بیسواں باب
یہوواہ خدا کے دن کے منتظر رہیں
۱. جب آپ نے سیکھا تھا کہ اس دُنیا کا خاتمہ ہوگا اور خدا نئی دُنیا لائے گا تو آپ نے کیسا محسوس کِیا تھا؟
جب آپ نے بائبل کا مطالعہ کرنا شروع کِیا تھا تو آپ نے سب سے پہلے یہ سیکھا ہوگا کہ خدا کی مرضی ہے کہ پوری زمین ایک فردوس بن جائے۔ آپ نے یہ بھی سیکھا ہوگا کہ اس نئی دُنیا میں جنگ، جُرم، غربت اور موت کا نامونشان تک نہ رہے گا یہاں تک کہ مُردوں کو بھی زندہ کِیا جائے گا۔ بائبل میں مستقبل کی کتنی ہی خوبصورت تصویر دی جاتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ وقت بہت قریب ہے کیونکہ سن ۱۹۱۴ میں یسوع مسیح نے آسمان پر بادشاہ کے طور پر حکمرانی کرنا شروع کی اور اُس وقت سے ہم اس دُنیا کے اخیر زمانے میں رہ رہے ہیں۔ ان اخیر دنوں کے اختتام پر یہوواہ خدا اس دُنیا کو تباہ کرکے اپنے وعدے کے مطابق نئی دُنیا لائے گا۔
۲. ”[یہوواہ] کا دن“ کیا ہے؟
۲ بائبل میں اس دُنیا کے خاتمے کو ”[یہوواہ] کا دن“ کہا جاتا ہے۔ (۲-پطرس ۳:۱۰) یہ وہ دن ہے جب شیطان کی دُنیا پر ’یہوواہ کا غضب‘ نازل ہوگا۔ (صفنیاہ ۲:۳) اور یہ دن اپنے اختتام پر تب پہنچے گا جب ”خدا کے روزِعظیم کی لڑائی“ واقع ہوگی۔ اس لڑائی کا نام ”ہرمجدؔون“ ہے۔ (مکاشفہ ۱۶:۱۴، ۱۶) کیا آپ کے چالچلن سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کو اس بات کا یقین ہے کہ ”[یہوواہ] کا روزِعظیم قریب ہے“؟—صفنیاہ ۱:۱۴-۱۸؛ یرمیاہ ۲۵:۳۳۔
۳. (ا) یہوواہ کا دن کب آئے گا؟ (ب) اس سے کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ یہوواہ کا دن کس ”گھڑی“ آئے گا؟
۳ بائبل میں ہمیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ یہوواہ خدا کے حکم پر یسوع مسیح شیطان کی دُنیا کو کب تباہ کر دے گا۔ ”اُس دن یا اُس گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانتا۔ نہ آسمان کے فرشتے نہ بیٹا مگر باپ۔“ (مرقس ۱۳:۳۲) اگر ایک شخص کے دل میں یہوواہ خدا کی محبت نہیں ہے تو وہ اس دن کو بہت دُور خیال کرے گا اور روزمرہ کی باتوں کو زیادہ اہمیت دے گا۔ لیکن وہ شخص جو یہوواہ خدا سے دلی محبت کرتا ہے وہ یہ نہ جانتے ہوئے بھی کہ خاتمہ کب آئیے گا پوری لگن سے خدا کی خدمت کرے گا۔—زبور ۳۷:۴؛ ۱-یوحنا ۵:۳۔
۴. یسوع مسیح نے کونسی آگاہی دی تھی؟
۴ یہوواہ خدا سے دلی محبت رکھنے والوں کو یسوع مسیح نے یہ آگاہی دی: ”خبردار! جاگتے اور دُعا کرتے رہو کیونکہ تُم نہیں جانتے کہ وہ وقت کب آئے گا۔“ (مرقس ۱۳:۳۳-۳۷) یسوع نے تاکید کی کہ ہمیں کھانے پینے اور ”زندگی کی فکروں“ میں اتنا مگن نہیں ہونا چاہئے کہ ہم بھول جائیں کہ ہم کس اہم زمانے میں رہ رہے ہیں۔—لوقا ۲۱:۳۴-۳۶؛ متی ۲۴:۳۷-۴۲۔
