محبت کے کامل بندھن میں متحد
”محبت میں ہمآہنگی کے ساتھ باہم پیوستہ رہیں۔“—کلسیوں ۲:۲، نیو ورلڈ ٹرانسلیشن۔
۱، ۲. آجکل خاص طور پر منقسم کرنے والے کس اثر کو محسوس کیا گیا ہے؟
سنیں! سارے آسمان میں ایک بلند آواز یہ کہتے ہوئے گونج رہی ہے: ”اے خشکی اور تری تم پر افسوس! کیونکہ ابلیس بڑے قہر میں تمہارے پاس اُتر کر آیا ہے۔ اس لئے کہ جانتا ہے کہ میرا تھوڑا ہی سا وقت باقی ہے۔“ (مکاشفہ ۱۲:۱۲) ہر سال گزرنے کے ساتھ، یہ پیغام زمین کے باشندوں کے لئے مزید بُرا شگون بن جاتا ہے۔
۲ یہوؔواہ کا سب سے بڑا دشمن طویل عرصے سے مُزاحِم (شیطان) اور تہمتی (ابلیس) کے طور پر جانا گیا ہے۔ لیکن اس فریبی نے اب ایک اور شرانگیز کردار اپنا لیا ہے—یہ ایک قہرآلود خدا بن گیا ہے! کیوں؟ اس لئے کہ اسے ۱۹۱۴ میں آسمان پر شروع ہونے والی جنگ کے نتیجے میں میکائیلؔ اور اس کے فرشتوں کے ذریعے آسمان سے پھینک دیا گیا تھا۔ (مکاشفہ ۱۲:۷-۹) ابلیس جانتا ہے کہ اپنے اس چیلنج کو ثابت کرنے کے لئے اس کے پاس تھوڑا ہی سا وقت باقی ہے کہ وہ تمام آدمیوں کو خدا کی پرستش کرنے سے ہٹا سکتا ہے۔ (ایوب ۱:۱۱؛ ۲:۴، ۵) کہیں پر بھی راہِفرار حاصل نہ کرنے سے، وہ اور اسکے شیاطین قہرآلود شہد کی مکھیوں کے غول کی مانند ہیں جو نسلِانسانی کے بےقرار ازدحام پر اپنا قہر اُگلتے ہیں۔—یسعیاہ ۵۷:۲۰۔
۳. ہمارے زمانے میں شیطان کی تذلیل کا کیا اثر رہا ہے؟
۳ انسانی نظروں سے اوجھل، یہ واقعات وضاحت کرتے ہیں کہ کیوں اِس وقت نسلِانسانی کے درمیان ایک عام اخلاقی تنزلی پائی جاتی ہے۔ یہ قوموں کے مختلف گروہوں میں بٹ جانے کو روکنے کے لئے آدمیوں کی دیوانہوار کوششوں کی بھی وضاحت کرتے ہیں جو محض ہمآہنگی کے ساتھ رہ نہیں سکتیں۔ قبائلی اور نسلی گروہ ایکدوسرے پر کینہپرور حملے کرتے ہیں جو لاکھوں بےخانماں اور بےوطن لوگوں پر منتج ہوتے ہیں۔ اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ لاقانونیت ایک بینظیر شرح سے بڑھ رہی ہے! جیسے کہ یسوؔع نے پیشتر ہی سے بتا دیا، ’نسلِانسانی کی بڑی تعداد کی محبت ٹھنڈی پڑ رہی ہے۔‘ ہر جگہ آپ دیکھیں تو ناموافقت اور محبت سے عاری ہونا بےقرار انسانیت کی نشاندہی کرتا ہے۔—متی ۲۴:۱۲۔
۴. خدا کے لوگ خاص خطرے میں کیوں ہیں؟
