نواں باب
دُنیا پر کون حکومت کریگا؟
۱-۳. بیلشضر بادشاہ کی سلطنت کے پہلے سال میں دانیایل کے خواب اور رویتیں بیان کریں۔
دانیایل کی دلچسپ نبوّت اب ہمیں دوبارہ بابلی بادشاہ بیلشضر کے پہلے سال پر لے آتی ہے۔ دانیایل نے عرصۂدراز سے بابل میں اسیر رہنے کے باوجود یہوواہ کے حضور اپنی راستی میں کبھی لغزش نہیں آنے دی۔ اب وفادار نبی ۷۰ کے دہے میں ہے اور وہ ”اپنے بستر پر خواب میں اپنے سر کے دماغی خیالات کی رویا“ دیکھتا ہے۔ تاہم، وہ ان رویتوں سے بڑا خوفزدہ ہو جاتا ہے!—دانیایل ۷:۱، ۱۵۔
۲ دانیایل بیان کرتا ہے: ”مَیں نے رات کو ایک رویا دیکھی اور کیا دیکھتا ہوں کہ آسمان کی چاروں ہوائیں سمندر پر زور سے چلیں۔ اور سمندر سے چار بڑے حیوان جو ایک دوسرے سے مختلف تھے نکلے۔“ کیا ہی عجیبوغریب حیوان! پہلا پَردار شیرببر ہے اور دوسرا ریچھ کی مانند ہے۔ اِسکے بعد چار پَروں اور چار سروں والا تیندوا نکلتا ہے! غیرمعمولی طور پر طاقتور چوتھے حیوان کے لوہے کے دانت اور دس سینگ ہیں۔ اُسکے دس سینگوں کے درمیان ایک ”چھوٹا سا“ سینگ نکلتا ہے جس کی ”انسان کی سی آنکھیں ہیں اور ایک مُنہ ہے جس سے گھمنڈ کی باتیں نکلتی ہیں۔“—دانیایل ۷:۲-۸۔
۳ اِسکے بعد دانیایل کی رویتیں آسمانی مناظر پیش کرتی ہیں۔ قدیمالایّام بطور منصف آسمانی عدالت میں جلالی تخت پر جلوہافروز ہوتا ہے۔ ’ہزاروں ہزار اُسکی خدمت میں حاضر ہیں اور لاکھوں لاکھ اُسکے حضور کھڑے ہیں۔‘ وہ حیوانوں کی کڑی عدالت کرتے ہوئے اُن سے حکومت چھین لیتا ہے اور چوتھے حیوان کو تباہوبرباد کر دیتا ہے۔ اِسکے بعد ”ایک شخص آدمزاد کی مانند“ آتا ہے اور اُسے ’سب لوگوں، اُمتوں اور اہلِلغت پر ابدی حکمرانی عطا کی جاتی ہے۔‘—دانیایل ۷:۹-۱۴۔
۴. (ا) دانیایل کس سے سب باتوں کی حقیقت دریافت کرتا ہے؟ (ب)اُس رات دانیایل نے جوکچھ دیکھا اور سنا وہ ہمارے لئے اہم کیوں ہے؟
۴ اِس کے بعد دانیایل اپنی حالت کی بابت یوں بیان کرتا ہے: ”مجھ دانیؔایل کی روح میرے بدن میں ملول ہوئی اور میرے دماغ کے خیالات نے مجھے پریشان کر دیا۔“ لہٰذا وہ ایک فرشتے سے ”سب باتوں کی حقیقت دریافت“ کرتا ہے۔ یقیناً وہ فرشتہ اُسے ”ان باتوں کا مطلب سمجھا“ دیتا ہے۔ (دانیایل ۷:۱۵-۲۸) اُس رات دانیایل نے جوکچھ دیکھا اور سنا وہ ہمارے لئے بڑی دلچسپی کا حامل ہے کیونکہ اُس سے ہمارے زمانے تک کے عالمی واقعات کی خاکہکشی ہوتی تھی جب ”آدمزاد کی مانند“ ایک شخص کو ’سب لوگوں، اُمتوں اور اہلِلغت پر حکمرانی عطا کی جاتی ہے۔‘ ہم بھی خدا کے کلام اور روح کی مدد سے اِن نبوّتی رویتوں کا مطلب سمجھ سکتے ہیں۔a
سمندر سے چار حیوان نکلتے ہیں
۵. متلاطم سمندر کس کی علامت ہے؟
۵ دانیایل بیان کرتا ہے کہ ”سمندر سے چار بڑے حیوان . . . نکلے۔“ (دانیایل ۷:۳) متلاطم سمندر کس چیز کی علامت تھا؟ کئی سال بعد یوحنا رسول نے سات سروں والے حیوان کو ”سمندر“ سے نکلتے دیکھا تھا۔ اِس سمندر نے خدا سے بیگانہ نوعِانسان کی بڑی تعداد—’اُمتوں اور گروہوں اور قوموں اور اہلِزبان‘—کی نمائندگی کی تھی۔ پس سمندر خدا سے جُدا نوعِانسان کی موزوں علامت ہے۔—مکاشفہ ۱۳:۱، ۲؛ ۱۷:۱۵؛ یسعیاہ ۵۷:۲۰۔
۶. چار حیوان کس کی تصویرکشی کرتے ہیں؟
۶ خدا کا فرشتہ حیوانوں کی وضاحت کرتا ہے: ”یہ چار بڑے حیوان چار بادشاہ ہیں جو زمین پر برپا ہونگے۔“ (دانیایل ۷:۱۷) فرشتے نے دانیایل کو رویا میں دکھائی دینے والے چار حیوانوں کی شناخت کے سلسلے میں واضح طور پر بتایا کہ وہ ”چار بادشاہ“ ہیں۔ پس، یہ حیوان عالمی طاقتوں کی علامت ہیں۔ لیکن کونسی عالمی طاقتیں؟
۷. (ا) بعض بائبل مفسرین چار حیوانوں کی بابت دانیایل کے خواب کی رویا اور ایک بڑی مورت سے متعلق نبوکدنضر کے خواب کی بابت کیا کہتے ہیں؟ (ب)چار دھاتوں پر مشتمل مورت کا ہر حصہ کس کی نمائندگی کرتا ہے؟
۷ بائبل مفسرین چار حیوانوں کی بابت دانیایل کے خواب کی رویا کو عموماً ایک بڑی مورت سے متعلق نبوکدنضر کے خواب سے وابستہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، دی ایکسپوزیٹرز بائبل کمینٹری بیان کرتی ہے: ”[دانیایل کا] ۷ باب ۲ باب کے مماثل ہے۔“ دی وائے کلف بائبل کمینٹری بیان کرتی ہے: ”یہ بات عامفہم ہے کہ [دانیایل ۷ باب میں] چار غیریہودی حکومتوں کا سلسلہ وہی ہے جس پر [دانیایل] ۲ باب میں روشنی ڈالی گئی ہے۔“ نبوکدنضر کے خواب کی چار دھاتیں بابل (سونے کا سر)، مادیفارس (چاندی کا سینہ اور بازو)، یونان (تانبے کا شکم اور رانیں) اور روم (لوہے کی ٹانگیں) کی عالمی طاقتوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔b (دانیایل ۲:۳۲، ۳۳) آئیے دیکھیں کہ یہ سلطنتیں دانیایل کو دکھائی دینے والے چار بڑے حیوانوں کی مماثل کیسے ہیں۔
شیر کی طرح خونخوار اور عقاب کی طرح تیز
۸. (ا) دانیایل نے پہلے حیوان کی کیا وضاحت پیش کی؟ (ب)پہلے حیوان نے کس سلطنت کی نمائندگی کی اور اُس نے شیر جیسی خصلت کیسے دکھائی؟
۸ دانیایل نے کیسے حیوان دیکھے! ایک کی وضاحت میں اُس نے بیان کِیا: ”پہلا شیرببر کی مانند تھا اور عقاب کے سے بازو رکھتا تھا اور مَیں دیکھتا رہا جب تک اُسکے پَر اُکھاڑے گئے اور وہ زمین سے اُٹھایا گیا اور آدمی کی طرح پاؤں پر کھڑا کِیا گیا اور انسان کا دل اُسے دیا گیا۔“ (دانیایل ۷:۴) یہ حیوان اُسی حکومت یعنی بابل کی عالمی طاقت (۶۰۷-۵۳۹ ق.س.ع.) کی تصویرکشی کرتا ہے جس کی نمائندگی بڑی مورت کے سونے کے سر سے کی گئی تھی۔ شکاری ”شیر“ کی طرح خونخوار بابلیوں نے خدا کے لوگوں سمیت کئی قوموں کو نگل لیا تھا۔ (یرمیاہ ۴:۵-۷؛ ۵۰:۱۷) عقاب کے پَروں کے ساتھ یہ ”شیر“ بڑی تیزی سے جارحانہ انداز میں فتح کے لئے آگے بڑھتا گیا۔—نوحہ ۴:۱۹؛ حبقوق ۱:۶-۸۔
۹. شیر جیسے حیوان میں کیا تبدیلیاں آئیں اور اِنکا اُس پر کیا اثر ہوا؟
۹ ایک وقت آیا کہ عقاب جیسے پَروں والے اِس عجیبوغریب شیر کے پَر ”اُکھاڑے گئے۔“ بیلشضر بادشاہ کے دورِحکومت کے اختتام کیساتھ ہی بابل کی فتوحات کا سلسلہ اور قوموں پر شیر جیسا رُعبودبدبہ بھی ختم ہو گیا۔ اب یہ دو پاؤں والے آدمی سے زیادہ تیز نہیں چل سکتا تھا۔ ”انسان کا دل“ حاصل کرکے یہ کمزور ہو گیا۔ ”شیر کا دل“ نہ رہنے کی وجہ سے بابل اب ”جنگل کے جانوروں میں“ بادشاہ کی طرح نہیں رہ سکتا تھا۔ (مقابلہ کریں ۲-سموئیل ۱۷:۱۰؛ میکاہ ۵:۸۔) ایک دوسرے بڑے جانور نے اُسے زیر کر لیا۔
ریچھ کی طرح خورندہ
۱۰. ”ریچھ“ کن حکمرانوں کے سلسلے کی علامت تھا؟
۱۰ دانیایل بیان کرتا ہے: ”اور کیا دیکھتا ہوں کہ ایک دوسرا حیوان ریچھ کی مانند ہے اور وہ ایک طرف سیدھا کھڑا ہوا اور اُسکے مُنہ میں اُسکے دانتوں کے درمیان تین پسلیاں تھیں اور اُنہوں نے اُسے کہا کہ اُٹھ اور کثرت سے گوشت کھا۔“ (دانیایل ۷:۵) ”ریچھ“ جس بادشاہ کی علامت ہے اُسی کی نمائندگی بڑی مورت کے چاندی کے سینے اور بازوؤں—مادیفارسی حکمرانوں کے سلسلے (۵۳۹-۳۳۱ ق.س.ع.)—سے ہوتی ہے جو دارا مادی اور خورساعظم کے ساتھ شروع ہوا اور دارا سوم پر ختم ہو گیا۔
