آپ کا مستقبل کیا ہوگا؟
اگر قادرِمطلق خدا علیموبصیر ہے، ماضی، حال اور مستقبل کی بابت سب کچھ جانتا ہے تو کیا تمام واقعات کا اسی طرح وقوعپذیر ہونا مُعیّن نہیں کر دیا گیا جیسےکہ خدا اُنہیں پہلے ہی سے دیکھ چکا ہے؟ اگر خدا نے ہر انسان کی روش اور اسکے مقدر کو پہلے سے دیکھ لیا ہے اور اسکا تعیّن کر دیا ہے تو کیا بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کی روش، اپنے مستقبل کا انتخاب کرنے کیلئے آزاد ہیں؟
ان سوالات پر صدیوں سے بحث ہوتی رہی ہے۔ اختلاف اب بھی بڑے مذاہب کو منقسم کر دیتا ہے۔ کیا خدا کی مستقبل کی بابت پیشگی علم رکھنے کی صلاحیت، انسان کی آزاد مرضی سے ہمآہنگ ہے؟ جواب کیلئے ہمیں کس پر انحصار کرنا چاہئے؟
پوری دُنیا میں لاکھوں لوگ اتفاق کریں گے کہ خدا نے اپنے تحریری کلام کے ذریعے نوعِانسان سے رابطہ رکھا ہے جو اسکے نمائندوں، نبیوں کے ذریعے دیا گیا۔ مثال کے طور پر، قرآن، توریت (تورہ، شریعت یا موسیٰ کی پانچ کتابیں)، زبور (مزامیر) اور انجیل (مسیحی یونانی صحائف یا ”نیا عہدنامہ“) کے علاوہ اسرائیل کے نبیوں پر آشکاراکردہ باتوں کا خدا کے الہام کے طور پر حوالہ دیتا ہے۔
مسیحی یونانی صحائف میں ہم پڑھتے ہیں: ”ہر ایک صحیفہ جو خدا کے الہام سے ہے تعلیم اور الزام اور اصلاح اور راستبازی میں تربیت کرنے کے لئے فائدہمند بھی ہے۔“ ( ۲-تیمتھیس ۳:۱۶) واضح طور پر، ہم جو بھی راہنمائی یا بصیرت حاصل کرتے ہیں، اُسے بنیادی طور پر خدا کی طرف سے ہونا چاہئے۔ چنانچہ کیا خدا کے پہلے نبیوں کی تحریروں کا جائزہ لینا دانشمندی کی بات نہ ہو گی؟ وہ ہمارے مستقبل کی بابت کیا آشکارا کرتی ہیں؟
پیشازیں تحریر مستقبل
پاک صحائف کا مطالعہ کرنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ اس میں واقعی سینکڑوں پیشینگوئیاں پائی جاتی ہیں۔ تاریخی واقعات جیسےکہ قدیم بابل کا سقوط، یروشلیم کی دوبارہ تعمیر (چھٹی تا پانچویں صدی ق.س.ع.) اور مادی فارس اور یونان کے قدیمی بادشاہوں کے عروجوزوال کی بابت مفصل پیشینگوئی کی گئی تھی۔ (یسعیاہ ۱۳:۱۷-۱۹؛ ۴۴:۲۴–۴۵:۱؛ دانیایل ۸:۱-۷، ۲۰-۲۲) ایسی پیشینگوئیوں کی تکمیل اس بات کا ٹھوس ثبوت ہے کہ پاک صحائف یقیناً خدا کا کلام ہیں کیونکہ صرف خدا ہی یہ دیکھنے اور فیصلہ کرنے کی قوت رکھتا ہے کہ مستقبل میں کیا ہوگا۔ اس لحاظ سے پاک صحائف میں مستقبل واقعی پہلے سے تحریر ہے۔