۴ دنیا کی صورتحال کے پیشِنظر اپنے پیروکاروں کے لئے یسوؔع کی دعا اَور زیادہ اہمیت حاصل کر لیتی ہے: ”میں یہ درخواست نہیں کرتا کہ تُو انہیں دنیا سے اٹھا لے بلکہ یہ کہ اس شریر سے انکی حفاظت کر۔ جس طرح میں دنیا کا نہیں وہ بھی دنیا کے نہیں۔“ (یوحنا ۱۷:۱۵، ۱۶) آجکل، ”شریر“ خاصکر اپنا قہر ان کے خلاف اُگل رہا ہے ”جو خدا کے حکموں پر عمل کرنے اور یسوؔع کی گواہی دینے پر قائم ہیں۔“ (مکاشفہ ۱۲:۱۷) اگر یہوؔواہ مستعد اور مشفقانہ نگہداشت نہ کرے تو اسکے وفادار گواہ ہلاک ہو جائیں۔ ہماری زندگیوں کا انحصار ان تمام فراہمیوں سے فائدہ اُٹھانے پر ہے جو خدا ہمارے روحانی تحفظ اور بہبود کے لئے کرتا ہے۔ اس میں مسیح کے ذریعے اس کی طاقت کے عمل کی مطابقت میں ہمارا جانفشانی کرنا شامل ہے جیسے کہ کلسیوں ۱:۲۹ میں رسول نے تاکید کی۔
۵، ۶. پولسؔ رسول نے کلسیوں کے مسیحیوں کی بابت کیسا محسوس کیا اور ۱۹۹۵ کے لئے مرکزی آیت مناسب کیوں ہے؟
۵ اگرچہ پولسؔ نے کُلسّےؔ کے بھائیوں کو تو رُوبرو نہیں دیکھا تھا تو بھی اس نے ان سے محبت رکھی۔ اس نے انہیں بتایا: ”میری آرزو ہے کہ تُم سمجھ سکو کہ تمہارے لئے میری فکر کس قدر گہری ہے۔“ (کلسیوں ۲:۱، دی نیو ٹسٹامنٹ اِن ماڈرن انگلش، از جے. بی. فلپسؔ) چونکہ یسوؔع کے پیروکار دنیا کا حصہ نہیں ہیں اس لئے بھائیوں کے درمیان دنیا کی روح بونے سے ”شریر“ ان کے اتحاد کو توڑنے کی کوشش کرتا رہے گا۔ اِپفرؔاس کُلسّےؔ سے جو خبریں لیکر آیا انہوں نے ظاہر کیا کہ یہ کسی حد تک واقع ہو رہا تھا۔
۶ اپنے مسیحی بھائیوں کے لئے پولسؔ کے اہم تفکرات میں سے ایک کی تلخیص ان الفاظ میں کی جا سکتی ہے: ”محبت میں ہمآہنگی کے ساتھ باہم پیوستہ رہیں۔“ اس کے الفاظ آجکل نااتفاقی سے پُر اور محبت سے عاری دنیا میں خاص مطلب رکھتے ہیں۔ اگر ہم پولسؔ کی مشورت پر دل لگائیں تو ہم یہوؔواہ کی نگہداشت سے استفادہ کریں گے۔ ہم اپنی زندگی میں اسکی روح کی طاقت کا بھی تجربہ کریں گے جو دنیا کے بوجھوں کا مقابلہ کرنے میں ہماری مدد کرتی ہے۔ یہ مشورت کسقدر پُرحکمت ہے! لہٰذا، ۱۹۹۵ کے لئے کلسیوں ۲:۲ ہماری مرکزی آیت ہوگی۔
۷. سچے مسیحیوں کے درمیان کونسی ہمآہنگی پائی جانی چاہئے؟
۷ کرنتھیوں کے نام اپنے پہلے خط میں، رسول نے انسانی بدن کو ایک تمثیل کے طور پر استعمال کیا۔ اس نے لکھا کہ ممسوح مسیحیوں کی کلیسیا میں ”تفرقہ نہ پڑے“ بلکہ اسکے ”[ارکان] ایک دوسرے کی برابر فکر رکھیں۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۲:۱۲، ۲۴، ۲۵) کیا ہی شاندار تمثیل! ہمارے بازُو اور ٹانگیں ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں یعنی ہر ایک ہمارے باقی بدن سے پیوستہ ہے۔ اسی اصول کا اطلاق بھائیوں کی ہماری عالمگیر برادری پر ہوتا ہے جو ممسوح اشخاص سے اور فردوسی زمین پر رہنے کی اُمید رکھنے والے لاکھوں لوگوں سے مِل کر بنی ہے۔ ہمیں خودمختاری کی زندگی بسر کرنے کے لئے ساتھی مسیحیوں کی جماعت سے خود مختار ہو کر خود کو علیٰحدہ نہیں کرنا چاہئے! مسیح یسوؔع کے وسیلے کام کرتے ہوئے، خدا کی روح اپنے بھائیوں کے ساتھ ہماری رفاقت کے ذریعے خاصی مقدار میں ہم تک پہنچتی ہے۔
