”میرے منتظر رہو“
”پس خداوند فرماتا ہے میرے منتظر رہو۔“—صفنیاہ ۳:۸۔
۱. صفنیاؔہ نبی کی معرفت کونسی آگاہی دی گئی تھی، اور یہ اس زمانے میں رہنے والے لوگوں کیلئے دلچسپی کا باعث کیوں ہے؟
”یہوؔواہ کا روزِعظیم قریب ہے۔“ خبردار کرنے والا یہ اعلان ساتویں صدی ق.س.ع. کے وسط میں صفنیاؔہ نبی کے ذریعے کِیا گیا تھا۔ (صفنیاہ ۱:۱۴) ۴۰ یا ۵۰ سال کے اندر اندر، پیشینگوئی پوری ہو گئی جب یرؔوشلیم اور اُن اقوام پر جنہوں نے اُسکے لوگوں کیساتھ بدسلوکی کرنے سے یہوؔواہ کی حاکمیت کو تسلیم نہیں کِیا تھا یہوؔواہ کا سزائیں دینے کا دن آ گیا۔ یہ ۲۰ ویں صدی کے اختتام میں رہنے والے لوگوں کے لئے دلچسپی کا باعث کیوں ہے؟ ہم اُس وقت میں رہ رہے ہیں جب یہوؔواہ کا فیصلہکُن ”روزِعظیم“ بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ جیسےکہ صفنیاؔہ کے دِنوں میں تھا، یہوؔواہ کا ”قہرِشدید“ جدید زمانے کی یرؔوشلیم کی مماثل—دُنیائے مسیحیت—اور اُن تمام اقوام کے خلاف بھڑکنے کو ہے جو یہوؔواہ کے لوگوں کے ساتھ بدسلوکی کرتی اور اُس کی عالمگیر حاکمیت کو تسلیم نہیں کرتی ہیں۔—صفنیاہ ۱:۴؛ ۲:۴، ۸، ۱۲، ۱۳؛ ۳:۸؛ ۲-پطرس ۳:۱۲، ۱۳۔
صفنیاؔہ—ایک دلیر گواہ
۲، ۳. (ا) ہم صفنیاؔہ کی بابت کیا جانتے ہیں، اور کیا چیز ظاہر کرتی ہے کہ وہ یہوؔواہ کا ایک دلیر گواہ تھا؟ (ب) کونسے حقائق ہمیں صفنیاؔہ کے پیشینگوئی کرنے کے وقت اور جگہ کا تعیّن کرنے کے قابل بناتے ہیں؟
۲ صفنیاؔہ نبی جسکے نام (عبرانی، تصفنیاہ) کا مطلب ”یہوؔواہ نے محفوظ رکھا ہے (پوشیدہ رکھا ہے) کی بابت بہت کم معلوم ہے۔ تاہم، دوسرے نبیوں کے مقابلے میں، صفنیاؔہ نے پیچھے ”حزقیاؔہ“ تک، چوتھی پُشت تک اپنا نسبنامہ فراہم کِیا۔ (صفنیاہ ۱:۱؛ مقابلہ کریں یسعیاہ ۱:۱؛ یرمیاہ ۱:۱؛ حزقیایل ۱:۳۔) یہ اسقدر غیرمعمولی بات ہے کہ زیادہتر مفسرین وفادار بادشاہ حزقیاؔہ کی شناخت اُس کے پردادا کے طور پر کراتے ہیں۔ اگر وہ تھا، توپھر، صفنیاؔہ شاہی نسل سے تھا، اور اس چیز نے یہوؔداہ کے شہزادوں کے لئے اُس کی سخت ملامت کو اَور زیادہ اہم بنا دیا ہوگا اور یہ ظاہر کر دیا ہے کہ وہ یہوؔواہ کا ایک دلیر گواہ اور نبی تھا۔ یرؔوشلیم کی جغرافیائی خصوصیات اور جوکچھ شاہی دربار میں واقع ہو رہا تھا اُس کی بابت اُس کا گہرا علم یہ ظاہر کرتا ہے کہ شاید اُس نے دارالسلطنت میں یہوؔواہ کی سزاؤں کا باضابطہ اعلان کِیا تھا۔—دیکھیں صفنیاہ ۱:۸-۱۱۔
