یہوواہ شکستہ دل کی حقارت نہیں کرتا
”شکستہ روح خدا کی قربانی ہے۔ اے خدا تو شکستہ اور خستہ دل کو حقیر نہ جانیگا۔“—زبور ۵۱:۱۷۔
۱. یہوواہ اپنے ان پرستاروں کو کیسا خیال کرتا ہے جو سنگین طور پر گناہ کرتے ہیں لیکن تائب ہیں؟
یہوواہ اپنے تک رسائی کو ایسے روک سکتا ہے جیسے کہ گھنے بادلوں کیساتھ تاکہ دعا اس تک نہ پہنچے۔ (نوحہ ۳:۴۴) لیکن وہ چاہتا ہے کہ اسکے لوگ اس تک رسائی رکھیں۔ اگر اسکے پرستاروں میں کوئی سنگین طور پر غلطی کرتا بھی ہے لیکن تائب ہے تو ہمارا آسمانی باپ اس شخص کی طرف سے کی گئی نیکی کو یاد رکھتا ہے۔ لہذا، پولس رسول ساتھی مسیحیوں کو بتا سکتا تھا: ”خدا بےانصاف نہیں جو تمہارے کام اور اس محبت کو بھول جائے جو تم نے اسکے نام کے واسطے ... ظاہر کی۔“—عبرانیوں ۶:۱۰۔
۲، ۳. غلطی کرنے والے ساتھی ایمانداروں کے ساتھ برتاؤ کرتے وقت مسیحی بزرگوں کو کس بات کا لحاظ رکھنا چاہیے؟
۲ مسیحی بزرگوں کو بھی سالہا سال کی وفادارانہ خدمت کا لحاظ رکھنا چاہیے جو ساتھی ایمانداروں نے خدا کیلئے کی ہے۔ اس میں تائب اشخاص کی طرف سے پاک خدمت شامل ہے جو کوئی غلط قدم اٹھا چکے ہیں یا جنہوں نے سنگین طور پر بھی گناہ کیا ہے۔ مسیحی چرواہے ان سب کی روحانی فلاح چاہتے ہیں جو خدا کے گلے میں ہیں۔—گلتیوں ۶:۱، ۲۔
۳ ایک تائب خطاکار کو یہوواہ کے رحم کی ضرورت ہے۔ تاہم، اس سے زیادہ کی ضرورت ہے۔ اسکو زبور ۵۱:۱۰-۱۹ میں داؤد کے الفاظ کے ذریعے واضح کیا گیا ہے۔
ایک پاک دل درکار
۴. داؤد نے ایک پاک دل اور نئی روح کیلئے دعا کیوں کی؟
۴ اگر ایک مخصوصشدہ مسیحی گناہ کی وجہ سے ایک خراب روحانی حالت میں ہے تو یہوواہ کے رحم اور معافی کے علاوہ اسے اور کس چیز کی ضرورت ہو سکتی ہے؟ داؤد نے التجا کی: ”اے خدا! میرے اندر پاک دل پیدا کر اور میرے باطن میں میں ازسرنو مستقیم روح ڈال۔“ (زبور ۵۱:۱۰) بظاہر داؤد نے یہ درخواست اسلئے کی کیونکہ اسے احساس ہوا کہ اسکے دل میں ابھی تک صریح گناہ کا رجحان تھا۔ ہو سکتا ہے ہم گناہ کی ایسی قسموں میں نہ الجھے ہوں جس نے داؤد کو بتسبع اور اوریاہ کے سلسلے الجھا لیا، لیکن ہمیں سنگین طور پر گنہگارانہ چالچلن میں پڑنے کی آزمائش کے سامنے جھک جانے سے بچنے کیلئے یہوواہ کی مدد کی ضرورت ہے۔ علاوہازیں، ہمیں ذاتی طور پر حرص اور نفرت—چوری اور قتل سے ملتے جلتے جرائم جیسے گنہگارانہ خصائل کو دل سے نکالنے کیلئے الہٰی مدد کی ضرورت ہو سکتی ہے۔—کلسیوں ۳:۵، ۶، ۱-یوحنا ۳:۱۵۔
