اپنی برادرانہ محبت قائم رکھیں!
”برادرانہ محبت قائم رہے۔“—عبرانیوں ۱۳:۱۔
۱. ایک سرد رات میں آگ کو جلتا رکھنے کیلئے آپ کیا کرینگے اور ہم سب کونسی ایسی ہی ذمہداری رکھتے ہیں؟
باہر بلا کی سردی ہے اور درجۂحرارت انتہائی گِر گیا ہے۔ آپ کے گھر میں گرم رکھنے کا واحد ذریعہ انگیٹھی میں جلتی ہوئی آگ ہے۔ زندگیوں کا انحصار اِسکے جلتے رہنے پر ہے۔ کیا آپ محض بیٹھ کر ان شعلوں کو بجھتے اور سُرخ دہکتے کوئلوں کو مدھم اور راکھ بنتے ہوئے دیکھتے رہینگے؟ ہرگز نہیں۔ آپ اسے جلتا رکھنے کیلئے اس میں ایندھن ڈالنے کی انتھک کوشش کرتے رہینگے۔ اسی طرح، جب اس سے بھی کہیں زیادہ اہم ”آگ“—جسے ہمارے دلوں میں جلنا چاہئے—محبت کی بات آتی ہے تو ہم میں سے ہر ایک کو ایسی ہی جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔
۲. (ا) یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ ان آخری ایّام میں محبت ٹھنڈی پڑ چکی ہے؟ (ب) سچے مسیحیوں کے نزدیک محبت کسقدر اہم ہے؟
۲ ہم ایک ایسے دَور میں رہتے ہیں جسکی بابت یسوع نے بہت عرصہ پہلے کہا تھا کہ پوری دُنیا میں اقبالی مسیحیوں کے درمیان محبت ٹھنڈی پڑ رہی ہے۔ (متی ۲۴:۱۲) یسوع محبت کی سب سے افضل قسم یعنی یہوواہ خدا اور اُسکے کلام، بائبل کیلئے محبت کا ذکر کر رہا تھا۔ محبت کی دیگر اقسام بھی روبہتنزل ہیں۔ بائبل نے پیشینگوئی کی کہ ”اخیر زمانہ“ میں بہتیرے لوگ ”طبعی محبت“ سے خالی ہونگے۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱-۵) یہ کسقدر سچ ہے! خاندان کو طبعی محبت کا گہوارہ ہونا چاہئے لیکن اس میں بھی تشدد اور بدسلوکی—بعضاوقات خوفناک حد تک وحشیانہ—عام ہو گئی ہے۔ تاہم، اس دُنیا کی سردمہر فضا میں مسیحیوں کو نہ صرف ایک دوسرے سے محبت رکھنے کا حکم دیا گیا ہے بلکہ خودایثارانہ محبت رکھنے، دوسروں کو خود سے بہتر سمجھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ ہمیں ایسے واضح طریقے سے اس محبت کو ظاہر کرنا ہے کہ سب اسے دیکھ سکیں اور یہ سچی مسیحی کلیسیا کا شناختی نشان بن جائے۔—یوحنا ۱۳:۳۴، ۳۵۔
۳. برادرانہ محبت کیا ہے اور اسے قائم رکھنے کا کیا مطلب ہے؟
۳ پولس رسول نے یہ حکم دینے کا الہام پایا: ”برادرانہ محبت قائم رہے۔“ (عبرانیوں ۱۳:۱) ایک کتاب کے مطابق، جس یونانی لفظ کا ترجمہ یہاں ”برادرانہ محبت“ (فلادیلفیا) کِیا گیا ہے وہ ”دلی محبت، رحم، ہمدردی دکھانے، مدد کرنے کا مفہوم پیش کرتا ہے۔“ اور جب پولس نے کہا کہ یہ قائم رہے تو اسکا کیا مطلب تھا؟ وہی کتاب بیان کرتی ہے کہ ”اُسے کبھی ٹھنڈا نہیں پڑنا تھا۔“ لہٰذا اپنے بھائیوں کیلئے محبت کا احساس رکھنا ہی کافی نہیں ہے؛ ہمیں اسے ظاہر بھی کرنا چاہئے۔ اسکے علاوہ، ہمیں اس محبت کو پائیدار بھی بنانا چاہئے اور اسے ٹھنڈا پڑنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔ چیلنجخیز؟ جیہاں، لیکن یہوواہ کی روح ہمیں برادرانہ اُلفت پیدا کرنے اور اسے برقرار رکھنے میں مدد دے سکتی ہے۔ آئیے اپنے دلوں میں اس محبت کی آگ کو ایندھن فراہم کرنے کے تین طریقوں پر غور کریں۔
