فروتن لوگ مبارک ہیں
”خدا مغروروں کا مقابلہ کرتا ہے مگر فروتنوں کو توفیق بخشتا ہے۔“—۱-پطرس ۵:۵۔
۱، ۲. یسوع نے اپنے پہاڑی وعظ میں خوش رہنے کے معاملے کو فروتن ہونے کے معاملے سے کیسے جوڑا؟
کیا خوش ہونے اور فروتن ہونے کا کوئی تعلق ہے؟ اپنے نہایت ہی مشہور وعظ میں، یسوع مسیح، عظیمترین انسان جو کبھی ہو گزرا ہے، نو خوشیوں، یا مبارکبادیوں کو بیان کرتا ہے۔ (متی ۵:۱-۱۲) کیا یسوع نے خوش ہونے کو فروتن ہونے کے ساتھ جوڑا؟ جیہاں، اس نے ایسا کیا، کیونکہ فروتن ہونا کئی ایک مبارکبادیوں میں شامل ہے جنکا اس نے ذکر کیا۔ مثال کے طور پر، ایک شخص کو اپنی روحانی ضروریات سے باخبر ہونے کیلئے فروتن ہونا ہے۔ صرف فروتن ہی راستبازی کے بھوکے اور پیاسے ہوتے ہیں۔ اور مغرور لوگ حلیم اور رحمدل نہیں ہیں، نہ ہی وہ صلح کرانے والے ہیں۔
۲ فروتن لوگ مبارک ہیں اسلئے کہ فروتن ہونا صحیح اور دیانتدارانہ بات ہے۔ اسکے علاوہ، فروتن لوگ مبارک ہیں کیونکہ فروتن ہونا دانشمندی ہے، یہ یہوواہ خدا اور ساتھی مسیحیوں کے ساتھ اچھے تعلقات کا سبب بنتا ہے۔ علاوہازیں، فروتن لوگ مبارک ہیں کیونکہ فروتن ہونا انکی طرف سے محبت کا اظہار ہے۔
۳. دیانتداری ہمیں فروتن ہونے کیلئے کیوں پابند کرتی ہے؟
۳ دیانتداری ہم سے فروتن ہونے کا تقاضا کیوں کرتی ہے؟ ایک بات تو یہ ہے کہ ہم سب ناکاملیت کو ورثہ میں پاتے ہیں اور غلطیاں کرتے رہتے ہیں۔ پولس رسول نے اپنی بابت کہا: ”میں جانتا ہوں کہ مجھ میں یعنی میرے جسم میں کوئی نیکی بسی ہوئی نہیں البتہ ارادہ تو مجھ میں موجود ہے مگر نیک کام مجھ سے بن نہیں پڑتے۔“ (رومیوں ۷:۱۸) جیہاں، ہم سب نے گناہ کیا ہے اور خدا کے جلال سے محروم ہیں۔ (رومیوں ۳:۲۳) صافگوئی ہمیں مغرور بننے سے باز رکھے گی۔ غلطی کو تسلیم کرنے کیلئے فروتنی درکار ہے، اور جب کبھی ہم غلطی کرتے ہیں تو الزام کو تسلیم کرنے کیلئے دیانتداری ہماری مدد کریگی۔ چونکہ جو کچھ ہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس میں ہم ناکام ہوتے رہتے ہیں اسلئے ہمارے پاس فروتن ہونے کی ٹھوس وجہ ہے۔
۴. ہمارے فروتن ہونے کیلئے ۱-کرنتھیوں ۴:۷ میں مجبور کرنے والی کیا وجہ دی گئی ہے؟
۴ پولس رسول ہمیں ایک اور وجہ دیتا ہے کہ دیانتداری کو ہمیں فروتن کیوں بنانا چاہیے۔ وہ کہتا ہے: ”تجھ میں اور دوسرے میں کون فرق کرتا ہے؟ اور تیرے پاس کونسی ایسی چیز ہے جو تو نے دوسرے سے نہیں پائی؟ اور جب تو نے دوسرے سے پائی تو فخر کیوں کرتا ہے کہ گویا نہیں پائی؟“ (۱-کرنتھیوں ۴:۷) اسکی بابت کوئی شک نہیں کہ ہمارے لئے اپنی نیکنامی جتانا، اپنے اثاثوں، لیاقتوں، یا حاصلات کی بابت فخر کرنا، دیانتداری کی بات نہ ہوگی۔ دیانتداری خدا کے نزدیک ایک اچھا ضمیر حاصل کرنے کیلئے ہماری معاونت کرتی ہے، تاکہ ہم ”ہر بات میں نیکی [”دیانتداری،“ اینڈبلیو] کے ساتھ زندگی گذار“ سکیں۔—عبرانیوں ۱۳:۱۸۔