ہمآہنگی علم سے وابستہ ہے
۸، ۹. (۱) کلیسیا میں ہمآہنگی کی خاطر ہمارے معاونت کرنے کے لئے بنیادی چیز کونسی ہے؟ (ب) آپ نے مسیح کی بابت علم کیسے حاصل کیا ہے؟
۸ پولسؔ کے کلیدی نکات میں سے ایک یہ تھا کہ مسیحی ہمآہنگی علم سے وابستہ ہے، خاصکر جس کا تعلق مسیح سے ہے۔ پولسؔ نے لکھا کہ مسیحیوں کو ”انکی سمجھ کی بھرپور یقیندہانی کی تمام دولت کے پیشِنظر، خدا کے پاک بھید، یعنی، مسیح کے صحیح علم کے پیشِنظر، محبت میں ہمآہنگی کے ساتھ باہم پیوستہ رہنا“ چاہئے۔ (کلسیوں ۲:۲، اینڈبلیو) جب سے ہم نے خدا کے کلام کا مطالعہ شروع کیا ہے اس وقت سے لیکر ہم نے علم—حقائق—حاصل کیا ہے۔ جس طریقے سے یہ حقائق خدا کے مقصد پر پورا اُترتے ہیں اسکا علم حاصل کرنے کے حصے کے طور پر ہم یسوؔع کے نہایت اہم کردار سے واقف ہونے لگتے ہیں۔ ”اس میں حکمت اور علم کے تمام خزانے احتیاط کے ساتھ چھپا دئے گئے ہیں۔“—کلسیوں ۲:۳، اینڈبلیو۔
۹ کیا آپ خدا کے مقصد میں یسوؔع اور اس کے کردار کی بابت ایسا ہی محسوس کرتے ہیں؟ مسیحی دنیا میں بہتیرے یہ دعویٰ کرتے ہوئے یسوؔع کا ذکر بڑی خوشی سے کرتے ہیں کہ انہوں نے اسے قبول کر لیا ہے اور نجات حاصل کر لی ہے۔ لیکن کیا وہ واقعی اسے جانتے ہیں؟ بمشکل، کیونکہ بہتیرے غیرصحیفائی تثلیث کے عقیدے کو مانتے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ نہ صرف سچائی کو جانتے ہیں بلکہ آپ غالباً جو کچھ یسوؔع نے کہا اور کِیا ہے اس کا کسی حد تک وسیع علم رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں عظیمترین آدمی جو کبھی ہو گزرا کتاب استعمال کرتے ہوئے ایک معلوماتی مطالعے کے ذریعے لاکھوں کی مدد کی گئی ہے۔ پھر بھی ہمیں یسوؔع اور اسکی راہوں کی بابت اپنے علم کو وسیع کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔
۱۰. کس طرح سے پوشیدہ علم ہمارے لئے ممکنالحصول ہے؟
۱۰ یہ بیان کہ یسوؔع میں ”حکمت اور علم کے تمام خزانے احتیاط کے ساتھ چھپا دئے گئے ہیں“ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ایسا علم ہماری سمجھ سے بعید ہے۔ اس کے برعکس، یہ کسی حد تک ایک کھلی کان کی مانند ہے۔ یہ سوچتے ہوئے کہ کھدائی کہاں سے شروع کی جائے ہمیں ایک وسیع رقبے کی کھوج لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم پہلے ہی جانتے ہیں—حقیقی علم جو کچھ بائبل یسوؔع مسیح کی بابت آشکارا کرتی ہے اس سے شروع ہوتا ہے۔ جُوں جُوں ہم یہوؔواہ کے مقصد کو سرانجام دینے میں یسوؔع کے کردار کی زیادہ بھرپور طریقے سے قدردانی کرتے ہیں، ہم سچی حکمت اور صحیح علم کے خزانے حاصل کرتے ہیں۔ پس جہاں ہم نے پہلے ہی کھدائی کی ہے اسی بنیادی جگہ سے ممکنالحصول مزید جواہر یا قیمتی اشیاء نکالتے ہوئے ہمیں لگاتار اَور زیادہ گہرائی میں کھودنے کی ضرورت ہے۔—امثال ۲:۱-۵۔
۱۱. ہم یسوؔع پر سوچبچار کرنے سے کس طرح اپنے علم اور حکمت کو بڑھا سکتے ہیں؟ (یسوؔع کے شاگردوں کے پاؤں دھونے سے سمجھائیں، یا دوسری مثالیں استعمال کریں۔)
۱۱ مثال کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ یسوؔع نے اپنے رسولوں کے پاؤں دھوئے تھے۔ (یوحنا ۱۳:۱-۲۰) تاہم، کیا ہم نے، اس درس پر جس کی وہ تعلیم دے رہا تھا اور جو روّیہ اس نے ظاہر کیا اس پر سوچبچار کی ہے؟ ایسا کرنے سے، ہم ایسی حکمت کا خزانہ حاصل کرتے ہیں جو ہمیں اس قابل بناتی ہے—جیہاں، ہمیں متحرک کرتی ہے—کہ ہم ایسے کسی بھائی یا بہن سے پیش آنے کے طریقے کو بدلیں جس کی شخصیت نے ایک عرصے سے ہمیں پریشان کیا ہوا ہے۔ یا جب ایک تفویض دی جاتی ہے جو ہماری پسند سے بالکل ہٹ کر ہے تو ہو سکتا ہے کہ یوحنا ۱۳:۱۴، ۱۵ کے مکمل مفہوم کو سمجھ لینے کے بعد ہم مختلف جوابیعمل دکھائیں۔ علم اور حکمت اسی طرح سے ہم پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ جب ہم مسیح کی بابت مزید علم کے مطابق پورے طور پر تقلید کرتے ہیں تو اس سے دوسروں پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟ غالباً گلّہ ’اور زیادہ محبت میں ہمآہنگی کے ساتھ باہم پیوستہ ہو‘ جائے گا۔a
انتشارِخیال ہمآہنگی کو نقصان پہنچا سکتا ہے
۱۲. ہمیں کس علم سے بچنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے؟
۱۲ اگر صحیح علم ہمارے ’محبت میں ہمآہنگی کے ساتھ باہم پیوستہ ہونے میں‘ آسانی پیدا کرتا ہے تو ”جس علم کو علم کہنا ہی غلط ہے“ اس سے کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ اس کے بالکل برعکس—نزاع، ناموافقت اور ایمان سے انحراف۔ پس جیسے کہ پولسؔ نے تیمتھیسؔ کو خبردار کِیا ہمیں ضرور ایسے علم سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ (۱-تیمتھیس ۶:۲۰، ۲۱) پولسؔ نے یہ بھی لکھا: ”میں یہ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ کوئی آدمی تم کو قائل کرنے والے دلائل کے ساتھ ورغلا نہ لے۔ محتاط رہو: شاید کوئی ایسا ہو سکتا ہے جو آدمیوں کی روایت کے مطابق، دنیا کی ابتدائی باتوں کے مطابق اور نہ کہ مسیح کے مطابق، تم کو فلسفے اور کھوکھلے فریب کے ذریعے اپنا شکار کر لے۔“—کلسیوں ۲:۴، ۸، اینڈبلیو۔
