خدا کے گھر میں زیتون کا ہرا درخت
اسرائیل کی سرزمین پر ایک ایسا درخت اُگتا ہے جسے عملاً تلف نہیں کِیا جا سکتا۔ اگر اسے کاٹ بھی دیا جائے تو اسکی جڑ سے نئی کونپلیں نکل آتی ہیں۔ جب اسکا پھل پک جاتا ہے تو اسکے مالک کو اس سے باافراط تیل حاصل ہوتا ہے جسے کھاناپکانے، روشنی، صحتوصفائی اور کاسمیٹکس کیلئے استعمال کِیا جاتا ہے۔
قضاۃ کی کتاب میں درج ایک قدیم تمثیل کے مطابق ”ایک زمانہ میں درخت چلے کہ کسی کو مسح کرکے اپنا بادشاہ بنائیں۔“ جنگل کا کونسا درخت اُنکا پہلا انتخاب تھا؟ اُنہوں نے سختجان اور بکثرت پھل دینے والے زیتون کے درخت کو چُنا۔—قضاۃ ۹:۸۔
موسیٰ نبی نے ۳،۵۰۰ سال قبل، اسرائیل کو ’اچھا اور زیتون کا ملک‘ کہا تھا۔ (استثنا ۸:۷، ۸) آج بھی، شمالی کوہِحرمون کے دامن سے لیکر جنوبی بیرسبع کی مضافات تک جگہ جگہ زیتون کے جھنڈ نظر آتے ہیں۔ یہ ابھی تک شارون کے ساحلی میدانوں، سامریہ کے کوہساروں اور گلیل کی زرخیز وادیوں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔
بائبل مصنّفین نے زیتون کے درخت کو اکثر علامتی مفہوم میں استعمال کِیا۔ اس درخت کی خصوصیات خدا کے رحم، اُمیدِقیامت اور خوشحال خاندانی زندگی کی علامت سمجھی جاتی تھیں۔ زیتون کا قریبی مشاہدہ ان صحیفائی حوالہجات کو سمجھنے میں ہماری مدد کرنے کے علاوہ اس لاثانی درخت کیلئے ہماری قدردانی کو بڑھائیگا جو دیگر عجائباتِتخلیق کیساتھ ملکر اپنے خالق کی شان میں قصیدے پڑھتا ہے۔—زبور ۱۴۸:۷، ۹۔
زیتون کا بلدار درخت
پہلی نظر میں زیتون کا درخت بالکل اچھا نہیں لگتا۔ یہ لبنان کے پُروقار دیوداروں کی مانند فلکبوس نہیں ہوتا۔ اسکی لکڑی صنوبر کی لکڑی کی طرح قیمتی اور اسکی کلیاں بادام کے درخت کی کلیوں کی مانند خوشنما نہیں ہوتیں۔ (غزلالغزلات ۱:۱۷؛ عاموس ۲:۹) زیتون کے درخت کا اہمترین حصہ تو نظروں سے اوجھل—زیرِزمین—ہی رہتا ہے۔ اسکی وسیعوعریض جڑیں اُفقی طور پر سطحزمین سے ۲۰ فٹ یا اس سے بھی زیادہ نیچے جا سکتی ہیں جو درخت کے کثیر ثمر اور بقا کا لازمی عنصر ہے۔
ان جڑوں کے باعث چٹانوں پر اُگنے والے زیتون کے درخت خشکسالی کے باوجود سرسبزوشاداب رہتے ہیں جبکہ وادیوں میں اُگنے والے عام درخت پانی نہ ملنے کی وجہ سے سوکھ جاتے ہیں۔ اگرچہ اسکا بلدار تنا سوختنی لکڑی کے قابل دکھائی دے توبھی اپنی جڑوں کی بدولت یہ صدیوں تک پھل دیتا رہتا ہے۔ اس بلدار درخت کو اُگنے کے لئے کافی جگہ اور سانس لینے کے لئے ہواآمیز مٹی درکار ہوتی ہے جسکا نقصاندہ کیڑےمکوڑے پیدا کرنے والی جڑیبوٹیوں سے پاک ہونا بھی لازمی ہے۔ اگر ان معمولی تقاضوں کو پورا کِیا جاتا ہے تو ایک درخت سالبھر میں ۵۷ لٹر تیل پیدا کر سکتا ہے۔
