کیا ہمیشہ کی زندگی واقعی ممکن ہے؟
”اَے اُستاد مَیں کونسی نیکی کروں تاکہ ہمیشہ کی زندگی پاؤں؟“—متی ۱۹:۱۶۔
۱. ہمارے عرصۂحیات کی بابت کیا کہا جا سکتا ہے؟
فارس کا بادشاہ خشایارشا اوّل، جسے بائبل میں اخسویرس کہا گیا ہے، ۴۸۰ ق.س.ع. میں ایک جنگ پر جانے سے پہلے اپنے فوجی دستوں کا معائنہ کر رہا تھا۔ (آستر ۱:۱، ۲) ایک یونانی مؤرخ ہیرودوتس کے مطابق اپنے فوجی دستوں کا معائنہ کرتے ہوئے بادشاہ کے آنسو بہنے لگے۔ کیوں؟ اخسویرس نے کہا ”جب مَیں انسان کے مختصر عرصۂحیات پر غور کرتا ہوں تو مَیں غمگین ہو جاتا ہوں۔ اسلئے کہ سو سال بعد اِن میں سے ایک بھی زندہ نہیں ہوگا۔“ آپ نے بھی غالباً غور کِیا ہوگا کہ زندگی افسوسناک حد تک مختصر ہے اور کوئی بھی بوڑھا ہونا، بیمار ہونا اور مرنا نہیں چاہتا۔ کاش ہم جوانی کی صحت اور خوشی کیساتھ زندگی گزار سکیں!—ایوب ۱۴:۱، ۲۔
۲. بہتیرے کیا اُمید رکھتے ہیں اور کیوں؟
۲ ستمبر ۲۸، ۱۹۹۷ کے دی نیو یارک ٹائمز میگزین نے معنیخیز طور پر اس مضمون کو نمایاں کِیا، ”وہ زندہ رہنا چاہتے ہیں۔“ اس نے ایک محقق کا حوالہ دیا جس نے بیان کِیا: ”مجھے پورا یقین ہے کہ ہمیشہ تک زندہ رہنے والی پہلی نسل ہم ہی ہوں گے“! شاید آپ بھی یقین رکھتے ہوں کہ ہمیشہ کی زندگی ممکن ہے۔ آپ بھی شاید ایسا سوچتے ہیں کیونکہ بائبل وعدہ کرتی ہے کہ ہم زمین پر ہمیشہ تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ (زبور ۳۷:۲۹؛ مکاشفہ ۲۱:۳، ۴) تاہم، بعض لوگوں کا یقین ہے کہ بائبل میں پائی جانے والی وجوہات کے علاوہ بھی ہمیشہ کی زندگی ممکن ہے۔ ان میں سے چند وجوہات پر باتچیت کرنا اس بات کو سمجھنے میں ہماری مدد کریگا کہ ہمیشہ کی زندگی واقعی ممکن ہے۔
ہمیشہ زندہ رہنے کیلئے ترتیب دئے گئے
۳، ۴. (ا) بعض یہ یقین کیوں رکھتے ہیں کہ ہمیں ہمیشہ تک زندہ رہنے کے قابل ہونا چاہئے؟ (ب) داؤد نے اپنی بناوٹ کی بابت کیا کہا تھا؟
۳ ہم جس حیرانکُن طریقے سے خلق کئے گئے ہیں، اسکی وجہ سے بہت سے لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ انسانوں کو ہمیشہ تک زندہ رہنے کے قابل ہونا چاہئے۔ مثال کے طور پر، جس طریقے سے ہم اپنی ماں کے رحم میں تشکیل پاتے ہیں وہ یقیناً ایک معجزہ ہے۔ عمر کے اثرات پر تحقیق کرنے والے ممتاز ماہر نے تحریر کِیا: ”استقرارِحمل سے ہماری پیدائش اور جنسی پختگی اور بلوغت کو پہنچنے تک واقع ہونے والے معجزات انجام دینے کے بعد قدرت نے ان معجزات کو ہمیشہ تک قائم رکھنے کیلئے کوئی بنیادی نظام ترتیب دینے کا انتخاب نہیں کِیا۔“ جیہاں، اپنی معجزانہ ساخت پر غور کیجئے مگر سوال پھربھی وہی ہے، ہم کیوں مرتے ہیں؟