۵. (ا)ایک پاک دل رکھنے کا کیا مطلب ہے؟ (ب) جب اس نے ایک نئی روح کیلئے درخواست کی تو داؤد نے کیا خواہش کی؟
۵ یہوواہ اس چیز کا تقاضا کرتا ہے کہ اسکے خادم ایک ”پاک دل“ رکھیں یعنی محرک یا ارادے کی پاکیزگی۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ اس نے ایسی پاکیزگی ظاہر نہیں کی داؤد نے دعا کی کہ خدا اسکے دل کو پاک کرے اور اسے الہٰی معیاروں کی مطابقت میں لائے۔ زبورنویس ایک ازسرنو مستقیم روح، یا ذہنی رجحان کا بھی حاجتمند تھا۔ اسے ایک ایسی روح کی ضرورت تھی جو آزمائش کی مزاحمت کرنے اور یہوواہ کے آئین اور اصولوں کی مضبوطی سے پابندی کرنے کیلئے اسکی مدد کریگی۔
روحالقدس نہایت اہم
۶. داؤد نے یہ منت کیوں کی کہ یہوواہ روحالقدس کو اس سے جدا نہ کرے؟
۶ جب اپنی غلطیوں یا خطاؤں کی وجہ سے مایوسی کی حالت میں ہوں تو ہم محسوس کر سکتے ہیں کہ خدا ہمیں ترک کرنے اور اپنی روحالقدس، یا سرگرم قوت کو ہم سے جدا کرنے والا ہے۔ داؤد نے ایسا محسوس کیا کیونکہ اس نے یہوواہ سے منت کی: ”مجھے اپنے حضور سے خارج نہ کر اور اپنی پاک روح کو مجھ سے جدا نہ کر۔“ (زبور ۵۱:۱۱) پشیمان اور عاجز داؤد نے محسوس کیا کہ اسکے گناہوں نے اسے یہوواہ کی خدمت کرنے کے ناقابل کر دیا تھا۔ خدا کے حضور سے خارج کر دئے جانے کا مطلب اسکی مہربانی، اطمینان، اور برکت کو کھو دینا ہوگا۔ اگر داؤد کو روحانی طور پر بحال ہونا تھا تو اسے یہوواہ کی پاک روح کی ضرورت تھی۔ اسے اپنے اوپر رکھتے ہوئے بادشاہ دعا کیساتھ یہوواہ کو خوش کرنے کیلئے الہٰی راہنمائی حاصل کر سکتا، گناہ سے بچ سکتا، اور حکمت سے حکمرانی کر سکتا تھا۔ روحالقدس کے دینے والے کے خلاف اپنے گناہوں سے باخبر ہوتے ہوئے داؤد نے موزوں طور پر التجا کی کہ یہوواہ اسے اس سے جدا نہ کرے۔
۷. ہمیں کیوں روحالقدس کیلئے دعا کرنی چاہئے اور اسے رنجیدہ کرنے سے بچنا چاہیے؟
