خودایثار کیوں بنیں؟
بِل کی عمر ۵۰ سال ہے جسکا اپنا ایک خاندان ہے اور وہ فنِتعمیر کا اُستاد ہے۔ وہ اپنے ذاتی خرچے پر، ہر سال کئی ہفتے یہوواہ کے گواہوں کی کلیسیاؤں کے لئے کنگڈمہال تعمیر کرنے اور ان کے لئے منصوبہسازی کرنے میں صرف کرتا ہے۔ ایما ۲۲ سال کی تعلیمیافتہ اور لائق دوشیزہ ہے۔ ذاتی نصباُلعین اور عیشوعشرت کے حصول کی بجائے، بائبل کو سمجھنے میں لوگوں کی مدد کرنے کے لئے وہ ایک خادمہ کے طور پر ۷۰ سے زائد گھنٹے صرف کرتی ہے۔ مورس اور بیٹی ریٹائر ہو چکے ہیں۔ اب سُست پڑنے کی بجائے، وہ زمین کیلئے خدا کے مقصد کی بابت علم حاصل کرنے میں لوگوں کی مدد کرنے کیلئے دوسرے مُلک میں منتقل ہو گئے ہیں۔
یہ اشخاص خود کو بہت اہم یا خاص نہیں سمجھتے۔ یہ سادہ لوگ ہیں جو بھلائی کے کام کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنا وقت، توانائیوں، صلاحیتوں اور وسائل دوسروں کے مفاد کیلئے کیوں استعمال کرتے ہیں؟ اُنہیںتحریک دینے والی چیز خدا اور اپنے پڑوسی کیلئے گہری محبت ہے۔ اِس محبت نے اُن سب کے اندر خودایثاری کا جذبہ پیدا کر دیا ہے۔
خودایثاری کے جذبے سے ہماری کیا مُراد ہے؟ بہرحال، خودایثاری گوشہنشینی اختیار کرنے یا زاہدانہ زندگی بسر کرنے کا تقاضا نہیں کرتی۔ اس کے لئے نفسکُشی کی بھی ضرورت نہیں ہے جو ہماری خوشی یا اطمینان کو چھین لیتی ہے۔ دی شارٹر آکسفورڈ انگلش ڈکشنری کے مطابق، خودایثاری کا مطلب ”دوسروں کی بہبود یا فرض کی خاطر اپنے مفادات، خوشی اور خواہشات کو قربان کر دینا“ ہے۔
یسوع مسیح—اعلیٰ نمونہ
خدا کا اکلوتا بیٹا، یسوع مسیح، خودایثارانہ جذبے کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ اُسکی قبلازنسانی زندگی نہایت ولولہانگیز اور اطمینانبخش تھی۔ وہ اپنے باپ اور فرشتگان کے ساتھ قریبی رفاقت رکھتا تھا۔ مزیدبرآں، خدا کے بیٹے نے ”ماہِر کاریگر“ کے طور پر اپنی صلاحیتوں کو چیلنجخیز اور حیرانکُن کاموں میں استعمال کِیا۔ (امثال ۸:۳۰، ۳۱) وہ ایسے ماحول میں رہتا تھا جس میں زمین کا امیرکبیر شخص بھی نہیں رہ سکتا۔ یہوواہ خدا کے بعد، آسمان میں اعلیٰوبالا مقام اُسی کا تھا۔
تاہم، خدا کے بیٹے نے ”اپنے آپکو خالی کر دیا اور خادم کی صورت اختیار کی اور انسانوں کے مشابہ ہوگیا۔“ (فلپیوں ۲:۷) وہ خوشی سے اپنے ذاتی مفادات کو ترک کرکے انسان بن گیا تاکہ اپنی جان کا فدیہ دیکر شیطانی اثرات کی تلافی کر دے۔ (پیدایش ۳:۱-۷؛ مرقس ۱۰:۴۵) اِس کا مطلب یہ تھا کہ اُسے شیطان ابلیس کے قبضے میں پڑی ہوئی دُنیا میں آکر گنہگار انسانوں کے درمیان رہنا تھا۔ (۱-یوحنا ۵:۱۹) اُسے اذیت اور ذلت کو بھی برداشت کرنا تھا۔ تاہم، یسوع مسیح ہر قیمت پر اپنے باپ کی مرضی پوری کرنے کیلئے پُرعزم تھا۔ (متی ۲۶:۳۹؛ یوحنا ۵:۳۰؛ ۶:۳۸) اِسکی وجہ سے یسوع کی محبت اور وفاداری کی کڑی آزمائش ہوئی۔ وہ کس حد تک جانے کیلئے تیار تھا؟ اُس نے ”اپنے آپ کو پست کر دیا“ پولس رسول بیان کرتا ہے، ”اور یہاں تک فرمانبردار رہا کہ موت بلکہ صلیبی موت گوارا کی۔“—فلپیوں ۲:۸۔
”ویسا ہی مزاج رکھو“
یسوع کے نمونے پر چلنے کیلئے ہماری حوصلہافزائی کی گئی ہے۔ پولس نے تاکید کی: ”ویسا ہی مزاج رکھو جیسا مسیح یسوع کا بھی تھا۔“ (فلپیوں ۲:۵) ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں؟ اِسکا ایک طریقہ ”اپنے ہی احوال پر نہیں بلکہ . . . دوسروں کے احوال پر بھی نظر“ رکھنا ہے۔ (فلپیوں ۲:۴) حقیقی محبت ”اپنی بہتری نہیں چاہتی۔“—۱-کرنتھیوں ۱۳:۵۔
ہمدرد لوگ اکثر بےغرضانہ عقیدت کیساتھ دوسروں کی خدمت کرتے ہیں۔ تاہم، آجکل بیشتر لوگ خودپسند ہیں۔ دُنیا ”پہلے مَیں“ کا رُجحان رکھتی ہے۔ ہمیں دُنیا کی رُوح سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر یہ ہمارے نقطۂنظر اور رُجحان کو مغلوب کر لیتی ہے توپھر ہم اپنی خواہشات کو زیادہ اہمیت دینے لگیں گے۔ اِس صورت میں ہمارے ہر کام—ہمارے وقت، توانائی اور وسائل کے طرزِاستعمال—کا محرک ذاتی مفاد ہوگا۔ لہٰذا ہمیں اِس اثر کے خلاف لڑنے کیلئے جانفشانی کرنے کی ضرورت ہے۔
نیکنیت مشورت بھی بعضاوقات ہمارے خودایثاری کے جذبے کو ماند کر سکتی ہے۔ اِس بات کو جانتے ہوئے کہ یسوع کی خودایثارانہ روش اُسے کس طرف لے جا رہی ہے، پطرس نے کہا: ”اَے خداوند خدا نہ کرے۔ یہ تجھ پر ہرگز نہیں آنے کا۔“ (متی ۱۶:۲۲) بدیہی طور پر پطرس اپنے باپ کی حاکمیت کی سربلندی اور نسلِانسانی کی نجات کیلئے موت کو گلے لگا لینے کے سلسلے میں یسوع کی رضامندی کو سمجھنے میں مشکل محسوس کر رہا تھا۔ پس اُس نے یسوع کو ایسی روش اختیار کرنے سے روکنے کی کوشش کی۔
’اپنی خودی کا انکار کریں‘
یسوع نے کیسا ردِعمل دکھایا؟ سرگزشت کچھ یوں ہے: ”اُس نے مڑ کر اپنے شاگردوں پر نگاہ کرکے پطرؔس کو ملامت کی اور کہا اَے شیطان میرے سامنے سے دُور ہو کیونکہ تُو خدا کی باتوں کا نہیں بلکہ آدمیوں کی باتوں کا خیال رکھتا ہے۔“ اِس کے بعد یسوع نے بِھیڑ کو اپنے شاگردوں سمیت پاس بلا کر کہا: ”اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے تو اپنی خودی سے اِنکار کرے اور اپنی صلیب اُٹھائے اور میرے پیچھے ہولے۔“—مرقس ۸:۳۳، ۳۴۔