۴ ہزاروں سال قبل بائبل مصنف داؤد نے ان معجزات پر گہری سوچبچار کی حالانکہ وہ آجکل کے سائنسدانوں کی طرح درحقیقت رحم کے اندر نہیں دیکھ سکتا تھا۔ داؤد یہ تحریر کرتے وقت کہ اُس نے ’اپنی ماں کے پیٹ میں صورت پکڑی،‘ اپنی بناوٹ پر غوروفکر میں مگن ہو گیا۔ اُس نے کہا کہ اُس وقت ’اُسکا دل بنایا گیا۔‘ جب اُس نے یہ بیان کِیا کہ ”مَیں پوشیدگی میں بن رہا تھا“ تو اُس نے اپنے ”قالب“ کے تشکیل پانے کا ذکر کِیا۔ پھر داؤد نے اپنے ”بےترتیب مادے“ کا ذکر کِیا اور اپنی ماں کے رحم میں اس بےترتیب مادے کے سلسلے میں اُس نے تحریر کِیا: ”وہ سب تیری کتاب میں لکھے تھے۔“—زبور ۱۳۹:۱۳-۱۶۔
۵. رحم کے اندر ہماری تشکیل کے وقت کونسے معجزات رُونما ہوتے ہیں؟
۵ ظاہر ہے کہ اُس کی ماں کے رحم میں داؤد کی تشکیل کے لئے کوئی حقیقی تحریری خاکہ موجود نہیں تھا۔ تاہم اپنے ”دل“ اور ”قالب“ کی ساخت کے عمل پر داؤد کی سوچبچار سے اُس پر یہ بات عیاں ہو گئی کہ ان اعضا کی نشوونما ایک خاص منصوبے کے مطابق ایسے ہوئی تھی کہ جیسے ہر ایک چیز ”لکھی“ ہو۔ گویا یہ ایسے تھا جیسے اُس کی ماں کے اندر بارور خلیے میں انسانی بدن کو تشکیل دینے کے طریقے کی بابت مفصل ہدایات پر مشتمل کتابوں سے بھرا ایک بہت بڑا کمرہ ہو اور پھر یہی پیچیدہ ہدایات ہر نئے بننے والے خلیے کو منتقل کر دی گئی ہوں۔ لہٰذا، سائنس ورلڈ رسالہ یہ استعارہ استعمال کرتا ہے کہ ’نشوونما پانے والے ہر خلیے کے اندر بنیادی خاکوں کی ایک مکمل الماری ہوتی ہے۔‘
۶. اس بات کی کیا شہادت ہے کہ جیسے داؤد نے لکھا، ہم ”عجیبوغریب طور سے“ بنے ہیں؟
۶ کیا آپ نے کبھی اپنے اجسام کی اعجازآفرین کارکردگی پر غور کِیا ہے؟ ماہرِحیاتیات جیرڈ ڈائمنڈ نے بیان کِیا: ”ہماری انتڑیوں کے خلیے چند روز بعد، مثانے کے خلیے ہر دو ماہ بعد اور ہمارے خون کے سرخ خلیے ہر چار ماہ بعد تبدیل ہو جاتے ہیں۔“ اُس نے نتیجہ اخذ کِیا: ”فطرت ہمیں ہر روز توڑتی اور جوڑتی ہے۔“ درحقیقت اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے قطعنظر کہ ہم کتنے سال زندہ رہیں—خواہ ۸، ۸۰ یا ۸۰۰—ہمارا طبعی بدن جوان ہی رہتا ہے۔ ایک سائنسدان نے ایک مرتبہ اندازہ لگایا: ”ایک سال میں ہمارے تقریباً ۹۸ فیصد ایٹموں کی جگہ وہ ایٹم لے لینگے جو ہم ہوا، خوراک اور پانی سے حاصل کرتے ہیں۔“ واقعی، جیسےکہ داؤد نے تعریف کی، ہم ”عجیبوغریب طور سے“ بنے ہیں۔—زبور ۱۳۹:۱۴۔
۷. بعض ہمارے طبعی اجسام کی ساخت پر مبنی کس نتیجے پر پہنچے ہیں؟