۱۱. علامتی ریچھ کے ایک طرف سیدھا کھڑے ہونے اور اُسکے مُنہ میں تین پسلیوں کا کیا مطلب ہے؟
۱۱ علامتی ریچھ غالباً حملہ کرنے، قوموں کو زیر کرنے اور یوں عالمی تسلط قائم رکھنے کے لئے ”ایک طرف سیدھا کھڑا“ ہو گیا تھا۔ یا ایک طرف سیدھا کھڑا ہونے کا مقصد یہ ظاہر کرنا بھی ہو سکتا ہے کہ فارسی حکمرانوں کا سلسلہ خودمختار بادشاہ، دارا مادی پر سبقت لے جائے گا۔ ریچھ کے دانتوں میں تین پسلیاں تین اطراف میں اُسکی فتوحات کی علامت ہو سکتی ہیں۔ مادیفارسی ”ریچھ“ نے ۵۳۹ ق.س.ع. میں بابل کو ہڑپ کرنے کیلئے شمال کی طرف پیشقدمی کی تھی۔ پھر اُس نے مغرب کی جانب ایشیائےکوچک اور تھریس کا رُخ کِیا۔ آخر میں، ”ریچھ“ نے مصر کو فتح کرنے کیلئے جنوب کی جانب پیشقدمی کی۔ بعضاوقات تین کا عدد چونکہ شدت کی علامت ہوتا ہے اِسلئے تین پسلیاں فتح کیلئے علامتی ریچھ کی حرص کو نمایاں کر سکتی ہیں۔
۱۲. جب علامتی ریچھ نے ”اُٹھ اور کثرت سے گوشت کھا“ کے حکم کی تعمیل کی تو کیا نتیجہ نکلا؟
۱۲ ”ریچھ“ نے ”اُٹھ اور کثرت سے گوشت کھا“ کے حکم کی تعمیل میں قوموں پر حملہ کر دیا۔ الہٰی مرضی کے مطابق بابل کو ختم کرنے کے بعد، مادیفارس یہوواہ کے لوگوں کی خاطر عظیم اور قابلِقدر کام انجام دینے کی حالت میں تھا۔ لہٰذا، اُس نے واقعی ایسا کام انجام بھی دیا! (صفحہ ۱۴۹ پر ”ایک بُردبار شہنشاہ“ کے تحت مواد کا مطالعہ کریں۔) مادیفارس نے خورساعظم، دارا اوّل (دارا اعظم) اور ارتخششتا اوّل کے ذریعے بابل کے یہودی اسیروں کو آزاد کِیا اور یہوواہ کی ہیکل کی ازسرِنو تعمیر اور یروشلیم کی فصیلوں کی مرمت کرنے کے سلسلے میں معاونت کی۔ انجامکار، مادیفارس ۱۲۷ صوبوں پر سلطنت کرنے لگا اور آستر ملکہ کا شوہر، اخسویرس بادشاہ (خشایارشا اوّل) ”ہندوستان سے کوؔش تک“ حکمرانی کرتا تھا۔ (آستر ۱:۱) تاہم، مستقبل قریب میں ایک اَور حیوان برپا ہونے والا تھا۔
پَردار تیندوے کی طرح تیزرفتار!
۱۳. (ا) تیسرا حیوان کس کی علامت تھا؟ (ب)تیسرے حیوان کی رفتار اور سلطنت کی وسعت کی بابت کیا کہا جا سکتا ہے؟
۱۳ تیسرا حیوان ”تیندوے کی مانند اُٹھا جس کی پیٹھ پر پرندے کے چار بازو تھے اور اُس حیوان کے چار سر تھے اور سلطنت اُسے دی گئی۔“ (دانیایل ۷:۶) اپنے مماثل یعنی نبوکدنضر کے خواب کی بڑی مورت کے تانبے کے شکم اور رانوں کی طرح یہ چار پَروں اور چار سروں والا تیندوا، مقدونی یا یونانی بادشاہوں کے سلسلے کی علامت ہے جس کا آغاز سکندرِاعظم سے ہوا تھا۔ تیندوے کی سی رفتار اور پھرتی کے ساتھ، سکندر نے ایشیائےکوچک، جنوب میں مصر اور ہندوستان کی مغربی سرحدوں تک پیشقدمی کی۔ (مقابلہ کریں حبقوق ۱:۸۔) اُسکی سلطنت ”ریچھ“ سے بڑی تھی کیونکہ اِس میں مقدونیہ، یونان اور فارسی مملکت بھی شامل تھی۔—صفحہ ۱۵۳ پر ”ایک جوان بادشاہ کی دُنیا پر فتح“ کے تحت مواد کا مطالعہ کریں۔
۱۴. ”تیندوا“ چار سروں والا حیوان کیسے بن گیا؟
۱۴ ”تیندوا“ ۳۲۳ ق.س.ع. میں سکندر کی موت کے بعد چار سروں والا حیوان بن گیا۔ انجامکار، اُس کے چار جرنیل اُس کی سلطنت کے مختلف حصوں میں اُس کے جانشین بنے۔ سلوکس مسوپتامیہ اور سوریہ پر قابض ہو گیا۔ بطلیموس نے مصر اور فلسطین پر قبضہ جما لیا۔ لاسیماکس ایشیائےکوچک اور تھریس پر اور کسندر، مقدونیہ اور یونان پر حکمرانی کرنے لگے۔ (صفحہ ۱۶۲ پر ”ایک وسیع سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا“ کے تحت مواد کا مطالعہ کریں۔) اِسکے بعد ایک نیا خطرہ پیدا ہو گیا۔
نہایت ہولناک اور مختلف حیوان
۱۵. (ا) چوتھے حیوان کی وضاحت کریں۔ (ب)چوتھا حیوان کس کی علامت تھا اور اُس نے اپنی راہ میں آنے والی ہر چیز کو کیسے نگل لیا اور تہسنہس کر دیا؟
۱۵ دانیایل نے چوتھے حیوان کو ”ہولناک اور ہیبتناک اور نہایت زبردست“ کے طور پر بیان کِیا۔ اُس نے اِسکی بابت مزید بتایا کہ ”اُسکے دانت لوہے کے اور بڑےبڑے تھے۔ وہ نگل جاتا اور ٹکڑےٹکڑے کرتا تھا اور جو کچھ باقی بچتا اُس کو پاؤں سے لتاڑتا تھا اور یہ اُن سب پہلے حیوانوں سے مختلف تھا اور اِسکے دس سینگ تھے۔“ (دانیایل ۷:۷) یہ ہولناک حیوان روم کی سیاسی اور عسکری طاقت کے طور پر منظرِعام پر آیا۔ روم آہستہآہستہ یونانی سلطنت کے چاروں ہیلیانی حصوں پر قابض ہو کر بائبل پیشینگوئی کے مطابق ۳۰ ق.س.ع. تک اگلی عالمی طاقت بن گیا۔ رومی سلطنت عسکری طاقت کے بلبوتے پر اپنی راہ میں آنے والی ہر چیز کو زیر کرتے ہوئے، بالآخر برطانوی جزائر سے لیکر یورپ، بحیرۂروم کے علاقوں اور بابل سے آگے خلیج فارس تک پھیل گئی۔
۱۶. فرشتے نے چوتھے حیوان کی بابت کیا معلومات پیش کیں؟
۱۶ اِس ”نہایت ہولناک“ حیوان کی بابت زیادہ واضح سمجھ حاصل کرنے کی خواہش کے ساتھ دانیایل نے فرشتے کی یہ بات بڑی توجہ سے سنی: ”اور [اُس کے] دس سینگ دس بادشاہ ہیں جو اُس سلطنت میں برپا ہونگے اور اُنکے بعد ایک اَور برپا ہوگا اور وہ پہلوں سے مختلف ہوگا اور تین بادشاہوں کو زیر کریگا۔“ (دانیایل ۷:۱۹، ۲۰، ۲۴) یہ ”دس سینگ“ یا ”دس بادشاہ“ کون تھے؟
۱۷. چوتھے حیوان کے ”دس سینگ“ کس کی نمائندگی کرتے ہیں؟
۱۷ جب روم دولت کی فراوانی اور حکمران طبقے کی اوباشی کی وجہ سے اخلاقی تنزلی کا شکار ہو گیا تو یہ عسکری طاقت کے طور پر اپنا اثرورسوخ بھی کھو بیٹھا۔ ایک وقت آیا کہ روم کی عسکری قوت کا زوال بالکل نمایاں ہو گیا۔ انجامکار یہ زورآور سلطنت کئی حکومتوں میں بٹ گئی۔ جب بائبل دس کے عدد کو اکثر مکملیت کے مفہوم میں استعمال کرتی ہے تو چوتھے حیوان کے ”دس سینگ“ اُن تمام حکومتوں کی نمائندگی کرتے ہیں جو روم کے زوال کے نتیجے میں برپا ہوئی تھیں۔—مقابلہ کریں استثنا ۴:۱۳؛ لوقا ۱۵:۸؛ ۱۹:۱۳، ۱۶، ۱۷۔
۱۸. روم نے اپنے آخری شہنشاہ کی معزولی کے بعد بھی صدیوں تک یورپ پر اپنا تسلط کیسے قائم رکھا؟
۱۸ تاہم، روم کی عالمی سلطنت کا خاتمہ ۴۷۶ س.ع. میں اسکے آخری حاکم کی معزولی کیساتھ نہیں ہوا تھا۔ رومی پاپائیت کا کئی صدیوں تک یورپ پر سیاسی اور بالخصوص مذہبی تسلط قائم رہا۔ اس کیلئے جاگیرداری نظام نافذ کِیا گیا جس کے تحت یورپ کی بیشتر آبادی جاگیرداروں کے بعد بادشاہ کے تابع تھی۔ اس کیساتھ ساتھ تمام بادشاہ پوپ کے اختیار کو بھی تسلیم کرتے تھے۔ پس مُقدس رومی سلطنت نے اپنے مرکز پاپائی روم کے ذریعے قرونِمظلمہ کہلانے والے تاریخ کے طویل دَور کے دوران عالمی معاملات پر اپنا تسلط قائم رکھا۔
۱۹. ایک مؤرخ کے مطابق روم پہلی حکومتوں سے کیسے مختلف تھا؟