ہمدردی دکھائیں
۴. ہمدردی کیا ہے؟
۴ اگر آپ اپنے مسیحی بھائیوں اور بہنوں کیلئے زیادہ محبت رکھنا چاہتے ہیں تو پہلے آپ کو اُن کیلئے دل میں ایک جذبہ رکھنے کی، زندگی میں اُنہیں درپیش مسائل اور چیلنجوں میں اُنکے ساتھ ہمدردی کرنے کی ضرورت ہے۔ پطرس رسول نے اسی بات کا مشورہ دیا جب اُس نے لکھا: ”سب کے سب یکدل اور ہمدرد رہو۔ برادرانہ محبت رکھو۔ نرمدل اور فروتن بنو۔“ (۱-پطرس ۳:۸) یونانی لفظ جسکا ترجمہ یہاں ”ہمدرد“ کِیا گیا ہے اُسکا مطلب ”مصیبت میں شریک ہونا“ ہے۔ بائبل میں استعمال ہونے والی یونانی زبان کی بابت ایک کتاب اس لفظ کے سلسلے میں کہتی ہے: ”یہ ایسی حالت کو بیان کرتا ہے جو اُس وقت واقع ہوتی ہے جب ہم دوسروں کے احساسات میں ایسے شامل ہوتے ہیں جیسےکہ وہ اپنے ہی ہوں۔“ لہٰذا، ہمدردی ضروری ہے۔ یہوواہ کے ایک ایماندار، عمررسیدہ خادم نے ایک مرتبہ کہا: ”ہمدردی دراصل یہ ہے کہ آپکا دُکھدرد میرے دل میں محسوس ہو۔“
۵. ہم کیسے جانتے ہیں کہ یہوواہ ہمدردی کا احساس رکھتا ہے؟
۵ کیا یہوواہ ایسی ہمدردی رکھتا ہے؟ یقیناً۔ مثال کے طور پر، ہم اُسکی اُمت اسرائیل کی مصیبتوں کی بابت پڑھتے ہیں: ”اُنکی تمام مصیبتوں میں وہ مصیبتزدہ ہوا۔“ (یسعیاہ ۶۳:۹) یہوواہ نے محض اُنکی مشکلات کو دیکھا ہی نہیں تھا؛ اُسے لوگوں پر ترس بھی آیا تھا۔ یہ بات زکریاہ ۲:۸ میں درج، اپنی اُمت سے یہوواہ کے اپنے الفاظ سے ظاہر ہو جاتی ہے کہ وہ کتنا زیادہ محسوس کرتا ہے: ”جو کوئی تم کو چھوتا ہے میری آنکھ کی پتلی کو چھوتا ہے۔“a ایک مبصر اس آیت کی بابت رائے پیش کرتا ہے: ”انسانی بدن کے نہایت پیچیدہ اور نازک اعضا میں سے ایک آنکھ ہے؛ اور آنکھ کی پتلی—جس میں سے روشنی بصری مقاصد کے لئے داخل ہوتی ہے—اس کا نہایت حساس اور اہم حصہ ہوتی ہے۔ جن چیزوں سے یہوواہ محبت کرتا ہے اُن کے لئے اُس کی نہایت پُرمحبت نگہداشت کے خیال کو اس سے بڑھ کر کوئی اَور چیز پیش نہیں کرتی۔“
۶. یسوع نے کیسے ہمدردی دکھائی ہے؟
۶ یسوع نے بھی ہمیشہ گہری ہمدردی کا اظہار کِیا ہے۔ اُسے اکثر اپنے بیمار اور مصیبتزدہ ساتھی انسانوں کی خستہحالی پر ”ترس آیا“ کرتا تھا۔ (مرقس ۱:۴۱؛ ۶:۳۴) اُس نے ظاہر کِیا کہ جب کوئی اُسکے ممسوح پیروکاروں سے مشفقانہ سلوک کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے تو اُسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اُسی کیساتھ ایسا سلوک کِیا گیا ہو۔ (متی ۲۵:۴۱-۴۶) اور آجکل ہمارے آسمانی ”سردار کاہن“ کے طور پر وہ ”ہماری کمزوریوں میں ہمارا ہمدرد“ بن سکتا ہے۔—عبرانیوں ۴:۱۵۔
