باب نمبر 6
مرنے کے بعد اِنسانوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟
1-3. (الف) کسی کی موت پر لوگوں کے ذہن میں کون سے سوال آ سکتے ہیں؟ (ب) کچھ مذاہب میں اِن سوالوں کے کیا جواب دیے جاتے ہیں؟
پاک کلام میں وعدہ کِیا گیا ہے کہ ایک دن آئے گا جب ’موت نہیں رہے گی۔‘ (مکاشفہ 21:4) باب نمبر 5 میں ہم نے سیکھا کہ یسوع مسیح کے فدیے کی بدولت ہم ہمیشہ کی زندگی حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن اِنسان ابھی بھی مرتے ہیں۔ (واعظ 9:5) اِس وجہ سے شاید ہمارے ذہن میں یہ سوال آئے کہ ”جب اِنسان مر جاتا ہے تو اُس کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟“
2 ہم اِس سوال کا جواب خاص طور پر اُس وقت جاننا چاہتے ہیں جب ہمارا کوئی عزیز فوت ہو جاتا ہے۔ شاید ہم سوچیں: ”وہ کہاں چلا گیا ہے؟ کیا وہ ہمیں دیکھ رہا ہے؟ کیا وہ ہماری مدد کر سکتا ہے؟ کیا ہم اُس سے پھر کبھی مل پائیں گے؟“
3 فرق فرق مذاہب میں اِن سوالوں کے فرق فرق جواب دیے جاتے ہیں۔ کچھ مذاہب میں سکھایا جاتا ہے کہ مرنے کے بعد اچھے لوگ آسمان پر جاتے ہیں اور بُرے لوگوں کو دوزخ کی آگ میں جلایا جاتا ہے۔ کچھ مذاہب کی تعلیم یہ ہے کہ جب اِنسان مر جاتا ہے تو اُس کی روح اُس میں سے نکل جاتی ہے اور اُس کے خاندان کے اُن افراد کی روحوں کے ساتھ رہنے لگتی ہے جو فوت ہو چُکے ہیں۔ کچھ مذاہب میں یہ سکھایا جاتا ہے کہ مرنے کے بعد اِنسان کا حساب کتاب ہوتا ہے اور پھر وہ اِنسان یا جانور کے روپ میں دوبارہ جنم لیتا ہے۔
4. زیادہتر مذاہب میں موت کے بارے میں کون سی بات سکھائی جاتی ہے؟
4 یہ تمام مذاہب موت کے بارے میں فرق فرق تعلیم دیتے ہیں۔ مگر ایک بات ایسی ہے جو اِن سب میں سکھائی جاتی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ اِنسان کے جسم میں کوئی شے ہوتی ہے جو اُس کے مرنے کے بعد بھی زندہ رہتی ہے۔ لیکن کیا یہ سچ ہے؟
مرنے کے بعد اِنسان کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟
5، 6. مرنے کے بعد اِنسان کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟
5 یہوواہ خدا جانتا ہے کہ جب اِنسان مر جاتا ہے تو اُس کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ جب ایک شخص مر جاتا ہے تو اُس کا وجود بالکل ختم ہو جاتا ہے۔ موت اور زندگی ایک دوسرے کے اُلٹ ہیں۔ لہٰذا اِنسان کے مرنے کے بعد اُس کی روح کسی اَور جہان میں زندہ نہیں رہتی اور اُس کی یادداشت اور احساسات ختم ہو جاتے ہیں۔a مُردے نہ تو دیکھ سکتے ہیں، نہ سُن سکتے ہیں اور نہ ہی سوچ سکتے ہیں۔
6 سلیمان بادشاہ نے لکھا: ”مُردے کچھ بھی نہیں جانتے۔“ وہ نہ تو کسی سے محبت کر سکتے ہیں اور نہ ہی نفرت۔ ”پاتال [”قبر،“ نیو اُردو بائبل ورشن] میں . . . نہ کام ہے نہ منصوبہ۔ نہ علم نہ حکمت۔“ (واعظ 9:5، 6، 10 کو پڑھیں۔) زبور 146:4 میں لکھا ہے کہ جب ایک شخص مر جاتا ہے تو ”اُس کے منصوبے فنا ہو جاتے ہیں۔“
یسوع مسیح نے موت کے بارے میں کیا کہا؟
7. یسوع مسیح نے موت کے بارے میں کیا کہا؟