۵. پطرس رسول نے یہوواہ خدا کے دن کے بارے میں جو کچھ کہا تھا اس کی وضاحت کریں۔
۵ اسی طرح پطرس رسول بتاتا ہے کہ ہمیں ”[یہوواہ] خدا کے اُس دن کے آنے کا کیسا کچھ منتظر اور مشتاق رہنا چاہئے۔ جس کے باعث آسمان آگ سے پگھل جائیں گے اور اجرامِفلک حرارت کی شدت سے گل جائیں گے۔“ جیہاں، اُس دن ”آسمان“ یعنی تمام انسانی حکومتوں کو تباہ کر دیا جائے گا۔ اور ”زمین“ یعنی تمام بُرے لوگوں کو بھی ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ”اجرامِفلک“ یعنی لوگوں کی ناپاک سوچ اور رویہ بھی مِٹ جائیں گے مثلاً اِن کی نافرمانی، بداخلاقی اور لالچ۔ ان کی جگہ خدا ایک ’نیا آسمان‘ (یعنی خدا کی بادشاہت) اور ”نئی زمین“ (یعنی راست لوگوں کا معاشرہ) قائم کرے گا اور اس میں ”راستبازی بسی رہے گی۔“ (۲-پطرس ۳:۱۰-۱۳) واقعات کا یہ سلسلہ ایک ایسے دن اور ایک ایسی گھڑی اچانک شروع ہو جائے گا جب ہمیں اس کی توقع ہی نہ ہوگی۔—متی ۲۴:۴۴۔
آخری دنوں کی پہچان
۶. (ا) یسوع نے جس پیشینگوئی کے بارے میں اپنے شاگردوں کو بتایا تھا یہ پہلی صدی میں کس حد تک پوری ہوئی تھی؟ (ب) یسوع کی پیشینگوئی کے کون سے واقعات ۱۹۱۴ سے لے کر آج تک پورے ہو رہے ہیں؟
۶ ہمیں اُن نشانوں سے واقف ہونا چاہئے جن کے ذریعے ہم پہچان سکتے ہیں کہ ہم ’دُنیا کے آخری زمانے‘ میں رہ رہے ہیں۔ جب یسوع کے شاگردوں نے متی ۲۴:۳ میں درج سوال پوچھا تھا تو یسوع نے جواب میں اُنہیں وہ پیشینگوئی بتائی تھی جو متی ۲۴:۴-۲۲ میں پائی جاتی ہے۔ اس پیشینگوئی کے کچھ پہلو سن ۳۳ سے لے کر سن ۷۰ عیسوی تک یہودیہ کے علاقے میں پورے ہوئے۔ لیکن یسوع کے ”آنے اور دُنیا کے آخر ہونے“ یعنی ۱۹۱۴ سے یہ پیشینگوئی بڑے پیمانے پر پوری ہو رہی ہے۔ متی ۲۴:۲۳-۲۸ میں درج واقعات ۷۰ عیسوی میں ہونا شروع ہوئے اور یسوع کی حکمرانی کے دور میں جاری ہیں۔ اس کے علاوہ متی ۲۴:۲۹–۲۵:۴۶ میں بتایا جاتا ہے کہ دُنیا کے آخری دور میں کون سے واقعات پیش آئیں گے۔
۷. (ا) ہمیں اُن واقعات پر دھیان کیوں دینا چاہئے جو یسوع کی پیشینگوئی کے پورے ہونے کا ثبوت دیتے ہیں؟ (ب) یہ دیکھنے کے لئے کہ آخری دنوں کے نشان ۱۹۱۴ سے کیسے پورے ہوئے ہیں پیراگراف کے بعد دئے گئے سوالوں کے جواب دیں۔
۷ ہمیں ذاتی طور پر اپنے اِردگِرد ہونے والے اُن واقعات اور لوگوں کی سوچ پر دھیان دینا چاہئے جن سے یسوع کی پیشینگوئی کے پورے ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ اگر ہم ان باتوں کی پہچان رکھیں گے تو ہم یہ نہیں سوچیں گے کہ خدا کا روزِعظیم ابھی بہت دُور ہے۔ اس طرح ہم پورے یقین کے ساتھ دوسروں کو بھی اس دن کے آنے کی آگاہی دے سکیں گے۔ (یسعیاہ ۶۱:۱، ۲) ان باتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے آگے دئے گئے سوالوں پر غور کریں۔ ان میں متی ۲۴:۷ اور لوقا ۲۱:۱۰، ۱۱ میں بتائے گئے نشانوں پر زور دیا جاتا ہے۔
