سولہواں باب
”آپس میں بڑی محبت رکھو“
۱. جب لوگ پہلی بار یہوواہ کے گواہوں کے اجلاسوں پر حاضر ہوتے ہیں تو وہ کس بات سے متاثر ہوتے ہیں؟
جب لوگ پہلی مرتبہ یہوواہ کے گواہوں کے اجلاسوں پر حاضر ہوتے ہیں تو وہ وہاں کے پُرمحبت ماحول کو دیکھ کر بہت متاثر ہوتے ہیں۔ جب گرمجوشی سے اُن کا استقبال کِیا جاتا ہے اور وہ دیکھتے ہیں کہ یہوواہ کے گواہ آپس میں کتنی محبت رکھتے ہیں تو اُنہیں اس محبت کا احساس ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح جو لوگ پہلی بار یہوواہ کے گواہوں کے کنونشن پر حاضر ہوتے ہیں وہ بھی بہت متاثر ہوتے ہیں۔ ایک صحافی نے ایک ایسے کنونشن کے بارے میں لکھا: ”وہاں کوئی نشے میں نہیں تھا۔ نہ دھکم پیل تھی اور نہ ہی غل مچایا جا رہا تھا۔ نہ گالیگلوچ تھی اور نہ ہی کوئی گندے فقرے کس رہا تھا۔ کوئی سگریٹ نہیں پی رہا تھا۔ کوئی چوری نہیں کر رہا تھا۔ کوئی میدان میں خالی بوتلیں اور ڈبے نہیں پھینک رہا تھا۔ مَیں تو بالکل حیران تھا۔“ ایسا ماحول ایک ایسی محبت کا ثبوت دیتا ہے جس کے بارے میں پاک صحائف میں لکھا ہے کہ وہ ”نازیبا کام نہیں کرتی۔ اپنی بہتری نہیں چاہتی۔“—۱-کرنتھیوں ۱۳:۴-۸۔
۲. (ا) وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری محبت کے بارے میں کیا ثابت ہونا چاہئے؟ (ب) یسوع کی مثال پر عمل کرتے ہوئے ہمیں ایک دوسرے کے لئے کس حد تک محبت ظاہر کرنی چاہئے؟
۲ محبت سچے مسیحیوں کی پہچان ہے۔ (یوحنا ۱۳:۳۵) جوں جوں ہم خدا کے نزدیک ہوتے جائیں گے ہماری محبت بھی بڑھتی جائے گی۔ پولس رسول نے اپنے مسیحی بہنبھائیوں کے لئے دُعا کی کہ اُن کی محبت ”اَور بھی زیادہ ہوتی جائے۔“ (فلپیوں ۱:۹) یوحنا رسول نے کہا کہ مسیحیوں کی محبت اس سے ظاہر ہونی چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کے لئے قربانیاں دینے کو تیار ہوں۔ اُس نے لکھا: ”ہم نے محبت کو اِسی سے جانا ہے کہ [خدا کے بیٹے] نے ہمارے واسطے اپنی جان دے دی اور ہم پر بھی بھائیوں کے واسطے جان دینا فرض ہے۔“ (۱-یوحنا ۳:۱۶؛ یوحنا ۱۵:۱۲، ۱۳) کیا ہم اپنے کسی مسیحی بھائی یا بہن کے لئے واقعی اپنی جان دینے کو تیار ہیں؟ یہ ایک بہت ہی بڑی بات ہے اور ایسا کرنے کی ضرورت کم ہی پڑتی ہے۔ لیکن کیا ہم چھوٹی باتوں میں بھی اپنے مسیحی بہنبھائیوں کے لئے قربانیاں دینے کو تیار ہیں؟ کیا ہم اُس وقت بھی اُن کی مدد کرنے کو تیار ہیں جب ایسا کرنا ہمارے لئے مشکل ہوتا ہے؟
۳. (ا) رومیوں ۱۲:۱۰ کے مطابق ہم اپنی محبت کو کیسے بڑھا سکتے ہیں؟ (ب) اس زمانے میں آپس میں محبت رکھنا اتنا اہم کیوں ہے؟
