عظیم اُستاد کی نقل کریں
”پس تم جاکر سب قوموں کو شاگرد بناؤ . . . اور اُنکو یہ تعلیم دو کہ اُن سب باتوں پر عمل کریں جنکا مَیں نے تم کو حکم دیا۔“—متی ۲۸:۱۹، ۲۰۔
۱، ۲. (ا) ایک لحاظ سے ہم سب اُستاد کیسے ہیں؟ (ب) تعلیم دینے کے سلسلے میں، سچے مسیحیوں کی اہم ذمہداری کیا ہے؟
کیا آپ ایک اُستاد ہیں؟ ایک طرح سے تو ہم سبھی اُستاد ہیں۔ جب بھی آپ کسی بھٹکے ہوئے کو راستہ بتاتے ہیں، کسی ساتھی کارندے کو کوئی خاص کام کرنا بتاتے ہیں یا کسی بچے کو اپنے جوتے بند کرنا بتاتے ہیں تو آپ دراصل سکھا رہے ہوتے ہیں۔ دوسروں کی اس طرح مدد کرنا کسی حد تک تسکین بخشتا ہے، کیا آپ اس سے متفق ہیں؟
۲ تعلیم دینے کے معاملے میں سچے مسیحیوں کو نہایت اہم ذمہداری سونپی گئی ہے۔ ہمیں ”سب قوموں کو شاگرد [بنانے] . . . اور اُنکو تعلیم [دینے]“ کا حکم دیا گیا ہے۔ (متی ۲۸:۱۹، ۲۰) ہمیں کلیسیا میں بھی سکھانے کا موقع ملتا ہے۔ لائق اشخاص کو کلیسیا کی ترقی کیلئے ’چرواہوں اور اُستادوں‘ کے طور پر مقرر کِیا گیا ہے۔ (افسیوں ۴:۱۱-۱۳) اپنی روزمرّہ کی مسیحی کارگزاریوں میں، پُختہ خواتین کو نوجوان عورتوں کو ”اچھی باتیں سکھانے والی“ ہونا چاہئے۔ (ططس ۲:۳-۵) ہم سب کو ہمایمانوں کی حوصلہافزائی کرنے کی تاکید کی گئی ہے اور دوسروں کی ترقی کیلئے بائبل استعمال کرنے سے ہم اس نصیحت پر عمل کر سکتے ہیں۔ (۱-تھسلنیکیوں ۵:۱۱) خدا کا کلام سکھانے والے ہونا اور دائمی فوائد کی حامل روحانی اقدار فراہم کرنا واقعی بہت بڑا شرف ہے!
۳. ہم اُستادوں کے طور پر اپنی اثرآفرینی کو کیسے بہتر بنا سکتے ہیں؟
۳ تاہم، اُستادوں کے طور پر ہم اپنی اثرآفرینی کو کیسے بڑھا سکتے ہیں؟ بنیادی طور پر ہم عظیم اُستاد، یسوع کی نقل کرنے سے ایسا کر سکتے ہیں۔ بعض شاید سوچیں کہ ’ہم یسوع کی نقل کیسے کر سکتے ہیں؟‘ ’وہ تو کامل تھا۔‘ یہ سچ ہے کہ ہم کامل اُستاد نہیں بن سکتے۔ لیکن، اپنی صلاحیتوں سے قطعنظر، ہم یسوع کے طرزِتعلیم کی بہتر طور پر نقل کر سکتے ہیں۔ آئیے دیکھیں کہ ہم اُسکے چار طریقوں—سادگی، مؤثر سوال، منطقی استدلال اور موزوں تمثیلیں—کو کیسے استعمال کر سکتے ہیں۔
سادہ تعلیم
۴، ۵. (ا) سادگی بائبل سچائی کا خاصا کیوں ہے؟ (ب) سادگی سے تعلیم دینے کیلئے اپنے ذخیرۂالفاظ کو پرکھنا کیوں اہم ہے؟
۴ خدا کے کلام کی بنیادی سچائیاں پیچیدہ نہیں ہیں۔ یسوع نے دُعا میں کہا: ”اَے باپ . . . مَیں تیری حمد کرتا ہوں کہ تُو نے یہ باتیں داناؤں اور عقلمندوں سے چھپائیں اور بچوں پر ظاہر کیں۔“ (متی ۱۱:۲۵) یہوواہ نے مخلص اور منکسرالمزاج لوگوں پر اپنے مقاصد کو آشکارا کِیا ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۱:۲۶-۲۸) پس، سادگی بائبل سچائی کا خاصا ہے۔