۵. جب ہم نے غلطی کی ہو تو کیسے دیانتداری بھی ہماری مدد کریگی؟
۵ جب ہم غلطی کرتے ہیں تو دیانتداری فروتن بننے میں ہماری مدد کرتی ہے۔ یہ ہمیں اپنی توجیہ کرنے کی کوشش کرنے یا کسی دوسرے پر الزام تھوپنے کی بجائے، الزام کو قبول کرنے کیلئے زیادہ آمادہ کرے گی۔ لہذا، جبکہ آدم نے حوا پر الزام لگایا، داؤد نے یہ کہتے ہوئے، بتسبع پر الزام نہ لگایا کہ ”اسے نہاتے ہوئے پوری طرح نظر نہیں آنا چاہیے تھا۔ میں آزمائش میں پڑنے سے بچ نہیں سکتا تھا۔“ (پیدایش ۳:۱۲، ۲-سموئیل ۱۱:۲-۴) واقعی، یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک طرف تو دیانتدار ہونا فروتن بننے میں ہماری مدد کرتا ہے، اور دوسری طرف، فروتن ہونا دیانتدار بننے میں ہماری مدد کرتا ہے۔
یہوواہ پر ایمان فروتن بننے میں ہماری مدد کرتا ہے
۶، ۷. خدا پر ایمان فروتن ہونے میں کیسے ہماری مدد کرتا ہے؟
۶ یہوواہ پر ایمان بھی فروتن بننے میں ہماری مدد کریگا۔ اس بات کی قدر کرنا کہ خالق، کائنات کا حاکم اعلی، کتنا عظیم ہے، واقعی ہمیں خود کو بہت زیادہ اہم سمجھنے سے روکے گا۔ اسکی بابت یسعیاہ نبی ہمیں کیا خوب یاد دلاتا ہے! ہم یسعیاہ ۴۰:۱۵، ۲۲ میں پڑھتے ہیں: ”دیکھ قومیں ڈول کی ایک بوند کی مانند ہیں اور ترازو کی باریک گرد کی مانند گنی جاتی ہیں۔ ... وہ محیطزمین پر بیٹھا ہے اور اسکے باشندے ٹڈوں کی مانند ہیں۔“
۷ یہوواہ پر ایمان اس وقت بھی ہماری مدد کریگا جب ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔ معاملے پر جھنجھلانے کی بجائے، ہم فروتنی کے ساتھ یہوواہ کا انتظار کرینگے، جیسے کہ زبورنویس ہمیں زبور ۳۷:۱-۳، ۸، ۹ میں یاد دلاتا ہے۔ پولس رسول اسی نکتے کو بیان کرتا ہے: ”اے عزیزو! اپنا انتقام نہ لو بلکہ غضب کو موقع دو کیونکہ لکھا ہے کہ خداوند فرماتا ہے انتقام لینا میرا کام ہے۔ بدلہ میں ہی دونگا۔“—رومیوں ۱۲:۱۹۔
فروتنی—دانشمندی کی روش
۸. فروتنی یہوواہ کے ساتھ ایک اچھے رشتے کا سبب کیوں بنتی ہے؟
۸ اس بات کی بہت سی وجوہات ہیں کہ کیوں فروتن ہونا دانشمندی کی روش ہے۔ ایک تو یہ ہے، کہ جیسے پہلے ظاہر کیا گیا، یہ ہمارے صانع کے ساتھ اچھے تعلقات پیدا کرنے میں معاون ہے۔ خدا کا کلام صاف طور پر امثال ۱۶:۵ میں بیان کرتا ہے: ”ہر ایک سے جسکے دل میں غرور ہے خداوند کو نفرت ہے۔“ ہم امثال ۱۶:۱۸ میں بھی پڑھتے ہیں: ”ہلاکت سے پہلے تکبر اور زوال سے پہلے خودبینی ہے۔“ جلد یا بدیر مغرور اشخاص رنج اٹھاتے ہیں۔ جو کچھ ہم ۱-پطرس ۵:۵ میں پڑھتے ہیں اسکی وجہ سے واقعی اسے ایسے ہی ہونا چاہیے: ”سب کے سب ایکدوسرے کی خدمت کیلئے فروتنی سے کمربستہ رہو اسلئے کہ خدا مغروروں کا مقابلہ کرتا ہے مگر فروتنوں کو توفیق بخشتا ہے۔“ آپ اسی نکتے کو فریسی اور محصول لینے والے کی بابت یسوع کی تمثیل میں دیکھیں گے جو دونوں دعا کر رہے تھے۔ یہ فروتن محصول لینے والا ہی تھا جو زیادہ راستباز ثابت ہوا۔—لوقا ۱۸:۹-۱۴۔