۱۳، ۱۴. (۱) علم کے سلسلے میں کُلسّےؔ کے بھائی خطرے میں کیوں تھے؟ (ب) آجکل بعض یہ کیوں محسوس کر سکتے ہیں کہ وہ ایسے خطرے میں نہیں ہیں؟
۱۳ کُلسّےؔ کے مسیحی ایسے ضرررساں اثر سے گھرے ہوئے تھے جو کہ واقعی غلط کہلایا جانے والا علم تھا۔ کُلسّےؔ کے اندر اور اردگرد بہتیرے لوگ یونانی فیلسوفیوں کی بڑی قدر کرتے تھے۔ وہاں یہودیتپسند بھی تھے جو چاہتے تھے کہ مسیحی موسوی شریعت کے پابند رہیں جیسے کہ انکے تہواروں اور خوراک سے متعلق تقاضے۔ (کلسیوں ۲:۱۱، ۱۶، ۱۷) پولسؔ اپنے بھائیوں کے صحیح علم حاصل کرنے کے خلاف نہیں تھا، بلکہ ان کو محتاط ہونے کی ضرورت تھی کہ کوئی بھی انکو زندگی اور اعمال کے سلسلے میں محض انسانی نقطۂنظر اختیار کرنے کے لئے یقین دلانے کی خاطر قائل کرنے والے دلائل کو استعمال کرتے ہوئے انہیں شکار نہ کر لے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اگر کوئی کلیسیا میں اپنی سوچ اور فیصلوں کو زندگی کی بابت ایسے غیرصحیفائی تصورات اور رویوں کے ذریعے راہنمائی پانے دیتا ہے تو یہ بات کلیسیا کے ارکان کے درمیان محبت اور ہمآہنگی کے خلاف کام کرے گی۔
۱۴ ’جیہاں‘ آپ شاید سوچیں، ’میں اس خطرے کو سمجھتا ہوں جس کا سامنا کُلسّےؔ کے لوگوں نے کیا، لیکن میں غیرفانی جان یا تثلیثی خدا جیسے یونانی تصورات سے اثرپذیر ہونے کے خطرے میں نہیں ہوں؛ نہ ہی میں جھوٹے مذہب کی مُلحدانہ تعطیلات کے ذریعے ورغلائے جانے کے کسی خطرے کو دیکھتا ہوں جس سے میں نے چھٹکارا حاصل کر لیا ہے۔‘ بہت خوب۔ یسوؔع مسیح کے ذریعے آشکارا کردہ اور صحائف میں دستیاب بنیادی سچائی کی برتری کی بابت پُختہ یقین رکھنا اچھی بات ہے۔ تاہم، کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ہمیں آجکل پھیلی ہوئی دیگر فیلسوفیوں یا انسانی نظریات سے خطرہ لاحق ہو؟
۱۵، ۱۶. زندگی کی بابت کونسا نقطۂنظر کسی مسیحی کی سوچ کو متاثر کر سکتا ہے؟
۱۵ اس طرح کا میلان ایک عرصے سے پایا جاتا ہے: ”اسکے آنے کا وعدہ اب کہاں ہے؟ ہمارے آباؤاجداد تو دفن بھی ہو گئے ہیں، لیکن پھر بھی ہر ایک چیز ویسے ہی قائم ہے جیسے ہمیشہ سے رہی ہے۔“ (۲-پطرس ۳:۴، دی نیو انگلش بائبل) ہو سکتا ہے کہ اس جذبے کا اظہار مختلف الفاظ میں کیا گیا ہو، لیکن نقطۂنظر ایک ہی ہے۔ مثال کے طور پر، شاید کوئی استدلال کرے، ’دہوں پہلے جب میں نے پہلےپہل سچائی سیکھی تھی تو خاتمہ ”بالکل قریب ہی تھا۔“ لیکن یہ ابھی تک قریب نہیں ہے، اور کون جانتا ہے کہ یہ کب آئے گا؟‘ مانا کہ کوئی انسان نہیں جانتا کہ خاتمہ کب آئے گا۔ پھر بھی، اس نقطۂنظر پر غور کریں جس کی یسوؔع نے تاکید کی: ”خبردار! جاگتے اور دعا کرتے رہو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ وہ وقت کب آئے گا۔“—مرقس ۱۳:۳۲، ۳۳۔
۱۶ یہ نظریہ اختیار کرنا کسقدر خطرناک ہوگا کہ یہ نہ جانتے ہوئے کہ خاتمہ کب آئے گا، ہمیں بھرپور اور ”معمول کے مطابق“ زندگی کے لئے منصوبہسازی کرنی چاہئے! ایسی سوچ کا اظہار اس دلیل سے ہو سکتا ہے، ’یہ میرے لئے اچھا ہوگا کہ ایسے اقدام کروں جو مجھ (یا میرے بچوں) کو باعزت پیشہ رکھنے کی اجازت دیں گے جس سے اچھی آمدنی آئے گی اور جو مجھے آرامدہ زندگی سے لطف اُٹھانے کے قابل بنائے گا۔ یقیناً، میں مسیحی اجلاسوں پر حاضر ہونگا اور منادی کے کام میں کچھ حصہ لوں گا، لیکن میرے لئے جانفشانی کرنے اور بڑی قربانیاں کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔‘—متی ۲۴:۳۸-۴۲۔
۱۷، ۱۸. یسوؔع اور رسولوں نے ہمیں کونسا نظریہ رکھنے کی تاکید کی؟
۱۷ تاہم، اس سے انکار نہیں کہ یسوؔع اور اس کے شاگردوں نے اس بات کا مشورہ دیا کہ ہم جانفشانی کرتے ہوئے اور قربانیاں دینے کے لئے تیار رہتے ہوئے خوشخبری کی منادی کرنے کے شدید احساس کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ پولسؔ نے لکھا: ”اے بھائیو! میں یہ کہتا ہوں کہ وقت تنگ ہے۔ پس آگے کو چاہئے کہ بیوی والے ایسے ہوں کہ گویا انکے بیویاں نہیں۔ . . . خریدنے والے ایسے ہوں کہ گویا مال نہیں رکھتے۔ اور دُنیوی کاروبار کرنے والے ایسے ہوں کہ دنیا ہی کے نہ ہو جائیں کیونکہ دنیا کی شکل بدلتی جاتی ہے۔“—۱-کرنتھیوں ۷:۲۹-۳۱؛ لوقا ۱۳:۲۳، ۲۴؛ فلپیوں ۳:۱۳-۱۵؛ کلسیوں ۱:۲۹؛ ۱-تیمتھیس ۴:۱۰؛ ۲-تیمتھیس ۲:۴؛ مکاشفہ ۲۲:۲۰۔
۱۸ اس بات کا مشورہ دینے سے کہیں بعید کہ ہم آرامدہ زندگی کو اپنا نصبالعین بنا لیں، پولسؔ نے زیرِالہام لکھا: ”نہ ہم دنیا میں کچھ لائے اور نہ کچھ اس میں سے لے جا سکتے ہیں۔ پس اگر ہمارے پاس کھانے پہننے کو ہے تو اُسی پر قناعت کریں۔ . . . ایمان کی اچھی کشتی لڑ۔ اس ہمیشہ کی زندگی پر قبضہ کر لے جسکے لئے تو بلایا گیا تھا اور بہت سے گواہوں کے سامنے اچھا اقرار کیا تھا۔“—۱-تیمتھیس ۶:۷-۱۲۔
۱۹. کلیسیا اس وقت کس طرح متاثر ہوتی ہے جب اس کے اندر کے لوگ اس نظریے کو قبول کرتے ہیں جس کی یسوؔع نے حوصلہافزائی کی؟
