آپکی زندگی میں کیا چیز مُقدم ہے؟
”مجھے وہ راہ بتا جس پر مَیں چلوں۔“—زبور ۱۴۳:۸۔
۱. انسانی حاصلات اور کامرانیوں کی بابت سلیمان بادشاہ نے کیا نتیجہ اخذ کِیا؟
غالباً آپ بھی دوسروں کی طرح اس بات سے واقف ہیں کہ زندگی فکروعمل سے پُر ہے۔ جب آپ اسکی بابت سوچتے ہیں تو آپ ان میں سے چند ایک کو نہایت اہم سمجھ سکتے ہیں۔ دیگر کارگزاریاں اور فکریں کم اہمیت کی حامل ہیں یا پھر قطعاً لاحاصل ہیں۔ اگر آپ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں تو اسکا مطلب ہے کہ آپ نہایت دانشمند آدمیوں میں سے ایک، بادشاہ سلیمان کیساتھ متفق ہیں۔ زندگی کی کارگزاریوں کا پوری طرح جائزہ لینے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا: ”خدا سے ڈر اور اُسکے حکموں کو مان کہ انسان کا فرضِکُلی یہی ہے۔“ (واعظ ۲:۴-۹، ۱۱؛ ۱۲:۱۳) آجکل ہمارے لئے اُسکا کیا مطلب ہے؟
۲. خداترس لوگوں کو خود سے کونسے بنیادی سوالات پوچھنے چاہئیں جو کن متعلقہ سوالات کا باعث بنیں گے؟
۲ اگر آپ ”خدا سے ڈرنا اور اُسکے حکموں کو ماننا“ چاہتے ہیں تو خود سے یہ چیلنجخیز سوال پوچھیں: ’میری زندگی میں کیا چیز مُقدم ہے؟‘ سچ ہے کہ شاید آپ ہر روز تو اس سوال پر غوروفکر نہ کرتے ہوں لیکن کیوں نہ اب اس پر سوچیں؟ درحقیقت، یہ چند متعلقہ سوالات تجویز کرنا ہے، جیسےکہ، ’کیا مجھے اپنی ملازمت یا پیشے یامادی اشیاء کو حد سے زیادہ اہمیت دینی چاہئے؟ میرے گھر، خاندان اور عزیزواقارب کا کیا مقام ہے؟‘ ایک نوجوان پوچھ سکتا ہے، ’تعلیم کس حد تک میری توجہ اور وقت لے لیتی ہے؟ کیا واقعی کوئی مشغلہ، کھیل، کسی قسم کی تفریح یا ٹیکنالوجی میری اوّلین دلچسپی کی حامل ہے؟‘ اور ہماری عمر یا حالت خواہ کیسی بھی ہو ہمیں واجب طور پر پوچھنا چاہئے، ’خدا کی خدمت کو میری زندگی میں کیا مقام حاصل ہے؟‘ غالباً آپ ترجیحات قائم کرنے کی ضرورت سے متفق ہونگے۔ لیکن انہیں دانشمندی سے قائم کرنے کیلئے ہم کیسے اور کہاں سے مدد حاصل کر سکتے ہیں؟
۳. مسیحیوں کیلئے ترجیحات قائم کرنے میں کیا کچھ شامل ہے؟
۳ ”مُقدم“ میں کسی ایسی چیز کا بنیادی مفہوم پایا جاتا ہے جو دیگر تمام چیزوں سے پہلے آتی ہو یا جو فوری توجہ کی حامل ہو۔ خواہ آپ یہوواہ کے گواہ ہیں یا پھر اُن سے رفاقت رکھنے والے خدا کے کلام کے لاکھوں خلوصدل طالبعلموں میں سے ہیں، اس سچائی پر غور کریں: ”ہر چیز کا ایک موقع اور ہر کام کا جو آسمان کے نیچے ہوتا ہے ایک وقت ہے۔“ (واعظ ۳:۱) بجا طور پر، اس میں آپ کا خاندانی رشتوں کیلئے پُرمحبت فکرمندی دکھانا شامل ہے۔ (کلسیوں ۳:۱۸-۲۱) اس میں دُنیاوی ملازمت کرنے سے دیانتداری کیساتھ اپنے گھرانے کی ضروریات پوری کرنا شامل ہے۔ (۲-تھسلنیکیوں ۳:۱۰-۱۲؛ ۱-تیمتھیس ۵:۸) اور کچھ تبدیلی کی خاطر آپ کسی مشغلے یا کبھیکبھار کھیلتماشے یا تفریح کیلئے وقت نکال سکتے ہیں۔ (مقابلہ کریں مرقس ۶:۳۱۔) تاہم، سنجیدگی سے غور کرنے پر کیا آپ یہ محسوس نہیں کرتے کہ ان میں سے کوئی بھی چیز زندگی میں مُقدم نہیں ہوتی؟ کوئی اَور چیز زیادہ اہم ہے۔
۴. فلپیوں ۱:۹، ۱۰ کا ہمارے ترجیحات قائم کرنے کے معاملے سے کیا تعلق ہے؟
۴ غالباً آپ تسلیم کرتے ہیں کہ بائبل کے رہنما اصول ترجیحات قائم کرنے اور دانشمندانہ فیصلے کرنے میں گرانقدر مدد ہیں۔ مثال کے طور پر، فلپیوں ۱:۹، ۱۰ (اینڈبلیو) میں مسیحیوں کو ”صحیح علم اور مکمل بصیرت کیساتھ زیادہ سے زیادہ ترقی“ کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ کس مقصد کیلئے؟ پولس رسول نے مزید کہا: ”تاکہ تم زیادہ اہم باتوں کا یقین کر سکو۔“ کیا یہ بات قابلِفہم نہیں ہے؟ صحیح علم کی بِنا پر، ایک عقلمند مسیحی یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ زندگی میں کس چیز کو اوّلین دلچسپی کا حامل—مُقدم—ہونا چاہئے۔
ایک نمونہ کہ کیا چیز مُقدم ہے
۵. مسیحیوں کیلئے چھوڑے گئے نمونے کو بیان کرتے ہوئے، صحائف کیسے ظاہر کرتے ہیں کہ یسوع کی زندگی میں کیا چیز مُقدم تھی؟
۵ ہم پطرس رسول کے الفاظ میں علم کا ایک بیشقیمت پہلو پاتے ہیں: ”تم اِسی کے لئے بلائے گئے ہو کیونکہ مسیح بھی تمہارے واسطے دُکھ اُٹھا کر تمہیں ایک نمونہ دے گیا ہے تاکہ اُسکے نقشِقدم پر چلو۔“ (۱-پطرس ۲:۲۱) جیہاں، اس بات کی بابت معلومات حاصل کرنے کیلئے کہ زندگی میں کیا چیز مُقدم ہونی چاہئے، ہم اسکی بابت یسوع مسیح کی سوچ کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ زبور ۴۰:۸ نے نبوّتی طور پر اُسکی بابت بیان کِیا: ”اَے میرے خدا! میری خوشی تیری مرضی پوری کرنے میں ہے بلکہ تیری شریعت میرے دل میں ہے۔“ اُس نے اسی خیال کو یوں بھی بیان کِیا: ”میرا کھانا یہ ہے کہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی کے موافق عمل کروں اور اُسکا کام پورا کروں۔“—یوحنا ۴:۳۴؛ عبرانیوں ۱۲:۲
۶. خدا کی مرضی کو پہلا درجہ دینے میں ہم بھی ویسے ہی نتائج کیسے حاصل کر سکتے ہیں جو یسوع کو حاصل ہوئے تھے؟