۱۹ اِس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ چوتھا حیوان ”تمام سلطنتوں سے مختلف“ تھا۔ (دانیایل ۷:۷، ۱۹، ۲۳) اِس سلسلے میں مؤرخ ایچ. جی. ویلز نے لکھا: ”یہ نئی رومی طاقت . . . اب تک کی متمدن دُنیا میں برسرِاقتدار آنے والی بڑی سلطنتوں کی نسبت کئی لحاظ سے مختلف تھی۔ . . . اِس نے دُنیا میں تقریباً تمام یونانیوں پر حکومت کی اور اِس کی آبادی میں کسی بھی پہلی حکومت کی نسبت حامی اور سامی زبان بولنے والے لوگوں کا تناسب بہت کم تھا۔ . . . اُس وقت تک یہ تاریخ میں اپنی طرز کی نئی حکومت تھی۔ رومی حکومت بتدریج مگر غیرمتوقع اور نہایت انوکھے طریقے سے منظرِعام پر آئی تھی اسی لئے رومیوں کو انتظاموانصرام کے سلسلے میں ایسے تجربے سے گزرنا پڑا جو اُنکے وہموگمان میں بھی نہیں تھا۔“ تاہم، چوتھے حیوان نے ابھی اَور ترقی کرنی تھی۔
چھوٹا سینگ غالب آتا ہے
۲۰. فرشتے نے چوتھے حیوان کے سر پر چھوٹے سینگ کے نکلنے کی بابت کیا کہا تھا؟
۲۰ دانیایل بیان کرتا ہے: ”مَیں نے اُن سینگوں پر غور سے نظر کی اور کیا دیکھتا ہوں کہ اُنکے درمیان سے ایک اَور چھوٹا سا سینگ نکلا جس کے آگے پہلوں میں سے تین سینگ جڑ سے اُکھاڑے گئے۔“ (دانیایل ۷:۸) اِس بات کی وضاحت میں فرشتے نے دانیایل کو بتایا: ”اُن [دس بادشاہوں] کے بعد ایک اَور برپا ہوگا اور وہ پہلوں سے مختلف ہوگا اور تین بادشاہوں کو زیر کریگا۔“ (دانیایل ۷:۲۴) یہ بادشاہ کون ہے، یہ کب برپا ہوا اور اس نے کن تین بادشاہوں کو زیر کِیا تھا؟
۲۱. برطانیہ چوتھے حیوان کا علامتی چھوٹا سینگ کیسے ثابت ہوا؟
۲۱ اب ذرا مندرجہذیل واقعات پر غور کریں۔ رومی جرنیل یولیس قیصر نے ۵۵ ق.س.ع. میں برطانیہ پر حملہ کِیا لیکن مستقل قدم جمانے میں ناکام رہا۔ پھر شہنشاہ کلودئیس نے ۴۳ س.ع. میں جنوبی برطانیہ کو مستقل طور پر فتح کرنا شروع کِیا۔ اِس کے بعد، ۱۲۲ س.ع. میں شہنشاہ ہدریان نے رومی سلطنت کی شمالی حد مقرر کرتے ہوئے دریائےتائن سے خلیج سالوے تک ایک دیوار بنانا شروع کر دی۔ تاہم، پانچویں صدی کے اوائل میں رومی لشکر اِس جزیرے سے چلے گئے۔ ایک مؤرخ نے بیان کِیا کہ ”سولہویں صدی میں انگلینڈ بہت کمزور تھا۔ نیدرلینڈز کے مقابلے میں اِس کی دولت بھی کم تھی۔ آبادی کے اعتبار سے یہ فرانس سے چھوٹا تھا۔ اُس کی فوج (بشمول بحریہ) میں سپین کی فوج جیسی صلاحیت بھی نہیں تھی۔“ اُس وقت برطانیہ بدیہی طور پر ایک چھوٹی سی سلطنت تھی جو کہ چوتھے حیوان کے علامتی چھوٹے سینگ کی نمائندگی کر رہی تھی۔ لیکن اِس میں تبدیلی آنی تھی۔
۲۲. (ا) ’چھوٹے‘ سینگ نے چوتھے حیوان کے کن تین سینگوں کو زیر کِیا؟ (ب)اِس کے بعد برطانیہ کس حیثیت سے منظرِعالم پر چھا گیا؟
۲۲ سپین کے فلپ دوم نے ۱۵۸۸ میں، ہتھیاربند ہسپانوی بحری بیڑے کیساتھ برطانیہ پر یلغار کی۔ یہ بحری بیڑا ۱۳۰ جہاز اور ۲۴،۰۰۰ فوجی لیکر برطانوی بحریہ کے ہاتھوں شکست کھانے اور مخالف ہواؤں اور بحرِاوقیانوس کے تُند طوفانوں کا شکار ہونے کے لئے برطانوی سمندروں کی طرف چل پڑا۔ ایک مؤرخ کے مطابق اِس معرکہآرائی سے ”انگلینڈ کی بحری طاقت سپین سے بالاتر ہوگئی۔“ سترھویں صدی تک نیدرلینڈز نے بھی دُنیا کا سب سے بڑا تجارتی بحری بیڑا تیار کر لیا تھا۔ تاہم، سمندرپار نوآبادیوں میں اضافے کے باعث برطانیہ نے اِس پر بھی برتری حاصل کر لی۔ اٹھارویں صدی میں برطانوی اور فرانسیسی شمالی امریکہ اور انڈیا میں ایک دوسرے کے خلاف لڑے جس کے نتیجے میں ۱۷۶۳ میں معاہدۂپیرس طے پایا۔ مصنف ولیم بی. ولکوکس نے بیان کِیا کہ اِس معاہدے کی رُو سے ”یورپ کے باہر کی دُنیا میں بھی برطانیہ کے نئے مرتبے اور بالادستی کو تسلیم کر لیا گیا تھا۔“ علاوہازیں، ۱۸۱۵ س.ع. میں فرانس کے نپولین پر فیصلہکُن فتح سے برطانیہ کی بالادستی کی تصدیق ہو گئی تھی۔ پس، برطانیہ نے جن ”تین بادشاہوں کو زیر“ کِیا وہ سپین، نیدرلینڈز اور فرانس تھے۔ (دانیایل ۷:۲۴) نتیجتاً، برطانیہ دُنیا کی سب سے بڑی نوآبادیاتی اور تجارتی طاقت کے طور پر منظرِعالم پر نمودار ہوا۔ جیہاں، ”چھوٹا“ سینگ بڑھکر عالمی طاقت بن گیا!
۲۳. کس لحاظ سے علامتی چھوٹے سینگ نے ”تمام زمین کو نگل“ لیا تھا؟
۲۳ فرشتے نے دانیایل کو بتایا کہ چوتھا حیوان یا چوتھی سلطنت ”تمام زمین کو نگل جائیگی۔“ (دانیایل ۷:۲۳) یہ بات اُس رومی صوبے کے سلسلے میں سچ ثابت ہوئی جو کبھی برطانیہ کہلاتا تھا۔ انجامکار یہی برطانوی سلطنت بن گیا جس نے ’تمام زمین کو نگل لیا۔‘ ایک وقت تھا جب یہ سلطنت کُل زمین اور اسکی کُل آبادی کے ایک چوتھائی حصے پر مسلّط تھی۔
۲۴. ایک مؤرخ نے برطانوی حکومت کے مختلف ہونے کی بابت کیا بیان کِیا؟
۲۴ جیسے رومی سلطنت پہلی عالمی طاقتوں سے مختلف تھی ویسے ہی ”چھوٹا“ سینگ جس بادشاہ کی عکاسی کرتا ہے وہ بھی ”پہلوں سے مختلف ہوگا۔“ (دانیایل ۷:۲۴) برطانوی سلطنت کی بابت مؤرخ ایچ. جی. ویلز نے بیان کِیا: ”اِس سے پہلے ایسی کوئی حکومت نہیں تھی۔ پوری دُنیا میں متحدہ برطانوی ریاستوں کی ’تاجدار جمہوریت‘ (جمہوری سلطنت) کو اوّلین اور مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ کسی بھی فردِواحد اور تنظیم کے لئے برطانوی سلطنت کے اتحاد کو سمجھنا مشکل تھا۔ تدریجی ترقی اور توسیعپسندی کا یہ حسین امتزاج پہلی تمام سلطنتوں سے بالکل مختلف تھا۔“
۲۵. (ا) اپنی جدید ترتیب میں علامتی چھوٹا سینگ کس کی نمائندگی کرتا ہے؟ (ب) کس مفہوم میں ”چھوٹے“ سینگ میں ”انسان کی سی آنکھیں“ اور ”ایک مُنہ ہے جس سے گھمنڈ کی باتیں نکلتی ہیں؟“
۲۵ ”چھوٹا“ سینگ برطانوی سلطنت کے علاوہ کسی اَور کی علامت بھی تھا۔ برطانیہ نے ۱۷۸۳ میں ۱۳ امریکی نوآبادیوں کی آزادی کو تسلیم کر لیا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد دُنیا کی طاقتور قوم کے طور پر منظرِعالم پر چھا جانے والا ریاستہائےمتحدہ امریکہ بالآخر برطانیہ کا حلیف بن گیا۔ تاحال برطانیہ کے ساتھ اِس کے تعلقات بڑے مضبوط ہیں۔ اس کے نتیجے میں نمودار ہونے والی اینگلوامریکن دوہری عالمی طاقت ’آنکھوں والے سینگ‘ کو تشکیل دیتی ہے۔ واقعی، یہ عالمی طاقت تیزنظر اور ہوشیار ہے! بیشتر دُنیا کے لئے پالیسی وضع کرنے اور اسکے ترجمان یا ”جھوٹے نبی“ کے طور پر کام کرنے سے یہ ’گھمنڈ کی باتیں‘ کرتی ہے۔—دانیایل ۷:۸، ۱۱، ۲۰؛ مکاشفہ ۱۶:۱۳؛ ۱۹:۲۰۔
چھوٹا سینگ خدا اور اُسکے مُقدسوں کی مخالفت کرتا ہے
۲۶. فرشتے نے یہوواہ اور اُس کے خادموں کے سلسلے میں علامتی سینگ کے قولوفعل کی بابت کیا پیشینگوئی کی تھی؟
۲۶ دانیایل نے اِن الفاظ میں اپنی رویا کی مزید وضاحت کی: ”مَیں نے دیکھا کہ وہی سینگ مُقدسوں سے جنگ کرتا اور اُن پر غالب آتا رہا۔“ (دانیایل ۷:۲۱) اس ”سینگ“ یا بادشاہ کی بابت خدا کے فرشتے نے پیشینگوئی کی: ”وہ حقتعالیٰ کے خلاف باتیں کریگا اور حقتعالیٰ کے مُقدسوں کو تنگ کریگا اور مقررہ اوقاتوشریعت کو بدلنے کی کوشش کریگا اور وہ ایک دَور اور دَوروں اور نیم دَور تک اُسکے حوالے کئے جائینگے۔“ (دانیایل ۷:۲۵) پیشینگوئی کے اِس حصے کی تکمیل کب اور کیسے ہوئی؟
۲۷. (ا) ”چھوٹے“ سینگ کے ہاتھوں ستائے جانے والے ’مُقدس لوگ‘ کون ہیں؟ (ب)علامتی سینگ نے ”مقررہ اوقاتوشریعت کو بدلنے“ کی کوشش کیسے کی تھی؟