۷ ہماری بابت کیا ہے؟ ہمیں روحالقدس کیلئے دعا کرنی چاہیے اور ضرور ہے کہ اسکی راہنمائی کی پیروی کرنے میں ناکامی سے اسے رنجیدہ کرنے سے بچنے کی کوشش کریں۔ (لوقا ۱۱:۱۳، افسیوں ۴:۳۰) ورنہ، ہم روح سے محروم ہو سکتے ہیں اور اسکے خداداد پھل محبت، خوشی، اطمینان، تحمل، مہربانی، نیکی، ایمان، حلممزاجی، ضبط نفس، دکھانے کے ناقابل ہونگے۔ یہوواہ خدا خاص طور پر ہم سے اپنی روح کو جدا کرلیگا اگر ہم غیرتائب ہو کر اسکے خلاف گناہ کرتے رہتے ہیں۔
نجات کی شادمانی
۸. اگر ہم گناہ کرتے ہیں مگر نجات کی شادمانی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں کیا کرنے کی ضرورت ہے؟
۸ ایک تائب گنہگار جو روحانی بحالی کا تجربہ کرتا ہے پھر سے یہوواہ کی طرف سے نجات کی فراہمی سے خوش ہو سکتا ہے۔ اسکی آرزو میں داؤد نے یہوواہ سے منت کی: ”اپنی نجات کی شادمانی مجھے پھر عنایت کر اور مستعد روح سے مجھے سنبھال۔“ (زبور ۵۱:۱۲) یہوواہ خدا کی طرف سے نجات کی یقینی امید سے خوش ہونا کتنا شاندار تھا! (زبور ۳:۸) خدا کے خلاف گناہ کرنے کے بعد، داؤد نے اسکی طرف سے نجات کی خوشی کی بحالی چاہی۔ بعد کے زمانوں میں، یہوواہ نے اپنے بیٹے، یسوع مسیح کے فدیے کی قربانی کے ذریعے نجات کا اہتمام کیا۔ اگر ہم خدا کے مخصوصشدہ خادموں کے طور پر سنگین گناہ کرتے ہیں مگر اپنے لئے نجات کی شادمانی کی بحالی چاہتے ہیں تو ہمیں تائب رجحان رکھنے کی ضرورت ہے اور اپنے گناہ کو روحالقدس کے خلاف گناہ کرنے کی حد تک نہ لے جائیں۔—متی ۱۲:۳۱، ۳۲، عبرانیوں ۶:۴-۶۔
۹. داؤد کس چیز کیلئے درخواست کر رہا تھا جب اس نے خدا سے اسے ”مستعد روح سے“ سنبھالنے کیلئے کہا؟
۹ داؤد نے درخواست کی یہوواہ اسے ”مستعد روح“ سے سنبھالے۔ ظاہری طور پر یہ مددگار ہونے کیلئے خدا کی رضامندی یا اسکی پاک روح کا اشارہ نہیں دیتی، بلکہ تحریک دینے والی داؤد کی ذہنی رغبت کا حوالہ دیتی ہے۔ داؤد چاہتا تھا کہ خدا مستعد روح عطا کرنے سے اسکی مدد کرے تاکہ وہ جو کچھ درست ہے اسکو عمل میں لائے اور پھر سے گناہ میں نہ پڑے۔ یہوواہ خدا لگاتار اپنے خادموں کی اعانت کرتا ہے اور انہیں اٹھا کھڑا کرتا ہے جو مختلف آزمائشوں سے دب گئے ہیں۔ (زبور ۱۴۵:۱۴) یہ جاننا کتنا تسکینبخش ہے، خاص طور پر اگر ہم نے خطا کی ہے اور پشیمان ہیں اور ہمیشہ وفاداری کیساتھ یہوواہ کی خدمت کرنا چاہتے ہیں!
