’تحمل کا لباس پہنو‘
”دردمندی اور . . . تحمل کا لباس پہنو۔“—کلسیوں ۳:۱۲۔
سن ۱۹۵۲ میں جنوبمغربی فرانس کا باشندہ ریگس یہوواہ کا بپتسمہیافتہ گواہ بنا۔ کئی سال تک اُس کی بیوی نے اُسے یہوواہ کی خدمت سے رُوکنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اُسے اجلاسوں پر جانے سے روکنے کے لئے اُس نے اُس کی گاڑی کے ٹائروں کو پنکچر کرنے کی کوشش کی اور ایک مرتبہ جب وہ گھرباگھر بائبل سے بادشاہتی خوشخبری سنا رہا تھا تو وہ اُس کے پیچھےپیچھے چلتی ہوئی لوگوں کے سامنے اُس کا تمسخر اُڑا رہی تھی۔ اس مستقل مخالفت کے باوجود ریگس متحمل رہا۔ پس، ریگس تمام مسیحیوں کے لئے ایک عمدہ مثال ہے کیونکہ یہوواہ اپنے تمام پرستاروں سے دوسروں کے ساتھ اپنے تعلقات میں تحمل کا مظاہرہ کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔
۲ ”تحمل“ کے لئے استعمال ہونے والے یونانی لفظ کے لغوی معنی ”دھیمامزاج“ ہے۔ اُردو ریوائزڈ ورشن اس لفظ کا ترجمہ تیرہ مرتبہ ”تحمل“ اور ایک مرتبہ ”صبر“ کرتی ہے۔ عبرانی اور یونانی دونوں اظہارات جن کا ترجمہ ”تحمل“ کِیا گیا ہے، صبر، برداشت اور جلدی اشتعال میں نہ آنے کا خیال پیش کرتے ہیں۔
۳ پہلی صدی کے یونانی لوگ تحمل کو ایک خوبی خیال نہیں کرتے تھے۔ ستوئیکی فیلسوف یہ لفظ کبھی استعمال نہیں کرتے تھے۔ بائبل عالم ولیم بارکلے کے مطابق، تحمل ”یونانی وصف کے بالکل برعکس ہے“ کیونکہ اِس میں دوسری چیزوں کے علاوہ ”کسی قسم کی توہین یا زیادتی برداشت نہ کرنے“ پر ناز کرنا شامل تھا۔ وہ بیان کرتا ہے: ”یونانی اُس آدمی کو بڑا سمجھتے تھے جو انتقام لینے کے لئے کچھ بھی کر سکتا تھا۔ لیکن مسیحیوں کے نزدیک بڑا آدمی وہ ہے جو انتقام لینے کے قابل ہونے کے باوجود ایسا نہیں کرتا۔“ یونانی لوگ تحمل کو کمزوری خیال کرتے تھے لیکن دیگر معاملات کی طرح اس معاملے پر بھی یہ بات صادق آتی ہے کہ ”خدا کی بیوقوفی آدمیوں کی حکمت سے زیادہ حکمت والی ہے اور خدا کی کمزوری آدمیوں کے زور سے زیادہ زورآور ہے۔“—۱-کرنتھیوں ۱:۲۵۔
مسیح کے تحمل کی مثال
۴ یہوواہ کے بعد یسوع مسیح نے بھی تحمل کا ایک عمدہ نمونہ قائم کِیا۔ شدید دباؤ کے تحت اُس نے حیرانکُن حد تک برداشت کا مظاہرہ کِیا۔ اُس کی بابت پیشینگوئی کی گئی تھی: ”وہ ستایا گیا تو بھی اُس نے برداشت کی اور مُنہ نہ کھولا۔ جس طرح بّرہ جسے ذبح کرنے کو لے جاتے ہیں اور جس طرح بھیڑ اپنے بال کترنے والوں کے سامنے بےزبان ہے اسی طرح وہ خاموش رہا۔“—یسعیاہ ۵۳:۷۔