۹. مصیبت کے اوقات میں فروتنی کیا مدد کرتی ہے؟
۹ فروتنی دانشمندی کی روش ہے کیونکہ فروتنی ہمارے لئے یعقوب ۴:۷ کی نصیحت پر دھیان دینے کو زیادہ آسان بناتی ہے: ”پس خدا کے تابع ہو جاؤ۔“ اگر ہم فروتن ہیں تو ہم اسوقت سرکشی نہیں کرینگے جب یہوواہ ہمیں مصیبت اٹھانے دیتا ہے۔ فروتنی ہمیں اپنے حالات کے ساتھ قانع ہونے اور برداشت کرنے کے قابل بنائیگی۔ ایک مغرور شخص غیرمطمئن ہوتا ہے، ہمیشہ زیادہ کی خواہش کرتا ہے، اور پرملال حالات میں سرکشی کرتا ہے۔ اسکے برعکس، فروتن شخص مشکلات اور آزمائشوں کی برداشت کرتا ہے، جیسے ایوب نے بھی کیا۔ ایوب نے اپنے تمام اثاثوں کا نقصان اٹھایا اور ایک دردناک بیماری کا شکار ہوا، اور پھر اسکی بیوی نے بھی یہ کہتے ہوئے اسکو مشورت دی کہ تکبر کی روش اختیار کرے: ”خدا کی تکفیر کر اور مر جا۔“ اس نے کیسا ردعمل دکھایا؟ بائبل ریکارڈ ہمیں بتاتا ہے: ”اس نے اس سے کہا کہ تو نادان عورتوں کی سی باتیں کرتی ہے۔ کیا ہم خدا کے ہاتھ سے سکھ پائیں اور دکھ نہ پائیں۔ ان سب باتوں میں ایوب نے اپنے لبوں سے خطا نہ کی۔“ (ایوب ۲:۹، ۱۰) چونکہ ایوب فروتن تھا اسلئے اس نے سرکشی نہ کی بلکہ وہ سب دانشمندی سے تسلیم کر لیا جسکی یہوواہ نے اس پر آنے کی اجازت دی۔ اور آخر میں اس نے بڑا اجر پایا۔—ایوب ۴۲:۱۰-۱۶، یعقوب ۵:۱۱۔
فروتنی دوسروں کے ساتھ اچھے تعلقات کا سبب بنتی ہے
۱۰. فروتنی ساتھی مسیحیوں کے ساتھ ہمارے تعلقات کو کیسے بہتر بناتی ہے؟
۱۰ فروتنی دانشمندی کی روش ہے کیونکہ یہ ہمارے ساتھی مسیحیوں کے ساتھ اچھے تعلقات کا سبب بنتی ہے۔ پولس رسول ہمیں خوب نصیحت کرتا ہے: ”تفرقے اور بیجا فخر کے باعث کچھ نہ کرو بلکہ فروتنی سے ایک دوسرے کو اپنے سے بہتر سمجھے۔ ہر ایک اپنے ہی احوال پر نہیں بلکہ ہر ایک دوسروں کے احوال پر بھی نظر رکھے۔“ (فلپیوں ۲:۳، ۴) فروتنی ہمیں دانشمندی سے دوسروں کے ساتھ مقابلہبازی کرنے یا دوسروں سے سبقت لے جانے کی کوشش کرنے سے روکے گی۔ ایسے ذہنی رجحانات ہمارے لئے اور ہمارے ساتھی مسیحیوں کیلئے مسائل پیدا کرتے ہیں۔
۱۱. غلطیاں کرنے سے بچنے کیلئے فروتنی کیوں ہماری مدد کر سکتی ہے؟
۱۱ فروتنی بہت سے مواقع پر غلطیاں کرنے سے بچنے کیلئے ہماری مدد کریگی۔ کیسے؟ کیونکہ فروتنی ہمیں حد سے زیادہ پراعتماد ہونے سے دور رکھیگی۔ اسکی بجائے، ہم ۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۲ میں پولس کی مشورت کی قدر کرینگے: ”پس جو کوئی اپنے آپکو قائم سمجھتا ہے وہ خبردار رہے کہ گر نہ پڑے۔“ مغرور شخص بہت زیادہ خوداعتماد ہوتا ہے، اسلئے اپنی ذاتی کمزوریوں یا بیرونی اثرات کی وجہ سے وہ غلطیاں کرنے کی طرف مائل ہوتا ہے۔