بِلاشُبہ اسرائیلی زیتون کے درخت کو اسکے قیمتی تیل کی وجہ سے بہت پسند کرتے تھے۔ وہ اپنے گھروں کو زیتون کے تیل سے جلنے والے چراغوں سے روشن کرتے تھے۔ (احبار ۲۴:۲) زیتون کا تیل کھاناپکانے میں بھی جزوِلازم تھا۔ یہ جِلد کو دھوپ سے بچانے اور اسرائیلیوں کے نہانےدھونے کیلئے صابن کا کام بھی دیتا تھا۔ اناج، مے اور زیتون مُلک کی اہم فصلیں تھیں۔ زیتون کی فصل خراب ہو جانا اسرائیلی گھرانے کی تباہی کا پیشخیمہ ہوتا تھا۔—استثنا ۷:۱۳؛ حبقوق ۳:۱۷۔
تاہم، زیتون کے تیل کی پیداوار عموماً بہت زیادہ ہوتی تھی۔ موسیٰ نے ملکِموعود کو ’زیتون کا ملک‘ اسی لئے کہا تھا کیونکہ اس خطے میں سب سے زیادہ زیتون کاشت کِیا جاتا تھا۔ انیسویں صدی کا ایک ماہرِموجودات ایچ. بی. ٹرسٹرم بیان کرتا ہے کہ زیتون ”اس ملک کا امتیازی درخت“ تھا۔ اپنی قدروقیمت اور کثیر پیداوار کی وجہ سے، زیتون کو بحیرۂروم کے خطے میں کارآمد بینالاقوامی زرِمبادلہ کے طور پر بھی استعمال کِیا جاتا تھا۔ یسوع مسیح نے خود بھی ایک ایسے قرض کا ذکر کِیا جو ”سو من تیل“ کے برابر تھا۔—لوقا ۱۶:۵، ۶۔
”زیتون کے پودوں کی مانند“
زیتون کا درخت نہایت مفید ہونے کے علاوہ موزوں طور پر الہٰی برکات کی نمائندگی بھی کرتا ہے۔ ایک خداپرست انسان کیسے اجر پاتا ہے؟ زبورنویس نے بیان کِیا کہ ”تیری بیوی تیرے گھر کے اندر میوہدار تاک کی مانند ہوگی اور تیری اولاد تیرے دسترخوان پر زیتون کے پودوں کی مانند۔“ (زبور ۱۲۸:۳) ”زیتون کے پودوں“ سے کیا مُراد ہے اور زبورنویس انہیں اولاد سے کیوں تشبِیہ دیتا ہے؟
زیتون کے درخت کی ایک غیرمعمولی صفت یہ ہے کہ اسکی جڑوں سے نئی نئی شاخیں مسلسل نکلتی رہتی ہیں۔a جب زیادہ عمر ہو جانے کے باعث تنے سے پہلے جتنا پھل حاصل نہیں ہوتا تو کاشتکار نئی قلموں یا شاخوں کو اُس وقت تک بڑھنے دیتے ہیں جبتک یہ مکمل طور پر درخت کا حصہ نہیں بن جاتیں۔ کچھ وقت کے بعد، اصلی درخت کے گِرد تین یا چار نئے اور مضبوط تنے بن جاتے ہیں جو بالکل دسترخوان کے گِرداگِرد بیٹھی ہوئی اولاد کی مانند ہوتے ہیں۔ اِن نئی قلموں کی جڑیں وہی ہوتی ہیں اور یہ زیتون کے باافراط حاصل میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔
زیتون کے درخت کی یہ خاصیت موزوں طور پر اس بات کا عکس پیش کرتی ہے کہ روحانیت میں والدین کی مضبوط جڑوں کی بدولت اُنکی اولاد کسطرح ایمان میں مضبوط ہو سکتی ہے۔ اُنکی اولاد بھی زندگی کے سفر میں آگے بڑھنے کیساتھ ساتھ پھل پیدا کرتی اور اپنے والدین کی اعانت کرتی ہے جو اپنی اولاد کو شانہبشانہ یہوواہ کی خدمت کرتے ہوئے دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔—امثال ۱۵:۲۰۔
”درخت کی تو اُمید رہتی ہے“
ایک خداپرست عمررسیدہ باپ اپنی خداپرست اولاد سے خوش ہوتا ہے۔ جب یہ باپ ’اُسی راستے جاتا ہے جو سارے جہان کا ہے‘ تو یہی اولاد ماتم کرتی ہے۔ (۱-سلاطین ۲:۲) بائبل خاندان میں واقع ہونے والی ایسی المناک حالت سے نپٹنے میں مدد کرنے کیلئے قیامت کی اُمید پیش کرتی ہے۔—یوحنا ۵:۲۸، ۲۹؛ ۱۱:۲۵۔
ایوب جسکے بہت سارے بچے تھے، انسان کے قلیل عرصۂحیات سے واقف تھا۔ اُس نے اسکا موازنہ جلد مُرجھا جانے والے پھول کیساتھ کِیا۔ (ایوب ۱:۲؛ ۱۴:۱، ۲) ایوب اپنی تکلیف سے چھٹکارا پانے کیلئے مر جانا چاہتا تھا اور قبر کو چھپنے کی ایک ایسی جگہ سمجھتا تھا جہاں سے اُسکی واپسی ممکن تھی۔ ”اگر آدمی مر جائے تو کیا وہ پھر جئے گا؟“ ایوب استفسار کرتا ہے۔ پھر وہ یقینِکامل کیساتھ خود ہی اسکا جواب دیتا ہے: ”مَیں اپنی جنگ کے کُل ایّام میں منتظر رہتا جب تک میرا چھٹکارا نہ ہوتا۔ تُو [یہوواہ] مجھے پکارتا اور مَیں تجھے جواب دیتا۔ تجھے اپنے ہاتھوں کی صنعت کی طرف رغبت ہوتی۔“—ایوب ۱۴:۱۳-۱۵۔
ایوب اپنے اس یقین کا اظہار کیسے کرتا ہے کہ خدا اُسے پکاریگا اور وہ قبر سے نکل آئیگا؟ وہ ایک درخت کا ذکر کرتا ہے اور اُسکے اندازِبیان سے پتا چلتا ہے کہ وہ زیتون کا حوالہ دے رہا تھا۔ ایوب نے کہا: ”درخت کی تو اُمید رہتی ہے کہ اگر وہ کاٹا جائیگا تو پھر پھوٹ نکلے گا۔“ (ایوب ۱۴:۷) اگر زیتون کے درخت کو کاٹ بھی دیا جائے تو یہ مکمل طور پر نیست نہیں ہوتا۔ صرف جڑ سے اُکھاڑ دئے جانے کی صورت میں ہی یہ سوکھ جاتا ہے۔ اگر جڑیں بچ جاتی ہیں تو درخت پھر سے ہرابھرا ہو سکتا ہے۔
