باب نمبر 3
’وہ اُن سب کے باپ ہیں جو ایمان رکھتے ہیں‘
1، 2. طوفان کے بعد دُنیا میں کیا تبدیلی آئی اور ابراہام اِس کے بارے میں کیسا محسوس کرتے تھے؟
ذرا قدیم شہر اُور میں اِس منظر کا تصور کریں: ابراہام اپنی نظر اُوپر اُٹھاتے ہیں اور اُن کی نگاہیں آسمان کو چُھوتے اُس مندر کی طرف جاتی ہیں جس کے سائے تلے شہر اُور بستا ہے۔a وہاں سے لوگوں کا بہت شور سنائی دے رہا ہے اور آسمان پر دھوئیں کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ مندر میں چاند دیوتا کے پجاری قربانیاں چڑھا رہے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر ابراہام اپنا سر جھٹکتے ہیں اور اپنا مُنہ پھیر لیتے ہیں۔ وہ گھر جانے کے لیے مُڑتے ہیں اور بِھیڑبھاڑ والی گلیوں سے گزرتے ہوئے سوچتے ہیں کہ شہر میں بُتپرستی کس قدر رچ بس گئی ہے۔ بُتپرستی کی یہ وبا طوفانِنوح کے کچھ عرصے بعد پھیلنی شروع ہوئی تھی اور اب اِس نے پوری دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔
2 نوح، ابراہام کی پیدائش سے بس دو سال پہلے ہی فوت ہوئے تھے۔ جب نوح اور اُن کا خاندان طوفان کے بعد کشتی سے باہر آیا تو اُنہوں نے خدا کے حضور قربانی چڑھائی۔ خدا نے اُن کی قربانی کو قبول فرمایا اور پھر اُنہیں ایک کمان یعنی دھنک دِکھائی۔ (پید 8:20؛ 9:12-14) اُس وقت زمین پر صرف سچے خدا یہوواہ کی عبادت کی جاتی تھی۔ لیکن جوںجوں وقت گزرتا گیا، اِنسانوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ اب زمین پر نوح کی دسویں پُشت آباد تھی اور بہت کم لوگ سچے خدا کی عبادت کر رہے تھے۔ زیادہتر لوگ جھوٹے دیوتاؤں کی پرستش میں پڑے ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ ابراہام کے والد تارح بھی بُتپرستی میں ملوث تھے اور شاید وہ بُت بناتے بھی تھے۔—یشو 24:2۔
ابراہام نے ایمان کی عمدہ مثال کیسے قائم کی؟
3. ابراہام کس لحاظ سے اپنے زمانے کے لوگوں سے فرق تھے اور ہم اُن کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
3 ابراہام اپنے زمانے کے زیادہتر لوگوں سے فرق تھے کیونکہ وہ زندہ خدا یہوواہ پر ایمان رکھتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ فرق اَور واضح ہوتا گیا۔ کئی سال بعد پولُس رسول نے خدا کے اِلہام سے ابراہام کے بارے میں لکھا: ’وہ اُن سب لوگوں کے باپ ہیں جو ایمان رکھتے ہیں۔‘ (رومیوں 4:11 کو پڑھیں۔) آئیں، دیکھیں کہ ابراہام نے اِتنا مضبوط ایمان کیسے پیدا کِیا۔ اُن کی مثال پر غور کرنے سے ہم سیکھ پائیں گے کہ ہم مضبوط ایمان کے مالک کیسے بن سکتے ہیں۔
بُتپرست دُنیا میں خداپرست اِنسان
4، 5. ابراہام نے یہوواہ کے بارے میں غالباً کس سے سیکھا تھا اور ہم ایسا کیوں کہہ سکتے ہیں؟