۱۲. فروتنی ہمیں کونسے صحیفائی تقاضے کو پورا کرنے کی تحریک دے گی؟
۱۲ فروتنی تابعداری میں رہنے کے تقاضے کو پورا کرنے کیلئے ہماری مدد کریگی۔ افسیوں ۵:۲۱ میں ہمیں نصیحت کی گئی ہے: ”مسیح کے خوف سے ایک دوسرے کے تابع رہو۔“ واقعی، کیا ہم سب کو تابعداری میں رہنے کی ضرورت نہیں ہے؟ بچوں کو اپنے والدین، بیویوں کو اپنے شوہروں، اور شوہروں کو مسیح کے تابع ہونے کی ضرورت ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۱:۳، افسیوں ۵:۲۲، ۶:۱) پھر، کسی بھی مسیحی کلیسیا میں، سب کو، بشمول خدمتگزار خادموں کے، بزرگوں کیلئے تابعداری دکھانی پڑتی ہے۔ کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ بزرگ دیانتدار اور عقلمند نوکر جماعت کی تابعداری میں ہیں، خاص طور پر جیسے کہ سرکٹ اوورسیئر کے ذریعے ان کی نمائندگی ہوتی ہے؟ پھر، سرکٹ اوورسیئر کو ڈسٹرکٹ اوورسیئر کی تابعداری میں رہنے کی ضرورت ہے، اور ڈسٹرکٹ اوورسیئر کو اس ملک کی برانچ کمیٹی کی تابعداری میں رہنے کی ضرورت ہے جہاں وہ خدمت کر رہا ہے۔ برانچ کمیٹی کے ممبروں کی بابت کیا ہے؟ انہیں ”ایکدوسرے کے تابع“ رہنا چاہیے اور گورننگ باڈی کے بھی جو دیانتدار اور عقلمند نوکر جماعت کی نمائندگی کرتی ہے، جو پھر تختنشین بادشاہ، یسوع کے سامنے جوابدہ ہے۔ (متی ۲۴:۴۵-۴۷) کسی بھی بزرگوں کی جماعت کی طرح، گورننگ باڈی کے ممبروں کو ایک دوسرے کے نقطہءنظر کا احترام کرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر، کوئی سوچ سکتا ہے کہ اسکے پاس عمدہ خیال ہے۔ لیکن جبتک دوسرے ممبروں کی کافی تعداد اسکی تجویز سے متفق نہیں ہو جاتی، اسے معاملے کی بابت فکرمند ہونے کو چھوڑ دینا پڑتا ہے۔ واقعی، ہم سب کو فروتنی کی ضرورت ہے کیونکہ ہم سب تابعداری میں ہیں۔
۱۳، ۱۴. (ا) کن خاص حالات میں فروتنی ہماری مدد کریگی؟ (ب) نصیحت قبول کرنے کے سلسلے میں پطرس نے کیا نمونہ قائم کیا؟
۱۳ اس بات میں فروتنی خاص طور پر دانشمندی کی روش سمجھی جاتی ہے کیونکہ فروتنی ہمارے لئے مشورت اور تادیب کو قبول کرنا زیادہ آسان بناتی ہے۔ بعض اوقات ہم سب کو تادیب کی ضرورت ہوتی ہے، اور ہمیں امثال ۱۹:۲۰ کی نصیحت کو سننا چاہیے: ”مشورت کو سن اور تربیتپذیر ہو تاکہ تو آخرکار دانا ہو جائے۔“ جیسے کہ خوب کہا گیا ہے، فروتن اشخاص جب انہیں تادیب کی جاتی ہے تو ناخوش نہیں ہونگے یا رنج محسوس نہیں کرینگے۔ علاوہازیں، عبرانیوں ۱۲:۴-۱۱ میں پولس رسول ہمیں فروتنی کے ساتھ تادیب قبول کرنے کی دانشمندی کی بابت نصیحت کرتا ہے۔ صرف اسی طریقے سے ہم اپنی آئندہ روش کی دانشمندی سے راہنمائی کر سکتے ہیں اور اسکے بدلے میں ابدی زندگی کا انعام پا سکتے ہیں۔ وہ کیا ہی مبارک انجام ہوگا!