خطاکاروں کو کیا سکھائیں؟
۱۰، ۱۱. (ا)داؤد اسرائیلی خطاکاروں کو کیا سکھا سکتا تھا؟ (ب) داؤد خود کیا کرنے کے بعد ہی گنہگار کو سکھا سکتا تھا؟
۱۰ اگر خدا اسکی اجازت دیگا تو داؤد بےغرضی سے کوئی ایسا کام کرنا چاہیگا جو یہوواہ کے رحم کیلئے اسکی قدردانی کو ظاہر کریگا اور دوسروں کی مدد کریگا۔ یہوواہ سے مخاطب کئے گئے دعائیہ جذبات کیساتھ تائب بادشاہ نے آگے بیان کیا: ”تب میں خطاکاروں کو تیری راہیں سکھاؤنگا اور گنہگار تیری طرف رجوع کرینگے۔“ (زبور ۵۱:۱۳) گنہگار داؤد خطاکاروں کو خدا کی شریعت کیسے سکھا سکتا تھا؟ وہ انہیں کیا بتا سکتا تھا؟ اور اس سے کیا اچھائی انجام پا سکتی تھی؟
۱۱ خطاکار اسرائیلیوں کو شریر روش سے انہیں موڑنے کی امید میں یہوواہ کی راہیں بتاتے وقت داؤد نشاندہی کر سکتا تھا کہ گناہ کتنا برا ہے، توبہ کا کیا مطلب ہے، اور خدا کا رحم کیسے حاصل کریں۔ یہوواہ کی ناپسندیدگی اور ایک گنہگار ضمیر کی وجہ سے ذہنی کوفت کو محسوس کرنے کے بعد، داؤد یقیناً تائب شکستہدل، گنہگاروں کیلئے ایک ہمدرد استاد ہوگا۔ بلاشُبہ، دوسروں کو سکھانے کیلئے صرف اسکے بعد ہی وہ اپنا نمونہ استعمال کر سکتا تھا جب وہ خود یہوواہ کے معیاروں کو قبول اور اسکی معافی حاصل کر چکا ہو، کیونکہ الہٰی تقاضوں کی تابعداری سے انکار کرنے والوں کے پاس ”خدا کے آئین کو بیان کرنے کا“ کوئی حق نہیں۔—زبور ۵۰:۱۶، ۱۷۔
۱۲. اس علم نے داؤد کو کیسے فائدہ پہنچایا کہ خدا نے اسے خون کے جرم سے بچا لیا تھا؟
۱۲ اپنے ارادوں کا ایک دوسرے طریقے سے اعادہ کرتے ہوئے داؤد نے کہا: ”اے خدا! اے میرے نجاتبخش خدا مجھے خون کے جرم سے چھڑا تو میری زبان تیری صداقت کا گیت گائیگی۔“ (زبور ۵۱:۱۴) خون کا جرم اپنے ساتھ موت کی سزا لایا۔ (پیدایش ۹:۵، ۶) پس یہ علم داؤد کو ذہنی اور قلبی سکون دیگا کہ نجاتبخش خدا نے اسے اوریاہ کے سلسلے میں خون کے جرم سے چھڑا لیا تھا۔ پھر اسکی زبان خوشی سے اسکی اپنی نہیں بلکہ خدا کی صداقت کے گیت گا سکتی تھی۔ (واعظ ۷:۲۰، رومیوں ۳:۱۰) داؤد اپنی بداخلاقی کو مٹا نہ سکا یا اوریاہ کو قبر سے واپس لا نہ سکا، جیسے کہ جدید زمانے کا انسان کسی ایسے شخص کی پاکدامنی کو بحال نہیں کر سکتا جسے اس نے عصمت لٹانے پر آمادہ کیا یا کسی ایسے شخص کو زندہ نہیں کرسکتا جسے اس نے ہلاک کیا۔ جب ہم آزمائے جاتے ہیں تو کیا ہمیں اسکی بابت سوچنا نہیں چاہیے؟ اور راستی سے ہمارے لئے دکھائے گئے یہوواہ کے رحم کی ہمیں کتنی قدر کرنی چاہیے! درحقیقت، قدردانی کو ہمیں آمادہ کرنا چاہیے کہ دوسروں کی توجہ معافی اور راستبازی کے اس سرچشمے کی طرف دلائیں۔