4 ابراہام نے یہوواہ کے بارے میں کیسے سیکھا؟ ہم جانتے ہیں کہ اُس زمانے میں بھی زمین پر یہوواہ کے وفادار بندے موجود تھے جیسے کہ سم۔ حالانکہ سم، نوح کے پہلوٹھے بیٹے نہیں تھے پھر بھی نوح کے بیٹوں میں سب سے پہلے سم کا ذکر آتا ہے۔ اِس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ سم مضبوط ایمان کے مالک تھے۔b طوفان کے کچھ عرصے بعد نوح نے یہوواہ کو ”سمؔ کا خدا“ کہا۔ (پید 9:26) اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سم، یہوواہ سے پیار کرتے تھے اور صرف اُسی کی عبادت کرتے تھے۔
5 کیا ابراہام، سم کو جانتے تھے؟ شاید۔ اگر ابراہام نے سم کے بارے میں سنا تھا تو یقیناً اُن کے دل میں سم کے متعلق اور اُن سارے واقعات کے متعلق جاننے کا شوق پیدا ہوا ہوگا جو سم کی بوڑھی آنکھوں نے دیکھے تھے۔ سم کی عمر 400 سال سے زیادہ تھی اور اِس لمبے عرصے کے دوران اُنہوں نے بہت کچھ دیکھا تھا۔ مثال کے طور پر یہ کہ طوفان سے پہلے زمین پر کتنی زیادہ بُرائی تھی، یہوواہ نے اِس بُرائی کا نامونشان کیسے مٹایا تھا اور وقت کے ساتھ ساتھ زمین پر مختلف قومیں کیسے وجود میں آئی تھیں۔ اُن کی آنکھیں اُس تاریک دَور کی بھی گواہ تھیں جب نمرود نے خدا کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے ایک اُونچا بُرج بنانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن اُنہوں نے اُس باغی کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ اِس لیے جب یہوواہ نے بُرج تعمیر کرنے والوں کی زبان میں اِختلاف ڈالا تو سم اور اُن کا خاندان وہی زبان بولتے رہے جو اِنسان شروع سے بولا کرتے تھے اور نوح بھی بولتے تھے۔ اور چونکہ ابراہام، سم کی نسل سے آئے تھے اِس لیے غالباً وہ بھی وہی زبان بولتے تھے۔ بےشک اِن سب باتوں کی وجہ سے اُن کے دل میں سم کے لیے بڑا احترام تھا۔ ایک اَور بات یہ ہے کہ جب سم فوت ہوئے تو ابراہام کی عمر 150 سال تھی۔ لہٰذا ابراہام کو سم سے یہوواہ کے بارے میں سیکھنے کا کافی موقع ملا ہوگا۔
6. (الف) ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ ابراہام اِس بات کو سمجھتے تھے کہ یہوواہ نے طوفان کیوں بھیجا تھا؟ (ب) ابراہام اور سارہ نے اِکٹھے کیسی زندگی گزاری؟
6 ہم یہ تو یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ ابراہام نے یہوواہ کے بارے میں کیسے سیکھا تھا لیکن یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ سمجھ گئے تھے کہ یہوواہ نے طوفان کیوں بھیجا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اُنہوں نے نوح کی طرح یہوواہ کے ساتھ ساتھ چلنے کا عزم کِیا ہوا تھا اور اِسی لیے وہ بُتپرستی سے مکمل طور پر دُور رہے۔ یوں وہ اپنے شہر کے لوگوں، یہاں تک کہ اپنے گھر والوں سے بھی فرق نظر آئے۔ لیکن ایک بُتپرست معاشرے میں بھی اُنہیں ایک اچھا جیون ساتھی مل گیا۔ اُن کی بیوی کا نام سارہ تھا۔c سارہ نہایت خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ مضبوط ایمان کی مالک بھی تھیں۔ ابراہام اور سارہ اولاد کی خوشی سے تو محروم تھے مگر مل کر خدا کی خدمت کرنے سے اُنہیں بڑی خوشی ملتی تھی۔ اُنہوں نے ابراہام کے بھتیجے لُوط کی پرورش بھی کی جن کے والد فوت ہو چُکے تھے۔