۳ یہ حقیقت اگرچہ قابلِغور ہے کہ صفنیاؔہ نے یہوؔداہ کے ”اُمرا“ (امیرزادوں یا قبائلی سرداروں) اور ”شہزادوں“ کے خلاف الہٰی سزاؤں کا باضابطہ اعلان کِیا توبھی اُس نے اپنی تنقید کا بذاتِخود بادشاہ کو کبھی نشانہ نہیں بنایا تھا۔a (صفنیاہ ۱:۸؛ ۳:۳) یہ ظاہر کرتا ہے کہ نوعمر بادشاہ یوؔسیاہ پہلے ہی پاک پرستش کے لئے اشتیاق ظاہر کر چکا تھا، اگرچہ، صفنیاؔہ کی معرفت مذمتکردہ حالت کے پیشِنظر صاف ظاہر ہے کہ اُس نے ابھی تک اپنی مذہبی اصلاحات کا آغاز نہیں کِیا تھا۔ یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ صفنیاؔہ نے یوؔسیاہ کے ابتدائی برسوں کے دوران، یہوؔداہ میں نبوّت کی، جس نے ۶۵۹ سے ۶۲۹ ق.س.ع. تک حکمرانی کی۔ صفنیاؔہ کی پُرزور نبوّت نے بِلاشُبہ نوعمر یوؔسیاہ کی اُس بُتپرستی، تشدد اور بدعنوانی سے آگاہی میں مزید اضافہ کِیا جو اُس وقت یہوؔداہ میں عام تھی اور جس نے بعدازاں بُتپرستی کے خلاف اُس کی مہم کی حوصلہافزائی کی تھی۔—۲-تواریخ ۳۴:۱-۳۔
یہوؔواہ کے قہرِشدید کی وجوہات
۴. کن الفاظ میں یہوؔواہ نے یہوؔداہ اور یرؔوشلیم کے خلاف اپنے غضب کا اظہار کِیا؟
۴ یہوؔواہ کے پاس یہوؔداہ کے سرداروں اور باشندوں کے اور اسکے دارالحکومت یرؔوشلیم کے خلاف غضبناک ہونے کی معقول وجہ تھی۔ اپنے نبی صفنیاؔہ کی معرفت، اُس نے فرمایا: ”مَیں یہوؔداہ پر اور یرؔوشلیم کے سب باشندوں پر ہاتھ چلاؤنگا اور اس مکان میں سے بعلؔ کے بقیہ کو اور کماریم کے نام کو پجاریوں سمیت نیست کرونگا۔ اور اُنکو بھی جو کوٹھوں پر چڑھ کر اجرامِفلک کی پرستش کرتے ہیں اور اُنکو جو خداوند کی عبادت کا عہد کرتے ہیں لیکن ملکوؔم کی قسم کھاتے ہیں۔“—صفنیاہ ۱:۴، ۵۔
۵، ۶. (ا) صفنیاؔہ کے دنوں میں یہوؔداہ کی مذہبی حالت کیسی تھی؟ (ب) یہوؔداہ کے کشوری عہدیداروں اور اُنکے ماتحتوں کی حالت کیسی تھی؟
۵ یہوؔداہ بعلؔ کی پرستش کی تذلیلکُن باروری کی مذہبی رسومات، شیاطینی علمِنجوم اور غیرقوم دیوتا ملکوؔم کی پرستش سے آلودہ تھا۔ اگر ملکوؔم ہی مولکؔ ہے، جیسےکہ بعض کا خیال ہے، توپھر یہوؔداہ کی جھوٹی پرستش میں بچوں کی نفرتانگیز قربانی بھی شامل تھی۔ ایسے مذہبی کام یہوؔواہ کی نظر میں مکروہ تھے۔ (۱-سلاطین ۱۱:۵، ۷؛ ۱۴:۲۳، ۲۴؛ ۲-سلاطین ۱۷:۱۶، ۱۷) اُنہوں نے خدا کے غضب کو اَور بھڑکا دیا کیونکہ بُتپرست ابھی تک یہوؔواہ کے نام کی قسمیں اُٹھاتے تھے۔ وہ ایسی مذہبی ناپاکی کو مزید برداشت نہیں کریگا اور بُتپرست اور برگشتہ کاہنوں کو یکساں طور پر ہلاک کر دیگا۔
۶ مزیدبراں، یہوؔداہ کے کشوری عہدیدار بدکار تھے۔ اُسکے شہزادے ”گرجنے والے ببروں“ کی طرح حریص تھے اور اُس کے قاضی بھوکے ”بھیڑیوں“ کی مانند تھے۔ (صفنیاہ ۳:۳) اُن کے ماتحتوں پر ”اپنے آقا کے گھر کو لُوٹ اور مکر سے بھرنے“ کا الزام تھا۔ (صفنیاہ ۱:۹) مادہپرستی عام تھی۔ بہتیرے مالودولت جمع کرنے کیلئے موقع سے فائدہ اُٹھا رہے تھے۔—صفنیاہ ۱:۱۳۔