۲۷ ”چھوٹا“ سینگ—اینگلوامریکن عالمی طاقت—”مُقدسوں“ یعنی زمین پر یسوع کے روح سے مسحشُدہ پیروکاروں کو ستاتا ہے۔ (رومیوں ۱:۷؛ ۱-پطرس ۲:۹) پہلی عالمی جنگ سے کئی سال پہلے ممسوحوں کے اِس بقیے نے علانیہ گواہی دی کہ ۱۹۱۴ میں ”غیرقوموں کی میعاد“ ختم ہو جائیگی۔ (لوقا ۲۱:۲۴) اُس سال جنگ چھڑ جانے سے یہ بات عیاں ہو گئی کہ ”چھوٹے“ سینگ نے اِس آگاہی کو نظرانداز کر دیا ہے کیونکہ اِس نے ممسوح ”مُقدسوں“ کو تنگ کرنا جاری رکھا تھا۔ اینگلوامریکن عالمی طاقت نے تو یہوواہ کے اس تقاضے (یا ”شریعت“) کو پورا کرنے کے سلسلے میں اُن کی کوششوں کی بھی مخالفت کی کہ اُس کے گواہ پوری دُنیا میں بادشاہتی خوشخبری کی منادی کرینگے۔ (متی ۲۴:۱۴) یوں ’چھوٹے‘ سینگ نے ”مقررہ اوقاتوشریعت کو بدلنے“ کی کوشش کی تھی۔
۲۸. ”ایک دَور اور دَوروں اور نیم دَور“ کا عرصہ کتنا طویل ہے؟
۲۸ یہوواہ کے فرشتے نے ”ایک دَور اور دَوروں اور نیم دَور“ کے نبوتی عرصے کا حوالہ دیا تھا۔ یہ عرصہ کتنا طویل ہے؟ بائبل مفسرین عام طور پر اِس اظہار سے مُراد ساڑھے تین دَور—ایک دَور، دو دَور اور نیم دَور کا مجموعہ—لیتے ہیں۔ جب نبوکدنضر کے ذہنی اختلال کے ”سات دَور،“ سات سالوں کے برابر تھے تو ساڑھے تین دَور، ساڑھے تین سالوں کے برابر ہونگے۔c (دانیایل ۴:۱۶، ۲۵) این امریکن ٹرانسلیشن یوں بیان کرتی ہے: ”وہ ایک سال، دو سال اور نصف سال تک اُسکے حوالے کر دئے جائینگے۔“ جیمز موفٹ کا ترجمہ بھی ”ساڑھے تین سال“ بتاتا ہے۔ مکاشفہ ۱۱:۲-۷ میں اِسی وقت کا حوالہ دیا گیا ہے جسکے مطابق خدا کے گواہ ٹاٹ اوڑھے ہوئے ۴۲ مہینے یا ۱،۲۶۰ دن تک منادی کرینگے اور اِسکے بعد ہلاک کر دئے جائینگے۔ اِس وقت کا آغاز اور اختتام کب ہوا؟
۲۹. ساڑھے تین نبوّتی سالوں کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟
۲۹ ممسوح مسیحیوں کیلئے پہلی عالمی جنگ کا زمانہ آزمائشی دَور تھا۔ وہ ۱۹۱۴ کے اختتام تک اذیت کی توقع کر رہے تھے۔ درحقیقت، ۱۹۱۵ کیلئے منتخب کی جانیوالی سالانہ آیت شاگردوں سے یسوع کے اِس سوال پر مبنی تھی: ”کیا تم میرا پیالہ پی سکتے ہو؟“ یہ کنگ جیمز ورشن کے مطابق متی ۲۰:۲۲ پر مبنی تھی۔ چنانچہ، دسمبر ۱۹۱۴ سے لیکر گواہوں کا یہ چھوٹا سا گروہ ”ٹاٹ اوڑھے ہوئے“ منادی کرتا رہا۔
۳۰. پہلی جنگِعظیم کے دوران اینگلوامریکن عالمی طاقت نے ممسوح مسیحیوں کو کیسے ہراساں کِیا تھا؟
۳۰ جب جنگ نے زور پکڑا تو ممسوح مسیحیوں کو سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اُن میں سے بعض کو قید میں ڈال دیا گیا۔ انگلینڈ میں فرینک پلاٹ اور کینیڈا میں رابرٹ کلیگ جیسے اشخاص نے سادیتپسند حکام کے ہاتھوں اذیت اُٹھائی۔ برطانیہ کے ماتحت کینیڈا میں بھی فروری ۱۲، ۱۹۱۸ کو سٹڈیز اِن دی سکرپچرز کی شائع ہونے والی تازہترین ساتویں جِلد بعنوان دی فنشڈ مسٹری کے علاوہ دی بائبل سٹوڈنٹس منتھلی نامی اشتہارات پر بھی پابندی عائد کر دی۔ اگلے ماہ، یو.ایس ڈیپارٹمنٹ آف جسٹس نے بھی ساتویں جِلد کی تقسیم کو غیرقانونی قرار دے دیا۔ اِسکا نتیجہ کیا نکلا؟ گھروں کی تلاشی لی گئی، لٹریچر ضبط کر لیا گیا اور یہوواہ کے پرستاروں کو قید میں ڈال دیا گیا!
۳۱. ”ایک دَور اور دَوروں اور نیم دَور“ کا عرصہ کب اور کیسے ختم ہوا؟
۳۱ جون ۲۱، ۱۹۱۸ کو جب واچ ٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی کے صدر جے. ایف. رتھرفورڈ اور سرکردہ اراکین کو جھوٹے الزامات کے تحت طویل قید کی سزا سنائی گئی تو خدا کے ممسوح لوگوں کی اذیت انتہا کو پہنچ گئی۔ ”مقررہ اوقاتوشریعت کو بدلنے“ کی کوشش میں ’چھوٹے‘ سینگ نے منادی کے منظم کام کو عملاً ختم کر دیا تھا۔ (مکاشفہ ۱۱:۷) یوں پیشینگوئی کے مطابق، ”ایک دَور اور دَوروں اور نیم دَور“ کا عرصہ جون ۱۹۱۸ میں ختم ہو گیا۔
۳۲. آپ کے خیال میں ”چھوٹا“ سینگ ”مُقدسوں“ کو صفحۂہستی سے مٹانے میں کامیاب کیوں نہیں ہوا تھا؟
۳۲ تاہم ’چھوٹے‘ سینگ کی اذیت ”مُقدسوں“ کو صفحۂہستی سے نہ مٹا سکی۔ مکاشفہ کی کتاب کی پیشینگوئی کے مطابق، بےعملی کے مختصر سے دَور کے بعد ممسوح مسیحی ازسرِنو سرگرم ہو گئے۔ (مکاشفہ ۱۱:۱۱-۱۳) مارچ ۲۶، ۱۹۱۹ کو واچ ٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی کے صدر اور اُس کے ساتھیوں کو قید سے رہائی مل گئی اور بعدازاں اُنہیں جھوٹے الزامات سے بھی بری قرار دے دیا گیا۔ اِس کے فوراً بعد، ممسوح بقیے نے اضافی کارگزاری کیلئے پھر سے منظم ہونا شروع کر دیا۔ تاہم، ’چھوٹے‘ سینگ کا کیا انجام ہوا؟
قدیمالایّام تختِعدالت پر بیٹھتا ہے
۳۳. (ا) قدیمالایّام کون ہے؟ (ب)آسمانی عدالت میں کونسی ”کتابیں کھلی تھیں“؟
۳۳ چار حیوانوں کو متعارف کرانے کے بعد، دانیایل کی آنکھیں ایک آسمانی منظر پر جم جاتی ہیں۔ وہ قدیمالایّام کو بطور منصف اپنے جلالی تخت پر جلوہافروز دیکھتا ہے۔ قدیمالایّام یہوواہ خدا کے علاوہ اَور کوئی نہیں ہے۔ (زبور ۹۰:۲) جب آسمانی عدالت شروع ہوتی ہے تو دانیایل دیکھتا ہے کہ ’کتابیں کھولی جاتی ہیں۔‘ (دانیایل ۷:۹، ۱۰) یہوواہ ازل سے ہے اسلئے وہ تمام انسانی تاریخ سے بالکل ایسے ہی واقف ہے جیسے یہ کسی کتاب میں لکھی ہوئی ہو۔ وہ چاروں علامتی حیوانوں کا مشاہدہ کر چکا ہے اور اسی لئے ایسے جامع اور براہِراست علم کی بِنا پر وہ اُنکے خلاف عدالتی فیصلہ سنا سکتا ہے۔
۳۴، ۳۵. ’چھوٹے‘ سینگ اور دیگر حیوانخصلت طاقتوں کیساتھ کیا واقع ہوگا؟
۳۴ دانیایل اپنا بیان جاری رکھتا ہے: ”مَیں دیکھ ہی رہا تھا کہ اُس سینگ کی گھمنڈ کی باتوں کی آواز کے سبب سے میرے دیکھتے ہوئے وہ حیوان مارا گیا اور اسکا بدن ہلاک کرکے شعلہزن آگ میں ڈالا گیا۔ اور باقی حیوانوں کی سلطنت بھی اُن سے لے لی گئی لیکن وہ ایک زمانہ اور ایک دَور زندہ رہے۔“ (دانیایل ۷:۱۱، ۱۲) فرشتہ دانیایل کو بتاتا ہے: ”تب عدالت قائم ہوگی اور اُس کی سلطنت اُس سے لے لینگے کہ اُسے ہمیشہ کے لئے نیستونابود کریں۔“—دانیایل ۷:۲۶۔
۳۵ منصفاعلیٰ، یہوواہ خدا کے حکم سے خدا کے خلاف کفر بکنے اور اُسکے ”مُقدسوں“ کو ستانے والے سینگ کا وہی حشر ہوگا جو ابتدائی مسیحیوں کو ستانے والی رومی سلطنت کا ہوا تھا۔ اُسکی حکمرانی قائم نہیں رہیگی۔ رومی سلطنت سے نکلنے والے سینگنما ادنیٰ ”بادشاہ“ بھی قائم نہیں رہیں گے۔ تاہم، سابقہ حیوانخصلت طاقتوں سے نکلنے والی حکومتوں کی بابت کیا ہے؟ پیشینگوئی کے مطابق، وہ ”ایک زمانہ اور ایک دَور“ زندہ رہیں۔ اُنکے علاقوں میں آج بھی لوگ آباد ہیں۔ مثال کے طور پر، عراق قدیم بابل کے علاقے پر قابض ہے۔ فارس (ایران) اور یونان ابھی تک موجود ہیں۔ اِن عالمی طاقتوں کے باقیات اقوامِمتحدہ کا حصہ ہیں۔ آخری عالمی طاقت کی تباہی کیساتھ یہ حکومتیں بھی نیست ہو جائینگی۔ تمام انسانی حکومتیں ”قادرِمطلق خدا کے روزِعظیم کی لڑائی“ پر صفحۂہستی سے مٹا دی جائینگی۔ (مکاشفہ ۱۶:۱۴، ۱۶) توپھر، دُنیا پر کون حکمرانی کریگا؟
ابدی سلطنت بالکل قریب!