7. یسوع مسیح کے پیروکاروں کو کس صورت میں ابراہام کی مثال پر عمل کرنے کی ضرورت ہے؟
7 ابراہام کبھی بھی اُور میں پھیلی بُتپرستی کے اثر میں نہیں آئے اور اُنہوں نے یہوواہ کو نہیں چھوڑا۔ اُنہیں اور اُن کی بیوی کو اِس بات پر رتی بھر بھی افسوس نہیں تھا کہ وہ اپنے زمانے کے لوگوں سے فرق ہیں۔ اگر ہم ابراہام جیسا ایمان پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی دُنیا کے لوگوں سے فرق نظر آنا چاہیے۔ یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کے بارے میں کہا تھا کہ وہ ”دُنیا کا حصہ نہیں“ ہوں گے اور اِس وجہ سے دُنیا اُن سے نفرت کرے گی۔ (یوحنا 15:19 کو پڑھیں۔) اگر آپ یہوواہ کی خدمت کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں اور اِس وجہ سے آپ کے گھر والے اور دوست آپ سے تعلق توڑ دیتے ہیں تو مایوس نہ ہوں۔ ابراہام اور سارہ کی مثال کو یاد رکھیں جو ایسی مشکلات کے باوجود خدا کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔
ابراہام کے لیے خدا کا پیغام
8، 9. (الف) ابراہام کون سا واقعہ کبھی بھول نہیں پائے ہوں گے؟ (ب) یہوواہ خدا نے ابراہام کو کیا پیغام دیا؟
8 ایک دن ابراہام کے ساتھ ایک ایسا واقعہ پیش آیا جو اُن کے ذہن پر ہمیشہ کے لیے نقش ہو گیا ہوگا۔ اُنہیں کائنات کے حاکمِاعلیٰ یہوواہ خدا کی طرف سے ایک پیغام ملا۔ بائبل میں اِس حوالے سے زیادہ تفصیل تو نہیں بتائی گئی کہ خدا نے یہ پیغام اُن تک کیسے پہنچایا تھا لیکن اِس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ”ہمارا شاندار خدا“ ابراہام پر ظاہر ہوا۔ (اعمال 7:2، 3 کو پڑھیں۔) شاید یہوواہ نے کسی فرشتے کے ذریعے ابراہام کو اپنی زبردست شان کی ایک جھلک دِکھائی ہو۔ بِلاشُبہ یہ منظر دیکھ کر ابراہام دنگ رہ گئے ہوں گے اور اُن کا یہ یقین اَور مضبوط ہو گیا ہوگا کہ زندہ خدا یہوواہ اور اُن بےجان بُتوں میں آسمان زمین کا فرق ہے جن کو اُس زمانے کے لوگ پوجتے تھے۔
9 یہوواہ نے ابراہام کو کیا پیغام دیا؟ اُس نے کہا: ”اپنے ملک اور رشتےداروں کو چھوڑ کر اُس ملک میں جاؤ جو مَیں تمہیں دِکھاؤں گا۔“ یہوواہ نے ابراہام کو یہ نہیں بتایا تھا کہ اُنہیں کون سے ملک میں جانا ہے۔ اُس نے بس اِتنا کہا تھا کہ وہ اُنہیں یہ ملک دِکھائے گا۔ یہوواہ کے حکم پر عمل کرنے کی خاطر ابراہام کو اپنے ملک اور رشتےداروں کو چھوڑنا تھا۔ قدیم زمانے میں اُس علاقے کے رہنے والے لوگوں کے لیے اُن کے خاندان بڑی اہمیت رکھتے تھے۔ اگر کوئی شخص اپنے رشتےداروں کو چھوڑ کر کسی دوسری جگہ منتقل ہو جاتا تھا تو لوگ سوچتے تھے کہ یہ قدم اُٹھانے سے بہتر ہوتا کہ وہ مر جاتا۔
10. ابراہام اور سارہ کے لیے اُور میں اپنا گھربار چھوڑنا کسی قربانی سے کم کیوں نہیں تھا؟