۱۳. صرف کن حالات کے تحت ایک گنہگار یہوواہ کی ستایش کرنے کیلئے موزوں طور پر اپنے ہونٹوں کو کھول سکتا ہے؟
۱۳ کسی گنہگار کا یہوواہ کی ستایش کرنے کیلئے اپنے ہونٹوں کو کھولنا مناسب نہیں ہو سکتا جبتک کہ خدا رحمانہ طور پر انکو نہیں کھولتا، گویا اسکی سچائیوں کو بیان کرنے کیلئے۔ اسلئے داؤد نے گیت گایا: ”اے خداوند! میرے ہونٹوں کو کھول دے تو میرے مُنہ سے تیری ستائش نکلیگی۔“ (زبور ۵۱:۱۵) خدا کی طرف سے معافی کی بدولت اپنے ضمیر کی تسکین کیساتھ، داؤد خطاکاروں کو یہوواہ کی راہوں کی تعلیم دینے کیلئے تحریک پائیگا، اور وہ آزادی کیساتھ اسکی تعریف کر سکا تھا۔ وہ سب جن کے گناہوں کو معاف کر دیا گیا ہے جیسے کہ داؤد کو کر دیا گیا تھا انہیں اپنے لئے یہوواہ کے غیرمستحق فضل کی قدر کرنی چاہیے، اور انہیں خدا کی سچائی بیان کرنے اور ”اسکی بڑائی بیان کرنے“ کیلئے ہر موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔—زبور ۴۳:۳۔
خدا کے حضور قابلقبول قربانیاں
۱۴. (ا)عہد کی شریعت کی مطابقت میں کونسی قربانیاں درکار تھیں؟ (ب) یہ سوچنا کیوں غلط ہوگا کہ ہم لگاتار خطاکاری کی تلافی بعض نیک کام کرنے سے کر سکتے ہیں؟
۱۴ داؤد گہری بصیرت حاصل کر چکا تھا جس نے اس سے یہ کہلوایا: ”کیونکہ قربانی میں تیری [یہوواہ] خوشنودی نہیں ورنہ میں دیتا۔ سوختنی قربانی سے تجھے کچھ خوشی نہیں۔“ (زبور ۵۱:۱۶) شریعت کے عہد نے تقاضا کیا تھا کہ جانوروں کی قربانیاں خدا کیلئے پیش کی جائیں۔ لیکن داؤد کی زناکاری اور قتل کے گناہ، موت کی سزا کے مستحق تھے، جنکا ایسی قربانیوں کے ذریعے کفارہ ادا نہیں ہو سکتا تھا۔ ورنہ اس نے یہوواہ کو جانوروں کی قربانیاں پیش کرنے سے کوئی دریغ نہ کیا ہوتا۔ دلی توبہ کے بغیر قربانیاں بےوقعت ہیں۔ اسلئے یہ سوچنا غلط ہوگا کہ کچھ اچھے کام کرنے سے ہم مسلسل غلط کاری کرنے کی تلافی کر سکتے ہیں۔
۱۵. ایک شکستہ روح رکھنے والے مخصوصشدہ شخص کا میلان کیا ہوتا ہے؟
۱۵ داؤد نے مزید کہا: ”شکستہ روح خدا کی قربانی ہے۔ اے خدا تو شکستہ اور خستہ دل کو حقیر نہ جانیگا۔“ (زبور ۵۱:۱۷) ایک تائب گنہگار کے معاملے میں ”شکستہ روح خدا کی“ قابلقبول ”قربانی ہے۔“ ایسا شخص لڑاکا رویہ نہیں رکھتا۔ شکستہ روح رکھنے والے مخصوصشدہ شخص کا دل اپنے گناہ پر شدید رنجیدہ ہوتا ہے، خدا کی ناپسندیدگی کا احساس ہونے کی وجہ سے عاجز ہو جاتا ہے، اور الہٰی پسندیدگی حاصل کرنے کیلئے کچھ بھی کرنے کیلئے تیار ہوتا ہے۔ ہم خدا کو کوئی قابلقدر چیز پیش نہیں کر سکتے جبتک کہ ہم اپنے گناہوں سے توبہ نہیں کرتے اور بلاشرکت غیرےعقیدت میں اسے اپنے دل نہیں دیتے۔—ناحوم ۱:۲۔