۷ پس ہمارے طبعی اجسام کی ساخت کے پیشِنظر عمر کے اثرات پر تحقیق کرنے والے ایک معروف ماہر نے کہا: ”یہ بات واضح نہیں ہے کہ بڑھاپا کیوں آتا ہے۔“ واقعی ایسا لگتا ہے کہ ہمیں ہمیشہ تک زندہ رہنا چاہئے۔ پس اِسی وجہ سے انسان اپنی ٹیکنالوجی کے ذریعے اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کچھ ہی عرصہ پہلے، ڈاکٹر ایلون سلورسٹائن نے بڑے یقین کیساتھ اپنی کتاب کانکویسٹ آف ڈیتھ میں تحریر کِیا: ”ہم زندگی کا جوہر تلاش کر لیں گے۔ ہم سمجھ لیں گے کہ . . . کوئی شخص کیسے بوڑھا ہوتا ہے۔“ کس نتیجے کیساتھ؟ اس نے پیشگوئی کی: ”پھر کوئی بھی ’بوڑھا‘ نہیں ہوگا کیونکہ جس علم کی بدولت ہم موت پر فتح پائیں گے اُسی کے ذریعے ابدی شباب بھی حاصل ہوگا۔“ انسانی ساخت کی بابت جدید سائنسی دریافت پر غور کرنے سے کیا ابدی زندگی کا خیال ناقابلِیقین معلوم ہوتا ہے؟ ابدی زندگی کے ممکن ہونے کا یقین کرنے کی ایک اَور ٹھوس وجہ بھی ہے۔
ہمیشہ زندہ رہنے کی خواہش
۸، ۹. پوری تاریخ کے دوران لوگوں کی کیا فطری خواہش رہی ہے؟
۸ کیا آپ نے کبھی غور کِیا ہے کہ ہمیشہ زندہ رہنا انسان کی فطری خواہش ہے؟ ایک جرمن جریدے میں ایک ڈاکٹر نے تحریر کِیا: ”ہمیشہ کی زندگی کا خواب غالباً اُتنا ہی پُرانا ہے جتناکہ انسان۔“ بعض قدیم یورپی لوگوں کے عقائد کے بارے میں دی نیو انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا بیان کرتا ہے: ”لائق لوگ سونے سے مزین، جگمگاتے ہال میں ہمیشہ تک زندہ رہینگے۔“ لہٰذا ہمیشہ زندہ رہنے کی بنیادی خواہش کو پورا کرنے کی کوشش میں لوگ بہت دور نکل گئے ہیں!
۹ دی انسائیکلوپیڈیا امریکانا بیان کرتا ہے کہ چین میں تقریباً ۲،۰۰۰ سال پہلے ”تاؤ پجاریوں کی پیشوائی میں بادشاہ اور عوام نے اکسیرِحیات“—شباب کے فرضی چشمے—”کی تلاش میں مشقت کی پروا نہ کی۔“ واقعی، پوری تاریخ میں لوگوں کا یقین رہا ہے کہ مختلف اقسام کی جڑیبوٹیوں کے آمیزے استعمال کرنے یا مخصوص پانی پینے سے وہ ہمیشہ جوان رہ سکتے ہیں۔
۱۰. طویل زندگی کو قابلِحصول بنانے کیلئے کونسی جدید کوشش کی گئی ہے؟
۱۰ ہمیشہ زندہ رہنے کی فطری خواہش کو پورا کرنے کیلئے انسان کی جدید کاوشیں بھی قابلِذکر ہیں۔ اس کی ایک نمایاں مثال کسی بیماری سے مرنے والے مُردہ انسان کو منجمد کر دینے کا عمل ہے۔ ایسا اس اُمید کیساتھ کِیا جاتا ہے کہ مستقبل میں جب اس بیماری کا علاج دریافت ہو جائے گا تو مُردہ شخص کو دوبارہ زندہ کر لیا جائے گا۔ انجمادیات کے اِس طریقے کے ایک حامی نے لکھا: ”اگر ہماری اُمیدیں سچی ثابت ہوں اور یہ سیکھ لیا جائے کہ کس طرح—بڑھاپے کی کمزوریوں سمیت—تمام نقصانکی تلافی کی جائیگی تو جو لوگ اب ’مرتے‘ ہیں وہ مستقبل میں غیرمختتم زندگی حاصل کر سکیں گے۔“
۱۱. لوگ ہمیشہ تک زندہ رہنے کی خواہش کیوں رکھتے ہیں؟