10 ابراہام کے لیے شہر اُور کو چھوڑنا کسی قربانی سے کم نہیں تھا۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اُور بڑا بارونق اور امیر شہر تھا۔ (بکس ”وہ شہر جسے ابراہام اور سارہ نے خیرباد کہہ دیا“ کو دیکھیں۔) ماہرِآثارِقدیمہ کے مطابق اُور میں لوگوں کے گھر نہایت آرامدہ ہوا کرتے تھے۔ بعض گھروں میں تو گھر والوں اور نوکرچاکروں کے لیے 12 یا اِس سے زیادہ کمرے ہوتے تھے۔ یہ کمرے ایک صحن کے اِردگِرد بنائے جاتے تھے اور اِس صحن کا فرش پتھر کا بنا ہوتا تھا۔ گھروں میں تازہ پانی کی فراہمی، بیتالخلا اور نکاسی کا بڑا اچھا اِنتظام تھا۔ یہ بات بھی قابلِغور ہے کہ اُس وقت ابراہام اور سارہ بوڑھے ہو چُکے تھے۔ ابراہام کی عمر 70 سے زیادہ تھی اور سارہ بھی 60 سے اُوپر کی ہو چُکی تھیں۔ بِلاشُبہ ہر اچھے شوہر کی طرح ابراہام بھی یہ چاہتے ہوں گے کہ سارہ کی زندگی آرامدہ ہو اور اُنہیں کسی چیز کی کمی نہ ہو۔ ذرا سوچیں کہ جب اُن دونوں نے اُور کو چھوڑنے کے حوالے سے آپس میں بات کی ہوگی تو اُن کے ذہن میں کون سے سوال اور خدشے پیدا ہوئے ہوں گے۔ یہ بھی سوچیں کہ جب سارہ نے ابراہام سے کہا ہوگا کہ وہ زندگی کے اِس اہم موڑ پر اُن کا ساتھ ضرور نبھائیں گی تو ابراہام کتنے خوش ہوئے ہوں گے! ابراہام کی طرح سارہ بھی تمام آسائشیں قربان کرنے کے لیے تیار تھیں۔
11، 12. (الف) اُور کو چھوڑنے سے پہلے ابراہام اور سارہ کو کون سی تیاریاں اور فیصلے کرنے تھے؟ (ب) اُس دن کا منظر بیان کریں جب ابراہام کا قافلہ اُور سے نکلا۔
11 جب ابراہام اور سارہ نے اُور کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تو اُنہیں بہت سارا کام کرنا تھا۔ اُنہیں اپنا سامان باندھنا تھا اور کئی اَور اِنتظامات بھی کرنے تھے۔ اُنہیں یہ دیکھنا تھا کہ جس انجان سفر پر وہ نکلنے والے ہیں، اُس کے لیے اُنہیں کون سی چیزیں ساتھ لے جانی ہیں اور کون سی نہیں۔ اُنہیں یہ فیصلہ بھی کرنا تھا کہ اُن کے ساتھ کون کون جائے گا۔ اُنہوں نے طے کِیا کہ وہ ابراہام کے عمررسیدہ والد تارح کو اپنے ساتھ لے جائیں گے اور اُن کی دیکھبھال کریں گے۔ لگتا ہے کہ تارح بھی اُن کے ساتھ جانے پر خوش تھے کیونکہ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ تارح اپنے گھرانے کو لے کر اُور سے روانہ ہوئے۔ بِلاشُبہ تارح نے اُس وقت تک بُتپرستی کرنی چھوڑ دی تھی۔ تارح کے علاوہ ابراہام کے بھتیجے لُوط بھی سفر پر جانے والوں میں شامل تھے۔—پید 11:31۔
12 آخرکار روانگی کا دن آ پہنچا۔ تصور کریں کہ ابراہام کا قافلہ شہر کے پھاٹک پر جمع ہے۔ اُونٹوں اور گدھوں پر سامان لادا جا چُکا ہے۔ سارے مویشیوں کو بھی ایک جگہ اِکٹھا کر لیا گیا ہے۔d سب گھر والے اور نوکرچاکر نکلنے کے لیے تیار کھڑے ہیں۔ ہر کسی کی نگاہیں ابراہام پر ٹکی ہیں اور وہ بس اُن کے ایک اِشارے کے منتظر ہیں۔ آخرکار نکلنے کی گھڑی آ پہنچتی ہے اور وہ اُور کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ کر سفر پر نکل پڑتے ہیں۔
13. آجکل یہوواہ کے بہت سے بندے ابراہام اور سارہ جیسا جذبہ کیسے ظاہر کرتے ہیں؟
