عالمگیر تباہی سے خوفزدہ یا منتظر؟
”آجکل، اپوکالپس (عالمگیر تباہی) محض بائبلی تشریح نہیں بلکہ ایک حقیقی امکان بن گئی ہے۔“ —اقواممتحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل ہیوئیر پیریز ڈیکویار۔
دُنیا کی اس ممتاز شخصیت کا لفظ ”اپوکالپس“ (عالمگیر تباہی) کا استعمال ظاہر کرتا ہے کہ بیشتر لوگ فلموں، کتابوں کے عنوانات، رسالوں کے مضامین اور اخباری رپورٹوں میں اِسے دیکھ کر اکثر کیا سمجھتے ہیں۔ یہ کائنات کی تباہی کا تصور پیش کرتا ہے۔ تاہم لفظ ”اپوکالپس“ کا حقیقی مطلب کیا ہے؟ سب سے بڑھ کر بائبل میں اپوکالپس یا مکاشفہ نام کی کتاب کے اندر کونسا پیغام پایا جاتا ہے؟
لفظ ”اپوکالپس“ ایک یونانی لفظ سے مشتق ہے جسکا مطلب ”انکشاف کرنا“ یا ”بےنقاب کرنا“ ہے۔ بائبل میں مکاشفہ کی کتاب میں کس چیز کو بےنقاب یا آشکارا کِیا گیا ہے؟ کیا اس میں ایسی مکمل تباہی کا پیغام پایا جاتا ہے جس سے کسی کا بھی بچنا مشکل ہے؟ جب انسٹیٹیوٹ ڈی فرانس کے ایک رُکن، مؤرخ جین ڈیلیمو سے اپوکالپس کی بابت رائےزنی کیلئے کہا گیا تو اُس نے جواب دیا: ”یہ تسلی اور اُمید کی کتاب ہے۔ لوگوں نے اس کے تباہی کی نشاندہی کرنے والے بیانات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اس کے مشمولات کو ڈرامائی رنگ دے دیا ہے۔“
ابتدائی چرچ اور اپوکالپس
ابتدائی ”مسیحی“ اپوکالپس اور اس میں بیانکردہ زمین پر مسیح کی ہزارسالہ حکمرانی کو کیسا خیال کرتے تھے؟ اُسی مؤرخ نے بیان کِیا: ”مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ پہلی چند صدیوں کے مسیحی مجموعی طور پر عہدِہزارسالہ پر پُختہ یقین رکھتے تھے۔ . . . عہدِہزارسالہ پر ایمان رکھنے والے ابتدائی صدیوں کے مسیحیوں میں، ایشیائے کوچک میں ہیراپلس کا بشپ پاپائس، . . . سینٹ جسٹن جو فلسطین میں پیدا ہوا اور جسے تقریباً ۱۶۵ میں روم میں شہید کر دیا گیا، لیون کا بشپ سینٹ ارنیئس، جس نے ۲۰۲ میں وفات پائی، ٹرٹولین جس نے ۲۲۲ میں وفات پائی اور . . . عظیم مصنف لیکٹنشیاَس کافی مشہور تھے۔“
پاپائس کی بابت جسے ایک عام خیال کے مطابق پرگمن میں ۱۶۱ یا ۱۶۵ س.ع. میں شہید کر دیا گیا تھا، دی کیتھولک انسائیکلوپیڈیا بیان کرتا ہے: ”سینٹ یوحنا کا شاگرد، ہیراپلس کا بشپ پاپائس عہدِہزارسالہ کے زبردست حامی کے طور پر منظرِعام پر آیا۔ اُس کا دعویٰ تھا کہ اُس نے یہ عقیدہ رسولوں کے ہمعصروں سے حاصل کِیا تھا، نیز ارنیئس بیان کرتا ہے کہ شاگرد یوحنا کو دیکھنے اور اُس کی باتیں سننے والے دیگر ’پریسبٹیری‘ (روحانی پیشواؤں) نے اُسی سے یہ سیکھا تھا کہ عہدِہزارسالہ پر ایمان خداوند کے عقیدے کا ایک حصہ ہے۔ یوسیبیس کے مطابق، . . . پاپائس نے اپنی کتاب میں یہ دعویٰ کِیا کہ مُردوں کی قیامت کے بعد مسیح کی زمینی بادشاہت کا ہزارسالہ دیدنی، پُرجلال دَور شروع ہو جائے گا۔“