۵ جب آپ کوئی بائبل مطالعہ یا دلچسپی رکھنے والوں کے ساتھ دوبارہ ملاقات کرتے ہیں تو آپ سادگی کیساتھ تعلیم کیسے دے سکتے ہیں؟ ہم نے عظیم اُستاد سے کیا سیکھا ہے؟ اپنے سامعین کے دل تک پہنچنے کیلئے، جن میں سے بیشتر ”اَنپڑھ اور ناواقف“ تھے، یسوع نے سادہ زبان استعمال کی جسے وہ سمجھ سکتے تھے۔ (اعمال ۴:۱۳) پس، سادگی سے سکھانے کیلئے سب سے پہلا تقاضا اپنے ذخیرۂالفاظ کو پرکھنا ہے۔ دوسروں کو خدا کے کلام کی سچائی قبول کرنے پر قائل کرنے کیلئے ہمیں بڑےبڑے الفاظ یا جملے استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ خاص طور پر کم تعلیمیافتہ لوگ ”اعلیٰ درجہ کی تقریر“ سے گھبرا سکتے ہیں۔ (۱-کرنتھیوں ۲:۱، ۲) یسوع کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ جچےتُلے سادہ الفاظ بڑی اثرآفرینی سے سچائی بیان کر سکتے ہیں۔
۶. ہم کسی طالبعلم پر معلومات کی بھرمار کرنے سے کیسے گریز کر سکتے ہیں؟
۶ سادگی سے تعلیم دینے کے لئے ہمیں بائبل طالبعلم پر معلومات کی بھرمار کرنے سے بھی گریز کرنا چاہئے۔ یسوع اپنے شاگردوں کی حدود سے واقف تھا۔ (یوحنا ۱۶:۱۲) ہمیں بھی طالبعلم کی صلاحیت پر دھیان دینا چاہئے۔ مثال کے طور پر، علم جو ہمیشہ کی زندگی کا باعث ہے کتاب سے مطالعہ کراتے وقت ہمیں ہر ایک بات کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔a مواد کی مخصوص مقدار کا احاطہ کرنے کی غرض سے معلومات کو جلدیجلدی پیش کرنا بھی ضروری نہیں ہے۔ اسکے برعکس، طالبعلم کی ضروریات اور لیاقتوں کے مطابق مطالعے کی رفتار کا تعیّن کرنا دانشمندی ہوگا۔ ہمارا مقصد مسیح کا شاگرد اور یہوواہ کا پرستار بننے میں طالبعلم کی مدد کرنا ہے۔ ہمیں طالبعلم کو سیکھی ہوئی باتوں کو اچھی طرح سمجھنے میں مدد دینے کے لئے اُسے درکار وقت دینا چاہئے۔ پس، سچائی اُسکے دل کو چُھو کر اُسے عمل کرنے کی تحریک دے سکتی ہے۔—رومیوں ۱۲:۲۔
۷. کونسی تجاویز کلیسیا میں تقاریر پیش کرتے وقت سادگی سے تعلیم دینے میں ہماری مدد کر سکتی ہیں؟
۷ جب ہم کلیسیا میں تقاریر پیش کرتے ہیں تو بالخصوص نئے لوگوں کے اجلاس پر حاضر ہونے کی صورت میں ہم ”واضح“ بات کیسے کر سکتے ہیں؟ (۱-کرنتھیوں ۱۴:۹) تین تجاویز پر غور کریں جو مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ اوّل، اگر آپ کوئی غیرمعروف اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو اُسکی وضاحت کریں۔ خدا کے کلام کو سمجھنے کی وجہ سے ہمارا ذخیرۂالفاظ بہت وسیع ہو گیا ہے۔ اگر ایسی اصطلاحیں استعمال کرتے ہیں جیسےکہ ”دیانتدار اور عقلمند نوکر،“ ”دوسری بھیڑیں“ اور ”بڑا بابل“ تو ہمیں سادہ جملوں کیساتھ معنی واضح کرنے چاہئیں۔ دوم، بڑے بول بولنے سے گریز کریں۔ بڑی پیچیدگی سے زیادہ الفاظ استعمال کرنا سامعین کی دلچسپی کو ختم کر سکتا ہے۔ غیرضروری الفاظ اور جملوں کو خارج کر دینے سے فصاحت پیدا ہوتی ہے۔ سوم، بہت زیادہ مواد پیش کرنے کی کوشش نہ کریں۔ ہماری تحقیق سے بہت سی دلچسپ تفصیلات سامنے آ سکتی ہیں۔ لیکن چند اہم نکات پر ہی مواد کو مبنی رکھنا اچھا ہوگا یعنی ایسی معلومات استعمال کرنا چاہئے جو ان نکات کی حمایت کرتی ہیں اور مقررہ وقت میں پیش کی جا سکتی ہیں۔
سوالات کا مؤثر استعمال
۸، ۹. ہم صاحبِخانہ کی دلچسپیوں کے مطابق کوئی سوال کیسے منتخب کر سکتے ہیں؟ مثالیں دیں۔
۸ یاد کریں کہ یسوع اپنے شاگردوں سے دل کی بات کہلوانے اور اُن کی سوچ کو اُبھارنے اور اُن کی تربیت کرنے کے لئے سوال استعمال کرنے میں بڑی مہارت رکھتا تھا۔ اپنے سوالوں سے، یسوع نے نرمی کے ساتھ اُن کے دل تک پہنچنے اور اُس پر اثر کرنے کی کوشش کی۔ (متی ۱۶:۱۳، ۱۵؛ یوحنا ۱۱:۲۶) یسوع کی طرح ہم بھی سوالات کا مؤثر استعمال کیسے کر سکتے ہیں؟
۹ گھرباگھر کی منادی کرتے وقت، ہم دلچسپی اُبھارنے کیلئے سوال استعمال کر سکتے ہیں جس سے ہمارے لئے خدا کی بادشاہت کی بابت گفتگو کرنے کی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔ ہم صاحبِخانہ کی دلچسپی کے مطابق سوال کا انتخاب کیسے کر سکتے ہیں؟ مشاہدہ کرنے والے بنیں۔ جب آپ کسی گھر کے قریب پہنچتے ہیں تو اُسکے گردونواح پر غور کریں۔ کیا صحن میں کچھ کھلونے نظر آتے ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس گھر میں بچے ضرور ہونگے؟ اگر ایسا ہے تو ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ’کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ جب آپ کے بچے جوان ہونگے تو اُس وقت دُنیا کیسی ہوگی؟‘ (زبور ۳۷:۱۰، ۱۱) کیا دروازے پر بہت سارے تالے لگے ہیں یا کوئی اَور حفاظتی نظام ہے؟ ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ’آپکے خیال میں کیا کبھی ایسا وقت آئیگا جب میرے اور آپ جیسے لوگ اپنے گھر اور باہر محفوظ محسوس کرینگے؟‘ (میکاہ ۴:۳، ۴) کیا کوئی ویلچیئر پڑی ہوئی دکھائی دیتی ہے؟ ہم پوچھ سکتے ہیں، ’کیا کبھی ایسا وقت آئیگا جب سب لوگ تندرستی سے محظوظ ہونگے؟‘ (یسعیاہ ۳۳:۲۴) بائبل مباحثے شروع کرنے اور جاری رکھنے کا طریقہ کتابچے سے بہتیری تجاویز حاصل کی جا سکتی ہیں۔b
۱۰. ہم طالبعلم کے دلی خیالات اور احساسات کو ’نکالنے‘ کیلئے سوال کیسے استعمال کر سکتے ہیں لیکن ہمیں کیا یاد رکھنا چاہئے؟
