رضاکارانہ جذبہ ظاہر کرنے سے یہوواہ کی بڑائی کریں
”لوگ خوشی خوشی بھرتی ہوئے اِس کے لئے [یہوواہ] کو مبارک کہو۔“—قضاۃ 5:2۔
1، 2. (الف) الیفز اور بلدد کے مطابق یہوواہ اِنسانوں کی خدمت کو کیسا خیال کرتا ہے؟ (ب) یہوواہ نے اِس موضوع پر اپنے احساسات کیسے ظاہر کیے؟
ہزاروں سال پہلے تین آدمی خدا کے وفادار خادم ایوب سے ملنے آئے۔ اُن میں سے ایک الیفز تیمانی تھے جنہوں نے ایوب سے کہا: ”کیا کوئی اِنسان خدا کے کام آ سکتا ہے؟ یقیناً عقلمند اپنے ہی کام کا ہے۔ کیا تیرے صادق ہونے سے قادرِمطلق کو کوئی خوشی ہے؟ یا اِس بات سے کہ تُو اپنی راہوں کو کامل کرتا ہے اُسے کچھ فائدہ ہے؟“ (ایوب 22:1-3) الیفز کا خیال تھا کہ خدا کی نظر میں اِنسانوں کی خدمت کی کوئی قدر نہیں۔ اُن کے ساتھی بلدد سوخی بھی اُن سے متفق تھے۔ اُنہوں نے تو یہ بھی کہا کہ کوئی بھی اِنسان خدا کی نظر میں راست نہیں۔—ایوب 25:4 کو پڑھیں۔
ہم میں جو بھی خوبیاں اور صلاحیتیں ہیں، یہ خدا کی دین ہیں اور وہ اِس بات میں بڑی دلچسپی لیتا ہے کہ ہم اِن کو کیسے اِستعمال کرتے ہیں۔
2 دراصل الیفز اور بلدد یہ کہہ رہے تھے کہ یہوواہ کو اِنسان کی خدمت سے کوئی فائدہ نہیں، اُس کے آگے اِنسان محض کیڑے یا پتنگے ہیں۔ (ایوب 4:19؛ 25:6) کیا اُنہوں نے یہ اِس لیے کہا کیونکہ وہ بہت خاکسار تھے؟ اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہوواہ خدا بہت بلند ہے۔ اگر ہم پہاڑ کی چوٹی پر کھڑے ہیں تو وادی میں چلتے پھرتے لوگ بہت ہی چھوٹے دِکھتے ہیں۔ یہ دیکھ کر شاید ہم سوچنے لگیں کہ اِنسان کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں۔ لیکن کیا یہوواہ خدا بھی ہمارے بارے میں ایسا محسوس کرتا ہے؟ کیا یہ سچ ہے کہ اُس کی نظر میں ہماری خدمت کی کوئی اہمیت نہیں؟ ہرگز نہیں۔ یہوواہ خدا نے الیفز اور بلدد اور اُن کے ساتھی ضوفر سے کہا کہ اُنہوں نے اُس کے بارے میں جھوٹی باتیں کہیں۔ پھر اُس نے ایوب کو ”میرا بندہ“ کہا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایوب سے خوش تھا۔ (ایوب 42:7، 8) لہٰذا ہم اِس بات پر پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ اِنسان واقعی ”خدا کے کام آ سکتا ہے۔“
’تُو خدا کو کیا دے دیتا ہے؟‘
3. اِلیہو نے ایوب سے کیا کہا اور اِس کا کیا مطلب تھا؟
