یہوواہ کی مانند بنیں—عدلوراستی کو عمل میں لائیں
”مَیں ہی خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] ہوں جو دُنیا میں شفقتوعدل اور راستبازی کو عمل میں لاتا ہوں کیونکہ میری خوشنودی اِن ہی باتوں میں ہے۔“—یرمیاہ ۹:۲۴۔
۱. یہوواہ نے کونسا شاندار امکان پیش کِیا؟
یہوواہ کے وعدے کے مطابق وہ دن آئیگا جب سب لوگ اُسے جان جائینگے۔ اپنے نبی یسعیاہ کی معرفت اُس نے بیان کِیا: ”وہ میرے تمام کوہِمقدس پر نہ ضرر پہنچائینگے نہ ہلاک کریں گے کیونکہ جس طرح سمندر پانی سے بھرا ہے اُسی طرح زمین خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] کے عرفان سے معمور ہوگی۔“ (یسعیاہ ۱۱:۹) کیا ہی شاندار امکان!
۲. یہوواہ کو جاننے میں کیا کچھ شامل ہے؟ کیوں؟
۲ تاہم، یہوواہ کو جاننے کا کیا مطلب ہے؟ یرمیاہ پر یہوواہ نے ظاہر کِیا کہ کیا چیز زیادہ اہمیت کی حامل ہے: ”جو فخر کرتا ہے اِس پر فخر کرے کہ وہ سمجھتا اور مجھے جانتا ہے کہ مَیں ہی خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] ہوں جو دُنیا میں شفقتوعدل اور راستبازی کو عمل میں لاتا ہوں کیونکہ میری خوشنودی اِن ہی باتوں میں ہے۔“ (یرمیاہ ۹:۲۴) پس، یہوواہ کو جاننے میں یہ سمجھنا شامل ہے کہ وہ عدلوراستی کو کس طرح عمل میں لاتا ہے۔ اگر ہم ان خوبیوں کو عمل میں لاتے ہیں تو وہ ہم سے خوش ہوگا۔ ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں؟ اپنے کلام، بائبل میں یہوواہ نے صدیوں کے دوران ناکامل لوگوں کے ساتھ اپنے تعلقات کا ریکارڈ محفوظ کر رکھا ہے۔ اس کا مطالعہ کرنے سے، ہم یہوواہ کے عدلوراستی کے طریقوں سے واقف ہو سکتے اور نتیجتاً اُس کی مانند بن سکتے ہیں۔—رومیوں ۱۵:۴۔
عادل مگر رحیم
۳، ۴. یہوواہ سدوم اور عمورہ کو تباہ کرنے میں حقبجانب کیوں تھا؟
۳ سدوم اور عمورہ کی الہٰی عدالت ایک عمدہ مثال ہے جس سے یہوواہ کے عدل کے کئی پہلو روشن ہوتے ہیں۔ یہوواہ نے نہ صرف واجب سزا دی بلکہ اُس نے مستحق اشخاص کی نجات کا بندوبست بھی کِیا۔ کیا اُن شہروں کی تباہی واقعی جائز تھی؟ چونکہ ابرہام سدوم کی بدکاری کی سنگینی کے سلسلے میں بظاہر محدود علم رکھتا تھا اس لئے اُس نے شروع میں ایسا نہیں سوچا تھا۔ یہوواہ نے ابرہام کو یقین دلایا کہ اگر دس راستباز آدمی بھی مل گئے تو وہ شہر کو تباہ نہیں کریگا۔ واقعی، یہوواہ کا عدل کبھی بھی جلدباز یا بےرحم نہیں ہوتا۔—پیدایش ۱۸:۲۰-۳۲۔