۱۰ بائبل مطالعے کراتے وقت ہم سوالوں کا اچھا استعمال کیسے کر سکتے ہیں؟ یسوع تو دل پڑھ سکتا تھا لیکن ہم ایسا نہیں کر سکتے۔ تاہم، موقعشناسی اور فہم سے پوچھے گئے سوال طالبعلم کے دلی خیالات اور احساسات کو ’نکالنے‘ میں ہماری مدد کر سکتے ہیں۔ (امثال ۲۰:۵) مثال کے طور پر، فرض کریں کہ ہم علم کی کتاب سے ”جس وجہ سے خداپرستانہ زندگی بسر کرنا خوشی لاتا ہے“ کے باب کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ یہ بددیانتی، حرامکاری اور دیگر معاملات کے سلسلے میں خدائی نقطۂنظر کو اُجاگر کرتا ہے۔ طالبعلم مطبوعہ سوالوں کا درست جواب تو ضرور دے سکتا ہے لیکن کیا وہ سیکھی ہوئی باتوں سے متفق بھی ہے؟ ہم پوچھ سکتے ہیں: ’کیا ایسے معاملات کی بابت یہوواہ کا نظریہ آپ کو معقول دکھائی دیتا ہے؟‘ ’آپ ان بائبل اصولوں کا اپنی زندگی میں اطلاق کیسے کر سکتے ہیں؟‘ تاہم، طالبعلم کے وقار کا لحاظ رکھتے ہوئے احترام سے بات کرنے کی ضرورت کو نظرانداز نہ کریں۔ ہم بائبل طالبعلم کو شرمندہ کرنے والے سوال نہیں پوچھیں گے۔—امثال ۱۲:۱۸۔
۱۱. عوامی مقرر کن طریقوں سے سوالات کا مؤثر استعمال کر سکتے ہیں؟
۱۱ عوامی مقرر بھی سوالوں کا مؤثر استعمال کر سکتے ہیں۔ ایسے سوال جنکا سامعین سے جواب مقصود نہیں ہوتا، سوچنے اور ذہنی استدلال میں سامعین کی مدد کر سکتے ہیں۔ یسوع نے اکثر ایسے سوال استعمال کئے تھے۔ (متی ۱۱:۷-۹) علاوہازیں، تمہید کے بعد مقرر آئندہ زیرِگفتگو آنے والے بنیادی نکات کو واضح کرنے کے لئے سوال استعمال کر سکتا ہے۔ وہ کچھ یوں کہہ سکتا ہے، ”ہم آج اپنی گفتگو میں ان سوالوں کے جواب پر غور کرینگے . . .۔“ پھر آخر میں، وہ بنیادی نکات کے اعادے کیلئے اُنہی سوالات کا حوالہ دے سکتا ہے۔
۱۲. مثال سے واضح کریں کہ مسیحی بزرگ کسی ہمایمان کی خدا کے کلام سے تسلی حاصل کرنے میں مدد کیلئے سوال کیسے استعمال کر سکتے ہیں۔
۱۲ گلّہبانی کے کام میں مسیحی بزرگ کسی ’شکستہدل‘ کو یہوواہ کے کلام سے دلاسا دینے کے لئے سوالوں سے مدد لے سکتے ہیں۔ (۱-تھسلنیکیوں ۵:۱۴) مثال کے طور پر، کسی افسردہ شخص کی مدد کرنے کیلئے بزرگ زبور ۳۴:۱۸ پر براہِراست توجہ دلا سکتا ہے۔ یہ بیان کرتی ہے: ”خداوند شکستہدلوں کے نزدیک ہے اور خستہجانوں کو بچاتا ہے۔“ اس بات کا یقین کرنے کیلئے کہ حوصلہشکن شخص یہ سمجھ لے کہ اسکا اُسکی ذات پر کیسے اطلاق ہوتا ہے، بزرگ پوچھ سکتا ہے: ’یہوواہ کن کے نزدیک ہے؟‘ کیا آپ بھی کبھیکبھار ’شکستہدل‘ اور ’خستہجان‘ محسوس کرتے ہیں؟ بائبل کے مطابق اگر یہوواہ ایسے لوگوں کے نزدیک ہے تو کیا اسکا مطلب یہ نہیں کہ وہ آپکے نزدیک بھی ہے؟‘ ایسی مشفقانہ تسلی شکستہدل شخص کو حوصلہ دے سکتی ہے۔—یسعیاہ ۵۷:۱۵۔
