’تمام دُنیا کے اِنصاف کرنے والے‘ پر بھروسا رکھیں
”وہ وہی چٹان ہے۔ اُس کی صنعت کامل ہے کیونکہ اُس کی سب راہیں اِنصاف کی ہیں۔“—اِستثنا 32:4۔
1. یہ کیسے ظاہر ہوا کہ ابراہام کو پورا یقین تھا کہ یہوواہ اِنصاف سے کام لے گا؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔)
”کیا تمام دُنیا کا اِنصاف کرنے والا اِنصاف نہ کرے گا؟“ (پیدایش 18:25) ابراہام نے یہ سوال کیوں اُٹھایا؟ کیا اُنہیں اِس بات پر شک تھا کہ خدا اِنصاف سے کام لے گا؟ نہیں بلکہ اِس سوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابراہام کو پورا یقین تھا کہ یہوواہ اِنصاف سے سدوم اور عمورہ کا فیصلہ کرے گا۔ وہ جانتے تھے کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ یہوواہ ”نیک کو بد کے ساتھ مار ڈالے۔“ اِس واقعے کے تقریباً 400 سال بعد یہوواہ نے اپنے بارے میں کہا: ”وہ وہی چٹان ہے۔ اُس کی صنعت کامل ہے کیونکہ اُس کی سب راہیں اِنصاف کی ہیں۔ وہ وفادار خدا اور بدی سے مبرا ہے۔ وہ منصف اور برحق ہے۔“—اِستثنا 31:19؛ 32:4۔
2. یہوواہ سے کبھی نااِنصافی کیوں نہیں ہو سکتی؟
2 ابراہام کو اِس بات پر پکا یقین کیوں تھا کہ یہوواہ ہمیشہ اِنصاف سے کام لے گا؟ کیونکہ اِنصافپسندی یہوواہ خدا کی شخصیت کا ایک اہم پہلو ہے۔ وہ ہر کام صداقت سے کرتا ہے اِس لیے اُس سے کوئی نااِنصافی نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ عبرانی صحیفوں میں اصلی زبان میں لفظ ”صداقت“ اور ”اِنصاف“ اکثر ایک ساتھ آتے ہیں۔ مثال کے طور پر زبور 33:5 میں یہوواہ کے بارے میں لکھا ہے: ”وہ صداقت اور اِنصاف کو پسند کرتا ہے۔“
3. دُنیا میں ہونے والی نااِنصافیوں کی ایک مثال دیں۔
3 ہمیں یہ جان کر بڑی تسلی ملتی ہے کہ یہوواہ ہمیشہ اِنصاف سے کام لیتا ہے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ دُنیا میں نااِنصافی کا راج ہے۔ مثال کے طور پر کچھ لوگوں کو ایسے جرائم کے لیے قید کِیا گیا جو اُنہوں نے کیے نہیں تھے۔ لیکن جب ڈیایناے ٹیسٹ متعارف ہوئے تو بہت سے مُقدموں کی دوبارہ سماعت ہوئی اور اِن بےقصور لوگوں کو بَری کر دیا گیا۔ البتہ اُس وقت تک یہ لوگ بہت سالوں کی قید کاٹ چُکے تھے۔ ظاہر ہے کہ ایسی نااِنصافیاں مایوسی اور غصے کا باعث بنتی ہیں۔ لیکن ایک اَور طرح کی نااِنصافی کو برداشت کرنا اِس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ یہ کس طرح کی نااِنصافی ہے؟
کلیسیا میں نااِنصافی
4. کس طرح کی صورتحال ہمارے ایمان کی آزمائش بن سکتی ہے؟
4 یہوواہ کے خادم یہ توقع کرتے ہیں کہ دُنیا میں اُن کے ساتھ کبھی نہ کبھی نااِنصافی ہوگی۔ لیکن کبھی کبھار کلیسیا میں بھی یا تو ہمارے ساتھ یا پھر کسی اَور کے ساتھ کوئی ایسی بات ہوتی ہے جو ہمیں نااِنصافی لگتی ہے۔ ایسی صورتحال ہمارے ایمان کی آزمائش بن سکتی ہے۔ اگر آپ کو ایسی صورتحال کا سامنا ہو تو آپ کیا کریں گے؟ کیا آپ خدا سے دُور ہو جائیں گے؟