13 آجکل یہوواہ کے بہت سے خادم ایسے علاقوں میں خدمت کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں جہاں مبشروں کی زیادہ ضرورت ہے۔ بعض مبشر زیادہ سے زیادہ لوگوں تک خوشخبری پہنچانے کے لیے کوئی نئی زبان سیکھتے ہیں۔ کچھ مبشر مُنادی کرنے کے ایسے طریقے آزماتے ہیں جو اُنہیں مشکل لگتے ہیں۔ ایسے اِقدام اُٹھانا آسان نہیں ہوتا، اِن کے لیے ہمیں اکثر اپنی کچھ آسائشیں قربان کرنی پڑتی ہیں۔ لیکن ہمارے وہ بہن بھائی قابلِتعریف ہیں جو ابراہام اور سارہ کی طرح قربانیاں دینے کو تیار رہتے ہیں۔ اگر ہم بھی ابراہام اور سارہ جیسا ایمان ظاہر کریں گے تو یہوواہ ہم پر اِتنی برکتیں نچھاور کرے گا کہ ہماری نظر میں وہ قربانیاں کچھ بھی نہیں رہیں گی جو ہم اُس کی راہ میں دیتے ہیں۔ یہوواہ اپنے بندوں کو اُن کے ایمان کا اجر ضرور دیتا ہے۔ (عبر 6:10؛ 11:6) کیا ابراہام کو بھی اُن کے ایمان کا صلہ ملا؟
خدا کے بندوں کی تاریخ کا ایک خاص واقعہ
14، 15. (الف) ابراہام کے قافلے کا اُور سے حاران تک کا سفر بیان کریں۔ (ب) ابراہام نے کچھ عرصہ حاران میں ٹھہرنے کا فیصلہ غالباً کیوں کِیا؟
14 سفر کے دوران سب لوگ آہستہ آہستہ ایک نئے طرزِزندگی کے عادی ہو گئے۔ راستے میں ابراہام اور سارہ کبھی اُونٹ یا گدھے پر بیٹھتے ہوں گے تو کبھی پیدل چلتے ہوں گے۔ چلتے چلتے وہ ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہوں گے اور ساتھ ہی اُن کے کانوں میں جانوروں کے گلوں میں بندھی گھنٹیوں کی آوازیں بھی پڑتی ہوں گی۔ وقت کے ساتھ ساتھ قافلے کے سب لوگوں نے اپنے خیمے لگانا اور اُتارنا سیکھ لیا ہوگا۔ اُنہوں نے اِس بات کا بھی خیال رکھا ہوگا کہ تارح کو اُونٹ یا گدھے پر چڑھنے اور اُترنے میں زیادہ دشواری نہ ہو۔ یہ قافلہ شمال مغرب کی طرف دریائےفرات کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتا رہا۔ سفر کرتے کرتے دن ہفتوں میں بدل گئے اور قافلہ اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہا۔
15 آخرکار تقریباً 960 کلومیٹر (600 میل) کا سفر طے کرنے کے بعد قافلہ حاران پہنچ گیا۔ حاران ایک خوشحال شہر تھا جو کہ مشرق سے مغرب کی طرف جانے والے تجارتی راستوں کے چوراہے پر واقع تھا۔ ابراہام کے خاندان نے کچھ عرصہ یہیں قیام کِیا۔ شاید اِس کی وجہ یہ تھی کہ تارح کافی کمزور ہو گئے تھے اور اُن کے لیے آگے سفر کرنا مشکل تھا۔
16، 17. (الف) یہوواہ نے ابراہام کے ساتھ کون سا عہد باندھا؟ (ب) یہوواہ نے ابراہام کو حاران میں کیسے برکت بخشی؟
16 اِس کے کچھ عرصے بعد تارح فوت ہو گئے۔ وفات کے وقت اُن کی عمر 205 سال تھی۔ (پید 11:32) اِس مشکل گھڑی میں یہوواہ نے ایک بار پھر ابراہام سے بات کی جس سے اُنہیں بڑی تسلی ملی۔ اِس موقعے پر خدا نے اُن ہدایات کو دُہرایا جو اُس نے اُنہیں اُور میں دی تھیں۔ اِس کے علاوہ خدا نے اُنہیں اُس عہد کے حوالے سے کچھ مزید تفصیلات بھی دیں جو اُس نے اُن سے باندھا تھا۔ خدا نے اُن سے وعدہ کِیا: ”مَیں تجھے ایک بڑی قوم بناؤں گا . . . اور زمین کے سب قبیلے تیرے وسیلہ سے برکت پائیں گے۔“ (پیدایش 12:2، 3 کو پڑھیں۔) بِلاشُبہ اِس بات سے ابراہام کو بڑی ہمت ملی ہوگی اور وہ اپنا سفر دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہو گئے ہوں گے۔