اگر زیتون کا کوئی پُرانا درخت طویل خشکسالی کی وجہ سے سوکھ بھی جائے تو اسکا سوکھا ہوا ٹنڈ پھر سے سرسبز ہو سکتا ہے۔ ”اگرچہ اُسکی جڑ زمین میں پُرانی ہو جائے اور اُسکا تنا مٹی میں گل جائے تو بھی پانی کی بُو پاتے ہی وہ شگوفے لائیگا اور پودے کی طرح شاخیں نکالیگا۔“ (ایوب ۱۴:۸، ۹) ایوب ایک خشک اور بنجر علاقے میں رہتا تھا جہاں اُس نے زیتون کے بیشتر سوکھے اور بےجان ٹنڈ دیکھے ہونگے۔ تاہم، بارش ہونے پر ایسا ”بےجان“ درخت بھی شگوفے لاتا ہوگا اور اسکی جڑوں سے تروتازہ ”پودے“ کی مانند ایک بالکل نیا تنا نکل آتا ہوگا۔ زیتون کی اپنی اصل حالت میں واپس آ جانے کی صلاحیت سے متاثر ہو کر ایک تیونسی ماہرِباغبانی نے بیان کِیا: ”یہ کہنا بجا ہوگا کہ زیتون کے درخت لافانی ہوتے ہیں۔“
اپنے زیتون کے درخت کو دوبارہ ہرابھرا دیکھنے کے خواہاں کسان کی طرح یہوواہ بھی اپنے وفادار خادموں کو قیامت بخشنے کی شدید خواہش رکھتا ہے۔ وہ ایسے وقت کا مشتاق ہے جب ابرہام اور سارہ، اضحاق اور ربقہ جیسے دیگر کئی وفادار اشخاص کو دوبارہ زندہ کِیا جائیگا۔ (متی ۲۲:۳۱، ۳۲) مُردوں کا خیرمقدم کرنا اور اُنہیں ازسرِنو بھرپور اور پھلدار زندگی بسر کرتے دیکھنا کتنی حیرانکُن بات ہوگی!
زیتون کا علامتی درخت
خدا کے غیرجانبدارانہ مؤقف اور قیامت کی اُمید فراہم کرنے سے اُسکا رحم ظاہر ہوتا ہے۔ پولس رسول نے زیتون کے درخت کی مثال استعمال کرتے ہوئے واضح کِیا کہ یہوواہ تمام نسلوں اور پسمنظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر رحم کرتا ہے۔ یہودیوں کو کئی صدیوں تک ’ابرہام کی نسل،‘ خدا کی برگزیدہ قوم ہونے کا اعزاز حاصل رہا۔—یوحنا ۸:۳۳؛ لوقا ۳:۸۔
الہٰی پسندیدگی حاصل کرنے کیلئے یہودی قوم میں پیدا ہونا لازمی نہیں تھا۔ تاہم، یسوع کے تمام ابتدائی شاگرد یہودی تھے اور اُنہیں ابرہام کی موعودہ نسل کو تشکیل دینے والے پہلے انسانوں کے طور پر خدا کے برگزیدے ٹھہرنے کا شرف حاصل ہوا۔ (پیدایش ۲۲:۱۸؛ گلتیوں ۳:۲۹) پولس نے ان یہودی شاگردوں کو زیتون کے علامتی درخت کی ڈالیاں کہا تھا۔
یسوع کو ردّ کرنے کی وجہ سے پیدائشی یہودیوں کی اکثریت مستقبل میں ”چھوٹے گلّے“ یا ”خدا کے اسرائیل“ کا رُکن بننے کا استحقاق کھو بیٹھی۔ (لوقا ۱۲:۳۲؛ گلتیوں ۶:۱۶) لہٰذا، وہ علامتی زیتون کی کٹی ہوئی شاخوں کی مانند تھے۔ کون اُنکی جگہ لینگے؟ غیرقوموں کو ۳۶ س.ع. میں ابرہام کی نسل میں شامل ہونے کیلئے منتخب کِیا جانے لگا۔ گویا یہوواہ نے جنگلی زیتون کی شاخوں کو کسی گلستان کے زیتون کے درخت میں پیوند کر دیا تھا۔ اس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ ابرہام کی موعودہ نسل میں غیرقوموں کے لوگ بھی شامل ہونگے۔ غیرقوم مسیحی اب ’زیتون کی روغندار جڑ میں شریک‘ ہو سکتے تھے۔—رومیوں ۱۱:۱۷۔