۱۹ جب ایک کلیسیا سرگرم مسیحیوں پر مشتمل ہوتی ہے جو ’اچھا اعلانیہ اقرار کرنے‘ کی شدت سے کوشش کرتے ہیں تو ہمآہنگی فطرتی بات ہے۔ وہ اس میلان کے سامنے جھک نہیں جاتے کہ ’تیرے پاس کئی سالوں کے لئے بہتیری اچھی چیزیں پڑی ہیں؛ آرام کر، کھا، پی، مزے اُڑا۔‘ (لوقا ۱۲:۱۹) اس کے برعکس، وہ کبھی نہ دہرائے جانے والے اس کام میں جس حد تک ممکن ہو بھرپور حصہ لینے کی خاطر قربانیاں کرنے کے لئے تیار رہنے سے یکساں کوشش میں متحد ہیں۔—مقابلہ کریں فلپیوں ۱:۲۷، ۲۸۔
قائل کرنے والے دلائل کی بابت محتاط
۲۰. ایک دوسرا حلقہ کونسا ہے جس میں مسیحی گمراہ ہو سکتے ہیں؟
۲۰ یقیناً دیگر طریقے بھی ہیں جن سے مسیحیوں کو ’قائل کرنے والے دلائل‘ یا کھوکھلے فریبوں کے ساتھ ’ورغلایا‘ جا سکتا ہے جو ’محبت میں ہمآہنگی کے ساتھ باہم پیوستہ ہونے‘ میں مداخلت کرتے ہیں۔ جرمنی میں واچٹاور سوسائٹی کے دفتر نے لکھا: ”ایک معاملہ بہتیری کلیسیاؤں میں عام نزاع کا باعث بن گیا، پبلشروں اور حتیٰکہ بزرگوں نے بھی ایک بھائی کے علاج کے طریقوں کو استعمال کرنے کے لئے دلائل پیش کرنے میں جانبداری برتنا شروع کر دی۔“ انہوں اضافہ کیا: ”مختلف قسم کے طریقکاروں کے استعمال کرنے اور مریضوں کی بڑی تعداد کی وجہ سے، یہ وہ حلقہ ہے جو نزاع والا معاملہ ہے اور اگر معالجاتی طریقکار ارواحپرستی کے اظہارات ہیں تو بھی خطرناک ہو سکتے ہیں۔“—افسیوں ۶:۱۲۔
۲۱. آجکل ایک مسیحی کس طرح درست مرکز کو کھو سکتا ہے؟
۲۱ مسیحی زندہ اور صحتمند رہنا چاہتے ہیں تاکہ وہ خدا کی پرستش کر سکیں۔ تاہم، اس نظام میں ہم بڑھاپے اور بیماری کے تابع ہیں جو ناکاملیت کا نتیجہ ہے۔ صحت کے مسائل پر زور دینے کے برعکس، ہمیں اپنے لئے اور دوسروں کے لئے جو حقیقی حل ہے اس پر غوروفکر کرنا چاہئے۔ (۱-تیمتھیس ۴:۱۶) مسیح اس حل کا نقطۂماسکہ ہے، جیسے کہ وہ کلسیوں کے نام پولسؔ کے مشورے کا بھی مرکز تھا۔ لیکن یاد رکھیں، پولسؔ نے ظاہر کیا کہ بعض ”قائل کرنے والے دلائل“ کے ساتھ آ سکتے ہیں جو مسیح سے ہماری توجہ ہٹا دیں، شاید ہماری توجہ تشخیصی طریقکاروں، علاجوں، یا پرہیزی غذاؤں پر لگا دیں۔—کلسیوں ۲:۲-۴۔
۲۲. تشخیص اور علاج کے طریقکاروں کے سلسلے میں بےشمار دعوؤں کی بابت ہمیں کونسا متوازن میلان رکھنا چاہئے؟