یسوع کی اِس مشورت کے کوئی ۳۰ سال بعد، پطرس نے ظاہر کِیا کہ اب وہ خودایثاری کا مطلب سمجھ گیا ہے۔ اُس نے ساتھی ایمانداروں کی اپنی کوششیں سُست کرنے اور آرامپسند بننے کے لئے حوصلہافزائی نہیں کی تھی۔ اِس کے برعکس، پطرس نے اُنہیں اپنی عقل کی کمر باندھ کر اپنی پُرانی دُنیاوی خواہشوں کے تابع نہ ہونے کی تلقین کی۔ آزمائشوں کے باوجود، اُنہیں اپنی زندگیوں میں خدا کی مرضی کو پہلا درجہ دینا تھا۔—۱-پطرس ۱:۶، ۱۳، ۱۴؛ ۴:۱، ۲۔
خودکو یہوواہ کیلئے وقف کر دینے اور وفاداری سے یسوع مسیح کی پیروی کرتے ہوئے تمام معاملات میں خدائی راہنمائی کے مطابق چلنا سب سے بااَجر روش ہے۔ اِس سلسلے میں، پولس نے عمدہ نمونہ قائم کِیا۔ وقت کی اہمیتکو سمجھنے اور یہوواہ کا شکر بجا لانے سے اُسے ایسی دُنیاوی آرزوؤں یا امکانات کو ترک کرنے کی تحریک ملی جو اُسے خدا کی مرضی پوری کرنے سے ہٹا سکتے تھے۔ اُس نے کہا کہ دوسروں کے مفاد کی خاطر مَیں ”بہت خوشی سے خرچ کرونگا بلکہ خود بھی خرچ ہو جاؤں گا۔“ (۲-کرنتھیوں ۱۲:۱۵) پولس نے اپنی صلاحیتوں کو اپنے مفاد کی بجائے الہٰی مفادات کو فروغ دینے کیلئے استعمال کِیا۔—اعمال ۲۰:۲۴؛ فلپیوں ۳:۸۔
ہم یہ دیکھنے کیلئے اپنا جائزہ کیسے لے سکتے ہیں کہ آیا ہم پولس رسول جیسا نقطۂنظر رکھتے ہیں؟ ہم خود سے کچھ اِس طرح کے سوال پوچھ سکتے ہیں: مَیں اپنا وقت، توانائیوں، صلاحیتوں اور وسائل کیسے استعمال کرتا ہوں؟ کیا مَیں اِنہیں اور دیگر بیشقیمت بخششوں کو اپنے مفاد کیلئے استعمال کرتا ہوں یا دوسروں کی مدد کرنے کیلئے استعمال کرتا ہوں؟ کیا مَیں نے شاید ایک کُلوقتی بادشاہتی مناد کے طور پر، خوشخبری سنانے کے زندگیبخش کام میں بھرپور حصہ لینے کے متعلق غور کِیا ہے؟ کیا مَیں کنگڈمہال تعمیر کرنے یا اُن کی دیکھبھال کرنے کیلئے زیادہ وقت دے سکتا ہوں؟ کیا مَیں ضرورتمند اشخاص کی مدد کرنے کیلئے مواقع کی تلاش میں رہتا ہوں؟ کیا مَیں یہوواہ کیلئے بہترین چیزیں پیش کرتا ہوں؟—امثال ۳:۹۔
”دینا لینے سے مبارک ہے“
تاہم، کیا خودایثاری واقعی دانشمندانہ روش ہے؟ بیشک یہ ہے! پولس اپنے ذاتی تجربے سے جانتا تھا کہ ایسا جذبہ برکتوں سے مالامال کر دیتا ہے۔ اُس نے اِس سے بڑی خوشی اور اطمینان حاصل کِیا تھا۔ اُس نے یہ بات افسس کے اُن بزرگوں کو بتائی جو اُسے ملنے کیلئے میلیتُس آئے تھے۔ پولس نے کہا: ”مَیں نے تمکو سب باتیں کرکے دکھا دیں کہ اِس طرح محنت کرکے کمزوروں کو سنبھالنا اور خداوند یسوؔع کی باتیں یاد رکھنا چاہئے کہ اُس نے خود کہا دینا لینے سے مبارک ہے۔“ (اعمال ۲۰:۳۵) لاکھوں لوگ یہ جان گئے ہیں کہ موجودہ دَور میں بھی اِس قسم کا جذبہ ظاہر کرنا بڑی خوشی کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ مستقبل میں بھی خوشی کا باعث بنیگا جب یہوواہ اُسکے اور دوسروں کے مفادات کو اپنے مفادات پر ترجیح دینے والے اشخاص کو اجر عطا کریگا۔—۱-تیمتھیس ۴:۸-۱۰۔