۷. جب کوئی بھائی یا بہن ہمیں رنجیدہ کرتا ہے تو ہمدردی کیسے ہماری مدد کر سکتی ہے؟
۷ ”ہماری کمزوریوں میں ہمارا ہمدرد“—کیا یہ تسلیبخش خیال نہیں ہے؟ یقیناً، ہم بھی ایک دوسرے کیلئے ایسا ہی کرنا چاہتے ہیں۔ بِلاشُبہ، دوسرے شخص کی کمزوریوں کو نگاہ میں رکھنا بہت آسان ہوتا ہے۔ (متی ۷:۳-۵) لیکن اگلی مرتبہ جب کوئی بھائی یا بہن آپکو رنجیدہ کرتا ہے تو کیوں نہ اِسے آزمائیں؟ خود کو اُس شخص کی حالت میں، اُسی پسمنظر، اُسی شخصیت کیساتھ رکھ کر سوچیں جو ایسی ذاتی کوتاہیوں کا باعث بنتی ہے جنکے خلاف نبردآزما ہونا پڑتا ہے۔ کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ ایسی ہی غلطیاں دوبارہ نہیں کرینگے—یا شاید اس سے بھی بُری؟ دوسروں سے بہت زیادہ توقع کرنے کی بجائے ہمیں ہمدردی دکھانی چاہئے جو ہمیں یہوواہ کی مانند معقول بننے میں مدد دیگی جو ’یاد رکھتا ہے کہ ہم خاک ہیں۔‘ (زبور ۱۰۳:۱۴؛ یعقوب ۳:۱۷) وہ ہماری حدود سے واقف ہے۔ جوکچھ ہم معقول طور پر کر سکتے ہیں وہ ہم سے اس سے زیادہ کی توقع نہیں کرتا۔ (مقابلہ کریں ۱-سلاطین ۱۹:۵-۷۔) آئیے ہم سب دوسروں کیلئے ایسی ہی ہمدردی دکھائیں۔
۸. جب کوئی بھائی یا بہن کسی مشکل سے گزر رہا ہو تو ہمیں کیسا جوابیعمل دکھانا چاہئے؟
۸ پولس نے لکھا کہ کلیسیا مختلف اعضا سے بنے ہوئے جسم کی مانند ہے جنہیں اکٹھے ملکر اتحاد سے کام کرنا چاہئے۔ اُس نے مزید کہا: ”اگر ایک عضو دُکھ پاتا ہے تو سب اعضا اُسکے ساتھ دُکھ پاتے ہیں۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۲:۱۲-۲۶) ہمیں اُن لوگوں کے دُکھ میں شریک ہونا چاہئے یا اُنکے ساتھ ہمدردی دکھانی چاہئے جو کسی قسم کی کڑی آزمائش میں سے گزر رہے ہیں۔ بزرگ ایسا کرنے میں پیشوائی کرتے ہیں۔ پولس نے یہ بھی لکھا: ”کس کی کمزوری سے مَیں کمزور نہیں ہوتا؟ کس کے ٹھوکر کھانے سے میرا دل نہیں دُکھتا؟“ (۲-کرنتھیوں ۱۱:۲۹) بزرگ اور سفری نگہبان اس سلسلے میں پولس کی نقل کرتے ہیں۔ اپنی تقاریر میں، اپنے گلّہبانی کے کام میں، اور عدالتی معاملات نپٹانے میں بھی وہ ہمدردی دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پولس نے تجویز پیش کی: ”رونے والوں کے ساتھ رؤو۔“ (رومیوں ۱۲:۱۵) جب بھیڑیں اس بات کو سمجھتی ہیں کہ چرواہے واقعی اُنکا خیال رکھتے ہیں، اُنکی حدود کا لحاظ رکھتے ہیں اور اُنہیں درپیش مشکلات میں اُن کیلئے ہمدردی دکھاتے ہیں تو وہ عموماً مشورت، ہدایت اور تنبیہ کو زیادہ رضامندی سے قبول کر لیتی ہیں۔ وہ اس اعتماد کیساتھ خوشی سے اجلاسوں پر حاضر ہوتے ہیں کہ وہاں ’اُنکی جانوں کو تازگی‘ ملیگی۔—متی ۱۱:۲۹۔