”قوم پر قوم اور سلطنت پر سلطنت چڑھائی کرے گی۔“ سن ۱۹۱۴ میں یہ پیشینگوئی کیسے پوری ہوئی؟ اُس وقت سے لے کر آج تک جنگوں کے معاملے میں کیا کہا جا سکتا ہے؟
سن ۱۹۱۸ میں کس جانلیوا بیماری نے پہلی عالمی جنگ سے بھی زیادہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا؟ (بروشر جاگتے رہو! صفحہ ۴، پیراگراف ۴ کو دیکھیں۔) آجکل میدانِطب میں ترقی کے باوجود کروڑوں لوگ کن بیماریوں میں مبتلا ہو کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں؟
بیسویں صدی میں سائنس میں ترقی کے باوجود دُنیا میں کس حد تک خوراک کی کمی پائی جاتی ہے؟
آپ کو کیوں یقین ہے کہ ۲-تیمتھیس ۳:۱-۵، ۱۳ میں جو کچھ بتایا گیا ہے یہ ہمیشہ سے نہیں ہوتا آ رہا بلکہ آخری دنوں کا نشان ہے؟
سچے مسیحی جمع کئے جا رہے ہیں
۸. (ا) یسوع نے متی ۱۳:۲۴-۳۰، ۳۶-۴۳ میں اخیر زمانے میں ہونے والے کس واقعے کے بارے میں بتایا؟ (ب) یسوع کی اِس تمثیل کی وضاحت کریں۔
۸ یسوع نے ایسے اَور بھی واقعات کے بارے میں بتایا تھا جو اخیر زمانے میں ہوں گے۔ ان میں سے ایک واقعہ ’بادشاہی کے فرزندوں‘ اور ’شریر کے فرزندوں‘ کا ایک دوسرے سے علیٰحدہ کِیا جانا ہے۔ یسوع نے ایک تمثیل کے ذریعے اس بات کو واضح کِیا۔ اُس نے بتایا کہ گیہوں کے ایک کھیت میں دُشمن کڑوے دانے بو جاتا ہے۔ تمثیل میں ”گیہوں“ ممسوح مسیحیوں کی علامت ہے۔ ”کڑوے دانے“ ایسے لوگ ہیں جو مسیحی ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن وہ خود کو ”شریر کے فرزند“ ثابت کرتے ہیں کیونکہ وہ اس دُنیا سے منسلک ہیں جس کا حاکم شیطان ہے۔ ’شریر کے فرزندوں‘ کو ’خدا کی بادشاہی کے فرزندوں‘ سے علیٰحدہ کِیا جائے گا اور اُنہیں تباہ کر دیا جائے گا۔ (متی ۱۳:۲۴-۳۰، ۳۶-۴۳) یہ کیسے پورا ہوا ہے؟
۹. (ا) پہلی عالمی جنگ کے بعد کونسے دو طرح کے مسیحی دیکھنے میں آئے؟ (ب) ممسوح مسیحیوں نے یہ بات کیسے ثابت کی کہ وہ خدا کے سچے خادم ہیں؟
۹ غور کریں کہ پہلی عالمی جنگ کے بعد بہت سے ایسے لوگ تھے جو مسیحی ہونے کا دعویٰ کر رہے تھے۔ ان میں دو طرح کے مسیحی دیکھنے میں آئے: (۱) پادری طبقہ اور اُن کے پیروکار جو لیگ آف نیشنز (اب اقوامِمتحدہ) کی پیروی کر رہے تھے اور اپنی اپنی قوم کی حمایت کر رہے تھے۔ (۲) سچے مسیحی جو دُنیا کی قوموں کی حمایت نہیں کر رہے تھے بلکہ خدا کی بادشاہت کی حمایت کر رہے تھے۔ (یوحنا ۱۷:۱۶) ان ممسوح مسیحیوں نے ’بادشاہی کی خوشخبری‘ کی منادی کرنے سے ثابت کِیا کہ وہ خدا کے سچے خادم ہیں۔ (متی ۲۴:۱۴) اس کا نتیجہ کیا نکلا؟
