عالمگیر تباہی کا خوف کیوں؟
”عشروں سے، بنیادپرست مسیحی یہ پیشینگوئی کرتے آئے ہیں کہ جلد ہی معاشرہ کسی نہ کسی طرح سے شکستوریخت کا شکار ہو جائے گا،“ مذہب کے بارے میں لکھنے والا ڈیماین تھامسن ٹائم میگزین میں لکھتا ہے۔ ”وہ اس بات پر حیران ہیں کہ اس وقت نہ صرف اُن کے تحریری مواد پر سنجیدگی سے غور کِیا جا رہا ہے بلکہ جو کمپیوٹر پروگرامرز، ممتاز کاروباری اور سیاسی لوگ کبھی اُن کا تمسخر اُڑایا کرتے تھے اب وہی اِسے تقسیم کر رہے ہیں۔“ وہ دعوے سے کہتا ہے کہ سن ۲۰۰۰ میں عالمی پیمانے پر کمپیوٹر کی ناکامی کے خوف نے ”غیرمذہبی اشخاص کو بھی غیرمتوقع طور پر عہدِہزارسالہ کے معتقد بنا دیا ہے“ جو ”ہنگامہخیزی، حکومتی اختلال، خوراک کے حصول کے لئے دنگافساد، جہازوں کے فلکبوس عمارتوں سے ٹکرانے“ والی آفات کے ظہور سے خوفزدہ ہیں۔
اس عمومی فکروتردد میں اضافہ اُن مختلف چھوٹے مذہبی گروہوں کی پریشانکُن سرگرمیوں سے ہوتا ہے جنہیں اکثر ”عالمگیر تباہی کا پیشخیمہ“ کہا جاتا ہے۔ جنوری ۱۹۹۹ میں، فرنچ روزنامے لی فیگیرو نے ایک مضمون بعنوان ”یروشلیم اور عالمگیر تباہی کے سائرن“ میں بیان کِیا: ”اسرائیلی سیکیورٹی سروسز کا اندازہ ہے کہ کوہِزیتون پر یا اس کے قربوجوار میں ایک سو سے زیادہ ’معتقدینِعہدِہزارسالہ‘ پروضیا یا عالمگیر تباہی کے منتظر ہیں۔“
بریٹینیکا بُک آف دی ائیر ۱۹۹۸ ”کائنات کے خاتمے کی منادی کرنے والے مسلکوں“ کی بابت ایک خاص رپورٹ پیش کرتی ہے۔ یہ دیگر مسلکوں کے علاوہ خودکشی کرنے والے مسلکوں کا بھی ذکر کرتی ہے جن میں ہیونز گیٹ، دی پیپلز ٹیمپل، دی آرڈر آف دی سولر ٹیمپل، اوم شنریکو (سپریم ٹروتھ) شامل ہے جس نے ۱۹۹۵ میں ٹوکیو کی برقی ریل پر انتہائی مُہلک گیس سے حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا جس کے نتیجے میں ۱۲ افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہو گئے تھے۔ اس رپورٹ کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے، شکاگو یونیورسٹی کے مذہبی عالم مارٹن ای. مارٹی نے لکھا: ”کیلنڈر کے صفحے کو پلٹ کر سن ۲۰۰۰ پر لانا جوش پیدا کرتا ہے—اور یقینی طور پر یہ تمام طرح کی پیشینگوئیوں اور تحریکوں کو ترغیب دیگا۔ بعض خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔ یہ ایسا وقت ہوگا جسکا سامنا لاپرواہی سے نہیں کِیا جانا چاہئے۔“
عالمگیر تباہی کے خوف کی سرگزشت
اپوکالپس یا مکاشفہ بائبل کی آخری کتاب ہے جوکہ پہلی صدی س.ع. کے آخر پر لکھی گئی تھی۔ اس کتاب کے نبوّتی انداز اور انتہائی علامتی زبان کے پیشِنظر، صفت ”مکاشفاتی“ ایسے ادب کیلئے استعمال ہونے لگی جسکا آغاز بائبل میں موجود مکاشفہ کی کتاب سے برسوں پہلے ہو چکا تھا۔ اس ادب میں اساطیری علامتی زبان کا استعمال قدیم فارس یا اس سے بھی پہلے شروع ہوا۔ لہٰذا دی جیویش انسائیکلوپیڈیا بیان کرتا ہے کہ ”اس [یہودی مکاشفاتی] ادب میں موجود بیشتر اساطیری عناصر میں مخصوص بابلی اسلوب پایا جاتا ہے۔“