یہوؔواہ کے دن کی بابت شکوک
۷. صفنیاؔہ نے ”خداوند کے روزِعظیم“ سے کتنا عرصہ پہلے پیشینگوئی کی تھی، اور بہت سے یہودیوں کی روحانی حالت کیسی تھی؟
۷ جیسےکہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں، صفنیاؔہ کے دنوں میں پائی جانے والی خوفناک مذہبی حالت ظاہر کرتی ہے کہ اُس نے یوؔسیاہ بادشاہ کے، تقریباً ۶۴۸ ق.س.ع. میں بُتپرستی کے خلاف اپنی مہم کا آغاز کرنے سے پیشتر گواہ اور نبی کے طور پر اپنا کام شروع کر دیا تھا۔ (۲-تواریخ ۳۴:۴، ۵) لہٰذا، صفنیاؔہ نے غالباً یہوؔداہ کی بادشاہت پر ”خداوند کے روزِعظیم“ کے آنے سے کمازکم ۴۰ سال پہلے پیشینگوئی کی تھی۔ اس دوران میں، بہتیرے یہودیوں نے شکوک کو ذہن میں جگہ دی اور لاپرواہ ہوتے ہوئے یہوؔواہ کی خدمت کرنے سے ’پھر گئے‘۔ صفنیاؔہ اُن کا ذکر کرتا ہے جو ”نہ اُس کے [خداوند کے] طالب ہوئے اور نہ اُنہوں نے اُس سے مشورت لی۔“ (صفنیاہ ۱:۶) واضح طور پر، یہوؔداہ کے لوگ خود کو خدا سے بےبہرہ رکھتے ہوئے، سردمہر تھے۔
۸، ۹. (ا) یہوؔواہ اُن کا ”جتنے اپنی تلچھٹ پر جم گئے ہیں“ کیوں معائنہ کریگا؟ (ب) کن طریقوں سے یہوؔواہ یہوؔداہ کے باشندوں اور اُنکے کشوری اور مذہبی راہنماؤں پر توجہ دیگا؟
۸ یہوؔواہ نے اُن لوگوں کو جانچنے کے اپنے مقصد کو واضح کِیا جو اُس کے لوگ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اپنے دعویدار پرستاروں کے درمیان، وہ اُن لوگوں کو تلاش کرے گا جو اپنے دلوں میں انسانی معاملات میں مداخلت کرنے کی اُس کی لیاقت یا ارادے کی بابت شکوک رکھتے تھے۔ اُس نے فرمایا: ”مَیں چراغ لیکر یرؔوشلیم میں تلاش کرونگا اور جتنے اپنی تلچھٹ پر جم گئے ہیں اور دل میں کہتے ہیں کہ خداوند سزاوجزا نہ دے گا اُن کو سزا دونگا۔“(صفنیاہ ۱:۱۲) جزوِجملہ ”جتنے اپنی تلچھٹ پر جم گئے“ (مے بنانے کی طرف اشارہ) اُنکی نشاندہی کرتا ہے جو بڑے کونڈے کی تہہ میں تلچھٹ کی مانند بیٹھ گئے ہیں، اور جو نوعِانسان کے معاملات میں کسی بھی طرح کی سر پر کھڑی الہٰی مداخلت کے اعلان سے پریشان ہونا نہیں چاہتے ہیں۔
۹ یہوؔواہ یہوؔداہ اور یرؔوشلیم کے باشندوں اور اُن کے کاہنوں پر جنہوں نے اُس کی پرستش کو بُتپرستی کیساتھ ملا دیا ہے نظر کرے گا۔ اگر وہ یرؔوشلیم کی دیواروں کے اندر، گویا رات کی تاریکی میں محفوظ محسوس کرتے ہیں تو وہ اُنہیں چراغ لیکر تلاش کرے گا جو اُس روحانی تاریکی کو چیر کر نکل جائے گا جس میں اُنہوں نے پناہ لی ہوئی ہے۔ وہ اُنہیں اُن کی مذہبی سردمہری سے جھنجھوڑے گا، پہلے سزا کے خوفناک پیغامات کے ذریعے، اس کے بعد ان سزاؤں کی تعمیل کے ذریعے۔