۶ اس کلید کو نوٹ فرمائیں—خدا کی مرضی بجا لانا۔ یسوع کا نمونہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ اُسکے شاگردوں کو بجا طور پر اپنی زندگیوں میں کس چیز کو مُقدم رکھنا چاہئے کیونکہ اُس نے فرمایا کہ ”ہر ایک جب کامل ہوا تو اپنے اُستاد جیسا ہوگا۔“ (لوقا ۶:۴۰) اور چونکہ یسوع اُسی راہ پر چلا جو اُسکے باپ نے مقرر کی تھی تو اُس نے ظاہر کِیا کہ خدا کی مرضی کو مُقدم رکھنے میں ”کامل شادمانی“ تھی۔ (زبور ۱۶:۱۱؛ اعمال ۲:۲۸) کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ کس بات کی دلالت کرتا ہے؟ جب یسوع کے پیروکار اپنی زندگیوں میں مُقدم چیز کے طور پر خدا کی مرضی بجا لانے کا انتخاب کرتے ہیں تو وہ ”کامل شادمانی“ اور حقیقی زندگی سے لطفاندوز ہونگے۔ (۱-تیمتھیس ۶:۱۹) پس اپنی زندگیوں میں خدا کی مرضی بجا لانے کو پہلے درجے پر رکھنے کیلئے بےشمار وجوہات ہیں۔
۷، ۸. یسوع نے کن آزمائشوں کا سامنا کِیا اور ہم اس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۷ جب یسوع نے اس بات کی علامت پیش کی کہ اُس نے خدا کی مرضی بجا لانے کیلئے خود کو پیش کِیا ہے تو اُس کے فوراً بعد، شیطان نے اُسے گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ کیسے؟ تین حلقوں میں آزمائش کرنے سے۔ یسوع نے ہر مرتبہ واضح الفاظ میں صحیفائی جواب دیا۔ (متی ۴:۱-۱۰) لیکن ابھی اَور آزمائشیں باقی تھیں—اذیت، تمسخر، یہوداہ کے ہاتھوں پکڑوایا جانا، جھوٹے الزامات اور پھر دُکھ کی سولی پر موت۔ پھربھی، ان آزمائشوں میں سے کوئی بھی خدا کے وفادار بیٹے کو اُس کی روش سے منحرف نہ کر پائی۔ ایک نازک لمحے پر، یسوع نے دُعا کی: ”توبھی نہ جیسا مَیں چاہتا ہوں بلکہ جیسا تُو چاہتا ہے ویسا ہی ہو۔ . . . تیری مرضی پوری ہو۔“ (متی ۲۶:۳۹، ۴۲) کیا ہم میں سے ہر ایک کو ہمارے لئے چھوڑے گئے نمونے کے اس پہلو سے گہری تحریک نہیں ملنی چاہئے اور اسے ہمیں ”دُعا میں مشغول“ رہنے کی ترغیب نہیں دینی چاہئے؟—رومیوں ۱۲:۱۲۔
۸ جیہاں، جب ہم زندگی میں ترجیحات قائم کرتے ہیں، بالخصوص اگر ہم حق کے دشمنوں اور خدا کی مرضی کے مخالفوں کا سامنا کرتے ہیں تو الہٰی راہنمائی خاص طور پر مفید ہے۔ دشمنوں کی مخالفت کا تجربہ کرتے ہوئے ایماندار بادشاہ داؤد نے راہنمائی کے لئے جو التجا کی اُسے یاد کریں۔ زبور ۱۴۳ کے کچھ حصے پر غور کرنے سے ہم اس کی اہمیت کا جائزہ لینگے۔ یہ بات سمجھنے کے لئے اُسے ہماری مدد کرنی چاہئے کہ ہم کیسے یہوواہ کے ساتھ اپنے ذاتی رشتے کو مضبوط بنا سکتے ہیں اور اپنی زندگیوں میں خدا کی مرضی بجا لانے کو اوّلین درجے پر رکھنے کے لئے مستحکم ہو سکتے ہیں۔