۱۶. خدا اس شخص کو کیسا خیال کرتا ہے جو اپنے گناہ کی وجہ سے شکستہ دل ہے؟
۱۶ خدا شکستہ اور خستہ دل جیسی قربانیوں کو رد نہیں کرتا۔ اسلئے اسکے لوگوں کے طور پر کسی بھی مشکل کا سامنا کرنے کے باوجود، آئیں ہم مایوسی کے سامنے جھک نہ جائیں۔ اگر ہم نے کسی طریقے سے زندگی کی راہ میں ٹھوکر کھائی ہے جو ہمارے دل کو الہٰی رحم کیلئے پکار اٹھنے کیلئے آمادہ کرتی ہے تو بھی حالت مایوسکن نہیں ہے۔ اگرچہ ہم نے المناک طور پر بھی گناہ کیا ہے مگر تائب ہیں تو یہوواہ ہمارے شکستہ دل کو نہیں ٹھکرائے گا۔ وہ ہمیں مسیح کے فدیے کی قربانی کی بنیاد پر معاف کر دے گا اور ہمیں اپنی پسندیدگی میں بحال کریگا۔ (یسعیاہ ۵۷:۱۵، عبرانیوں ۴:۱۶، ۱-یوحنا ۲:۱) تاہم، داؤد کی طرح، ہماری دعاؤں کو ضروری ملامت یا اصلاح سے بچنے کیلئے نہیں بلکہ الہٰی پسندیدگی میں بحالی کیلئے ہونا چاہیے۔ خدا نے داؤد کو معاف کیا لیکن اس نے اسے سزا دے کر سدھارا بھی۔—۲-سموئیل ۱۲:۱۱-۱۴۔
پاک پرستش کیلئے فکرمندی
۱۷. خدا سے معافی کیلئے التجا کرنے کے علاوہ، گنہگاروں کو کیا کرنا چاہیے؟
۱۷ اگر ہم نے کوئی سنگین گناہ کیا ہے تو یقیناً یہ ہمیں شدید طور پر پریشان کریگا، اور ایک پشیمان دل ہمیں خدا سے معافی کیلئے التجا کرنے کی تحریک دیگا۔ تاہم، آئیے ہم دوسروں کیلئے بھی دعا کریں۔ اگرچہ داؤد نے پھر سے خدا کیلئے قابلقبول پرستش کرنے کی امید کی، تو بھی اسکے زبور نے خودغرضی سے دوسروں کو منظر سے باہر نہ رکھا۔ اس میں یہوواہ سے یہ التجا شامل ہے: ”اپنے کرم سے صیون کے ساتھ بھلائی کر۔ یروشلیم کی فصیل کو تعمیر کر۔“—زبور ۵۱:۱۸۔
۱۸. تائب داؤد نے صیون کیلئے دعا کیوں کی؟
۱۸ جیہاں، داؤد نے الہٰی پسندیدگی میں اپنی بحالی کی امید کی۔ تاہم، منکسر زبورنویس نے یہ بھی دعا کی کہ ”خدا اپنے کرم سے صیون کے ساتھ بھلائی کرے“ یعنی اسرائیل کے دارالسلطنت، یروشلیم کیساتھ، جہاں پر داؤد نے خدا کی ہیکل کو تعمیر کرنے کی امید کی تھی۔ داؤد کے سنگین گناہوں نے پوری قوم کو خطرے میں ڈال دیا تھا، کیونکہ سب لوگ بادشاہ کی خطاکاری کی وجہ سے تکلیف اٹھا سکتے تھے۔ (مقابلہ کریں ۲۔سموئیل، باب ۲۴۔) عملاً، اسکے گناہوں نے ”یروشلیم کی فصیل“ کو کمزور کر دیا، اسلئے اب انہیں دوبارہ تعمیر کرنے کی ضرورت تھی۔