۱۴ اس سلسلے میں ہم پطرس رسول کی مثال کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔ اس نے پولس رسول سے سخت مشورت حاصل کی جیسے کہ ہم گلتیوں ۲:۱۴ کے بیان سے سیکھتے ہیں: ”جب میں نے دیکھا کہ وہ خوشخبری کی سچائی کے موافق سیدھی چال نہیں چلتے تو میں نے سب کے سامنے کیفا [پطرس] سے کہا کہ جب تو باوجود یہودی ہونے کے غیرقوموں کی طرح زندگی گذارتا ہے نہ کہ یہودیوں کی طرح تو غیرقوموں کو یہودیوں کی طرح چلنے پر کیوں مجبور کرتا ہے؟“ کیا پطرس رسول نے ناگوار محسوس کیا؟ اگر کیا بھی تو مستقل طور پر نہیں، جیسے کہ اسکے بعد کے حوالے ۲-پطرس ۳:۱۵، ۱۶ میں ”ہمارے پیارے بھائی پولس“ سے دیکھا جا سکتا ہے۔
۱۵. ہمارے فروتن ہونے اور ہمارے خوش ہونے کے مابین کیا رشتہ ہے؟
۱۵ پھر خودکفیل، قانع ہونے کا معاملہ بھی ہے۔ ہم بالکل خوش نہیں ہو سکتے جبتک کہ ہم اپنے حصے، اپنے استحقاقات، اپنی برکات پر قانع نہ ہوں۔ فروتن مسیحی یہ رویہ اپناتے ہیں: ”اگر خدا کو منظور ہوا تو میں یہ حاصل کر سکتا ہوں،“ جو وہی کچھ ہے جو پولس رسول کہتا ہے، جیسے کہ ہم ۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۳ میں پڑھتے ہیں: ”تم کسی ایسی آزمایش میں نہیں پڑے جو انسان کی برداشت سے باہر ہو اور خدا سچا ہے۔ وہ تم کو تمہاری طاقت سے زیادہ آزمایش میں نہ پڑنے دیگا بلکہ آزمایش کے ساتھ نکلنے کی راہ بھی پیدا کر دیگا تاکہ تم برداشت کر سکو۔“ پس ہم پھر سے دیکھتے ہیں کہ کیسے فروتنی دانشمندی کی روش ہے، کیونکہ یہ زندگی میں ہمارے حصے بخرے سے قطعنظر خوش ہونے کیلئے ہماری مدد کرتی ہے۔
محبت فروتن بننے کیلئے ہماری مدد کریگی
۱۶، ۱۷. (ا) فروتن بننے میں ہماری مدد کرنے کیلئے کونسی صحیفائی مثال اس عظیمترین صفت کو نمایاں کرتی ہے؟ (ب) کونسی غیرمذہبی مثال بھی اس نقطے کو سمجھاتی ہے؟
۱۶ ہر چیز سے زیادہ، بےریا محبت، اگاپے فروتن ہونے میں ہماری مدد کریگی۔ کیوں یسوع اتنی فروتنی سے اپنی دکھ کی سولی کے تجربے کو برداشت کرنے کے قابل تھا جسے پولس فلپیوں کے سامنے بیان کرتا ہے؟ (فلپیوں ۲:۵-۸) اس نے خدا کے برابر ہونے پر غور کیوں نہ کیا؟ اسلئے کہ جیسے اس نے خود کہا: ”میں باپ سے محبت رکھتا ہوں۔“ (یوحنا ۱۴:۳۱) اسی وجہ سے اس نے جلال اور عزت کو ہمیشہ یہوواہ، اپنے آسمانی باپ سے منسوب کیا۔ لہذا، ایک اور موقع پر اس نے زور دیا کہ صرف اس کا آسمانی باپ ہی نیک تھا۔—لوقا ۱۸:۱۸، ۱۹۔