۵ یسوع نے اپنی زمینی خدمتگزاری کے دوران تحمل کا کیا ہی شاندار نمونہ قائم کِیا! اُس نے اپنے دشمنوں کے مکارانہ سوالوں اور مخالفوں کی توہینآمیز باتوں کو برداشت کِیا۔ (متی ۲۲:۱۵-۴۶؛ ۱-پطرس ۲:۲۳) وہ اپنے شاگردوں کے ساتھ اُس وقت بھی صبر سے پیش آیا جب وہ اس بات پر مسلسل جھگڑا کرتے رہے کہ اُن میں سے بڑا کون ہے۔ (مرقس ۹:۳۳-۳۷؛ ۱۰:۳۵-۴۵؛ لوقا ۲۲:۲۴-۲۷) نیز اپنے پکڑوائے جانے کی رات یسوع نے کیا ہی قابلِتعریف ضبط کا مظاہرہ کِیا جب اُس نے پطرس اور یوحنا کو ’جاگتے رہنے‘ کے لئے کہا مگر انہیں پھربھی سوتے پایا!—متی ۲۶:۳۶-۴۱۔
۶ یسوع اپنی موت اور قیامت کے بعد بھی متحمل رہا۔ بالخصوص پولس رسول نے اس بات کا تجربہ کِیا کیونکہ وہ پہلے مسیحیوں کو ستانے والا تھا۔ پولس نے لکھا: ”یہ بات سچ اور ہر طرح سے قبول کرنے کے لائق ہے کہ مسیح یسوؔع گنہگاروں کو نجات دینے کے لئے دُنیا میں آیا جن میں سب سے بڑا مَیں ہوں۔ لیکن مجھ پر رحم اسلئے ہوا کہ یسوؔع مسیح مجھ بڑے گنہگار میں اپنا کمال تحمل ظاہر کرے تاکہ جو لوگ ہمیشہ کی زندگی کے لئے اس پر ایمان لائیں گے ان کے لئے مَیں نمونہ بنوں۔“ (۱-تیمتھیس ۱:۱۵، ۱۶) ہمارا ماضی خواہ کیسا ہی ہو، اگر ہم یسوع پر ایمان لائیں تو وہ ہمارے لئے تحمل ظاہر کرتے ہوئے یقیناً ہم سے ”توبہ کے موافق کام“ کرنے کی توقع بھی کریگا۔ (اعمال ۲۶:۲۰؛ رومیوں ۲:۴) ایشیائے کوچک کی سات کلیسیاؤں کے نام مسیح کے پیغامات ظاہر کرتے ہیں کہ متحمل ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ترقی کی توقع بھی کرتا ہے۔—مکاشفہ ۲ اور ۳ ابواب۔
روح کا ایک پھل
۷ گلتیوں کے نام اپنے خط کے ۵ ویں باب میں پولس جسم کے کاموں کا موازنہ روح کے پھلوں سے کرتا ہے۔ (گلتیوں ۵:۱۹-۲۳) چونکہ تحمل یہوواہ کی ایک صفت ہے لہٰذا وہ اس خوبی کا ماخذ ہے اور یہ اُس کی روح کا ایک پھل ہے۔ (خروج ۳۴:۶، ۷) درحقیقت، پولس کے مطابق ”محبت۔ خوشی۔ اطمینان۔ . . . مہربانی۔ نیکی۔ ایمانداری۔ حلم۔ پرہیزگاری“ جیسے دیگر روح کے پھلوں کی فہرست میں تحمل چوتھے درجے پر ہے۔ (گلتیوں ۵:۲۲، ۲۳) لہٰذا، جب خدا کے خادم الہٰی صبر یا تحمل ظاہر کرتے ہیں تو وہ روحالقدس کے زیرِاثر ایسا کرتے ہیں۔