یہ بیان ہمیں ابتدائی مسیحیوں پر اپوکالپس یا مکاشفہ کی کتاب کے اثر کی بابت کیا بتاتا ہے؟ کیا اس نے خوف یا اُمید پیدا کی تھی؟ دلچسپی کی بات ہے کہ مؤرخ ابتدائی مسیحیوں کو کلیاسٹس کہتے ہیں جو کہ یونانی الفاظ خلیا ایتی (ہزار سال) سے مشتق ہے۔ علاوہازیں، اُن میں سے بیشتر کی بابت یہ مشہور تھا کہ وہ مسیح کی ہزارسالہ حکومت پر ایمان رکھتے ہیں جوکہ زمین پر فردوسی حالتیں لائیگی۔ بائبل میں صرف اپوکالپس یا مکاشفہ میں ہی عہدِہزارسالہ کی اُمید کا ذکر کِیا گیا ہے۔ (۲۰:۱-۷) پس، اپوکالپس نے ایمانداروں کے اندر خوف پیدا کرنے کی بجائے اُنہیں ایک شاندار اُمید بخشی تھی۔ اپنی کتاب دی ارلی چرچ اینڈ دی ورلڈ میں کلیسیائی تاریخ کے آکسفورڈ پروفیسر سیسل کادو لکھتے ہیں: ”اگرچہ کلیاسٹک نظریات کو انجامکار مسترد کر دیا گیا، تاہم یہ کافی عرصہ تک چرچ میں مقبول رہے اور چند نہایت قابلِاحترام مصنف اسکی تعلیم دیتے تھے۔“
اپوکالپس کی اُمید کو مسترد کیوں کر دیا گیا تھا
یہ ایک ناقابلِتردید تاریخی حقیقت ہے کہ اگر تمام ابتدائی مسیحی نہیں تو اُن میں سے بیشتر فردوسی زمین پر مسیح کے عہدِہزارسالہ کی اُمید رکھتے تھے، تو ایسے ”کلیاسٹک نظریات“ کو ”انجامکار مسترد“ کیوں کر دیا گیا تھا؟ کچھ جائز تنقید شروع ہو گئی کیونکہ عالم رابرٹ منس کی رائے کے مطابق ”بدقسمتی سے کئی کلیاسٹس نے بیجا توقعات رکھنی شروع کر دیں تھیں اور ہزارسالہ دَور میں مادہپرستانہ اور شہوانی طرزِزندگی کی بابت انتہاپسندی کو پہنچ گئے۔“ تاہم عہدِہزارسالہ کی حقیقی اُمید کو مسترد کئے بغیر ان انتہاپسند نظریات کی تصحیح کی جا سکتی تھی۔
مخالفین نے حیرانکُن طریقوں سے عہدِہزارسالہ کے نظریے کو دبانے کی کوشش کی۔ ڈکشنیر دے تھیولوجے کاتھولیک رومی کلیسیا کے رُکن کائس (دوسری صدی کا آخر، تیسری کا شروع) کے بارے میں کہتی ہے، ”عہدِہزارسالہ کے نظریے پر غالب آنے کے لئے، اُس نے سینٹ یوحنا کی انجیل اور اپوکالپس [مکاشفہ] کے مستند ہونے سے صاف انکار کر دیا۔“ یہ ڈکشنیر مزید بیان کرتی ہے کہ تیسری صدی میں اسکندریہ کے بشپ، ڈائیآنسیئس نے عہدِہزارسالہ کے نظریے کے خلاف ایک مقالہ لکھا کہ ”سینٹ یوحنا کے اپوکالپس کو اپنے ایمان کی بنیاد بنا کر اس نظریے کی حمایت کرنے والوں کی مذمت کرنے کے لئے اس کے مستند ہونے سے انکار کرنے سے بھی دریغ نہ کریں۔“ زمین پر عہدِہزارسالہ کی برکات سے وابستہ اُمید کی ایسی شدید مخالفت اُس وقت کے مذہبی علماء میں پائے جانے والے مبہم اثر کو ظاہر کرتی ہے۔
اپنی کتاب دی پرسویٹ آف دی ملینیئم میں پروفیسر نارمن کوہن لکھتا ہے: ”تیسری صدی میں عہدِہزارسالہ کے عقیدے کے مسترد کرنے کی پہلی کوشش اُس وقت کی گئی تھی جب قدیمی کلیسیا کے انتہائی بارُسوخ مذہبی عالم آریگن نے یہ تعلیم دینا شروع کی کہ بادشاہت آسمان میں نہیں بلکہ ایمانداروں کے دل میں قائم ہوگی۔“ بائبل کی بجائے یونانی فیلسوفی پر بھروسہ کرتے ہوئے، آریگن نے مسیحائی بادشاہت کے تحت زمینی برکات کی شاندار اُمید کو یہ کہہ کر بےکیف اور ناقابلِفہم بنا دیا کہ یہ ”ایمانداروں کے دلوں“ میں قائم ہوگی۔ کیتھولک مصنف لیواون گری نے لکھا: ”یونانی فیلسوفی کی بالادستی . . . بتدریج کلیاسٹک نظریات کے زوال کا باعث بن گئی۔“