۴ دو فرشتوں کے ملاحظے نے سدوم کی اخلاقی تنزلی کی واضح شہادت پیش کی۔ جب ”جوان سے لے کر بڈھے تک“ شہر کے مردوں کو پتہ چلا کہ دو آدمی لوط کے ہاں قیام کے لئے آئے ہیں تو اُنہوں نے مِل کر اُن کے ساتھ ہمجنسپسندانہ فعل کرنے کے ارادے سے اُس کے گھر پر دھاوا بول دیا۔ اُن کی بدکرداری انتہا کو پہنچ چکی تھی! بیشک، اُس شہر پر یہوواہ کی طرف سے سزا کا نازل ہونا بجا تھا۔—پیدایش ۱۹:۱-۵، ۲۴، ۲۵۔
۵. خدا نے لوط اور اُس کے خاندان کو سدوم سے کیسے نکالا؟
۵ سدوم اور عمورہ کی تباہی کا انتباہی مثال کے طور پر حوالہ دینے کے بعد پطرس رسول نے لکھا: ”خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] دینداروں کو آزمایش سے نکال لینا . . . جانتا ہے۔“ (۲-پطرس ۲:۶-۹) اگر سدوم کے بیدین لوگوں کے ساتھ ساتھ راستباز لوط اور اُس کے خاندان کو بھی تباہ کر دیا جاتا تو اس سے انصاف کا توازن بگڑ جاتا۔ لہٰذا، یہوواہ کے فرشتوں نے لوط کو آنے والی تباہی سے آگاہ کر دیا۔ جب لوط نے تاخیر کی تو اُن فرشتوں نے ”خداوند کی مہربانی“ سے اُس کا، اُس کی بیوی اور اُس کی بیٹیوں کا ہاتھ پکڑا اور اُنہیں شہر سے باہر لے گئے۔ (پیدایش ۱۹:۱۲-۱۶) ہمیں یقین ہے کہ اس بدکار نظام پر آنے والی تباہی کے دوران بھی یہوواہ راستبازوں کے لئے ایسی ہی فکرمندی دکھائیگا۔
۶. ہمیں بدکار نظام پر آنے والی تباہی سے خواہمخواہ پریشان کیوں نہیں ہونا چاہئے؟
۶ اگرچہ اس نظام کا خاتمہ ”انتقام [”انصاف،“ اینڈبلیو]“ کا وقت ہوگا توبھی ہمیں خواہمخواہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ (لوقا ۲۱:۲۲) ہرمجدون کے وقت خدا جو سزا دیگا وہ ”بالکل راست“ ثابت ہوگی۔ (زبور ۱۹:۹) ابرہام کی طرح ہم انسان بھی یہوواہ کے عدل پر پورا بھروسہ رکھ سکتے ہیں جو ہمارے عدل سے کہیں برتر ہے۔ ابرہام نے پوچھا: ”کیا دُنیا کا انصاف کرنے والا انصاف نہ کریگا؟“ (پیدایش ۱۸:۲۵؛ مقابلہ کریں ایوب ۳۴:۱۰۔) یا پھر جیسے یسعیاہ نے موزوں طور پر اسے بیان کِیا، ”اُس [یہوواہ] نے کس سے مشورت لی جو . . . اُسے عدالت کی راہ سمجھائے؟“—یسعیاہ ۴۰:۱۴۔
نوعِانسان کو بچانے کے لئے ایک راست کارروائی
۷. خدا کے عدل اور اُس کے رحم کا آپس میں کیا تعلق ہے؟
۷ خدا کا عدل محض خطاکاروں کو سزا دینے ہی سے ظاہر نہیں ہوتا۔ یہوواہ خود کو ”صادقالقول اور نجات دینے والا خدا“ کہتا ہے۔ (یسعیاہ ۴۵:۲۱) بدیہی طور پر، خدا کی راستبازی یا عدل اور نوعِانسان کو گناہ کے اثرات سے چھڑانے کی اُس کی خواہش میں گہرا تعلق ہے۔ اس آیت پر تبصرہ کرتے ہوئے، دی انٹرنیشنل سٹینڈرڈ بائبل انسائیکلوپیڈیا، ۱۹۸۲ کا ایڈیشن واضح کرتا ہے کہ ”خدا کا عدل اُس کے رحم کے اظہار اور اُس کی نجات کی تکمیل کے لئے عملی طریقوں کی تلاش میں رہتا ہے۔“ اس کا مطلب یہ نہیں کہ خدا کے عدل کو رحم کے ساتھ متوازن کرنے کی ضرورت ہے بلکہ رحم خدا کے عدل کا ایک اظہار ہے۔ نوعِانسان کی نجات کے لئے فدیے کا خدائی بندوبست الہٰی عدل کے اس پہلو کی نہایت عمدہ مثال ہے۔