7 جب یسوع مسیح کے دوست لعزر فوت ہو گئے تو یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا: ”ہمارے دوست لعزر سو گئے ہیں۔“ اُن کے کہنے کا یہ مطلب نہیں تھا کہ لعزر آرام کر رہے ہیں بلکہ اُنہوں نے واضح طور پر کہا: ”لعزر فوت ہو گئے ہیں۔“ (یوحنا 11:11-14) یوں یسوع مسیح نے ظاہر کِیا کہ موت نیند کی طرح ہے۔ اُنہوں نے یہ نہیں کہا کہ لعزر آسمان پر تھے یا اپنے خاندان کے اُن افراد کے ساتھ تھے جو فوت ہو چُکے تھے۔ اُنہوں نے یہ بھی نہیں کہا کہ لعزر کو دوزخ کی آگ میں تڑپایا جا رہا تھا یا وہ اِنسان یا جانور کے روپ میں دوبارہ جنم لینے والے تھے۔ لہٰذا لعزر کی حالت بالکل ایسے ہی تھی جیسے کوئی گہری نیند سو رہا ہو۔ پاک کلام کی دوسری آیتوں سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ موت گہری نیند کی طرح ہے۔ مثال کے طور پر پاک کلام میں لکھا ہے کہ جب ستفنُس کو قتل کِیا گیا تو ”وہ موت کی نیند سو گئے۔“ (اعمال 7:60) پولُس رسول نے بھی لکھا کہ کچھ مسیحی ”موت کی نیند سو گئے ہیں۔“—1-کُرنتھیوں 15:6۔
8. ہم کیسے جانتے ہیں کہ خدا نے اِنسان کو مرنے کے لیے نہیں بنایا تھا؟
8 کیا خدا نے آدم اور حوا کو مرنے کے لیے بنایا تھا؟ جی نہیں۔ یہوواہ خدا نے اُنہیں اِس لیے بنایا تھا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہیں اور کبھی بیمار نہ ہوں۔ جب یہوواہ خدا نے اِنسانوں کو بنایا تو اُس نے ’ابدیت کو اُن کے دل میں جاگزین کِیا‘ یعنی اُن کے دل میں ہمیشہ زندہ رہنے کی خواہش رکھی۔ (واعظ 3:11) جس طرح والدین کبھی نہیں چاہتے کہ اُن کے بچے بیمار ہوں اور مر جائیں اُسی طرح یہوواہ خدا بھی نہیں چاہتا کہ اِنسان بیمار ہوں اور مر جائیں۔ لیکن اگر خدا نے ہمیں ہمیشہ زندہ رہنے کے لیے بنایا تھا تو ہم مرتے کیوں ہیں؟
اِنسان کیوں مرتے ہیں؟
9. یہوواہ خدا نے آدم اور حوا کو جو حکم دیا، اُس پر عمل کرنا مشکل کیوں نہیں تھا؟
9 باغِعدن میں یہوواہ خدا نے آدم سے کہا: ”تُو باغ کے ہر درخت کا پھل بےروکٹوک کھا سکتا ہے۔ لیکن نیکوبد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا۔“ (پیدایش 2:9، 16، 17) یہ حکم بالکل واضح تھا اور اِس پر عمل کرنا مشکل نہیں تھا۔ یہوواہ خدا آدم اور حوا کو یہ بتانے کا حق رکھتا تھا کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ یہوواہ خدا کی بات ماننے سے وہ یہ ظاہر کرتے کہ وہ اُس کے اِختیار کو تسلیم کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی ظاہر کرتے کہ وہ یہوواہ خدا کی تمام نعمتوں کے لیے اُس کے شکرگزار ہیں۔
10، 11. (الف) شیطان نے آدم اور حوا کو کیسے گمراہ کِیا؟ (ب) آدم اور حوا کے پاس خدا کی نافرمانی کرنے کا کوئی جواز کیوں نہیں تھا؟
10 افسوس کی بات ہے کہ آدم اور حوا نے خدا کی بات نہیں مانی۔ شیطان نے حوا سے کہا: ”کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تُم نہ کھانا؟“ حوا نے شیطان کو جواب دیا: ”باغ کے درختوں کا پھل تو ہم کھاتے ہیں۔ پر جو درخت باغ کے بیچ میں ہے اُس کے پھل کی بابت خدا نے کہا ہے کہ تُم نہ تو اُسے کھانا اور نہ چُھونا ورنہ مر جاؤ گے۔“—پیدایش 3:1-3۔