کسی بھی کسان کے نزدیک، جنگلی زیتون کی شاخ کو اچھے زیتون کے درخت میں پیوند کرنا بعیدازقیاس اور ”[فطرت] کے برخلاف“ ہوگا۔ (رومیوں ۱۱:۲۴) ایک کتاب دی لینڈ اینڈ دی بُک وضاحت کرتی ہے کہ ”عرب باشندوں کے مطابق اگر اچھے زیتون کو جنگلی زیتون میں پیوند کر دیا جائے تو یہ جنگلی کو بھی اچھا بنا دیتا ہے مگر جنگلی کو اچھے میں پیوند کرنے سے کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے۔“ اسی طرح جب یہوواہ نے ”پہلےپہل غیرقوموں پر . . . توجہ کی تاکہ اُن میں سے اپنے نام کی ایک اُمت بنا لے“ تو یہودی مسیحیوں کے لئے یہ کسی اچنبھے سے کم نہیں تھا۔ (اعمال ۱۰:۴۴-۴۸؛ ۱۵:۱۴) تاہم، یہ اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ خدا کے مقصد کی تکمیل کا دارومدار کسی ایک قوم پر نہیں تھا۔ ہرگز نہیں کیونکہ ”ہر قوم میں جو اُس سے ڈرتا اور راستبازی کرتا ہے وہ اُسکو پسند آتا ہے۔“—اعمال ۱۰:۳۵۔
پولس نے وضاحت کی کہ جیسے زیتون کے درخت کی بیوفا یہودی ”ڈالیاں“ کاٹ دی گئی تھیں ویسے ہی تکبّر اور حکمعدولی کی وجہ سے یہوواہ کی پسندیدگی کھو بیٹھنے والا ہر شخص اسی انجام کو پہنچ سکتا ہے۔ (رومیوں ۱۱:۱۹، ۲۰) اس سے یہ حقیقت کھل کر ہمارے سامنے آ جاتی ہے کہ ہمیں خدا کے غیرمستحق فضل کی کبھی بھی بےقدری نہیں کرنی چاہئے۔—۲-کرنتھیوں ۶:۱۔
تیل ملنا
صحائف میں زیتون کے تیل کے حقیقی اور علامتی استعمال کا ذکر کِیا گیا ہے۔ قدیم زمانہ میں، شفا کے عمل کو تیز کرنے کیلئے زخم اور چوٹ کو ’تیل سے نرم‘ کِیا جاتا تھا۔ (اعمال ۱:۶) یسوع نے اپنی ایک تمثیل میں بیان کِیا تھا کہ ہمسایہصفت سامری یریحو کے راستے میں ادھمؤا پڑے ہوئے ایک آدمی کے زخموں پر زیتون کا تیل اور مے لگاتا ہے۔—لوقا ۱۰:۳۴۔
کسی کے سر پر زیتون کا تیل ملنا تازگیبخش اور سکونبخش ہوتا ہے۔ (زبور ۱۴۱:۵) علاوہازیں، روحانی بیماری میں افاقے کیلئے مسیحی بزرگ ’یہوواہ کے نام سے کلیسیا کے کسی رُکن کو تیل مل‘ سکتے ہیں۔ (یعقوب ۵:۱۴) روحانی طور پر بیمار ساتھی ایماندار کے حق میں بزرگوں کی مشفقانہ صحیفائی مشورت اور مخلص دُعائیں تسکینبخش زیتون کے تیل کی مانند ہوتی ہیں۔ دلچسپی کی بات ہے کہ محاوراتی عبرانی میں ایک شریفالنفس شخص کو ”زیتون کے خالص“ تیل سے تشبِیہ دی گئی ہے۔
خدا کے گھر میں زیتون کا ہرا درخت