۳ مسیحی بہنبھائیوں کی خاطر قربانیاں دینے کے لئے تیار ہونے کے علاوہ ہمیں اپنے دل میں اُن کے لئے پیار بھی پیدا کرنا چاہئے۔ خدا کے کلام میں یوں تاکید کی گئی ہے: ”برادرانہ محبت سے آپس میں ایک دوسرے کو پیار کرو۔“ (رومیوں ۱۲:۱۰) یہ بات سچ ہے کہ ہمارے دل میں فطری طور پر کچھ لوگوں کے لئے پیار ہوتا ہے۔ لیکن کیا ہم اپنے دل میں دوسرے لوگوں کے لئے بھی پیار پیدا کر سکتے ہیں؟ دُنیا کا خاتمہ نزدیک ہے اس لئے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اپنے مسیحی بہنبھائیوں کے زیادہ نزدیک ہوتے جائیں۔ خدا کے کلام میں لکھا ہے: ”سب چیزوں کا خاتمہ جلد ہونے والا ہے۔ . . . سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ آپس میں بڑی محبت رکھو کیونکہ محبت بہت سے گُناہوں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔“—۱-پطرس ۴:۷، ۸۔
جب مسیحیوں کے درمیان مسئلے کھڑے ہوتے ہیں
۴. (ا) مسیحیوں میں کبھیکبھار مسئلے کیوں کھڑے ہوتے ہیں؟ (ب) ایسی صورتحال میں پاک صحائف کی ہدایات پر عمل کرنے کے کونسے فائدے ہوتے ہیں؟
۴ ہم سب نے گُناہ کرنے کا رُجحان ورثے میں پایا ہے اس لئے ہم سے کبھیکبھار ایسی بات ہو جاتی ہے جس سے ہمارے بہنبھائیوں کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ اسی طرح ہمارے مسیحی بہنبھائی بھی کبھیکبھار کوئی ایسی بات کرتے ہیں جس سے ہمارے دل کو چوٹ لگتی ہے۔ (۱-یوحنا ۱:۸) ایسی صورتحال میں آپ کا ردِعمل کیا ہونا چاہئے؟ پاک صحائف میں اس سلسلے میں بہت سی ہدایات پائی جاتی ہیں۔ لیکن ناراضگی کی حالت میں شاید ہمارا دل ان پر عمل کرنے کو راضی نہ ہو۔ (رومیوں ۷:۲۱-۲۳) اس کے باوجود اگر ہم پاک صحائف میں دی گئی ہدایات پر عمل کریں گے تو ہم ثابت کریں گے کہ ہم یہوواہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے دل میں اپنے مسیحی بہنبھائیوں کے لئے محبت بھی بڑھ جائے گی۔
۵. اگر کوئی ہمیں ٹھیس پہنچاتا ہے تو ہمیں بدلہ کیوں نہیں لینا چاہئے؟
۵ اگر ایک شخص کو ٹھیس پہنچائی جائے تو اکثر وہ بدلہ لینے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن ایسا کرنے سے معاملہ زیادہ سنگین ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہوواہ خدا ہی بدلہ لینے کا حق رکھتا ہے۔ (امثال ۲۴:۲۹؛ رومیوں ۱۲:۱۷-۲۱) بعض لوگ اُس شخص سے کنارہ کرنے لگتے ہیں جس نے اُن سے زیادتی کی ہے۔ لیکن یاد رکھیں کہ یہوواہ خدا ہماری عبادت تب ہی قبول کرتا ہے جب ہم اپنے مسیحی بہنبھائیوں کے لئے محبت ظاہر کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ (۱-یوحنا ۴:۲۰) اس وجہ سے پولس رسول نے لکھا: ”اگر کسی کو دوسرے کی شکایت ہو تو ایک دوسرے کی برداشت کرے اور ایک دوسرے کے قصور معاف کرے۔ جیسے [یہوواہ] نے تمہارے قصور معاف کئے ویسے ہی تُم بھی کرو۔“ (کلسیوں ۳:۱۳) کیا آپ اس ہدایت پر عمل کرنے کو تیار ہیں؟
۶. (ا) ہمیں ایک دوسرے کو کتنی بار معاف کرنا چاہئے؟ (ب) کس بات کو تسلیم کرنے سے ہمارے لئے اپنے بھائیوں کے قصور معاف کرنا زیادہ آسان ہو جائے گا؟