۲۲ تمام قسم کے علاج معالجوں اور ذرائع تشخیص کی بابت اشتہاربازیوں اور حاصلشدہ فوائد کی تصدیق کرنے والے بیانات کے ذریعے پوری دنیا کے لوگوں کو منقسم کر دیا گیا ہے۔ ان میں سے بعض بہت استعمال ہوتے اور تسلیمشُدہ ہیں؛ دیگر پر بہت زیادہ تنقید ہوتی یا شک کا اظہار کیا جاتا ہے۔b ہر شخص جو کچھ وہ اپنی صحت کے متعلق کرے گا اسکے لئے فیصلہ کرنے کا ذمہدار ہے۔ لیکن جو کلسیوں ۲:۴، ۸ میں پایا جانے والا پولسؔ کا مشورہ قبول کرتے ہیں ان کو ”قائل کرنے والے دلائل“ یا ”کھوکھلے فریبوں“ کے ذریعے ورغلائے جانے کے خلاف حفاظت حاصل ہوگی جو اُن بہتیروں کو گمراہ کرتے ہیں جو بادشاہتی اُمید سے محروم ہونے کے باعث، تسکین کے لئے بےچین ہیں۔ اگر ایک مسیحی اس بات سے قائل ہو بھی جاتا ہے کہ کوئی مخصوص علاج اس کے لئے بظاہر اچھا معلوم ہوتا ہے تو اُسے مسیحی برادری میں اِسے پھیلانا نہیں چاہئے، کیونکہ یہ عام بحث اور نزاع کا موضوع بن سکتا ہے۔ یوں وہ ظاہر کر سکتا ہے کہ وہ مسیحی کلیسیا میں ہمآہنگی کی اہمیت کا بہت زیادہ احترام کرتا ہے۔
۲۳. ہم خاصکر خوشی کی وجہ کیوں رکھتے ہیں؟
۲۳ پولسؔ رسول نے زور دیا کہ مسیحی ہمآہنگی حقیقی خوشی کی بنیاد ہے۔ اُس کے زمانے میں آجکل کی نسبت کلیسیاؤں کی تعداد یقیناً کم تھی۔ پھر بھی وہ کلسیوں کو لکھ سکتا تھا: ”میں گو جسم کے اعتبار سے دُور ہوں مگر روح کے اعتبار سے تمہارے پاس ہوں اور تمہاری باقاعدہ حالت اور تمہارے ایمان کی جو مسیح پر ہے مضبوطی دیکھ کر خوش ہوتا ہوں۔“ (کلسیوں ۲:۵؛ نیز دیکھیں کلسیوں ۳:۱۴۔) ہمارے پاس خوش ہونے کی کیا ہی بڑی وجہ ہے! ہم اپنی ہی کلیسیا میں ہمآہنگی، اچھے نظمونسق اور ایمان کی مضبوطی کی حقیقی شہادت دیکھ سکتے ہیں، جو ساری زمین پر خدا کے لوگوں کی عام حالت کو ظاہر کرتی ہے۔ پس موجودہ نظام کے باقیماندہ مختصر وقت میں، آئیے ہم میں سے ہر ایک ”محبت میں ہمآہنگی کے ساتھ باہم پیوستہ رہنے“ کا عزم کرے۔ (۱۳ ۱۲/۱۵ w۹۴)
[فٹنوٹ]
a اگرچہ بیانات تو بہت سے ہیں جن سے ہم سیکھ سکتے ہیں لیکن ذیل کی مثالوں سے، دیکھیں کہ آپ یسوؔع کی بابت ذاتی طور پر کیا کچھ سیکھ سکتے ہیں جو آپ کی کلیسیا میں ہمآہنگی کے لئے معاونت کرے گا: متی ۱۲:۱-۸؛ لوقا ۲:۵۱، ۵۲؛ ۹:۵۱-۵۵؛ ۱۰:۲۰؛ عبرانیوں ۱۰:۵-۹۔
b دیکھیں مینارِنگہبانی (انگریزی) جون ۱۵، ۱۹۸۲، صفحات ۲۲-۲۹۔
کیا آپ نے نوٹ کِیا؟
▫ یہوؔواہ کے گواہوں کے لئے ۱۹۹۵ کی سالانہ آیت کونسی ہے؟
▫ کُلسّےؔ کے مسیحیوں کو محبت میں ہمآہنگی کے ساتھ باہم پیوستہ رہنے کی ضرورت کیوں تھی اور آجکل ہمیں کیوں ہے؟
▫ آجکل زندگی کی بابت کونسے ضرررساں نقطۂنظر سے مسیحیوں کو خاص طور پر بچنے کی ضرورت ہے؟
▫ مسیحیوں کو کیوں ہوشیار رہنا چاہئے کہ صحت اور تشخیص کے ذرائع کے متعلق قائل کرنے والے دلائل سے دھوکا نہ کھا جائیں؟
[تصویریں]
کیا مستقبل کیلئے آپ کے منصو بے یسوؔع کی موجودگی پر مرکوز ہیں؟