3 اُس موقعے پر ایک جوان آدمی اِلیہو بھی اُن لوگوں کی باتوں کو سُن رہا تھا۔ جب یہ لوگ اپنی بات کہہ چُکے تو اِلیہو نے ایوب سے پوچھا: ”اگر تُو صادق ہے تو [خدا] کو کیا دے دیتا ہے؟ یا اُسے تیرے ہاتھ سے کیا مل جاتا ہے؟“ (ایوب 35:7) کیا اِلیہو بھی یہ کہہ رہے تھے کہ خدا ہماری خدمت کی قدر نہیں کرتا؟ نہیں کیونکہ یہوواہ نے اِلیہو کی درستی نہیں کی۔ دراصل اِلیہو یہ کہہ رہے تھے کہ یہوواہ کو ہماری عبادت کی ضرورت نہیں۔ اُس میں کوئی کمی نہیں۔ ہم کوئی ایسا کام نہیں کر سکتے جس سے اُس کی عظمت، طاقت یا دانشمندی میں اِضافہ ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم میں جو بھی خوبیاں اور صلاحیتیں ہیں، یہ اُسی کی دین ہیں اور وہ اِس بات میں بڑی دلچسپی لیتا ہے کہ ہم اِن کو کیسے اِستعمال کرتے ہیں۔
4. جب ہم دوسروں کی مدد کرتے ہیں تو یہوواہ اِسے کیسا خیال کرتا ہے؟
4 جب ہم یہوواہ کے بندوں کی مدد کرتے ہیں تو اُس کے نزدیک یہ ایسے ہے جیسے ہم نے اُس کی مدد کی ہو۔ امثال 19:17 میں لکھا ہے کہ ”جو مسکینوں پر رحم کرتا ہے [یہوواہ] کو قرض دیتا ہے اور وہ اپنی نیکی کا بدلہ پائے گا۔“ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب بھی ہم دوسروں سے رحم سے پیش آتے ہیں تو کائنات کا خالق اِس کو خاطر میں لاتا ہے۔ وہ خود کو ہمارا قرضدار سمجھتا ہے اور ہماری نیکی کے بدلے ہمیں بہت سی برکتیں دیتا ہے۔ اِس بات کی تصدیق اُس کے بیٹے یسوع مسیح نے بھی کی۔—لُوقا 14:13، 14 کو پڑھیں۔
5. ہم کس سوال پر غور کریں گے؟
5 قدیم زمانے میں یہوواہ نے یسعیاہ کو یہ دعوت دی کہ وہ اُس کے نمائندے کے طور پر بنیاِسرائیل کو ایک اہم پیغام سنائیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اِنسان خدا کے کام آ سکتے ہیں۔ (یسعیاہ 6:8-10) یسعیاہ نے خوشی خوشی اِس دعوت کو قبول کِیا اور کہا: ”مَیں حاضر ہوں مجھے بھیج۔“ آج بھی یہوواہ کے ہزاروں خادم یسعیاہ جیسا جذبہ ظاہر کرتے ہیں۔ وہ یہوواہ کی خدمت میں طرح طرح کے رضاکارانہ کام کرنے کو تیار ہیں، چاہے اُنہیں کتنی ہی قربانیاں کیوں نہ دینی پڑیں۔ لیکن شاید ایک مسیحی سوچے: ”یہ تو یہوواہ کی بڑی مہربانی ہے کہ وہ مجھے رضاکارانہ کام کرنے کے موقعے دیتا ہے لیکن چاہے مَیں یہ کام کروں یا نہ کروں، وہ تو اپنے مقصد کو ضرور پورا کرے گا۔ تو پھر کیا میری کوششوں سے اُسے کوئی فرق پڑتا ہے؟“ اِس سوال کا جواب پانے کے لیے ہم دبورہ اور برق کی زندگی میں ہونے والے کچھ واقعات پر غور کریں گے۔
یہوواہ نے اُن کو دلیر بنا دیا
6. یابین کے لشکر کو بنیاِسرائیل پر سبقت کیوں حاصل تھی؟
6 برق ایک اِسرائیلی جنگجو تھے اور دبورہ ایک نبِیّہ تھیں۔ اُن کے زمانے میں کنعانی بادشاہ یابین نے ”بیس برس تک بنیاِسرائیل کو شدت سے ستایا۔“ یابین کا لشکر اِتنا ظالم اور بےرحم تھا کہ بنیاِسرائیل کے لیے سفر کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ یابین کے پاس ”لوہے کے نو سو رتھ تھے۔“a مگر بنیاِسرائیل کے پاس نہ تو ہتھیار تھے اور نہ ہی ڈھالیں تھیں۔—قضاۃ 4:1-3، 13؛ 5:6-8۔