”یہوؔواہ کا روزِعظیم قریب ہے“
۱۰. صفنیاؔہ نے ”خداوند کے روزِعظیم“ کو کیسے بیان کِیا؟
۱۰ یہوؔواہ نے صفنیاؔہ کو الہام بخشا کہ اعلان کرے: ”خداوند کا روزِعظیم قریب ہے ہاں وہ نزدیک آ گیا۔ وہ آ پہنچا! سنو! خداوند کے دن کا شور! زبردست آدمی پھوٹ پھوٹ کر روئیگا۔“ (صفنیاہ ۱:۱۴) بِلاشُبہ ہر ایک کیلئے—کاہنوں، شہزادوں اور لوگوں کیلئے—جنہوں نے آگاہی پر دھیان دینے اور سچی پرستش کی طرف لوٹنے سے انکار کِیا غمانگیز ایّام قریب تھے۔ سزا کی تعمیل کے اُس دن کو بیان کرتے ہوئے، پیشینگوئی جاری رہتی ہے: ”وہ دن قہر کا دن ہے۔ دُکھ اور رنج کا دن۔ ویرانی اور خرابی کا دن۔ تاریکی اور اُداسی کا دن۔ ابر اور تیرگی کا دن۔ حصین شہروں اور اُونچے بُرجوں کے خلاف نرسنگے اور جنگی للکار کا دن۔“—صفنیاہ ۱:۱۵، ۱۶۔
۱۱، ۱۲. (ا) یرؔوشلیم کیخلاف کس عدالتی سزا کے پیغام کا اعلان کِیا گیا تھا؟ (ب) کیا مادی خوشحالی یہودیوں کو بچائیگی؟
۱۱ چند ہی عشروں کے اندر اندر، بابلؔ کی افواج یہوؔداہ پر حملہ کرینگی۔ یرؔوشلیم بچ نہیں پائے گا۔ اُس کے رہائشی اور کاروباری حصے ویران ہو جائیں گے۔ ”اُسی روز“ یہوؔواہ فرماتا ہے، ”مچھلی پھاٹک سے رونے کی آواز اور مِشنہؔ سے ماتم کی اور ٹیلوں پر سے بڑے غوغا کی صدا اُٹھے گی۔ اے مکتیسؔ کے رہنے والو! ماتم کرو کیونکہ سب سوداگر مارے گئے۔ جو چاندی سے لدے تھے سب ہلاک ہوئے۔“—صفنیاہ ۱:۱۰، ۱۱۔
۱۲ یہ تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہ یہوؔواہ کا دن قریب تھا، بہتیرے یہودی منافعبخش کاروباری اُمور میں بہت زیادہ مگن تھے۔ لیکن اپنے وفادار نبی صفنیاؔہ کی معرفت، یہوؔواہ نے پہلے سے بتا دیا کہ اُنکا مال ”لٹ جائیگا اور اُنکے گھر اُجڑ جائینگے۔“ وہ اپنی بنائی ہوئی مے نہ پئیں گے، اور ”خداوند کے قہر کے دن اُنکا سونا یا چاندی اُنکو بچا نہ سکے گا۔“—صفنیاہ ۱:۱۳، ۱۸۔
دیگر اقوام کا سزا پانا
۱۳. صفنیاؔہ نے موآؔب، عموؔن اور اسوؔر کیخلاف سزا کے کونسے پیغام کا اعلان کِیا؟
۱۳ اپنے نبی صفنیاؔہ کی معرفت، یہوؔواہ نے اُن اقوام کے خلاف بھی اپنے غضب کا اظہار کِیا جنہوں نے اُسکے لوگوں کیساتھ بدسلوکی کی تھی۔ اُس نے فرمایا: ”مَیں نے موآؔب کی ملامت اور بنی عمون کی لعنطعن سنی ہے۔ اُنہوں نے میری قوم کو ملامت کی اور اُنکی حدود کو دبا لیا ہے۔ اسلئے ربالافواج اسرائیل کا خدا فرماتا ہے مجھے اپنی حیات کی قسم! یقیناً موآؔب سدؔوم کی مانند ہوگا اور بنی عمون عموؔرہ کی مانند۔ وہ پُرخارونمکزار اور ابدالآباد برباد رہینگے۔ . . . اور وہ شمال کی طرف اپنا ہاتھ بڑھائیگا اور اؔسور کو نیست کریگا اور نینوؔہ کو ویران اور بیابان کی مانند خشک کر دیگا۔“—صفنیاہ ۲:۸، ۹، ۱۳۔
۱۴. اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ غیر قوموں نے اسرائیلیوں اور اُن کے خدا، یہوؔواہ کیخلاف فضیحتآمیز باتیں کی تھیں‘؟
۱۴ موآؔب اور عموؔن اسرائیل کے روایتی دُشمن تھے۔ (مقابلہ کریں قضاۃ ۳:۱۲-۱۴۔) پیرؔس میں لاویری عجائب گھر میں موآبی پتھر پر موآبی بادشاہ میشاؔ کی طرف سے ایک متکبرانہ عبارت کندہ ہے۔ وہ بڑے فخر سے کاؔموس دیوتا کی مدد کیساتھ اسرائیل کے مختلف شہروں کو فتح کرنے کا ذکر کرتا ہے۔ (۲-سلاطین ۱:۱) صفنیاؔہ کا ہمعصر یرؔمیاہ عمونیوں کے اسرائیل کے علاقے جدؔ پر اپنے دیوتا ملکوؔم کے نام سے قبضہ کرنے کا ذکر کرتا ہے۔ (یرمیاہ ۴۹:۱) جہانتک اؔسور کا تعلق ہے، شاہ سلمنسرؔ پنجم نے صفنیاؔہ کے ایّام سے تقریباً ایک صدی پہلے ساؔمریہ کا محاصرہ کِیا اور قبضہ کر لیا تھا۔ (۲-سلاطین ۱۷:۱-۶) کچھ عرصہ بعد، سنحیرؔب بادشاہ نے یہوؔداہ پر حملہ کِیا، اسکے بہت سے فصیلدار شہر لے لئے اور یرؔوشلیم کو بھی دھمکی دی۔ (یسعیاہ ۳۶:۱، ۲) اسوری بادشاہ کے نمائندے نے بھی یرؔوشلیم سے ہتھیار ڈالنے کا تقاضا کرتے وقت یہوؔواہ کے خلاف فضیحتآمیز باتیں کیں۔—یسعیاہ ۳۶:۴-۲۰۔
۱۵. یہوؔواہ کیسے قوموں کے اُن معبودوں کو ذلیل کریگا جنہوں نے اُسکے لوگوں کیخلاف فضیحتآمیز باتیں کی تھیں؟
۱۵ زبور ۸۳ موآؔب، عموؔن اور اؔسور سمیت بہت سی اقوام کا ذکر کرتا ہے جنہوں نے اؔسرائیل کے خلاف فضیحتآمیز باتیں کیں اور شیخی کے ساتھ کہا: ”آؤ ہم انکو کاٹ ڈالیں کہ اِنکی قوم ہی نہ رہے اور اسرائیل کے نام کا پھر ذکر نہ ہو۔“ (زبور ۸۳:۴) صفنیاؔہ نبی نے دلیری کیساتھ اعلان کِیا کہ یہ تمام متکبر اقوام اور اُنکے معبود لشکروں کے یہوؔواہ کے ہاتھوں ذلیل ہونگے۔ ”یہ سب کچھ اُن کے تکبّر کے سبب سے اُن پر آئیگا کیونکہ اُنہوں نے ربالافواج کے لوگوں کو ملامت کی اور اُن پر زیادتی کی۔ خداوند اُنکے لئے ہیبتناک ہوگا اور زمین کے تمام معبودوں کو لاغر کر دیگا اور بحری ممالک کے سب باشندے اپنی اپنی جگہ میں اُسکی پرستش کرینگے۔“—صفنیاہ ۲:۱۰، ۱۱۔
”منتظر رہو“
۱۶. (ا) کن لوگوں کیلئے یہوؔواہ کے دن کا قریب آنا شادمانی کا باعث تھا، اور کیوں؟ (ب) اس وفادار بقیے کو چوکنا کر دینے والا کونسا حکم دیا گیا؟