منطقی استدلال
۱۳، ۱۴. (ا) ہم کسی ایسے شخص کے ساتھ استدلال کیسے کر سکتے ہیں جو یہ کہتا ہے کہ وہ ایسے خدا کو نہیں مانتا جسے وہ دیکھ نہیں سکتا؟ (ب) ہمیں یہ توقع کیوں نہیں کرنی چاہئے کہ سبھی قائل ہو جائینگے؟
۱۳ اپنی خدمتگزاری میں، ہم ٹھوس اور قائل کرنے والے استدلال سے دلوں تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ (اعمال ۱۹:۸؛ ۲۸:۲۳، ۲۴) کیا اسکا مطلب یہ ہے کہ ہمیں دوسروں کو خدا کے کلام کی سچائی سے قائل کرنے کیلئے پیچیدہ منطق استعمال کرنا چاہئے؟ ہرگز نہیں۔ ٹھوس استدلال کا مشکل ہونا ضروری نہیں ہے۔ سادہ انداز میں پیش کئے گئے منطقی دلائل اکثر زیادہ مؤثر ثابت ہوتے ہیں۔ ایک مثال پر غور کریں۔
۱۴ ہم ایسے شخص کو جواب کیسے دے سکتے ہیں جو یہ کہتا ہے کہ وہ ایسے خدا پر ایمان نہیں رکھتا جسے وہ دیکھ نہیں سکتا؟ ہم علتومعلول کے قدرتی قانون پر استدلال کر سکتے ہیں۔ جب ہم معلول کو دیکھتے ہیں تو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ کوئی علت بھی ضرور ہوگی۔ ہم کہہ سکتے ہیں: ’اگر کسی ویران علاقے میں آپ اشیائےخوردونوش سے بھرا ہوا کوئی خوبصورت گھر (معلول) دیکھتے ہیں تو آپ فوراً یہ تسلیم کرینگے کہ ضرور کسی (علت) نے اس گھر کو بناکر اسکی الماریوں میں ایسی چیزیں رکھی ہونگی۔ اسی طرح جب ہم کائنات کی عمدہ نمونہسازی اور زمین کے ”ذخیرہخانوں“ کو اناج (معلول) سے بھرا ہوا دیکھتے ہیں تو کیا ہمیں کسی ہستی (علت) کو اسکا ذمہدار قبول نہیں کرنا چاہئے؟ بائبل کی سادہ سی دلیل اس حقیقت کو یوں بیان کرتی ہے: ”ہر ایک گھر کا کوئی نہ کوئی بنانے والا ہوتا ہے مگر جس نے سب چیزیں بنائیں وہ خدا ہے۔“ (عبرانیوں ۳:۴) تاہم، ہمارا استدلال خواہ کتنا ہی ٹھوس کیوں نہ ہو، ہر کوئی اس سے قائل نہیں ہوگا۔ بائبل ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ’درست میلان‘ رکھنے والے ہی ایمان لائینگے۔—اعمال ۱۳:۴۸؛ ۲-تھسلنیکیوں ۳:۲۔
۱۵. ہم یہوواہ کی صفات اور طریقوں کو اُجاگر کرنے کیلئے کونسا استدلال استعمال کر سکتے ہیں اور کونسی دو مثالیں ایسے استدلال کے طریقۂاستعمال پر روشنی ڈالتی ہیں؟
۱۵ میدانی خدمت ہو یا کلیسیا، اپنی تعلیم میں ہم یہوواہ کی صفات اور طریقوں کو نمایاں کرنے کیلئے منطقی استدلال استعمال کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ’کہیں زیادہ‘ یا ’کیوں نہ‘ کا اظہار اہم ہے جسے یسوع نے اکثروبیشتر استعمال کِیا تھا۔ (لوقا ۱۱:۱۳؛ ۱۲:۲۴) موازنے پر مبنی اسطرح کا استدلال گہرا تاثر چھوڑتا ہے۔ آتشِدوزخ کے عقیدے کی نامعقولیت کو ظاہر کرنے کیلئے ہم کہہ سکتے ہیں: ’کوئی بھی شفیق باپ اپنے بچے کا ہاتھ آگ میں جلا کر اُسے سزا نہیں دیگا۔ توپھر ہمارے شفیق آسمانی باپ کے نزدیک آتشِدوزخ کا نظریہ تو کہیں زیادہ ناگوار ہوگا!‘ (یرمیاہ ۷:۳۱) یہ سکھانے کیلئے کہ یہوواہ انفرادی طور پر اپنے خادموں کا خیال رکھتا ہے، ہم کہہ سکتے ہیں: ’اگر یہوواہ کروڑوں ستاروں کو نامبنام جانتا ہے تو وہ انسانوں سے کتنی محبت رکھتا ہوگا جنہیں اُس نے اپنے بیٹے کے بیشقیمت خون سے مول لیا ہے!‘ (یسعیاہ ۴۰:۲۶؛ اعمال ۲۰:۲۸) ایسا اثرآفرین استدلال دوسروں کے دلوں تک پہنچنے میں ہماری مدد کر سکتا ہے۔
موزوں تمثیلیں
۱۶. تعلیم میں تمثیلیں کیوں ضروری ہیں؟
۱۶ مؤثر تمثیلیں ایسے مسالاجات ہیں جو دوسروں کیلئے ہماری تعلیم کو ذائقہدار بناتے ہیں۔ تعلیم میں تمثیلیں ضروری کیوں ہیں؟ ایک مُعلم بیان کرتا ہے: ”ذہنی تصاویر کے بغیر سوچنا انسان کیلئے بہت مشکل ہے۔“ تمثیلیں ذہن پر معنیخیز نقش بناتی ہیں جو نئے خیالات کو سمجھنے میں مدد کرتے ہیں۔ یسوع تمثیلیں استعمال کرنے میں بڑا ماہر تھا۔ (مرقس ۴:۳۳، ۳۴) آئیے دیکھیں کہ ہم تعلیم دینے کے اِس طریقے کو کیسے استعمال کر سکتے ہیں۔
۱۷. کونسے چار عناصر تمثیل کو مؤثر بناتے ہیں؟
۱۷ کونسی چیز تمثیل کو مؤثر بناتی ہے؟ اوّل، یہ ہمارے سامعین کے مطابق ہونی چاہئے یعنی ایسے حالات سے متعلق ہونی چاہئے جن سے ہمارے سامعین واقف ہوں۔ ہمیں یاد ہے کہ یسوع نے سامعین کی روزمرّہ زندگی سے متعلق بہت سی تمثیلیں منتخب کی تھیں۔ دوم، تمثیل کو نکتے کے مطابق بھی ہونا چاہئے۔ اگر موزوں موازنہ نہ کِیا جائے تو تمثیل سامعین کو انتشارِخیال میں ڈال سکتی ہے۔ سوم، تمثیل میں غیرضروری معلومات نہیں ہونی چاہئیں۔ یاد کریں کہ یسوع صرف ضروری باتیں ہی بیان کرتا تھا اور غیرضروری باتوں کو چھوڑ دیتا تھا۔ چہارم، جب ہم کوئی تمثیل استعمال کرتے ہیں تو اسکا اطلاق بالکل واضح ہونا چاہئے۔ بصورتِدیگر، بعض اُسکا مقصد نہیں سمجھ پائینگے۔
۱۸. ہم موزوں تمثیلیں کیسے سوچ سکتے ہیں؟
۱۸ ہم موزوں تمثیلیں کیسے سوچ سکتے ہیں؟ ہمیں طویل اور مشکل کہانیاں گھڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مختصر تمثیلیں نہایت مؤثر ثابت ہو سکتی ہیں۔ زیرِبحث نکتے کی بابت مثالیں سوچنے کی کوشش کریں۔ مثال کے طور پر، ہم خدائی معافی کے موضوع پر گفتگو کر رہے ہیں اور اعمال ۳:۱۹ میں بیانکردہ نکتے کو واضح کرنا چاہتے ہیں جہاں یہ درج ہے کہ یہوواہ ہماری خطائیں ’مٹا‘ دیتا ہے۔ یہ تو خود ہی ایک اچھی مثال ہے لیکن ہم اس نکتے کو واضح کرنے کے لئے اَور کونسی حقیقی مثال استعمال کر سکتے ہیں—ربر؟ سپنج؟ ہم کہہ سکتے ہیں: ’جب یہوواہ ہمارے گناہ معاف کرتا ہے تو وہ گویا سپنج (یا ربر) کے ساتھ انہیں مٹا ڈالتا ہے۔‘ ایسی سادہ تمثیل سے بات ضرور سمجھ میں آئیگی۔