مذکورہبالا نکات کی روشنی میں خدا کے خادموں کو زیتون کے درخت کے مشابہ ٹھہرانے میں کوئی حیرانی نہیں ہونی چاہئے۔ داؤد ”خدا کے گھر میں زیتون کے ہرے درخت کی مانند“ بننا چاہتا تھا۔ (زبور ۵۲:۸) جسطرح اسرائیلی گھروں کے آسپاس زیتون کے درخت لگائے جاتے تھے اُسی طرح داؤد نے بھی یہوواہ کی قربت حاصل کرنے اور خدا کی حمد کے پھل پیدا کرنے کی خواہش کا اظہار کِیا۔—زبور ۵۲:۹۔
یہوواہ کی وفادار رہنے کی صورت میں یہوداہ کی دو قبائلی سلطنت ”خوش میوہ [ہرے] زیتون“ کی مانند تھی۔ (یرمیاہ ۱۱:۱۵، ۱۶) تاہم، جب یہوداہ کے لوگوں نے ’یہوواہ کی فرمانبرداری کرنے سے انکار کرکے غیرمعبودوں کی پیروی کرنا شروع‘ کر دی تو یہ استحقاق اُنکے ہاتھ سے جاتا رہا۔—یرمیاہ ۱۱:۱۰۔
خدا کے گھر میں زیتون کا ہرا درخت بننے کیلئے ہم پر یہوواہ کی تابعداری اور اُسکی تنبیہ کو قبول کرنا لازم ہے جس سے وہ ہمیں کثرت سے مسیحی پھل پیدا کرنے کیلئے ”چھانٹتا“ ہے۔ (عبرانیوں ۱۲:۵، ۶) علاوہازیں، جسطرح زیتون کے حقیقی درخت کو خشکسالی سے بچنے کیلئے وسیعوعریض جڑوں کی ضرورت ہوتی ہے اُسی طرح ہمیں آزمائشوں اور اذیت کو برداشت کرنے کیلئے اپنی روحانی جڑوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔—متی ۱۳:۲۱؛ کلسیوں ۲:۶، ۷۔
زیتون کا درخت وفادار مسیحی کی خوب نمائندگی کرتا ہے جو دُنیا کی نظر میں تو حقیر مگر خدا کی نظر میں عظیم ہوتا ہے۔ ایسا شخص اس جہان میں موت کی آغوش میں سو جانے کے باوجود نئی دُنیا میں دوبارہ زندہ ہوگا۔—۲-کرنتھیوں ۶:۹؛ ۲-پطرس ۳:۱۳۔
سالہاسال پھل دینے والا زیتون کا ناقابلِتلف درخت ہمیں خدا کا یہ وعدہ یاد دلاتا ہے: ”میرے بندوں کے ایّام درخت کے ایّام کی مانند ہونگے اور میرے برگزیدے اپنے ہاتھوں کے کام سے مدتوں تک فائدہ اُٹھائینگے۔“ (یسعیاہ ۶۵:۲۲) یہ نبوّتی وعدہ خدا کے نئے نظام میں شاندار تکمیل کو پہنچے گا۔—۲-پطرس ۳:۱۳۔
[فٹنوٹ]
a عموماً اِن نئی شاخوں کو ہر سال تراشا جاتا ہے تاکہ یہ درخت کی ساری قوت جذب نہ کر لیں۔
[صفحہ ۲۵ پر تصویر]
سپین کے صوبے الاکنتے میں جیویا کے مقام پر ملنے والا پُرانے زمانے کا بلدار تنا
[صفحہ ۲۶ پر تصویریں]
سپین کے صوبے گریناڈا میں زیتون کے جھنڈ
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
یروشیلم کی فصیل کے باہر زیتون کا ایک پُرانا درخت
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
بائبل زیتون کے درخت کی شاخوں میں پیوندکاری کا ذکر کرتی ہے
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
نئی قلموں کے بیچ زیتون کا ایک قدیم درخت