قدردانی دکھانا
۹. یہوواہ کیسے ظاہر کرتا ہے کہ وہ ہمارے اندر پائی جانے والی اچھائی کی قدر کرتا ہے؟
۹ برادرانہ محبت کو فروغ دینے کا ایک دوسرا طریقہ قدردانی ہے۔ دوسروں کی قدر کرنے کیلئے ہمیں اُن کی عمدہ صفات اور کوششوں پر توجہ مرکوز رکھنا اور اُنہیں سراہنا چاہئے۔ جب ہم ایسا کرتے ہیں تو ہم یہوواہ کی نقل کرتے ہیں۔ (افسیوں ۵:۱) وہ ہر روز ہمارے بہت سے چھوٹے چھوٹے گناہوں کو معاف کرتا ہے۔ اگر حقیقی توبہ کی جائے تو وہ سنگین گناہوں کو بھی معاف کر دیتا ہے۔ تاہم جب وہ ہمارے گناہ بخش دیتا ہے توپھر وہ اُنہیں دل میں نہیں رکھتا۔ (حزقیایل ۳۳:۱۴-۱۶) زبورنویس پوچھتا ہے: ”اَے خداوند! اگر تُو بدکاری کو حساب میں لائے تو اَے خداوند! کون قائم رہ سکے گا؟“ (زبور ۱۳۰:۳) یہوواہ جن چیزوں کو دھیان میں رکھتا ہے وہ اچھے کام ہیں جو ہم اُسکی خدمت میں سرانجام دیتے ہیں۔—عبرانیوں ۶:۱۰۔
۱۰. (ا) بیاہتا ساتھیوں کے دل میں ایک دوسرے کے لئے قدردانی کو کھو دینا کیوں خطرناک ہے؟ (ب) اگر کسی کے دل میں اپنے شریکِحیات کیلئے قدردانی کم ہو رہی ہے تو اُسے کیا کرنا چاہئے؟
۱۰ خاندان میں اس نمونے کی پیروی کرنا خاص طور پر اہم ہے۔ جب والدین ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کی قدر کرتے ہیں تو وہ خاندان کیلئے ایک نمونہ قائم کرتے ہیں۔ قلیلالمدت شادیوں کے اس دَور میں، اپنے شریکِحیات کو معمولی سمجھنا اور نقائص کو مبالغہآرائی سے بیان کرنا مگر عمدہ اوصاف کو نظرانداز کرنا بہت ہی آسان ہے۔ ایسی منفی سوچ ازدواجی بندھن کو ختم کر دیتی اور اسے ناخوشگوار بوجھ بنا دیتی ہے۔ اگر اپنے بیاہتا ساتھی کے لئے آپ کی قدردانی کم ہو رہی ہے تو خود سے پوچھیں، ’کیا میرے شریکِحیات میں واقعی کوئی اچھی خوبیاں نہیں ہیں؟‘ ذرا اُن وجوہات پر غور کریں جنکے باعث آپ محبت میں گرفتار ہوئے اور شادی کی تھی۔ کیا اس لاثانی شخص سے محبت کرنے کی وہ تمام وجوہات اب واقعی ختم ہو گئی ہیں؟ ہرگز نہیں؛ لہٰذا اپنے بیاہتا ساتھی کی اچھائیوں کی قدر کرنے کی کوشش کریں اور پھر الفاظ کی صورت میں اپنی قدردانی کا اظہار کریں۔—امثال ۳۱:۲۸۔
۱۱. اگر ازدواجی محبت کو ریاکاری سے پاک ہونا ہے تو کن کاموں سے گریز کِیا جانا چاہئے؟
۱۱ قدردانی ازدواجی ساتھیوں کی اپنی محبت کو ریاکاری سے پاک رکھنے کیلئے بھی مدد کرتی ہے۔ (مقابلہ کریں ۲-کرنتھیوں ۶:۶؛ ۱-پطرس ۱:۲۲۔) دلی قدردانی سے فروغ پانے والی ایسی محبت، خلوت میں کسی قسم کے ظلم کی گنجائش نہیں چھوڑتی، نہ ہی ایسے الفاظ کی کوئی گنجائش ہے جو ٹھیس پہنچاتے اور شرمسار کرتے ہیں، کسی ایسے بےمروّت برتاؤ کی گنجائش نہیں جس میں محبتآمیز یا شائستہ بات کہے بغیر کئیکئی دن گزر جائیں اور یقیناً جسمانی تشدد کی قطعاً گنجائش نہیں۔ (افسیوں ۵:۲۸، ۲۹) ایسے شوہر اور بیوی جو ایک دوسرے کی قدر کرتے ہیں وہ ایک دوسرے کی عزت بھی کرتے ہیں۔ وہ صرف سب کے سامنے ہی نہیں بلکہ جب وہ یہوواہ کی نگاہ میں ہوں—باالفاظِدیگر ہر وقت ایسا کرتے ہیں۔—امثال ۵:۲۱۔
