”اطمینان کا خدا“ مصیبتزدہ کی فکر رکھتا ہے
بائبل واضح کرتی ہے کہ زمانۂقدیم کا داؤد مصیبت سے ناواقف نہیں تھا۔ اُسے کئی سال تک ایک مفرور کی طرح زندگی گزارنا پڑی کیونکہ اُسے قتل کرنے کیلئے ایک بدکار اور متکبر بادشاہ بیرحمی سے اُسکا تعاقب کر رہا تھا۔ مصیبت کے اس وقت کے دوران، داؤد دُوراُفتادہ علاقوں میں رُوپوش رہا۔ لیکن اُس نے کچھ اَور بھی کِیا۔ اُس نے اپنی مشکل کی بابت سنجیدگی سے یہوواہ سے دُعا کی۔ بعدازاں اُس نے اپنی کڑی آزمائش کی بابت لکھا ”مَیں اپنی آواز بلند کرکے خداوند سے فریاد کرتا ہوں۔“ ”مَیں اُسکے حضور فریاد کرتا ہوں۔ مَیں اپنا دُکھ اُسکے حضور بیان کرتا ہوں۔“—زبور ۱۴۲:۱، ۲۔
آجکل، بعض لوگ خدا پر داؤد کے توکل کا تمسخر اُڑا سکتے ہیں۔ شاید وہ کہیں کہ دُعا ایک نفسیاتی بیساکھی ہے اور عملی صورتحال میں یہ محض وقت کا ضیاع ہے۔ تاہم، خدا پر داؤد کا بھروسہ غلطفہمی پر مبنی نہیں تھا کیونکہ اُسکے دشمنوں کو بالآخر شکست ہوئی تھی۔ اپنے تجربے پر غور کرتے ہوئے، داؤد نے لکھا: ”اِس غریب [”مصیبتزدہ،“ اینڈبلیو] نے دُہائی دی۔ خداوند نے اِسکی سنی اور اِسے اِسکے دُکھوں سے بچا لیا۔“ (زبور ۳۴:۶) داؤد نے جس سچے خدا کی طرف رجوع کِیا اُسے ایک اَور جگہ پر ”اطمینان کا خدا“ کہا گیا ہے۔ (فلپیوں ۴:۹؛ عبرانیوں ۱۳:۲۰) کیا وہ ہمارے لئے اطمینان کا باعث بنتے ہوئے مصیبت سے نجات دلائیگا؟
یہوواہ آپ کی فکر رکھتا ہے
یہوواہ اپنے لوگوں کی مشکلات سے غافل نہیں ہے۔ (زبور ۳۴:۱۵) وہ نہ صرف اجتماعی طور پر اپنے خادموں کی ضروریات سے واقف ہے بلکہ ہر اُس شخص کی ضرورت سے بھی واقف ہے جو اُسکا خوف مانتا ہے۔ قدیم یروشلیم میں ہیکل کی مخصوصیت کے وقت، سلیمان نے یہوواہ سے التجا کی کہ ”جو دُعا اور مناجات کسی ایک شخص یا تیری ساری قوم اسرائیل کی طرف سے ہو جن میں سے ہر شخص اپنے دُکھ اور رنج کو جانکر اپنے ہاتھ . . . پھیلائے“ تو تُو سن لینا۔ (۲-تواریخ ۶:۲۹) جیسے سلیمان نے تسلیم کِیا، ہر شخص کو مختلف نوعیت کی مصیبت برداشت کرنی پڑتی ہے۔ ایک شخص کیلئے یہ جسمانی علالت ہو سکتی ہے۔ دوسرے کیلئے، جذباتی تناؤ ہو سکتا ہے۔ بعض کسی عزیز کی موت کے باعث مصیبتزدہ ہو سکتے ہیں۔ بیروزگاری، معاشی مشکلات اور خاندانی مسائل بھی ان کٹھن ایّام میں عام مصائب ہیں۔
تھوڑی دیر کے لئے آپ ’اپنے دُکھ اور اپنے رنج‘ کی بابت سوچیں۔ بعضاوقات شاید آپ نے زبورنویس داؤد کی طرح محسوس کِیا ہو جس نے لکھا: ”مَیں اِسی انتظار میں رہا کہ کوئی ترس کھائے پر کوئی نہ تھا اور تسلی دینے والوں کا منتظر رہا پر کوئی نہ ملا۔“ تاہم، آپ یقین رکھ سکتے ہیں کہ خدا آپ کی صورتحال کی بابت فکر رکھتا ہے کیونکہ بعد میں اُسی زبور میں داؤد نے لکھا: ”خداوند محتاجوں کی سنتا ہے اور اپنے قیدیوں کو حقیر نہیں جانتا۔“—زبور ۶۹:۲۰، ۳۳۔