۸، ۹. (ا) ”ایک راست عمل“ میں کیا کچھ شمار کِیا گیا تھا؟ کیوں؟ (ب) یہوواہ اس کے بدلے ہم سے کیا چاہتا ہے؟
۸ چونکہ یہوواہ کے معیار ہمہگیر ہیں اور وہ خود بھی انکی پابندی کرتا ہے اس لئے فدیے کی قیمت—خدا کے اکلوتے بیٹے کی گرانقدر زندگی—نہایت اعلیٰ تھی۔ (متی ۲۰:۲۸) آدم ایک کامل زندگی کھو بیٹھا تھا اس لئے آدم کی اولاد کو زندگی دلانے کے لئے ایک کامل زندگی ہی درکار تھی۔ (رومیوں ۵:۱۹-۲۱) پولس رسول فدیے کی ادائیگی سمیت یسوع کی دیانتدارانہ روش کو ”ایک راست عمل“ کے طور پر بیان کرتا ہے۔ (رومیوں ۵:۱۸، فٹنوٹ، اینڈبلیو) ایسا کیوں؟ اس لئے کہ یہوواہ کے نقطۂنظر سے نوعِانسان کا فدیہ دینا درست اور منصفانہ عمل تھا اگرچہ اس کے لئے اُسے خود بھاری قیمت ادا کرنا پڑی تھی۔ آدم کی اولاد ”کچلے ہوئے سرکنڈے“ کی مانند تھی جسے خدا توڑنا نہیں چاہتا تھا یا ”دھواں اُٹھتے ہوئے سن“ کی مانند تھی جسے وہ بجھانا نہیں چاہتا تھا۔ (متی ۱۲:۲۰) خدا کو اعتماد تھا کہ آدم کی اولاد میں سے بہتیرے مردوزن وفادار نکلینگے۔—مقابلہ کریں متی ۲۵:۳۴۔
۹ ہمیں عدلومحبت کی اس افضل کارروائی کے لئے کیسا جوابیعمل دکھانا چاہئے؟ یہوواہ ہم سے جو تقاضے کرتا ہے اُن میں سے ایک یہ ہے کہ ہم ”انصاف کریں۔“ (میکاہ ۶:۸) ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟
عدلوراستی کے طالب ہوں
۱۰. (ا) عدل کو عمل میں لانے کا ایک طریقہ کیا ہے؟ (ب) ہم پہلے خدا کی راستبازی کی تلاش کیسے کر سکتے ہیں؟
۱۰ سب سے پہلے ہمیں خدا کے اخلاقی معیاروں کے مطابق چلنا چاہئے۔ چونکہ خدا کے معیار راست اور منصفانہ ہیں اس لئے جب ہم اُن کی مطابقت میں عمل کرتے ہیں تو ہم درحقیقت عدل کو عمل میں لاتے ہیں۔ یہوواہ اپنے لوگوں سے یہی توقع کرتا ہے۔ ”نیکوکاری سیکھو۔ انصاف کے طالب ہو،“ یہوواہ نے اسرائیل سے کہا۔ (یسعیاہ ۱:۱۷) یسوع نے پہاڑی وعظ میں اپنے سامعین کو یہی نصیحت کی اور کہا کہ ’بادشاہت اور خدا کی راستبازی کی پہلے تلاش کرو۔‘ (متی ۶:۳۳) پولس نے تیمتھیس کی حوصلہافزائی کی کہ ”راستبازی . . . کا طالب ہو۔“ (۱-تیمتھیس ۶:۱۱) جب ہم رُجحانات کے معاملے میں خدائی معیاروں کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں اور نئی انسانیت پہن لیتے ہیں تو دراصل ہم حقیقی عدلوراستی کے طالب ہوتے ہیں۔ (افسیوں ۴:۲۳، ۲۴) باالفاظِدیگر، ہم خدائی طریقے سے معاملات کو نپٹانے سے عدل کے طالب ہوتے ہیں۔