11 اِس پر شیطان نے کہا: ”تُم ہرگز نہ مرو گے بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن تُم اُسے کھاؤ گے تمہاری آنکھیں کُھل جائیں گی اور تُم خدا کی مانند نیکوبد کے جاننے والے بن جاؤ گے۔“ (پیدایش 3:4-6) شیطان حوا کے ذہن میں یہ بات ڈالنا چاہتا تھا کہ وہ خود یہ فیصلہ کر سکتی ہیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ اُس نے حوا سے یہ جھوٹ بھی بولا کہ اگر وہ خدا کی نافرمانی کریں گی تو وہ مریں گی نہیں۔ لہٰذا حوا نے وہ پھل کھایا اور اپنے شوہر کو بھی دیا۔ آدم اور حوا جانتے تھے کہ یہوواہ خدا نے اُنہیں وہ پھل کھانے سے منع کِیا تھا۔ لیکن اُنہوں نے وہ پھل کھایا اور یوں خدا کے حکم کو توڑ دیا۔ اِس طرح اُنہوں نے ظاہر کِیا کہ وہ اپنے شفیق خدا کا احترام نہیں کرتے۔ اُن کے پاس اپنی اِس حرکت کا کوئی جواز نہیں تھا۔
12. یہ اِتنے دُکھ کی بات کیوں ہے کہ آدم اور حوا نے یہوواہ خدا کی نافرمانی کی؟
12 یہ کتنے دُکھ کی بات ہے کہ آدم اور حوا نے اپنے خالق کا احترام نہیں کِیا! فرض کریں کہ آپ کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔ آپ نے بڑی محنت سے اُن کی پرورش کی ہے۔ لیکن پھر وہ آپ کے خلاف بغاوت کر دیتے ہیں اور آپ کا حکم ماننے کی بجائے اپنی منمانی کرتے ہیں۔ اُن کی اِس حرکت پر آپ کیسا محسوس کریں گے؟ یقیناً آپ کا دل دُکھ سے بھر جائے گا۔
13. یہوواہ خدا کی اِس بات کا کیا مطلب تھا کہ ’تُو خاک میں پھر لوٹ جائے گا‘؟
13 خدا کی نافرمانی کرنے سے آدم اور حوا نے ہمیشہ تک زندہ رہنے کا موقع گنوا دیا۔ یہوواہ خدا نے آدم سے کہا تھا: ”تُو خاک ہے اور خاک میں پھر لوٹ جائے گا۔“ (پیدایش 3:19 کو پڑھیں۔) اِس کا مطلب تھا کہ آدم پھر سے خاک بن جائیں گے جیسے وہ پیدا ہونے سے پہلے تھے۔ (پیدایش 2:7) گُناہ کرنے کے بعد آخرکار آدم مر گئے اور اُن کا وجود بالکل ختم ہو گیا۔
14. اِنسان کیوں مرتے ہیں؟
14 اگر آدم اور حوا نے خدا کی بات مانی ہوتی تو وہ آج بھی زندہ ہوتے۔ لیکن خدا کی نافرمانی کر کے اُنہوں نے گُناہ کِیا اور آخرکار مر گئے۔ گُناہ ایک خطرناک بیماری کی طرح ہے جو ہمیں آدم اور حوا سے ورثے میں ملی ہے۔ ہم سب پیدائش سے ہی گُناہگار ہیں اور اِسی وجہ سے ہم مرتے ہیں۔ (رومیوں 5:12) لیکن خدا نے اِنسانوں کو اِس مقصد سے نہیں بنایا تھا۔ خدا کبھی یہ نہیں چاہتا تھا کہ اِنسان مریں۔ پاک کلام میں موت کو ایک ”دُشمن“ کہا گیا ہے۔—1-کُرنتھیوں 15:26۔
سچائی ہمیں آزاد کرتی ہے
15. مُردوں کی حالت کے بارے میں سچائی جان کر ہم جھوٹے عقیدوں کی غلامی سے کیسے آزاد ہو جاتے ہیں؟
15 مُردوں کی حالت کے بارے میں سچائی جان کر ہم بہت سے جھوٹے عقیدوں کی غلامی سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ مُردے درد یا غم محسوس نہیں کر سکتے۔ نہ تو وہ ہم سے بات کر سکتے ہیں اور نہ ہم اُن سے بات کر سکتے ہیں۔ نہ تو وہ ہماری مدد کر سکتے ہیں اور نہ ہم اُن کی مدد کر سکتے ہیں۔ وہ ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے اِس لیے ہمیں اُن سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن بہت سے مذاہب میں سکھایا جاتا ہے کہ مُردے کسی اَور جہان میں زندہ ہیں اور ہم مذہبی پیشواؤں کو پیسے دے کر اُن کی مدد کر سکتے ہیں۔ مگر جب ہم مُردوں کی حالت کے بارے میں سچائی جان جاتے ہیں تو ہم ایسے جھوٹے عقیدوں کی وجہ سے گمراہ نہیں ہوتے۔
