چند مسائل کونسے ہیں؟
دادا دادی یا نانا نانی، والدین اور اسباط—تین نسلیں جو صرف چند عشروں سے، تاہم، ذہنی طور پر اکثر ایک وسیع خلا کے باعث الگ الگ ہیں۔
بہتیرے بڑےبوڑھے دوسری عالمی جنگ میں سے، اس کے تمام تباہکُن نتائج سمیت دہشتناک تجربے سے گزرے ہیں۔ ’۶۰ کے عشرے‘ کے احتجاجات اور تیزتر معاشی ترقی میں اُن کے بچے غالباً چھوٹے تھے۔ آجکل اُن کے اسباط اقدار سے عاری دُنیا میں رہتے ہیں۔ آجکل عوام کے تقلیدی کرداروں میں تیزی سے آنے والی تبدیلی کے ساتھ، ایک نسل کے لئے اگلی نسل کو اپنے ذاتی تجربے سے واقف کرانا آسان نہیں ہے۔ کسی چیز کی کمی ہے، ایسی چیز جو مختلف نسلوں کے لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور احترام کرنے کی اُکساہٹ دے۔ لیکن وہ کیا ہو سکتی ہے؟
اکثر، نیکنیت بڑےبوڑھے اس بات کی شکایت کرتے ہوئے اپنے شادیشُدہ بچوں کے خاندانی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں کہ والدین [اُن کے بچے] اسباط کے ساتھ یا تو بہت زیادہ سخت یا پھر بہت زیادہ لاپروا ہیں۔ اس کے برعکس، ایک ہسپانوی مثل بیان کرتی ہے: ”بڑےبوڑھوں کی طرف سے اسباط کو سزا کا کوئی فائدہ نہیں“—چونکہ بڑےبوڑھے بہت ہی مہربان ہونے کا میلان رکھتے ہیں۔ شاید وہ اسلئے مداخلت کرتے ہیں کیونکہ وہ چاہینگے کہ اُن کے بچے بعض مخصوص غلطیاں کرنے سے گریز کریں، جنکا وہ تجربہ کر چکے ہیں، جنکی وہ بخوبی شناخت کرا سکتے ہیں۔ تاہم، ہو سکتا ہے کہ وہ متوازن طور پر اپنے شادیشُدہ بچوں کے ساتھ اپنے بدلتے ہوئے تعلقات کا دوبارہ اندازہ لگانے اور اُنہیں سمجھنے کے قابل نہ ہوں۔ بچے، جنہوں نے شادی کے ذریعے وہ آزادی حاصل کی ہے جس کے وہ بڑی دیر سے آرزومند تھے تو وہ مداخلت برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ اب جبکہ وہ خاندان کی کفالت کے لئے کام کرتے ہیں تو وہ اپنے ذاتی فیصلے کرنے کے اپنے حق پر ڈاکہ ڈالنے کو قبول نہیں کر سکتے۔ اسباط، جوکہ یہ سوچ سکتے ہیں کہ وہ تو پہلے ہی سے واقف ہیں وہ اصولوں اور قواعد سے آزردہ ہوتے ہیں، اور شاید اپنے بڑےبوڑھوں کو بالکل بےخبر خیال کریں۔ یوں لگتا ہے کہ جدید معاشرے میں، بڑےبوڑھے اپنی دلکشی کھو بیٹھے ہیں۔ اُن کے تجربے کو اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔
جب گفتگو بند ہو جاتی ہے
کبھیکبھار باہمی سمجھداری میں کمی کی اونچی دیوار بڑےبوڑھوں کو اپنے بچوں کے ساتھ رہتے ہوئے بھی خاندان کے باقی افراد سے الگ کر دیتی ہے۔ بدقسمتی سے یہ بات اُس وقت بالکل ٹھیک ثابت ہوتی ہے جب بڑھاپا بوجھ بننے لگتا ہے، ایسا وقت جب بڑےبوڑھوں کو محبت کی اَور بھی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ ایک شخص کو تنہا محسوس کرنے کے لئے تنہا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب گفتگو بند ہو جاتی ہے، جب احترام اور محبت کی جگہ احساسِبرتری یا چڑچڑاپن لے لیتا ہے تو نتائج بڑےبوڑھوں کی طرف سے مکمل بیگانگی اور شدید مایوسی ہوتے ہیں۔ یہ اُن کے اندرونی احساسات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ ماہرِتعلیم جاکوؔمو ڈاکوینو لکھتا ہے: ”خاندان میں محبت، جسے حال ہی میں کسی نے پُرانے، متروک نمونے سے تشبِیہ دی تھی، ابھی تک بڑھاپے کے امراض کی بہترین دوا ہے۔ چہرے پر دوسروں کے جذبات کو محسوس کرنے والا اظہار، ایک مشفقانہ مسکراہٹ، کوئی حوصلہافزا بات، یا ایک پیار بھری تھپکی بہت سی ادویات سے زیادہ مفید ثابت ہوتی ہے۔“—لیبرٹا ڈی انوکیری (بڑھاپے کی آزادی)۔
آپکا نمونہ فرق پیدا کر سکتا ہے
تناؤ جو روبہزوال خاندانی تعلقات سے پیدا ہوتا ہے وہ ایک نسل کے دوسری کے خلاف مسلسل شکایات کا باعث بھی بنتا ہے۔ شاید خاندان کا ایک فرد محسوس کرے کہ کوئی دوسرا شخص جوکچھ بھی کرتا ہے وہ غلط ہے۔ لیکن بُرے اثرات کو سب محسوس کرتے ہیں۔ بچے دیکھتے ہیں کہ اُن کے والدین بڑےبوڑھوں کے ساتھ کسطرح کا برتاؤ کرتے ہیں اور یہ بھی کہ اس کے بدلے میں اُن کے بڑےبوڑھے کس طرح کا ردِعمل ظاہر کرتے ہیں۔ اگرچہ عام طور پر ہو سکتا ہے کہ عمررسیدہ خاموشی کے ساتھ سب کچھ برداشت کریں مگر اسباط سنتے، دیکھتے اور یاد رکھتے ہیں۔ یوں مستقبل کے لئے اُن کا اپنا طرزِعمل متاثر ہوتا ہے۔ بالغوں کے طور پر، ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ اُسی طرح کا برتاؤ کریں جیسا اُنہوں نے دادا دادی کے ساتھ کِیا تھا۔ بائبل کے اس اصول سے انکار نہیں کِیا جا سکتا: ”آدمی جوکچھ بوتا ہے وہی کاٹیگا۔“—گلتیوں ۶:۷۔
اگر اسباط والدین کو دادا دادی کے ساتھ حقارتآمیز طریقے سے برتاؤ کرتے—اُن کا مذاق اُڑاتے، گستاخی کے ساتھ اُنہیں خاموش کراتے یا اُن سے ناجائز فائدہ اُٹھاتے دیکھتے ہیں—تو ہو سکتا ہے کہ جب اُن کے والدین بوڑھے ہو جائیں تو وہ بھی اُن کے ساتھ اسی طرح سے پیش آئیں۔ بڑےبوڑھوں کی فریمکردہ تصویر میز پر رکھنا کافی نہیں ہے—اُن کا بطور اشخاص احترام کِیا جانا چاہئے اور اُن سے محبت کی جانی چاہئے۔ وقت آنے پر ایسے ہی برتاؤ کی اسباط سے توقع کی جا سکتی ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ بڑےبوڑھوں کے ساتھ بدسلوکی کا عمل زیادہ سے زیادہ عام ہوتا جا رہا ہے۔ بعض یورپی ممالک میں، بدسلوکی کا شکار عمررسیدہ لوگوں کے لئے ٹیلیفون کے ایسے سلسلے نصب کئے گئے ہیں جو مداخلت کر سکتے ہیں بالکل اُسی طرح کے جو پہلے ہی سے بچوں کے تحفظ کے لئے کام کر رہے ہیں۔
خودغرضی، غرور اور محبت کی کمی جذبات کا پاسولحاظ رکھنے کی کمی کو بڑھاتا اور اس میں مزید بگاڑ پیدا کرتا ہے۔ اس لئے، جو لوگ بڑےبوڑھوں کو ریسٹ ہومز میں رکھ کر اُن سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اُن کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بعض لوگ عمررسیدہ کی نگہداشت کے مسئلے سے خود کو دستبردار کرنے کے لئے، اُنہیں خصوصی سنٹروں میں جوکہ جدیدترین ٹیکنالوجی سے آراستہ ہیں یا ریٹائر لوگوں کے لئے بنائے گئے گھروں کے سپرد کرنے کے لئے، بہت زیادہ پیسہ خرچ کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے، جیسےکہ فلوریڈا یا کیلیفورنیا، یو.ایس.اے. میں ہیں، جہاں بہت سی سُپرمارکیٹیں اور تفریح کے سامان ہیں لیکن اس کے باوجود عزیزوں کی مسکراہٹ اور پیار اور اسباط سے بغلگیری سے محروم ہیں۔ بالخصوص تعطیلات کے اوقات میں، بہتیرے دادی یا دادا کو ”چھوڑنے“ کے لئے کسی جگہ کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ اؔنڈیا میں صورتحال بعضاوقات اس سے بھی زیادہ خراب ہو سکتی ہے جب بعض بڑےبوڑھوں کو خود اپنی دیکھبھال کرنے کے لئے بس تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے۔
طلاق کے باعث خاندانی تعلقات کو مضبوط رکھنے میں مشکلات مزید بڑھتی جاتی ہیں۔ ۴ میں سے صرف ۱ برطانوی خاندان کے دونوں والدین ابھی تک گھرانے کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ عالمی پیمانے پر طلاق میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ریاستہائے متحدہ میں، ہر سال ایک ملین سے زیادہ طلاقیں ہوتی ہیں۔ یوں بڑےبوڑھے غیرمتوقع طور پر خود کو اپنے بچوں کی شادی کے بحران کا اور اس کے نتیجے میں اپنے پوتےپوتیوں کے ساتھ تعلقات میں واقع ہونے والی شدید تبدیلیوں کا سامنا کرتے ہوئے پاتے ہیں۔ سابقہ داماد یا بہو کے ساتھ تعلق رکھنے کی رسوائی اُس وقت مسئلے میں مزید اضافہ کر دیتی ہے جب اس کے ساتھ ”اچانک پوتے یا نواسے حصے میں“ آ جاتے ہیں، جیسے اٹلیؔ کے اخبار کوریری سالیوٹ نے بیان کِیا، گویا ”اُن کے بیٹے یا بیٹی کے نئے شریکِحیات کو گزشتہ شادی سے پیدا ہونے والے بچوں کو پاس رکھنا چاہئے۔“
”ہماری زندگیوں کیلئے ایک اُجالا“
تاہم، ایک شخص کا اپنے بڑےبوڑھوں کے ساتھ پُرمحبت، پُرتپاک محبتآمیز رشتہ، خواہ وہ خاندان کے ساتھ رہ رہے ہیں یا نہیں، سب کے لئے فائدہمند ہے۔ ”اپنے بچوں اور اسباط کیلئے کچھ کرنا،“ فوکوی، جاؔپان، سے ایک دادی ریوکوؔ کہتی ہے، ”ہماری زندگیوں میں اُجالا کرنے کے لئے کافی ہے۔“ کوریری سالیوٹ کی طرف سے شائعکردہ تحقیق کے نتائج کے مطابق، ایک یو.ایس. گروپ کے ماہرین کو یہ کہتے ہوئے بیان کِیا گیا ہے: ”جب بڑےبوڑھوں اور اسباط کو گہرے اور محبتآمیز رشتے سے لطفاندوز ہونے کا موقع نصیب ہو تو اس سے نہ صرف بچے بلکہ پورا خاندان فائدہ اُٹھاتا ہے۔“
توپھر، ذاتی اختلافات، نسلی خلا اور خودغرضی کے پیدائشی رجحانات پر قابو پانے کے لئے کیا کِیا جا سکتا ہے جو خاندانی رشتوں پر اسقدر منفی اثر ڈالتے ہیں؟ اس موضوع پر اگلے مضمون میں باتچیت کی جائیگی۔
[صفحہ 6 پر عبارت]
”بوڑھا ہو نے کی بابت سب سے دہشتناک بات بغور شنوائی نہ ہونا ہے۔“—فرانسیسی ناولنگار، البرؔٹ کیمس