۱۱. ہمیں گناہ کی غلامی کے خلاف کیوں اور کیسے لڑائی کرنی چاہئے؟
۱۱ جیسےکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ناکامل انسانوں کے لئے راستی اور عدل کو عمل میں لانا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔ (رومیوں ۷:۱۴-۲۰) پولس نے گناہ کی غلامی کے خلاف لڑنے کے لئے رومی مسیحیوں کی حوصلہافزائی کی تاکہ وہ اپنے مخصوصشُدہ بدن ”راستبازی کے ہتھیار“ ہونے کے لئے خدا کے حوالہ کریں جو خدا کے مقصد کی تکمیل کے لئے مفید ہونگے۔ (رومیوں ۶:۱۲-۱۴) اسی طرح، خدا کے کلام کا باقاعدہ مطالعہ اور اطلاق کرنے سے ہم ”خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] کی طرف سے . . . نصیحت“ اور ’راستبازی میں تربیت‘ حاصل کر سکتے ہیں۔—افسیوں ۶:۴؛ ۲-تیمتھیس ۳:۱۶، ۱۷۔
۱۲. اگر ہمیں دوسروں سے بالکل ویسا ہی سلوک کرنا ہے جیسا ہم چاہتے ہیں کہ یہوواہ ہمارے ساتھ کرے تو ہمیں کس چیز سے گریز کرنا چاہئے؟
۱۲ دوسری بات یہ ہے کہ جب ہم دوسروں کے ساتھ بالکل ویسا ہی سلوک کرتے ہیں جیسا ہم چاہتے ہیں کہ یہوواہ ہمارے ساتھ کرے تو ہم عدل کو عمل میں لاتے ہیں۔ دوہرے معیار—اپنے لئے نرم اور دوسروں کے لئے سخت—بڑی آسانی سے قائم ہو جاتے ہیں۔ ہم اپنی خطاؤں کے لئے تو بآسانی عذر ڈھونڈ لیتے ہیں مگر دوسروں کی غلطیوں پر خواہ وہ ہماری غلطیوں کی نسبت چھوٹی ہی کیوں نہ ہوں فوراً نکتہچینی کرتے ہیں۔ یسوع نے بڑے واضح الفاظ میں کہا: ”تُو کیوں اپنے بھائی کی آنکھ کے تنکے کو دیکھتا ہے اور اپنی آنکھ کے شہتیر پر غور نہیں کرتا؟“ (متی ۷:۱-۳) ہم سب کو یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ اگر یہوواہ ہماری خطاؤں کا حساب رکھنے لگے تو ہم میں سے کوئی بھی اُس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا۔ (زبور ۱۳۰:۳، ۴) اگر یہوواہ کا عدل اُسے ہمارے بھائیوں کی کمزوریوں کو مہربانی سے نظرانداز کر دینے کی تحریک دیتا ہے توپھر ہم اُنکی کڑی عدالت کرنے والے کون ہوتے ہیں؟—رومیوں ۱۴:۴، ۱۰۔
۱۳. ایک راستباز شخص بادشاہت کی خوشخبری کی منادی کرنے کے لئے پابند کیوں محسوس کرتا ہے؟
