کیا آپ اِنصافپسندی کے متعلق یہوواہ کا نظریہ رکھتے ہیں؟
”مَیں [یہوواہ] کے نام کا اِشتہار دوں گا۔ . . . وہ وفادار خدا اور بدی سے مبرا ہے۔ وہ منصف اور برحق ہے۔“—اِستثنا 32:3، 4۔
1، 2. (الف) نبوت اور اُن کے بیٹوں کے ساتھ کیا نااِنصافی ہوئی؟ (ب) اِس مضمون میں ہم کن دو خوبیوں پر غور کریں گے؟
دو بُرے آدمیوں نے ایک آدمی پر یہ اِلزام لگایا کہ اُس نے خدا اور بادشاہ پر لعنت بھیجی ہے۔ یہ سراسر جھوٹ تھا لیکن اِس آدمی کو پھر بھی سزائےموت سنائی گئی۔ ذرا سوچیں کہ وہاں موجود اِنصافپسند لوگوں پر کیا گزری ہوگی جب اُن کی آنکھوں کے سامنے نہ صرف اِس آدمی کو بلکہ اُس کے بیٹوں کو بھی ناحق مار ڈالا گیا۔ یہ کوئی قصہ کہانی نہیں بلکہ اصلی واقعہ ہے۔ اِس آدمی کا نام نبوت تھا۔ وہ یہوواہ کے وفادار خادم تھے جو بادشاہ اخیاب کے دَورِحکومت میں اِسرائیل کی سلطنت میں رہتے تھے۔—1-سلاطین 21:11-13؛ 2-سلاطین 9:26۔
2 اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ نبوت کے ساتھ کیا ہوا۔ ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ پہلی صدی میں ایک بزرگ نے کون سی سنگین غلطی کی۔ اِن واقعات پر غور کرنے سے ہم جان جائیں گے کہ اِنصافپسندی کے سلسلے میں یہوواہ کا نظریہ اپنانے کے لیے خاکساری اور رحمدلی جیسی خوبیاں کتنی اہم ہوتی ہیں۔
اِنصاف کا خون
3، 4. نبوت کس طرح کے آدمی تھے اور اُنہوں نے اپنا تاکستان بیچنے سے کیوں اِنکار کر دیا؟
3 نبوت کے زمانے میں زیادہتر اِسرائیلی اخیاب بادشاہ اور اُن کی بیوی ملکہ اِیزِبل کی بُری مثال پر عمل کر رہے تھے۔ یہ لوگ بعل کی پوجا کرتے تھے اور یہوواہ اور اُس کی شریعت کا احترام نہیں کرتے تھے۔ لیکن نبوت اپنے خدا کے وفادار تھے۔ اُنہیں یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تھی۔
4 پہلا سلاطین 21:1-3 کو پڑھیں۔ بادشاہ اخیاب نبوت کے تاکستان (یعنی انگور کے باغ) کو خریدنا چاہتے تھے یا اِس کے بدلے اُنہیں ایک زیادہ اچھا باغ دینا چاہتے تھے۔ لیکن نبوت نے اُن کی پیشکش کو رد کر دیا۔ اُنہوں نے بڑے احترام سے بادشاہ کو اِس کی وجہ یوں بتائی: ”[یہوواہ] مجھ سے ایسا نہ کرائے کہ مَیں تجھ کو اپنے باپدادا کی میراث دے دوں۔“ دراصل شریعت میں بنیاِسرائیل کو اپنی میراث مستقل طور پر بیچنے سے منع کِیا گیا تھا۔ (احبار 25:23؛ گنتی 36:7) نبوت یہوواہ کے فرمانبردار تھے اِس لیے اُنہوں نے اپنا تاکستان بیچنے سے اِنکار کر دیا۔
5. ملکہ اِیزِبل نے نبوت کے تاکستان کو حاصل کرنے کے لیے کیا کِیا؟
5 جب نبوت نے اپنا تاکستان بیچنے سے اِنکار کر دیا تو بادشاہ اخیاب اور اُن کی بیوی نے ایک بہت ہی بُری حرکت کی۔ اِس تاکستان کو حاصل کرنے کے لیے ملکہ اِیزِبل نے دو آدمیوں کے ذریعے نبوت پر جھوٹے اِلزام لگوائے۔ اِس کے نتیجے میں نہ صرف نبوت کو بلکہ اُن کے بیٹوں کو بھی سنگسار کر دیا گیا جو کہ بہت بڑی نااِنصافی تھی۔ اِس پر یہوواہ نے کیا کِیا؟
یہوواہ کا ردِعمل
6، 7. یہ کیسے ظاہر ہو گیا کہ یہوواہ اِنصافپسند ہے اور اِس سے نبوت کے گھر والوں اور عزیزوں کو تسلی کیوں ملی ہوگی؟
6 یہوواہ خدا نے فوراً اپنے نبی ایلیاہ کو بادشاہ اخیاب کے پاس بھیجا۔ ایلیاہ نبی نے بادشاہ سے کہا کہ وہ ایک خونی اور چور ہے۔ پھر اُنہوں نے بادشاہ کو یہوواہ کا فیصلہ سنایا۔ فیصلہ یہ تھا کہ اخیاب اور اُن کی بیوی اور بیٹوں کو مار ڈالا جائے گا، بالکل جیسے نبوت اور اُن کے بیٹوں کو مار ڈالا گیا۔—1-سلاطین 21:17-25۔
7 نبوت کی موت پر اُن کے گھر والے اور عزیز غمزدہ تھے۔ لیکن اُنہیں اِس بات سے ضرور تسلی ملی ہوگی کہ یہوواہ نے اِس نااِنصافی کو دیکھا ہے اور بادشاہ اور اُن کے گھر والوں کو سزا دینے کا فیصلہ کِیا ہے۔ لیکن پھر ایک ایسی بات ہوئی جس سے اُن کی خاکساری اور یہوواہ پر اُن کا اِعتماد آزمایا گیا۔
چونکہ بادشاہ اخیاب نے خاکساری اِختیار کی اِس لیے یہوواہ اُن کے ساتھ رحمدلی سے پیش آیا۔
8. جب بادشاہ اخیاب نے یہوواہ کا فیصلہ سنا تو اُنہوں نے کیا کِیا اور اِس کا کیا نتیجہ نکلا؟
8 جب بادشاہ اخیاب نے یہوواہ کا فیصلہ سنا تو اُنہوں نے ”اپنے کپڑے پھاڑے اور اپنے تن پر ٹاٹ ڈالا اور روزہ رکھا اور ٹاٹ ہی میں لیٹنے اور دبے پاؤں چلنے [لگے]۔“ بادشاہ اخیاب نے خاکساری اِختیار کی۔ اُنہیں اپنی حرکت پر دلی افسوس تھا۔ اِس پر یہوواہ نے کیا ردِعمل دِکھایا؟ اُس نے ایلیاہ نبی کو دوبارہ سے اخیاب کے پاس بھیجا۔ اِس بار ایلیاہ نبی نے بادشاہ کو بتایا کہ چونکہ اُنہوں نے خاکساری اِختیار کی اِس لیے یہوواہ اُن کی موت کے بعد ہی اُن کے خاندان پر بلا نازل کرے گا۔ (1-سلاطین 21:27-29؛ 2-سلاطین 10:10، 11، 17) یہوواہ ”دلوں کو . . . پرکھتا ہے۔“ وہ جانتا تھا کہ اخیاب کے دل میں کیا ہے اور اِس لیے وہ اخیاب کے ساتھ رحمدلی سے پیش آیا۔—امثال 17:3۔
خاکساری کی اہمیت
9. نبوت کے گھر والوں اور عزیزوں کے لیے خاکساری کی خوبی کیوں اہم تھی؟
9 جب نبوت کے گھر والوں اور عزیزوں نے سنا کہ اخیاب سزا سے بچ گئے ہیں تو اُنہیں کیسا لگا ہوگا؟ بِلاشُبہ یہ صورتحال اُن کے ایمان کی آزمائش تھی۔ لیکن خاکساری کی خوبی اُنہیں خدا سے دُور ہونے سے بچا سکتی تھی۔ کیوں؟ کیونکہ ایک خاکسار شخص اِس بات پر پکا یقین رکھتا ہے کہ یہوواہ کبھی نااِنصافی نہیں کرتا۔ اِس لیے وہ خدا سے مُنہ نہیں موڑتا۔ (اِستثنا 32:3، 4 کو پڑھیں۔) نئی دُنیا میں نبوت، اُن کے بیٹوں اور باقی گھر والوں کو زندہ کِیا جائے گا اور وہ سب مل کر فردوس کا لطف اُٹھائیں گے۔ بھلا فرمانبرداری کا اِس سے بڑا اجر کیا ہو سکتا ہے؟ (ایوب 14:14، 15؛ یوحنا 5:28، 29) ایک خاکسار شخص یہ بھی یاد رکھتا ہے کہ ”خدا ہر ایک فعل کو ہر ایک پوشیدہ چیز کے ساتھ خواہ بھلی ہو خواہ بُری عدالت میں لائے گا۔“ (واعظ 12:14) جب یہوواہ کسی کا اِنصاف کرتا ہے تو وہ ایسی باتوں کو بھی خاطر میں لاتا ہے جو ہم سے پوشیدہ ہیں۔ لہٰذا اگر ہم خاکسار ہیں تو ہم اُس کے فیصلوں کو قبول کریں گے اور اپنے ایمان کو کمزور نہیں پڑنے دیں گے۔
اگر ہم خاکسار ہیں تو ہم نااِنصافی کا سامنا کرتے وقت اپنے ایمان کو کمزور نہیں پڑنے دیں گے۔
10، 11. (الف) کس طرح کی صورتحال ہمارے ایمان کی آزمائش بن سکتی ہیں؟ (ب) خاکساری کی خوبی ہمیں کوئی غلط قدم اُٹھانے سے کیوں بچا سکتی ہے؟
10 اگر کلیسیا کے بزرگ کوئی ایسا فیصلہ کرتے ہیں جو آپ کو سمجھ نہیں آتا یا جس سے آپ متفق نہیں ہیں تو آپ کیا کریں گے؟ مثال کے طور پر اگر آپ یا آپ کے کسی عزیز سے کوئی شرف لے لیا جائے تو آپ کا ردِعمل کیا ہوگا؟ اگر آپ کے جیون ساتھی، آپ کے بیٹے یا بیٹی یا پھر آپ کے کسی دوست کو کلیسیا سے خارج کر دیا جائے اور آپ کو لگتا ہے کہ بزرگوں نے غلط فیصلہ کِیا ہے تو آپ کیا کریں گے؟ یا پھر اگر آپ کا خیال ہے کہ بزرگوں کو ایک ایسے مسیحی کے ساتھ رحم سے پیش نہیں آنا چاہیے تھا جس نے گُناہ کِیا ہے تو آپ کیا ردِعمل دِکھائیں گے؟ اِس طرح کی صورتحال ہمارے ایمان کی آزمائش بن سکتی ہیں کیونکہ ہمارے ردِعمل سے ظاہر ہوگا کہ ہم کس حد تک یہوواہ اور اُس کی تنظیم پر بھروسا کرتے ہیں۔ اِن صورتحال میں خاکساری کی خوبی آپ کو کوئی غلط قدم اُٹھانے سے کیوں بچائے گی؟ آئیں، اِس کی دو وجوہات پر غور کریں۔
11 پہلی وجہ یہ ہے کہ اگر ہم خاکسار ہیں تو ہم تسلیم کریں گے کہ ہم ایک معاملے کے بارے میں سب کچھ نہیں جانتے۔ کبھی کبھار ہمیں لگتا ہے کہ ہم ایک معاملے سے پوری طرح واقف ہیں مگر سچ تو یہ ہے کہ صرف یہوواہ جانتا ہے کہ ایک اِنسان کے دل میں کیا ہے۔ (1-سموئیل 16:7) یہ بات یاد رکھنے سے ہم خاکساری سے اپنی حدوں کو تسلیم کریں گے اور اپنی سوچ میں تبدیلی لانے کو تیار ہوں گے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر ہم یا ہمارا کوئی عزیز واقعی کسی نااِنصافی کا شکار ہوا ہے تو ہم خاکساری کی بِنا پر صبر سے کام لیں گے، یہوواہ کے فرمانبردار رہیں گے اور معاملہ اُس پر چھوڑ دیں گے۔ بائبل میں لکھا ہے: ”اُن ہی کا بھلا ہوگا جو خداترس ہیں۔ . . . لیکن گنہگار کا بھلا کبھی نہ ہوگا۔“ (واعظ 8:12، 13) لہٰذا اگر ہم خاکسار رہیں گے تو نہ صرف ہمیں بلکہ پوری کلیسیا کو فائدہ ہوگا۔—1-پطرس 5:5 کو پڑھیں۔
کلیسیا میں منافقت
12. اب ہم کس واقعے پر غور کریں گے اور کیوں؟
12 پہلی صدی میں سُوری انطاکیہ کی کلیسیا میں ایک ایسی صورتحال پیدا ہوئی جس سے بہن بھائیوں کی خاکساری اور رحمدلی آزمائی گئی۔ آئیں، اِس واقعے پر غور کریں اور ساتھ ساتھ اپنا جائزہ لیں کہ ہم کتنے رحمدل ہیں۔ یوں ہم سمجھ جائیں گے کہ اِنصافپسندی کے سلسلے میں یہوواہ کا نظریہ اپنانے کے لیے رحمدلی کی خوبی کیوں اہم ہے۔
13، 14. (الف) پطرس رسول کو کون سے شرف ملے تھے؟ (ب) پطرس رسول نے دلیری کیسے ظاہر کی؟
13 پطرس رسول پہلی صدی کے مسیحیوں میں کافی مشہور تھے۔ وہ یسوع مسیح کے دوست رہ چُکے تھے اور خدا کی خدمت میں بہت سے اہم شرف بھی رکھتے تھے۔ (متی 16:19) مثال کے طور پر 36ء میں پطرس کو کُرنیلیُس اور اُن کے گھر والوں کو خوشخبری سنانے کے لیے بھیجا گیا۔ اِس میں کیا خاص بات تھی؟ دراصل کُرنیلیُس غیریہودی تھے اور اُن کا ختنہ نہیں ہوا تھا۔ مگر جب کُرنیلیُس اور اُن کے گھر والوں پر پاک روح نازل ہوئی تو پطرس جان گئے کہ غیریہودی بھی مسیحیوں کے طور پر بپتسمہ لے سکتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا: ”کیا کوئی اِن لوگوں کو پانی سے بپتسمہ لینے سے روک سکتا ہے جبکہ اِن کو بھی ہماری طرح پاک روح ملی ہے؟“—اعمال 10:47۔
14 سن 49ء میں رسول اور یروشلیم کے بزرگ اِس بات پر غور کرنے کے لیے جمع ہوئے کہ آیا اُن غیریہودیوں کو ختنہ کرانا چاہیے جنہوں نے مسیحی مذہب اپنایا تھا یا نہیں۔ اِس موقعے پر پطرس نے اِن بھائیوں کو بتایا کہ اُنہوں نے اپنی آنکھوں سے ایسے غیریہودیوں پر پاک روح نازل ہوتے دیکھی جن کا ختنہ نہیں ہوا تھا۔ پطرس کی باتوں کی مدد سے گورننگ باڈی اِس اہم معاملے میں صحیح فیصلہ کر پائی۔ (اعمال 15:6-11، 13، 14، 28، 29) بِلاشُبہ اُس زمانے کے تمام مسیحی، خواہ وہ کسی بھی قوم سے تعلق رکھتے تھے، پطرس رسول کے شکرگزار تھے کہ اُنہوں نے اُس موقعے پر بڑی دلیری سے حقائق پیش کیے۔ اِن بہن بھائیوں کی نظر میں پطرس ایک وفادار اور پُختہ مسیحی تھے جن پر وہ بھروسا کر سکتے تھے۔—عبرانیوں 13:7۔
15. پطرس رسول نے سُوری انطاکیہ میں کون سی غلطی کی؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔)
15 اِس کے کچھ عرصے بعد پطرس رسول سُوری انطاکیہ گئے جہاں اُنہوں نے اپنے غیریہودی بہن بھائیوں کے ساتھ وقت گزارا۔ اِن بہن بھائیوں نے بڑے شوق سے اِس تجربہکار بزرگ کی باتیں سنی ہوں گی۔ لیکن ذرا سوچیں کہ اِن بہن بھائیوں نے اُس وقت کیسا محسوس کِیا ہوگا جب پطرس نے اچانک اُن کے ساتھ کھانا پینا چھوڑ دیا۔ پطرس نے تو یہودی قوم سے تعلق رکھنے والے کچھ اَور مسیحیوں کو بھی اپنے پیچھے لگا لیا، یہاں تک کہ برنباس بھی اُن کے ساتھ مل گئے۔ یہ صورتحال بہت خطرناک تھی کیونکہ اِس سے کلیسیا کا اِتحاد داؤ پر لگ سکتا تھا۔ مگر پطرس جیسے تجربہکار بزرگ نے اِتنی سنگین غلطی کیوں کی؟ اور ہم اِس واقعے سے کون سا سبق سیکھ سکتے ہیں تاکہ ہم اُس وقت صحیح ردِعمل دِکھائیں جب کوئی بزرگ ہمارا دل دُکھاتا ہے؟
پطرس رسول کی غلطی کی وجہ سے غیریہودی بہن بھائیوں کا ایمان آزمایا گیا۔
16. (الف) پطرس رسول کی اِصلاح کیسے کی گئی؟ (ب) اِس صورتحال کی وجہ سے کون سے سوال پیدا ہوئے؟
16 گلتیوں 2:11-14 کو پڑھیں۔ دراصل پطرس نے جو کچھ کِیا، اِنسانوں کے ڈر سے کِیا۔ (امثال 29:25) اُنہیں معلوم تھا کہ یہوواہ نے غیریہودیوں کو قبول کر لیا ہے۔ لیکن جب کچھ یہودی بھائی یروشلیم سے سُوری انطاکیہ آئے تو پطرس کو یہ ڈر کھانے لگا کہ کہیں یہ بھائی اُنہیں حقارت کی نظر سے نہ دیکھیں کیونکہ وہ غیریہودی بہن بھائیوں کے ساتھ کھاتے پیتے ہیں۔ جب پولُس رسول نے یہ دیکھا تو اُنہوں نے پطرس رسول سے کہا کہ وہ منافقت سے کام لے رہے ہیں۔ (گلتیوں 2:13) اُنہوں نے یہ کیوں کہا؟ پولُس رسول بھی 49ء میں یروشلیم میں ہونے والے اُس اِجلاس پر موجود تھے جب پطرس نے غیریہودیوں کے حق میں بولا تھا۔ (اعمال 15:12) پطرس کی غلطی کی وجہ سے غیریہودی بہن بھائیوں کا ایمان آزمایا گیا۔ کیا وہ اِس وجہ سے خدا سے دُور ہو گئے؟ شاید اُنہوں نے سوچا ہوگا کہ پطرس سے اُن کے شرف لے لیے جائیں گے۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہوا؟
رحمدلی کی اہمیت
17. یہوواہ کی رحمدلی سے پطرس رسول کو کیا فائدہ ہوا؟
17 پطرس رسول خاکسار تھے اِس لیے اُنہوں نے پولُس رسول کی طرف سے ملنے والی اِصلاح کو قبول کِیا۔ بائبل میں یہ نہیں لکھا کہ پطرس سے اُن کے شرف لے لیے گئے۔ اِس کی بجائے بعد میں اُنہیں اَور بھی شرف دیے گئے۔ مثال کے طور پر اُنہیں دو ایسے خط لکھنے کا شرف ملا جو بائبل کا حصہ بنے۔ ایک خط میں تو اُنہوں نے پولُس رسول کا ذکر کرتے ہوئے اُنہیں ”عزیز بھائی“ کہا۔ (2-پطرس 3:15) اِس میں کوئی شک نہیں کہ پطرس کے رویے سے غیریہودی بہن بھائیوں کا دل دُکھا ہوگا۔ لیکن کلیسیا کے سربراہ یسوع مسیح نے پطرس کو ترک نہیں کِیا۔ (اِفسیوں 1:22) اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یسوع مسیح اور یہوواہ خدا نے پطرس کو معاف کر دیا تھا۔ اب سُوری انطاکیہ کے بہن بھائیوں کو بھی چاہیے تھا کہ وہ پطرس کو معاف کریں۔ اُمید ہے کہ اُنہوں نے ایسا کِیا اور وہ کسی اِنسان کی غلطی کی وجہ سے اپنے خدا سے دُور نہیں ہوئے۔
18. ہمیں کن صورتحال میں یہوواہ کی طرح رحمدل ہونا چاہیے؟
18 آج بھی بزرگ غلطیاں کرتے ہیں۔ بائبل میں لکھا ہے کہ ”ہم سب بار بار غلطی کرتے ہیں۔“ (یعقوب 3:2) یہ بات زبانی کلامی تسلیم کرنا تو آسان ہوتا ہے لیکن ہم اُس وقت کیا کریں گے جب کوئی بھائی ہمارا دل دُکھاتا ہے؟ کیا ہم یہوواہ کی طرح رحمدل ہوں گے؟ مثال کے طور پر اگر ایک بزرگ کوئی ایسی بات کہتا ہے جس سے تعصب جھلکتا ہے تو آپ کا ردِعمل کیا ہوگا؟ اور اگر ایک بزرگ بِلاسوچے سمجھے کوئی ایسی بات کہتا ہے جو آپ کو ناگوار گزرتی ہے تو آپ کیا کریں گے؟ کیا آپ فوراً سوچیں گے کہ ”ایسے بھائی کو تو بزرگ نہیں ہونا چاہیے“؟ یا پھر کیا آپ یہ معاملہ کلیسیا کے سربراہ یسوع مسیح پر چھوڑ دیں گے؟ سارا وقت اُس بزرگ کی غلطی کے بارے میں سوچنے کی بجائے کیا آپ اِس بات کو خاطر میں لائیں گے کہ اُس نے کتنے سال وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کی ہے؟ اور اگر اُس بزرگ کو جس نے آپ کے خلاف گُناہ کِیا ہے، بزرگ کے عہدے سے نہیں ہٹایا جاتا یا اُسے اَور بھی شرف دیے جاتے ہیں تو آپ کیا کریں گے؟ اگر آپ نے اُسے دل سے معاف کِیا ہے تو آپ اُس کی خوشی میں شریک ہوں گے۔ جب ہم اپنے مسیحی بہن بھائیوں کے ساتھ رحمدلی سے پیش آتے ہیں اور اُنہیں معاف کرتے ہیں تو ظاہر ہوتا ہے کہ ہم نے اِنصافپسندی کے سلسلے میں یہوواہ کا نظریہ اپنا لیا ہے۔—متی 6:14، 15 کو پڑھیں۔
19. آپ نے کیا کرنے کا عزم کِیا ہے؟
19 ہم اُس دن کا شدت سے اِنتظار کر رہے ہیں جب یہوواہ زمین پر سے تمام نااِنصافیوں کو ختم کر دے گا۔ (یسعیاہ 65:17) لیکن جب تک وہ دن نہیں آتا، ہمیں اِس بات کو خاکساری سے تسلیم کرنا چاہیے کہ ہمیں غلطفہمی ہو سکتی ہے اور جس بات کو ہم نااِنصافی سمجھ رہے ہیں، شاید وہ نااِنصافی نہ ہو۔ اِس کے علاوہ ہمیں رحمدلی سے کام لینا چاہیے اور دل کھول کر دوسروں کو معاف کرنا چاہیے۔ یوں ظاہر ہو جائے گا کہ ہم اِنصافپسندی کے سلسلے میں یہوواہ کا نظریہ رکھتے ہیں۔