۱۷ اس نکتہ کو سمجھانے کیلئے امریکہ کے قدیمی شاعروں میں سے ایک، جون گرینلیف ویٹیئر کی زندگی کا ایک واقعہ ہے۔ اس آدمی کی بچپن کی ایک محبوبہ تھی، اور ایک مرتبہ ہجے کرنے کے ایک مقابلے میں اسکی محبوبہ نے ایک لفظ کے صحیح ہجے کئے، جبکہ اس نے اس کے غلط ہجے کئے۔ اس محبوبہ کو بڑا دکھ ہوا۔ کیوں؟ جیسے کہ شاعر کو یاد آیا، اس نے کہا: ”مجھے افسوس ہے کہ میں نے صحیح ہجے کئے ہیں۔ مجھے آپ پر برتری حاصل کرنے سے نفرت ہے ... کیونکہ آپکو معلوم ہے، میں آپ سے پیار کرتی ہوں۔“ جیہاں، اگر ہم کسی سے محبت رکھتے ہیں، تو ہم چاہیں گے کہ وہ برتر رہے، نہ کہ ہم سے کمتر، اسلئے کہ محبت فروتن ہے۔
۱۸. فروتنی ہمیں کس صحیفائی نصیحت پر دھیان دینے کیلئے مدد دیگی؟
۱۸ یہ سب مسیحیوں کیلئے، خاص طور پر بھائیوں کیلئے اچھا سبق ہے۔ جب خدمت کے خاص استحقاق کی بات آتی ہے، تو کیا ہم خوش ہوتے ہیں کہ ہماری بجائے ہمارے بھائی نے اسے حاصل کیا ہے، یا کیا ہم حسد اور رشک کی خلش محسوس کرتے ہیں؟ اگر ہم واقعی اپنے بھائی سے محبت رکھتے ہیں تو ہم خوش ہونگے کہ اسے وہ خاص تفویض یا قدرافزائی یا خدمت کا شرف حاصل ہوا ہے۔ جیہاں، فروتنی اس نصیحت پر دھیان دینے کو آسان بنائیگی: ”عزت کی رو سے ایک دوسرے کو بہتر سمجھو۔“ (رومیوں ۱۲:۱۰) ایک اور ترجمہ کہتا ہے: ”ایک دوسرے کیلئے عزت دکھانے میں پہل کرو،“ (نیو انٹرنیشنل ورشن) پھر سے پولس رسول کے ذریعے ہمیں نصیحت کی گئی ہے: ”محبت کی راہ سے ایک دوسرے کی خدمت کرو۔“ (گلتیوں ۵:۱۳) جیہاں، اگر ہم محبت رکھتے ہیں، تو ہم بھائیوں کی خدمت کرنے، انکی خاطر کام کرنے، انکے مفادات اور فلاح کو اپنی ذات پر مقدم رکھنے سے خوش ہونگے، جسکے لئے فروتنی درکار ہے۔ فروتنی ہمیں شیخی مارنے سے بھی باز رکھیگی اور یوں دوسروں میں حسد یا رشک کی روح کو بیدار کرنے سے بچائے گی۔ پولس نے لکھا کہ محبت ”شیخی نہیں مارتی اور پھولتی نہیں۔“ کیوں نہیں؟ اس لئے کہ شیخی مارنے اور پھولنے کے پیچھے خودغرض، خودپرستانہ محرک ہے، جبکہ محبت بےغرضی کا اصل جوہر ہے۔—۱-کرنتھیوں ۱۳:۴۔
۱۹. کونسی بائبل مثالیں یہ سمجھاتی ہیں کہ فروتنی اور محبت کا چولیدامن کا ساتھ ہے، جیسے کہ تکبر اور خودغرضی کا ہے؟
۱۹ ساؤل بادشاہ اور اسکے بیٹے یونتن کے ساتھ داؤد کا رشتہ غیرمعمولی مثال ہے کہ محبت اور فروتنی کا کس طرح چولیدامن کا ساتھ ہے اور اسی طرح سے تکبر اور خودغرضی کا کس طرح گہرا تعلق ہے۔ لڑائی میں داؤد کی کامیابیوں کی وجہ سے اسرائیل کی عورتوں نے گیت گایا: ”ساؤل نے تو ہزاروں کو پر داؤد نے لاکھوں کو مارا۔