یہوواہ ہماری دُعائیں سنتا اور جواب دیتا ہے
۹. (ا) اگرچہ داؤد گنہگار تھا توبھی اُسکے اقوال اور افعال سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ (ب) ہمیں نیکی کرنے سے باز کیوں نہیں آنا چاہئے؟
۹ گنہگار فانی شخص ہونے کے باوجود، داؤد یہ ایمان رکھتا تھا کہ یہوواہ اُس کی التجا پر کان لگائے گا۔ اُس نے عاجزانہ التجا کی: ”اَے خداوند! میری دُعا سن۔ میری التجا پر کان لگا۔ اپنی وفاداری اور صداقت میں مجھے جواب دے اور اپنے بندہ کو عدالت میں نہ لا کیونکہ تیری نظر میں کوئی راستباز نہیں ٹھہر سکتا۔“ (زبور ۱۴۳:۱، ۲) داؤد اپنی ناکاملیت سے باخبر تھا پھربھی اُس کا دل خدا کے لئے کامل تھا۔ لہٰذا، وہ پُراعتماد تھا کہ اُسے صداقت میں جواب ملے گا۔ کیا یہ ہماری حوصلہافزائی نہیں کرتا؟ اگرچہ ہم خدا کی صداقت کے معیار پر پورا نہیں اُترتے توبھی ہم یہ اعتماد رکھ سکتے ہیں کہ اگر ہمارے دل اُس کی جانب کامل ہیں تو وہ ہماری سنتا ہے۔ (واعظ ۷:۲۰؛ ۱-یوحنا ۵:۱۴) دُعا میں مشغول رہنے کے ساتھ ساتھ، ہمیں اِن بُرے ایّام میں ”نیکی کے ذریعے بدی پر غالب“ آنے کیلئے پُختہ ارادہ کرنا چاہئے۔—رومیوں ۱۲:۲۰، ۲۱؛ یعقوب ۴:۷۔
۱۰. داؤد کو کیوں پریشانکُن اوقات کا سامنا ہوا تھا؟
۱۰ ہماری طرح، داؤد کے بھی دشمن تھے۔ دُورافتادہ، ناقابلِرسائی مقامات میں پناہ ڈھونڈنے پر مجبور، ساؤل سے بھاگے ہوئے شخص کے طور پر یا دشمنوں سے خائف بادشاہ کے طور پر، داؤد کو تشویشناک اوقات کا سامنا کرنا پڑا۔ اُس نے بیان کِیا کہ اس نے اُسے کیسے متاثر کِیا تھا: ”دشمن نے میری جان کو ستایا ہے۔ . . . مجھے اندھیری جگہوں میں . . . بسایا ہے . . . میری جان نڈھال ہے اور میرا دل مجھ میں بیکل ہے۔“ (زبور ۱۴۳:۳، ۴) کیا آپ نے کبھی کسی وجہ سے ایسا ہی محسوس کِیا ہے؟
۱۱. خدا کے دورِحاضر کے خادموں نے کن پریشانکُن اوقات کا سامنا کِیا ہے؟
۱۱ دشمن کا دباؤ، سخت معاشی مشکل کے باعث آزمائشوں، تشویشناک علالت یا دیگر پریشانکُن مسائل نے خدا کے بعض لوگوں کو ایسا محسوس کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ مایوسی کا شکار ہو جائینگے۔ بعض مواقع پر شاید اُنکے دل بھی بےحس ہو گئے ہوں۔ یہ بالکل ایسے ہے گویاکہ وہ انفرادی طور پر پکار اُٹھے ہیں: ”جس نے [مجھکو] بہت اور سخت تکلیفیں دکھائی ہیں پھر [مجھکو] زندہ کریگا . . . تُو میری عظمت کو بڑھا اور پھر کر مجھے تسلی دے۔“ (زبور ۷۱:۲۰، ۲۱) اُنکی مدد کیسے کی گئی ہے؟
دشمن کی کوششوں کا کیسے مقابلہ کریں
