یہوواہ ہمیں طرح طرح کی مصیبتوں میں تسلی دیتا ہے
”جب ہم طرح طرح کی مصیبتوں سے گزرتے ہیں تو خدا ہمیں تسلی دیتا ہے۔“—2-کُرنتھیوں 1:3، 4۔
1، 2. (الف) یہوواہ مشکل وقت میں ہمیں تسلی کیسے دیتا ہے؟ (ب) اُس کے کلام میں ہمیں کس بات کا یقین دِلایا گیا ہے؟
ایک غیرشادیشُدہ جوان بھائی کو 1-کُرنتھیوں 7:28 میں لکھی یہ بات سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ”جو لوگ شادی کرتے ہیں، اُنہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔“ اُس نے ایک شادیشُدہ بزرگ سے پوچھا کہ ”یہ کس طرح کی مشکلات ہیں؟ اور جب مَیں شادی کروں گا تو مَیں اِن سے کیسے نمٹ سکوں گا؟“ اِن سوالوں کا جواب دینے سے پہلے بزرگ نے جوان بھائی سے کہا کہ وہ پولُس رسول کی اِس بات پر بھی غور کرے: ”جب ہم طرح طرح کی مصیبتوں سے گزرتے ہیں تو خدا ہمیں تسلی دیتا ہے۔“—2-کُرنتھیوں 1:3، 4۔
2 اور واقعی یہوواہ ہمارا آسمانی باپ ہمیں مشکل وقت میں تسلی دیتا ہے کیونکہ وہ ہم سے محبت کرتا ہے۔ آپ کو اپنی زندگی میں ایسے واقعات ضرور یاد ہوں گے جب یہوواہ نے اپنے کلام کے ذریعے آپ کی رہنمائی اور مدد کی۔ ہم پورا یقین رکھ سکتے ہیں کہ وہ ہمارا بھلا چاہتا ہے، بالکل جیسے وہ ماضی میں اپنے بندوں کا بھلا چاہتا تھا۔—یرمیاہ 29:11، 12 کو پڑھیں۔
3. اِس مضمون میں ہم کن باتوں پر غور کریں گے؟
3 مشکلات اور مصیبتوں کو برداشت کرنا اُس وقت زیادہ آسان ہوتا ہے جب ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ یہ ہم پر کیوں آتی ہیں۔ اور یہی بات گھریلو زندگی میں کھڑی ہونے والی مشکلات کے بارے میں بھی سچ ہے۔ اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ گھریلو زندگی میں کس طرح کی مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں۔ اِس کے علاوہ ہم دیکھیں گے کہ قدیم اور جدید زمانے میں خدا کے کچھ بندوں نے تسلی پانے کے لیے کیا کِیا اور ہم اُن کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں۔
ازدواجی زندگی میں مشکلات
4، 5. شوہر اور بیوی کو کس طرح کی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے؟
4 جب یہوواہ نے حوا کو خلق کِیا تو وہ اُنہیں آدم کے پاس لے گیا اور حوا، آدم کی بیوی بن گئیں۔ پھر یہوواہ نے کہا: ”مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑے گا اور اپنی بیوی سے ملا رہے گا اور وہ ایک تن ہوں گے۔“ (پیدایش 2:24) آجکل ہم سب گُناہگار ہیں اِس لیے ہمیں اِس بات کی توقع کرنی چاہیے کہ ہر شادیشُدہ جوڑے کی ازدواجی زندگی میں مسئلے کھڑے ہوں گے۔ (رومیوں 3:23) مثال کے طور پر اگر ایک لڑکی شادی کرنے سے پہلے اپنے والدین کے ساتھ رہتی ہے تو وہ اُن کی تابع ہے۔ لیکن شادی کرنے کے بعد وہ اپنے شوہر کے تابع ہو جاتی ہے کیونکہ بائبل میں لکھا ہے کہ شوہر اپنی بیوی کا سربراہ ہے۔ (1-کُرنتھیوں 11:3) ہو سکتا ہے کہ شروع شروع میں شوہر کو بیوی کی سربراہی کرنا مشکل لگے اور بیوی کو اپنے والدین کی بات ماننے کی بجائے اپنے شوہر کی بات ماننا مشکل لگے۔ اِس کے علاوہ سُسرالیوں کے ساتھ اَنبن ہونے کی وجہ سے بھی ازدواجی زندگی میں مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں۔