7، 8. (الف) یہوواہ خدا نے دبورہ کے ذریعے برق سے سب سے پہلے کیا کہا؟ (ب) بنیاِسرائیل نے یابین کے لشکر کو کیسے شکست دی؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔)
7 یابین کے لشکر کے مقابلے میں بنیاِسرائیل کچھ بھی نہیں تھے۔ لیکن یہوواہ خدا نے دبورہ کے ذریعے برق سے کہا: ”تُو تبوؔر کے پہاڑ پر چڑھ جا اور بنینفتالی اور بنیزبولون میں سے دس ہزار آدمی اپنے ساتھ لے لے۔“ یہوواہ نے یہ وعدہ بھی کِیا کہ ”مَیں نہرِقیسوؔن پر یاؔبین کے لشکر کے سردار سیسرؔا کو اور اُس کے رتھوں اور فوج کو تیرے پاس کھینچ لاؤں گا اور اُسے تیرے ہاتھ میں کر دوں گا۔“—قضاۃ 4:4-7۔
8 اِس بات کی خبر اِسرائیل میں پھیل گئی اور 10 ہزار رضاکاروں نے اِس جنگ میں حصہ لینے کے لیے اپنے آپ کو پیش کِیا۔ وہ سب کوہِتبور پر جمع ہو گئے۔ برق نے یہوواہ کے حکم پر عمل کرنے میں دیر نہ کی اور سیسرا کے لشکر پر حملہ کر دیا۔ (قضاۃ 4:14-16 کو پڑھیں۔) جنگ تعناک کے علاقے میں عروج پر پہنچ گئی۔ پھر اچانک تیز بارش ہونے لگی اور سیسرا کے رتھ کیچڑ میں دھنسنے لگے۔ اب یہ رتھ بالکل بےکار تھے۔ اِس لیے کنعانی بھاگنے لگے۔ برق کے لشکر نے 24 کلومیٹر (15 میل) تک اُن کا پیچھا کِیا۔ اِس کشمکش کے دوران سیسرا اپنے رتھ کو چھوڑ کر ضعننیم کو بھاگے۔ وہاں اُنہوں نے یاعیل نامی عورت کے خیمے میں پناہ لی۔ سیسرا اِتنا تھک گئے تھے کہ وہ گہری نیند سو گئے۔ یاعیل نے اِس موقعے کا فائدہ اُٹھایا اور اُن کو مار ڈالا۔ (قضاۃ 4:17-21) یوں یہوواہ نے بنیاِسرائیل کو دُشمنوں پر زبردست فتح بخشی۔b
رضاکارانہ کام کے حوالے سے فرق فرق جذبے
9. قضاۃ 5:20، 21 میں برق اور سیسرا کے بیچ ہونے والی جنگ کے بارے میں کیا بتایا گیا ہے؟
9 قضاۃ 4 باب میں جن واقعات کا ذکر ہے، اِن کے بارے میں 5 باب میں اَور تفصیل سے بتایا گیا ہے۔ قضاۃ 5:20، 21 میں لکھا ہے: ”آسمان کی طرف سے بھی لڑائی ہوئی بلکہ ستارے بھی اپنی اپنی منزل میں سیسرؔا سے لڑے۔ قیسوؔن ندی اُن کو بہا لے گئی۔“ کیا اِس کا مطلب ہے کہ فرشتوں نے اِس جنگ میں بنیاِسرائیل کی مدد کی یا پھر ٹوٹے ہوئے ستارے آسمان سے گِرنے لگے؟ بائبل میں اِس کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ لیکن یہوواہ نے عین وقت پر اور صحیح جگہ پر تیز بارش برسا کر سیسرا کے 900 رتھوں کو بےکار کر دیا اور یوں اپنی قوم کو بچا لیا۔ قضاۃ 4:14، 15 میں تین بار بتایا گیا ہے کہ اِس جیت کا سہرا یہوواہ کے سر تھا۔ لہٰذا بنیاِسرائیل کے 10 ہزار رضاکاروں میں سے کوئی اِس جیت کا سہرا اپنے سر نہیں باندھ سکتا تھا۔