۱۱ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ ہمیشہ کی زندگی کی خواہش ہمارے اندر اسقدر رچیبسی ہوئی کیوں ہے؟ کیا یہ اس لئے ہے کہ ”[خدا] نے ابدیت کو انسان کے ذہن میں جاگزین کر رکھا ہے“؟ (واعظ ۳:۱۱، ریوائزڈ سٹینڈرڈ ورشن) یہ مسئلہ سنجیدہ غوروفکر کا حامل ہے! ذرا سوچئے: اگر اس خواہش کی تکمیل ہمارے خالق کے مقصد کا حصہ نہیں تھی تو ہم نے ابدیت یعنی ہمیشہ تک زندہ رہنے کی خواہش ورثے میں کیوں پائی ہے؟ نیز کیا یہ اُس کے لئے محبتآمیز ہو سکتا ہے کہ ہمیں ہمیشہ تک زندہ رہنے کی خواہش کے ساتھ خلق کر کے پھر ہمیں کبھی اس خواہش کو پورا کرنے کا موقع نہ دے کر احساسِمحرومی میں مبتلا کر دے؟—زبور ۱۴۵:۱۶۔
ہمیں کس پر بھروسہ کرنا چاہئے؟
۱۲. بعض کیا اعتماد رکھتے ہیں مگر کیا آپ مانتے ہیں کہ اسکی بنیاد پُختہ ہے؟
۱۲ ہمیں ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کے لئے کس پر بھروسہ کرنا چاہئے؟ بیسویں یا اکیسویں صدی کی انسانی ٹیکنالوجی پر؟ دی نیو یارک ٹائمز میگزین کے مضمون نے ”وہ زندہ رہنا چاہتے ہیں“ کی بابت بیان کرتے ہوئے ”دیوتا: ٹیکنالوجی“ اور ”ٹیکنالوجی کی صلاحیت کے بارے میں پائے جانے والے جوش“ کے متعلق بیان کِیا۔ ایک محقق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ”انتہائی پُراعتماد تھا . . . کہ ایک وقت آئے گا جب بڑھاپے کو روکنے یا شاید اسکے اثرات کو زائل کرنے سے [ہمیں] بچانے کے توارثی افزائشی طریقے دستیاب ہونگے۔“ تاہم، بڑھاپے کو روکنے یا موت پر فتح پانے کے سلسلے میں انسانی کاوشیں واقعی مکمل طور پر غیرمؤثر ثابت ہوئی ہیں۔
۱۳. ہماری دماغی ساخت سے کیسے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں ہمیشہ زندہ رہنے کے خیال سے بنایا گیا تھا؟
۱۳ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے؟ ہرگز نہیں! ایک طریقہ ہے! ہمارے حیرانکُن دماغ کی ساخت اور سیکھنے کی اسکی لامحدود صلاحیت کو ہمیں اس بات کیلئے قائل کرنا چاہئے۔ مالیکیولر بائیولوجسٹ جیمس واٹسن نے ہمارے دماغ کو ”کائنات میں اب تک دریافت ہونے والی سب سے پیچیدہ چیز“ کا نام دیا۔ نیز نیورولوجسٹ رچرڈ ریسٹاک نے کہا: ”پوری کائنات میں کوئی ایسی چیز نہیں جو اس سے ذرا بھی مشابہت رکھتی ہو۔“ اگر ہمیں ہمیشہ کی زندگی سے لطف اندوز ہونے کے لئے نہیں بنایا گیا تھا تو ہمیں لامحدود معلومات کو یاد رکھنے والا دماغ اور ہمیشہ تک کام کرنے کیلئے ترتیب دیا گیا جسم کیوں عطا کِیا گیا تھا؟
۱۴. (ا) بائبل ئنن انسانی زندگی کے کس انجام کی نشاندہی کرتے ہیں؟ (ب) ہمیں انسان کی بجائے خدا پر بھروسہ کیوں کرنا چاہئے؟