وسیع مفہوم میں داؤد کے الفاظ کا اطلاق کرتے ہوئے، ہم اعتماد رکھ سکتے ہیں کہ نوعِانسان کا خالق اُن لوگوں کی دُعائیں سنتا ہے جو، علامتی مفہوم میں، اپنی مصیبتوں کے باعث قید ہیں۔ اس سے بڑھکر، وہ اُن کی خستہحالی کے سلسلے میں کارروائی کرتا ہے۔ مندرجہذیل بیانات پر غور کریں جو مصیبتزدہ کیلئے یہوواہ کے رحم کو آشکارا کرتے ہیں۔
”تم کسی بیوہ یا یتیم لڑکے کو دُکھ نہ دینا۔ اگر تُو اُن کو کسی طرح سے دُکھ دے اور وہ مجھ سے فریاد کریں تو مَیں ضرور اُنکی فریاد سنونگا۔ اور میرا قہر بھڑکے گا۔“—خروج ۲۲:۲۲-۲۴۔
”کیا خدا اپنے برگزیدوں کا انصاف نہ کریگا جو راتدن اُس سے فریاد کرتے ہیں؟ اور کیا وہ اُنکے بارے میں دیر کریگا؟“—لوقا ۱۸:۷۔
”وہ محتاج کو جب وہ فریاد کرے۔ اور غریب [”مصیبتزدہ،“ اینڈبلیو] کو جسکا کوئی مددگار نہیں چھڑائیگا۔ وہ غریب اور محتاج پر ترس کھائیگا۔ اور محتاجوں کی جان کو بچائیگا۔ وہ فدیہ دیکر اُنکی جان کو ظلم اور جبر سے چھڑائیگا اور اُن کا خون اُس کی نظر میں بیشقیمت ہوگا۔“—زبور ۷۲:۱۲-۱۴۔
”جو کوئی تم [زمین پر خدا کے لوگوں] کو چھوتا ہے میری آنکھ کی پتلی کو چھوتا ہے۔“—زکریاہ ۲:۸۔
یہ چند مثالیں ہمارے خالق کی اپنے لوگوں کی فلاحوبہبود میں گہری دلچسپی کو ظاہر کرتی ہیں۔ لہٰذا، ہمارے پاس پطرس رسول کی مشورت پر عمل کرنے کی اچھی وجہ موجود ہے: ”اپنی ساری فکر اُسی پر ڈال دو کیونکہ اُس کو تمہاری فکر ہے۔“ (۱-پطرس ۵:۷) لیکن مصیبت کے اوقات میں خدا کیسے ہماری مدد کرے گا؟
خدا مصیبتزدہ کی مدد کیسے کرتا ہے
جیسےکہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ داؤد نے مصیبت کے دوران راہنمائی کیلئے سنجیدگی کیساتھ یہوواہ سے دُعا کی تھی۔ لیکن اسکے ساتھ ساتھ، اُس نے اپنا تعاقب کرنے والوں سے بچنے کیلئے خوشتدبیری سے کام لیتے ہوئے صورتحال کی شدت کو کم کرنے کیلئے پہل بھی کی۔ لہٰذا، یہوواہ پر توکل اور ذاتی کوشش دونوں نے مِل کر داؤد کو اپنی مشکل برداشت کرنے کے قابل بنایا۔ ہم اس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