۸ تاہم، اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہوواہ کسی شخص پر اپنی روح مسلّط کر دیتا ہے۔ ہمیں رضامندی سے اس اثر کو قبول کرنا پڑتا ہے۔ (۲-کرنتھیوں ۳:۱۷؛ افسیوں ۴:۳۰) ہم اپنے تمام کاموں میں اس کے پھلوں کا مظاہرہ کرنے سے اس روح کو اپنی زندگیوں میں کارفرما ہونے کی اجازت دیتے ہیں۔ جسم کے کاموں اور روح کے پھلوں کو درج کرنے کے بعد پولس نے مزید بیان کِیا: ”اگر ہم رُوح کے سبب سے زندہ ہیں تو رُوح کے موافق چلنا بھی چاہئے۔ فریب نہ کھاؤ۔ خدا ٹھٹھوں میں نہیں اُڑایا جاتا کیونکہ آدمی جو کچھ بوتا ہے وہی کاٹیگا۔ جو کوئی اپنے جسم کے لئے بوتا ہے وہ جسم سے ہلاکت کی فصل کاٹیگا اور جو رُوح کے لئے بوتا ہے وہ رُوح سے ہمیشہ کی زندگی کی فصل کاٹیگا۔“ (گلتیوں ۵:۲۵؛ ۶:۷، ۸) اگر ہم اپنے اندر تحمل پیدا کرنے میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں اُن باقی تمام پھلوں کو بھی فروغ دینا چاہئے جو روحالقدس مسیحیوں میں پیدا کرتی ہے۔
’محبت متحمل ہے‘
۹ پولس نے اس بیان سے ظاہر کِیا کہ محبت اور تحمل کے درمیان ایک خاص رشتہ ہے: ”محبت صابر ہے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۳:۴) ایک بائبل عالم البرٹ بارنز کی رائے میں پولس نے کرنتھس کی مسیحی کلیسیا میں پائے جانے والے جھگڑے اور فساد کے پیشِنظر اس بات کو اُجاگر کِیا تھا۔ (۱-کرنتھیوں ۱:۱۱، ۱۲) بارنز بیان کرتا ہے: ”یہاں [تحمل کے لئے] استعمال ہونے والا لفظ جلدبازی: شدید جذباتوخیالات اور بدمزاجی کے متضاد ہے۔ یہ ایسی ذہنی حالت کی عکاسی کرتا ہے جو دباؤ یا اشتعال کے تحت بھی طویل برداشت کو ممکن بناتی ہے۔“ محبت اور تحمل سے اب بھی مسیحی کلیسیا کے امنوامان کو بڑا فروغ ملتا ہے۔
۱۰ ”محبت صابر ہے اور مہربان۔ محبت . . . اپنی بہتری نہیں چاہتی۔ جھنجھلاتی نہیں۔“ پس، محبت متحمل بننے میں ہماری کئی طریقوں سے مدد کرتی ہے۔a (۱-کرنتھیوں ۱۳:۴، ۵) محبت صبر کے ساتھ ایک دوسرے کی برداشت کرنے اور یہ یاد رکھنے میں ہماری مدد کرتی ہے کہ ہم سب ناکامل ہونے کے باعث غلطیاں اور خطائیں کرتے ہیں۔ یہ بامرّوت اور معاف کرنے والا بننے میں ہماری مدد کرتی ہے۔ پولس رسول ہماری حوصلہافزائی کرتا ہے کہ ”کمال فروتنی اور حلم کے ساتھ تحمل کرکے محبت سے ایک دوسرے کی برداشت کرو۔ اور اِسی کوشش میں رہو کہ رُوح کی یگانگی صلح کے بند سے بندھی رہے۔“—افسیوں ۴:۱-۳۔
۱۱ جب تمام ارکان تحمل ظاہر کرتے ہیں تو کلیسیاؤں، بیتایل ہومز، مشنری ہومز، تعمیراتی ٹیموں یا سکولوں میں مسیحیوں کے درمیان امن اور خوشی کو فروغ ملتا ہے۔ شخصیت، ذاتی ترجیحات، خاندانی پسمنظر، شائستگی اور حفظانِصحت کے معیاروں میں اختلاف کی وجہ سے وقتاًفوقتاً صبرآزما حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔ یہ بات خاندانوں کے سلسلے میں بھی سچ ہے۔ قہر کرنے میں دھیما ہونا لازمی ہے۔ (امثال ۱۴:۲۹؛ ۱۵:۱۸؛ ۱۹:۱۱) تحمل—بہتیری کی اُمید میں صبر کرنا—ہر ایک کیلئے ضروری ہے۔—رومیوں ۱۵:۱-۶۔