۱۹. اگر ہم نے گناہ کیا ہے مگر معاف کر دئے گئے ہیں تو پھر کس چیز کیلئے دعا کرنا موزوں ہوگا؟
۱۹ اسلئے اگر ہم نے المناک طور پر گناہ کیا ہے مگر خدا سے معافی حاصل کر لی ہے، تو یہ دعا کرنا موزوں ہوگا کہ وہ کسی بھی طریقے سے کسی بھی ایسے نقصان کی تلافی کرے جو ہمارے چالچلن نے کیا ہے۔ ہم شاید اسکے مقدس نام پر ملامت لائے ہیں، شاید اندر ہی اندر کلیسیا کو کمزور کیا ہے، اور شاید اپنے خاندان پر رنجوالم لائے ہیں۔ ہمارا آسمانی باپ اپنے نام پر لائی گئی کسی بھی ملامت کو مٹا سکتا ہے، اپنی روحالقدس سے کلیسیا کو تعمیر کر سکتا ہے، اور ہمارے عزیزوں کے دلوں کو تسلی بخش سکتا ہے جو اس سے محبت رکھتے اور اسکی خدمت کرتے ہیں۔ خواہ گناہ کا معاملہ ہے یا نہیں، بلاشُبہ، یہوواہ کے نام کی تقدیس اور اسکے لوگوں کی بھلائی کیلئے ہمیں ہمیشہ فکر رکھنی چاہیے۔—متی ۶:۹۔
۲۰. کن حالات کے تحت یہوواہ اسرائیل کی قربانیوں اور نذروں سے خوش ہوگا؟
۲۰ اگر یہوواہ صیون کی فصیل کو دوبارہ تعمیر کرتا ہے تو اور کیا واقع ہوگا؟ داؤد نے گیت گایا: ”تب تو [یہوواہ] صداقت کی قربانیوں اور سوختنی قربانی اور پوری سوختنی قربانی سے خوش ہوگا اور وہ تیرے مذبح پر بچھڑے چڑھائینگے۔“ (زبور ۵۱:۱۹) داؤد نے سنجیدگی سے خواہش کی کہ وہ اور اسکی قوم یہوواہ کی خوشنودی سے استفادہ کریں تاکہ اسطرح اسکی پرستش قابلقبول طور پر کرنے کے قابل ہوں۔ تب یہوواہ انکی سوختنی قربانیوں اور پوری سوختنی قربانیوں سے خوش ہوگا۔ یہ اسلئے ہوگا کیونکہ یہ خدا کی خوشنودی سے لطف اٹھانے والے مخصوصشدہ، مخلص، اور تائب لوگوں کی طرف سے پیش کی جانیوالی صداقت کی قربانیاں ہونگی۔ یہوواہ کے رحم کیلئے احسانمندی کی وجہ سے، وہ اسکی قربانگاہ پر بچھڑے یعنی بہترین اور نہایت قیمتی قربانیاں پیش کرینگے۔ آجکل جو کچھ ہمارے پاس ہے اس میں سے یہوواہ کیلئے بہترین چیزیں لانے سے ہم اسکی عزت کرتے ہیں۔ اور ہماری پوری قربانیوں میں [”اپنے لبوں کے جوان بیل،“ NW] اپنے رحیم خدا، یہوواہ کیلئے حمد کی قربانیاں شامل ہیں۔—ہوسیع ۱۴:۲، عبرانیوں ۱۳:۱۵۔
یہوواہ ہماری التجاؤں کو سنتا ہے
۲۱، ۲۲. زبور ۵۱ میں ہمارے فائدے کیلئے کونسے اسباق پائے جاتے ہیں؟