”چرچ اپنا پیغامِاُمید کھو چکا ہے“
بِلاشُبہ آگسٹین ہی وہ چرچ فادر تھا جس نے یونانی فیلسوفی کو مسیحیت کیساتھ ملانے کی سب سے زیادہ کوشش کی تھی جو اُسکے زمانے تک اپنی اصلی حالت میں نہیں تھی۔ شروع میں تو وہ عہدِہزارسالہ کا سرگرم حامی تھا مگر آخر میں اُس نے مستقبل میں زمین پر مسیح کے عہدِہزارسالہ کے تمام نظریات کو مسترد کر دیا تھا۔ اُس نے مکاشفہ ۲۰ باب کو علامتی مفہوم دے دیا۔
دی کیتھولک انسائیکلوپیڈیا بیان کرتا ہے: ”بالآخر آگسٹین اس عقیدے کا قائل ہو گیا کہ کوئی عہدِہزارسالہ نہیں ہوگا۔ . . . وہ ہمیں بتاتا ہے کہ یہ باب جس پہلی قیامت کا ذکر کرتا ہے وہ بپتسمہ کے وقت روحانی طور پر دوبارہ پیدا ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے؛ تاریخ کے چھ ہزار سال گزر جانے کے بعد، ہزارسالہ سبت ہی دراصل ہمیشہ کی زندگی ہے۔“ دی نیو انسائیکلوپیڈیا بریٹینکا بیان کرتا ہے: ”آگسٹین کا علامتی عہدِہزارسالہ چرچ کا باضابطہ عقیدہ بن گیا۔ . . . لوتھرن، کیلونسٹ اور اینگلیکن روایات کے پروٹسٹنٹ مصلحین . . . آگسٹین کے نظریات سے پوری طرح چمٹے رہے۔“ یوں دُنیائےمسیحیت کے اراکین عہدِہزارسالہ کی اُمید سے محروم رہ گئے۔
مزیدبرآں، سوئس مذہبی عالم فریڈرک ڈی روژمو کے مطابق، ”عہدِہزارسالہ پر اپنے ابتدائی ایمان سے منکر ہوکر [آگسٹین] نے کلیسیا کو ناقابلِتلافی نقصان پہنچایا۔ اپنے اختیار سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُس نے ایک ایسی غلطی کی اجازت دے دی جس نے [کلیسیا] کو اُس کی زمینی اُمید سے محروم کر دیا۔“ جرمن مذہبی عالم ایڈلف ہارنیک اس بات سے اتفاق کرتا ہے کہ عہدِہزارسالہ کے عقیدے سے انکار نے عام لوگوں کو ایک ایسے ”مذہب سے“ محروم کر دیا ”جسے وہ اچھی طرح سمجھتے تھے“ اور یوں ”پُرانے ایمان اور پُرانی اُمیدوں“ کو ”ایک ایسے ایمان سے“ بدل ڈالا جسے ”وہ سمجھ نہیں سکتے تھے۔“ آجکل خالی چرچ اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ لوگوں کو ایسے ایمان اور اُمید کی ضرورت ہے جسے وہ سمجھ سکیں۔
بائبل عالم جارج بزلے مرے نے اپنی کتاب ہائیلائٹس آف دی بُک آف ریولیشن میں لکھا: ”ایک طرف تو آگسٹین کے بہت زیادہ اثرورُسوخ اور دوسری طرف فرقوں کے عہدِہزارسالہ کے عقیدہ کی حمایت کرنے کی وجہ سے، کیتھولک اور پروٹسٹنٹ اسے مسترد کرنے پر متفق ہو گئے ہیں۔ جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ پھر انسانوں کے لئے اَور کونسی متبادل اُمید ہے تو باضابطہ جواب ہوتا ہے: کوئی بھی نہیں۔ مسیح کی آمدِثانی پر دُنیا برباد ہو جائے گی اور اس کی جگہ دائمی جنت اور دوزخ لے لینگے جس میں تمام گزشتہ واقعات کی یاد باقی نہ رہے گی۔ . . . چرچ اپنا پیغامِاُمید کھو چکا ہے۔“
اپوکالپس کی شاندار اُمید ابھی زندہ ہے!
