مُتوَفّی عزیزوں کے لئے کیا اُمید ہے؟
”اگر آدمی مر جائے تو کیا وہ پھر جئے گا؟“ بہت عرصہ ہوا اؔیوب نے یہ پوچھا تھا۔ (ایوب ۱۴:۱۴) شاید آپ نے بھی اسکی بابت سوچا ہو۔ آپ کیسا محسوس کرتے اگر آپ یہ جانتے کہ یہاں اسی زمین پر بہترین حالات کے تحت اپنے عزیزوں کیساتھ آپکا پھر سے میلملاپ ممکن ہوگا؟
جیہاں، بائبل وعدہ کرتی ہے: ”تیرے مُردے جی اٹھینگے۔ . . . وہ اٹھ کھڑے ہونگے۔“ اور بائبل یہ بھی کہتی ہے: ”صادق زمین کے وارث ہونگے اور اس میں ہمیشہ بسے رہینگے۔“—یسعیاہ ۲۶:۱۹؛ زبور ۳۷:۲۹۔
ایسے وعدوں پر حقیقی بھروسہ رکھنے کیلئے، ہمیں بعض بنیادی سوالات کا جواب دینے کی ضرورت ہے: لوگ کیوں مرتے ہیں؟ مُردے کہاں ہیں؟ اور ہم اسکا یقین کیونکر کر سکتے ہیں کہ وہ پھر سے زندگی پا سکتے ہیں؟
موت، اور ہمارے مرنے پر جو کچھ واقع ہوتا ہے
بائبل یہ واضح کرتی ہے کہ شروع میں خدا کا ہرگز یہ مقصد نہیں تھا کہ انسان مریں۔ اس نے پہلے انسانی جوڑے آؔدم اور حوؔا کو خلق کیا، انہیں ایک زمینی فردوس میں رکھا جو عدن کہلاتا تھا اور انہیں ہدایت دی کہ وہ بچے پیدا کریں اور اپنے فردوسی گھر کو پوری زمین پر پھیلا دیں۔ وہ صرف اسی صورت میں مرتے اگر اُنہوں نے اسکی ہدایات کی نافرمانی کی ہوتی۔—پیدایش ۱:۲۸؛ ۲:۱۵-۱۷۔
خدا کی مہربانی کیلئے قدردانی کی کمی کی وجہ سے، آؔدم اور حوؔا نے خدا کی نافرمانی کی اور یوں انہیں مُتعیّنہ سزا بھگتنی پڑی۔ ”تُو زمین میں پھر لوٹ جائیگا اسلئے کہ تُو اس سے نکالا گیا ہے،“ خدا نے آؔدم کو بتایا، ”کیونکہ تُو خاک ہے اور خاک میں پھر لوٹ جائیگا۔“ (پیدایش ۳:۱۹) اپنی تخلیق سے پہلے آؔدم کا کوئی وجود نہ تھا، وہ خاک تھا۔ اور اپنی نافرمانی یا گناہ کی وجہ سے، آؔدم کو واپس خاک میں لوٹ جانے، عدم وجودگی کی حالت میں جانے کی سزا دی گئی تھی۔
لہٰذا موت زندگی کی عدم موجودگی ہے۔ بائبل اس موازنے کو یوں بیان کرتی ہے: ”گناہ کی مزدوری موت ہے مگر خدا کی بخشش . . . ہمیشہ کی زندگی ہے۔“ (رومیوں ۶:۲۳) یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ موت مکمل بےشعوری کی حالت ہے، بائبل کہتی ہے: ”زندہ جانتے ہیں کہ وہ مرینگے پر مُردے کچھ بھی نہیں جانتے۔“ (واعظ ۹:۵) کسی شخص کے مرنے کی بابت بائبل وضاحت کرتی ہے: ”اسکا دم نکل جاتا ہے تو وہ مٹی میں مل جاتا ہے۔ اسی دن اسکے منصو بےفنا ہو جاتے ہیں۔“—زبور ۱۴۶:۳، ۴۔