خدا خود بیان کرتا ہے: ”مَیں خدا ہوں اور مجھ سا کوئی نہیں۔ جو ابتدا ہی سے انجام کی خبر دیتا ہوں اور ایّامِقدیم سے وہ باتیں جو اب تک وقوع میں نہیں آئیں بتاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ میری مصلحت قائم رہیگی اور مَیں اپنی مرضی بالکل پوری کرونگا۔ مَیں ہی نے یہ کہا اور مَیں ہی اسکو وقوع میں لاؤنگا۔ . . . مَیں نے اسکا ارادہ کِیا اور مَیں ہی اسے پورا کرونگا۔“ (یسعیاہ ۴۶:۹-۱۱؛ ۵۵:۱۱،۱۰) جس نام سے خدا نے اپنے قدیم نبیوں کو اپنی شناخت کروائی وہ یہوواہ ہے جسکے لفظی معنی ہیں وہ ”جو وجود میں لانے کا سبب بنتا ہے۔“a (پیدایش ۱۲:۷، ۸؛ خروج ۳:۱۳-۱۵؛ زبور ۸۳:۱۸) خدا خود کو ایک ایسی ہستی کے طور پر ظاہر کرتا ہے جو اپنے قول اور مقاصد کو ہمیشہ پورا کرتا ہے۔
چنانچہ خدا مستقبل کی بابت پیشگی علم رکھنے کی اپنی قوت کو اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے استعمال کرتا ہے۔ اُس نے اِسے اکثر شریروں کو آنے والی عدالت سے آگاہ کرنے اور اپنے خادموں کو نجات کی اُمید دینے کیلئے استعمال کِیا ہے۔ تاہم کیا خدا اس قوت کو غیرمحدود طریقے سے استعمال کرتا ہے؟ کیا پاک صحائف سے بعض ایسی باتوں کا ثبوت ملتا ہے جنکی بابت خدا نے پہلے سے نہ جاننے کا انتخاب کِیا ہو؟
کیا خدا سب باتوں کا پیشگی علم رکھتا ہے؟
تقدیر کی حمایت کرنے والے تمام دلائل اس مفروضے پر مبنی ہیں کہ چونکہ خدا مسلمہ طور پر، مستقبل کے واقعات کی بابت پیشگی علم اور فیصلہ کرنے کی قوت رکھتا ہے لہٰذا اُسے ہر فرد کے اعمال سمیت سب باتوں کا پہلے ہی سے علم ہونا چاہئے۔ تاہم کیا یہ مفروضہ معقول ہے؟ خدا اپنے پاک صحائف میں جو کچھ ظاہر کرتا ہے وہ اسکے برعکس ہے۔
مثال کے طور پر، صحائف بیان کرتے ہیں کہ ”خدا“ نے یہ حکم دیکر ”اؔبرہام کو آزمایا“ کہ وہ اپنے بیٹے اضحاق کو سوختنی قربانی کے طور پر چڑھائے۔ جب ابرہام اضحاق کو قربان کرنے کو تھا تو خدا نے اسے روک دیا اور کہا: ”مَیں اب جان گیا ہوں کہ تُو خدا سے ڈرتا ہے اسلئے کہ تُو نے اپنے بیٹے کو بھی جو تیرا اِکلوتا ہے مجھ سے دریغ نہ کِیا۔“ (پیدایش ۲۲:۱-۱۲) اگر خدا پہلے سے جانتا تھا کہ ابرہام اس حکم کی تعمیل کریگا تو کیا وہ ایسا بیان دیتا؟ کیا وہ ایک حقیقی آزمائش ہوتی؟
مزیدبرآں، قدیم نبی بیان کرتے ہیں کہ بعض اوقات خدا نے جوکچھ کِیا تھا یا کرنے کی بابت سوچ رہا تھا اس پر اسے ’رنج‘ ہوا جسکا اس نے بارہا اظہار کِیا۔ مثال کے طور پر، خدا نے فرمایا کہ وہ ”ساؤل کو . . . بادشاہ . . . مقرر کر کے ملول [عبرانی ناچم سے] ہوا۔“ (۱-سموئیل ۱۵:۱۱، ۳۵؛ مقابلہ کریں یرمیاہ ۱۸:۷-۱۰؛ یوناہ ۳:۱۰۔) چونکہ خدا کامل ہے لہٰذا ان آیات کا یہ مطلب نہیں ہو سکتا کہ خدا نے ساؤل کو اسرائیل کا پہلا بادشاہ منتخب کر کے غلطی کی تھی۔ اسکے برعکس انہیں ظاہر کرنا چاہئے کہ خدا کو ساؤل کے بےایمان اور نافرمان بننے کی وجہ سے افسوس ہوا۔ اگر خدا ساؤل کے اعمال کی بابت پیشگی علم رکھتا تھا تو اپنی بابت خدا کا ایسا اظہار بےمعنی تھا۔