جب ہم مصیبت میں گِھرے ہوں تو مسئلے کو حل کرنے کیلئے ہماری طرف سے معقول ابتدائی کارروائی یقیناً غلط نہیں ہوگی۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی مسیحی بیروزگار ہے تو کیا وہ ملازمت تلاش کرنے کی کوشش نہیں کریگا؟ اور اگر وہ کسی جسمانی بیماری میں مبتلا ہے تو کیا وہ طبّی نگہداشت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کریگا؟ حتیٰکہ یسوع نے بھی اگرچہ اُسکے پاس تمام قسم کی بیماری سے شفا دینے کی طاقت تھی، تسلیم کِیا کہ ’بیمار کو طبیب کی ضرورت ہوتی ہے۔‘ (متی ۹:۱۲؛ مقابلہ کریں ۱-تیمتھیس ۵:۲۳۔) بیشک، بعض مشکلات کو ختم نہیں کِیا جا سکتا؛ اُنہیں برداشت ہی کرنا پڑتا ہے۔ تاہم، ایک سچا مسیحی دُکھدرد کو اچھا خیال نہیں کرتا جیسےکہ بعض لوگ کرتے ہیں۔ (مقابلہ کریں ۱-سلاطین ۱۸:۲۸۔) اسکی بجائے، اپنی مصیبت سے چھٹکارا پانے کیلئے وہ اپنی مقدوربھر کوشش کرتا ہے۔
تاہم معاملے کو دُعا میں یہوواہ کے حضور پیش کرنا بھی معقول بات ہے۔ کیوں؟ اوّل، اپنے خالق پر اعتماد رکھنے سے ”زیادہ اہم باتوں کا یقین“ کرنے میں ہماری مدد ہوتی ہے۔ (فلپیوں ۱:۱۰، اینڈبلیو) مثال کے طور پر، ملازمت تلاش کرتے وقت، خدا پر دُعائیہ توکل ہماری مدد کرے گا کہ ایسا کام کرنے کی حامی نہ بھریں جو بائبل کے اصولوں کے خلاف ہو۔ ہم زردوستی کے باعث ”ایمان سے گمراہ“ ہو جانے سے بھی گریز کریں گے۔ (۱-تیمتھیس ۶:۱۰) واقعی، ملازمت یا زندگی کے کسی دوسرے پہلو کی بابت اہم فیصلے کرتے ہوئے ہمیں داؤد کی نصیحت پر عمل کرنے کی ضرورت ہے: ”اپنا بوجھ خداوند پر ڈالدے۔ وہ تجھے سنبھالیگا۔ وہ صادق کو کبھی جنبش نہ کھانے دیگا۔“—زبور ۵۵:۲۲۔
دُعا اپنے ذہنی توازن کو برقرار رکھنے کے لئے بھی ہماری مدد کرتی ہے تاکہ ہماری مصیبت ہمیں دبا نہ لے۔ پولس رسول نے لکھا: ”ہر ایک بات میں تمہاری درخواستیں دُعا اور منت کے وسیلہ سے شکرگذاری کے ساتھ خدا کے سامنے پیش کی جائیں۔“ کس نتیجے کیساتھ؟ ”خدا کا اطمینان جو سمجھ سے بالکل باہر ہے تمہارے دلوں اور خیالوں کو مسیح یسوع میں محفوظ رکھیگا۔“ (فلپیوں ۴:۶، ۷) جیہاں، اطمینان، خدا کا اطمینان۔ یہ اطمینان ”سمجھ سے بالکل باہر ہے،“ اسلئے جب پریشانکُن جذبات کا بوجھ ہم پر آن پڑتا ہے تو یہ ہمیں استحکام بخش سکتا ہے۔ یہ ’ہمارے دلوں اور ذہنی قوتوں کی حفاظت‘ کریگا اور یوں ہمیں جلدبازی یا غیردانشمندی سے ایسا عمل کرنے سے بچنے میں مدد دیگا جو ہماری مصیبت میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔—واعظ ۷:۷۔
دُعا اَور بھی بہت کچھ انجام دے سکتی ہے۔ یہ کسی صورتحال کے نتیجے پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔ بائبل کی اس مثال پر غور کریں۔ جب پولس رسول روم میں قید تھا تو اُس نے اپنے حق میں دُعا کرنے کیلئے ساتھی مسیحیوں کی حوصلہافزائی کی۔ کیوں؟ ”مَیں تمہیں یہ کام کرنے کی اسلئے اَور بھی نصیحت کرتا ہوں،“ اُس نے اُنہیں لکھا، ”کہ مَیں جلد تمہارے پاس پھر آنے پاؤں۔“ (عبرانیوں ۱۳:۱۹) پولس جانتا تھا کہ اُسکے ساتھی ایمانداروں کی مستقل دُعائیں اس بات پر اثرانداز ہو سکتی تھیں کہ وہ کب رہائی پائیگا۔—فلیمون ۲۲۔