۱۴ پس ہم کس معقول اور حقیقت پر مبنی واحد نتیجے پر پہنچتے ہیں؟ کیا یہ نہیں کہ ہمیں تمام قدرت کے مالک اور ایک ذہین صانع نے تخلیق کِیا ہے تاکہ ہم ہمیشہ زندہ رہ سکیں؟ (ایوب ۱۰:۸؛ زبور ۳۶:۹؛ ۱۰۰:۳؛ ملاکی ۲:۱۰؛ اعمال ۱۷:۲۴، ۲۵) پس، کیا ہمیں بائبل میں زبورنویس کے اس الہامی حکم پر دانشمندی سے دھیان نہیں دینا چاہئے: ”نہ اُمرا پر بھروسہ کرو نہ آدمزاد پر۔ وہ بچا نہیں سکتا“؟ انسان پر کیوں بھروسہ نہ کریں؟ زبورنویس نے اسکی وجہ کی بابت لکھا: ”اُسکا دم نکل جاتا ہے تو وہ مٹی میں مل جاتا ہے۔ اُسی دن اُس کے منصوبے فنا ہو جاتے ہیں۔“ واقعی، ہمیشہ تک زندہ رہنے کا امکان ہونے کے باوجود انسان موت کے سامنے بےبس ہیں۔ زبورنویس اس نتیجے پر پہنچتا ہے: ”خوش نصیب ہے وہ . . . جس کی اُمید خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] اُسکے خدا سے ہے۔“—زبور ۱۴۶:۳-۵۔
کیا واقعی یہ خدا کا مقصد ہے؟
۱۵. کیا چیز ظاہر کرتی ہے کہ یہ خدا کا مقصد ہے کہ ہم ہمیشہ زندہ رہیں؟
۱۵ تاہم، آپ پوچھ سکتے ہیں کہ کیا واقعی یہ خدا کا مقصد ہے کہ ہم ہمیشہ کی زندگی سے لطف اُٹھائیں؟ جیہاں، ایسا ہی ہے! اُسکے اپنے کلام میں بارہا یہ وعدہ کِیا گیا ہے۔ بائبل ہمیں یقین دلاتی ہے کہ ”خدا کی بخشش . . . ہمیشہ کی زندگی ہے۔“ خدا کے خادم یوحنا نے لکھا: ”جسکا [خدا] نے ہم سے وعدہ کیا وہ ہمیشہ کی زندگی ہے۔“ کچھ عجب نہیں کہ ایک جوان آدمی نے یسوع سے پوچھا: ”اَے اُستاد مَیں کونسی نیکی کروں تاکہ ہمیشہ کی زندگی پاؤں؟“ (رومیوں ۶:۲۳؛ ۱-یوحنا ۲:۲۵؛ متی ۱۹:۱۶) دراصل پولس رسول نے ”اُس ہمیشہ کی زندگی کی اُمید“ کی بابت لکھا ”جسکا وعدہ ازل سے خدا نے کِیا ہے جو جھوٹ نہیں بول سکتا۔“—ططس ۱:۲۔
۱۶. کس مفہوم میں خدا نے ”ازل سے“ ہی ابدی زندگی کا وعدہ کِیا ہوگا؟
۱۶ اسکا کیا مطلب ہے کہ خدا نے ہمیشہ کی زندگی کا وعدہ ”ازل سے“ کِیا ہے؟ بعض کے خیال میں پولس رسول کا مطلب یہ تھا کہ پہلے جوڑے، آدم اور حوا، کی تخلیق سے بھی قبل خدا نے یہ مقصد ٹھہرایا کہ انسان ہمیشہ تک زندہ رہیں۔ تاہم، اگر پولس انسانی تخلیق کے بعد کسی وقت کی طرف اشارہ کر رہا تھا جب یہوواہ نے اپنا مقصد بیان کِیا تو پھربھی خدا کی مرضی میں انسانوں کیلئے ابدی زندگی شامل ہوگی۔
۱۷. آدم اور حوا کو باغِعدن سے کیوں نکال دیا گیا تھا اور کروبیوں کو مدخل پر کیوں تعینات کِیا گیا تھا؟
۱۷ بائبل بیان کرتی ہے کہ باغِعدن میں ”خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] خدا نے . . . حیات کا درخت لگایا۔“ آدم کو باغ سے نکالنے کی وجہ یہ پیش کی گئی کہ ”کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنا ہاتھ بڑھائے اور حیات کے درخت سے بھی کچھ لیکر کھائے اور . . . جیتا رہے“—جیہاں، ہمیشہ تک! آدم اور حوا کو باغِعدن سے باہر نکال دینے کے بعد، یہوواہ نے ”کروبیوں کو اور چوگرد گھومنے والی شعلہزن تلوار کو رکھا کہ وہ زندگی کے درخت کی راہ کی حفاظت کریں۔“—پیدایش ۲:۹؛ ۳:۲۲-۲۴۔
۱۸. (ا) آدم اور حوا کیلئے حیات کے درخت سے کھانے کا کیا مطلب ہوتا؟ (ب) اُس درخت سے کھانا کس کی نمائندگی کرتا تھا؟