تحمل ہمیں برداشت کرنے میں مدد دیتا ہے
۱۲ تحمل ایسے صبرآزما حالات کے تحت بھی برداشت کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے جو بظاہر غیرمختتم لگتے ہیں یا جن کا کوئی فوری حل نظر نہیں آتا۔ یہ بات مسبوقاُلذکر ریگس کی بابت سچ تھی۔ اُس کی بیوی نے کئی سالوں تک یہوواہ کی خدمت کرنے کی کوششوں میں اُس کی مخالفت کی۔ تاہم، ایک دن وہ آنکھوں میں آنسو لئے اُس کے پاس آئی اور کہنے لگی: ”مَیں جانتی ہوں کہ سچائی یہی ہے۔ میری مدد کرو۔ مَیں بائبل مطالعہ کرنا چاہتی ہوں۔“ انجامکار وہ بپتسمہ لیکر گواہ بن گئی۔ ریگس بیان کرتا ہے: ”اس بات نے ثابت کر دیا کہ یہوواہ نے اُن تمام سالوں کی جدوجہد، صبر اور برداشت کو برکت بخشی ہے۔“ اُسے اپنے تحمل کا اجر مل گیا تھا۔
۱۳ پہلی صدی س.ع. میں پولس رسول تحمل کی ایک عمدہ مثال تھا۔ (۲-کرنتھیوں ۶:۳-۱۰؛ ۱-تیمتھیس ۱:۱۶) اپنی زندگی کے اختتامی دَور میں پولس نے اپنے نوجوان ساتھی تیمتھیس کو نصیحت کرتے ہوئے خبردار کِیا کہ تمام مسیحیوں کو آزمائش کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پولس نے اپنی مثال دیتے ہوئے ان بنیادی مسیحی خوبیوں کا حوالہ دیا جو برداشت کے لئے ضروری ہیں۔ اُس نے لکھا: ”تُو نے تعلیم۔ چالچلن۔ اِرادہ۔ ایمان۔ تحمل۔ محبت۔ صبر۔ ستائے جانے اور دُکھ اُٹھانے میں میری پیروی کی۔ یعنی ایسے دُکھوں میں جو اؔنطاکیہ اور اکنیمؔ اور لسترؔہ میں مجھ پر پڑے اور اَور دُکھوں میں بھی جو مَیں نے اُٹھائے ہیں مگر خداوند نے مجھے ان سب سے چھڑا لیا۔ بلکہ جتنے مسیح یسوؔع میں دینداری کے ساتھ زندگی گذارنا چاہتے ہیں وہ سب ستائے جائیں گے۔“ (۲-تیمتھیس ۳:۱۰-۱۲؛ اعمال ۱۳:۴۹-۵۱؛ اعمال ۱۴:۱۹-۲۲) ہم سب کو برداشت کرنے کے لئے ایمان، محبت اور تحمل کی ضرورت ہے۔
تحمل سے ملبّس
۱۴ پولس رسول نے تحمل اور دیگر خدائی خوبیوں کو ایسے لباس سے تشبِیہ دی جو مسیحیوں کو ”پُرانی انسانیت“ سے تعلق رکھنے والے کاموں کو رد کرنے کے بعد پہننا چاہئے۔ (کلسیوں ۳:۵-۱۰) اُس نے لکھا: ”خدا کے برگزیدوں کی طرح جو پاک اور عزیز ہیں دردمندی اور مہربانی اور فروتنی اور حلم اور تحمل کا لباس پہنو۔ اگر کسی کو دوسرے کی شکایت ہو تو ایک دوسرے کی برداشت کرے اور ایک دوسرے کے قصور معاف کرے۔ جیسے [یہوواہ] نے تمہارے قصور معاف کئے ویسے ہی تم بھی کرو۔ اور ان سب کے اُوپر محبت کو جو کمال کا پٹکا ہے باندھ لو۔“—کلسیوں ۳:۱۲-۱۴۔