تاہم، چونکہ باغِعدن میں صرف آؔدم اور حوؔا نے اس حکم کی نافرمانی کی تھی تو ہم سب کیوں مرتے ہیں؟ یہ اس وجہ سے ہے کہ ہم سب آؔدم کی نافرمانی کے بعد پیدا ہوئے اور یوں ہم سب نے اس سے گناہ اور موت کا ورثہ پایا۔ جیسے کہ بائبل وضاحت کرتی ہے: ”پس جس طرح ایک آدمی [آؔدم] کے سبب سے گناہ دنیا میں آیا اور گناہ کے سبب سے موت آئی اور یوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی۔“—رومیوں ۵:۱۲؛ ایوب ۱۴:۴۔
تاہم، کوئی پوچھ سکتا ہے: ’کیا انسان غیرفانی جان نہیں رکھتے جو موت سے بچ نکلتی ہے؟‘ بہتیروں نے یہ کہتے ہوئے بھی اس کی تعلیم دی ہے کہ موت ایک دوسری زندگی کا دروازہ ہے۔ لیکن یہ نظریہ بائبل کا نہیں ہے۔ بلکہ خدا کا کلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ آپ ایک جان ہیں یعنی اپنی تمامتر جسمانی اور دماغی لیاقتوں کے ساتھ آپکی جان درحقیقت آپ خود ہیں۔ (پیدایش ۲:۷؛ یرمیاہ ۲:۳۴؛ امثال ۲:۱۰) نیز، بائبل کہتی ہے: ”جو جان گناہ کرتی ہے وہی مرے گی۔“ (حزقیایل ۱۸:۴) کہیں بھی بائبل یہ تعلیم نہیں دیتی کہ انسان غیرفانی جان رکھتا ہے جو کہ جسم کی موت سے بچ نکلتی ہے۔
جسطرح انسان پھر سے زندگی حاصل کر سکتے ہیں
دنیا میں گناہ اور موت کے وارد ہونے کے بعد، خدا نے یہ آشکارا کیا کہ یہ اسکا مقصد تھا کہ قیامت کے ذریعے مُردوں کی زندگی بحال کی جائے۔ لہٰذا بائبل وضاحت کرتی ہے: ”اؔبرہام . . . سمجھا کہ خدا [اسکے بیٹے اضحاؔق کو] مُردوں میں سے جلانے پر بھی قادر ہے۔“ (عبرانیوں ۱۱:۱۷-۱۹) اؔبرہام کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچی تھی، کیونکہ بائبل قادرِمطلق کی بابت کہتی ہے: ”لیکن خدا مُردوں کا خدا نہیں بلکہ زندوں کا خدا ہے کیونکہ اسکے نزدیک سب زندہ ہیں۔“—لوقا ۲۰:۳۷، ۳۸۔
جیہاں، قادرِمطلق خدا نہ صرف قوت بلکہ ان لوگوں کو زندہ کرنے کی خواہش بھی رکھتا ہے جنکا وہ انتخاب کرتا ہے۔ یسوؔع مسیح نے خود کہا: ”اس سے تعجب نہ کرو کیونکہ وہ وقت آتا ہے کہ جتنے قبروں میں ہیں اسکی آواز سنکر نکلینگے۔“—یوحنا ۵:۲۸، ۲۹؛ اعمال ۲۴:۱۵۔
یہ کہنے کے کچھ ہی عرصے کے بعد، یسوؔع کا سامنا اسرائیل کے شہر نائینؔ سے باہر آنے والے جنازے سے ہوا۔ جواںسال مُردہ آدمی ایک بیوہ کا اکلوتا بچہ تھا۔ اسکے شدید غم کو دیکھ کر یسوؔع کو ترس آ گیا۔ پس، لاش سے مخاطب ہو کر اس نے حکم دیا: ”اے جوان میں تجھ سے کہتا ہوں اٹھ۔“ اور وہ آدمی اٹھ بیٹھا اور یسوؔع نے اسے اسکی ماں کے حوالے کر دیا۔—لوقا ۷:۱۱-۱۷۔
جیسے کہ اس بیوہ کے معاملے میں تھا، اس وقت بھی بڑی خوشی کا سماں تھا جب یسوؔع یہودی عبادتخانہ کے سردار یائیرؔ کے گھر گیا۔ اسکی ۱۲ سالہ بیٹی فوت ہو گئی تھی۔ لیکن جب یسوؔع یائیرؔ کے گھر پہنچا تو وہ مُردہ بچی کے پاس گیا اور کہا: ”اے لڑکی اٹھ۔“ اور وہ اٹھ کھڑی ہوئی!—لوقا ۸:۴۰-۵۶۔