۱۸ اگر آدم اور حوا کو حیات کے درخت سے کھانے کی اجازت دے دی جاتی تو اس کا ان کیلئے کیا مطلب ہوتا؟ بیشک فردوس میں ہمیشہ تک زندہ رہنا ایک شرف ہے! ایک بائبل مبصر نے قیاسآرائی کی: ”حیات کے درخت میں کوئی ایسی قوت ضرور ہوگی جسکی بدولت انسان کو موت پر منتج ہونے والی عمر کی خستہحالی یا تنزلی سے بچایا جانا تھا۔“ اس نے تو یہ بھی دعویٰ کِیا کہ ”فردوس میں ایسی جڑیبوٹیاں بھی تھیں جن میں بڑھاپے کے اثرات کو ختم کرنے کی قوت تھی۔“ تاہم، بائبل یہ نہیں کہتی کہ حیات کے درخت میں بذاتِخود حیاتبخش خاصیتیں تھیں۔ اس کے برعکس، وہ درخت اُس شخص کیلئے خدا کی طرف سے ہمیشہ کی زندگی کی ضمانت کی نمائندگی کرتا تھا جسے اس کا پھل کھانے کی اجازت دی جائیگی۔—مکاشفہ ۲:۷۔
خدا کا مقصد لاتبدیل ہے
۱۹. آدم کیوں مر گیا اور اُسکی اولاد کے طور پر ہم بھی کیوں مرتے ہیں؟
۱۹ جب آدم نے گناہ کِیا تو اس نے اپنے اور اپنی نازائیدہ اولاد کیلئے بھی ہمیشہ تک زندہ رہنے کا حق کھو دیا۔ (پیدایش ۲:۱۷) اپنی نافرمانی کے باعث گنہگار ٹھہرنے سے وہ ناقصوناکامل بن گیا۔ لہٰذا اس کے بعد سے آدم کا جسم عملاً موت کی راہ پر گامزن ہو گیا۔ اسی لئے بائبل بیان کرتی ہے: ”گناہ کی مزدوری موت ہے۔“ (رومیوں ۶:۲۳) علاوہازیں، آدم کی ناکامل اولاد بھی ہمیشہ کی زندگی کی بجائے موت کی راہ پر چل نکلی۔ بائبل وضاحت کرتی ہے: ”ایک آدمی [آدم] کے سبب سے گناہ دُنیا میں آیا اور گناہ کے سب سے موت آئی اور یوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی اسلئے کہ سب نے گناہ کِیا۔“—رومیوں ۵:۱۲۔
۲۰. کیا چیز ظاہر کرتی ہے کہ انسانوں کو زمین پر ہمیشہ زندہ رہنا تھا؟
۲۰ تاہم اگر آدم نے گناہ نہ کِیا ہوتا تو کیا ہوتا؟ اگر وہ خدا کی نافرمانی نہ کرتا اور اُسے حیات کے درخت سے پھل کھانے کی اجازت مل جاتی تو کیا ہوتا؟ اُس نے ہمیشہ کی زندگی کی خدائی بخشش سے کہاں پر لطف اُٹھایا ہوتا؟ کیا آسمان پر؟ نہیں! خدا نے آدم کو آسمان پر لے جانے کی بابت کچھ نہیں بتایا تھا۔ اُسے زمین پر کام سونپا گیا تھا۔ بائبل اس کی وضاحت کرتی ہے کہ ”خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] خدا نے ہر درخت کو جو دیکھنے میں خوشنما اور کھانے کے لئے اچھا تھا زمین سے اُگایا،“ اس کے علاوہ یہ کہتی ہے: ”خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] خدا نے آؔدم کو لے کر باغِعدؔن میں رکھا کہ اُس کی باغبانی اور نگہبانی کرے۔“ (پیدایش ۲:۹، ۱۵) حوا کو آدم کے ساتھی کے طور پر خلق کئے جانے کے بعد اُن دونوں کو اس زمین پر کام کرنے کی اضافی تفویضات دی گئیں۔ خدا نے اُنہیں بتایا: ”پھلو اور بڑھو اور زمین کو معمورومحکوم کرو اور سمندر کی مچھلیوں اور ہوا کے پرندوں اور کُل جانوروں پر جو زمین پر چلتے ہیں اختیار رکھو۔“—پیدایش ۱:۲۸۔