۱۳ تیسری بات یہ ہے کہ جب ہم مستعدی کے ساتھ منادی کی کارگزاری میں شریک ہوتے ہیں تو ہم خدائی عدل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ”بھلائی کے حقدار سے اُسے دریغ نہ کرنا جب تیرے مقدور میں ہو۔“ (امثال ۳:۲۷) خدا نے فیاضی کے ساتھ جو زندگیبخش علم ہمیں عطا کِیا ہے اُسے اپنی ہی ذات تک محدود رکھنا اچھا نہ ہوگا۔ سچ ہے کہ بہتیرے لوگ ہمارے پیغام کو مسترد کر دیتے ہیں لیکن جب تک اُن پر خدا کی نظرِکرم ہے ہمیں بھی اُنہیں موقع فراہم کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے تاکہ اُنکی ”توبہ تک نوبت پہنچے۔“ (۲-پطرس ۳:۹) نیز یسوع کی طرح، جب ہم کسی شخص کی عدلوراستی کی طرف رجوع لانے میں مدد کرنے کے قابل ہوتے ہیں تو ہم خوشی کے جذبے سے معمور ہو جاتے ہیں۔ (لوقا ۱۵:۷) اب ہمارے لئے ’راستبازی کا بیج بونے‘ کا سازگار وقت ہے۔—ہوسیع ۱۰:۱۲۔
”شاہزادے عدالت سے حکمرانی کرینگے“
۱۴. عدل کے سلسلے میں بزرگ کیا کردار ادا کرتے ہیں؟
۱۴ یوں تو ہم سب کو راستی کی راہ پر چلنا چاہئے مگر اس سلسلے میں مسیحی کلیسیا کے بزرگ خاص ذمہداری رکھتے ہیں۔ ’عدل اور راستبازی‘ یسوع کی شاہانہ حکمرانی کے ’ستون‘ ہیں۔ لہٰذا بزرگوں کے لئے معیار الہٰی عدل ہے۔ (یسعیاہ ۹:۷) وہ یسعیاہ ۳۲:۱ میں نبوّتی طور پر بیانکردہ اس بات کو یاد رکھتے ہیں: ”دیکھ ایک بادشاہ صداقت سے سلطنت کریگا اور شاہزادے عدالت سے حکمرانی کرینگے۔“ روح سے مقرر نگہبانوں یا ’خدا کے مختاروں‘ کی حیثیت سے بزرگوں کو خدائی طریقے سے کام کرنا چاہئے۔—ططس ۱:۷۔
۱۵، ۱۶. (ا) بزرگ یسوع کی تمثیل کے وفادار چرواہے کی نقل کیسے کرتے ہیں؟ (ب) بزرگ روحانی طور پر کھوئے ہوؤں کے لئے کیا احساس رکھتے ہیں؟
۱۵ یسوع نے ظاہر کِیا کہ یہوواہ کا عدل مشفقانہ، رحمانہ اور معقول ہے۔ سب سے بڑھکر، اُس نے مصیبتزدہ لوگوں کی مدد اور ”کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈنے“ کی کوشش کی۔ (لوقا ۱۹:۱۰) یسوع کی تمثیل میں کھوئی ہوئی بھیڑ کو ڈھونڈنے کی انتھک کوشش کرنے والے چرواہے کی طرح، بزرگ روحانی طور پر گمراہ لوگوں کی تلاش کرتے ہیں اور اُن کو واپس گلّے میں لانے کی کوشش کرتے ہیں۔—متی ۱۸:۱۲، ۱۳۔
۱۶ سنگین گناہوں کے مُرتکب لوگوں کو سزائیں دینے کی بجائے بزرگ روحانی صحت بحال کرنے اور اگر ممکن ہو تو توبہ کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اُنہیں کسی بھٹکے ہوئے کی مدد کر کے خوشی حاصل ہوتی ہے۔ تاہم، جب کوئی خطاکار توبہ کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے تو اُنہیں بہت دُکھ ہوتا ہے۔ پھر خدا کے راست معیار اُن سے تقاضا کرتے ہیں کہ اُس غیرتائب شخص کو خارج کر دیں۔ اس کے باوجود، مسرف بیٹے کے باپ کی طرح، وہ پُراُمید ہوتے ہیں کہ ایک نہ ایک دن وہ خطاکار ضرور ’اپنے ہوش میں آئے‘ گا۔ (لوقا ۱۵:۱۷، ۱۸) لہٰذا، بزرگ بعض خارجشُدہ لوگوں سے ملاقات کرنے میں پہل کرتے ہیں اور اُنہیں یاد دلاتے ہیں کہ وہ کیسے دوبارہ یہوواہ کی تنظیم میں آ سکتے ہیں۔a