۱۹، ۲۰. (ا) ہم اچھی تمثیلیں کہاں سے حاصل کر سکتے ہیں؟ (ب) ہماری مطبوعات میں شائع ہونے والی مؤثر تمثیلوں کی بعض مثالیں کونسی ہیں؟ (بکس دیکھیں۔)
۱۹ حقیقی مثالوں سمیت، آپ موزوں تمثیلیں کہاں سے حاصل کر سکتے ہیں؟ اپنی زندگی یا ہمایمانوں کے مختلف پسمنظر اور تجربات سے ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔ جاندار اور بےجان چیزوں، گھریلو چیزوں یا عامفہم حالیہ واقعات کے علاوہ دیگر کئی ذرائع سے تمثیلیں منتخب کی جا سکتی ہیں۔ اچھی تمثیلیں تلاش کرنے کی کُنجی اپنے اردگرد کے روزمرّہ واقعات کے سلسلے میں چوکس رہنا، اُن پر ”غور“ کرنا ہے۔ (اعمال ۱۷:۲۲، ۲۳) خطابت کے سلسلے میں ایک کتاب بیان کرتی ہے: ”انسانی زندگی اور اس کے مختلف شعبہجات کا مشاہدہ کرنے والا، ہر طرح کے لوگوں سے بات کرنے والا، چیزوں کا بغور جائزہ لینے والا اور پوری سمجھ حاصل کر لینے تک استفسار کرنے والا مقرر بوقتِضرورت مفید ثابت ہونے والی بہت سی تمثیلیں اکٹھی کر لیتا ہے۔“
۲۰ مؤثر تمثیلیں حاصل کرنے کے دیگر ذرائع مینارِنگہبانی، جاگو! اور یہوواہ کے گواہوں کی شائعکردہ دیگر مطبوعات بھی ہیں۔ ان مطبوعات میں استعمالشُدہ تمثیلوں سے آپ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔c مثال کے طور پر، علم کی کتاب کے باب ۱۷ کے پیراگراف ۱۱ میں استعمال ہونے والی تمثیل پر غور کریں۔ اس میں کلیسیا میں پائے جانے والےشخصیتی تنوع کا موازنہ سڑک پر آپکے ساتھ چلنے والی مختلف گاڑیوں سے کِیا گیا ہے۔ کونسی چیز اسے مؤثر بناتی ہیں؟ غور کیجئے کہ روزمرّہ حالات پر مبنی ہے اور نکتے کے مطابق ہے اور اسکا اطلاق بھی بالکل واضح ہے۔ ہم اپنی تعلیم میں شائعشُدہ تمثیلیں بھی استعمال کر سکتے ہیں اور اُنہیں بائبل طالبعلم کی ضروریات یا تقریر کے مطابق ڈھال سکتے ہیں۔
۲۱. خدا کے کلام کا مؤثر اُستاد ثابت ہونے سے کونسے اَجر حاصل ہوتے ہیں؟
۲۱ مؤثر اُستاد ہونا نہایت بااَجر ہے۔ جب ہم تعلیم دیتے ہیں تو ہم دوسروں کو اپنی چیزوں میں شامل کرکے اُنکی مدد کرتے ہیں۔ اس طرح سے دینا خوشی بخشتا ہے کیونکہ بائبل کہتی ہے: ”دینا لینے سے مبارک ہے۔“ (اعمال ۲۰:۳۵) خدا کا کلام سکھانے والے اس بات سے خوش ہوتے ہیں کہ دوسروں کو حقیقی اور دائمی فائدہ کی حامل چیز—یہوواہ کی بابت سچائی—دیتے ہیں۔ ہمیں بھی اس بات سے اطمینان حاصل ہو سکتا ہے کہ ہم عظیم اُستاد، یسوع مسیح کی نقل کر رہے ہیں۔
[فٹنوٹ]
a یہوواہ کے گواہوں کی شائعکردہ۔
