یہوؔواہ کے گواہ ہیں، بیان کرتے ہیں: ”ماں اور باپ کیساتھ اُن کے قریبی رشتے میں دخلاندازی کئے بغیر، ہمیں اپنے اسباط کیساتھ رہنے کے قابل ہونے اور اُن کیساتھ مل کر کام کرنے، اُن کے بہت سے سوالات کے جواب دینے، اُن کیساتھ ملکر کھیلنے، ملکر پڑھنے، اُنہیں لکھنا سکھاتے ہوئے، اُنہیں پڑھتے دیکھ کر، اُن کے سکول کی کارگزاریوں کو دلچسپی کیساتھ سننے سے خوشی حاصل ہوئی ہے۔“
ایک بڑی غلطی جو بہتیرے بڑےبوڑھے اور والدین کرتے ہیں وہ بچوں اور اسباط کی صرف جسمانی صحت کی بابت فکرمند ہونا ہے۔ متذکرہبالا رِؔج اور موؔلی بیان کرتے ہیں: ”عظیمترین ورثہ جو ہم اپنے بچوں اور اسباط کو دے سکتے ہیں وہ اُنہیں خدا کے کلام کے صحیح علم کی مطابقت میں پرورش پاتے دیکھنا ہے۔“—استثنا ۴:۹؛ ۳۲:۷؛ زبور ۴۸؛۱۳؛ ۷۸؛۳، ۴، ۶۔
الہٰی تعلیم کی مطابقت میں عمل کرنا
خدا کا کلام، مُقدس بائبل، لوگوں پر ”اثرانداز“ ہوتا ہے۔ اس میں خودغرضی اور تکبّر جیسی منقسم کرنے والی خصوصیات کو قابو میں رکھنے یا اُنہیں ترک کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ (عبرانیوں ۴:۱۲) اسلئے، وہ جو اسکی تعلیمات کو عمل میں لاتے ہیں، خاندان کے اندر امن اور اتحاد سے لطفاندوز ہوتے ہیں۔ بیشمار صحائف میں سے ایک جو تین نسلوں کے درمیان موجود کسی بھی خلا کو ختم کرنے میں مدد دیتا ہے وہ فلپیوں ۲:۲-۴ ہے، جو ’ہر ایک کو اپنے ہی احوال پر نہیں بلکہ دوسروں کے احوال پر نظر رکھتے ہوئے‘ سب کو محبت اور فروتنی ظاہر کرنے، اتحاد قائم رکھنے کی حوصلہافزائی دیتا ہے۔
الہٰی تعلیم کی مطابقت میں کام کرنے سے، والدین اور بچے دونوں یکساں طور پر اس نصیحت کو بڑی سنجیدگی کیساتھ لیتے ہیں کہ ”ماں باپ اور بڑےبوڑھوں کا“ مادی، جذباتی اور روحانی طور پر، ”حق ادا کرنا سیکھیں۔“ (۱-تیمتھیس ۵:۴) یہوؔواہ کے خوشگوار خوف کیساتھ، اُس کے ان الفاظ کو یاد رکھتے ہوئے: ”جنکے سر کے بال سفید ہیں تُو اُنکے سامنے اُٹھ کھڑے ہونا اور بڑےبوڑھے کا ادب کرنا اور اپنے خدا سے ڈرنا“، وہ بڑےبوڑھوں کیلئے گہرا احترام ظاہر کرتے ہیں۔ (احبار ۱۹:۳۲) اپنی اولاد کی فلاح کیلئے کام کرنے سے بڑےبوڑھے نیکی کا اظہار کرتے ہیں: ”نیک آدمی اپنے پوتوں کیلئے میراث چھوڑتا ہے۔“—امثال ۱۳:۲۲۔
بڑےبوڑھے، والدین اور اسباط، خواہ وہ اکٹھے رہتے ہیں یا نہیں، محبت اور احترام پر مبنی پُرمحبت رشتوں سے باہمی فائدہ حاصل کر سکتے ہیں، جیسےکہ امثال ۱۷:۶ کہتی ہے: ”بیٹوں کے بیٹے بوڑھوں کیلئے تاج ہیں، اور بیٹوں کے فخر کا باعث اُنکے باپدادا ہیں۔“
[فٹنوٹ]
a واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک، انکارپوریٹڈ کی شائعکردہ۔
[تصویر]
خاندان کا پھر سے اکٹھے ہو جانا خاندانی اتحاد میں معاونت کر سکتا ہے
[تصویر]
جب آپ اپنے بڑےبوڑھوں کو خط لکھتے ہیں تو وہ حوصلہافزائی پاتے ہیں
[تصویر]
اپنے اسباط کیساتھ خاندانی البم کی ورقگردانی کرنا ایک خوشگوار تجربہ ہو سکتا ہے