۶ فرض کریں کہ ایک مسیحی آپ کو بار بار ٹھیس پہنچاتا ہے لیکن وہ کوئی ایسی بات نہیں کر رہا ہوتا جس کے لئے اُسے کلیسیا سے خارج کِیا جا سکے۔ اس صورتحال میں آپ کو کیا کرنا چاہئے؟ پطرس رسول کا خیال تھا کہ ہمیں اپنے بھائی کو ”سات بار تک“ معاف کر دینا چاہئے۔ لیکن یسوع مسیح نے کہا: ”مَیں تجھ سے یہ نہیں کہتا کہ سات بار بلکہ سات دفعہ کے ستر بار تک۔“ پھر اُس نے تمثیل دیتے ہوئے واضح کِیا کہ چاہے کسی نے ہمارے خلاف کتنے ہی قصور کئے ہوں، ہم اس سے کہیں زیادہ خدا کے قصوروار ہیں۔ (متی ۱۸:۲۱-۳۵) ہم تو روزانہ ہی گناہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم باتوں، خیالوں یا پھر کسی بات میں کوتاہی کرنے سے گناہ کرتے ہیں اور اکثر ہمیں اس بات کا احساس بھی نہیں ہوتا کہ ہم نے خدا کے حکم کی خلافورزی کی ہے۔ (رومیوں ۳:۲۳) اس کے باوجود خدا رحیم ہے اور ہمیں بار بار معاف کر دیتا ہے۔ (زبور ۱۰۳:۱۰-۱۴؛ ۱۳۰:۳، ۴) اور وہ اس بات کی توقع رکھتا ہے کہ ہم بھی ایک دوسرے کے ساتھ ایسا ہی سلوک کریں۔ (متی ۶:۱۴، ۱۵؛ افسیوں ۴:۱-۳) اپنے مسیحی بہنبھائیوں کے قصور معاف کرنے سے ہم ایک ایسی محبت ظاہر کرتے ہیں جو ”بدگمانی نہیں کرتی۔“ اس کا مطلب ہے کہ ہم دوسروں کی کوتاہیوں کا حساب نہیں رکھتے۔—۱-کرنتھیوں ۱۳:۴، ۵؛ ۱-پطرس ۳:۸، ۹۔
۷. اگر ہم محسوس کرتے ہیں کہ ایک مسیحی ہم سے خفا ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟
۷ اگر ہمیں محسوس ہو کہ ایک مسیحی ہم سے خفا ہے حالانکہ ہمارا دل اُس کی طرف سے صاف ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ ایسی صورت میں ہم اپنے مسیحی بھائی یا بہن کے رویہ کو نظرانداز کرنے یعنی اس پر بڑی محبت سے ’پردہ ڈالنے‘ کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ (۱-پطرس ۴:۸) یا پھر ہم اُس سے پوچھ سکتے ہیں کہ وہ ہم سے کیوں خفا ہے اور پھر اس کو راضی کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔—متی ۵:۲۳، ۲۴۔
۸. اگر ایک مسیحی کوئی ایسی بات کرے جو ہمیں بُری لگتی ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
۸ ہو سکتا ہے کہ ایک مسیحی کوئی ایسی بات یا حرکت کرے جو نہ صرف آپ کو بلکہ دوسروں کو بھی بُری لگے۔ اس صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ یہ صحیح ہے کہ ہم بڑی نرمی سے اِسے اس بات کا احساس دلا سکتے ہیں کہ دوسرے اُس کی حرکت کو پسند نہیں کرتے۔ لیکن ایسا کرنے سے پہلے، خود سے پوچھیں کہ ”کیا یہ مسیحی واقعی کوئی ایسا کام کر رہا ہے جس سے پاک صحائف میں منع کِیا گیا ہے؟ یا پھر کیا اُس کی حرکت مجھے صرف اس لئے بُری لگتی ہے کیونکہ میرا پسمنظر اُس کے پسمنظر سے مختلف ہے اور میرے والدین نے مجھے فرق تربیت دی ہے؟“ خبردار رہیں کہ کہیں آپ اپنے معیار قائم کرکے دوسروں کو ان پر چلنے پر مجبور نہ کریں۔ (یعقوب ۴:۱۱، ۱۲) یاد رکھیں کہ ایک مسیحی کا پسمنظر چاہے کیسا بھی ہو یہوواہ خدا صبر سے کام لیتا ہے اور اُس کو روحانی طور پر ترقی کرنے کا موقع دیتا ہے۔