b صفحہ ۲-۷ پر ”تعارفات برائے میدانی خدمتگزاری“ کے حصے پر غور کریں۔—یہوواہ کے گواہوں کا شائعکردہ۔
c مثالیں ڈھونڈنے کیلئے، ”تمثیلیں“ کے تحت واچ ٹاور پبلیکیشنز انڈیکس ۱۹۸۶-۲۰۰۰ دیکھیں۔—کئی زبانوں میں یہوواہ کے گواہوں کا شائعکردہ۔
کیا آپکو یاد ہے؟
• ہم بائبل مطالعہ کراتے اور کلیسیا میں تقریر پیش کرتے وقت سادگی سے تعلیم کیسے دے سکتے ہیں؟
• ہم گھرباگھر کی منادی میں سوالات کا مؤثر استعمال کیسے کر سکتے ہیں؟
• ہم یہوواہ کی صفات اور طریقوں کو اُجاگر کرنے کیلئے منطقی استدلال کیسے کر سکتے ہیں؟
• ہم موزوں تمثیلیں کہاں سے حاصل کر سکتے ہیں؟
[صفحہ ۲۳ پر بکس/تصویر]
کیا آپکو یہ تمثیلیں یاد ہیں؟
مندرجہذیل چند مؤثر تمثیلوں پر غور کریں۔ کیوں نہ دئے ہوئے حوالوں کو کھولکر دیکھیں کہ یہ تمثیل زیرِبحث نکتے کی وضاحت میں کیسے مفید ثابت ہوئی تھی؟
• ورزشی جھولے پر قلابازیاں لگانے والے قلابازوں یا سکیٹنگ کرنے والے جوڑے کی طرح اچھی شادی کیلئے بھی موزوں ساتھی کا ہونا ضروری ہے۔—مینارِنگہبانی، مئی ۱۵، ۲۰۰۱، صفحہ ۱۶۔
• اپنے احساسات کا اظہار کرنا گیند اُچھالنے کے مترادف ہے۔ آپ اسے آہستہ سے بھی اُچھال سکتے ہیں یا پھر اتنی زور سے اُچھال سکتے ہیں کہ پکڑنے والا شخص زخمی ہو جائے۔—جاگو!، جنوری ۸، ۲۰۰۱، صفحہ ۱۰۔
• اظہارِمحبت سیکھنا ایک نئی زبان سیکھنے کے مترادف ہے۔—مینارِنگہبانی، فروری ۱۵، ۱۹۹۹، صفحہ ۱۸، ۲۲، ۲۳۔
• موروثی گُناہ کو کمپیوٹر فائیلوں پر وائرس کے تباہکُن اثر سے تشبِیہ دی جا سکتی ہے۔—از دیئر اے کریئٹر ہو کیئرز اباؤٹ یو؟، صفحہ ۱۵۶۔
• جس طرح چارا شکاریوں کے کام آتا ہے ویسے ہی شیاطین ارواحپرستی کو استعمال کرتے ہیں: یہ شکار کو لبھاتی ہے۔—علم جو ہمیشہ کی زندگی کا باعث ہے، صفحہ ۱۱۱۔
• یسوع کا آدم کی اولاد کو بچانے کیلئے آنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی دولتمند کا آکر کسی کمپنی کا قرض (جو بددیانت مینیجر کی وجہ سے جمع ہو گیا تھا) ادا کرکے اُسے دوبارہ کھلوانا اور اُسکے مزدوروں کو فائدہ پہنچانا ہے۔—دی واچٹاور، فروری ۱۵، ۱۹۹۱، صفحہ ۱۳۔
• جس طرح فن کے شوقین کسی مخرب شاہکار کو ٹھیک کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں ویسے ہی یہوواہ ہماری ناکاملیتوں کو نگاہ میں رکھنے کی بجائے ہماری اچھائی کو دیکھتا ہے اور بالآخر ہمیں اُسی کامل حالت میں لائیگا جو آدم نے کھو دی تھی۔—دی واچٹاور، فروری ۱۵، ۱۹۹۰، صفحہ ۲۲۔
[صفحہ ۲۰ پر تصویریں]
سچے مسیحی خدا کا کلام سکھانے والے ہیں
[صفحہ ۲۱ پر تصویر]
بزرگ خدا کے کلام سے تسلی حاصل کرنے میں ہمایمانوں کی مدد کرنے کیلئے سوال استعمال کر سکتے ہیں