سب سے قدیم صحائف میں یہی اصطلاح نوح کے زمانے کے حوالے سے بھی ملتی ہے جہاں یہ بیان ہے: ”تب خداوند زمین پر انسان کو پیدا کرنے سے ملول ہؤا اور دل میں غم کِیا۔ اور خداوند خدا نے کہا کہ مَیں انسان کو جسے میں نے پیدا کِیا رویِزمین پر سے مٹا ڈالونگا۔ . . . کیونکہ مَیں اُنکے بنانے سے ملول ہوں۔“ (پیدایش ۶:۶، ۷) یہاں پھر یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ خدا نے انسان کے اعمال کا تعیّن پہلے سے نہیں کِیا ہے۔ خدا کو رنج، دکھ، صدمہ بھی ہوا اس لئے نہیں کہ اُس سے غلطیاں ہو گئی تھیں بلکہ اس لئے کہ انسان کی بُرائی بہت بڑھ گئی تھی۔ خالق کو افسوس ہوا کیونکہ نوح اور اسکے خاندان کے علاوہ تمام نوعِانسان کی تباہی ضروری ہو گئی تھی۔ خدا ہمیں یقین دلاتا ہے: ’مجھے شریر کے مرنے میں کچھ خوشی نہیں۔‘—حزقیایل ۳۳:۱۱؛ مقابلہ کریں استثنا ۳۲:۴، ۵۔
پس کیا آدم کے گناہ میں پڑنے اور نتیجتاً انسانی خاندان کی بدبخت حالت کی بابت خدا پیشگی علم رکھتا تھا بلکہ اس کی مرضی تھی؟ ہم نے جو سوچبچار کی ہے اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ درست نہیں ہو سکتا۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اگر خدا پہلے ہی سے سب کچھ جانتا تھا تو انسان کو بنانے سے اس نے گناہ کا آغاز کِیا اور وہ انسان کی تمام بُرائی اور مصائب کیلئے دانستہ طور پر ذمہدار ہے۔ واضح طور پر، خدا نے صحائف میں اپنی بابت جو آشکارا کِیا ہے یہ اس سے ہمآہنگ نہیں ہو سکتا۔ وہ محبت اور انصاف کا خدا ہے جو بدی سے نفرت رکھتا ہے۔—زبور ۳۳:۵؛ امثال ۱۵:۹؛ ۱-یوحنا ۴:۸۔
انسان کے دو انجام
پاک صحائف یہ ظاہر نہیں کرتے کہ خدا نے ہمارے انفرادی مستقبل کی بابت پہلے ہی سے فیصلہ کر رکھا ہے یا تعیّن کر دیا ہے۔ اس کے برعکس وہ ظاہر کرتے ہیں کہ خدا نے انسان کیلئے صرف دو امکانی انجاموں کی پیشینگوئی کی ہے۔ خدا نے ہر شخص کو آزاد مرضی سے نوازا ہے کہ وہ ان میں سے اپنے لئے کسی ایک انجام کا انتخاب کر لے۔ موسیٰ نبی نے کافی پہلے اسرائیلیوں کے سامنے بیان کِیا: ”مَیں نے زندگی اور موت کو . . . تیرے آگے رکھا ہے پس تُو زندگی کو اختیار کر کہ تو بھی جیتا رہے اور تیری اولاد بھی۔ تاکہ تُو خداوند اپنے خدا سے محبت رکھے اور اُسکی بات سنے اور اُسی سے لپٹا رہے کیونکہ وہی تیری زندگی اور تیری عمر کی درازی ہے۔“ (استثنا ۳۰:۱۹، ۲۰) خدا کے نبی یسوع نے پہلے سے آگاہ کِیا: ”تنگ دروازہ سے داخل ہو کیونکہ وہ دروازہ چوڑا ہے اور وہ راستہ کشادہ ہے جو ہلاکت کو پہنچاتا ہے اور اس سے داخل ہونے والے بہت ہیں۔ کیونکہ وہ دروازہ تنگ ہے اور وہ راستہ سکڑا ہے جو زندگی کو پہنچاتا ہے اور اُسکے پانے والے تھوڑے ہیں۔“ (متی ۷:۱۳، ۱۴) دو راستے، دو انجام۔ ہمارے مستقبل کا انحصار ہمارے اپنے اعمال پر ہے۔ خدا کی فرمانبرداری کا مطلب زندگی اور اسکی نافرمانی کا مطلب ہلاکت ہے۔—رومیوں ۶:۲۳۔