اِسکے برعکس، یہوواہ کے گواہوں کو مکمل یقین ہے کہ عہدِہزارسالہ سے متعلق شاندار وعدے ضرور پورے ہونگے۔ ”سن ۲۰۰۰: عالمگیر تباہی کا خوف“ کے موضوع پر فرانسیسی ٹیلیویژن پروگرام میں انٹرویو دیتے ہوئے، فرانسیسی مؤرخ جین ڈیلیمو نے بیان کِیا: ”یہوواہ کے گواہ صحیح طور پر عہدِہزارسالہ کے عقیدے کی پیروی کر رہے ہیں کیونکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ جلد ہی ہم—اگرچہ تباہی سے بچ کر—خوشحالی کے ۱،۰۰۰ سالوں میں داخل ہو جائینگے۔“
یوحنا رسول نے ایک رویا میں بالکل یہی دیکھا تھا اور پھر اسے اپنی کتاب اپوکالپس یا مکاشفہ میں قلمبند کر دیا تھا۔ اُس نے لکھا: ”پھر مَیں نے ایک نئے آسمان اور ایک نئی زمین کو دیکھا . . . پھر مَیں نے تخت میں سے کسی کو بلند آواز سے یہ کہتے سنا کہ دیکھ خدا کا خیمہ آدمیوں کے درمیان ہے اور وہ اُنکے ساتھ سکونت کریگا اور وہ اُسکے لوگ ہونگے اور خدا آپ اُنکے ساتھ رہیگا اور اُنکا خدا ہوگا۔ اور وہ اُنکی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دیگا۔ اِسکے بعد نہ موت رہیگی اور نہ ماتم رہیگا۔ نہ آہونالہ نہ درد۔ پہلی چیزیں جاتی رہیں۔“—مکاشفہ ۲۱:۱، ۳، ۴۔
یہوواہ کے گواہ بائبل کے عالمگیر تعلیمی کام میں مشغول ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس اُمید کو قبول کرنے میں مدد دے سکیں۔ وہ اس کی بابت اَور زیادہ سیکھنے میں آپکی مدد کر کے خوش ہونگے۔
[صفحہ 6 پر تصویر]
پاپائس کا دعویٰ تھا کہ اُس نے عہدِہزارسالہ کا عقیدہ براہِراست رسولوں کے ہمعصروں سے حاصل کِیا تھا
[صفحہ 7 پر تصویر]
ٹرٹولین مسیح کی ہزارسالہ حکمرانی پر ایمان رکھتا تھا
[تصویر کا حوالہ]
Cliché Bibliothèque Nationale de France, Paris ©
[صفحہ 7 پر تصویر]
”عہدِہزارسالہ پر اپنے ابتدائی ایمان سے منکر ہو کر [آگسٹین] نے چرچ کو ناقابلِتلافی نقصان پہنچایا“
[صفحہ 8 پر تصویر]
اپوکالپس میں وعدہ کی گئی فردوسی زمین کا بڑے اشتیاق سے منتظر رہنا چاہئے