5. جب کلیسیا میں نااِنصافیاں ہوتی ہیں تو ہمیں حیران کیوں نہیں ہونا چاہیے؟
5 ہم سب عیبدار ہیں اور غلطیاں کرتے ہیں۔ اِس لیے اِس بات کا اِمکان ہے کہ کلیسیا میں ہمارے ساتھ نااِنصافی کی جائے یا پھر ہم خود کسی کے ساتھ نااِنصافی کریں۔ (1-یوحنا 1:8) عموماً ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ لیکن جب کلیسیا میں نااِنصافیاں ہوتی ہیں تو وفادار مسیحی حیران نہیں ہوتے اور اِس وجہ سے خدا سے دُور بھی نہیں ہوتے۔ یہوواہ نے اپنے کلام میں ہمیں بہت سی اچھی ہدایات دی ہیں جن کی مدد سے ہم تب بھی اُس کے وفادار رہ سکتے ہیں جب کلیسیا کا کوئی فرد ہم سے نااِنصافی کرے۔—زبور 55:12-14۔
6، 7. ایک بھائی کے ساتھ کون سی نااِنصافی کی گئی اور وہ کن خوبیوں کی مدد سے اِسے برداشت کر پایا؟
6 اِس سلسلے میں بھائی وِلی ڈیل کی مثال پر غور کریں۔ وہ 1931ء میں سوئٹزرلینڈ بیتایل میں خدمت کرنے لگے۔ پھر 1946ء میں اُنہوں نے امریکہ میں گلئیڈ سکول کی آٹھویں کلاس میں تربیت حاصل کی۔ اِس کے بعد اُنہیں حلقے کے نگہبان کے طور پر خدمت کرنے کے لیے سوئٹزرلینڈ واپس بھیج دیا گیا۔ اپنی آپبیتی میں بھائی وِلی نے بتایا: ”مئی 1949ء میں مَیں نے سوئٹزرلینڈ بیتایل کے بھائیوں کو مطلع کِیا کہ مَیں شادی کرنے والا ہوں۔“ اِس پر بھائیوں نے اُن سے تمام شرف لے لیے اور اُنہیں صرف پہلکار کے طور پر خدمت کرنے کی اِجازت دی۔ بھائی وِلی نے یہ بھی بتایا: ”مجھے تقریر دینے کی بھی اِجازت نہیں تھی۔ . . . بہت سے بہن بھائی ہمیں سلام تک نہیں کرتے تھے گویا ہم خارجشُدہ ہوں۔“
7 اِس پر بھائی وِلی کا ردِعمل کیا رہا؟ اُنہوں نے کہا: ”ہم جانتے تھے کہ بائبل میں شادی کرنے سے منع نہیں کِیا گیا۔ لہٰذا ہم نے بہت دُعائیں کیں اور معاملہ یہوواہ پر چھوڑ دیا۔“ کچھ عرصے بعد شادی کرنے کے حوالے سے اُن بھائیوں کی غلط سوچ کو درست کر دیا گیا اور بھائی وِلی کو اپنے تمام شرف واپس مل گئے۔ یوں اُنہیں اپنی وفاداری کا اجر ملا۔ خود سے پوچھیں: ”اگر میرے ساتھ ایسی نااِنصافی کی جاتی تو کیا مَیں بھی صبر سے کام لیتا اور معاملہ یہوواہ پر چھوڑ دیتا؟ یا پھر کیا مَیں اپنے حق کے لیے لڑتا؟“—امثال 11:2؛ میکاہ 7:7 کو پڑھیں۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمیں غلطفہمی بھی ہو سکتی ہے اور شاید ہم نے صورتحال کو صحیح طرح سے نہیں سمجھا۔
8. اگر ہمیں لگتا ہے کہ کلیسیا میں کوئی نااِنصافی ہوئی ہے تو یہ ہماری غلطفہمی کیوں ہو سکتی ہے؟
8 اگر ہمیں لگتا ہے کہ کلیسیا میں کوئی نااِنصافی ہوئی ہے تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ہماری غلطفہمی بھی ہو سکتی ہے۔ شاید ہم نے صورتحال کو صحیح طرح سے نہیں سمجھا یا ہم معاملے کے تمام حقائق سے واقف نہیں ہیں۔ بہرحال چاہے ہماری سوچ صحیح ہو یا غلط، ہمیں اِس معاملے کے بارے میں دُعا کرنی چاہیے، اِسے یہوواہ پر چھوڑ دینا چاہیے اور اُس کے وفادار رہنا چاہیے۔ اِس طرح ہمارا ”دل [یہوواہ] سے بیزار“ نہیں ہوگا۔—امثال 19:3 کو پڑھیں۔
9. اِس مضمون میں اور اگلے مضمون میں ہم کن باتوں پر غور کریں گے؟
9 بائبل میں بہت سے ایسے واقعات کا ذکر ہے جن میں خدا کے خادموں کے ساتھ نااِنصافی کی گئی۔ اِس مضمون میں ہم ابراہام کے پڑپوتے یوسف پر غور کریں گے جنہوں نے اپنے بھائیوں کے ہاتھوں نااِنصافی سہی۔ اگلے مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ یہوواہ بادشاہ اخیاب کے ساتھ کیسے پیش آیا۔ اِس کے علاوہ ہم پطرس رسول کی زندگی کے ایک واقعے پر بھی غور کریں گے۔ اِن تینوں واقعات پر غور کرتے وقت دیکھیں کہ آپ اِن سے کون سے سبق سیکھ سکتے ہیں تاکہ آپ کا دھیان یہوواہ کی خدمت پر رہے اور آپ اُس سے دُور نہ ہو جائیں۔ یہ سبق خاص طور پر اُس وقت آپ کے کام آئیں گے جب آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے ساتھ نااِنصافی ہو رہی ہے۔
یوسف نااِنصافیوں کا شکار بنے
10، 11. (الف) یوسف کن نااِنصافیوں کا شکار ہوئے؟ (ب) یوسف کو قید میں کیا کرنے کا موقع ملا؟
10 یوسف یہوواہ کے ایک وفادار خادم تھے جنہوں نے طرح طرح کی نااِنصافیاں سہیں۔ مگر اُن کے لیے غیروں کی نااِنصافی اِتنی تکلیفدہ نہیں تھی جتنی کہ اپنے بھائیوں کی نااِنصافی۔ جب یوسف 17 سال کے تھے تو اُن کے بھائیوں نے اُنہیں غلام کے طور پر بیچ دیا۔ پھر یوسف کو مصر لے جایا گیا۔ (پیدایش 37:23-28؛ 42:21) وہاں کچھ عرصے بعد اُن پر ایک عورت کی عزت لُوٹنے کا جھوٹا اِلزام لگایا گیا۔ اُنہیں اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا بلکہ سیدھا جیل میں ڈال دیا گیا۔ (پیدایش 39:17-20) یوسف نے کُل 13 سال غلام اور قیدی کے طور پر زندگی گزاری اور اِس دوران بڑی تکلیفیں سہیں۔ جب ہم اپنے بہن بھائیوں کے ہاتھوں نااِنصافی کا سامنا کرتے ہیں تو ہم یوسف سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
11 قید میں یوسف کو ایک اَور قیدی کو اپنی صورتحال کے بارے میں بتانے کا موقع ملا۔ یہ قیدی فرعون کے دربار میں سردار ساقی تھا۔ ایک رات اُس نے ایک خواب دیکھا جس کی وجہ سے وہ بہت پریشان ہوا۔ یوسف نے یہوواہ کی مدد سے اُسے اِس خواب کی تعبیر بتائی۔ اُنہوں نے سردار ساقی کو بتایا کہ اُسے قید سے رِہا کر دیا جائے گا اور وہ دوبارہ سے فرعون کی خدمت کرے گا۔ پھر یوسف نے موقعے کا فائدہ اُٹھا کر سردار ساقی کو اپنے بارے میں بتایا۔ اُنہوں نے اِس آدمی سے جو کچھ کہا اور جو کچھ نہیں کہا، اِس سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔—پیدایش 40:5-13۔
12، 13. (الف) ہم کیسے جانتے ہیں کہ یوسف نے اپنی صورتحال کو چپچاپ قبول نہیں کِیا؟ (ب) یوسف نے سردار ساقی کو کیا نہیں بتایا؟
12 پیدایش 40:14، 15 کو پڑھیں۔ غور کریں کہ یوسف نے سردار ساقی کو بتایا کہ اُنہیں ’عبرانیوں کے ملک سے چُرا کر لے آیا گیا ہے۔‘ یوں اُنہوں نے ظاہر کِیا کہ اُن کے ساتھ نااِنصافی ہوئی ہے۔ یوسف نے سردار ساقی کو یہ بھی بتایا کہ اُنہیں بےقصور قید کِیا گیا ہے۔ اُنہوں نے اُس سے درخواست کی کہ ”فرؔعون سے میرا ذکر کرنا اور مجھے اِس گھر سے چھٹکارا دِلوانا۔“
13 یوسف ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ نہیں گئے بلکہ اُنہوں نے اپنی صورتحال میں بہتری لانے کی کوشش کی۔ اُنہوں نے سردار ساقی کو اپنی صورتحال کے بارے میں اِس لیے بتایا کیونکہ اُنہیں اُمید تھی کہ وہ اُن کی مدد کر سکتا ہے۔ لیکن بائبل میں کہیں نہیں لکھا ہے کہ یوسف نے کسی کو یہ بتایا کہ اُن کے بھائیوں نے اُنہیں غلام کے طور پر بیچا تھا، یہاں تک کہ اُنہوں نے یہ بات فرعون کو بھی نہیں بتائی۔ اِس لیے جب اُن کے بھائی مصر آئے تو فرعون نے خوشی سے اُن کا اِستقبال کِیا، اُنہیں مصر میں آباد ہونے کی دعوت دی اور اُن سے کہا: ”ملکِمصرؔ کی سب اچھی چیزیں تمہارے لئے ہیں۔“—پیدایش 45:16-20۔
14. جب کلیسیا میں کوئی ہم سے نااِنصافی کرتا ہے تو وفاداری کی خوبی ہمیں کیا کرنے سے باز رکھے گی؟
14 اگر ہمیں لگتا ہے کہ کلیسیا میں کسی نے ہم سے نااِنصافی کی ہے تو ہمیں محتاط رہنا چاہیے کہ ہم اِس بات کو نہ پھیلائیں۔ ظاہری بات ہے کہ ہم کلیسیا کے بزرگوں سے مشورہ لے سکتے ہیں۔ اور اگر ہمیں معلوم ہے کہ ایک مسیحی نے کوئی سنگین گُناہ کِیا ہے تو ہمیں بزرگوں کو اِس کے بارے میں ضرور بتانا چاہیے۔ (احبار 5:1) لیکن اگر کوئی سنگین گُناہ نہیں ہوا ہے تو ہم کسی کو بیچ میں لائے بغیر بھی اپنے بھائی سے صلح کر سکتے ہیں اور شاید ہمیں بزرگوں کو بھی اِس معاملے کے بارے میں بتانے کی ضرورت نہ ہو۔ (متی 5:23، 24؛ 18:15 کو پڑھیں۔) ایسے معاملوں کو سلجھانے کے لیے بائبل کے اصولوں پر عمل کریں۔ کبھی کبھار ہمیں بعد میں احساس ہوتا ہے کہ ہمیں غلطفہمی ہوئی ہے اور اصل میں ہمارے ساتھ نااِنصافی نہیں ہوئی۔ تب ہم خدا کا شکر کرتے ہیں کہ ہم نے اپنے بھائی یا بہن کو بدنام کر کے معاملے کو مزید نہیں بگاڑا۔ یاد رکھیں کہ چاہے ہم سچمچ نااِنصافی کا شکار ہوئے ہوں یا نہیں، دوسروں کی بُرائیاں کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اگر ہم یہوواہ کے اور اپنے بہن بھائیوں کے وفادار ہیں تو ہم کبھی ایسی غلطی نہیں کریں گے۔ زبور نویس نے راستی سے چلنے والے شخص کے بارے میں کہا کہ وہ ”اپنی زبان سے بہتان نہیں باندھتا اور اپنے دوست سے بدی نہیں کرتا۔“—زبور 15:2، 3؛ یعقوب 3:5۔
یہوواہ سے ناراض نہ ہوں
15. یہوواہ کے وفادار رہنے سے یوسف کو کیا برکتیں ملیں؟
15 ہم یوسف سے ایک اَور بات بھی سیکھ سکتے ہیں۔ حالانکہ اُنہوں نے 13 سال تک نااِنصافی برداشت کی لیکن وہ کبھی یہوواہ سے ناراض نہیں ہوئے بلکہ اُنہوں نے معاملات کو یہوواہ کی نظر سے دیکھا۔ (پیدایش 45:5-8) ظاہری بات ہے کہ وہ اُن نااِنصافیوں کو نہیں بھول سکے جو اُنہوں نے سہی تھیں لیکن اُنہوں نے دل میں رنجش نہیں پالی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ دوسروں کی غلطیوں اور بُرے کاموں کی وجہ سے یہوواہ سے دُور نہیں ہوئے۔ چونکہ یوسف اِس بُرے وقت میں یہوواہ کے وفادار رہے اِس لیے اُنہیں یہ دیکھنے کا موقع ملا کہ یہوواہ نے معاملے کو کتنے اچھے طریقے سے سلجھایا۔ اِس کے علاوہ اُنہیں اور اُن کے خاندان کو بہت سی برکتیں بھی ملیں۔
یوسف دوسروں کی غلطیوں اور بُرے کاموں کی وجہ سے یہوواہ سے دُور نہیں ہوئے۔
16. اگر ہم کلیسیا میں کسی نااِنصافی کا شکار ہوئے ہیں تو ہمیں یہوواہ کے زیادہ قریب جانے کی کوشش کیوں کرنی چاہیے؟
16 یوسف کی طرح ہمیں بھی یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی کو مضبوط رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمیں کبھی بھی اپنے بہن بھائیوں کی غلطیوں کی وجہ سے یہوواہ سے جُدا نہیں ہونا چاہیے۔ (رومیوں 8:38، 39) اگر آپ کلیسیا میں کسی نااِنصافی کا شکار ہوئے ہیں تو یوسف کی طرح یہوواہ کے اَور بھی قریب جائیں اور معاملات کو اُس کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کریں۔ جہاں تک آپ کے لیے ممکن ہو، بائبل کے اصولوں کو مدِنظر رکھ کر معاملے کو سدھارنے کی کوشش کریں اور پھر اِسے یہوواہ پر چھوڑ دیں۔ ہم اِس بات پر پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ صحیح وقت پر اور صحیح طریقے سے معاملے کو سلجھائے گا۔
’تمام دُنیا کے اِنصاف کرنے والے‘ پر بھروسا رکھیں
17. ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہمیں ’تمام دُنیا کے اِنصاف کرنے والے‘ پر بھروسا ہے؟
17 اِس بُری دُنیا میں ہم نااِنصافیوں کا نشانہ بنیں گے۔ اور کبھی کبھی کلیسیا میں بھی کوئی ایسی بات ہوتی ہے جو شاید آپ کو یا آپ کے کسی عزیز کو نااِنصافی لگے۔ لیکن اِس وجہ سے یہوواہ سے دُور نہ ہوں۔ (زبور 119:165) اِس کی بجائے یہوواہ کے وفادار رہیں، اُس سے مدد مانگیں اور اُس پر بھروسا رکھیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ یہ بھی تسلیم کریں کہ شاید آپ تمام حقائق سے واقف نہیں ہیں اور آپ کسی غلطفہمی کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔ یوسف کی طرح بات کو نہ پھیلائیں اور دوسروں کی بدنامی نہ کریں کیونکہ ایسا کرنے سے صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔ اپنے حق کے لیے لڑنے کی بجائے یہوواہ کے وفادار رہیں اور معاملہ اُس پر چھوڑ دیں۔ پھر آپ کو بھی یوسف کی طرح برکتیں ملیں گی اور یہوواہ کی خوشنودی حاصل ہوگی۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہوواہ جو ”تمام دُنیا کا اِنصاف کرنے والا“ ہے، ہمیشہ اِنصاف سے کام لے گا کیونکہ ”اُس کی سب راہیں اِنصاف کی ہیں۔“—پیدایش 18:25؛ اِستثنا 32:4۔
18. اگلے مضمون میں ہم کن باتوں پر غور کریں گے؟
18 اگلے مضمون میں ہم دو اَور واقعات پر غور کریں گے جن میں یہوواہ کے خادموں کو نااِنصافی سہنی پڑی۔ ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ اِنصافپسندی کے سلسلے میں یہوواہ کا نظریہ اپنانے کے لیے خاکساری اور رحمدلی جیسی خوبیاں کتنی اہم ہوتی ہیں۔