خدا ”سب آدمیوں کو ہر جگہ حکم دیتا ہے کہ توبہ کریں۔ کیونکہ اُس نے ایک دن ٹھہرایا ہے جس میں وہ راستی سے دُنیا کی عدالت . . . کریگا۔“ (اعمال ۱۷:۳۰، ۳۱) جیسےکہ نوح کے دنوں میں اکثریت نے خدا کی نافرمانی کرنے کا انتخاب کِیا اور نابود ہو گئے، اسی طرح آجکل بھی اکثریت خدا کے احکام کی پابندی نہیں کرتی۔ تاہم، خدا نے پہلے ہی سے اس بات کا تعیّن نہیں کِیا کہ کون تباہ کِیا جائیگا اور کون نجات پائیگا۔ درحقیقت خدا کا کلام بیان کرتا ہے کہ وہ ”کسی کی ہلاکت نہیں چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ سب کی توبہ تک نوبت پہنچے۔“ (۲-پطرس ۳:۹) نہایت بُرے لوگ بھی توبہ کر کے فرمانبردار بن سکتے ہیں اور خدا کی مقبولیت حاصل کرنے کیلئے ضروری تبدیلیاں لاتے ہیں۔—یسعیاہ ۱:۱۸-۲۰؛ ۵۵:۶، ۷؛ حزقیایل ۳۳:۱۴-۱۶؛ رومیوں ۲:۴-۸۔
فرمانبردار انسانوں کیلئے خدا ایک پُراَمن فردوس میں زندگی کا وعدہ کرتا ہے، ایسی زمین جو تمام بُرائی، تشدد اور جنگ سے پاک ہو گی، ایک ایسی دُنیا جہاں بھوک، تکلیف، بیماری اور موت نہ ہو گی۔ (زبور ۳۷:۹-۱۱؛ ۴۶:۹؛ یسعیاہ ۲:۴؛ ۱۱:۶-۹؛ ۲۵:۶-۸؛ ۳۵:۵، ۶؛ مکاشفہ ۲۱:۴) مردے بھی قیامت پائیں گے اور اُنہیں بھی خدا کی خدمت کا موقع دیا جائیگا۔—دانیایل ۱۲:۲؛ یوحنا ۵:۲۸، ۲۹۔
”کامل آدمی پر نگاہ کر اور راستباز کو دیکھ،“ زبورنویس بیان کرتا ہے، ”کیونکہ صلح دوست آدمی کیلئے اجر ہے۔ لیکن خطاکار اکٹھے مر مٹینگے۔ شریروں کا انجام ہلاکت ہے۔“ (زبور ۳۷:۳۷، ۳۸) آپکا مستقبل کیا ہوگا؟ اس کا انحصار آپ پر ہے۔ اس رسالے کے ناشرین آپکو ایک خوشآئند اور پُراَمن مستقبل کا یقین کرنے کے قابل بنانے کیلئے مزید معلومات فراہم کرنے میں خوشی محسوس کرینگے۔
[فٹنوٹ]
a نام یہوواہ پاک صحائف میں ۷،۰۰۰ سے زیادہ مرتبہ آتا ہے؛ ۱۹۹۵ میں واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک، انکارپوریٹڈ کی طرف سے شائعکردہ ٹریکٹ دی گریٹسٹ نیم (اسمِاعظم) کو دیکھیں۔
[صفحہ 6 پر عبارت]
خدا پیشگی علم رکھنے کی اپنی قوت کو اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے استعمال کرتا ہے
[صفحہ 7 پر عبارت]
خدا ”کسی کی ہلاکت نہیں چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ سب کی توبہ تک نوبت پہنچے۔“ ۲ پطرس ۳:۹