کیا دُعا آپکی مصیبت کے انجام کو بھی بدل ڈالیگی؟ یہ ایسا کر سکتی ہے۔ تاہم، ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ یہوواہ ہمیشہ ہماری توقع کے مطابق ہماری دُعاؤں کا جواب نہیں دیتا۔ مثال کے طور پر، پولس نے بارہا اپنے ”جسم میں کانٹے“—شاید اپنی نظر سے متعلق کسی جسمانی مسئلے کی بابت دُعا کی۔ مصیبت کو دُور کرنے کی بجائے، خدا نے پولس سے کہا: ”میرا فضل تیرے لئے کافی ہے کیونکہ میری قدرت کمزوری میں پوری ہوتی ہے۔“—۲-کرنتھیوں ۱۲:۷-۹۔
لہٰذا بعضاوقات ہماری مشکلات ختم نہیں کی جائیں گی۔ اسکی بجائے، ہمارے پاس اپنے خالق پر اپنے توکل کو ظاہر کرنے کا موقع ہوگا۔ (اعمال ۱۴:۲۲) مزیدبرآں، ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ اگرچہ یہوواہ مصیبت کو ختم نہیں کرتا توبھی وہ ”نکلنے کی راہ پیدا کر دیگا تاکہ [ہم] برداشت کر“ سکیں۔ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۳) جیہاں، معقول وجہ ہی سے یہوواہ کو ”ہر طرح کی تسلی کا خدا“ کہا گیا ہے جو ”ہماری سب مصیبتوں میں ہم کو تسلی دیتا ہے۔“ (۲-کرنتھیوں ۱:۳، ۴) وہ ہمیں بیحد اطمینان کیساتھ برداشت کرنے کیلئے ضروری قوت عطا کرتا ہے۔
عنقریب—مصیبت سے پاک دُنیا!
خالق وعدہ فرماتا ہے کہ اپنی بادشاہت کے ذریعے وہ جلد ہی نوعِانسان کی مصیبتوں کو ختم کر دیگا۔ وہ یہ کیسے کریگا؟ شیطان ابلیس کو ختم کرنے سے جو سب سے بڑا مصیبت برپا کرنے والا اور اَمن کا اوّلین دشمن ہے جسکی شناخت بائبل ”اس جہان کے خدا“ کے طور پر کراتی ہے۔ (۲-کرنتھیوں ۴:۴) لیکن جلد ہی نوعِانسان پر سے اُسکا تسلط ختم ہو جائیگا۔ اُسکے نیست ہونے سے خدا کا خوف ماننے والوں کیلئے بیشمار برکات کی راہ کُھل جائیگی۔ بائبل وعدہ کرتی ہے کہ یہوواہ ”اُن کی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دیگا۔ اسکے بعد نہ موت رہیگی اور نہ ماتم رہیگا۔ نہ آہونالہ نہ درد۔ پہلی چیزیں جاتی رہیں۔“—مکاشفہ ۲۱:۱-۴۔
کیا مصیبت سے پاک دُنیا ناقابلِیقین دکھائی دیتی ہے؟ ہم مشکل زندگی بسر کرنے کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ ہمیں اسکی عدمموجودگی کا تصور کرنا ہی مشکل دکھائی دیتا ہے۔ لیکن خوف، پریشانی اور آفت سے آزادی ہی تخلیق کے وقت نوعِانسان کیلئے خدا کا مقصد تھی اور اُسکا مقصد ضرور پورا ہوگا۔—یسعیاہ ۵۵:۱۰، ۱۱۔