۱۲. داؤد بادشاہ نے خطرے اور آزمائشوں پر کیسے قابو پایا؟
۱۲ زبور ۱۴۳:۵ ظاہر کرتی ہے کہ داؤد نے خطرے اور سخت آزمائشوں کے گھیرے میں کیا کِیا: ”مَیں گذشتہ زمانوں کو یاد کرتا ہوں۔ مَیں تیرے سب کاموں پر غور کرتا ہوں اور تیری دستکاری پر دھیان کرتا ہوں۔“ داؤد نے خدا کے خادموں کیساتھ اُسکے تعلقات کو یاد کِیا اور یہ بھی کہ کیسے اُس نے خود رہائی کا تجربہ کِیا تھا۔ اُس نے اس بات پر غور کِیا کہ یہوواہ نے اپنے عظیم نام کی خاطر کیا کچھ سرانجام دیا تھا۔ جیہاں، داؤد نے خود کو خدا کے کاموں میں مصروف رکھا۔
۱۳. جب ہم آزمائشوں کا سامنا کرتے ہیں تو ہمارا وفادار خادموں کی قدیم اور جدید مثالوں پر غور کرنا برداشت کرنے میں کیسے ہماری مدد کریگا؟
۱۳ کیا ہم نے خدا کے اپنے لوگوں کے ساتھ تعلقات کو اکثر یاد نہیں کِیا ہے؟ یقیناً! اس میں مسیحی دَور سے قبل ’گواہوں کے بڑے بادل‘ کا قائمکردہ ریکارڈ شامل ہے۔ (عبرانیوں ۱۱:۳۲-۳۸؛ ۱۲:۱) پہلی صدی کے ممسوح مسیحیوں کی حوصلہافزائی کی گئی تھی کہ ”پہلے دنوں کو“ اور جو کچھ اُنہوں نے برداشت کِیا ہے اُسے ”یاد“ کرتے رہیں۔ (عبرانیوں ۱۰:۳۲-۳۴) جدید وقتوں میں خدا کے خادموں کے تجربات کی بابت کیا ہے جیسےکہ وہ جو جیہواز وٹنسز—پروکلیمرز آف گاڈز کنگڈمa میں بیان کئے گئے ہیں؟ اس میں اور دیگر مطبوعات میں درج سرگزشتیں ہمیں یہ یاد کرنے کے قابل بناتی ہیں کہ یہوواہ نے پابندیوں، قیدوبند، دنگافساد اور اذیت اور بیگار کیمپوں میں اپنے لوگوں کی کیسے مدد کی ہے۔ برونڈی، لائبیریا، روانڈا اور سابق یوگوسلاویہ جیسے جنگ سے پاشپاش ممالک میں آزمائشیں رہی ہیں۔ جب مخالفت بڑھی تو یہوواہ کے خادموں نے یہوواہ کیساتھ ایک مضبوط رشتہ قائم رکھنے کی وجہ سے برداشت کی۔ جنہوں نے اپنی زندگیوں میں اُسکی مرضی بجا لانے کو مُقدم رکھا اُنہیں اُسکے ہاتھ نے سنبھالے رکھا۔
۱۴. (ا) ہماری ہی طرح کی صورتحال میں کسی شخص کو خدا کے سنبھالنے کی ایک مثال کیا ہے؟ (ب) آپ اس مثال سے کیا سیکھتے ہیں؟
۱۴ تاہم، شاید آپ کہیں کہ آپ کو کبھی ایسی وحشیانہ بدسلوکی کا تجربہ نہیں ہوا اور آپ محسوس کر سکتے ہیں کہ یہ بات تو بعیدازقیاس ہے کہ آپ کبھی ایسی صورتحال کا سامنا کرینگے۔ لیکن اپنے لوگوں کے لئے خدا کی مدد ہمیشہ ڈرامائی حالات تک محدود نہیں ہے۔ اُس نے بہتیرے ”عام“ افراد کی ”معمولی“ حالات میں بھی مدد کی ہے۔ بہت سی مثالوں میں سے ایک یہ ہے: دسمبر ا، ۱۹۹۶ کے دی واچٹاور میں پینلوپ ماکرس کی بیانکردہ سرگزشت شائع ہوئی تھی۔ مسیحی راستی کی کیا ہی شاندار مثال! کیا آپ یاد کر سکتے ہیں کہ اُسے پڑوسیوں کی طرف سے کونسی مصیبتیں اُٹھانی پڑیں تھیں، اُس نے شدید کمزوریوں کا کیسے مقابلہ کِیا اور کُلوقتی خدمت کو جاری رکھنے کے لئے اُس نے کونسی کوششیں کیں؟ مائٹیلین میں اُس کے بااجر تجربے کی بابت کیا ہے؟ خاص بات تو یہ ہے کہ کیا آپ ایسی مثالوں کو ہم سب کے لئے اپنی زندگیوں میں خدا کی مرضی بجا لانے کو پہلا درجہ دیتے ہوئے، ترجیحات قائم کرنے میں مدد خیال کرتے ہیں؟
۱۵. یہوواہ کے بعض کام کیا ہیں جن پر ہمیں غوروخوض کرنا چاہئے؟
۱۵ یہ ہمیں داؤد کی طرح یہوواہ کی کارگزاریوں پر غوروخوض کرنے کی قوت عطا کرتا ہے۔ اپنا مقصد انجام دینے کیلئے یہوواہ نے اپنے بیٹے کی موت، قیامت اور جلال کے ذریعے نجات کا بندوبست کِیا۔ (۱-تیمتھیس ۳:۱۶) اُس نے اپنی آسمانی بادشاہت قائم کی ہے، آسمانوں کو شیطان اور اُسکے شیاطین سے پاکصاف کِیا ہے اور اس زمین پر سچی پرستش کو بحال کِیا ہے۔ (مکاشفہ ۱۲:۷-۱۲) اُس نے روحانی فردوس بنائی ہے اور اپنے لوگوں کو ترقی بخشی ہے۔ (یسعیاہ ۳۵:۱-۱۰؛ ۶۰:۲۲) اُسکے لوگ اب بڑی مصیبت کے آغاز سے پہلے حتمی گواہی دے رہے ہیں۔ (مکاشفہ ۱۴:۶، ۷) جیہاں، ہمارے پاس غوروخوض کرنے کیلئے بہت کچھ ہے۔
۱۶. ہماری کس چیز میں مگن رہنے کی حوصلہافزائی کی گئی ہے اور یہ ہم پر کیا اثر کریگی؟
۱۶ انسانی کاوشوں سے مغلوب ہونے کی بجائے خود کو خدا کی دستکاری میں مگن رکھنا ہمیں یہ یقین دلاتا ہے کہ یہوواہ کی سرگرمِعمل قوت ناقابلِمزاحمت ہے۔ تاہم، یہ دستکاری، آسمان اور زمین پر تخلیق کے شاندار طبعی کاموں تک محدود نہیں ہے۔ (ایوب ۳۷:۱۴؛ زبور ۱۹:۱؛ ۱۰۴:۲۴) اُسکے شاندار کاموں میں اپنے لوگوں کو دشمن مخالفین سے رہائی دلانا بھی شامل ہے جیساکہ اُسکی قدیم برگزیدہ اُمت کے تجربات سے ظاہر ہے۔—خروج ۱۴:۳۱؛ ۱۵:۶۔
جس راہ پر چلنا ہے اُسے جاننا
۱۷. داؤد کے نزدیک یہوواہ کسقدر حقیقی تھا اور اس سے ہماری کیسے ہمتافزائی ہو سکتی ہے؟
۱۷ داؤد نے مدد کیلئے دُعا کی کہ کہیں اُس میں سے زندگی کی تراوت ختم نہ ہو جائے: ”مَیں اپنے ہاتھ تیری طرف پھیلاتا ہوں۔ میری جان خشک زمین کی مانند تیری پیاسی ہے۔ اَے خداوند! جلد مجھے جواب دے۔ میری روح گُداز ہو چلی۔ اپنا چہرہ مجھ سے نہ چھپا۔ ایسا نہ ہو کہ مَیں قبر میں اُترنے والوں کی مانند ہو جاؤں۔“ (زبور ۱۴۳:۶، ۷) ایک گنہگار شخص، داؤد جانتا تھا کہ خدا اُسکی حالت سے باخبر ہے۔ (زبور ۳۱:۷) بعضاوقات ہم بھی اپنی روحانیت کو کم ہوتا ہوا محسوس کر سکتے ہیں۔ لیکن صورتحال مایوسکُن نہیں ہے۔ یہوواہ جو ہماری دُعائیں سنتا ہے، شفیق بزرگوں، مینارِنگہبانی کے مضامین یا اجلاسوں کے ایسے حصوں کے ذریعے جو شاید ایسے معلوم ہوں کہ جیسے ہمارے لئے ہی مرتب کئے گئے تھے ہمیں تازگی بخشنے سے ہماری بحالی کو تیز کر سکتا ہے۔—یسعیاہ ۳۲:۱، ۲۔