17 حاران سے نکلتے وقت ابراہام اور اُن کے قافلے کو پہلے سے بھی زیادہ سامان باندھنا تھا کیونکہ یہاں اُن کے قیام کے دوران یہوواہ نے اُنہیں بڑی برکت بخشی تھی۔ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ابراہام نے ”سب مال کو جو اُنہوں نے جمع کِیا تھا اور اُن آدمیوں کو جو اُن کو حاؔران میں مل گئے تھے ساتھ لیا۔“ (پید 12:5) ایک بڑی قوم بننے کے لیے ابراہام کو مالی وسائل اور نوکرچاکروں کی ضرورت تھی۔ عام طور پر یہوواہ اپنے بندوں کو مالودولت عطا نہیں کرتا لیکن وہ اُنہیں وہ تمام چیزیں ضرور فراہم کرتا ہے جو اُس کے مقصد کو پورا کرنے کے لیے درکار ہوتی ہیں۔ حاران میں ملنے والے وسائل اور نوکرچاکروں کے ساتھ ابراہام اُس ملک کی طرف روانہ ہو گئے جو خدا اُنہیں دِکھانے والا تھا۔
18. (الف) خدا نے ابراہام کے ساتھ جو عہد باندھا تھا، وہ کب نافذ ہوا؟ (ب) بعد میں 14 نیسان کو اَور کون سے خاص واقعات ہوئے؟ (بکس ”ایک نہایت اہم تاریخ“ کو دیکھیں۔)
18 کئی دن کا سفر کرنے کے بعد قافلہ شہر کرکمیس پہنچ گیا۔ یہ وہ مقام تھا جہاں سے زیادہتر قافلے دریائےفرات پار کِیا کرتے تھے۔ غالباً ابراہام نے بھی اپنے قافلے سمیت یہیں سے دریا پار کِیا۔ یہ واقعہ 1943 قبلازمسیح میں اُس مہینے کی 14 تاریخ کو پیش آیا جسے بعد میں نیسان کہا جانے لگا۔ (خر 12:40-43) اِس واقعے کو خدا کے بندوں کی تاریخ میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ لیکن کیوں؟ کیونکہ اُس دن وہ عہد نافذ ہو گیا جو خدا نے ابراہام سے باندھا تھا۔ اب ابراہام اُس ملک میں جنوب کی طرف سفر کرنے لگے جس کے حوالے سے خدا نے اُن سے وعدہ کِیا تھا۔
19. (الف) یہوواہ نے ابراہام کے ساتھ اپنے وعدے کو دُہراتے ہوئے کس بات کا ذکر کِیا؟ (ب) خدا کی بات سُن کر شاید ابراہام کے ذہن میں کیا آیا ہو؟
19 جنوب کی طرف سفر کرتے کرتے ابراہام کا قافلہ شہر سِکم کے قریب مورہ کے مقام پر بلوط کے درختوں کے پاس پہنچا۔ وہاں ایک بار پھر یہوواہ خدا نے ابراہام سے کلام کِیا۔ اب کی بار یہوواہ نے اپنے وعدے میں ابراہام کی نسل یعنی اولاد کا ذکر کِیا۔ اِسی نسل نے اُس ملک پر قبضہ کرنا تھا جس میں یہوواہ، ابراہام کو لے آیا تھا۔ کیا یہ بات سُن کر ابراہام کے ذہن میں وہ پیشگوئی آئی جو یہوواہ نے باغِعدن میں کی تھی اور جس کے مطابق ایک ”نسل“ نے اِنسانوں کو نجات دِلانی تھی؟ (پید 3:15؛ 12:7) شاید۔ ممکن ہے کہ ابراہام اِس بات کو تھوڑا بہت سمجھنے لگے تھے کہ وہ یہوواہ کے عظیم مقصد میں کوئی نہ کوئی کردار ادا کر رہے ہیں۔
20. ابراہام نے اُس اعزاز کے لیے قدر کیسے ظاہر کی جو یہوواہ نے اُنہیں دیا تھا؟