یہ وہ اُمید ہے جسے پہلے مضمون میں متذکرہ سونیا، فابیانہ اور اینا نے حاصل کِیا۔ سونیا نے، جس کے دو بیٹے ایڈز کی وجہ سے مر گئے، بائبل کی اس اُمید سے بہت زیادہ اطمینان حاصل کِیا—راست اور ناراست دونوں کی قیامت ہوگی۔ (اعمال ۲۴:۱۵) ”ایک بات یقینی ہے،“ وہ بیان کرتی ہے، ”درد خواہ کیسا ہی کیوں نہ ہو ہماری اُمید اُس پر غالب آتی ہے۔“
اینا جبکہ ابھی یتیمخانے میں ہی تھی تو یہوواہ کی ایک گواہ اُسکے پاس آئی۔ ”اُس نے مجھے بائبل میں یہوواہ کا نام دکھایا،“ وہ بیان کرتی ہے، ”اور خوشی کے مارے میرے آنسو ٹپک پڑے۔ مجھے مدد کی اشد ضرورت تھی اور مَیں نے یہ سیکھ لیا کہ ایک خدا ہے جسے ہماری فکر ہے۔“ یتیمخانے کو چھوڑنے کے بعد، اینا نے بائبل مطالعہ قبول کِیا اور یہوواہ کے وعدوں کی بابت اَور زیادہ علم حاصل کِیا۔ پھر اُس نے یہوواہ کیلئے اپنی زندگی مخصوص کی اور اسکی علامت میں بپتسمہ لیا۔ ”اُس وقت سے مَیں نے دُعا کے ذریعے یہوواہ پر توکل کرنا جاری رکھا ہے اور مجھے اس یقیندہانی سے تسلی ملتی ہے کہ وہ میری مدد کریگا۔“
فابیانہ نے بھی مستقبل کیلئے خدا کے وعدوں کی بابت سیکھ کر اپنی مصیبت میں تسلی اور ذہنی اطمینان حاصل کِیا۔ ”بائبل سے سچائی سیکھنا ایسے ہی ہے جیسے کسی تنگوتاریک جگہ سے نکل کر صاف، روشن اور آرامدہ کمرے میں داخل ہونا۔“—مقابلہ کریں زبور ۱۱۸:۵۔
لیکن تمام کُرۂارض پر کب اور کیسے حقیقی اَمن آئے گا؟ آئیے اگلے مضامین میں دیکھیں۔
[بکس]
مصیبت کے متعدد پہلو
▪ دُنیا کی آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ انتہائی غربت کی زندگی بسر کرتا ہے اور لاکھوں انسان ایسی غیرموزوں حالتوں میں رہتے ہیں جو اُنکی بقا کیلئے خطرناک ہیں۔
▪ ۲۰۰ ملین سے زیادہ بچے غذائی قلّت کا شکار ہیں
▪ ہر سال اسہال کی بیماری پانچ سال سے کم عمر کے تین ملین بچوں کو ہلاک کر دیتی ہے
▪ ۱۹۹۳ ہی میں متعدی بیماریوں نے تقریباً ۵.۱۶ ملین لوگوں کو ہلاک کر ڈالا تھا۔ چونکہ بعض ممالک بیماریوں کی درجہبندی فرق طریقے سے کرتے ہیں اسلئے حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
▪ تخمیناً ۵۰۰ ملین لوگ کسینہکسی قسم کے ذہنی مرض میں مبتلا ہیں۔
▪ عمر کے کسی بھی حلقے کی نسبت نوجوانوں کے درمیان خودکُشی کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
▪ ”بھوک اور بیروزگاری اس دُنیا پر بدنما داغ ہیں،“ دی یونیسکو کوریئر بیان کرتا ہے۔ ”دُنیا کی سات متموّل اقوام میں ۳۵ ملین بیروزگار ہیں اور صرف برازیل میں ۲۰ ملین ایسے کارکُن ہیں جنکی ملازمت بھی اس بات کی ضمانت نہیں کہ وہ پیٹ بھر کر کھانے کے قابل ہونگے۔“
[تصویریں]
دُعا مصیبت سے پاک دُنیا کے خدائی وعدے پر توجہ مُرتکز رکھنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے