بصیرت اور قائل کرنے والی خوبی کے ساتھ تعلیم دیں
”دانا آدمی کا دل اُسکے مُنہ کو بصیرت اور اُسکے لبوں کو قائل کرنے کی خوبی بخشتا ہے۔“—امثال ۱۶:۲۳، اینڈبلیو۔
۱. خدا کے کلام کی تعلیم دینے میں محض معلومات بہم پہنچانے سے زیادہ کچھ کیوں شامل ہے؟
خدا کے کلام کی تعلیم دینے والوں کے طور پر ہمارا نصبالعین نہ صرف اپنے طالبعلموں کے ذہنوں کو بلکہ دلوں کو بھی روشن کرنا ہے۔ (افسیوں ۱:۱۸) چنانچہ تعلیم دینے میں محض معلومات بہم پہنچانے سے زیادہ کچھ شامل ہے۔ امثال ۱۶:۲۳ بیان کرتی ہے: ”دانا کا دل اُسکے مُنہ کو بصیرت اور اُسکے لبوں کو قائل کرنے کی خوبی بخشتا ہے۔“
۲. (ا) قائل کرنے کا کیا مطلب ہے؟ (ب) تمام مسیحیوں کیلئے قائل کرنے والے اُستاد ہونے کا کیا مطلب ہے؟
۲ پولس رسول نے اپنے تعلیم دینے کے کام پر یقیناً اس اصول کا اطلاق کِیا تھا۔ جب وہ کرنتھس میں تھا تو ”وہ ہر سبت کو عبادتخانہ میں بحث کرتا اور یہودیوں اور یونانیوں کو قائل کرتا تھا۔“ (اعمال ۱۸:۴) ایک مستند کتاب کے مطابق، جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”قائل کرنا“ کِیا گیا ہے اُس کا مطلب ”استدلال یا اخلاقی نظریات کے اثر سے ذہنی تبدیلی کو عمل میں لانا ہے۔“ پولس قائل کرنے والے دلائل سے لوگوں کو اپنا اندازِفکر بدلنے کی تحریک دینے کے لائق ہوا تھا۔ اُس کی قائل کرنے کی خوبی اتنی زبردست تھی کہ اُس کے دشمن بھی اُس سے خائف تھے۔ (اعمال ۱۹:۲۴-۲۷) پھربھی، پولس کی تعلیم انسانی قابلیت کا مظہر نہیں تھی۔ اُس نے کرنتھیوں کو بتایا: ”میری تقریر اور میری منادی میں حکمت کی لبھانے والی باتیں نہ تھیں بلکہ وہ روح اور قدرت سے ثابت ہوتی تھی۔ تاکہ تمہارا ایمان انسان کی حکمت پر نہیں بلکہ خدا کی قدرت پر موقوف ہو۔“ (۱-کرنتھیوں ۲:۴، ۵) تمام مسیحی یہوواہ خدا کی روح کی مدد حاصل ہونے کی وجہ سے قائل کرنے والے اُستاد بن سکتے ہیں۔ لیکن کیسے؟ آئیے تعلیم دینے کے بعض مؤثر طریقوں پر غور کریں۔
اچھا سننے والا بنیں
۳. دوسروں کو تعلیم دیتے وقت بصیرت کی ضرورت کیوں ہے اور ہم بائبل طالبعلم کے دل تک کیسے پہنچ سکتے ہیں؟
۳ تعلیم دینے کے پہلے طریقے میں بولنے کی بجائے سننا شامل ہے۔ امثال ۱۶:۲۳ کے مطابق قائل کرنے کیلئے ہمارے پاس بصیرت ہونی چاہئے۔ یسوع اُن لوگوں کی بابت واقعی بصیرت رکھتا تھا جنہیں اُس نے تعلیم دی تھی۔ یوحنا ۲:۲۵ بیان کرتی ہے: ”وہ آپ جانتا تھا کہ انسان کے دل میں کیا کیا ہے۔“ تاہم، ہمیں کیسے معلوم ہو سکتا ہے کہ جنہیں ہم تعلیم دیتے ہیں اُنکے دلوں میں کیا ہے؟ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ اچھا سننے والا ہونا چاہئے۔ یعقوب ۱:۱۹ بیان کرتی ہے: ”ہر آدمی سننے میں تیز اور بولنے میں دھیرا . . . ہو۔“ سچ ہے کہ تمام لوگ اپنے خیالات کا بآسانی اظہار نہیں کرتے۔ جب ہمارے بائبل طالبعلموں کو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ ہم اُن میں حقیقی دلچسپی رکھتے ہیں تو وہ اپنے حقیقی احساسات کا اظہار کرنے کی طرف زیادہ مائل ہو سکتے ہیں۔ مہربانہ مگر نظریاتی سوالات اکثر دل تک پہنچ کر ایسے اظہارات ’نکالنے‘ میں ہماری مدد کر سکتے ہیں۔—امثال ۲۰:۵۔
۴. مسیحی بزرگوں کو اچھا سننے والا کیوں ہونا چاہئے؟
۴ مسیحی بزرگوں کے لئے خاص طور پر اچھا سننے والا ہونا بہت اہم ہے۔ درحقیقت تب ہی ”[اُنہیں] ہر شخص کو مناسب جواب دینا آ“ سکتا ہے۔ (کلسیوں ۴:۶) امثال ۱۸:۱۳ آگاہ کرتی ہے: ”جو بات سننے سے پہلے اُس کا جواب دے یہ اُس کی حماقت اور خجالت ہے۔“ ایک مرتبہ دو مخلص بھائیوں نے ایک بہن کو کچھ اجلاسوں سے غیرحاضر ہونے کی وجہ سے دُنیاداری کی بابت نصیحت کر ڈالی۔ بہن کو اس سے بہت ٹھیس پہنچی کہ اُنہوں نے اُس سے تو پوچھا ہی نہیں کہ وہ کیوں حاضر نہیں ہو سکی۔ وہ تو حال ہی میں جراحی کے عمل سے گزر کر صحتیاب ہوئی تھی۔ لہٰذا، نصیحت کرنے سے پہلے سننا ازحد ضروری ہے!
۵. بزرگ بھائیوں کے درمیان پیدا ہونے والے مسائل کو کیسے حل کر سکتے ہیں؟
۵ بزرگوں کے لئے دوسروں کو تعلیم دینے میں اکثر نصیحت کرنا بھی شامل ہوتا ہے۔ یہاں پر بھی اچھا سننے والا ہونا ضروری ہے۔ جب ساتھی مسیحیوں کے درمیان جھگڑے اُٹھ کھڑے ہوں تو سننا خاص طور پر ضروری ہو جاتا ہے۔ سننے کے بعد ہی بزرگ اُس ”باپ“ کی نقل کر سکتے ہیں جو ”بغیر طرفداری کے انصاف کرتا ہے۔“ (۱-پطرس ۱:۱۷) ایسی حالتوں میں اکثر جذبات بھڑک اُٹھتے ہیں اسلئے ایک بزرگ کو امثال ۱۸:۱۷ کی اس مشورت کو ذہن میں رکھنا چاہئے: ”جو پہلے اپنا دعویٰ بیان کرتا ہے راست معلوم ہوتا ہے پر دوسرا آ کر اُسکی حقیقت ظاہر کرتا ہے۔“ ایک مؤثر اُستاد دونوں فریقین کی بات سنیگا۔ دُعا کرنے سے وہ پُرسکون فضا قائم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ (یعقوب ۳:۱۸) اگر جذبات بےقابو ہونے لگیں تو وہ مشورہ دے سکتا ہے کہ دونوں فریقین آپس میں اُلجھنے کی بجائے براہِراست اُسکے سامنے اپنا اپنا مؤقف بیان کریں۔ موزوں سوالات کے ذریعے، بزرگ زیرِغور مسائل کو واضح کر سکتا ہے۔ بیشتر معاملات میں، کینہپروری کی بجائے ناقص رابطہ جھگڑوں کی اصل جڑ ثابت ہوتا ہے۔ تاہم اگر بائبل اصولوں کی خلافورزی کی گئی ہے تو ایک شفیق اُستاد فریقین کی بات سننے کے بعد اب بصیرت کیساتھ ہدایت کر سکتا ہے۔
سادگی کی اہمیت
۶. یسوع اور پولس نے سادگی سے تعلیم دینے میں کیسے مثال قائم کی؟
۶ باتچیت کو سادہ رکھنا بھی تعلیم دینے کی ایک قابلِقدر مہارت ہے۔ سچ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بائبل طالبعلم ”سب مُقدسوں سمیت بخوبی معلوم“ کر سکیں کہ سچائی کی ”چوڑائی اور لمبائی اور اُونچائی اور گہرائی کتنی ہے۔“ (افسیوں ۳:۱۸) بائبل عقائد کے ایسے پہلو بھی ہیں جو دلآویز ہونے کیساتھ ساتھ اکثر چیلنجخیز بھی ہوتے ہیں۔ (رومیوں ۱۱:۳۳) تاہم، جب پولس نے یونانیوں میں منادی کی تو اُس نے ’مسیح مصلوب‘ کے سادہ پیغام پر توجہ مرتکز کی۔ (۱-کرنتھیوں ۲:۱، ۲) اسی طرح، یسوع نے بھی واضح اور دلکش انداز میں منادی کی تھی۔ اُس نے اپنے پہاڑی وعظ میں نہایت سادہ الفاظ استعمال کئے۔ پھربھی، یہ گہری سچائیوں پر مشتمل ہے جو کبھی بیان کی گئی ہوں۔—متی، ابواب ۵-۷۔
۷. بائبل مطالعہ کراتے وقت ہم کیسے معاملات کو سادہ رکھ سکتے ہیں؟
۷ اسی طرح ہم بائبل مطالعوں پر تعلیم دیتے وقت سادہ معلومات پیش کر سکتے ہیں۔ کیسے؟ ”زیادہ اہم باتوں“ پر توجہ مرکوز رکھنے سے ایسا کِیا جا سکتا ہے۔ (فلپیوں ۱:۱۰، اینڈبلیو) گہری باتوں کی وضاحت کرتے وقت ہمیں بڑی سادہ زبان میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کتاب میں حوالہشُدہ بائبل کی ہر آیت کو پڑھنے اور اس پر بحث کرنے کی بجائے ہمیں کلیدی صحائف پر توجہ دینی چاہئے۔ اس کیلئے ہمارا تیاری کرنا بہت ضروری ہے۔ ہمیں طالبعلم پر معلومات کی بوچھاڑ کرنے سے گریز کرنا چاہئے اور خود کو غیرضروری معاملات سے انتشارِخیال میں پڑنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔ اگر طالبعلم سبق سے ہٹ کر کوئی سوال پوچھنا چاہتا ہے تو ہم موقعشناسی سے بیان کر سکتے ہیں کہ سبق ختم کرنے کے بعد اس پر گفتگو کرینگے۔
سوالات کا مؤثر استعمال
۸. یسوع نے سوالات کو اثرآفرینی سے کیسے استعمال کِیا؟
۸ تعلیم دینے کی ایک اَور خوبی مؤثر سوالات پوچھنا ہے۔ یسوع مسیح نے اپنی تعلیم میں سوالات کو بہت زیادہ استعمال کِیا تھا۔ مثال کے طور پر، یسوع نے پطرس سے پوچھا: ”اے شمعوؔن تُو کیا سمجھتا ہے؟ دُنیا کے بادشاہ کن سے محصول یا جزیہ لیتے ہیں؟ اپنے بیٹوں سے یا غیروں سے؟ جب اس نے کہا غیروں سے تو یسوؔع نے اس سے کہا پس بیٹے بری ہوئے۔“ (متی ۱۷:۲۴-۲۶) ہیکل میں جسکی پرستش کی جاتی تھی اُسکا اکلوتا بیٹا ہونے کی حیثیت سے یسوع درحقیقت ہیکل کا ٹیکس ادا کرنے کا پابند نہیں تھا۔ تاہم یسوع نے سوالات کے مؤثر استعمال سے اس حقیقت کو واضح کِیا۔ یوں یسوع نے پطرس کی اُن معلومات پر مبنی موزوں فیصلہ کرنے میں مدد کی جو وہ پہلے سے رکھتا تھا۔
۹. ہم بائبل مطالعے کے دوران سوالات کا استعمال کیسے کر سکتے ہیں؟
۹ ہم بائبل مطالعوں کے دوران بھی سوالات کا اچھا استعمال کر سکتے ہیں۔ اگر کوئی طالبعلم غلط جواب دیتا ہے تو فوراً صحیح جواب دینے کی آزمائش میں پڑ سکتے ہیں، مگر کیا وہ واقعی معلومات کو یاد رکھیگا؟ اکثر سوالات پوچھنے سے طالبعلم کی صحیح نتیجے تک پہنچنے کیلئے راہنمائی کرنے کی کوشش کرنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر اُسے یہ بات سمجھنے میں مشکل پیش آ رہی ہے کہ ہمیں الہٰی نام کیوں استعمال کرنا چاہئے تو ہم پوچھ سکتے ہیں، ’کیا آپ کا نام آپ کیلئے اہمیت رکھتا ہے؟ . . . کیوں؟ . . . اگر کوئی آپکا نام استعمال کرنے سے انکار کر دے تو آپ کو کیسا محسوس ہوگا؟ . . . پس کیا خدا کا ہم سے یہ تقاضا کرنا معقول نہیں ہے کہ ہم اُسکا ذاتی نام استعمال کریں؟‘
۱۰. بزرگ جذباتی طور پر مجروح لوگوں کی مدد کرتے وقت سوالات کو کیسے استعمال کر سکتے ہیں؟
۱۰ بزرگ گلّے کی گلّہبانی کرتے وقت بھی سوالات کا اچھا استعمال کر سکتے ہیں۔ کلیسیا میں بہتیرے لوگ شیطان کی دُنیا سے جذباتی طور پر چوٹ اور زخم کھائے ہوئے ہیں اسلئے شاید وہ ناپاک اور نامقبول محسوس کریں۔ ایک بزرگ ایسے شخص سے یوں استدلال کر سکتا ہے: ’گو آپ کہتے ہیں کہ آپ ناپاک محسوس کرتے ہیں، توبھی یہوواہ آپ کی بابت کیسا محسوس کرتا ہے؟ اگر ہمارے شفیق آسمانی باپ نے اپنے بیٹے کو مرنے دیا تاکہ آپ کیلئے فدیہ فراہم کرے تو کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدا آپ سے پیار کرتا ہے؟‘—یوحنا ۳:۱۶۔
۱۱. ایسے سوالات کیا مقصد انجام دیتے ہیں جن کے جواب مقصود نہ ہوں اور عوامی خطاب کرتے وقت انہیں کیسے استعمال کِیا جا سکتا ہے؟
۱۱ ایسے سوالات جنکا جواب مقصود نہ ہو وہ تعلیم دینے کا ایک اَور مفید طریقہ ہیں۔ سامعین سے اسکے جواب کی توقع نہیں کی جاتی بلکہ ان سے معاملات کی بابت ذہنی استدلال کرنے میں اُنکی مدد ہوتی ہے۔ پُرانے زمانے کے انبیاء اکثر اپنے سامعین کو گہرائی سے سوچنے کی تحریک دینے کیلئے ایسے سوالات پوچھا کرتے تھے۔ (یرمیاہ ۱۸:۱۴، ۱۵) یسوع نے بھی مؤثر طور پر ایسے سوالات کا استعمال کِیا تھا۔ (متی ۱۱:۷-۱۱) ایسے سوالات بالخصوص عوامی خطاب میں مؤثر ثابت ہوتے ہیں۔ سامعین کو محض یہ بتانے کی بجائے کہ یہوواہ کو خوش کرنے کی غرض سے اُنہیں پورے دلوجان سے خدمت کرنی چاہئے، زیادہ مؤثر یہ سوال پوچھنا ہوگا کہ ’اگر ہم حقیقت میں پورے دلوجان سے خدمت نہیں کرتے تو کیا یہوواہ خوش ہوگا؟‘
۱۲. نظریاتی سوالات پوچھنے کی کیا اہمیت ہے؟
۱۲ نظریاتی سوالات اس بات کا تعیّن کرنے میں کارآمد ہیں کہ آیا بائبل طالبعلم جوکچھ سیکھ رہا ہے واقعی اُس پر ایمان بھی رکھتا ہے۔ (متی ۱۶:۱۳-۱۶) ایک طالبعلم ہو سکتا ہے کہ صحیح جواب دے کہ حرامکاری غلط ہے۔ تاہم کیوں نہ ایسے سوالات کیساتھ اس موضوع پر مزید بات کریں جیسے، آپ ذاتی طور پر اخلاقیات کے سلسلے میں خدا کے معیار کی بابت کیسا محسوس کرتے ہیں؟ کیا آپ محسوس کرتے ہیں کہ یہ حد سے زیادہ امتناعی ہے؟ کیا آپکی نظر میں خدا کے معیاروں کی پابندی کرنے کی واقعی کوئی اہمیت ہے یا نہیں؟
دل میں اُتر جانیوالی تمثیلیں
۱۳، ۱۴. (ا) کسی چیز کی مثال دینے کا کیا مطلب ہے؟ (ب) عمدہ تمثیلیں کیوں مؤثر ہوتی ہیں؟
۱۳ سامعین اور بائبل طالبعلموں کے دل تک پہنچنے کا ایک اَور ذریعہ مؤثر تمثیلیں ہیں۔ یونانی لفظ جسکا ترجمہ ”تمثیل“ کِیا گیا ہے اُس کا لفظی مطلب ”ساتھ یا اکٹھے رکھنا“ ہے۔ جب آپ تمثیل دیتے ہیں تو آپ کسی چیز کو اُسی طرح کی دوسری چیز کے ’ساتھ رکھنے‘ سے وضاحت کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، یسوع نے پوچھا: ”ہم خدا کی بادشاہی کو کس سے تشبِیہ دیں اور کس تمثیل میں اُسے بیان کریں؟“ جواب میں یسوع نے جانےپہچانے گیہوں کے دانے کا ذکر کِیا۔—مرقس ۴:۳۰-۳۲۔
۱۴ خدا کے نبیوں نے متعدد زوردار تمثیلیں استعمال کیں۔ جب اسوریوں نے جو اسرائیلیوں کو سزا دینے کے لئے خدا کا آلۂکار تھے شدید ظلم کِیا تو یسعیاہ نے اُن کی شوخچشمی کو اس تمثیل سے فاش کِیا: ”کیا کلہاڑا اُس کے رُوبرو جو اُس سے کاٹتا ہے لافزنی کرے گا؟ کیا ارّہ ارّہکش کے سامنے شیخی مارے گا؟“ (یسعیاہ ۱۰:۱۵) اسی طرح یسوع نے بھی دوسروں کو تعلیم دیتے وقت تمثیلوں کا بھرپور استعمال کِیا۔ اُس کی بابت کہا گیا ہے کہ وہ ”بےتمثیل اُن سے کچھ نہ کہتا تھا۔“ (مرقس ۴:۳۴) عمدہ تمثیلیں مؤثر ہوتی ہیں کیونکہ وہ دلودماغ دونوں پر اثر کرتی ہیں۔ وہ سامعین کو پہلے سے معلوم چیزوں کے ساتھ نئی معلومات کا موازنہ کرتے ہوئے آسانی سے سمجھنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔
۱۵، ۱۶. کیا چیز تمثیلوں کو نہایت مؤثر بنائیگی؟ مثالیں دیں۔
۱۵ ہم ایسی تمثیلوں کو کیسے استعمال کر سکتے ہیں جو واقعی دل تک پہنچیں؟ سب سے پہلے تو تمثیل کو اُس چیز کے مماثل ہونا چاہئے جس کی وضاحت کی جا رہی ہے۔ اگر موازنہ صحیح نہیں ہے تو تمثیل سامعین کو روشنخیالی عطا کرنے کی بجائے انتشارِخیال میں ڈال دیگی۔ ایک اچھے مقرر نے ایک دفعہ ممسوح بقیے کی یسوع مسیح کیلئے تابعداری کو بیان کرنے کیلئے اُنکا موازنہ وفادار پالتو کتے کیساتھ کِیا۔ تاہم کیا ایسا حقارتآمیز موازنہ موزوں ہے؟ بائبل اسی خیال کو نہایت باوقار اور پُرکشش طریقے سے پیش کرتی ہے۔ یہ یسوع کے ۱،۴۴،۰۰۰ ممسوح پیروکاروں کا ایسی ”دلہن“ سے موازنہ کرتی ہے ”جس نے اپنے شوہر کیلئے سنگار کِیا ہو۔“—مکاشفہ ۲۱:۲۔