۱۶ اگرچہ یہوؔداہ اور یرؔوشلیم کے بہت سے باشندوں اور اُمرا کے اندر روحانی کاہلی، شکی میلان، بُتپرستی، بدعنوانی اور مادہپرستی پائی جاتی تھی، توبھی بظاہر چند وفادار یہودیوں نے صفنیاؔہ کی خبردار کرنے والی پیشینگوئیوں پر دھیان دیا۔ وہ یہوؔداہ کے شہزادوں، قاضیوں اور کاہنوں کے نفرتی کاموں کے باعث غمگین تھے۔ صفنیاؔہ کے اعلانات ان وفادار اشخاص کیلئے تسلی کا باعث تھے۔ سخت ذہنی اذیت کا باعث بننے کی بجائے، یہوؔواہ کے دن کا آنا اُن کیلئے خوشی کا باعث تھا، کیونکہ یہ ایسے مکروہ کاموں کا خاتمہ کریگا۔ اس وفادار بقیے نے یہوؔواہ کے اس چوکنا کر دینے والے حکم پر دھیان دیا: ”پس خداوند فرماتا ہے میرے منتظر رہو جب تک کہ مَیں لُوٹ کے لئے نہ اُٹھوں کیونکہ مَیں نے ٹھان لیا ہے کہ قوموں کو جمع کروں اور مملکتوں کو اکٹھا کروں تاکہ اپنے غضب یعنی تمام قہرِشدید کو اُن پر نازل کروں کیونکہ میری غیرت کی آگ ساری زمین کو کھا جائیگی۔“—صفنیاہ ۳:۸۔
۱۷. کب اور کیسے صفنیاؔہ کے سزا کے پیغامات قوموں کے سلسلے میں تکمیلپذیر ہونا شروع ہوئے؟
۱۷ وہ جنہوں نے اس آگاہی پر دھیان دیا اس بات سے حیران نہیں تھے۔ بہتیرے صفنیاؔہ کی اس پیشینگوئی کی تکمیل دیکھنے تک زندہ رہے تھے۔ ۶۳۲ ق.س.ع. میں، نینوؔہ کو بابلیوں، مادیوں اور شمال سے خانہبدوشوں، غالباً سکوتیوں کے گٹھجوڑ کے ذریعے فتح کر لیا گیا اور برباد کر دیا گیا۔ مورّخ ولؔ ڈورانٹ بیان کرتا ہے: ”نبوؔپلاسر کی قیادت میں بابلیوں کی فوج نے کیواکساؔریس کی کمان میں مادیوں کی فوج کیساتھ اور ککیس سے سکوتیوں کے خانہبدوش لشکر کیساتھ اتحاد کر لیا اور حیرانکُن آسانی اور تیزی کیساتھ شمال کے بالاحصاروں پر قبضہ کر لیا۔ . . . ایک ہی وار میں اؔسور کا تاریخ سے نامونشان مٹ گیا۔ بالکل ویسے ہی ہوا جیسے صفنیاؔہ نے پیشینگوئی کی تھی۔—صفنیاہ ۲:۱۳-۱۵۔
۱۸. (ا) یرؔوشلیم کیخلاف الہٰی سزا کی تعمیل کیسے ہوئی، اور کیوں؟ (ب) موآؔب اور عموؔن کی بابت صفنیاؔہ کی پیشینگوئی کی تکمیل کیسے ہوئی تھی؟
۱۸ بہت سے یہودی جنہوں نے خود کو یہوؔواہ کا منتظر رکھا وہ بھی یہوؔداہ اور یرؔوشلیم پر اُسکی سزاؤں کی تعمیل دیکھنے کیلئے زندہ رہے۔ یرؔوشلیم کی بابت صفنیاؔہ نے پیشینگوئی کی تھی: ”اُس سرکشوناپاکوظالم شہر پر افسوس! اُس نے کلام کو نہ سنا۔ وہ تربیتپذیر نہ ہوا۔ اُس نے خداوند پر توکل نہ کِیا اور اپنے خدا کی قربت کی آرزُو نہ کی۔“ (صفنیاہ ۳:۱، ۲) اُس کی بیوفائی کی وجہ سے، دو بار بابلیوں نے یرؔوشلیم کا محاصرہ کِیا اور بالآخر ۶۰۷ ق.س.ع. میں وہ فتح کر لیا گیا اور برباد ہوا۔ (۲-تواریخ ۳۶:۵، ۶، ۱۱-۲۱) جہاں تک موآؔب اور عموؔن کا تعلق ہے، یہودی مورّخ جوزیفسؔ کے مطابق، یرؔوشلیم کی بربادی کے بعد پانچویں سال میں، بابلیوں نے اُن کیخلاف جنگ کی اور اُنہیں فتح کر لیا۔ بعدازاں، جیسے پیشینگوئی کی گئی تھی وہ نیستونابود ہو گئے۔