۲۱. پہلے انسانوں نے کن شاندار امکانات سے لطف اُٹھایا؟
۲۱ ذرا اُن شاندار امکانات پر غور کریں جو خدا کی طرف سے دی جانے والی ہدایات کی بدولت آدم اور حوا کو حاصل ہوئے تھے! انہیں فردوسی زمین پر مکمل طور پر صحتمند بیٹے اور بیٹیوں کی پرورش کرنا تھی۔ اُن کے پیارے پیارے بچوں کو بھی بڑے ہوکر پھلنےپھولنے اور فردوس میں باغبانی کا کام کرنے میں حصہ لینا تھا۔ تمام جانور اُن کے تابع ہوتے اور نوعِانسان کی زندگیاں کتنی مطمئن ہوتیں۔ باغِعدن کی سرحدوں کو اسقدر وسیع کرنے سے حاصل ہونے والی خوشی کا تصور کریں کہ ساری زمین فردوس بن جاتی! کیا آپ کامل بچوں کے ساتھ ایسے خوبصورت زمینی گھر میں بوڑھے ہو کر مرنے کی فکر سے آزاد زندگی سے لطف اندوز ہونگے؟ اپنے دل کی فطری رغبتوں کو اس سوال کا جواب دینے دیجئے۔
۲۲. ہم کیوں یقین رکھ سکتے ہیں کہ خدا نے زمین کیلئے اپنے مقصد کو نہیں بدلا تھا؟
۲۲ تاہم، جب آدم اور حوا کو اُن کی نافرمانی کی وجہ سے باغِعدن سے نکال دیا گیا تو کیا انسانوں کے لئے فردوسی زمین پر ہمیشہ تک زندہ رہنے کا خدائی مقصد بدل گیا؟ ہرگز نہیں! ایسا کرنے سے خدا کو اپنی شکست تسلیم کرنا پڑتی کہ وہ اپنے اصل مقصد کو پورا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ خدا جو کہتا ہے وہ کرتا بھی ہے، جیسےکہ وہ خود اعلان کرتا ہے: ”اُسی طرح میرا کلام جو میرے مُنہ سے نکلتا ہے ہوگا۔ وہ بےانجام میرے پاس واپس نہ آئے گا بلکہ جو کچھ میری خواہش ہوگی وہ اُسے پورا کرے گا اور اُس کام میں جسکے لئے مَیں نے اُسے بھیجا مؤثر ہوگا۔“—یسعیاہ ۵۵:۱۱۔
۲۳. (ا) کیا چیز اس بات کی دوبارہ تصدیق کرتی ہے کہ یہ خدا کا مقصد ہے کہ راستباز زمین پر ہمیشہ تک زندہ رہیں؟ (ب) اگلے مضمون میں ہم کیا بحث کرینگے؟
۲۳ بائبل میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ زمین کے لئے خدا کا مقصد تبدیل نہیں ہوا ہے کیونکہ خدا وعدہ فرماتا ہے: ”صادق زمین کے وارث ہونگے اور اس میں ہمیشہ بسے رہیں گے۔“ یسوع مسیح نے بھی اپنے پہاڑی وعظ میں کہا کہ حلیم لوگ زمین کے وارث ہونگے۔ (زبور ۳۷:۲۹؛ متی ۵:۵) تاہم، ہم ہمیشہ کی زندگی کیسے حاصل کر سکتے ہیں اور ایسی زندگی سے لطف اُٹھانے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ اس پر اگلے مضمون میں گفتگو کی جائے گی۔
آپ کیسے جواب دینگے؟
◻بہتیرے لوگ کیوں یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہمیشہ کی زندگی ممکن ہے؟
◻کس چیز کو ہمیں قائل کرنا چاہئے کہ ہمیں ہمیشہ زندہ رہنے کے خیال سے بنایا گیا تھا؟
◻نوعِانسان اور زمین کیلئے خدا کا ابتدائی مقصد کیا تھا؟
◻ہم کیوں یقین رکھ سکتے ہیں کہ خدا اپنے ابتدائی مقصد کو پورا کریگا؟