۳۶، ۳۷. (ا) ”ایک شخص آدمزاد کی مانند“ کس کی طرف اشارہ ہے اور وہ آسمانی عدالت میں کب اور کس مقصد کیلئے ظاہر ہوا؟ (ب)۱۹۱۴ س.ع. میں کیا قائم ہوا تھا؟
۳۶ دانیایل نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے یوں بیان کِیا: ”مَیں نے رات کو رویا میں دیکھا اور کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص آدمزاد کی مانند آسمان کے بادلوں کے ساتھ آیا اور قدیمالایّام تک پہنچا۔ وہ اُسے اُسکے حضور لائے۔“ (دانیایل ۷:۱۳) جب یسوع مسیح زمین پر تھا تو اُس نے خود کو ”ابنِآدم“ کہہ کر نوعِانسان کے ساتھ اپنے قریبی رشتے کا اشارہ دیا تھا۔ (متی ۱۶:۱۳؛ ۲۵:۳۱) یسوع نے یہودی صدرعدالت سے کہا: ”تم ابنِآدم کو قادرِمطلق کی دہنی طرف بیٹھے اور آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھو گے۔“ (متی ۲۶:۶۴) پس، دانیایل کی رویا میں، انسانی آنکھوں سے اوجھل، آنے والا اور یہوواہ خدا تک پہنچنے والا قیامتیافتہ، جلالی یسوع مسیح ہی تھا۔ یہ کب واقع ہوا؟
۳۷ خدا نے بادشاہ داؤد کی طرح یسوع مسیح کیساتھ بھی ایک بادشاہت کا عہد باندھا تھا۔ (۲-سموئیل ۷:۱۱-۱۶؛ لوقا ۲۲:۲۸-۳۰) جب ۱۹۱۴ س.ع. میں ”غیرقوموں کی میعاد“ ختم ہو گئی تو یسوع مسیح، داؤد کے جائز شاہی وارث کے طور پر، بادشاہتی اختیار حاصل کر سکتا تھا۔ دانیایل کا نبوّتی ریکارڈ بیان کرتا ہے: ”سلطنت اور حشمت اور مملکت اُسے دی گئی تاکہ سب لوگ اور اُمتیں اور اہلِلغت اُسکی خدمتگذاری کریں۔ اُس کی سلطنت ابدی سلطنت ہے جو جاتی نہ رہیگی اور اُس کی مملکت لازوال ہوگی۔“ (دانیایل ۷:۱۴) چنانچہ، مسیحائی بادشاہت ۱۹۱۴ میں آسمان پر قائم ہوئی تھی۔ تاہم، اِس بادشاہت میں دوسروں کو بھی شریک کِیا جاتا ہے۔
۳۸، ۳۹. دُنیا کی ابدی حکمرانی کسے دی جائیگی؟
۳۸ ”حقتعالیٰ کے مُقدس لوگ سلطنت لے لینگے،“ فرشتے نے بیان کِیا۔ (دانیایل ۷:۱۸، ۲۲، ۲۷) یسوع مسیح سب سے بڑا مُقدس ہے۔ (اعمال ۳:۱۴؛ ۴:۲۷، ۳۰) دیگر ”مُقدس لوگ“ روح سے مسحشُدہ ۱،۴۴،۰۰۰ وفادار مسیحی ہیں جو بادشاہتی وارثوں کی حیثیت سے مسیح کیساتھ اس بادشاہت میں شامل ہیں۔ (رومیوں ۱:۷؛ ۸:۱۷؛ ۲-تھسلنیکیوں ۱:۵؛ ۱-پطرس ۲:۹) وہ آسمانی کوہِصیون پر مسیح کے ساتھ حکومت کرنے کیلئے غیرفانی ارواح کے طور پر قیامت حاصل کرتے ہیں۔ (مکاشفہ ۲:۱۰؛ ۱۴:۱؛ ۲۰:۶) پس، یسوع مسیح اور قیامتیافتہ ممسوح مسیحی نوعِانسان کی دُنیا پر حکمرانی کرینگے۔
۳۹ ابنِآدم اور دیگر قیامتیافتہ ”مُقدس لوگوں“ کی حکمرانی کے سلسلے میں خدا کے فرشتے نے کہا: ”تمام آسمان کے نیچے سب ملکوں کی سلطنت اور مملکت اور سلطنت کی حشمت حقتعالیٰ کے مُقدس لوگوں کو بخشی جائیگی۔ اُسکی سلطنت ابدی سلطنت ہے اور تمام مملکتیں اُس کی خدمتگذار اور فرمانبردار ہونگی۔“ (دانیایل ۷:۲۷) اُس بادشاہت کے تحت فرمانبردار نوعِانسان کو کیا ہی شاندار برکات کا تجربہ ہوگا!
۴۰. ہم دانیایل کے خواب اور رویتوں پر دھیان دینے سے کیسے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں؟
۴۰ دانیایل اپنی خداداد رویتوں کی تمام شاندار تکمیلوں سے واقف نہیں تھا۔ اِس لئے اُس نے کہا: ”یہاں پر یہ امر تمام ہوا۔ مَیں دانیؔایل اپنے اندیشوں سے نہایت گھبرایا اور میرا چہرہ متغیر ہوا لیکن مَیں نے یہ بات دل ہی میں رکھی۔“ (دانیایل ۷:۲۸) البتہ ہم ایک ایسے زمانے میں رہتے ہیں جس میں ہم دانیایل کی رویتوں کی تکمیل کو سمجھ سکتے ہیں۔ اِس پیشینگوئی پر دھیان دینے سے ہمارے ایمان کو تقویت ملے گی اور ہمارا اعتقاد اَور زیادہ مضبوط ہو جائیگا کہ یہوواہ کا مسیحائی بادشاہ دُنیا پر حکومت کریگا۔
[فٹنوٹ]
a ہم وضاحت کرنے اور باربار دہرانے کے عمل سے بچنے کی خاطر دانیایل ۷:۱-۱۴ میں درج رویتوں پر آیتباآیت بحث کے دوران دانیایل ۷:۱۵-۲۸ کی توضیحی آیات پر بھی غور کرینگے۔
b اِس کتاب کے باب ۴ کا مطالعہ کریں۔
c اِس کتاب کے باب ۶ کا مطالعہ کریں۔
آپ کیا سمجھے ہیں؟
•’سمندر سے نکلنے والے چار بڑے حیوانوں‘ میں سے ہر ایک کس کی علامت ہے؟
•”چھوٹا“ سینگ کن پر مشتمل ہے؟
•پہلی عالمی جنگ کے دوران چھوٹے علامتی سینگ نے ”مُقدس لوگوں“ کو کیسے اذیت پہنچائی تھی؟
•علامتی چھوٹے سینگ اور دیگر حیوانخصلت طاقتوں کیساتھ کیا واقع ہوگا؟
•آپ نے ”چار بڑے حیوانوں“ کی بابت دانیایل کے خواب اور رویتوں پر دھیان دینے سے کیا فائدہ اُٹھایا ہے؟
[صفحہ ۱۵۲-۱۴۹ پر بکس/تصویریں]
ایک بُردبار شہنشاہ
پانچویں صدی کے ایک یونانی مصنف نے اُسے بُردبار اور مثالی شہنشاہ قرار دیا۔ بائبل اُسے خدا کا ”ممسوح“ اور ”مشرق“ سے آنے والا ”عقاب“ کہتی ہے۔ (یسعیاہ ۴۵:۱؛ ۴۶:۱۱) یہ سب لقب شہنشاۂفارس خورساعظم کے ہیں۔
خورس کی شہرت کا آغاز اُس کے ۵۶۰/۵۵۹ ق.س.ع. میں اپنے باپ کمبیسیس اوّل کے جانشین کے طور پر قدیم فارسی شہر، انشان کے تخت پر بیٹھنے کیساتھ ہی ہو گیا تھا۔ اُس وقت انشان پر مادی بادشاہ، استیاگیس کی بالادستی تھی۔ مادی حکومت کے خلاف بغاوت کرکے خورس نے جلد ہی فتح حاصل کر لی کیونکہ استیاگیس کی فوج نے غداری کرکے خورس کا ساتھ دیا تھا۔ بعدازاں خورس کو مادیوں کی حمایت حاصل ہو گئی۔ چنانچہ، مادیوں اور فارسیوں نے اس کی قیادت میں متحد ہوکر جنگیں لڑیں۔ یوں مادیفارسیوں کی سلطنت وجود میں آئی جو بحیرۂایجین سے دریائےسندھ تک پھیل گئی۔—نقشے کا جائزہ لیں۔
مادیوں اور فارسیوں کے متحد لشکروں کیساتھ خورس نے پہلے مغربی مادی علاقے پر تسلط حاصل کرنے کیلئے پیشقدمی کی جہاں لود کا بادشاہ کروسس اپنی سلطنت کو مادی سرحدوں سے آگے بڑھا کر شورش برپا کر رہا تھا۔ ایشیائےکوچک میں لودی سلطنت کی مشرقی سرحد کی طرف پیشقدمی کرتے ہوئے خورس نے کروسس کو شکست دیکر اُسکے دارالسلطنت، سردیس پر قبضہ کر لیا۔ اِسکے بعد خورس نے آئیونی شہروں پر قبضہ کرتے ہوئے تمام ایشیائےکوچک کو بھی مادیفارس کی سلطنت میں شامل کر لیا۔ یوں وہ بابل اور اُس کے بادشاہ نبوندیس کا سب سے بڑا حریف بن گیا۔
اس کے بعد خورس نے طاقتور بابل سے ٹکر لینے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ لہٰذا اِسکے بعد سے وہ بائبل پیشینگوئی کی تکمیل میں اہم کردار ادا کرنے لگا۔ یہوواہ کوئی دو صدیاں پیشتر یسعیاہ نبی کی معرفت خورس بادشاہ کی بابت بتا چکا تھا کہ وہ بابل کا تختہ اُلٹ دیگا اور یہودیوں کو غلامی سے آزاد کریگا۔ اِسی پیشگی تقرری کی وجہ سے صحائف خورس کا یہوواہ کے ”ممسوح“ کے طور پر ذکر کرتے ہیں۔—یسعیاہ ۴۴:۲۶-۲۸۔
جب خورس نے ۵۳۹ ق.س.ع. میں بابل کا محاصرہ کِیا تو دراصل اُسے نہایت کٹھن اور خطرناک کام کا سامنا تھا۔ بڑیبڑی فصیلوں اور دریائےفرات کے پانی سے لبریز گہری اور چوڑی خندق سے گِھرا ہوا یہ شہر ناقابلِتسخیر دکھائی دے رہا تھا۔ جس مقام سے دریائےفرات بابل میں داخل ہوتا تھا وہاں سے دریا کے کناروں کیساتھ ساتھ فلکبوس دیوار تھی جس میں پیتل کے پھاٹک تھے۔ خورس کیلئے بابل پر فتح پانا کیسے ممکن تھا؟