۱۷. خطاکاری کا معاملہ نپٹاتے وقت بزرگوں کا مقصد کیا ہوتا ہے اور اس مقصد کے حصول میں کونسی خوبی اُنکی مدد کریگی؟
۱۷ خطاکاری کے معاملات نپٹاتے وقت بزرگوں کو بالخصوص یہوواہ کے عدل کی نقل کرنے کی ضرورت ہے۔ گنہگار یسوع کے ”پاس آتے تھے“ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ اُن کے مسائل سمجھتا ہے اور اُنکی مدد کریگا۔ (لوقا ۱۵:۱؛ متی ۹:۱۲، ۱۳) بِلاشُبہ، یسوع نے کبھی بھی خطاکاری سے چشمپوشی نہیں کی تھی۔ یسوع کے ساتھ ایک ہی وقت کا کھانا کھانے سے بدنام غاصب، زکائی کو توبہ کرنے اور اُن تمام نقصانات کی تلافی کرنے کی تحریک ملی جو اُس نے دوسروں کو پہنچائے تھے۔ (لوقا ۱۹:۸-۱۰) آجکل عدالتی کارروائی کے دوران بزرگوں کا بھی یہی مقصد ہوتا ہے کہ خطاکار کو توبہ کی طرف مائل کِیا جائے۔ اگر وہ یسوع کی طرح قابلِرسائی ہیں تو بہتیرے خطاکار اُن سے مدد حاصل کرنا سہل محسوس کرینگے۔
۱۸. کونسی چیز بزرگوں کی ”آندھی سے پناہگاہ“ کی مانند بننے میں مدد کریگی؟
۱۸ دوسروں کے جذبات کا لحاظ رکھنے والا دل بزرگوں کی الہٰی عدل سے کام لینے میں مدد کریگا جو سخت اور بیحس نہیں ہوتا۔ دلچسپی کی بات ہے کہ عزرا نے اسرائیلیوں کو عدل کی تعلیم دینے کے لئے صرف اپنے ذہن کو ہی نہیں بلکہ اپنے دل کو بھی تیار کِیا تھا۔ (عزرا ۷:۱۰) فہیم دل بزرگوں کو مناسب صحیفائی اصولوں کا اطلاق کرنے اور ہر شخص کے حالات کا لحاظ رکھنے کے قابل بنائیگا۔ جب یسوع نے جریانِخون میں مبتلا عورت کو شفا دی تو اُس نے ظاہر کِیا کہ یہوواہ کے عدل سے مُراد شریعت کے لفظی اور حقیقی دونوں قسم کے مفہوم کو سمجھنا ہے۔ (لوقا ۸:۴۳-۴۸) اپنی کمزوریوں یا اس موجودہ بدکار نظام سے نبردآزما لوگوں کے لئے رحم کے ساتھ عدل کو عمل میں لانے والے بزرگ ”آندھی سے پناہگاہ“ کی مانند ہوتے ہیں۔—یسعیاہ ۳۲:۲۔
۱۹. ایک بہن نے الہٰی عدل کے اطلاق کے لئے کیسا جوابیعمل دکھایا؟