جب بِل سے پوچھا گیا کہ کنگڈمہال تعمیر کرنے میں وہ دوسروں کی دلوجان سے مدد کیوں کرتا ہے تو اُس نے بتایا: ”چھوٹی کلیسیاؤں کی اِس طرح سے مدد کرکے مجھے باطنی تسکین حاصل ہوتی ہے۔ مجھے اپنی لیاقتوں اور مہارتوں کو دوسروں کے فائدے کیلئے استعمال کرنے سے خوشی حاصل ہوتی ہے۔“ ایما نے اپنی توانائیوں اور صلاحیتوں کو صحیفائی سچائی سیکھنے میں دوسروں کی مدد کرنے کیلئے صرف کرنے کا انتخاب کیوں کِیا؟ ”مَیں کوئی اَور کام کرنے کا تصور ہی نہیں کر سکتی۔ جبتک مَیں جوان اور کام کرنے کے قابل ہوں تو مَیں یہوواہ کو خوش کرنے اور دوسروں کی مدد کرنے کیلئے پورے دلوجان سے کوشش کرنا چاہتی ہوں۔ چند مادی چیزیں قربان کر دینا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ یہوواہ نے میرے لئے جو کچھ کِیا ہے اُس کے پیشِنظر مَیں وہی کر رہی ہوں جو مجھے کرنا چاہئے۔“
مورس اور بیٹی کو اِس بات کا ذرا بھی افسوس نہیں ہے کہ اُنہیں اپنے خاندان کی پرورش اور ضروریات پوری کرنے میں کئی سالوں کی کڑی محنت کے بعد بھی کوئی آرام حاصل نہیں ہوا۔ ریٹائر ہونے کے باوجود وہ اپنی زندگی میں کوئی مفید اور بامقصد کام کرنا چاہتے ہیں۔ اُنکا کہنا ہے کہ ”ہم اب ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنا نہیں چاہتے۔ ایک غیرمُلک میں یہوواہ کی بابت سیکھنے میں دوسروں کی مدد کرنے سے ہمیں بامقصد کام کرنے کا موقع حاصل ہوتا ہے۔“
کیا آپ خودایثار بننے کا اِرادہ رکھتے ہیں؟ یہ آسان تو نہیں ہے کیونکہ ہماری گنہگارانہ انسانی خواہشات اور خدا کو خوش کرنے کی دلی خواہش کے درمیان مسلسل جنگ ہوتی رہتی ہے۔ (رومیوں ۷:۲۱-۲۳) لیکن اگر ہم اپنی زندگی یہوواہ کی راہنمائی کے مطابق گزاریں تو یہ جنگ جیتی جا سکتی ہے۔ (گلتیوں ۵:۱۶، ۱۷) وہ یقیناً ہماری خودایثارانہ خدمت کو یاد رکھیگا اور کثرت سے برکت دیگا۔ واقعی، یہوواہ خدا ’آسمان کے دریچوں کو کھول کر اتنی برکت برسائے گا کہ ہمارے پاس اُس کے لئے جگہ نہیں رہے گی۔‘—ملاکی ۳:۱۰؛ عبرانیوں ۶:۱۰۔
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
یسوع خودایثار تھا۔ کیا آپ ہیں؟
[صفحہ ۲۴ پر تصویریں]
پولس نے بادشاہتی منادی کیلئے جانتوڑ کوشش کی