مسائل کو پُرامن طریقے سے کیسے حل کریں
انسانی تشدد کی تاریخ نوعِانسان کیساتھ ہی شروع ہو گئی تھی۔ بائبل، قائن کے حوالے سے تشدد کے پہلے واقعہ کا ذکر کرتی ہے جو کہ ہابل کا بڑا بھائی اور پہلے انسانی جوڑے کا بڑا بیٹا تھا۔ جب خدا نے قائن کے ہدیے کی نسبت ہابل کے ہدیے کو قبول فرمایا تو قائن ”نہایت غضبناک ہؤا۔“ اُس نے صورتحال کیلئے کیسا ردِعمل ظاہر کِیا؟ ”قائنؔ نے اپنے بھائی ہابلؔ پر حملہ کِیا اور اُسے قتل کر ڈالا۔“ بعدازاں، خدا کیساتھ اُسکا رشتہ اُلجھن میں پڑ گیا۔ (پیدایش ۴:۵، ۸-۱۲) خالق کے حضور قائن کی ناراست حیثیت کے مسئلے کو تشدد نے حل نہیں کِیا تھا۔
ہم قائن جیسے طرزِعمل سے کیسے گریز کر سکتے ہیں جو جسمانی طاقت کے ذریعے مسائل کو حل کرنے پر یقین رکھتا تھا؟
تشدد سے برداشت تک
اُس شخص پر غور کریں جس نے پہلے مسیحی شہید، ستفنس کے قتل کی حمایت کی تھی۔ (اعمال ۷:۵۸؛ ۸:۱) وہ شخص، ترسس کا ساؤل، ستفنس کے مذہبی مؤقف سے متفق نہ تھا لہٰذا اُس نے ستفنس کی کارگزاریوں کو روکنے کیلئے اُسکے تشددآمیز قتل کو جائز خیال کِیا۔ درست ہے کہ ساؤل شاید اپنی زندگی کے ہر پہلو میں تشددپسند نہیں تھا۔ تاہم وہ تشدد کو مسائل کے حل کے طور پر استعمال کرنے کیلئے تیار تھا۔ ستفنس کی موت کے فوراً بعد ”ساؔؤل [مسیحی] کلیسیا کو اس طرح تباہ کرتا رہا کہ گھر گھر گھس کر اور مردوں اور عورتوں کو گھسیٹ کر قید کراتا تھا۔“—اعمال ۸:۳۔
بائبل کے ایک مفکر البرٹ برنس کے مطابق، یونانی لفظ جس کا ترجمہ ”تباہ کرنا“ کِیا گیا ہے وہ شیر اور بھیڑیے جیسے جنگلی درندوں کی چیرپھاڑ کی عکاسی کرتا ہے۔ برنس وضاحت کرتا ہے، ”ساؤل کسی جنگلی درندے کی طرح کلیسیا کے خلاف تھا—ایک زوردار لفظ جو اذیت کے اس کام کیلئے اُس کے جوش اور قہر کی نشاندہی کرتا ہے۔“ مسیح کے پیروکاروں کو قید کرنے کیلئے دمشق کی طرف جاتے وقت ساؤل ”ابھی تک خداوند [مسیح] کے شاگردوں کے دھمکانے اور قتل کرنے کی دھن میں تھا۔“ راستے میں قیامتیافتہ یسوع نے اُس سے بات کی جو ساؤل کے مسیحیت کو قبول کرنے پر منتج ہوا۔—اعمال ۹:۱-۱۹۔
مسیحیت کو قبول کرنے کے بعد دوسروں کے ساتھ ساؤل کے برتاؤ میں تبدیلی آ گئی۔ سولہ سال بعد رونما ہونے والے ایک واقعے نے اس تبدیلی کو ظاہر کِیا۔ لوگوں کا ایک گروہ انطاکیہ میں اُس کی آبائی کلیسیا میں آیا اور مسیحیوں کو موسوی شریعت کے مطابق عمل کرنے کی ترغیب دینے لگا۔ اس کا نتیجہ ”بہت بحث اور تکرار تھا۔“ ساؤل جو اب پولس کے نام سے مشہور ہو گیا تھا، اُس نے بحث میں ایک مؤقف کی حمایت کی۔ نتیجتاً بہت گرماگرم بحث ہوئی۔ تاہم پولس نے تشدد کا سہارا نہ لیا۔ اسکی بجائے اُس نے اس کلیسیائی معاملے کو یروشلیم میں بزرگوں اور رسولوں کے پاس لے جانے کی حمایت کی۔—اعمال ۱۵:۱، ۲۔