۱۵ جب کلیسیا کے ارکان دردمندی، مہربانی، فروتنی، حلم، تحمل اور محبت کا ’لباس پہنتے‘ ہیں تو وہ مسائل کو حل کرنے اور متحد ہو کر یہوواہ کی خدمت جاری رکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ مسیحی نگہبانوں کو بالخصوص متحمل ہونے کی ضرورت ہے۔ بعضاوقات انہیں کسی مسیحی کی اصلاح کرنی پڑتی ہے تاہم وہ مختلف طریقوں سے ایسا کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں پولس نے تیمتھیس کے نام اپنے خط میں بہترین رُجحان کو بیان کِیا: ”تحمل اور تعلیم کے ساتھ سمجھا دے اور ملامت اور نصیحت کر۔“ (۲-تیمتھیس ۴:۲) جیہاں، یہوواہ کی بھیڑوں کے ساتھ ہمیشہ تحمل، عزت اور نرمی سے پیش آنا چاہئے۔—متی ۷:۱۲؛ ۱۱:۲۸؛ اعمال ۲۰:۲۸، ۲۹؛ رومیوں ۱۲:۱۰۔
”سب کیساتھ تحمل“
۱۶ نسلِانسانی کے لئے یہوواہ کا تحمل ہم پر ”سب کے ساتھ تحمل سے پیش“ آنے کی اخلاقی ذمہداری عائد کرتا ہے۔ (۱-تھسلنیکیوں ۵:۱۴) اس کا مطلب ایسے خاندانی افراد، پڑوسیوں، ساتھی کارکنوں اور ہمجماعتوں کے ساتھ صبر سے پیش آنا ہے جو گواہ نہیں ہیں۔ جائےملازمت یا سکول میں کئی سال تک طنز یا مخالفت کی برداشت کرنے سے گواہوں نے بہت سے تعصّبات پر قابو پا لیا ہے۔ (کلسیوں ۴:۵، ۶) پطرس رسول نے تحریر کِیا: ”غیرقوموں میں اپنا چالچلن نیک رکھو تاکہ جن باتوں میں وہ تمہیں بدکار جان کر تمہاری بدگوئی کرتے ہیں تمہارے نیک کاموں کو دیکھ کر اُنہی کے سبب سے ملاحظہ کے دن خدا کی تمجید کریں۔“—۱-پطرس ۲:۱۲۔
۱۷ یہوواہ کا تحمل ہزاروں لوگوں کیلئے نجات کا باعث بنیگا۔ (۲-پطرس ۳:۹، ۱۵) اگر ہم یہوواہ کی محبت اور تحمل کی نقل کرتے ہیں تو ہم صبر کے ساتھ خدا کی بادشاہتی خوشخبری کی منادی اور دوسروں کو مسیح کی بادشاہتی حکمرانی کی اطاعت کرنے کی تعلیم دینا جاری رکھینگے۔ (متی ۲۸:۱۸-۲۰؛ مرقس ۱۳:۱۰) اگر ہم منادی کرنا چھوڑ دیں تو ایسا لگے گا کہ گویا ہم یہوواہ کے تحمل کو محدود کرنا چاہتے ہیں اور لوگوں کو توبہ کا موقع فراہم کرنے کی بابت اُسکے مقصد کو سمجھنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔—رومیوں ۲:۴۔