۱۶ لوگوں کی زندگیوں سے تعلق رکھنے والی تمثیلیں زیادہ مؤثر ہوتی ہیں۔ ناتن کی ذبح کی جانے والی بھیڑ کی تمثیل داؤد کے دل میں اُتر گئی تھی کیونکہ اپنی جوانی میں چرواہا ہونے کی وجہ سے اُسے بھیڑوں سے محبت تھی۔ (۱-سموئیل ۱۶:۱۱-۱۳؛ ۲-سموئیل ۱۲:۱-۷) اگر تمثیل میں بیل کا استعمال کِیا جاتا تو شاید وہ اتنی مؤثر نہ ہوتی۔ اسی طرح سے، سائنسی عمل یا مبہم تاریخی واقعہ پر مبنی تمثیل کی ہمارے سامعین کے لئے کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔ یسوع کی تمثیلیں روزمرّہ زندگی سے تعلق رکھتی تھیں۔ اُس نے چراغ، آسمان کے پرندوں، جنگلی سوسن کے درختوں جیسی عامفہم چیزوں کا ذکر کِیا۔ (متی ۵:۱۵، ۱۶؛ ۶:۲۶، ۲۸) یسوع کے سامعین ایسی چیزوں کے مابین تعلق کو بآسانی سمجھ سکتے تھے۔
۱۷. (ا) ہم کس چیز کو اپنی تمثیلوں کی بنیاد بنا سکتے ہیں؟ (ب) ہم اپنی مطبوعات میں دی گئی تمثیلوں کو اپنے طالبعلموں کے حالات کے مطابق کیسے ڈھال سکتے ہیں؟
۱۷ اپنی خدمتگزاری میں ہمارے پاس سادہ، مگر مؤثر تمثیلیں استعمال کرنے کے بہت سے مواقع ہوتے ہیں۔ محتاط مشاہدہ کرنے والے بنیں۔ (اعمال ۱۷:۲۲، ۲۳) شاید ایک تمثیل سامع کے بچوں، گھر، ملازمت یا مشغلے پر مبنی ہو۔ یا شاید ہم بائبل طالبعلم کے بارے میں اپنے ذاتی علم کو استعمال کرتے ہوئے مطالعہ کے مواد میں پہلے سے موجود تمثیلوں کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، علم جو ہمیشہ کی زندگی کا باعث ہے کتاب کے باب ۸ کے پیراگراف ۱۴ میں استعمال کی گئی مؤثر تمثیل پر غور کریں۔ اس میں پُرمحبت والد کی بات کی گئی ہے جس پر پڑوسی الزام لگاتا ہے۔ ہم اس پر غوروخوض کر سکتے ہیں کہ ہم اس تمثیل کو ایک بائبل طالبعلم کے حالات کے مطابق کیسے ڈھال سکتے ہیں جوکہ خود باپ یا ماں ہے۔
صحائف کو مہارت کے ساتھ پڑھنا
۱۸. ہمیں روانی سے پڑھنے والا بننے کیلئے کیوں کوشش کرنی چاہئے؟
۱۸ پولس نے تیمتھیس کو تاکید کی: ”جب تک میں نہ آؤں پڑھنے اور نصیحت کرنے اور تعلیم دینے کی طرف متوجہ رہ۔“ (۱-تیمتھیس ۴:۱۳) بائبل چونکہ ہماری تعلیم کی بنیاد ہے اسلئے اسے روانی سے پڑھنے کے قابل ہونا مفید ہے۔ لاویوں کے پاس خدا کے لوگوں کے سامنے موسوی شریعت کو پڑھنے کا شرف تھا۔ کیا وہ ایسی پڑھائی سے ہچکچاتے تھے یا پژمردہ آواز میں پڑھتے تھے؟ ایسا نہیں تھا کیونکہ بائبل نحمیاہ ۸:۸ میں کہتی ہے: ”اُنہوں نے اُس کتاب یعنی خدا کی شریعت میں سے صاف آواز سے پڑھا۔ پھر اُسکے معنی بتائے اور اُن کو عبارت سمجھا دی۔“
۱۹. ہم صحائف کی اپنی پڑھائی کو کیسے بہتر بنا سکتے ہیں؟