یروشلیم میں بھی بزرگوں کے اجلاس کے دوران ”بہت بحث“ ہوئی۔ پولس نے انتظار کِیا جب تک کہ ”ساری جماعت چپ“ نہ ہو گئی اور پھر وہ نامختون ایمانداروں کے درمیان واقع ہونے والے خدا کے بڑے بڑے کاموں کو بیان کرنے لگا۔ ایک صحیفائی بحث کے بعد رسول اور یروشلیم کے بزرگ ”ایک دل ہو کر“ اس نتیجے پر پہنچے کہ نامختون ایمانداروں پر غیرضروری بوجھ نہ ڈالا جائے، البتہ انہیں ”بتوں کی مکروہات اور حرامکاری اور گلا گھونٹے ہوئے جانوروں اور لہو سے پرہیز“ کرنے کی تاکید کریں۔ (اعمال ۱۵:۳-۲۹) پولس یقیناً تبدیل ہو چکا تھا۔ اُس نے معاملات کو تشدد کے بغیر حل کرنا سیکھ لیا تھا۔
تشددپسند میلانات سے نپٹنا
”مناسب نہیں کہ خداوند کا بندہ جھگڑا کرے“ بعدازاں پولس نے فہمائش کی ”بلکہ سب کے ساتھ نرمی کرے اور تعلیم دینے کے لائق اور بردبار ہو۔ اور مخالفوں کو حلیمی سے تادیب کرے۔“ (۲-تیمتھیس ۲:۲۴، ۲۵) پولس نے ایک جوان نگہبان تیمتھیس کو مشکل امور کو ٹھنڈے دل سے نپٹانے کی تحریک دی۔ پولس حقیقتپسند تھا۔ وہ جانتا تھا کہ مسیحیوں کے جذبات بھی بھڑک سکتے ہیں۔ (اعمال ۱۵:۳۷-۴۱) اُس نے موزوں طور پر اس بات کیساتھ اختتام کِیا: ”غصہ تو کرو مگر گناہ نہ کرو۔ سورج کے ڈوبنے تک تمہاری خفگی نہ رہے۔“ (افسیوں ۴:۲۶) اشتعال میں آئے بغیر غصے کو قابو میں رکھنا ہی ایسے معاملات کیساتھ نپٹنے کا مناسب طریقہ ہے۔ تاہم ایسا کیسے کِیا جا سکتا ہے؟
آجکل، غصے کو قابو میں رکھنا آسان نہیں ہے۔ ”خودغرضی عام ہے،“ ہاورڈ سکول آف پبلک ہیلتھ میں نائب ڈین ڈاکٹر ڈیبرا پرتھرو-سٹتھ نے بیان کِیا۔ ”درحقیقت دوسروں کیساتھ اچھے تعلقات رکھنے کیلئے درکار مہارتوں—باتچیت، مصالحت، ہمدردی، معافی—کو بےکار قرار دیا جاتا ہے۔“ تاہم یہ انسانی خصوصیات ہیں جو ہمارے اندر موجود تشددپسند میلانات کو قابو میں رکھنے میں کلیدی اہمیت رکھتی ہیں۔
مسیحی بن جانے کے بعد، پولس نے اختلافِرائے کیساتھ نپٹنے کا بہتر طریقہ سیکھ لیا تھا۔ یہ بائبل تعلیم پر مبنی تھا۔ یہودیت کا ایک عالم ہونے کی وجہ سے پولس عبرانی صحائف سے بخوبی واقف تھا۔ وہ ایسے صحائف سے واقف تھا جیسےکہ ”تُندخو آدمی پر حسد نہ کرنا اور اُسکی کسی روش کو اختیار نہ کرنا۔“ ”جو قہر کرنے میں دھیما ہے پہلوان سے بہتر ہے اور وہ جو اپنی روح پر ضابط ہے اُس سے جو شہر لے لیتا ہے۔“ ”جو اپنے نفس پر ضابط نہیں وہ بےفصیل اور مسمارشدہ شہر کی مانند ہے۔“ (امثا ۳:۳۱؛ ۱۶:۳۲؛ ۲۵:۲۸) تاہم اس علم نے پولس کو مسیحی بننے سے قبل، مسیحیوں کے خلاف تشدد سے باز نہ رکھا۔ (گلتیوں ۱:۱۳، ۱۴) کس چیز نے پولس کو جذباتی طور پر اشتعالانگیز امور کو تشدد کی بجائے دلائل اور تحمل کیساتھ نپٹانے میں مدد دی؟