5 پھر جب میاں بیوی کو پتہ چلتا ہے کہ اُن کے ہاں ایک ننھا مہمان آنے والا ہے تو اُن کے دل میں ملے جلے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ ایک طرف تو وہ بہت خوش ہوتے ہیں مگر دوسری طرف اُن کے دل میں کچھ خدشات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر شاید وہ حمل کے دوران ماں اور بچے کی صحت کے حوالے سے فکرمند ہوں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ بچے کی وجہ سے اُن کے اخراجات بڑھ جائیں گے۔ بچے کی پیدائش کے بعد بیوی کا دھیان اُس کی دیکھبھال پر لگا رہے گا جس کی وجہ سے شاید وہ شوہر کو زیادہ وقت نہیں دے پائے گی۔ اِس کے ساتھ ساتھ شوہر کی بھی ذمےداریاں بڑھ جائیں گی کیونکہ اُسے نہ صرف اپنی بیوی کی بلکہ اپنے بچے کی بھی ضروریات پوری کرنی پڑیں گی۔
6-8. کچھ شادیشُدہ جوڑے اُس وقت کیسا محسوس کرتے ہیں جب اُن کی اولاد نہیں ہوتی؟
6 کچھ شادیشُدہ جوڑوں کو ایک اَور طرح کی مشکل کا سامنا ہوتا ہے۔ وہ اولاد کی خواہش رکھتے ہیں لیکن اُن کی کوئی اولاد نہیں ہوتی۔ اِس وجہ سے شاید بیوی شدید مایوسی کا شکار ہو جائے۔ (امثال 13:12) جس زمانے میں بائبل لکھی گئی، اُس زمانے میں بانجھپن رُسوائی کا باعث ہوتا تھا۔ یعقوب کی بیوی راخل یہ دیکھ کر بہت افسردہ تھیں کہ اُن کی بہن کے اِتنے بچے ہیں جبکہ اُن کی کوئی اولاد نہیں۔ (پیدایش 30:1، 2) آج بھی کچھ ملکوں میں بچے پیدا کرنے کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ اِن ملکوں میں لوگ مشنریوں سے اکثر پوچھتے ہیں کہ اُن کے بچے کیوں نہیں ہیں۔ جب مشنری اُنہیں یہ بات سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں تو لوگ پھر بھی کہتے ہیں کہ ”ہم آپ کے لیے دُعا کریں گے۔“
7 ذرا اِنگلینڈ میں رہنے والی ایک بہن کی مثال پر غور کریں جو شدت سے بچے کی خواہش رکھتی تھی۔ جب اُسے پتہ چلا کہ وہ ماں نہیں بن سکتی تو اُس کا دل ٹوٹ گیا۔ پھر اُس نے اور اُس کے شوہر نے ایک بچہ گود لینے کا فیصلہ کِیا۔ لیکن اُس بہن نے کہا: ”مَیں پھر بھی کچھ عرصے تک کافی دُکھی رہی۔ بچے کو جنم دینے اور بچے کو گود لینے میں بڑا فرق ہے۔“
8 خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ ”عورتیں ماں بن کر محفوظ رہیں گی۔“ (1-تیمُتھیُس 2:15) اِس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک عورت کو صرف اِس لیے ہمیشہ کی زندگی ملے گی کیونکہ وہ ایک ماں ہے۔ تو پھر اِس آیت کا کیا مطلب ہے؟ عام طور پر ایک ماں اپنے بچوں اور گھر کو سنبھالنے میں اِتنی مصروف رہتی ہے کہ اُس کے پاس فضول باتیں کرنے اور دوسروں کے معاملوں میں دخل دینے کے لیے وقت نہیں رہتا۔ (1-تیمُتھیُس 5:13) لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ازدواجی اور گھریلو مسائل سے محفوظ رہے گی۔
یہوواہ خدا نے بہت سے وعدے کیے ہیں جن پر غور کرنے سے ہم مشکل وقت میں تسلی پا سکتے ہیں۔
9. ازدواجی زندگی میں کون سی مشکل آ سکتی ہے؟
9 کبھی کبھار ازدواجی زندگی میں ایسی مشکل بھی آتی ہے جس کے بارے میں شادیشُدہ جوڑے نے سوچا بھی نہیں ہوتا، یعنی جیون ساتھی کی موت۔ یہ ایک بہت ہی مشکل گھڑی ہوتی ہے۔ لیکن مسیحیوں کو یسوع مسیح کے اِس وعدے پر پکا یقین ہے کہ مُردے زندہ ہوں گے۔ (یوحنا 5:28، 29) اِس وعدے پر غور کرنے سے اُنہیں کافی تسلی ملتی ہے۔ یہوواہ خدا نے اپنے کلام میں اَور بھی بہت سے وعدے کیے ہیں جن سے ہم مشکل وقت میں تسلی پا سکتے ہیں۔ آئیں، اب یہوواہ کے کچھ خادموں کی زندگی پر غور کریں اور دیکھیں کہ یہوواہ نے اُنہیں کیسے تسلی دی اور اُنہیں اِس سے کیا فائدے ہوئے۔
مصیبتوں میں تسلی
10. حنّہ نے تسلی پانے کے لیے کیا کِیا؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔)
10 غور کریں کہ القانہ کی بیوی حنّہ کو کس مشکل کا سامنا تھا۔ اُنہیں اولاد کی شدید خواہش تھی لیکن وہ بانجھ تھیں۔ البتہ حنّہ کی سوتن فننہ کے بہت بچے تھے۔ (1-سموئیل 1:4-7 کو پڑھیں۔) سونے پہ سہاگا یہ کہ فننہ ”سال بسال“ حنّہ کو بےاولاد ہونے کے طعنے دیا کرتی تھیں جس کی وجہ سے حنّہ بہت دُکھی اور پریشان رہتی تھیں۔ اُنہوں نے تسلی پانے کے لیے کیا کِیا؟ اُنہوں نے یہوواہ سے دُعا کی۔ وہ خیمۂاِجتماع میں جا کر بھی دیر تک یہوواہ سے دُعا کرتی رہیں اور اُس سے ایک بیٹا مانگا۔ اُن کو پکا یقین تھا کہ یہوواہ اُن کی مدد کرے گا اِس لیے دُعا کرنے کے بعد اُن کا دل ہلکا ہو گیا اور اُن کا ”چہرہ اُداس نہ رہا۔“ (1-سموئیل 1:12، 17، 18) وہ جانتی تھیں کہ یہوواہ یا تو اُن کو ایک بیٹا بخشے گا یا پھر کسی اَور طریقے سے اُن کو سکون بخشے گا۔
11. دُعا کرنے سے ہمیں تسلی کیسے ملتی ہے؟
11 چونکہ ہم گُناہگار ہیں اور شیطان کی دُنیا میں رہ رہے ہیں اِس لیے ہمیں مشکلات اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ (1-یوحنا 5:19) لیکن ہم بےآسرا نہیں ہیں کیونکہ ہم یہوواہ سے دُعا کر سکتے ہیں جو ”بڑی تسلی بخشتا ہے۔“ حنّہ نے کُھل کر یہوواہ کو اپنے احساسات اور جذبات بتائے اور اُس سے مدد کی اِلتجا کی۔ جب ہم کسی مشکل سے گزرتے ہیں تو ہمیں بھی ایسا کرنا چاہیے۔ دُعا کرتے وقت ہمیں نہ صرف اپنی صورتحال کا ذکر کرنا چاہیے بلکہ یہوواہ کو اپنے دل کا حال بھی بتانا چاہیے اور اُس سے مدد کی اِلتجا کرنی چاہیے۔—فِلپّیوں 4:6، 7۔
12. حناہ کو مشکل صورتحال میں تسلی کیسے ملی؟
12 ہو سکتا ہے کہ ہم بھی شدید افسردگی کا شکار ہیں کیونکہ ہماری کوئی اولاد نہیں ہے یا ہمارا کوئی عزیز فوت ہو گیا ہے۔ لیکن اِس کے باوجود ہم تسلی حاصل کر سکتے ہیں۔ ذرا حناہ کی مثال پر غور کریں جو یسوع مسیح کے زمانے میں رہتی تھیں۔ شادی کے سات سال بعد اُن کا شوہر فوت ہو گیا اور لگتا ہے کہ اُن کے بچے نہیں تھے۔ ایسی صورتحال میں اُنہوں نے تسلی پانے کے لیے کیا کِیا؟ لُوقا 2:37 میں لکھا ہے: ”وہ ہر روز ہیکل میں آتی تھیں اور دن رات خدا کی خدمت کرتی تھیں، روزے رکھتی تھیں اور اِلتجائیں کرتی تھیں۔“ 84 سال کی عمر میں بھی حناہ نے ہیکل جانے کا معمول قائم رکھا۔ اُنہیں یہوواہ کی عبادت کرنے سے تسلی اور خوشی ملتی تھی۔
13. اگر ہمارے رشتےدار ہمیں مایوس کرتے ہیں تو اچھے دوست ہمارے لیے تسلی کا باعث کیسے بنتے ہیں؟
13 اگر ہم کلیسیا میں اچھے دوست بناتے ہیں تو وہ مشکل وقت میں ہمارے لیے تسلی کا باعث بنتے ہیں۔ (امثال 18:24) جب پاؤلا پانچ سال کی تھیں تو اُن کی ماں نے یہوواہ کی خدمت کرنی چھوڑ دی۔ اِس پر پاؤلا بہت دُکھی ہوئیں۔ لیکن پھر بہن این نے جو پہلکار تھیں، پاؤلا کو تسلی دی اور اُن کا سہارا بنیں۔ پاؤلا کہتی ہیں: ”حالانکہ بہن این میری رشتےدار نہیں تھیں لیکن اُن کو میرا بہت خیال تھا۔ اِس بات سے مجھے بڑی تسلی ملی اور مَیں نے یہوواہ کی خدمت کرنی نہیں چھوڑی۔“ اب پاؤلا کی امی دوبارہ سے یہوواہ کی خدمت کر رہی ہے جس پر پاؤلا بہت خوش ہیں۔ بہن این بھی خوش ہیں کہ وہ مشکل وقت میں پاؤلا کی مدد کر پائیں۔
14. دوسروں کو تسلی دینے سے ہمیں خود کیا فائدہ ہوتا ہے؟
14 دلچسپی کی بات ہے کہ جب ہم دوسروں کی مدد کرنے میں مصروف رہتے ہیں تو ہم اکثر اپنے مسئلوں کو بھول جاتے ہیں۔ بہت سی بہنیں، چاہے وہ شادیشُدہ ہوں یا غیرشادیشُدہ، جانتی ہیں کہ لوگوں کو بادشاہت کی خوشخبری سناتے وقت وہ یہوواہ کے ساتھ کام کر رہی ہوتی ہیں اور اُس کی بڑائی کر رہی ہوتی ہیں۔ اِس سے اُنہیں بڑی خوشی ملتی ہے۔ کچھ بہنیں تو کہتی ہیں کہ مُنادی کے کام میں حصہ لینے سے وہ اپنی افسردگی پر قابو پا لیتی ہیں۔ اور واقعی، مل کر خوشخبری سنانے اور بہن بھائیوں کی مدد کرنے سے ہم سب ایک دوسرے کے زیادہ قریب ہو جاتے ہیں۔ (فِلپّیوں 2:4) پولُس رسول نے اِس سلسلے میں بہت ہی اچھی مثال قائم کی۔ وہ تھسلُنیکے کی کلیسیا کے لیے ایک ماں کی طرح بنے جو ”بڑے پیار سے اپنے ننھے بچوں کو پالتی ہے۔“ اِس کے علاوہ اُنہوں نے ایک باپ کی طرح اُس کلیسیا کے بہن بھائیوں کو ”نصیحت کی اور تسلی دی۔“—1-تھسلُنیکیوں 2:7، 11، 12 کو پڑھیں۔
خاندانوں کے لیے تسلی
15. بائبل کے مطابق بچوں کو یہوواہ کی تعلیم دینے کی ذمےداری کس کو دی گئی ہے؟
15 جب ہم کلیسیا میں اُن بہن بھائیوں کی مدد کرتے ہیں جن کے بچے ہیں تو ہمیں کیا یاد رکھنا چاہیے؟ کبھی کبھار نئے مبشر ہم سے کہتے ہیں کہ اُنہیں اپنے بچوں کو یہوواہ کی تعلیم دینے کے حوالے سے ہماری مدد کی ضرورت ہے یا پھر وہ چاہتے ہیں کہ ہم اُن کے بچوں کو بائبل کورس کرائیں۔ بائبل کے مطابق یہ والدین کی ذمےداری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو یہوواہ کی تعلیم دیں اور اُن کی تربیت کریں۔ (امثال 23:22؛ اِفسیوں 6:1-4) بِلاشُبہ کچھ ایسی صورتحال ہوتی ہیں جن میں والدین کی مدد کرنا مناسب ہوتا ہے۔ لیکن یہ بہت اہم ہے کہ وہ خود اپنے بچوں کو یہوواہ کے بارے میں سکھائیں۔ اُنہیں اپنے بچوں سے باقاعدگی سے باتچیت کرنی چاہیے۔
والدین کو اپنے بچوں سے باقاعدگی سے باتچیت کرنی چاہیے۔
16. دوسروں کے بچوں کو بائبل کورس کراتے وقت ہمیں کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے؟
16 اگر ہم والدین کے کہنے پر اُن کے بچوں کو بائبل کورس کرا رہے ہیں تو ہمیں والدین کی جگہ لینے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ ہمیں یہ بات اُس وقت بھی یاد رکھنی چاہیے جب ہم ایک ایسے بچے کو بائبل کورس کراتے ہیں جس کے والدین یہوواہ کے گواہ نہیں ہیں۔ جب ہم دوسروں کے بچوں کو بائبل کورس کراتے ہیں تو دانشمندی کی بات ہوگی کہ ہم والدین کی موجودگی میں ایسا کریں یا ایک پُختہ مسیحی کو اپنے ساتھ لے جائیں یا پھر بائبل کورس کسی ایسی جگہ کرائیں جہاں اَور لوگ بھی موجود ہوں۔ یوں کسی کو ہماری نیت پر شک کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ اُمید ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ والدین خود اپنے بچوں کو یہوواہ کے بارے میں سکھانے لگیں۔
17. بچے اور نوجوان اپنے گھر والوں کے لیے تسلی کا باعث کیسے بن سکتے ہیں؟
17 ایسے بچے اور نوجوان جو یہوواہ سے محبت کرتے ہیں، وہ اپنے گھر والوں کے لیے تسلی کا باعث کیسے بن سکتے ہیں؟ اپنے والدین کی عزت کرنے اور اُن کی عملی مدد کرنے سے۔ وہ خدا کے وفادار رہنے سے بھی اپنے گھر والوں کی حوصلہافزائی کر سکتے ہیں۔ نوح کے باپ لمک نے اپنے بیٹے کے بارے میں یہ پیشگوئی کی: ”یہ ہمارے ہاتھوں کی محنت اور مشقت سے جو زمین کے سبب سے ہے جس پر [یہوواہ] خدا نے لعنت کی ہے ہمیں آرام دے گا۔“ یہ پیشگوئی اُس وقت پوری ہوئی جب یہوواہ نے طوفان کے بعد زمین سے لعنت ہٹا دی۔ (پیدایش 5:29؛ 8:21) اِسی طرح آج بھی بچے یہوواہ خدا کی عبادت کرنے سے اپنے گھر والوں کے لیے تسلی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ یوں وہ اپنے گھر والوں کی مدد کرتے ہیں تاکہ وہ نہ صرف ابھی بلکہ آنے والے مشکل وقت میں بھی ثابتقدم رہیں۔
18. ہم ہر مشکل کا مقابلہ کیسے کر پائیں گے؟
18 یہوواہ کے خادم دُعا کرنے، بائبل میں خدا کے بندوں کی مثال پر غور کرنے اور اپنے بہن بھائیوں کی قربت میں رہنے سے تسلی پاتے ہیں۔ (زبور 145:18، 19 کو پڑھیں۔) ہم جانتے ہیں کہ یہوواہ ہر وقت ہمیں تسلی دینے کو تیار ہے۔ بِلاشُبہ اُس کی مدد سے ہم ہر مشکل کا مقابلہ کر پائیں گے۔