۱۸، ۱۹. (ا) یہوواہ سے ہماری کیا پُرخلوص التجا ہونی چاہئے؟ (ب) ہم کس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں؟
۱۸ یہوواہ پر ہمارا توکل ہمیں اُس سے یہ التجا کرنے کی تحریک دیتا ہے: ”مجھے اپنی شفقت کی خبر دے کیونکہ میرا توکل تجھ پر ہے۔ مجھے وہ راہ بتا جس پر مَیں چلوں۔“ (زبور ۱۴۳:۸) کیا اُس نے بہن ماکرس کو مایوس ہونے دیا تھا جو یونان کے ایک جزیرے پر الگتھلگ زندگی بسر کر رہی تھی؟ لہٰذا اگر آپ اپنی زندگی میں اُسکی مرضی بجا لانے کو مُقدم رکھتے ہیں تو کیا وہ آپکو مایوس کریگا؟ ابلیس اور اُسکے نمائندے خدا کی بادشاہت کی منادی کرنے کے ہمارے کام کو روکنا یا بالکل بند کرنا چاہینگے۔ خواہ ہم ایسے ممالک میں خدمت کریں جہاں عموماً سچی پرستش کی آزادی ہے یا ہم ایسی جگہ پر خدمت انجام دیں جہاں اس پر پابندی ہے، ہماری متحدہ دُعائیں داؤد کی التجاؤں کیساتھ ہمآہنگ ہیں: ”اَے خداوند! مجھے میرے دشمنوں سے رہائی بخش کیونکہ مَیں پناہ کے لئے تیرے پاس بھاگ آیا ہوں۔“ (زبور ۱۴۳:۹) روحانی آفت کے خلاف ہمارے تحفظ کا انحصار حقتعالیٰ کے پوشیدہ مقام میں پناہ حاصل کرنے پر ہے۔—زبور ۹۱:۱۔
۱۹ کیا چیز مُقدم ہے اس کی بابت ہمارے یقین کی بنیاد بہت پُختہ ہے۔ (رومیوں ۱۲:۱، ۲) لہٰذا، مختلف چیزوں کی بابت انسانی نقطۂنظر سے دُنیا جسے اہم خیال کرتی ہے اُسے آپ پر عائد کرنے کی اُسکی کوششوں کی مذمت کریں۔ اپنی زندگی کے ہر پہلو سے ظاہر کرتے رہیں کہ آپ کس چیز کو مُقدم سمجھتے ہیں—خدا کی مرضی بجا لانا۔—متی ۶:۱۰؛ ۷:۲۱۔
۲۰. (ا) ہم نے زبور ۱۴۳:۱-۹ سے داؤد کی بابت کیا سیکھا ہے؟ (ب) آجکل مسیحی کیسے داؤد جیسا جذبہ ظاہر کرتے ہیں؟
۲۰ زبور ۱۴۳ کی پہلی نو آیات یہوواہ کیساتھ داؤد کے ذاتی قریبی رشتے کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہیں۔ دشمنوں کے گھیرے میں بھی، اُس نے راہنمائی کیلئے خدا سے بخوشی التجا کی۔ اُس نے صحیح راہ پر چلنے میں مدد کی آرزو کیساتھ اپنے دل کو کھولکر رکھ دیا۔ آجکل زمین پر رُوح سے مسحشُدہ لوگوں کے بقیے اور اُنکے ساتھیوں کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہے۔ جب وہ راہنمائی کیلئے اُس سے التجا کرتے ہیں تو وہ یہوواہ کیساتھ اپنے رشتے کو بیشقیمت خیال کرتے ہیں۔ وہ ابلیس اور دُنیا کی طرف سے آنے والے دباؤ کے باوجود خدا کی مرضی بجا لانے کو اوّلین درجہ دیتے ہیں۔