بعدازاں، یسوؔع کا دوست لعزؔر فوت ہو گیا۔ جب یسوؔع اسکے گھر پہنچا تو لعزؔر کو مرے ہوئے چار دن گزر چکے تھے۔ اگرچہ اُسکی بہن مرتھاؔ نہایت غمزدہ تھی تو بھی اُس نے یہ کہتے ہوئے اُمید کا اظہار کیا: ”میں جانتی ہوں کہ قیامت میں آخری دن جی اٹھیگا۔“ لیکن یسوؔع قبر تک گیا، پتھر ہٹانے کا حکم دیا، اور آواز دی: ”اے لعزؔر نکل آ۔“ اور وہ نکل آیا!—یوحنا ۱۱:۱۱-۴۴۔
اب اسکی بابت سوچیں: ان چار دنوں کے دوران لعزؔر کی کیا حالت تھی جب وہ مُردہ تھا؟ لعزؔر نے انتہائی خوشی کے آسمان یا اذیت والے دوزخ کی بابت کچھ نہ کہا جسکی بابت یقیناً اس نے بتایا ہوتا اگر وہ وہاں رہا ہوتا۔ نہیں لعزؔر مکمل طور پر موت کی حالت میں بےخبر تھا اور ”قیامت میں آخری دن“ تک ایسا ہی رہتا اگر اس وقت یسوؔع نے اُسکی زندگی بحال نہ کی ہوتی۔
یہ سچ ہے کہ یسوؔع کے یہ معجزات عارضی فائدے کا باعث تھے، کیونکہ جنہیں اس نے زندہ کیا وہ دوبارہ مر گئے۔ تاہم، اس نے ۹۰۰،۱ سال قبل یہ ثبوت دیا کہ خدا کی طاقت کے ساتھ، درحقیقت مُردے پھر سے زندگی حاصل کر سکتے ہیں! پس اپنے معجزات کے ذریعے یسوؔع نے ایک محدود پیمانے پر اس سب کا نظارہ پیش کر دیا جو خدا کی بادشاہی کے تحت زمین پر واقع ہوگا۔
جب کوئی عزیز مر جاتا ہے
جب دشمن موت حملہآور ہوتی ہے تو آپکا غم بہت زیادہ ہو سکتا ہے باوجود یکہ آپ مُردوں کی قیامت پر یقین رکھتے ہیں۔ اؔبرہام کا یہ ایمان تھا کہ اسکی بیوی دوبارہ زندہ ہوگی پھر بھی ہم پڑھتے ہیں کہ ”اؔبرہام ساؔرہ پر ماتم اور نوحہ کرنے کو وہاں گیا۔“ (پیدایش ۲۳:۲) اور یسوؔع کی بابت کیا ہے؟ جب لعزؔر نے وفات پائی تو وہ ”دل میں نہایت رنجیدہ ہوا،“ اور تھوڑی دیر بعد اسکے ”آنسو بہنے لگے۔“ (یوحنا ۱۱:۳۳، ۳۵) لہٰذا، جب آپکا کوئی عزیز وفات پا جاتا ہے تو اس وقت رونا ہرگز بھی کمزوری کو ظاہر نہیں کرتا۔
جب کوئی بچہ مرتا ہے تو ماں کیلئے بالخصوص کٹھن وقت ہوتا ہے۔ پس بائبل اس شدید غم کو تسلیم کرتی ہے جو ایک ماں محسوس کرتی ہے۔ (۲-سلاطین ۴:۲۷) بلاشُبہ غمزدہ باپ کیلئے بھی یہ مشکل ہوتا ہے۔ جب بادشاہ داؔؤد کا بیٹا ابیسلوؔم مر گیا تو اُس نے یوں نوحہ کیا ”کاش میں تیرے بدلے مر جاتا!“—۲-سموئیل ۱۸:۳۳۔
تاہم، کیونکہ آپ قیامت پر بھروسہ کرتے ہیں اس لئے آپ کا غم بہت شدید نہیں ہوگا۔ جیسے کہ بائبل کہتی ہے، آپ ”اوروں کی مانند جو نااُمید ہیں غم نہ کرو“ گے۔ (ا-تھسلنیکیوں ۴:۱۳) بلکہ، آپ دعا میں خدا کے نزدیک جائینگے اور بائبل یقیندہانی کراتی ہے کہ ”وہ تجھے سنبھالیگا۔“—زبور ۵۵:۲۲۔
جب تک بصورتِدیگر ظاہر نہ کیا گیا ہو، بائبل کے تمام حوالہجات اُردو ریوائزڈ ورشن سے لئے گئے ہیں۔