یہودی مکاشفاتی ادب کو دوسری صدی ق.س.ع. کے شروع سے لیکر دوسری صدی س.ع. کے آخر تک خوب فروغ حاصل ہوا۔ ان تحریروں کی وجہ بیان کرتے ہوئے، ایک بائبل عالم نے لکھا: ”یہودی ہر زمانے کو دو ادوار میں تقسیم کِیا کرتے تھے۔ ایک موجودہ دور ہوتا تھا جوکہ مکمل طور پر بُرا ہے۔ . . . لہٰذا، یہودی اس نظام کے خاتمے کے منتظر رہتے تھے۔ اس کے علاوہ ایک آنے والا دور ہوتا تھا جسے بالکل اچھا یعنی خدا کی طرف سے ایک ایسا سنہرا دور سمجھا جاتا تھا جس میں امن، اقبالمندی اور راستبازی ہوگی۔ . . . موجودہ دور نے آنے والے دور میں کیسے بدل جانا تھا؟ یہودی ایمان رکھتے تھے کہ انسانی تنظیمیں یہ تبدیلی کبھی نہیں لا سکتیں اس لئے وہ خدا کی طرف سے براہِراست مداخلت کے منتظر رہتے تھے۔ . . . خدا کے آنے کے دن کو خداوند کا دن کہا جاتا تھا اور اسے انتہائی خوف اور تباہی اور سزا کا ہولناک وقت خیال کِیا جاتا تھا جوکہ ایک نئے دور کے آغاز کی علامات ہونگی۔ تمام مکاشفاتی ادب ان ہی واقعات کو زیرِبحث لاتا ہے۔“
کیا عالمگیر تباہی کا ڈر واجب ہے؟
بائبل میں مکاشفہ کی کتاب ”قادرِمطلق خدا کے روزِعظیم کی لڑائی“ یا ہرمجدون کا ذکر کرتی ہے جس میں شریروں کو تباہوبرباد کر دیا جائے گا اور اس کے بعد ہزارسالہ دور ہوگا (جسے بعضاوقات عہدِہزارسالہ بھی کہا جاتا ہے) جس کے دوران شیطان کو اتھاہ گڑھے میں بند کر دیا جائے گا اور مسیح نسلِانسانی کا انصاف کرے گا۔ (مکاشفہ ۱۶:۱۴، ۱۶؛ ۲۰:۱-۴) قرونِوسطیٰ میں، بعض لوگوں نے ان پیشینگوئیوں سے غلط مطلب لیا کیونکہ کیتھولک ”سینٹ“ آگسٹین نے (۳۵۴-۴۳۰ س.ع.) بیان کِیا تھا کہ عہدِہزارسالہ مسیح کی پیدائش کے ساتھ شروع ہوا تھا اور اس کے بعد آخری عدالت ہوگی۔ بدیہی طور پر، آگسٹین نے وقتی دورانیے پر زیادہ توجہ نہیں دی تھی مگر جب سن ۱۰۰۰ قریب آیا تو اندیشے بڑھنے لگے۔ تاریخدانوں میں قرونِوسطیٰ کی اس عالمگیر تباہی کے خوف کی وسعت کی بابت اختلافِرائے پایا جاتا ہے۔ وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا یہ خوف یقینی طور پر غیرواجب ثابت ہوا۔
اسی طرح آجکل، مذہبی اور دُنیاوی سطح پر یہ اندیشے پائے جاتے ہیں کہ ۲۰۰۰ یا ۲۰۰۱ کا سال اپنے ساتھ ہولناک عالمگیر تباہی لائیگا۔ تاہم کیا یہ اندیشے واجب ہیں؟ نیز، کیا بائبل کی کتاب مکاشفہ یا اپوکالپس میں موجود پیغام سے ہمیں خوفزدہ ہونا چاہئے یا پھر اس کے برعکس اسکی تکمیل کا منتظر رہنا چاہئے؟ برائےمہربانی اگلے مضمون کو پڑھیں۔
[صفحہ 4 پر تصویر]
عالمگیر تباہی سے متعلق قرونِوسطیٰ کے اندیشے غیرواجب ثابت ہوئے
[تصویر کا حوالہ]
Cliché Bibliothèque Nationale de France, Paris ©
[صفحہ 3 پر تصویر کا حوالہ]
Maya/Sipa Press