۱۸ پولس نے کُلسّے میں، ایشیائے کوچک کے مسیحیوں کے نام اپنے خط میں لکھا: ”اسی لئے جس دن سے یہ سنا ہے ہم بھی تمہارے واسطے یہ دُعا کرنے اور درخواست کرنے سے باز نہیں آتے کہ تم کمال روحانی حکمت اور سمجھ کے ساتھ اُس کی مرضی کے علم سے معمور ہو جاؤ۔ تاکہ تمہارا چالچلن [یہوواہ] کے لائق ہو اور اُس کو ہر طرح سے پسند آئے اور تم میں ہر طرح کے نیک کام کا پھل لگے اور خدا کی پہچان میں بڑھتے جاؤ۔ اور اُس کے جلال کی قدرت کے موافق ہر طرح کی قوت سے قوی ہوتے جاؤ تاکہ خوشی کیساتھ ہر صورت سے صبر اور تحمل کر سکو۔“—کلسیوں ۱:۹-۱۱۔
۱۹ اگر ہم یہوواہ کی اِس ”مرضی کے علم سے معمور“ ہوں کہ ”سب آدمی نجات پائیں اور سچائی کی پہچان تک پہنچیں“ تو اُس کا مستقل تحمل یا صبر ہمارے لئے آزمائش کا باعث نہیں بنیگا۔ (۱-تیمتھیس ۲:۴) ہم بالخصوص ”بادشاہی کی اِس خوشخبری“ کی منادی کرتے ہوئے ”ہر طرح کے نیک کام کا پھل“ پیدا کرتے رہیں گے۔ (متی ۲۴:۱۴) اگر ہم وفاداری سے ایسا کرنا جاری رکھتے ہیں تو یہوواہ ہمیں ”خوشی کے ساتھ ہر صورت سے صبر اور تحمل“ کرنے کے قابل بناتے ہوئے ”ہر طرح کی قوت سے قوی“ کرے گا۔ نیز جب ہم ایسا کریں گے تو ’ہمارا چالچلن [یہوواہ] کے لائق ہوگا‘ اور ہمیں اِس علم سے اطمینان حاصل ہوگا کہ ہم ”اُس کو ہر طرح سے پسند آئے“ ہیں۔
۲۰ دُعا ہے کہ ہم یہوواہ کے تحمل کی حکمت کے قائل ہو جائیں۔ یہ ہماری اور اُن لوگوں کی نجات کا باعث بنتا ہے جو ہماری منادی اور تعلیم پر توجہ دیتے ہیں۔ (۱-تیمتھیس ۴:۱۶) محبت، مہربانی، نیکی، حلم اور پرہیزگاری جیسے روح کے پھل پیدا کرنے سے ہم خوشی کے ساتھ متحمل بننے کے قابل ہونگے۔ ہم بہتر طور پر اپنے خاندان کے افراد کے علاوہ کلیسیائی بہنبھائیوں کے ساتھ بھی امن قائم رکھ سکیں گے۔ تحمل اپنے ساتھی کارکنوں یا ہممکتبوں کے ساتھ صبر سے پیش آنے میں بھی ہماری مدد کریگا۔ نیز گنہگاروں کی نجات اور اپنے متحمل خدا، یہوواہ کی تمجید کا باعث بننا ہمارے تحمل کا مقصد ہوگا۔
[فٹنوٹ]
a بائبل عالم گورڈن ڈی. فی پولس کے اس بیان ”محبت صابر ہے اور مہربان“ پر رائےزنی کرتے ہوئے لکھتا ہے: ”پولس کے مذہبی نقطۂنظر کے مطابق یہ [تحمل اور مہربانی] نوعِانسان کے سلسلے میں الہٰی رُجحان کے دو پہلوؤں کی نمائندگی کرتے ہیں (دیکھیں رومیوں ۲:۴)۔ انسانی بغاوت کے باوجود اپنے غضب کو قابو میں رکھنے سے خدائی صبر کی اور ہزارہا رحمانہ کاموں سے اُس کی مہربانی کی عکاسی ہوتی ہے۔ پس محبت کی بابت پولس کا بیان خدا کی ان دونوں صفات پر روشنی ڈالتے ہوئے شروع ہوتا ہے جس نے الہٰی سزا کے لائق لوگوں کے لئے مسیح کے وسیلے صبر اور مہربانی کا مظاہرہ کِیا ہے۔“
کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟
• یسوع کن طریقوں سے تحمل کا ایک شاندار نمونہ ہے؟
• متحمل بننے میں کونسی چیز ہماری مدد کرے گی؟
• تحمل خاندانوں، مسیحی برادری اور بزرگوں کیلئے کیسے مددگار ثابت ہوتا ہے؟
• متحمل بننے سے ہمیں اور دوسروں کو کیسے فائدہ پہنچے گا؟
[مطالعے کے سوالات]
۱. تحمل کی ایک عمدہ مثال بیان کریں۔
۲. ”تحمل“ کے لئے یونانی لفظ کے لغوی معنی کیا ہیں اور یہ لفظ کیا مفہوم پیش کرتا ہے؟
۳. تحمل کی بابت مسیحی نقطۂنظر پہلی صدی کے یونانیوں کے نقطۂنظر سے کیسے فرق تھا؟
۴، ۵. یسوع نے تحمل کی کونسی شاندار مثال فراہم کی؟
۶. پولس نے یسوع کے تحمل سے کیسے فائدہ اُٹھایا اور ہم اس سے کیا سیکھتے ہیں؟
۷. تحمل اور روحالقدس میں کیا تعلق ہے؟
۸. تحمل سمیت روح کے پھل پیدا کرنے میں کونسی چیز ہماری مدد کرے گی؟
۹. پولس نے غالباً کس وجہ سے کرنتھس کے مسیحیوں کو کہا کہ ”محبت صابر ہے“؟
۱۰. (ا) محبت متحمل بننے میں کس طریقے سے ہماری مدد کرتی ہے اور اس سلسلے میں پولس رسول کیا مشورت دیتا ہے؟ (ب) خدا کے تحمل اور مہربانی کی بابت ایک بائبل عالم نے کیا رائےزنی کی؟ (فٹنوٹ دیکھیں۔)
۱۱. بالخصوص مسیحیوں میں تحمل کا ہونا کیوں ضروری ہے؟
۱۲. صبرآزما حالات میں تحمل کیوں ضروری ہے؟
۱۳. پولس کو کس چیز نے برداشت کرنے کے قابل بنایا تھا اور اُس کی مثال برداشت کرنے میں ہماری مدد کیسے کر سکتی ہے؟
۱۴. پولس نے تحمل جیسی خدائی خوبیوں کو کس سے تشبِیہ دی اور اُس نے کُلسّے کے مسیحیوں کو کیا مشورت دی؟
۱۵. جب مسیحی تحمل اور دیگر خدائی خوبیوں کا لباس ’پہنتے‘ ہیں تو اس کا کیا نتیجہ ہوتا ہے؟
۱۶. جب ہم ”سب کے ساتھ تحمل“ سے پیش آتے ہیں تو اس کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے؟
۱۷. ہم یہوواہ کی محبت اور تحمل کی نقل کیسے کر سکتے ہیں اور ہمیں ایسا کیوں کرنا چاہئے؟
۱۸. کُلسّے کے مسیحیوں کیلئے پولس نے کیا دُعا کی؟
۱۹، ۲۰. (ا) ہم یہوواہ کے مستقل تحمل کو ایک آزمائش خیال کرنے سے کیسے گریز کر سکتے ہیں؟ (ب) ہمارے متحمل بننے سے کیا فوائد حاصل ہونگے؟
[صفحہ ۱۵ پر تصویر]
یسوع سخت دباؤ کے تحت بھی اپنے شاگردوں کیساتھ صبر سے پیش آیا
[صفحہ ۱۶ پر تصویر]
مسیحی نگہبانوں کو اپنے بھائیوں کے ساتھ برتاؤ میں تحمل کا ایک اچھا نمونہ قائم کرنا چاہئے
[صفحہ ۱۷ پر تصویر]
اگر ہم یہوواہ کی محبت اور تحمل کی نقل کرتے ہیں تو ہم خوشخبری کی منادی کرنا جاری رکھیں گے
[صفحہ ۱۸ پر تصویر]
پولس رسول نے مسیحیوں کیلئے دُعا کی کہ وہ ’خوشی کیساتھ تحمل‘ ظاہر کریں