پولس نے ہمیں ایک اشارہ مہیا کِیا جب اُس نے کہا: ”تم میری مانند بنو جیسا مَیں مسیح کی مانند بنتا ہوں۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۱:۱) یسوع مسیح نے اُس کے لئے جوکچھ کِیا تھا اُس نے اُس کے لئے بہت قدردانی دکھائی۔ (۱-تیمتھیس ۱:۱۳، ۱۴) مسیح اُس کے لئے قابلِتقلید نمونہ بن گیا۔ وہ جانتا تھا کہ یسوع نے گنہگار نوعِانسان کے لئے تکلیف اُٹھائی۔ (عبرانیوں ۲:۱۸؛ ۵:۸-۱۰) پولس مسیحا کی بابت یسوع پر پوری ہونے والی یسعیاہ کی اس پیشینگوئی کی تصدیق کر سکتا تھا: ”وہ ستایا گیا توبھی اُس نے برداشت کی اور مُنہ نہ کھولا۔ جس طرح برہ جسے ذبح کرنے کو لے جاتے ہیں اور جس طرح بھیڑ اپنے بال کترنے والوں کے سامنے بےزبان ہے اسی طرح وہ خاموش رہا۔“ (یسعیاہ ۵۳:۷) پطرس رسول نے لکھا: ”نہ وہ گالیاں کھا کر گالی دیتا تھا اور نہ دکھ پا کر کسی کو دھمکاتا تھا بلکہ اپنے آپ کو سچے انصاف کرنے والے کے سپرد کرتا تھا۔ اور ہمارے گناہوں کو اپنے بدن پر لئے ہوئے صلیب پر چڑھ گیا تاکہ ہم گناہوں کے اعتبار سے مر کر راستبازی کے اعتبار سے جئیں اور اُسی کے مار کھانے سے تم نے شفا پائی۔“—۱-پطرس ۲:۲۳، ۲۴۔
یسوع نے جس طرح کی مشکل حالتوں کا سامنا کِیا اُس کیلئے قدردانی نے پولس کو تبدیل ہو جانے کی تحریک دی۔ وہ اپنے ساتھی ایمانداروں کو تاکید کر سکتا تھا: ”اگر کسی کو دوسرے کی شکایت ہو تو ایک دوسرے کی برداشت کرے اور ایک دوسرے کے قصور معاف کرے۔ جیسے خداوند نے تمہارے قصور معاف کئے ویسے ہی تم بھی کرو۔“ (کلسیوں ۳:۱۳) متشدّد ہونے سے باز رہنے کی ضرورت کو پہچاننا ہی کافی نہیں ہے۔ یہوواہ اور یسوع مسیح نے ہمارے لئے جوکچھ کِیا ہے اس کیلئے قدردانی ہمیں اپنے متشدّد میلان پر قابو پانے کیلئے ضروری تحریک فراہم کرتی ہے۔
کیا یہ ممکن ہے؟
جاپان میں ایک شخص کو ایسی پُرزور تحریک کی ضرورت تھی۔ اُسکا باپ جو کہ ایک فوجی، غصہور شخص تھا اور خاندان کو تشدد کیساتھ قابو میں رکھتا تھا۔ تشدد کا نشانہ بننے اور اپنی ماں کو تکلیف اُٹھاتے دیکھ کر اُس شخص میں تشددآمیز جذبہ پیدا ہو گیا۔ وہ اپنے مسائل حل کرنے اور لوگوں کو دہشتزدہ کرنے کیلئے مختلف لمبائی کی دو سموری تلواریں اپنے ساتھ رکھتا تھا۔
جب اُس کی بیوی نے بائبل مطالعہ شروع کِیا تو کوئی خاص دلچسپی لئے بغیر وہ مطالعے میں بیٹھ گیا۔ تاہم کتابچہ بعنوان دِس گڈ نیوز آف دی کنگڈمa پڑھنے کے بعد وہ بدل گیا۔ کیوں؟ ”جب مَیں نے ذیلی عنوان ’مسیح یسوع‘ اور ’فدیہ‘ کے تحت مواد کو پڑھا تو مجھے بہت شرمندگی ہوئی،“ وہ وضاحت کرتا ہے۔ ”اگرچہ مَیں خودسر زندگی بسر کر رہا تھا توبھی مَیں تمام لوگوں سے مہربانی سے پیش آنا چاہتا تھا۔ مَیں اپنے ساتھیوں کو خوش کرنے سے طمانیت محسوس کرتا تھا مگر صرف اسی حد تک جہاں تک میری زندگی اس سے متاثر نہ ہو۔ تاہم خدا کا بیٹا، یسوع میرے جیسے انسانوں کے لئے اپنی زندگی بھی دے دینے کے لئے تیار تھا مَیں گمسم ہو کر رہ گیا جیسے کسی نے مجھے ہتھوڑے سے ضرب لگائی ہو۔“