“ (۱-سموئیل ۱۸:۷) تب سے کسی بھی طرح سے فروتن نہ ہوتے ہوئے، بلکہ تکبر سے مارے ہوئے، ساؤل نے داؤد کیلئے قاتلانہ نفرت کی پرورش کی۔ اسکے بیٹے یونتن کے جذبے سے یہ کسقدر مختلف تھی! ہم پڑھتے ہیں کہ یونتن نے داؤد سے اپنی جان سے بھی زیادہ محبت رکھی۔ (۱-سموئیل ۱۸:۱) پس یونتن نے کیسا جوابیعمل دکھایا جب واقعات کی رو سے یہ واضح تھا کہ یہوواہ داؤد کو برکت دے رہا تھا اور یونتن کی بجائے وہ اسرائیل کے بادشاہ کے طور پر ساؤل کا جانشین ہوگا؟ کیا یونتن نے حسد یا رشک محسوس کیا؟ ہرگز نہیں! داؤد کیلئے اپنی بہت زیادہ محبت کی وجہ سے، وہ کہہ سکتا تھا، جیسے کہ ہم ۱-سموئیل ۲۳:۱۷ میں پڑھتے ہیں: ”تو مت ڈر کیونکہ تو میرے باپ ساؤل کے ہاتھ میں نہیں پڑیگا اور تو اسرائیل کا بادشاہ ہوگا اور میں تجھ سے دوسرے درجہ پر ہونگا۔ یہ میرے باپ ساؤل کو بھی معلوم ہے۔“ داؤد کیلئے یونتن کی عظیم محبت اس کیلئے فروتنی کے ساتھ اس بات کو قبول کرنے کا سبب بنی جسے اس نے خدا کی مرضی سمجھا یعنی یہ کہ اسرائیل کے بادشاہ کے طور پر کس نے اسکے باپ کا جانشین ہونا تھا۔
۲۰. یسوع نے محبت اور فروتنی کے درمیان قریبی رشتے کو کیسے ظاہر کیا؟
۲۰ آخری رات اپنے مرنے سے پہلے جب یسوع مسیح اپنے رسولوں کے ساتھ تھا اس وقت جو کچھ واقع ہوا وہ محبت اور فروتنی کے مابین رشتے کو مزید نمایاں کرتا ہے۔ یوحنا ۱۳:۱ میں ہم پڑھتے ہیں کہ یسوع ”اپنے لوگوں سے جو دنیا میں تھے جیسی محبت رکھتا تھا آخر تک محبت رکھتا رہا۔“ اسکے بعد ہم پڑھتے ہیں کہ یسوع نے ایک کمترین خادم جیسا رویہ اختیار کرتے ہوئے اپنے رسولوں کے پاؤں دھوئے۔ فروتنی کا کیا ہی زبردست سبق!—یوحنا ۱۳:۱-۱۱۔
۲۱. خلاصے کے طور پر، ہمیں کیوں فروتن ہونا چاہیے؟
۲۱ یقیناً، فروتن ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ فروتن ہونا راست اور دیانتدارانہ بات ہے۔ یہ ایمان کی روش ہے۔ یہ یہوواہ خدا اور ہمارے ساتھی ایمانداروں کے ساتھ اچھے تعلقات کا سبب بنتی ہے۔ یہ دانشمندی کی روش ہے۔ سب سے بڑھکر، یہ محبت کی راہ ہے اور حقیقی خوشی لاتی ہے۔ (۱۹ ۱۲/۱ w۹۳)
آپ کیسے جواب دینگے؟
▫ کن طریقوں سے دیانتداری فروتن بننے میں ایک مدد ہے؟
▫ یہوواہ پر ایمان فروتن ہونے میں ہماری مدد کیوں کر سکتا ہے؟
▫ کیا چیز ظاہر کرتی ہے کہ فروتن ہونا دانشمندی کی روش ہے؟
▫ ہمارے فروتن ہونے میں محبت خاص طور پر کیوں مددگار ہے؟
[تصویر]
ایوب نے فروتنی کے ساتھ یہوواہ کی اطاعت کی۔ اس نے ”خدا کی تکفیر“ نہ کی ”اور نہ مرا“
[تصویر]
پطرس نے فروتنی کیساتھ تسلیم کر لیا جب پولس نے کھلمکھلا اسے نصیحت کی