۱۲. والدین کو اپنے بچوں میں پائی جانے والی اچھائی کیلئے قدردانی کا اظہار کیوں کرنا چاہئے؟
۱۲ بچوں کو بھی یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ اُن کی قدر کی جاتی ہے۔ یہ نہیں کہ والدین اُنکی بہت زیادہ کھوکھلی چاپلوسی کریں بلکہ اُنہیں اپنے بچوں کی قابلِتعریف خوبیوں اور اُس حقیقی بھلائی کیلئے جو وہ کرتے ہیں شاباش دینی چاہئے۔ یسوع کے لئے اپنی پسندیدگی کا اظہار کرنے کے سلسلے میں یہوواہ کے نمونے کو یاد رکھیں۔ (مرقس ۱:۱۱) ایک تمثیل میں ”مالک“ کے طور پر یسوع کے کردار کو بھی یاد رکھیں۔ اُس نے دونوں ’اچھے اور ایماندار نوکروں‘ کی برابر تعریف کی اگرچہ جوکچھ ہر ایک کو دیا گیا اُس میں فرق تھا اور ہر ایک نے جوکچھ کمایا نسبتاً وہ بھی فرق تھا۔ (متی ۲۵:۲۰-۲۳؛ مقابلہ کریں متی ۱۳:۲۳۔) عقلمند والدین اسی طرح ہر بچے کی منفرد خوبیوں، صلاحیتوں اور کامرانیوں کیلئے قدردانی کا اظہار کرنے کی غرض سے مختلف طریقے ڈھونڈ لیتے ہیں۔ اس کیساتھ ہی ساتھ، وہ کامرانیوں پر اتنا بھی زور نہیں دیتے کہ اُنکے بچے دوسروں سے برتر محسوس کرنے لگیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ اُنکے بچے اشتعال یا افسردہدلی سے پرورش پائیں۔—افسیوں ۶:۴؛ کلسیوں ۳:۲۱۔
۱۳. کلیسیا کے ہر رُکن کیلئے قدردانی دکھانے میں کون پیشوائی کرتا ہے؟
۱۳ مسیحی کلیسیا میں، بزرگ اور سفری نگہبان خدا کے گلّے کے ہر رُکن کیلئے قدردانی دکھانے میں پیشوائی کرتے ہیں۔ اُن کی صورتحال کچھ مشکل ہوتی ہے کیونکہ وہ راستبازی کی تربیت کرنے، حلممزاجی کے ساتھ خطاکاروں کی اصلاح کرنے اور پُختہ مشورت کے حاجتمندوں کو ایسی مشورت پیش کرنے کی بھاری ذمہداری بھی اُٹھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ ان کٹھن ذمہداریوں میں توازن کیسے برقرار رکھتے ہیں؟—گلتیوں ۶:۱؛ ۲-تیمتھیس ۳:۱۶۔
۱۴، ۱۵. (ا) پُختہ مشورت پیش کرنے کے معاملے میں پولس نے کیسے توازن کا مظاہرہ کِیا؟ (ب) مسیحی نگہبان غلطیوں کی اصلاح کرنے کی ضرورت اور تعریف کرنے کی ضرورت میں کیسے توازن قائم کرتے ہیں؟ وضاحت کریں۔