16. بہت سے مذاہب میں مُردوں کی حالت کے بارے میں کیا تعلیم دی جاتی ہے؟
16 شیطان جھوٹے مذاہب کے ذریعے ہمیں اِس بات کا یقین دِلانا چاہتا ہے کہ مُردے کسی اَور جہان میں زندہ ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ مذاہب کی تعلیم یہ ہے کہ اِنسان کے جسم میں کوئی شے ہوتی ہے جو اُس کے مرنے کے بعد بھی زندہ رہتی ہے۔ کیا آپ کے مذہب کی بھی یہی تعلیم ہے یا کیا آپ کے مذہب میں یہ سکھایا جاتا ہے کہ مُردوں کی حالت کے بارے میں بائبل میں کیا بتایا گیا ہے؟ شیطان جھوٹے عقیدوں کے ذریعے لوگوں کو یہوواہ خدا سے دُور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
17. اِس عقیدے سے یہوواہ خدا کی توہین کیسے ہوتی ہے کہ اِنسانوں کو آگ میں تڑپایا جائے گا؟
17 بہت سے مذاہب میں موت کے بارے میں بہت عجیب باتیں سکھائی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ مذاہب میں یہ سکھایا جاتا ہے کہ بُرے لوگوں کو ہمیشہ تک دوزخ کی آگ میں تڑپایا جائے گا۔ اِس عقیدے سے یہوواہ خدا کی توہین ہوتی ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ خدا اِنسانوں کو آگ میں تڑپائے۔ (1-یوحنا 4:8 کو پڑھیں۔) آپ ایک ایسے شخص کو کیسا خیال کریں گے جو ایک بچے کو سزا دینے کے لیے اُس کا ہاتھ آگ میں جلا دے؟ بِلاشُبہ آپ اُسے بہت ظالم سمجھیں گے اور اُس سے کبھی دوستی نہیں کرنا چاہیں گے۔ شیطان چاہتا ہے کہ ہم یہوواہ خدا کے بارے میں بھی ایسا ہی سمجھیں۔
18. ہمیں مُردوں سے کیوں نہیں ڈرنا چاہیے؟
18 کچھ مذاہب کی تعلیم یہ ہے کہ مرنے کے بعد اِنسان کی روح زندہ رہتی ہے۔ یہ مذاہب سکھاتے ہیں کہ ہمیں اِن روحوں کا احترام کرنا چاہیے اور اِن سے ڈرنا چاہیے کیونکہ یہ روحیں یا تو دوست بن کر ہماری مدد کر سکتی ہیں یا پھر دُشمن بن کر ہمیں نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ بہت سے لوگ اِس جھوٹ پر یقین کر لیتے ہیں۔ وہ مُردوں سے ڈرتے ہیں اِس لیے وہ یہوواہ خدا کی بجائے مُردوں کی عبادت کرتے ہیں اور اُنہیں خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن یاد رکھیں کہ مُردے کچھ بھی محسوس نہیں کر سکتے اِس لیے ہمیں اُن سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہوواہ خدا ہمارا خالق ہے۔ صرف وہی سچا خدا ہے اور ہمیں اُسی کی عبادت کرنی چاہیے۔—مکاشفہ 4:11۔
19. مُردوں کی حالت کے بارے میں سچائی جاننے سے ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟
19 مُردوں کی حالت کے بارے میں سچائی جان کر ہم جھوٹے عقیدوں کی قید سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ اِس کے علاوہ ہم اُن شاندار وعدوں کے متعلق بھی جان پاتے ہیں جو یہوواہ خدا نے مستقبل کے سلسلے میں کیے ہیں۔
20. اگلے باب میں ہم کیا سیکھیں گے؟
20 صدیوں پہلے خدا کے بندے ایوب نے کہا: ”اگر آدمی مر جائے تو کیا وہ پھر جئے گا؟“ (ایوب 14:14) کیا یہ ممکن ہے کہ ایک مُردہ شخص دوبارہ زندہ ہو جائے؟ پاک کلام میں اِس سوال کا بڑا دلچسپ جواب دیا گیا ہے۔ اگلے باب میں اِسی موضوع پر بات کی جائے گی۔
a کچھ لوگ یہ مانتے ہیں کہ مرنے کے بعد اِنسان کی جان یا روح زندہ رہتی ہے۔ مزید معلومات کے لیے کتاب کے آخر میں نکتہ نمبر 17 اور 18 کو دیکھیں۔