۲۱ زبور ۵۱ میں داؤد کی دلی دعا ہم پر ظاہر کرتی ہے کہ ہمیں اپنے گناہ کیلئے حقیقی تائب روح کیساتھ جوابی عمل دکھانا چاہیے۔ اس زبور میں ہمارے فائدہ کیلئے غورطلب اسباق بھی پائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر ہم گناہ کرتے ہیں لیکن تائب ہیں تو ہم خدا کے رحم پر توکل کر سکتے ہیں۔ تاہم، آئیے ہم اولین طور پر کسی بھی ملامت کی بابت فکرمند ہوں جو شاید ہم یہوواہ کے نام پر لائے ہیں۔ (۱-۴ آیات) داؤد کی طرح، ہم اپنی موروثی گنہگارانہ حالت کی بنیاد پر اپنے آسمانی باپ سے رحم کیلئے التجا کر سکتے ہیں۔ (۵ آیت) ہمیں حقگو ہونا چاہیے، اور ہمیں خدا سے حکمت کے طالب ہونے کی ضرورت ہے۔ (۶ آیت) اگر ہم نے گناہ کیا ہے تو ہمیں یہوواہ سے پاکیزگی، ایک پاک دل، ایک مستقیم روح کیلئے التجا کرنی چاہیے۔—۷-۱۰ آیات۔
۲۲ زبور ۵۱ سے ہم یہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ہم خود کو گناہ میں سختگیر بننے کی اجازت نہ دیں۔ اگر ہم ایسا کرینگے تو یہوواہ اپنی روحالقدس، یا سرگرم قوت کو ہم سے الگ کر لیگا۔ تاہم، اپنے ساتھ خدا کی روح کو رکھتے ہوئے، ہم کامیابی کیساتھ دوسروں کو اسکی راہوں کی تعلیم دے سکتے ہیں۔ (۱۱-۱۳ آیات) اگر ہم خطا کرتے ہیں لیکن تائب ہیں تو یہوواہ ہمیں اجازت دیگا کہ اسکی ستائش کرتے رہیں کیونکہ وہ شکستہ اور خستہ دل کو کبھی حقیر نہیں جانتا۔ (۱۴-۱۷ آیات) یہ زبور مزید ظاہر کرتا ہے کہ ہماری دعاؤں کو صرف ہمارے اوپر ہی مرتکز نہیں ہونا چاہیے۔ اسکی بجائے، ہمیں ان سب کی روحانی بھلائی اور برکت کیلئے بھی دعا کرنی چاہیے جو یہوواہ کی پاک پرستش میں حصہ لیتے ہیں۔—۱۸، ۱۹ آیات۔
۲۳. زبور ۵۱ کو ہمیں دلیر اور رجائیتپسند بننے کیلئے کیوں متحرک کرنا چاہیے؟
۲۳ داؤد کے اس رقتانگیز زبور کو ہمیں دلیر اور رجائیتپسند بننے کی تحریک دینی چاہیے۔ یہ اس بات کو سمجھنے کیلئے ہماری مدد کرتا ہے کہ اگرچہ ہم گناہ سے ٹھوکر کھا کر گر گئے ہیں تو بھی ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت نہیں کہ کوئی امید باقی نہیں رہی۔ کیوں؟ کیونکہ اگر ہم تائب ہیں تو یہوواہ کا رحم ہم کو مایوسی سے بچا سکتا ہے۔ اگر ہم پشیمان ہیں اور پوری طرح سے اپنے شفیق آسمانی باپ کیلئے عقیدت رکھتے ہیں تو وہ رحم کیلئے ہماری التجا کو سنتا ہے۔ اور یہ جاننا کتنا تسلیبخش ہے کہ یہوواہ شکستہ دل کو حقیر نہیں جانتا! (۱۳ ۳/۱۵ w۹۳)
آپ کیسے جواب دینگے؟
▫ مسیحیوں کو پاک دل اور خدا کی پاک روح کی کیوں ضرورت ہے؟
▫ ایک تائب شخص یہوواہ کی شریعت کے خطاکاروں کو کیا سکھا سکتا ہے؟
▫ یہوواہ شکستہ اور خستہ دل کو کیسا خیال کرتا ہے؟
▫ زبور ۵۱ میں کیا اسباق پائے جاتے ہیں؟
[تصویر]
کیا آپ روحالقدس کیلئے دعا کرتے اور اسے رنجیدہ کرنے سے بچتے ہیں؟
[تصویر]
اسکی سچائی کو بیان کرنے سے یہوواہ کے غیرمستحق فضل کیلئے قدردانی دکھائیں