۱۴ پولس کا نمونہ بہت مفید ہے۔ وہ ایک ممتاز اُستاد، بزرگ اور چرواہا تھا۔ اُسے ایسی کلیسیاؤں کیساتھ نپٹنا پڑا جن میں سنگین مسائل پائے جاتے تھے اور بوقتِضرورت وہ کبھی پُختہ مشورت فراہم کرنے سے خوفزدہ ہو کر پیچھے نہیں ہٹا تھا۔ (۲-کرنتھیوں ۷:۸-۱۱) پولس کی خدمتگزاری کا جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ اُس نے سرزنش کو بہت کم استعمال کِیا—صرف ایسی صورت میں جب کسی خاص حالت کے تحت یہ ضروری یا مناسب تھی۔ اس میں بھی اُس نے خدائی حکمت کا مظاہرہ کِیا۔
۱۵ اگر کلیسیا کیلئے ایک بزرگ کی خدمتگزاری کو آلۂموسیقی سے تشبِیہ دی گئی تھی توپھر سرزنش اور ملامت ایسے سُر ہیں جو اس آلۂموسیقی سے نکلتے ہیں۔ سُر اپنی جگہ اچھے ہیں۔ (لوقا ۱۷:۳؛ ۲-تیمتھیس ۴:۲) کسی ایسے گیت کا تصور کریں جسکا صرف ایک ہی سُر ہے اور یہ بار بار دہرایا جاتا ہے۔ یہ جلد ہی ہمارے کانوں کو ناگوار گزرنے لگے گا۔ اسی طرح، مسیحی بزرگ اپنی تعلیم کو جامع رکھنے اور اس میں چاشنی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اسے صرف مسائل کو حل کرنے تک ہی محدود نہیں رکھتے۔ بلکہ، مجموعی انداز مثبت ہوتا ہے۔ یسوع مسیح کی طرح، پُرمحبت بزرگ کسی قابلِتعریف اچھائی کو دیکھتے ہیں قابلِتنقید غلطی کو نہیں۔ وہ اپنے ساتھی مسیحیوں کی سخت محنت کی قدر کرتے ہیں۔ وہ پُراعتماد ہیں کہ مجموعی طور پر ہر کوئی یہوواہ کی خدمت کرنے کیلئے اپنی حتیالمقدور کوشش کر رہا ہے۔ نیز بزرگ خوشی سے اس احساس کو الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔—مقابلہ کریں ۲-تھسلنیکیوں ۳:۴۔
۱۶. پولس کے قدردانی اور ہمدردی کے رُجحان کا اُس کے ساتھی مسیحیوں پر کیا اثر ہوا؟
۱۶ ناقابلِتردید طور پر، بیشتر مسیحی جنکی پولس نے خدمت کی جانتے تھے کہ وہ اُنکی قدر کرتا ہے اور اُنکا ہمدرد ہے۔ ہمیں یہ کیسے معلوم ہے؟ غور کریں وہ پولس کی بابت کیسا محسوس کرتے تھے۔ اگرچہ وہ بہت اختیار کا مالک تھا پھربھی وہ اُس سے خوفزدہ نہیں تھے۔ بلکہ وہ عزیز اور قابلِرسائی تھا۔ جب وہ ایک علاقہ چھوڑ کر جانے لگا تو بزرگوں نے ’اُسکے گلے لگ کر بڑی شفقت سے اُسکے بوسے لئے‘! (اعمال ۲۰:۱۷، ۳۷) بزرگوں کو—اور ہم سب کو بھی—کسقدر شکرگزار ہونا چاہئے کہ ہمیں پولس کا قابلِتقلید نمونہ فراہم کِیا گیا ہے! جیہاں، آئیے ایک دوسرے کیلئے قدردانی دکھائیں۔
مشفقانہ کام
۱۷. کلیسیا میں مشفقانہ کام کرنے سے حاصل ہونے والے بعض اچھے اثرات کیا ہیں؟
۱۷ برادرانہ محبت کو فروغ دینے والی اثرآفرین چیزوں میں سے ایک محض مشفقانہ کام ہے۔ یسوع کے کہنے کے مطابق، ”دینا لینے سے مبارک ہے۔“ (اعمال ۲۰:۳۵) خواہ ہم روحانی طور پر، مادی طور پر یا اپنا وقت اور توانائی صرف کریں، ہم نہ صرف دوسروں کو خوش کرتے ہیں بلکہ خود بھی خوشی حاصل کرتے ہیں۔ کلیسیا میں، شفقت بہت جلد پھیل جانے والے اثر رکھتی ہے۔ ایک مشفقانہ کام تدریجاً ایسے ہی کاموں کی تحریک دیتا ہے۔ جلد ہی برادرانہ اُلفت پھلنےپھولنے لگتی ہے!—لوقا ۶:۳۸۔