۹. (ا) اگر ایک مسیحی سنگین گناہ کرتا ہے تو اس سے نپٹنے کی ذمہداری کس پر پڑتی ہے؟ (ب) کن معاملوں سے نپٹنے کی ذمہداری اُس مسیحی پر پڑتی ہے جو زیادتی کا شکار ہوا ہے؟ (پ) متی ۱۸:۱۵-۱۷ کی ہدایات پر عمل کرتے وقت ہمیں کس کوشش میں رہنا چاہئے؟
۹ اگر ایک مسیحی زِنا جیسا سنگین گناہ کرتا ہے تو اس معاملے سے نپٹنے کی ذمہداری کلیسیا کے بزرگوں پر پڑتی ہے۔ (یعقوب ۵:۱۴، ۱۵) لیکن کئی ایسے معاملے بھی ہیں جن سے نپٹنے کی ذمہداری اُس مسیحی پر پڑتی ہے جو زیادتی کا شکار ہو۔ مثلاً کاروبار کے سلسلے میں اگر اختلافات پیدا ہو جائیں یا پھر جب کوئی ہمارے بارے میں غلط خبر پھیلائے وغیرہ۔ اس صورت میں ہمیں جا کر اُس بہن یا بھائی کے ساتھ اکیلے میں اس معاملے کے بارے میں بات کرنی چاہئے۔ (متی ۱۸:۱۵) لیکن اگر ایسا کرنے سے معاملہ حل نہیں ہوتا تو ہمیں ان ہدایات پر عمل کرنا چاہئے جو متی ۱۸:۱۶، ۱۷ میں دی گئی ہیں۔ چونکہ ہم اس مسیحی سے محبت رکھتے ہیں اور اُس کو ’پا لینا‘ چاہتے ہیں اس لئے ہم اِن اقدام کو اُٹھاتے وقت اُس کے دل کو جیتنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔—امثال ۱۶:۲۳۔
۱۰. جب مسیحیوں کے درمیان مسئلہ کھڑا ہوتا ہے تو اُنہیں کیا کرنا چاہئے؟
۱۰ اگر مسیحیوں کے درمیان مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے تو چاہے یہ کوئی معمولی سی بات ہو یا کوئی بڑی بات، اُن کو اس سلسلے میں یہوواہ خدا کی سوچ اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یہوواہ خدا کسی قسم کے گناہ کو پسند نہیں کرتا۔ جو لوگ سنگین گناہ کرتے رہتے ہیں اور تائب نہیں ہوتے اُن کو آخرکار کلیسیا سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ہم سب چھوٹے موٹے گناہ کر بیٹھتے ہیں اور یہوواہ ہم پر رحم کرتا اور ہمارے ساتھ صبر سے پیش آتا ہے۔ ایسا کرنے سے یہوواہ خدا ہمارے لئے ایک نمونہ قائم کرتا ہے۔ جب کوئی ہمارا گنہگار ہوتا ہے تو ہمیں اُس کے ساتھ اس نمونے کے عین مطابق پیش آنا چاہئے۔ جیہاں، دوسروں کو معاف کرنے سے ہم یہوواہ خدا کی محبت کی عکاسی کرتے ہیں۔—افسیوں ۵:۱، ۲۔
”کشادہ دل ہو جاؤ“
۱۱. پولس رسول نے شہر کرنتھس کے مسیحیوں کو ”کشادہ دل“ ہو جانے کی تاکید کیوں کی؟
۱۱ پولس رسول نے شہر کرنتھس کی کلیسیا کے فائدے کے لئے مہینوں تک محنت کی۔ چونکہ اُسے اِس کلیسیا کے بہنبھائیوں سے دلی پیار تھا اس لئے اُس نے ان کی مدد کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ لیکن اُن میں سے بعض مسیحی اُسے پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ اُس پر بڑبڑاتے تھے۔ اس وجہ سے پولس رسول نے اُن کو تاکید کی کہ وہ محبت ظاہر کرنے کے معاملے میں ”کشادہ دل“ ہو جائیں۔ (۲-کرنتھیوں ۶:۱۱-۱۳؛ ۱۲:۱۵) ہمیں یہ جاننے کے لئے خود کو پرکھنا چاہئے کہ ہم اپنے مسیحی بہنبھائیوں کے لئے کس حد تک محبت ظاہر کرتے ہیں۔ اور ہمیں خود سے پوچھنا چاہئے کہ ہم اپنی محبت میں کشادہ کیسے بن سکتے ہیں۔—۱-یوحنا ۳:۱۴۔
۱۲. ہم کلیسیا کے تمام بہنبھائیوں کے لئے دلی محبت رکھنا کیسے سیکھ سکتے ہیں؟