10، 11. میروز کے باشندوں پر لعنت کیوں بھیجی گئی؟
10 بنیاِسرائیل کی جیت کے بعد دبورہ اور برق نے یہوواہ کی حمد میں ایک گیت گایا جس میں اُنہوں نے ایک بڑی دلچسپ بات کا ذکر کِیا۔ اُنہوں نے کہا: ”[یہوواہ] کے فرشتہ نے کہا کہ تُم میرؔوز پر لعنت کرو۔ اُس کے باشندوں پر سخت لعنت کرو۔ کیونکہ وہ [یہوواہ] کی کمک کو زورآوروں کے مقابل [یہوواہ] کی کمک کو نہ آئے۔“—قضاۃ 5:23۔
11 آج یہ معلوم نہیں کہ میروز کہاں واقع تھا۔ شاید اِس پر جو لعنت بھیجی گئی تھی، اِس کے نتیجے میں اِس جگہ کا نامونشان مٹ گیا۔ ہو سکتا ہے کہ میروز ایک ایسا شہر تھا جس کے باشندوں نے جنگ میں برق کا ساتھ نہیں دیا۔ اُن لوگوں نے ضرور سنا ہوگا کہ برق کو رضاکاروں کی ضرورت ہے۔ اُنہوں نے ہزاروں رضاکاروں کو بھی دیکھا ہوگا جو برق کا ساتھ دینے جا رہے تھے۔ لیکن اُنہوں نے خود رضاکارانہ جذبہ ظاہر نہیں کِیا۔ یا پھر ہو سکتا ہے کہ سیسرا بھاگتے بھاگتے میروز سے گزرے مگر اِس کے باشندوں نے اُن کو پکڑنے کی کوشش نہیں کی۔ اگر وہ چاہتے تو وہ یہوواہ کے لیے کچھ کر سکتے تھے اور یوں اُس سے برکت حاصل کر سکتے تھے۔ لیکن اُنہوں نے ایسا نہیں کِیا۔ میروز کے باشندوں اور یاعیل میں زمین آسمان کا فرق تھا جنہوں نے بڑی دلیری سے خدا کے دُشمن کو مار ڈالا۔—قضاۃ 5:24-27۔
جب ہمیں خدا کی خدمت میں کوئی کام کرنے کا موقع ملتا ہے تو کیا ہم رضاکارانہ جذبہ ظاہر کرتے ہیں؟
12. قضاۃ 5:9، 10 کے مطابق 10 ہزار رضاکاروں کی سوچ اور باقی لوگوں کی سوچ میں کیا فرق تھا اور ہم اِن سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟
12 قضاۃ 5:9، 10 میں 10 ہزار رضاکاروں کی سوچ اور باقی لوگوں کی سوچ میں ایک اَور فرق ظاہر کِیا گیا ہے۔ اِن آیتوں میں دبورہ اور برق نے ”اِؔسرائیل کے حاکموں“ کو داد دی ”جو . . . خوشی خوشی بھرتی ہوئے۔“ یہ حاکم اُن لوگوں سے کتنے فرق تھے جو ”سفید گدھوں پر سوار“ تھے اور اِتنے مغرور تھے کہ وہ رضاکاروں کے طور پر خدمت کرنے کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے۔ یہ لوگ جو ”نفیس غالیچوں“ یعنی قالینوں پر بیٹھتے تھے، اُنہوں نے آرامدہ زندگی کو ترجیح دی۔ وہ اُن رضاکاروں جیسا جذبہ نہیں رکھتے تھے جو برق کے ساتھ ”راستہ چلتے“ ہوئے کوہِتبور کی چٹانوں پر اور قیسون کے دَلدلی علاقے میں جنگ لڑنے کو گئے۔ اُن آرامطلب لوگوں کو یہوواہ کی خدمت کرنے کا موقع ملا لیکن اُنہوں نے اِسے ہاتھ سے جانے دیا۔ جب ہمیں خدا کی خدمت میں کوئی کام کرنے کا موقع ملتا ہے تو ہمارا ردِعمل کیا ہوتا ہے؟