۱۹ سنگین گناہ کی مُرتکب ایک بہن نے براہِراست الہٰی عدل کو سمجھ لیا۔ ”صاف بات تو یہ ہے کہ مجھے بزرگوں کے پاس جاتے ہوئے ڈر لگتا تھا،“ وہ تسلیم کرتی ہے۔ ”مگر وہ مجھ سے نہایت شفقت اور عزت کے ساتھ پیش آئے۔ بزرگ سنگدل منصفوں کی بجائے والدوں جیسے ثابت ہوئے۔ اُنہوں نے یہ سمجھنے میں میری مدد کی کہ اگر مَیں اپنی روش درست کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں تو یہوواہ کبھی بھی مجھے ردّ نہیں کریگا۔ مَیں نے ذاتی تجربے سے سیکھ لیا کہ وہ کیسے پُرمحبت باپ کی طرح ہماری تربیت کرتا ہے۔ مَیں نے اس یقین کے ساتھ یہوواہ کے سامنے اپنا دل کھولکر رکھ دیا کہ وہ میری التجا ضرور سنیگا۔ اب جب مَیں ماضی پر نگاہ ڈالتی ہوں تو مَیں سچائی کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ سات سال قبل بزرگوں سے وہ ملاقات واقعی یہوواہ کی طرف سے برکت تھی۔ اُس وقت سے لیکر اُس کے ساتھ میرا رشتہ پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہو گیا ہے۔“
عدل کو قائم رکھیں اور راستی کو عمل میں لائیں
۲۰. عدل اور راستی کو سمجھنے اور انہیں عمل میں لانے کے کیا فوائد ہیں؟
۲۰ ہم شکرگزار ہیں کہ الہٰی عدل اس سے کہیں بڑھکر ہے کہ ہر انسان سے ویسا ہی سلوک کِیا جائے جس کا وہ مستحق ہے۔ یہوواہ کے عدل نے اُسے ایماندار لوگوں کو ابدی زندگی عطا کرنے کی تحریک دی ہے۔ (زبور ۱۰۳:۱۰؛ رومیوں ۵:۱۵، ۱۸) خدا ہمارے ساتھ ایسا سلوک اس لئے کرتا ہے کیونکہ اُس کا عدل ہمارے حالات کا لحاظ رکھتا ہے اور سزا دینے کی بجائے ہمیں بچانا چاہتا ہے۔ واقعی، یہوواہ کے عدل کی وسعت کے متعلق بہتر سمجھ سے ہم اُس کے اَور بھی زیادہ قریب ہو گئے ہیں۔ نیز جب ہم اُس کی شخصیت کے اس پہلو کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں اور دیگر لوگوں کو بکثرت برکات حاصل ہوتی ہیں۔ ہمارا آسمانی باپ کبھی بھی عدل کے لئے ہماری جستجو کو نظرانداز نہیں کریگا۔ یہوواہ ہم سے وعدہ کرتا ہے: ”عدل کو قائم رکھو اور صداقت کو عمل میں لاؤ کیونکہ میری نجات نزدیک ہے اور میری صداقت ظاہر ہونے والی ہے۔ مبارک ہے وہ انسان جو اس پر عمل کرتا ہے۔“—یسعیاہ ۵۶:۱، ۲۔
[فٹنوٹ]
a دیکھیں مینارِنگہبانی، اکتوبر ۱۹۹۱، صفحات ۱۵-۱۶۔
کیا آپ کو یاد ہے؟
◻سدوم اور عمورہ کی تباہی ہمیں یہوواہ کے عدل کی بابت کیا سکھاتی ہے؟
◻فدیہ خدا کے عدلومحبت کا ایک غیرمعمولی اظہار کیوں ہے؟
◻کن تین طریقوں سے ہم عدل کو عمل میں لا سکتے ہیں؟
◻بزرگ کس خاص طریقے سے الہٰی عدل کی نقل کر سکتے ہیں؟
[صفحہ 29 پر تصویریں]
اپنی منادی کی کارگزاری سے ہم خدائی عدل کا مظاہرہ کرتے ہیں
[صفحہ 31 پر تصویر]
جب بزرگ خدائی عدل سے کام لیتے ہیں تو مسائل سے دوچار لوگوں کیلئے اُن سے مدد حاصل کرنا سہل ہو جاتا ہے