۱۲ کیا آپ کی کلیسیا میں چند ایسے مسیحی ہیں جن کے لئے محبت رکھنا آپ کو مشکل لگتا ہے؟ یقیناً ہم چاہیں گے کہ وہ ہماری شخصیت کی اُن باتوں کو نظرانداز کریں جو اُن کو پسند نہیں ہیں۔ لہٰذا ہمیں بھی اُن باتوں کو نظرانداز کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے جو ہمیں اُن کے بارے میں اچھی نہیں لگتیں۔ ایسا کرنے سے ہمارے تعلقات میں بہتری آ سکتی ہے۔ ہمیں اُن کی خوبیوں کو جاننے اور انہیں خاطر میں رکھنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔ اس طرح ہمارے دل میں اُن کے لئے محبت بڑھ جائے گی۔—لوقا ۶:۳۲، ۳۳، ۳۶۔
۱۳. ہم کلیسیا کے بہنبھائیوں کے لئے محبت ظاہر کرنے میں کشادہ دل کیسے بن سکتے ہیں؟
۱۳ یہ سچ ہے کہ ہم دوسروں کے لئے وہ سب کچھ نہیں کر پاتے جس کی ہم خواہش رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر شاید ہم اجلاس پر ہر ایک سے مل نہیں پاتے۔ یا پھر دعوت دیتے وقت ہم اپنے تمام بہنبھائیوں کو نہیں بلا سکتے۔ لیکن کیا ہم اپنا دل کشادہ کرکے اجلاسوں سے پہلے یا بعد میں کم سے کم ایک ایسے مسیحی سے باتچیت کر سکتے ہیں جس سے ہم اچھی طرح سے واقف نہیں ہیں؟ کیا ہم وقتاًفوقتاً ایسے مسیحیوں کے ساتھ منادی کرتے ہیں جن سے ہماری زیادہ دوستی نہیں ہے؟
۱۴. جب ہم ایسے مسیحیوں کے ساتھ ہوتے ہیں جن کو ہم نہیں جانتے تو ہم ایک دوسرے کے لئے محبت کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟
۱۴ یہوواہ کے گواہوں کے کنونشنوں پر بھی کشادہ دل ہونے کے بہت سے موقعے ہوتے ہیں۔ اکثر ایسے کنونشنوں پر ہزاروں مسیحی حاضر ہوتے ہیں۔ ان سب سے ملاقات کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں ہوتا۔ لیکن ہم اپنے اعمال سے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہمیں اپنے فائدے کی نسبت اُن کے فائدے کا زیادہ خیال ہے۔ پروگرام سے پہلے اور بعد میں ہم اپنے اِردگِرد بیٹھے اُن بہنبھائیوں سے واقفیت پیدا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں جن کو ہم نہیں جانتے۔ یاد رکھیں کہ جلد ہی زمین پر رہنے والے تمام لوگ بہنبھائی ہوں گے اور وہ ملکر اپنے خدا کی عبادت کریں گے۔ اُس وقت ایک دوسرے سے ملنے اور دوستی کرنے سے ہمیں کتنی خوشی حاصل ہوگی۔ ہم اپنے تمام مسیحی بہنبھائیوں سے محبت رکھتے ہیں۔ اس لئے آئیں ہم ابھی سے ہی اُن کے ساتھ دوستانہ تعلقات بڑھانے کی بھرپور کوشش کریں۔
اِن سوالات پر تبصرہ کریں
• جب مسیحیوں کے درمیان مسئلے کھڑے ہوتے ہیں تو ان کو حل کرنے کے لئے کیا کِیا جا سکتا ہے؟ ایسا کرنے کے کونسے فائدے ہیں؟
• ہم اپنے دل میں اپنے مسیحی بہنبھائیوں کے لئے محبت کو کیسے بڑھا سکتے ہیں؟
• ہم کلیسیا میں نہ صرف اپنے دوستوں بلکہ تمام بہنبھائیوں کے لئے کیسے محبت ظاہر کر سکتے ہیں؟
[صفحہ ۱۴۸ پر تصویر]
ہم اپنے مسیحی بہنبھائیوں کے لئے اجلاسوں پر اور دوسرے موقعوں پر بھی محبت ظاہر کر سکتے ہیں