13. زبولون اور نفتالی قبیلوں کے لوگوں کا جذبہ رُوبن، دان اور آشر قبیلوں کے لوگوں سے کیسے فرق تھا؟
13 سیسرا کے خلاف جنگ میں یہوواہ نے بڑے شاندار طریقے سے ثابت کِیا کہ وہ اعلیٰ حکمران ہے۔ جن رضاکاروں نے اِس جنگ میں حصہ لیا، اُنہیں یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اب وہ دوسروں کو بھی ”[یہوواہ] کے صادق کاموں“ کا آنکھوں دیکھا حال بتا سکتے تھے۔ (قضاۃ 5:11) اِن رضاکاروں میں اور رُوبن، دان اور آشر قبیلوں کے لوگوں میں بڑا فرق تھا جن کو یہوواہ کی خدمت کرنے سے زیادہ اپنے گلّوں، کشتیوں اور بندرگاہوں کی فکر تھی۔ (قضاۃ 5:15-17) اِن کے برعکس زبولون اور نفتالی قبیلوں کے لوگوں نے ’اپنی جان پر کھیل‘ کر دبورہ اور برق کا ساتھ دیا۔ (قضاۃ 5:18) اِن لوگوں کے فرق فرق جذبوں پر غور کرنے سے ہم ایک اہم سبق سیکھ سکتے ہیں۔
’یہوواہ کو مبارک کہیں‘
14. آج ہم اپنے حاکم یہوواہ کی حمایت کیسے کرتے ہیں؟
14 آج ہمیں اپنے حاکم یہوواہ کی حمایت کرنے کے لیے کسی جنگ میں حصہ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اِس کی بجائے ہم جوشوجذبے سے مُنادی کے کام میں حصہ لینے سے اُس کی حمایت کرتے ہیں۔ یہوواہ کی تنظیم کو رضاکاروں کی اشد ضرورت ہے۔ لاکھوں بہن بھائی جن میں نوجوان بھی شامل ہیں، کُلوقتی خدمت کے مختلف پہلوؤں میں حصہ لینے کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں۔ وہ پہلکاروں کے طور پر یا بیتایل میں خدمت کرتے ہیں، ہماری عبادتگاہوں کی تعمیر میں حصہ لیتے ہیں یا اِجتماعوں پر رضاکاروں کے طور پر کام کرتے ہیں۔ کچھ بزرگ ہسپتال رابطہ کمیٹی کے رُکن ہیں یا اِجتماعوں کے اِنتظام کے حوالے سے مختلف ذمےداریاں سنبھالتے ہیں۔ یقین رکھیں کہ یہوواہ خدا آپ کے رضاکارانہ جذبے کی بڑی قدر کرتا ہے اور وہ اُس محنت کو نہیں بھولے گا جو آپ اُس کے لیے کر رہے ہیں۔—عبرانیوں 6:10۔
15. ہم اپنے رضاکارانہ جذبے کو کیسے پرکھ سکتے ہیں؟
15 ہمیں خود سے ایسے سوال پوچھنے چاہئیں: ”اگر خدا کی خدمت میں رضاکاروں کی ضرورت پڑتی ہے تو کیا مَیں پیچھے پیچھے رہتا ہوں یا خود کو پیش کرتا ہوں؟ کیا مَیں مالودولت کو زیادہ اہمیت دینے لگا ہوں اور اِس لیے مجھ میں رضاکارانہ جذبہ ماند پڑ رہا ہے؟ کیا میرا ایمان بھی اُتنا ہی مضبوط ہے جتنا کہ برق، دبورہ، یاعیل اور 10 ہزار رضاکاروں کا تھا؟ کیا مَیں اُن کی طرح اپنے تمام وسائل کو یہوواہ کی خدمت میں صرف کرنے کو تیار ہوں؟ کیا مَیں زیادہ پیسے کمانے اور خوشحال زندگی گزارنے کی خاطر کسی اَور شہر یا ملک میں منتقل ہونے کا سوچ رہا ہوں؟ اگر ایسا ہے تو کیا مَیں نے دُعا کر کے اِس بات پر بھی غور کِیا ہے کہ میرے اِس قدم سے میرے گھر والوں اور کلیسیا پر کیا اثر پڑے گا؟“c