۱۸. میکاہ ۶:۸ میں بیانکردہ ”رحمدلی“ سے کیا مُراد ہے؟
۱۸ یہوواہ نے اپنی قوم اسرائیل کو شفقت کا اظہار کرنے کی تاکید کی تھی۔ میکاہ ۶:۸ میں ہم پڑھتے ہیں؛ ”اَے انسان اُس نے تجھ پر نیکی ظاہر کر دی ہے۔ خداوند تجھ سے اِس کے سوا کِیا چاہتا ہے کہ تُو انصاف کرے اور رحمدلی کو عزیز رکھے اور اپنے خدا کے حضور فروتنی سے چلے؟“ ”رحمدلی کو عزیز“ رکھنے سے کیا مُراد ہے؟ یہاں ”رحمدلی“ کے لئے جو عبرانی لفظ (خیسدھ) استعمال کِیا گیا ہے اُسکا ترجمہ ”رحم“ بھی کِیا گیا ہے۔ دی سونشینو بُکس آف دی بائبل کے مطابق یہ لفظ ”تحریری اُردو لفظ رحم سے زیادہ مطلب رکھتا ہے۔ اسکا مطلب ہے ’رحم کو اعمال میں ڈھالنا،‘ ذاتی مشفقانہ کام انجام دینا، نہ صرف غریبوں اور محتاجوں کیلئے بلکہ اپنے ساتھی انسانوں کیلئے بھی۔“ لہٰذا ایک اَور عالم کہتا ہے کہ خیسدھ کا مطلب ہے ”محبت کا سرگرمِعمل ہونا۔“
۱۹. (ا) کن طریقوں سے ہم کلیسیا میں دوسرے لوگوں کے لئے شفقت دکھانے میں پہل کر سکتے ہیں؟ (ب) کوئی مثال پیش کیجئے کہ برادرانہ محبت آپ کے لئے کیسے دکھائی گئی ہے۔
۱۹ ہماری برادرانہ محبت کوئی نظریاتی یا خیالی چیز نہیں ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے۔ لہٰذا، اپنے بھائیوں اور بہنوں کیلئے مشفقانہ کام کرنے کے طریقے ڈھونڈیں۔ یسوع کی مانند بنیں، جو ہمیشہ یہ انتظار نہیں کرتا تھا کہ لوگ اُسکے پاس آئیں اور مدد کی درخواست کریں بلکہ اُس نے اکثر خود پہل کی۔ (لوقا ۷:۱۲-۱۶) خاص طور پر ان لوگوں کے بارے میں سوچیں جو بڑے حاجتمند ہیں۔ کیا کسی عمررسیدہ یا معذور شخص سے ملنے کی یا شاید کچھ سوداسلف لانے میں اُسے مدد کی ضرورت ہے؟ کیا کسی ’یتیم بچے‘ کو کچھ وقت اور توجہ کی ضرورت ہے؟ کیا کسی افسردہخاطر شخص کو سامع کی یا چند تسلیبخش باتوں کی ضرورت ہے؟ اگر ہم اس لائق ہوں تو آئیے ایسے مشفقانہ کاموں کیلئے وقت نکالیں۔ (ایوب ۲۹:۱۲؛ ۱-تھسلنیکیوں ۵:۱۴؛ یعقوب ۱:۲۷) یہ کبھی نہ بھولیں کہ ناکامل انسانوں کی کلیسیا میں سب سے اہم مشفقانہ کام معاف کرنا ہے—اگر شکایت کی کوئی جائز وجہ ہو بھی تو آزردگی کو دُور کر دیں۔ (کلسیوں ۳:۱۳) معاف کرنے کو تیار رہنا کلیسیا کو تفرقوں، تلخیوں اور جھگڑوں سے پاک رکھنے میں مدد دیتا ہے جو برادرانہ محبت کی آگ کو بجھا دینے والی چیزیں ہیں۔
۲۰. کیسے ہم سب کو مسلسل اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے؟
۲۰ آئیے ہم سب اپنے دلوں میں محبت کی اس اہم آگ کو جلتا رکھنے کا عزم کریں۔ آئیے اپنا جائزہ لیتے رہیں۔ کیا ہم دوسروں کیلئے ہمدردی دکھاتے ہیں؟ کیا دوسروں کیلئے قدردانی دکھاتے ہیں؟ کیا ہم دوسروں کیلئے مشفقانہ کام کرتے ہیں؟ جب تک ہم یہ کرتے رہینگے، یہ دُنیا خواہ کتنی ہی سردمہر اور بےحس کیوں نہ ہو محبت کی آگ ہماری برادری کو گرم رکھے گی۔ پھر ہر طرح سے، اب سے ابد تک، ”[اپنی] برادرانہ محبت قائم“ رکھیں!—عبرانیوں ۱۳:۱۔