20 ابراہام اُس اعزاز کی بہت قدر کرتے تھے جو یہوواہ نے اُنہیں دیا تھا۔ چونکہ اُس ملک میں ابھی بھی کنعانی بسے ہوئے تھے جس میں ابراہام موجود تھے اِس لیے وہ اِس میں سفر کرتے ہوئے بڑے محتاط تھے۔ ابراہام نے پہلے مورہ کے مقام پر بلوط کے درختوں کے پاس اور پھر بیتایل میں قربانگاہ بنائی۔ وہاں اُنہوں نے یہوواہ کا نام لے کر اُس سے دُعا کی۔ شاید اپنی دُعا میں اُنہوں نے یہوواہ کے اِس وعدے کے لیے اُس کا شکر ادا کِیا ہو کہ وہ اُن کی نسل کو ایک بڑی قوم بنائے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اُنہوں نے اپنے آسپڑوس میں رہنے والے کنعانیوں کو زندہ خدا یہوواہ کے بارے میں بتایا ہو۔ (پیدایش 12:7، 8 کو پڑھیں۔) بِلاشُبہ ابھی ابراہام کی زندگی میں ایسے موڑ آنے تھے جب اُن کے ایمان کی آزمائش ہونی تھی۔ البتہ اُنہوں نے سمجھداری کا ثبوت دیتے ہوئے اُن آسائشوں کے بارے میں نہیں سوچا جو وہ اُور میں چھوڑ آئے تھے بلکہ اُس وعدے پر دھیان رکھا جو یہوواہ نے اُن سے کِیا تھا۔ عبرانیوں 11:10 میں ابراہام کے بارے میں لکھا ہے: ”وہ اُس شہر کا اِنتظار کر رہے تھے جس کی بنیادیں پائیدار ہیں اور جس کا نقشہساز اور معمار خدا ہے۔“
21. (الف) ہم خدا کی بادشاہت کے بارے میں کیا جانتے ہیں جو ابراہام نہیں جانتے تھے؟ (ب) آپ نے کیا کرنے کا عزم کِیا ہے؟
21 ہم اُس مجازی شہر یعنی خدا کی بادشاہت کے بارے میں ابراہام سے زیادہ علم رکھتے ہیں جس کا پولُس نے ذکر کِیا۔ ہم جانتے ہیں کہ خدا کی بادشاہت آسمان پر حکمرانی کر رہی ہے اور یہ بہت جلد اِس بُری دُنیا کو ختم کر دے گی۔ ہم اِس بات سے بھی واقف ہیں کہ ابراہام کی جس نسل کا وعدہ صدیوں پہلے کِیا گیا تھا، وہ یسوع مسیح ہیں اور اب وہ اِس بادشاہت کے بادشاہ ہیں۔ ہمارے لیے یہ کتنے اعزاز کی بات ہوگی کہ ہم ابراہام کو مُردوں میں سے زندہ ہوتے دیکھیں گے! تب ابراہام، خدا کے اُس مقصد کو پوری طرح سمجھ جائیں گے جس کی پہلے وہ تھوڑی بہت سمجھ رکھتے تھے۔ کیا آپ خدا کے ہر وعدے کو پورا ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں؟ اگر ہاں تو ابراہام کی مثال پر عمل کرتے رہیں۔ یہوواہ کی خدمت کی خاطر قربانیاں دینے کے لیے تیار رہیں، اُس کے فرمانبردار رہیں اور ہر اُس اعزاز کی قدر کریں جو وہ آپ کو بخشتا ہے۔ جب آپ ابراہام جیسا ایمان ظاہر کریں گے تو وہ ایک لحاظ سے آپ کے بھی باپ بن جائیں گے کیونکہ ’وہ اُن سب لوگوں کے باپ ہیں جو ایمان رکھتے ہیں۔‘
a اُس وقت ابراہام کا نام ابرام تھا۔ لیکن بعد میں خدا نے اُن کا نام ابرہام (ابراہام) رکھ دیا جس کا مطلب ہے: ”بہت قوموں کا باپ۔“—پید 17:5۔
b حالانکہ ابراہام بھی پہلوٹھے نہیں تھے لیکن پھر بھی تارح کے بیٹوں میں سب سے پہلے اکثر اُنہی کا ذکر آتا ہے۔
c اُس وقت سارہ کا نام ساری تھا۔ لیکن بعد میں خدا نے اُن کا نام سارہ رکھ دیا جس کا مطلب ہے: ”شہزادی۔“—پید 17:15۔
d بعض عالم اِس بات پر سوال اُٹھاتے ہیں کہ ابراہام کے زمانے میں اُونٹ کو پالتو جانور کے طور پر اِستعمال کِیا جاتا تھا۔ لیکن ایسے اِعتراضات کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ بائبل میں چند مرتبہ اِس بات کا ذکر ملتا ہے کہ ابراہام کے پاس جو مویشی تھے، اُن میں اُونٹ بھی شامل تھے۔—پید 12:16؛ 24:35۔