۲۱. اگر ہم دوسروں کو یہ سکھانا چاہتے ہیں کہ اُنکی زندگیوں میں کونسی چیز مُقدم ہونی چاہئے تو ہمارے لئے ایک عمدہ نمونہ قائم کرنا کیوں ضروری ہے؟
۲۱ یہوواہ کے گواہوں کیساتھ بائبل کا مطالعہ کرنے والے لاکھوں لوگوں کو یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ خدا کی مرضی بجا لانا مُقدم ہے۔ اس بات کو سمجھنے کیلئے ہم علم جو ہمیشہ کی زندگی کا باعث ہے کتاب کے باب ۱۳ پر گفتگو کرتے ہوئے اُنکی مدد کر سکتے ہیں جو کلام کے فرمانبردار بننے میں شامل اصولوں پر زور دیتا ہے۔b بِلاشُبہ، ہم اُنہیں جوکچھ سکھا رہے ہیں اُنہیں اُسے ہمارے اندر دیکھنا چاہئے۔ نسبتاً تھوڑے عرصے کے بعد، وہ بھی اُس راہ سے واقف ہو جائینگے جس پر اُنہیں چلنا چاہئے۔ جب یہ لاکھوں لوگ ذاتی طور پر محسوس کرتے ہیں کہ اُنکی زندگیوں میں کونسی چیز اوّلین اہمیت کی حامل ہونی چاہئے تو بہتیرے مخصوصیت اور بپتسمے کیلئے قدم اُٹھانے کی تحریک پائینگے۔ اسکے بعد، زندگی کی راہ پر چلتے رہنے کیلئے کلیسیا اُنکی مدد کر سکتی ہے۔
۲۲. اگلے مضمون میں کن سوالات پر غور کِیا جائیگا؟
۲۲ بہتیرے بہت جلد تسلیم کر لیتے ہیں کہ خدا کی مرضی کو اُنکی زندگیوں میں اوّلین اہمیت حاصل ہونی چاہئے۔ تاہم، یہوواہ کیسے اپنے خادموں کو اپنی مرضی بجا لانے کیلئے بتدریج تعلیم دیتا ہے؟ یہ اُن کیلئے کونسے فائدے لاتی ہے؟ اگلے مضمون میں زبور ۱۴۳:۱۰ کی مرکزی آیت پر گفتگو کیساتھ ان سوالات پر غور کِیا جائیگا۔
[فٹنوٹ]
a ۱۹۹۳ میں واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک انکارپوریٹڈ کی شائعکردہ۔
b واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک، انکارپوریٹڈ کی ۱۹۹۵ میں شائعکردہ۔
آپکا جواب کیا ہے؟
▫ فلپیوں ۱:۹، ۱۰ کا اطلاق کرنے سے، ہم ترجیحات کیسے قائم کر سکتے ہیں؟
▫ یسوع نے کیسے ظاہر کِیا کہ اُس کی زندگی میں کیا چیز مُقدم تھی؟
▫ ہم داؤد کے افعال سے کیا سیکھ سکتے ہیں جب وہ آزمائش کے تحت تھا؟
▫ آجکل زبور ۱۴۳:۱-۹ کس طرح ہماری مدد کرتی ہیں؟
▫ ہماری زندگیوں میں کونسی چیز مُقدم ہونی چاہئے؟
[صفحہ 7 پر تصویر]
داؤد کے کاموں نے یہوواہ پر اُسکے توکل کو ثابت کِیا
[تصویر کا حوالہ]
Illustrirte Pracht - Bibel/Heilige Schrift Reproduced from
des Alten und Neuen Testaments, nach der deutschen
Uebersetzung D. Martin Luther’s