اُس نے اپنے پُرانے ساتھیوں کی رفاقت ترک کر دی اور یہوواہ کے گواہوں کی کلیسیا میں تھیوکریٹک منسٹری سکول میں نام درج کروایا۔ یہ سکول دوسروں کو بائبل سکھانے کا فن سیکھنے کیلئے تمام طالبعلموں کی مدد کرتا ہے۔ اس روش سے اُسے بہت سے ضمنی فوائد حاصل ہوئے۔ وہ یاد کرتا ہے: ”جب مَیں نوجوان تھا تو مَیں دھمکیوں اور تشدد کی طرف مائل تھا کیونکہ مَیں اپنے احساسات کے اظہار کے طریقے سے واقف نہیں تھا۔ جب مَیں نے اظہارِخیال کا طریقہ سیکھ لیا تو مَیں تشدد کی طرف مائل ہونے کی بجائے دوسروں کیساتھ استدلال کرنے لگا۔“
کیا پولس کی طرح اُس نے بھی مسیح کے طرزِزندگی کو اپنا لیا؟ اُسکے ایمان کی آزمائش اُس وقت ہوئی جب اُسکے پُرانے دوستوں میں سے ایک نے جس کے ساتھ اُس نے بھائیبندی کا عہد کر رکھا تھا، اُسے مسیحی بننے سے روکنے کی کوشش کی۔ اُس کے ”دوست“ نے اُسے مارا اور اُسکے خدا یہوواہ کو بُرابھلا کہا۔ سابقہ متشدّد شخص نے خود پر قابو رکھا اور اُس سے معافی مانگی کہ وہ اپنے عہد کی پابندی نہیں کر سکتا۔ مایوس ہو کر اُسکے ”بھائیبند“ نے اُسے چھوڑ دیا۔
اپنے تشددپسندانہ میلان پر غالب آنے سے، اس سابقہ تُندخو شخص نے بہت سے روحانی بہن بھائی بنا لئے ہیں جو خدا اور پڑوسیوں کیلئے محبت کے باعث متحد ہیں۔ (کلسیوں ۳:۱۴) درحقیقت مخصوصشُدہ مسیحی بننے کے ۲۰ سال بعد، آجکل وہ یہوواہ کے گواہوں کے سفری نگہبان کے طور پر خدمت انجام دے رہا ہے۔ اُس کیلئے کتنی خوشی کی بات ہے کہ وہ بائبل سے یہ دکھانے کے لائق ہے کہ حیوان خصلت انسان بھی تشدد کے بغیر اختلافات کو حل کرنا سیکھ سکتے ہیں جیسے کہ اُس نے سیکھ لیا تھا! نیز اس کیلئے یہ کتنا بڑا شرف تھا کہ ان نبوّتی الفاظ کی شاندار تکمیل کی نشاندہی کرے: ”وہ میرے تمام کوہِمقدس پر نہ ضرر پہنچائینگے نہ ہلاک کرینگے کیونکہ جس طرح سمندر پانی سے بھرا ہے اُسی طرح زمین خداوند کے عرفان سے معمور ہوگی۔“—یسعیاہ ۱۱:۹۔
پولس رسول اور اس سابقہ متشدّد شخص کی طرح، آپ بھی مسائل کو پُرامن طریقے سے حل کرتے ہوئے ایسی اشتعالانگیز حالتوں سے نپٹ سکتے ہیں۔ آپ کے علاقے میں موجود یہوواہ کے گواہ آپکی مدد کر کے خوش ہونگے۔
[فٹنوٹ]
a واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک، انکارپوریٹیڈ کی شائعکردہ۔
[صفحہ 5 پر عبارت]
پولس حقیقتپسند تھا۔ وہ جانتا تھا کہ مسیحی بھی اشتعالانگیز جذبات کا شکار ہو سکتے ہیں
[صفحہ 7 پر تصویر]
خدا نے ہماری خاطر جو کچھ کِیا ہے اس کیلئے قدردانی ہمارے تعلقات کو پُرامن بناتی ہے