۱۹، ۲۰. (ا) یہوؔواہ نے اُنہیں کیسے اجر دیا جنہوں نے خود کو اُس کا منتظر رکھا؟ (ب) یہ واقعات ہمارے لئے باعثِفکر کیوں ہیں، اور اگلے مضمون میں کس چیز پر غور کِیا جائیگا؟
۱۹ صفنیاؔہ کی پیشینگوئی کی ان اور دیگر تفصیلات کی تکمیل اُن یہودیوں اور غیریہودیوں کیلئے جنہوں نے خود کو یہوؔواہ کا منتظر رکھا ایمان کا ایک تقویتبخش تجربہ تھا۔ یہوؔداہ اور یرؔوشلیم پر آنے والی تباہی سے بچنے والوں میں یرؔمیاہ، عبدؔملک کوشی، یوناؔداببِنریکاب کا گھرانہ شامل تھا۔ (یرمیاہ ۳۵:۱۸، ۱۹؛ ۳۹:۱۱، ۱۲، ۱۶-۱۸) اسیری میں وفادار یہودی اور اُنکی اولاد جو یہوؔواہ کی منتظر رہی، اُس مسرور بقیے کا حصہ بن گئے جو ۵۳۷ ق.س.ع. میں بابلؔ سے آزاد کرایا گیا اور سچی پرستش کو بحال کرنے کیلئے یہوؔداہ میں واپس آیا۔—عزرا ۲:۱؛ صفنیاہ ۳:۱۴، ۱۵، ۲۰۔
۲۰ اس سب کا ہمارے زمانے کیلئے کیا مطلب ہے؟ متعدد طریقوں سے صفنیاؔہ کے زمانے کی حالت آجکل دُنیائے مسیحیت میں واقع ہونے والے نفرتی کاموں کے مشابہ ہے۔ علاوہازیں، اُس زمانے میں یہودیوں کے مختلف رجحانات، اُن رجحانات سے مشابہت رکھتے ہیں جو آج دیکھے جا سکتے ہیں، بعضاوقات یہوؔواہ کے لوگوں کے درمیان بھی۔ یہ وہ باتیں ہیں جن پر اگلے مضمون میں باتچیت کی جائیگی۔ (۸ ۰۳/۰۱ w۹۶)
[فٹنوٹ]
a ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جزوِجملہ ”شہزادے“ تمام شاہی اُمراء کی طرف اشارہ کرتا ہے، چونکہ اُس وقت یوؔسیاہ کے اپنے بیٹے بہت چھوٹے تھے۔
نظرثانی کیلئے
▫ صفنیاؔہ کے زمانے میں یہوؔداہ میں مذہبی حالت کیسی تھی؟
▫ کشوری عہدیداروں کے درمیان کیسی حالت پائی جاتی تھی اور زیادہتر لوگوں کا رویہ کیسا تھا؟
▫ کیسے قوموں نے یہوؔواہ کے لوگوں کیخلاف فضیحتآمیز باتیں کی تھیں؟
▫ صفنیاؔہ نے یہوؔداہ اور دیگر اقوام کو کیا آگاہی دی؟
▫ جنہوں نے خود کو یہوؔواہ کا منتظر رکھا اُنہیں کیسے اجر دیا گیا؟
[تصویر]
موآبی پتھر اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ موؔآب کے بادشاہ میشاؔ نے قدیم اسرائیل کیخلاف فضیحتآمیز باتیں کی تھیں
[تصویر کا حوالہ]
موآبی پتھر: Musée du Louvre, Paris
[تصویر]
صفنیاؔہ کی پیشینگوئی کی حمایت میں، بابلی تاریخ کی یہ خطِمیخ کی تختی افواج کے گٹھجوڑ کے باعث نینوؔہ کی بربادی کو بیان کرتی ہے
[تصویر کا حوالہ]
خطِمیخ کی تختی: Courtesy of The British Museum