یہوواہ کوئی ایک صدی پہلے ہی پیشینگوئی کر چکا تھا کہ ”اُس کی نہروں پر خشکسالی“ ہوگی اور ”وہ سوکھ جائینگی۔“ (یرمیاہ ۵۰:۳۸) اِس پیشینگوئی کی تکمیل میں، خورس نے بابل کے شمال میں چند میل دُور دریائےفرات کے پانیوں کا رُخ موڑ دیا۔ اِس کے بعد اُسکی فوج دریا سے گزر کر دیوار کی ڈھلوان پر چڑھ گئی اور بڑی آسانی کیساتھ شہر میں داخل ہو گئی کیونکہ پیتل کے پھاٹک کھلے چھوڑ دئے گئے تھے۔ اپنے شکار پر تیزی کے ساتھ جھپٹنے والے ”عقاب“ کی طرح اِس حکمران نے ”مشرق“ سے آکر بابل پر ایک ہی رات میں قبضہ کر لیا۔
بابل میں یہودیوں کے لئے خورس کی فتح کا مطلب اسیری سے رہائی اور اُن کے وطن کی ۷۰ سالہ ویرانی کا خاتمہ تھا جسکا وہ طویل عرصے سے انتظار کر رہے تھے۔ ذرا اُنکی خوشی کا تصور کریں جب خورس نے یہ اعلان کِیا ہوگا کہ وہ واپس یروشلیم جا کر ہیکل کو دوبارہ تعمیر کر سکتے ہیں! خورس نے ہیکل کے وہ قیمتی ظروف بھی اُنہیں لوٹا دئے جنہیں نبوکدنضر بابل لے آیا تھا، اُس نے لبنان سے لکڑی درآمد کرنے کا حکم صادر کِیا اور تعمیراتی اخراجات کو پورا کرنے کیلئے شاہی خزانے سے امداد کی منظوری بھی دے دی۔—عزرا ۱:۱-۱۱؛ ۶:۳-۵۔
خورس عام طور پر اپنے مفتوحوں کے ساتھ شائستگی اور بُردباری سے پیش آتا تھا۔ اِس کی ایک وجہ اُس کا مذہب ہو سکتا ہے۔ خورس غالباً فارسی نبی زرتشت کی تعلیمات کا معتقد تھا اور آہورا مزدا کا پرستار تھا جسے نیکی کا دیوتا خیال کِیا جاتا ہے۔ فرہنگ مہر اپنی کتاب دی زوراسٹریئن ٹریڈیشن میں لکھتا ہے: ”زرتشت نے خدا کو اخلاقی کاملیت کے طور پر پیش کِیا۔ اُس نے لوگوں پر واضح کِیا کہ آہورا مزدا انتقامپسند ہونے کی بجائے انصافپسند ہے لہٰذا اُس سے خوفزدہ ہونے کی بجائے اُس سے محبت کی جانی چاہئے۔“ غالباً ایک بااخلاق اور انصافپسند معبود پر ایمان نے خورس کی اخلاقیت پر گہرا اثر کِیا ہوگا اور اُس میں اخلاقی عظمت اور انصافپسندی جیسی صفات پیدا کی ہونگی۔
تاہم، بادشاہ کے لئے بابل کا موسم ناقابلِبرداشت تھا۔ گرمیوں کا موسم تو اُس کی توقع سے بھی زیادہ سخت تھا۔ لہٰذا، حکومت کا خسروانہ شہر، مذہبی اور ثقافتی مرکز ہونے کے باوجود بابل کی حیثیت بادشاہ کے زمستانی دارالسلطنت سے زیادہ نہیں تھی۔ درحقیقت، بابل کو فتح کرنے کے بعد، خورس فوراً اپنے تابستانی دارالسلطنت، اکبتانا کو لوٹ گیا جو سطحسمندر سے ۶،۰۰۰ فٹ سے بھی زیادہ کی بلندی پر کوۂالوند کے دامن میں واقع تھا۔ یہاں کا موسمِسرما اور خوشگوار موسمِگرما اُسے بہت پسند تھا۔ خورس نے اکبتانا کے ۶۵۰ کلومیٹر جنوبمشرق میں، اپنے پہلے دارالسلطنت، پسرگاڈیا (پرسیپولس کے نزدیک) میں ایک عالیشان محل بھی تعمیر کرایا۔ خلوت اور تحفظ کیلئے وہ یہاں قیام کِیا کرتا تھا۔
یوں خورس نے ایک بہادر فاتح اور بُردبار شہنشاہ کے طور پر اپنی یادیں چھوڑیں۔ اُسکی ۳۰ سالہ حکمرانی ۵۳۰ ق.س.ع. میں ایک فوجی مہم کے دوران اُسکی موت کیساتھ ہی ختم ہو گئی۔ اُسکا بیٹا کمبیسیس دوم تختِفارس کا وارث ہوا۔
آپ کیا سمجھے ہیں؟
•خورس فارسی یہوواہ کا ”ممسوح“ کیسے ثابت ہوا؟
•خورس نے یہوواہ کے لوگوں کیلئے کونسا قابلِقدر کام کِیا؟
•خورس اپنے مفتوحوں کیساتھ کیسے پیش آتا تھا؟
[نقشہ]
(تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)
مادیفارسی سلطنت
مقدونیہ
میمفِس
مصر
ایتھیوپیا
یروشلیم
بابل
اکبتانا
سوسا
پرسیپولس
ہندوستان
[تصویر]
پسرگاڈیا میں خورس کا مقبرہ
[تصویر]
پسرگاڈیا کے مقام پر قصرِخورس میں منبتکاری
[صفحہ ۱۶۱-۱۵۳ پر بکس/تصویریں]
ایک جوان بادشاہ کی دُنیا پر فتح
کوئی ۲،۳۰۰ سال قبل سنہرے بالوں والا ایک ۲۰ سالہ فوجی جرنیل بحیرۂروم کے کنارے پر خیمہزن تھا۔ اُسکی نگاہیں کوئی نصف میل دُور جزیرے پر مُرتکز تھیں۔ جب اُسے داخل ہونے کی اجازت نہ ملی تو قہرآلودہ جرنیل نے اُس شہر کو فتح کرنے کی ٹھان لی۔ اُس نے کیا حکمتِعملی اختیار کی؟ اُس نے پانی میں راستہ بنا کر اپنی فوج کو اس جزیرے میں اُتارنے کا فیصلہ کِیا۔ پس، پانی میں راستہ بنانے کا کام شروع ہو گیا۔
تاہم، فارسی سلطنت کے شہنشاہ کے ایک پیغام نے جوان جرنیل کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔ فارسی حکمران نے سمجھوتہ کرنے کے لئے ۱۰،۰۰۰ قنطار سونے (فیزمانہ کوئی دو بلین ڈالر سے زیادہ کی مالیت)، بادشاہ کی بیٹیوں میں سے کسی ایک سے شادی اور فارسی سلطنت کے تمام مغربی حصے پر حکمرانی کی غیرمعمولی پیشکش کر دی۔ یہ پیشکش شاہی خاندان کی واپسی کے عوض تھی جو اِس جرنیل کے قبضے میں تھا۔
اِس پیشکش کو قبول یا رد کرنے کا فیصلہ کرنے والا سپہسالار مقدونیہ کا سکندر سوم تھا۔ کیا اُسے پیشکش کو قبول کر لینا چاہئے؟ مؤرخ آلرک وِلکن کے مطابق، ”یہ قدیم دُنیا کیلئے نہایت اہم اور فیصلہکُن لمحہ تھا۔ واقعی، اُسکے فیصلے کے مابعدی اثرات قرونِوسطیٰ بلکہ ہمارے زمانے تک، مشرقومغرب میں یکساں دکھائی دیتے ہیں۔“ سکندر کے جواب پر غور کرنے سے پہلے آئیے اِس فیصلہکُن لمحے کا سبب بننے والے واقعات کا جائزہ لیں۔
ایک عظیم فاتح کی تعلیموتربیت
سکندر ۳۵۶ ق.س.ع. میں مقدونیہ کے دارالحکومت پیلا میں پیدا ہوا۔ اُس کے والد کا نام فلپ دوم اور اُسکی ماں کا نام اولمپیاس تھا۔ سکندر کی ماں نے اُسے سکھایا کہ مقدونی بادشاہ یونانی دیوتا زیوس کے بیٹے ہرکیولیس کی اولاد ہیں۔ اولمپیاس کے مطابق ہومر کی نظم الئیڈ کا ہیرو آخیلی، سکندر کا جدِامجد تھا۔ اپنے والدین سے فتح اور شاہانہ جاہوجلال کی تربیت پانے کی وجہسے جواںسال سکندر کو دیگر امور میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ایک مرتبہ جب اُس سے اولمپک گیمز میں دوڑ کے مقابلے میں حصہ لینے کیلئے کہا گیا تو اُس نے کہا کہ اگر یہ بادشاہوں کی دوڑ ہے توپھر وہ اِس میں حصہ لیگا۔ وہ اپنے والد سے بھی بڑے کام انجام دینے اور اپنی کامرانیوں کے ذریعے شانوشوکت حاصل کرنے کا متمنی تھا۔
سکندر نے ۱۳ سال کی عمر میں یونانی مفکر ارسطو سے تعلیموتربیت پانا شروع کر دی جس نے اُسے فلسفے، طب اور سائنس میں دلچسپی لینے میں مدد دی۔ تاہم، اسکی بابت وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ارسطو کی فلسفیانہ تعلیمات نے کس حد تک سکندر کی سوچ کو متاثر کِیا تھا۔ بیسویں صدی کے مفکر، برٹرینڈ رسل نے رائےزنی کی کہ ”ہم یقین کیساتھ کہہ سکتے ہیں کہ بیشتر معاملات میں دونوں مختلف نظریات رکھتے تھے۔ ارسطو سیاسی نظریات میں یونانی شہری ریاست کا حامی تھا جو کہ زوالپذیر تھی۔“ اقتدارپسند اور ایک وسیعوعریض سلطنت کا خواب دیکھنے والے شہزادے کو شہری ریاستوں کا نظریہ پسند نہیں ہوگا۔ فاتح اور مفتوح کے مابین ترقیپسندانہ باہمی تعلقات پر مشتمل حکومت قائم کرنے کے خواہاں سکندر کو ارسطو کے اِس اصول سے بھی اختلاف ہوگا کہ غیریونانیوں کیساتھ غلاموں جیسا سلوک کِیا جانا چاہئے۔