۱۰. خدا کی بادشاہت کی منادی کرنے کے نتیجے میں سب سے پہلے کون جمع کئے گئے؟
۱۰ خدا کی بادشاہت کی منادی کے نتیجے میں سب سے پہلے ممسوح مسیحیوں کی جماعت کے باقی اراکین جمع کئے گئے تھے۔ یہ وہ مسیحی ہیں جو یسوع کے ساتھ آسمان پر حکمرانی کرنے کی اُمید رکھتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ممسوح مسیحی مختلف قوموں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن وہ خدا کی تنظیم میں متحد ہیں۔ ان مسیحیوں پر مہر لگانے کا کام اپنے اختتام پر پہنچ رہا ہے۔—مکاشفہ ۷:۳، ۴۔
۱۱. (ا) آج کن کو جمع کِیا جا رہا ہے؟ (ب) یہ کس پیشینگوئی کی تکمیل ہے؟
۱۱ پھر یسوع کی راہنمائی میں ’ہر ایک قوم اور قبیلہ اور اُمت اور اہلِزبان کی ایک بڑی بِھیڑ‘ جمع کی جانے لگی۔ یسوع نے کہا تھا کہ ”میری اَور بھی بھیڑیں ہیں۔“ یہ بھیڑیں ”بڑی مصیبت“ میں سے بچ نکلیں گی۔ (مکاشفہ ۷:۹، ۱۴؛ یوحنا ۱۰:۱۶) بادشاہت کی خوشخبری سنانے کا کام آج تک جاری ہے۔ اس اہم کام میں دوسری بھیڑیں بڑھچڑھ کر ممسوح مسیحیوں کا ساتھ دے رہی ہیں۔ اور یہ خوشخبری سب قوموں کو سنائی جا رہی ہے۔
مستقبل کیا لائے گا؟
۱۲. خدا کے دن کے آنے سے پہلے بادشاہت کی خوشخبری سنانے کا کام کب تک جاری رہے گا؟
۱۲ یہ سب کچھ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم اخیر زمانے کے آخری دنوں میں رہ رہے ہیں اور یہوواہ خدا کا دن بہت نزدیک ہے۔ ہم خدا کے دن کے آنے سے پہلے کن پیشینگوئیوں کو پورا ہوتے دیکھ سکیں گے؟ یاد رکھیں کہ لوگوں کو جمع کرنے کا کام ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ کچھ علاقوں میں جہاں پہلے یہوواہ کے خادموں کی مخالفت کی جاتی تھی اب وہاں بھی لوگ یہوواہ کی خدمت کرنے کے لئے اُس کے خادموں کے ساتھ جمع ہو رہے ہیں۔ اور اگر لوگ خدا کی بادشاہت کی خوشخبری کو رد کرتے ہیں تب بھی ہم اس خوشخبری کو سنانے کا کام جاری رکھیں گے۔ خدا کی مہربانی اس طرح ظاہر ہوتی ہے کہ اُنہیں ہمارے ساتھ جمع ہو کر خدا کی خدمت کرنے کا باربار موقع دیا جاتا ہے۔ اس لئے آئیں ہم اس کام میں بڑھچڑھ کر حصہ لیں۔ یسوع نے ہمیں اس بات کا یقین دلایا ہے کہ جب یہ کام اپنے اختتام پر پہنچے گا تب ہی خاتمہ ہوگا۔
۱۳. (ا) پہلے تھسلنیکیوں ۵:۲، ۳ کے مطابق ابھی کیا ہونا باقی ہے؟ (ب) اس اعلان کا ہم پر کیا اثر ہوگا؟