16. حالانکہ سب کچھ یہوواہ کا ہے لیکن ہم اُس کو کیا دے سکتے ہیں؟
16 یہوواہ خدا ہمیں اُس کی حکمرانی کی حمایت کرنے کے موقعے دیتا ہے جو کہ ایک بہت بڑا شرف ہے۔ آدم اور حوا کے زمانے سے لے کر اب تک شیطان اِنسانوں کو اپنی طرف کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن ہم یہوواہ پر مضبوط ایمان رکھتے ہیں اور اُس کے وفادار رہنا چاہتے ہیں۔ اِس لیے ہم خوشی خوشی اُس کی خدمت میں رضاکارانہ کام کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ یہ دیکھ کر یہوواہ بہت خوش ہوتا ہے۔ (امثال 23:15، 16) وہ ہماری اِس وفاداری کی بِنا پر شیطان کے طعنوں کا جواب دے سکتا ہے۔ (امثال 27:11) ہماری وفاداری اور فرمانبرداری یہوواہ کی نظر میں ایک بیشقیمت تحفہ ہے جس کی وہ بڑی قدر کرتا ہے۔
17. قضاۃ 5:31 کے مطابق مستقبل میں کیا ہوگا؟
17 ہم اُس وقت کا بےتابی سے اِنتظار کر رہے ہیں جب زمین پر تمام لوگ یہوواہ کی حکمرانی کی حمایت کریں گے۔ ہم بھی دبورہ اور برق جیسے احساسات رکھتے ہیں جنہوں نے کہا: ”اَے [یہوواہ]! تیرے سب دُشمن . . . ہلاک ہو جائیں۔ لیکن اُس کے پیار کرنے والے آفتاب کی مانند ہوں جب وہ آبوتاب کے ساتھ طلوع ہوتا ہے۔“ (قضاۃ 5:31) یہ تب ہوگا جب یہوواہ شیطان کی دُنیا کا نامونشان مٹا دے گا۔ مگر ہرمجِدّون کی جنگ میں یہوواہ کو اپنے دُشمنوں کو ختم کرنے کے لیے اِنسانی رضاکاروں کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اُس وقت ہم ’چپچاپ کھڑے رہیں گے‘ اور دیکھیں گے کہ یہوواہ ہمیں کیسے نجات دِلاتا ہے۔ (2-تواریخ 20:17) جب تک وہ وقت نہیں آتا، ہم جوشوجذبے سے یہوواہ کی حکمرانی کی حمایت کرنے کے ہر موقعے سے فائدہ اُٹھائیں گے۔
18. جب ہم یہوواہ کی خدمت میں رضاکارانہ کام کرتے ہیں تو دوسروں کو کیا کرنے کی ترغیب ملتی ہے؟
18 دبورہ اور برق نے بنیاِسرائیل کی فتح پر جو گیت گایا، اُس میں اُنہوں نے کسی اِنسان کی نہیں بلکہ یہوواہ کی بڑائی کی۔ اُنہوں نے گایا: ”لوگ خوشی خوشی بھرتی ہوئے اِس کے لئے [یہوواہ] کو مبارک کہو۔“ (قضاۃ 5:1، 2) آئیں، خوشی خوشی یہوواہ کی خدمت میں رضاکارانہ کام کریں تاکہ دوسروں کو فائدہ پہنچے اور وہ بھی ’یہوواہ کو مبارک کہیں۔‘
a اِن رتھوں کے پہیوں پر لوہے کے چاقو لگے تھے جو پہیوں کے ساتھ ساتھ گھومتے تھے اور راستے میں سب کچھ چیرتے جاتے تھے۔
b اِس واقعے کی تفصیل جاننے کے لیے ”مینارِنگہبانی،“ 15 نومبر 2003ء، صفحہ 28-31 کو دیکھیں۔
c مینارِنگہبانی، 1 اکتوبر 2015ء میں مضمون ”مالی مسائل کی وجہ سے پریشان“ کو دیکھیں۔