۱۹ بعض مسیحی اشخاص جو اچھے مقرر ہیں پڑھائی کے معاملے میں کمزور ہیں۔ وہ کیسے بہتری پیدا کر سکتے ہیں؟ وہ مشق کرنے سے ایسا کر سکتے ہیں۔ جیہاں، آواز کیساتھ بار بار پڑھنے سے جبتک وہ روانی سے ایسا کرنے کے قابل نہیں ہو جاتے۔ اگر آپکی زبان میں بائبل کی آڈیو کیسٹس دستیاب ہیں تو اُن میں قاری کے ناموں اور غیرمعمولی الفاظ پر آواز کے اتارچڑھاؤ اور زور دینے پر غور کرنا دانشمندانہ بات ہوگی۔ جنکی زبان میں نیو ورلڈ ٹرانسلیشن موجود ہے وہ اُسکے تلفظ کیلئے امداد سے بھی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔a مشق کیساتھ مہیرشالالحاشبز جیسے نام بھی قدرے آسانی سے پڑھے جا سکتے ہیں۔—یسعیاہ ۸:۱۔
۲۰. ہم ’اپنی تعلیم کی خبرداری‘ کیسے کر سکتے ہیں؟
۲۰ یہوواہ کے لوگوں کے طور پر ہمیں کیا ہی شاندار شرف حاصل ہے کہ ہم سے اُستاد کی حیثیت سے کام لیا جاتا ہے! پس ہم سب کو اس ذمہداری کو سنجیدہ خیال کرنا چاہئے۔ دُعا ہے کہ ہم سب ’اپنی اور اپنی تعلیم کی خبرداری‘ کریں۔ (۱-تیمتھیس ۴:۱۶) ہم اچھا سننے والے بننے، معاملات کو سادہ رکھنے، بصیرت سے پُر سوالات پوچھنے، مؤثر تمثیلیں استعمال کرنے اور صحائف کو مہارت سے پڑھنے سے اچھے اُستاد بن سکتے ہیں۔ دُعا ہے کہ ہم سب یہوواہ کی طرف سے اُس کی تنظیم کے ذریعے فراہمکردہ تربیت سے مستفید ہوں کیونکہ یہ ہمیں ”شاگرد کی زبان“ حاصل کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ (یسعیاہ ۵۰:۴) بروشرز، آڈیوکیسٹس اور ویڈیوکیسٹس سمیت اپنی خدمتگزاری کیلئے فراہم کئے گئے تمام آلات کا پورا فائدہ اُٹھانے سے ہم بصیرت اور قائل کرنے والے طریقے سے تعلیم دینا سیکھ سکتے ہیں۔
[فٹنوٹ]
a خاص ناموں کو تہجی رکنوں میں تقسیم کِیا گیا ہے، ہر تہجی رکن کو نقطے یا تاکیدی نشان سے علیٰحدہ کِیا گیا ہے۔ تاکیدی نشان سے علیٰحدہ کئے جانے والے رُکن پر زور دیا جاتا ہے۔ اگر تہجی رُکن حرفِعطف پر ختم ہوتا ہے تو حرفِعطف کو لمبا کر کے پڑھا جاتا ہے۔ اگر تہجی رُکن حرفِصحیح پر ختم ہوتا ہے تو حرفِعطف چھوٹا کر کے پڑھا جاتا ہے۔
کیا آپکو یاد ہے؟
◻ایک اچھا سننے والا ہونے سے تعلیم دینے میں ہماری کیسے مدد ہو سکتی ہے؟
◻سادگی سے تعلیم دینے میں ہم پولس اور یسوع کے نمونے کی نقل کیسے کر سکتے ہیں؟
◻دوسروں کو تعلیم دیتے وقت ہم کس قسم کے سوالات استعمال کر سکتے ہیں؟
◻کس قسم کی تمثیلیں زیادہ مؤثر ہیں؟
◻عوامی پڑھائی کرنے کیلئے ہم اپنی مہارت کو کیسے بہتر بنا سکتے ہیں؟
[صفحہ 16 پر تصویر]
ایک اچھا اُستاد بصیرت حاصل کرنے کیلئے سنتا ہے
[صفحہ 18 پر تصویریں]
یسوع کی تمثیلیں زورمرّہ زندگی پر مبنی تھیں