]فٹ نوٹس[
a بعض ترجمے یہاں یہ مفہوم پیش کرتے ہیں کہ خدا کے لوگوں کو چھونے والا شخص خدا کی نہیں بلکہ اسرائیل کی آنکھ کو یا اپنی ہی آنکھ کو چھوتا ہے۔ یہ غلطی قرونِوسطیٰ کے اُن فقیہوں نے کی جنہوں نے ایسے متن کی جو اُنکی نظر میں توہینآمیز تھا تصحیح کرنے کی احمقانہ کوشش میں اس آیت کو بدل ڈالا۔ یوں اُنہوں نے یہوواہ کی ذاتی ہمدردی کے احساس کو مبہم کر دیا۔
آپکا کیا خیال ہے؟
▫ برادرانہ محبت کیا ہے اور ہمیں اِسے کیوں قائم رکھنا چاہئے؟
▫ ہمدردی سے کام لینا برادرانہ محبت کو برقرار رکھنے میں ہماری مدد کیسے کرتا ہے؟
▫ برادرانہ محبت میں قدردانی کیا کردار ادا کرتی ہے؟
▫ مشفقانہ کام کلیسیا میں برادرانہ محبت کے پھلنے پھولنے کا باعث کیسے بنتے ہیں؟
[صفحہ 28 پر بکس]
محبت سرگرمِعمل
کچھ سال پہلے، ایک شخص جس نے یہوواہ کے گواہوں کیساتھ کچھ عرصے کیلئے بائبل کا مطالعہ کِیا تھا ابھی تک برادرانہ محبت کی بابت کسی حد تک شک میں مبتلا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ یسوع نے کہا تھا: ”اگر آپس میں محبت رکھو گے تو اِس سے سب جانینگے کہ تُم میرے شاگرد ہو۔“ (یوحنا ۱۳:۳۵) لیکن اس بات پر یقین کرنا اُسے مشکل لگا۔ ایک دن اُس نے مسیحی محبت کو واقعی سرگرمِعمل دیکھا۔
ویلچیئر تک محدود یہ شخص، گھر سے بہت دُور سفر کر رہا تھا۔ اسرائیل، بیتلحم میں، وہ کلیسیا کے ایک اجلاس پر حاضر ہوا۔ وہاں، ایک عربی گواہ نے سیاحت کیلئے آنے والے ایک دوسرے گواہ سے اپنے خاندان کیساتھ راتبھر قیام کرنے کیلئے اصرار کِیا اور یہ بائبل طالبعلم اُس دعوت میں شامل تھا۔ سونے سے قبل، طالبعلم نے اپنے میزبان سے صبح کے وقت طلوعِآفتاب دیکھنے کیلئے باہر برآمدے میں جانے کی اجازت مانگی۔ اُس کے میزبان نے اُسے سختی سے متنبہ کِیا کہ اُسے ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ اگلی صبح اُس عربی بھائی نے وجہ بیان کی۔ ایک ترجمان کے ذریعے، اُس نے کہا کہ اگر اُس کے پڑوسیوں کو معلوم ہو جاتا کہ اُس کے ہاں یہودی مہمان ٹھہرے ہوئے ہیں—جیساکہ اُس بائبل طالبعلم کے معاملہ میں تھا—تو وہ اُسے اور اُس کے خاندان کو گھر کے اندر جلا دیتے۔ گھبرائے ہوئے، بائبل طالبعلم نے پوچھا، ”تَو پھر، آپ نے ایسا خطرہ کیوں مول لیا؟“ ترجمان کے بغیر، عربی بھائی نے اُس کی آنکھوں میں جھانکا اور صرف یہ کہا، ”یوحنا ۱۳:۳۵۔“
بائبل طالبعلم برادرانہ محبت کی حقیقت سے بہت زیادہ متاثر ہوا تھا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد اس نے بپتسمہ لے لیا تھا۔