تاہم، اِس میں کوئی شک نہیں کہ ارسطو نے سکندر میں پڑھائیلکھائی کا شوق پیدا کِیا تھا۔ سکندر اپنی ساری زندگی پڑھنے کا شوقین رہا۔ وہ بالخصوص ہومر کی تصانیف کا شیدائی تھا۔ ایک خیال کے مطابق اُس نے الئیڈ نامی نظم کے تمام ۱۵،۶۹۳ اشعار زبانی یاد کر لئے تھے۔
ارسطو سے تعلیموتربیت حاصل کرنے کا سلسلہ ۳۴۰ ق.س.ع. میں اچانک ختم ہو گیا کیونکہ ۱۶ سالہ شہزادے کو اپنے والد کی غیرموجودگی میں مقدونیہ کی بھاگڈور سنبھالنے کیلئے واپس پیلا جانا پڑا۔ تاہم، اِس ولیعہد شہزادے نے عسکری معرکہآرائیوں کی بدولت جلد ہی بہت شہرت حاصل کر لی۔ فلپ یہ سنکر بہت خوش ہو گیا تھا کہ سکندر نے تھریس کے سرکش قبیلے میدی کو شکست دیکر اُنکے بڑے شہر پر دفعتہً قبضہ کرکے اُسے اپنے نام پر سکندرپلس کا نام دے دیا ہے۔
فتوحات کا آغاز
سکندر ۳۳۶ ق.س.ع. میں اپنے باپ فلپ کے قتل کے باعث ۲۰ سال کی عمر میں ہی مقدونیہ کے تخت کا وارث بن گیا۔ سکندر نے ۳۳۴ ق.س.ع. کے موسمِبہار میں ہیلسپانٹ (موجودہ دردانیال) کے مقام سے ایشیا میں داخل ہو کر ۳۰،۰۰۰ پیادوں اور ۵،۰۰۰ گھڑسواروں کی چھوٹی مگر نہایت تیزطرار فوج کیساتھ اپنی فتوحات کی مہم کا آغاز کِیا۔ اُسکی فوج کیساتھ انجینیئر، مساحتدان، ماہرِتعمیرات، سائنسدان اور مؤرخ بھی تھے۔
سکندر نے ایشیائےکوچک (موجودہ ترکی) کے شمالمغربی خطے میں دریائےگرنیکس کے مقام پر فارسیوں کے خلاف پہلی جنگ میں فتح حاصل کی۔ اُسی موسمِسرما میں اُس نے مغربی ایشیائےکوچک کو فتح کر لیا۔ اس کے بعد موسمِخزاں میں فارسیوں کیساتھ دوسری فیصلہکُن جنگ ایشیائےکوچک کے جنوبمشرقی خطے میں اسس کے مقام پر لڑی گئی۔ عظیم فارسی بادشاہ دارا سوم کوئی پانچ لاکھ فوجی لیکر سکندر سے لڑنے کیلئے وہاں آیا۔ دارا حد سے زیادہ پُراعتماد ہو کر اپنی والدہ، بیوی اور شاہی خاندان کے دیگر اراکین کو بھی اپنے ساتھ لایا تاکہ وہ ایک قابلِدید فتح کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔ مگر فارسی مقدونیوں کے اچانک اور شدید حملے کے لئے تیار نہیں تھے۔ سکندر کی فوج نے فارسی فوج کو بڑی بُری شکست دی جس سے دارا اپنے خاندان کو سکندر کے رحموکرم پر چھوڑ کر میدانِجنگ سے بھاگ نکلا۔
سکندر بھاگنے والے فارسیوں کا پیچھا کرنے کی بجائے بحیرۂروم کے ساحل کے ساتھ ساتھ زورآور فارسیوں کے بحری ٹھکانوں کو فتح کرتا ہوا جنوب کی طرف نکل گیا۔ لیکن صور کے جزیرے نے مزاحمت کی۔ سکندر نے اُسے فتح کرنے کے عزم کیساتھ اُسکا محاصرہ کر لیا جو سات ماہ قائم رہا۔ اسی محاصرے کے دوران دارا نے امن کے معاہدے کیلئے پیشکش کی جسکا پہلے ذکر کِیا گیا ہے۔ یہ پیشکش اسقدر دلکش تھی کہ سکندر کے ایک قابلِاعتماد مشیر پارمینیو نے کہا کہ ’اگر مَیں سکندر ہوتا تو یہ پیشکش قبول کر لیتا۔‘ لیکن جواںسال جرنیل نے جواب دیا: ’ہاں مَیں بھی قبول کر لیتا، اگر مَیں پارمینیو ہوتا۔‘ سکندر نے مصالحت سے انکار کرتے ہوئے محاصرہ جاری رکھا اور جولائی ۳۳۲ ق.س.ع. میں سمندروں پر حکومت کرنے والے متکبر صور کو تباہوبرباد کر دیا۔
یروشلیم نے سکندر کی اطاعت اختیار کر لی تھی لہٰذا سکندر اِسے چھوڑ کر غزہ کو فتح کرتا ہوا جنوب کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ فارسی تسلط سے تنگ مصر نے اُسے آزادی بخشنے والے کے طور پر خوشآمدید کہا۔ اُس نے میمفس کے مقام پر مصری پجاریوں کو خوش کرنے کی غرض سے ایپس بیل (مُقدس بیل) کیلئے قربانیاں چڑھائیں۔ اُس نے سکندریہ کے شہر کی بھی بنیاد ڈالی جو بعدازاں علموہنر کے میدان میں اتھینے کا مدِمقابل بن گیا اور آج تک اُسی کے نام سے قائم ہے۔
اِسکے بعد، سکندر نے شمالمشرق کا رُخ کِیا اور فلستین سے ہوتا ہوا دریائےدجلہ کی طرف چلا گیا۔ اُس نے ۳۳۱ ق.س.ع. میں نینوہ کے کھنڈرات کے قریب گاگےمیلا (اربیلا) کے مقام پر فارسیوں کے خلاف تیسری بڑی جنگ لڑی۔ اِس مقام پر فارسیوں کی ازسرِنو منظم ہونے والی ۲،۵۰،۰۰۰ سپاہیوں پر مشتمل فوج کو سکندر کے ۴۷،۰۰۰ سپاہیوں کے ہاتھوں شکستفاش ہوئی۔ دارا جان بچا کر میدانِجنگ سے بھاگ نکلا لیکن بعدازاں اپنے ہی آدمیوں کے ہاتھوں قتل ہو گیا۔
فتح کے جوش میں سکندر نے جنوب کا رُخ کِیا اور فارس کے زمستانی دارالحکومت بابل پر قبضہ کر لیا۔ اُس نے سوسا اور پرسیپولس کے دارالحکومتوں پر قبضہ کرکے فارسیوں کی بےپناہ دولت پر قبضہ کر لیا اور اخسویرس (خشایارشا) کے عظیم محل کو نذرِآتش کر دیا۔ آخر میں، دارالحکومت اکبتانا بھی اُسکے آگے زیر ہو گیا۔ اِسکے بعد یہ تیزرفتار فاتح فارس کی باقی سلطنت کو زیر کرتا ہوا مشرق کی طرف موجودہ پاکستان میں دریائےسندھ تک پہنچ گیا۔
دریائےسندھ کو عبور کرنے کے بعد، فارسی سلطنت کے صوبے کے سرحدی علاقے ٹیکسلا کے نزدیک سکندر کا ایک ہیبتناک دشمن، ہندوستانی راجا پورس سے ٹکراؤ ہوا۔ سکندر نے راجا پورس کے خلاف ۳۲۶ ق.س.ع. میں اپنی چوتھی اور آخری بڑی جنگ لڑی۔ پورس کی فوج میں ۳۵،۰۰۰ سپاہی اور ۲۰۰ ہاتھی شامل تھے جنہوں نے مقدونی گھوڑوں کو خوفزدہ کر دیا تھا۔ تاہم، بڑی خونریز اور گھمسان کی لڑائی کے بعد سکندر کی فوجوں کو فتح حاصل ہوئی۔ پورس شکست کھا کر سکندر کا حلیف بن گیا۔
مقدونی فوج کو ایشیا میں آٹھ سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا تھا اور مختلف جنگیں لڑتے لڑتے تھک کر چُور ہو جانے کے ساتھ ساتھ سپاہیوں کو وطن کی یاد بھی بہت ستا رہی تھی۔ راجا پورس کے ساتھ شدید جنگ سے بےحوصلہ ہو کر وہ اپنے وطن لوٹ جانا چاہتے تھے۔ سکندر تو واپس جانا نہیں چاہتا تھا مگر پھربھی اُس نے اُنکی خواہشات کے سامنے سر جھکا دیا۔ بیشک یونان عالمی طاقت بن چکا تھا۔ مفتوحہ علاقوں میں یونانی آبادیوں کے قیام کی وجہ سے پوری سلطنت یونانی زبان اور ثقافت کا گہوارہ بن گئی۔
جنگجو مرد کی شخصیت
سکندر کی شخصیت نے سالہاسال کی فتوحات کے دوران مقدونی فوج کو متحد رکھا۔ جنگ کے بعد سکندر اپنے دستور کے موافق زخمیوں کی خبرگیری کیلئے جا کر اُنکے زخموں کا جائزہ لیتا، سپاہیوں کی بہادری کی تعریف کرتا اور اُن کی کامرانیوں کے مطابق اُنہیں انعامواکرام سے بھی نوازتا تھا۔ جنگ میں ہلاک ہونے والوں کیلئے شاندار تجہیزوتکفین کا بندوبست بھی کرتا تھا۔ لڑائی میں ہلاک ہونے والے سپاہیوں کے والدین اور بچوں کو ہر قسم کے ٹیکس اور خدمات سے مستثنیٰ قرار دے دیا جاتا تھا۔ جنگوں کے بعد دل بہلانے کیلئے سکندر کھیلوں اور مقابلوں کا انعقاد بھی کرتا تھا۔ ایک مرتبہ تو اُس نے اپنے نوبیاہتا سپاہیوں کو رُخصت پر بھیج دیا تاکہ وہ مقدونیہ میں اپنی بیویوں کیساتھ سردیوں کا موسم گزار سکیں۔ ایسے کاموں کی بدولت اُسے اپنے لوگوں کی محبت اور احترام حاصل تھا۔
باختری شہزادی رُخسانہ (روشنک) سے شادی کے سلسلے میں یونانی سوانحنگار پلوترخ لکھتا ہے: ”یہ شادی یقیناً اُنکی محبت کا نتیجہ تھی لیکن یہ اُسکے مقصد کی تکمیل کیلئے بھی ضروری تھی۔ اُسکی مفتوح رعایا یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئی کہ اُس نے اُن میں سے اپنے لئے بیوی کا انتخاب کِیا ہے اور جب اُنہیں یہ معلوم ہوا کہ شہزادی سے والہانہ محبت کرنے کے باوجود اِس بااخلاق شخص نے اُسے باعزت اور جائز طریقے سے حاصل کر لینے تک ضبطِنفس سے کام لیا ہے تو اُن کے دلوں میں اُس کیلئے اَور بھی زیادہ محبت پیدا ہو گئی۔“
سکندر دوسروں کی شادی کا بھی احترام کرتا تھا۔ اگرچہ دارا بادشاہ کی بیوی اُسکی اسیر تھی توبھی اُس نے اِس بات کا لحاظ رکھا کہ اُسکے ساتھ باعزت سلوک کِیا جائے۔ اِسی طرح، جب اُسے علم ہوا کہ دو مقدونی سپاہیوں نے بعض اجنبیوں کی بیویوں کو بےحرمت کِیا ہے تو اُس نے حکم صادر کر دیا کہ جُرم ثابت ہونے پر اُنکا سر قلم کر دیا جائے۔
اپنی ماں اولمپیاس کی طرح، سکندر بھی بڑا مذہبی شخص تھا۔ وہ جنگ سے پہلے اور بعد میں قربانی چڑھاتا اور بعض شگونوں کا مطلب جاننے کیلئے غیبدانوں سے مشورہ کرتا تھا۔ اُس نے لبیا میں آمون کے دارالاستخارہ سے بھی راہنمائی حاصل کی۔ اِسکے علاوہ بابل میں اُس نے کلدانیوں کی ہدایات کے مطابق بالخصوص دیوتا بیل (مردوک) کے لئے قربانی چڑھائی۔
سکندر کھانےپینے کی عادات میں اعتدالپسند ہونے کے باوجود آخری دور میں شرابنوشی کرنے لگ گیا تھا۔ وہ ہر جام پر بسیارگوئی سے کام لیتے ہوئے اپنی کامرانیوں پر بڑی شیخی بھگارتا تھا۔ سکندر کا سب سے بُرا کام اپنے قریبی دوست قلیطس کا قتل تھا جو اُس نے نشے کی حالت میں کِیا تھا۔ لیکن سکندر اپنی اِس حرکت پر اسقدر پشیمان تھا کہ وہ تین دن تک اپنے خلوتخانے سے نہ باہر نکلا اور نہ ہی کچھ کھایاپیا۔ بالآخر، اُسکے رفیق اُسے کھانا کھلانے میں کامیاب ہو گئے۔
جاہوجلال کی ہوس نے وقت گزرنے کیساتھ ساتھ سکندر میں اَور بھی کئی ناپسندیدہ خصلتیں پیدا کر دی تھیں۔ اُس نے کانوں کا کچا ہونے کی وجہ سے جھوٹے الزامات کا یقین کرنا اور لوگوں کو بڑی سخت سزائیں دینا شروع کر دیں۔ مثال کے طور پر، جب اُسے یہ یقین دلایا گیا کہ فیلوتاس اُسکے قتل کی سازش میں شامل تھا تو سکندر نے اُسے اور اُسکے والد پارمینیو کو قتل کروا دیا جو اُسکا قابلِبھروسا مشیر تھا۔
سکندر کی شکست
سکندر بابل میں آنے کے تھوڑی ہی دیر بعد ملیریے بخار سے جانبر نہ ہو سکا۔ سکندر نے صرف ۳۲ سال اور ۸ ماہ کی عمر میں جون ۱۳، ۳۲۳ ق.س.ع. کو نہایت ہی خوفناک دُشمن موت کے سامنے ہتھیار ڈال دئے۔
ہندوستان کے بعض دانشوروں کی یہ بات واقعی سچ ثابت ہوئی تھی: ”اَے سکندر بادشاہ، جس جگہ تُو کھڑا ہے ہر انسان کو صرف اُتنی ہی زمین نصیب ہوتی ہے؛ تُو بھی دوسروں کی طرح عام انسان ہی ہے جو جوشوولولے سے سرشار ہوکر اپنے وطن سے دُور، اپنی اور دوسروں کی جان جوکھوں میں ڈالے ہوئے تمام زمین پر سرگرداں ہے۔ لیکن تھوڑی دیر بعد تُو جہانِفانی سے رُخصت ہو جائیگا اور زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہی تیرے ہاتھ آئیگا۔“
آپ کیا سمجھے ہیں؟
•سکندرِاعظم کا پسمنظر کیا تھا؟
•مقدونیہ کا تخت حاصل کرنے کے فوراً بعد سکندر نے کس مہم کا آغاز کِیا؟
•سکندر کی بعض فتوحات کا حال بیان کیجئے۔
•سکندر کی شخصیت کی بابت کیا کہا جا سکتا ہے؟
[نقشہ]
(تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)
سکندر کی فتوحات
مقدونیہ
مصر
بابل
دریائےسندھ
[تصویر]
سکندر
[تصویر]
ارسطو اور اُسکا شاگرد سکندر
[پورے صفحے پر تصویر ہے]
[تصویر]
ایک تمغا جس پر سکندرِاعظم کی تصویر کندہ ہے
[صفحہ ۱۶۲،۱۶۳ پر بکس/تصویریں]
ایک وسیع سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا
بائبل نے سکندرِاعظم کی سلطنت کے زوال اور تقسیم کی پیشینگوئی کرنے کے علاوہ یہ بھی بتا دیا تھا کہ یہ ’اُسکی نسل کو نہیں ملیگی۔‘ (دانیایل ۱۱:۳، ۴) چنانچہ، ۳۲۳ ق.س.ع. میں سکندر کی اچانک موت کے بعد صرف ۱۴ سال کے اندر اُس کے جائز بیٹے سکندر چہارم اور ناجائز بیٹے ہیراکلیز کو قتل کر دیا گیا۔
سکندر کے چار جرنیل ۳۰۱ ق.س.ع. تک اپنے سپہسالار کی قائمکردہ وسیعوعریض سلطنت پر قابض ہو گئے۔ جرنیل کسندر نے مقدونیہ اور یونان پر قبضہ کر لیا۔ ایشیائےکوچک اور تھریس جرنیل لاسیماکس کے ہاتھ لگ گئے۔ سلوکس اوّل نکاتر کے حصے مسوپتامیہ اور سوریہ آیا۔ اِسی طرح بطلیموس لاگس یا بطلیموس اوّل مصر اور فلستین کا حاکم بن گیا۔ یوں سکندر کی ایک عظیم سلطنت چار ہیلیانی یا یونانی سلطنتوں میں بٹ گئی۔
چاروں ہیلیانی سلطنتوں میں کسندر کا دورِحکومت سب سے کم رہا۔ کسندر کے اقتدار میں آنے کے چند ہی سال بعد اُسکی نرینہ نسل ختم ہو گئی اور ۲۸۵ ق.س.ع. میں لاسیماکس نے یونانی سلطنت کے یورپی حصے کا اختیار سنبھال لیا۔ اِس کے چار سال بعد لاسیماکس اپنے حریف سلوکس اوّل نکاتر کیخلاف جنگ میں مارا گیا جس سے سلوکس بیشتر ایشیائی علاقوں پر قابض ہو گیا۔ یوں سلوکس سوریہ میں سلوکی بادشاہوں میں سے پہلا بادشاہ بنا۔ اُس نے سوریہ میں انطاکیہ کی بنیاد ڈالی اور اُسے اپنا نیا دارالسلطنت بنا لیا۔ سلوکس کے ۲۸۱ ق.س.ع. میں قتل ہو جانے کے باوجود اُسکا خاندان ۶۴ ق.س.ع. تک حکومت کرتا رہا جسکے بعد رومی جرنیل پومپی نے سوریہ کو روم کا صوبہ بنا لیا۔
سکندر کی سلطنت کے چاروں حصوں میں سے بطلیموسی سلطنت زیادہ عرصہ قائم رہی۔ بطلیموس اوّل ۳۰۵ ق.س.ع. میں بادشاہ کا لقب اختیار کرکے مقدونی بادشاہوں میں سے پہلا بادشاہ یا مصری فرعون بن گیا۔ اُس نے سکندریہ کو دارالسلطنت بنانے کے فوراً بعد شہری ترقیاتی منصوبوں پر توجہ دی۔ سکندریہ کا مشہور کُتبخانہ اُس کے بڑےبڑے تعمیراتی پروجیکٹس میں سے ایک تھا۔ اِس عظیم پروجیکٹ کی نگرانی کیلئے بطلیموس نے یونان سے ایک مشہور اتھینی عالم، دیمیتریس فالیریوس کو بلوایا۔ ایک رپورٹ کے مطابق، پہلی صدی س.ع. تک اِس کُتبخانے میں ایک ملین طومار تھے۔ بطلیموسی خاندان ۳۰ ق.س.ع. میں روم سے شکست کھانے تک مصر پر حکومت کرتا رہا۔ اِسکے بعد روم نے عالمی طاقت کے طور پر یونان کی جگہ لے لی۔
آپ کیا سمجھے ہیں؟
•سکندر کی وسیعوعریض سلطنت کا شیرازہ کیسے بکھر گیا؟
•سلوکی خاندانِسلاطین کب تک سوریہ پر حکومت کرتا رہا؟
•مصر پر بطلیموسی سلطنت کا خاتمہ کب ہوا؟
[نقشہ]
(تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)
سکندر کی سلطنت کا بٹوارا
کسندر
لاسیماکس
بطلیموس اوّل
سلوکس اوّل
[تصویریں]
بطلیموس اوّل
سلوکس اوّل
[صفحہ ۱۳۹ پر ڈائیگرام/تصویر]
(تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)
دانیایل کی پیشینگوئی کے مطابق عالمی طاقتیں
بڑی مورت (دانیایل ۲:۳۱-۴۵)
سمندر سے نکلنے والے چار حیوان (دانیایل ۷:۳-۸، ۱۷، ۲۵)
بابل ۶۰۷ ق۔س۔ع سے
مادیفارس ۵۳۹ ق.س.ع. سے
یونان ۳۳۱ ق.س.ع. سے
روم ۳۰ ق.س.ع. سے
اینگلوامریکن عالمی طاقت ۱۷۶۳ س.ع. سے
آخری زمانے میں سیاسی طور پر منقسم دُنیا
[صفحہ ۱۲۸ پر صرف تصویر ہے]
[صفحہ ۱۴۷ پر صرف تصویر ہے]