۱۳ بائبل میں پائی جانے والی ایک اَور اہم پیشینگوئی یہ ہے: ”جس وقت لوگ کہتے ہوں گے کہ سلامتی اور امن ہے اُس وقت اُن پر اِس طرح ناگہاں ہلاکت آئے گی جس طرح حاملہ کو درد لگتے ہیں اور وہ ہرگز نہ بچیں گے۔“ (۱-تھسلنیکیوں ۵:۲، ۳) ہم یہ نہیں جانتے کہ ”سلامتی اور امن“ کا یہ اعلان کس صورت میں ہوگا۔ لیکن اس اعلان کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوگا کہ دُنیا کے حاکموں نے انسان کے مسائل کو حل کر دیا ہوگا۔ ایسے لوگ جو خدا کے دن کے منتظر ہیں وہ اس اعلان سے دھوکا نہیں کھائیں گے۔ وہ جانتے ہیں کہ اس اعلان کے بعد اس بُری دُنیا کو تباہ کر دیا جائے گا۔
۱۴. بڑی مصیبت میں کون سے واقعات پیش آئیں گے؟ انہیں ترتیبوار بیان کریں۔
۱۴ بڑی مصیبت کے آغاز میں دُنیا کے حکمران ’بڑے شہر بابل‘ یعنی دُنیابھر کے جھوٹے مذاہب کے خلاف کارروائی کریں گے اور اُسے تباہ کر دیں گے۔ (متی ۲۴:۲۱؛ مکاشفہ ۱۷:۱۵، ۱۶) اس کے بعد قومیں اُن لوگوں کے خلاف کارروائی کریں گی جو یہوواہ خدا کو اپنے حاکمِاعلیٰ کے طور پر مانتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں یہوواہ کا غضب اس دُنیا کے حکمرانوں اور اُن کی حمایت کرنے والوں پر نازل ہوگا۔ اور اس طرح خدا کا روزِعظیم ہرمجدون کی لڑائی میں اپنے اختتام پر پہنچے گا۔ پھر شیطان اور اس کے بُرے فرشتوں کو باندھ کر اتھاہ گڑھے میں ڈال دیا جائے گا جہاں وہ انسان کو گمراہ نہیں کر پائیں گے۔ اور یوں یہوواہ خدا کا نام بلندوبالا کِیا جائے گا۔—حزقیایل ۳۸:۱۸، ۲۲، ۲۳؛ مکاشفہ ۱۹:۱۱–۲۰:۳۔
۱۵. ایسی سوچ رکھنا کہ یہوواہ خدا کا دن ابھی دُور ہے دانشمندی کی بات کیوں نہیں؟
۱۵ خدا نے اس دُنیا کے خاتمے کے لئے ایک وقت مقرر کِیا ہے۔ بِلاشُبہ دُنیا کا خاتمہ اس مقررہ وقت پر ہی آئے گا۔ اس وجہ سے یہوواہ خدا کے دن کو دُور سمجھنا دانشمندی کی بات نہیں ہے۔ (حبقوق ۲:۳) یاد کریں کہ ۷۰ عیسوی میں یروشلیم اچانک ہی تباہ ہوا تھا۔ یہودیوں نے تو یہی سمجھا تھا کہ خطرہ ٹل گیا ہے لیکن رومی فوج نے واپس آ کر شہر کو تباہ کر دیا۔ اور ذرا سوچیں کہ قدیم زمانے کے شہر بابل کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ یہ شہر تو فصیلدار اور چٹان کی طرح مضبوط تھا۔ لیکن ایک ہی رات میں اس کا خاتمہ واقع ہوا۔ اسی طرح اس بُری دُنیا کا خاتمہ بھی اچانک ہی واقع ہوگا۔ دُعا ہے کہ جب یہ دن آئے گا تو ہم اُس کے منتظر ہوں گے اور سچے خدا کی عبادت میں متحد بھی ہوں گے۔
اِن سوالات پر تبصرہ کریں
• خدا کے دن کے منتظر رہنا اتنا اہم کیوں ہے؟ ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟
• خدا کی عبادت کے لئے لوگوں کو جمع کرنے کے کام میں ہم کیسے شریک ہو سکتے ہیں؟
• خدا کے روزِعظیم سے پہلے کون سے واقعات پیش آئیں گے؟ ان کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
[صفحہ ۰۱۸، ۱۸۱ پر تصویریں]
بہت جلد اخیر زمانہ اپنے اختتام پر پہنچے گا اور شیطان کی دُنیا کو تباہ کر دیا جائے گا